Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

فسادات اور ہمارا ادب

محمد حسن عسکری

فسادات اور ہمارا ادب

محمد حسن عسکری

MORE BYمحمد حسن عسکری

    ۴۷ء کے فسادات مسلمانوں کے لئے ایک بہت بڑا قومی حادثہ ہیں، جس کے اثرات ہم میں سے ہر آدمی کی زندگی پر پڑے ہیں، کسی کی زندگی پر کم کسی کی زندگی پر زیادہ مگر پڑ ے ضرور ہیں۔ غالبا ایسے واقعات دنیا کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوئے۔ چونکہ بات اتنے قریب کی تھی اس لئے بہت سے ادیبوں نے فسادات کے متعلق فرض کے طور پر لکھا۔ چندنے دل پرچوٹ کھا کر لکھا۔ بہرحال اس دس گیارہ مہینے کے عرصہ میں اس موضوع کے متعلق بہت سے افسانے اور نظمیں ہمارے سامنے آچکی ہیں۔ کچھ پڑھنے والے ان افسانوں سے مطمئن ہیں بعض لوگوں کو شکایت ہے کہ ہمارے ادیبوں نے مسلمانوں کے نقطہ نظر سے تجاہل برتا ہے۔ بعض لوگوں کی خواہش ہے کہ ادیب کوئی واضح نقطہ نظر اختیار ہی نہ کریں۔ بس انسانیت کے شاندار مستقبل سے لو لگائے رہیں۔

    خیر لوگوں کی پسند اور ناپسند تو چلتی ہی رہتی ہے مگر جو سوال اصل میں پوچھنے کا تھا وہ ابھی تک کسی نے نہیں پوچھا، یعنی ایسے واقعات انسانیت کی یا کسی قوم کی تاریخ میں کتنی ہی اہمیت کیوں نہ رکھتے ہوں، خواہ صدیوں آگے کی زندگی ان کے زیر اثر صورت پذیر ہونے والی ہو، خواہ ان واقعات نے کسی کو انسانی فطرت یا بڑے بڑے مسائل کے متعلق تفکر پر اکسایا ہو یا کسی فلسفی کو چند فکری نتائج تک پہنچنے میں مدد دی ہو مگر کیا یہ واقعات بنفسہ اور محض واقعات کی حیثیت سے ادب کا موضوع بن سکتے ہیں؟ ایسے سوالات کا جواب سوچتے ہوئے ہمیں اپنی ذاتی یا قومی مصیبتوں کو تھوڑی دیر کے لئے بھول جانا چاہئے کم از کم دوچار لمحے دل پر پتھر رکھ لینا چاہئے کیونکہ ادب تو فی الحقیقت بڑا سنگ دل ہوتا ہے۔ انسان کی تاریخ تو پچیس تیس ہزار سال پرانی ہے۔

    خدا جانے کیا کیا ہو چکا ہے اور کیا کیا ہونے والا ہے۔ ادب آخر کس کس فرد اور کس کس گروہ کے جذبات کا احترام کرے؟ اگر ہمیں اپنے سوال کا کوئی تسلی بخش جواب ڈھونڈنا ہے تو اپنی مظلومیت کے احساس کو تھوڑی دیر کے لئے خیرباد کہہ دینا چاہئے۔

    ایک آسانی ہم اپنے لئے پیدا کر سکتے ہیں۔ وہ یہ کہ کوئی ایسا ہی زبردست واقعہ لیں اور دیکھیں کہ ادب اس کے متعلق کیا کہتا ہے؟ ۴۷ء کی جنگ نے بہت سارا ادب پیدا کیا۔ لیکن آج اس میں کتنا ادب واقعی زندہ ہے۔ ڈبلیو بی ییٹس نے تو پہلی جنگ عظیم کے بارے میں ایک سچے ادیب کی سفاکی اور سنگ دلی سے کام لیتے ہوئے صاف کہہ دیا تھا کہ میں نے اپنے نئی شاعری کے مجموعے میں جنگ سے متعلق کوئی نظم نہیں شامل کی۔ کیونکہ محض انفعالی تکلیف ادب کا موضوع نہیں ہوتی۔

    یہاں یہ بات یاد رکھنے کے لائق ہے کہ جنگ کے متعلق شاعری کرنے والے ایک شاعر نے کہا تھا کہ میری ساری شاعری تو تکلیف ہی میں ہے۔

    بات یہ ہے کہ ادب تو جذباتی تجربوں کے بارے میں ہوتا ہے اور انفعالیت کوئی تجربہ نہیں ہے احساس ضرور ہے۔ اگر فسادات کے معنی قتل وغارت گری یا جسمانی تکالیف کے لئے جائیں تو یہ فیصلہ ناگزیر ہے کہ فسادات ادب کا موضوع بن ہی نہیں سکتے۔ خواہ دلی تعلق کی بنا پر ہمیں کتنا ہی رونا کیوں نہ آتا ہو، قومی حادثات اور ایک پورے گروہ کے جسمانی مصائب کے بارے میں بڑے سے بڑا ادب جو ہمیں مل سکتا ہے وہ عہدنامہ عتیق کے بعض حصے ہیں۔ لیکن ان تحریروں کے ادب بن جانے کی وجہ یہ نہیں ہے کہ ان میں یہودی قوم کے سیکڑوں افراد کے قتل وغارت اورعورتوں کی بے حرمتی اور پوری قوم کی جلاوطنی کا رونا رویا گیا ہے۔ جو چیز انہیں ادب بناتی ہے وہ اور ہی کچھ ہے۔

    یہودیوں کا عقیدہ تھا کہ ہماری قوم خدا کی محبوب ہے اور ہم پر خدا کی خاص عنات ہے مگر دشمنوں کے ہاتھوں ان پر گزری یہ کچھ، عقیدے اور حقیقت کے اس تضاد نے یہودیوں کو سخت روحانی ایذا پہنچائی اور ان کے اندر شک اور یقین، امید اور مایوسی، خوف اور بے باکی، بغاوت اور وفاداری کی باہم آویزش ہونے لگی۔ یہودی قوم کا یہ پیچیدہ روحانی تجربہ تھا جس نے عبرانی پیغمبروں کی آہ و فغاں کو بلندترین ادب کا مرتبہ دیا۔ چنانچہ ان کتابوں کا موضوع قومی مصیبت نہیں ہے بلکہ اجتماعی تجربہ ہے۔

    مگر اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ اگر ایسے حادثات ادب کا موضوع نہ ہوں تو ان پر ادیبوں کو لکھنا ہی نہ چاہئے، ادیب ہروقت ہی تو پیدا نہیں کرتے رہتے ان کی ذمہ داریاں دو قسم کی ہوتی ہیں ایک تو ادیب کی حیثیت سے دوسری ایک جماعت کے فرد کی حیثیت سے۔ اس میں شک نہیں کہ ادیب کی پہلی ذمہ داری اس کی اولین ذمہ داری ہے۔ مگر بعض موقعے ایسے بھی آتے ہیں کہ جب ادیب کے لئے اپنے دوسرے درجہ کی ذمہ داریاں پورا کرنا ہی واجب ہو جاتا ہے اور یہ ذمہ داریاں پہلی ذمہ داریوں کے منافی بھی نہیں ہوتیں۔

    اسے سمجھنے کے لئے بھی ہمیں دوسری جنگ عظیم کے دوران میں مختلف ملکوں کے ادیبوں کے رویے پرغور کرنا چاہئے۔ روس میں تو ادیبوں نے اپنی ثانوی ذمہ داریوں کو اس جوش و خروش کے ساتھ پورا کرنا شروع کیا کہ ادبی ذمہ داریوں کو بالکل ہی بھول گئے۔ بلکہ ثانوی اہمیت رکھنے والی تحریروں کو ادب کا درجہ دے دیا۔ جنگ کے دوران میں روسی ادیب کا فرض منصبی یہ قرار پایا کہ وہ اپنی قوم، اس کے سپاہیوں اور ان کے کردار کی تعریف کرے اور جرمنوں کو ہر لحاظ سے قابل نفرت دکھائے۔ مانا کہ روسی قوم پر بڑی مصیبت آئی تھی اور ادیبوں نے اپنی قوم کی جتنی بھی خدمت کی وہ ٹھیک کی، مگر اپنے اصلی فرائض کو بھلا دینا اور کسی ثانوی مقصد کا غلام بن کے رہ جانا (خواہ وہ مقصد کتنا ہی بلند سہی) ادیب کو زیب نہیں دیتا۔

    ویسے بھی اگر ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان کا ادب بلندترین اسلامی آدرشوں کا حامل ہو تو یہ صورت حال ہمارے لئے پسندیدہ نہیں ہوگی۔ مسلمانوں کو یہ ہدایت کی گئی ہے کہ اگر تمہیں اپنے خلاف بھی شہادت دینی پڑے تونہ ہچکچاؤ۔ ایسا ادب جس میں بس مسلمانوں کی تعریف ہی تعریف کی گئی ہو اسلامی نقطہ نظر سے بھی قابل قبول نہیں ہو سکتا۔ غرض کہ روسی ادیبوں کی مثال ہماری رہبری کے لئے قطعی ناکافی، بلکہ گمراہ کن ہے۔

    دوسری مثال انگریز ادیبوں کی ہے۔ چونکہ جنگ کے دوران میں بھرتی لازمی ہوگئی تھی۔ اس لئے کسی ادیب کو ہوائی جہاز چلانا پڑا، کسی کو آگ بجھانے والوں میں شامل کرنا پڑا اور شاید انہوں نے یہ کام خوشی خوشی انجام دیئے اور پوری فرض شناسی کے ساتھ۔ لیکن جہاں تک میں جانتا ہوں کہ کسی معقول ادب نے قلم کے ذریعہ قوم کی کوئی خدمت نہیں کی۔ ممکن ہے اس کی وجہ یہ ہو کہ جرمن انگلستان کی زمین پر قدم نہیں رکھ سکے اور انگریزوں کو وہ ذلت نہیں اٹھانا پڑی جو روس کے بعض علاقوں اور فرانس کے حصے میں آئی۔ اگر یہ دن آتا تو یقین ہے کہ انگریز ادیب اپنے ملک کی مدافعت کی خاطر بہت کچھ لکھتے۔ بہرحال جنگ کا ادیبوں پر جو رد عمل ہوا وہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی کو بڑا خالی خالی محسوس کیا۔ نہ پھول رہے تھے نہ چڑیاں۔ عزیز اقربا بچھڑ گئے تھے جنگ کی وجہ سے ذاتی آزادی میں بڑی کمی آگئی تھی۔ ان سب ذہنی اور شخصی آسائشوں کے غائب ہو جانے سے انہیں بڑی تکلیف ہوئی اور انہوں نے بھری پری زندگی کے سوگ میں رونا بسورنا شروع کر دیا۔

    فی الجملہ انگریز ادیبوں کا رویہ بڑا انفعالی قسم کا رہا اور اس رد عمل کی بنیادوں پر کسی جاندار ادب کی تعمیر نہیں ہو سکتی۔ محض جھلاہٹ، محض بدمزگی کا احساس۔ محض بےاطمینانی ادب کے لئے زیادہ دیر تک کام نہیں دیتی۔ اس سے زیادہ کارآمد تو شدید اور جنوبی قسم کی نفرت ہی ہوتی، یہ تو قابل تعریف بات ہے کہ عملا قومی خدمت کرتے ہوئے بھی انہوں نے اپنی ادبی حیثیت کو فراموش نہیں کیا۔ مگر جس قسم کا ذہنی اورجذباتی تجربہ انہیں حاصل ہوا وہ ادبی اعتبار سے بہت زیادہ قابل وقعت نہیں تھا۔

    قوم کی خدمت کرتے ہوئے بھی وہ یہ سوچتے رہے کہ آج تو قوم ہم سے کام لے رہی ہے خدا جانے کل ہمارے اوپر کیا پابندیاں لگائے۔ان کے اس رویے سے کچھ ایسا ظاہر ہوتا ہے جیسے انہیں اپنی ادبی شخصیت پر پورایقین اور اعتبار نہ ہو۔ قومی خدمت کرتے ہوئے انہیں یہ سوچنا ہی نہ چاہئےتھا کہ آگے چل کر ہمارے ساتھ کیا سلوک ہوگا۔ اگر لڑائی کے بعد قوم ادیبوں پر پابندیاں عائد کرتی یا اس کا خدشہ ہوتا تو انہیں یہ فیصلہ کر لینا چاہئے تھا کہ ایسی صورت میں ہم قوم کے خلاف بھی اتنی ہی تند ہی سے جدوجہد کریں گے، کم از کم ادیبوں کو تو ادب کی اہمیت کا اتنا محکم یقین ہونا چاہئےتھا کہ وہ نتیجے کی پروا کئے بغیر اس کی مدافعت کر سکیں گے مگر انگریز ادیبوں نے لڑے بغیر ہی ہار مان لی اور یہ فرض کر لیا کہ اگر قوم نے سخت گیری برتی توہم بے دست و پا ہو کے رہ جائیں گے۔

    اس کے برخلاف فرانسیسی ادیبوں کا رویہ بڑا متوازن اور باوقار رہا۔ انہوں نے اپنی ایک بھی حیثیت کو دوسری پر قربان نہیں ہونے دیا۔ بات یہ ہے کہ انہوں نے اپنی ان دو حیثیتوں کو گڈمڈ نہیں کیا۔ بلکہ دونوں کا فرق بہت واضح طور پر اپنے ذہن میں قائم رکھا۔ یہ ٹھیک ہے کہ دو ایک بڑے ادیب جنگ شروع ہوتے ہی فرانس چھوڑ کر چلے گئے کہ ہمارا کوئی ملک نہیں ہے۔ نہ ہم فرانس کی طرف ہیں نہ جرمنی کی طرف، لیکن سنجیدہ ادیبوں نے ان کی نیت پر شک نہیں کیا، انہیں بزدل نہیں سمجھا۔ غدارنہیں سمجھا بلکہ برابر ان کا احترام کرتے رہے، ان کے علاوہ باقی تمام ادیبوں نے ہرممکن طریقہ سے جرمنوں کی مخالفت کی، لوگوں کو بغاوت پر ابھارا غرض کہ اس نازک موقع پر قوم کی جو خدمت بھی ان سے ہو سکتی تھی، مگر کم سے کم بڑے ادیبوں نے ایک لمحہ کے لئے بھی یہ گوارا نہیں کیا کہ قوم کی محبت کے جوش میں آکر ان خیالات سے ان اقدار سے غداری کریں جنہیں عمر بھر پوجتے چلے آئے تھے، یا قومی خدمت کرنے کے بعد اپنے آپ کو ادبی ذمہ داریوں سے آزاد سمجھیں یا جو چیزیں محض قوم کا جذبہ آزادی پیدا کرنے کے لئے لکھی تھیں انہیں ادب کا رتبہ دیں۔

    فرانسیسی ادیبوں کے ذہنی توازن کاعالم اس چھوٹے سے واقعہ سے ظاہر ہوگا کہ کچھ ادیبوں نے جرمنوں کی مخالفت کے لئے اور ادبی سرگرمی کو اس پرآشوب زمانے میں بھی جاری رکھنے کے لئے خفیہ طور سے کتابوں کا ایک سلسلہ شروع کیا تھا جس کا نام تھا، ’’اے دی سیوں و منوئی۔‘‘ یعنی آدھی رات کو چھپنے والی کتابوں کا سلسلہ، جب فرانس آزاد ہوا تو ان ادیبوں کو ایک بہت بڑا ادبی انعام دیا گیا، مگر ان لوگوں نے انعام قبول کرنے سے انکار کردیا اور کہا ہم لوگوں نے جو کچھ لکھا ہے یہ تو صرف قومی خدمت کے سلسلے میں لکھا ہے یہ توسرے سے ادب ہی نہیں اور نہ ہم نے اسے ادب سمجھ کر لکھا تھا، پھر ہم ایک ادبی انعام کیسے قبول کریں؟

    اس جنگ کے دوران میں ایسے ایسے فرانسیسی ادیبوں نے پروپیگنڈے کی چیزیں لکھی ہیں جنہیں سیاسی معاملات سے بالکل بے تعلق اور خالص ادب کا شیدائی سمجھا جاتا تھا۔ آندرے ژید جیسا ادیب جو سچ بولنے کے معاملہ میں کبھی مصلحت کو خاطر ہی میں نہیں لایا اور جس نے ہمیشہ بھیڑ بھڑ کے پر اپنے کنج تنہائی کو ترجیح دی وہ آزادی کے جذبےسے بے قرار ہو کر اپنے کونے سے باہر نکل آیا، مگر ساتھ ہی جرمنوں کی تعریف بھی کرتا رہا۔ غرض کہ جنگ کے دوران میں فرانسیسی ادیب آزادی کی لڑائی میں دل و جان سے شامل رہے مگر لڑائی ختم ہوتے ہی وہ پھر سیاسیات سے الگ ہوگئے اور جو کچھ جنگ سے پہلے کرتے تھے وہ کرنے لگے۔ جب ملک کی موت و حیات کا سوال تھا تو انہوں نے ادب کو قومی فرض کے راستے میں حائل نہیں ہونے دیا۔ جب وہ نازک وقت نکل گیا تو پھر انہوں نے کسی قسم کی سیاست کو ادب کے گلے پرچھری نہیں پھیرنے دی اور آج بھی جب دنیا بھر کے ادیب یہ کہتے ہیں کہ اب کیا لکھیں کیا نہ لکھیں۔ کون جانے کل ایٹم بم سے دنیا ختم ہی ہو جائے تو فرانسیسی بڑی بے فکری سے اپنے تخلیقی کام میں مصروف ہیں جیسے لافانی ہوں۔

    ان تینوں قسم کے ادیبوں کے ردعمل پر غور کرنے کے بعد کم سے کم مجھے تو فرانسیسی ادیبوں کا رویہ پسند آتا ہے۔ قومی حادثوں کے مقابلے میں سچے ادیب کا رویہ اس کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے۔ جب قوم کی موت اور زندگی کا سوال در پیش ہو تو ادیب کا رد عمل وہی ہوتا ہے جو ایک تانگے والے کا! ایسے وقت قوم دونوں سے خدمت لے سکتی ہے اور دونوں میں سے کسی کو بھی بے تعلق نہیں ہو جانا چاہئے۔ عام حالات میں ادیب سوائے اپنے ادب کے اور کسی کام نہیں ہوتا۔ کوئی بڑی سے بڑی طاقت بھی اس سے وفاداری کا مطالبہ نہیں کر سکتی۔ بہر حال ادیب کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ اسے کس وقت کس حیثیت سے عمل کرنا ہے۔ شہری کی حیثیت سے یا ادیب کی حیثیت سے۔

    افسوس ہے کہ ہمارے یہاں اردو میں یہی بات صاف طور سے نہیں سمجھی جاتی۔ ہماری تنقید ادیب کی ان دونوں شخصیتوں کو ایک دوسرے میں الجھاتی رہتی ہے۔ جب ادیبوں سے یہ مطالبہ ہوتا ہے کہ فسادات پر لکھو تو یہ بات بالکل واضح نہیں کی جاتی کہ ادیب کی کون سی شخصیت فسادات پر لکھے۔ ادیب والی یا عام شہری والی۔ ادیب والی شخصیت تو فسادات پر لکھ ہی نہیں سکتی۔ کیونکہ فساد ادب کا موضوع نہیں ہیں۔ البتہ شہری والی شخصیت فسادات پر افسانے لکھ سکتی ہے۔ مگر اس صورت میں اس کا ایک مخصوص نقطہ نظر ہوگا جو سراسرغیر ادبی ہوگا۔ ایسی صورت میں ادیب کوئی سیاسی یا عمرانی نظریہ اختیار کرے گا اور اپنے افسانے میں اس کی حمایت کرے گا۔ یہ کوئی بری بات نہیں ہے۔ میں تسلیم کر چکا ہوں کہ بعض نازک موقعوں پر ادیب کو غیر ادبی قسم کی خدمت بھی انجام دینی چاہئے۔ مگر خرابی یہ ہے کہ جن لوگوں نے فسادات پر افسانے لکھے ہیں انہیں اصرار ہے کہ ہمارا نقطہ نظر ادبی ہے۔ حالانکہ اگر انہوں نے کسی بلند جذبے سے مجبور ہوکے کوئی مخصوص نقطہ نظر اختیار کیا ہے تو اس کا اعتراف کر لینے میں شرمانے کی ضرورت نہیں ہے۔

    اچھا اب یہ دیکھیں کہ اردو میں جو افسانے فسادات کے متعلق لکھے گئے ہیں ان میں کیا سیاسی یا عمرانی نقطہ نظر اختیار کیا گیا ہے؟ اس کی اچھائی برائی جانچنے میں ہمارا معیار یہ ہوگا کہ یہ مخصوص نقطہ نظر اختیار کرنے کی وجہ سے لکھنے والے کو حقیقت کو تو مسخ نہیں کرنا پڑا۔ اور جو کچھ وہ کہہ رہا ہے اس پر اسے خود بھی یقین ہے یا نہیں۔ کیونکہ ادیب چاہے غیرادبی مقاصد کے ماتحت لکھے تب بھی سچ بولنے کی ذمہ داری سے تو آزاد نہیں ہوتا۔ ادیب کی قومی خدمت یہ نہیں ہوتی کہ وہ جھوٹ سچ ہر طرح اپنی قوم کی حمایت کئے چلا جائے۔ اس کی خدمت تو بس یہی ہے کہ اس کی قوم کو کوئی سخت مرحلہ درپیش ہو اور اسے اپنی قوم کی سچائی کا یقین ہو تو وہ اپنی تحریروں سے عوام میں یقین اور اعتماد پیدا کرنے کی کوشش کرے۔ ادیب خواہ کوئی بھی نقطہ نظر پیش کرے سچ اسے ہر حال میں بولنا ہی پڑے گا۔ اسی معیار سے ہم ان فسادات والے افسانوں کو بھی جانچیں گے۔

    اب تک اردو میں فسادات پر جو افسانے لکھے گئے ہیں ان میں اکثر و بیشتر چند مخصوص خیالات کی حمایت کے لئے لکھے گئے ہیں۔ ان افسانوں کا بنیادی خیال یہ ہے کہ ان فسادات میں جس بہیمیت کا اظہار ہوا ہے وہ بہت بری چیز ہے۔ یہ افسانے اس بہیمیت کے خلاف نفرت پیدا کرنا چاہتے ہیں اور ساتھ ہی اس کی وجہ بھی ڈھونڈتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ ایسی بربریت عام طور سے انسانوں میں نہیں ہوتی۔ یہ تو سیاسی فائدے کے لئے پیدا کی گئی ہے۔

    انگریزوں کی ایک چال ہندوستان کی تقسیم ہے۔ اگر تقسیم نہ ہوئی ہوتی تو فسادات بھی نہ ہوئے ہوتے اور ہندومسلمان بھائیوں کی طرح رہتے۔ امید ہے کہ یہ نفرت جلد غائب ہو جائے گی اور بھائی بھائی پھر گلے مل جائیں گے۔ بعض افسانہ نگار سمجھتے ہیں کہ ہندوستان اور پاکستان پھر ایک ہو جائیں گے۔ چنانچہ ان افسانوں میں کوشش کی جاتی ہے کہ الزام دونوں میں سے کسی کو بھی نہ دیا جائے۔ بلکہ انگریز کو ملزم گردانا جائے۔ لہٰذا مظالم دونوں طرف یکساں دکھائے جاتے ہیں۔ اس کا لحاظ نہیں کیا جاتا کہ مشرقی پنچا ب میں جو کچھ ہوا ہے اسے بیان کرنے کے لئے تواب لغت میں کوئی لفظ ملتا ہی نہیں۔

    غرض یہ ہے ان افسانوں کا ذہنی پس منظر۔ اول تو یہ نظریاتی تانا بانا ایسا بودا ہے کہ خود لکھنے والوں کوبھی اس پر یقین مشکل ہی سے ہوگا۔ نفرت کو محض انگریزوں کی سیاست کا شاخسانہ سمجھنا یا تو کسی سادہ لوح سے ممکن ہے یا کسی حیلہ ساز سے۔ فرض کیا کہ لکھنے والوں کی نیت نیک ہے، مگر جو باتیں وہ پیش کرتے ہیں ان پر خود انہیں یقین نہیں۔ اور وہ جانتے ہیں کہ ہم یہ باتیں کرکے اپنے آپ کو بھی دھوکہ دے رہے ہیں اور دوسروں کو بھی۔ چنانچہ یہ سارا ادب بالکل بے خلوص، بے جان اور کھوکھلا ہے۔ اس میں پر زور خطابت بھی تو نہیں ملتی، کیونکہ سارا نظریاتی ڈھانچہ ہی مصنوعی ہے۔ یہ افسانے محض مصنوعی ہی نہیں ہیں، ان کا ایک خطرناک پہلو بھی ہے۔ ان میں مسلمانوں اور پاکستان کے خلاف بڑا زہریلا پروپیگنڈہ ملتا ہے۔ ممکن ہے کہ یہ سب باتیں بالکل انجان پنے میں اور معصومیت کی وجہ سے کی جاتی ہوں مگر ان کا مجموعی اثر مسلمانوں کے خلاف ہے۔ اول تو فسادات کی زیادہ ذمہ داری مسلمانوں کے سر رکھی جاتی ہے۔ دوسرے تقسیم کو بس کی گانٹھ بتایا جاتا ہے، حالانکہ تقسیم یعنی پاکستان کا قیام مسلمانوں کاعزیز ترین سیاسی آدرش رہا ہے۔ ان افسانوں میں کوشش ہوتی ہے کہ مسلمانوں کو پاکستان کے بنیادی اصول سے بدظن کیا جائے۔

    ہمارے ادیبوں کی طرف سے (یعنی جو ادیب پاکستان کے حامی ہیں) اس ادبی، حملے کا جواب دینے کی کوئی معقول کوشش نہیں ہوئی ہے۔ آخر تھوڑی بہت قومی خدمت وقتا فوقتا ہمیں بھی کر لینی چاہئے۔ مگراس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ ہم ہندوستان کے خلاف تعصب پھیلائیں یا کسی کو بدنام کریں۔ یہ کام تو اوروں ہی کو مبارک رہے۔ ہمیں اپنے سوا کسی سے کیا غرض ہمیں تو اپنے ادیبوں سے صرف اتنی بات چاہئے کہ وہ ہمیں بتائیں ہمارے اوپر کیا بیتی ہے اور کیوں بیتی ہے؟

    ہمیں ہزاروں مسلمانوں کے قتل عام پر نوحے اور مرثیے نہیں چاہئیں۔ لاکھوں آدمیوں کی موت بھی بذات خود کوئی اہم معنویت نہیں رکھتی۔ اگر ہمارے پچاس لاکھ آدمی خوددار انسانوں کی طرح ظالموں کا مقابلہ کرتے ہوئے مر جائیں تو یہ بڑی خوشی کی بات ہے۔ لیکن اگر ہمارے پانچ آدمی جان بچانے کے لالچ میں میدان سے بھاگ کھڑے ہوں تو یہ ہمارے لئے ایک المیہ ہے۔ ہم تو بس یہی چاہتے ہیں کہ ہمارے ادیب ہمارے کردار کا محاسبہ کریں اور ہمیں بتائیں کہ ہمارے ساتھ کیا ٹریجڈی واقع ہوئی ہے۔ ہمارا کردار ہماری روایتوں کے شایان شان ہے یا نہیں۔ بس اتنی قومی خدمت ہم اپنے ادیبوں سے ضرور لینا چاہتے ہیں۔ دوسروں پرتنقید نہیں، اپنی قوم پر تنقید۔

    مگر یہ کام ابھی تک ہمارے ادیبوں نے کیا ہی نہیں۔ لے دے کے بس ایک کتاب ہے جو حال ہی میں شائع ہوئی ہے یعنی قدرت اللہ شہاب کی یاخدا۔ یہ افسانہ بڑا قابل قدر ہے۔ میں تو یہاں تک کہنے کو تیار ہوں کہ یہ کتاب ہر پڑھے لکھے پاکستانی کی نظر سے گزرنی چاہئے۔ اس کے شروع میں ممتاز شیریں صاحب کا دیباچہ ہے جس میں انہوں نے فسادات سے متعلق ادب کا جائزہ لیا ہے اور بتایا ہے کہ غلط قسم کی انسانیت پرستی اور انصاف کی رو میں بہہ کر ادیب خود اپنے آپ سے جھوٹ بولتے رہے ہیں اور انہوں نے حقیقت کا جس طرح مشاہدہ اور تجربہ کیا تھا، اسے جان بوجھ کر اصلی شکل میں پیش کرنے سے گریز کیا ہے۔ اس طرح ادب کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے اور پاکستان کو بھی، کیونکہ بعض لوگ ادب کے پردے میں پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کر رہے ہیں۔ شیریں صاحبہ کی صاف گوئی اور ذہنی ایمانداری کی داد دینی پڑتی ہے۔

    شہاب صاحب نے اپنے افسانے میں انسانیت پرستی کا ڈھونگ نہیں رچایا۔ انہوں نے اس افسانے میں غیروں کے ظلم پر اتنا زور نہیں دیا جتنا پاکستانیوں کی بے راہ روی پر۔ یہ کتاب اگر کسی کے خلاف ہے تو خود پاکستان والوں کے مکتاب کی ہیروئن دل شاد کی المناک کہانی محض سکھوں کے مظالم پر مشتمل نہیں ہے۔ دل داش کی ٹریجڈی یہ ہے کہ اس نے پاکستان والوں کو سمجھا کچھ تھا اور پایا کچھ۔ شہاب صاحب نے اس زندگی کا یہ المناک پہلو بڑی چابک دستی سے نمایاں کیا ہے۔ ان کے طنز میں جتنا بھی زہر تھا وہ اوروں کے اوپر نہیں اپنے ہی اوپر صاف ہوا ہے۔ کتاب میں جذباتیت تو ضرور ہے۔ مگر چونکہ ہم اسے مقصدی ادب کے لحاظ سے جانچ رہے ہیں اس لئے پر اعتراض غلط ہوگا۔ شہاب صاحب نے پاکستان والوں کے کردارپرتنقید کرنے میں انتہائی جرأت اورسچائی سے کام لیاہے۔ اگر پاکستانی ادیب اسی بے خوفی اور صداقت پسندی سے کام لیتے رہے اور اگر پاکستانی ادب کی ابتدا یہی ہے تو مجھے پاکستان میں ادب کا مستقبل بہت شاندار نظر آتا ہے۔

    پاکستانی ادب کے شاندار مستقبل کی دوسری شہادت سعادت حسن منٹو کے وہ افسانے ہیں جن کا پس منظر فسادات ہیں۔ در اصل یہ افسانے فسادات کے بارے میں ہی نہیں بلکہ انسان کے بارے میں ہیں۔ ان کا موضوع ہے انسان مخصوص قسم کے حالات میں۔ یہ دیکھ کر مجھے فخر ہوتا ہے کہ فسادات سے متعلق تجربات کو ادبی طریقے سے سب سے پہلے پاکستان کے ایک ادیب نے استعمال کیا ہے اور اپنے دماغ کو ہنگامی سنسنی پیدا کرنے سے ہٹا کر ادبی تخلیق میں لگایا ہے۔ منٹو نے ہر قسم کے مفادات سے بے نیاز ہو کر صاف انسانی معنویت، صرف انسانی صداقت تلاش کی ہے۔ یہی ادب ہے۔

    مأخذ:

    مجموعہ محمد حسن عسکری (Pg. 125)

    • مصنف: محمد حسن عسکری
      • ناشر: سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور
      • سن اشاعت: 2008

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے