Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

فراق کی حسیت سے ہمارا رابطہ

شمیم حنفی

فراق کی حسیت سے ہمارا رابطہ

شمیم حنفی

MORE BYشمیم حنفی

    اب سے کوئی پچیس برس پہلے (۱۹۷۱ءمیں) ناصر کاظمی نے اپنے ایک مضمون (نئی غزل) میں یہ سوال اٹھایا تھا کہ فانی اور یگانہ رنگ غالب کے اچھے غزل گو شاعر ہونے کے علاوہ بھی کچھ تھے یا نہیں؟ اوریہ کہ ہمارے عہد کی غزل میر و غالب کے سائے سے ہٹ کر اپنی دھوپ میں بھی چل سکتی ہے یا نہیں؟ اس مضمون میں ناصر کاظمی نے نئی غزل کی چند ایسی خصوصیات کا ذکر بھی کیا تھا جو اسے پرانی غزل سے الگ کرتی ہیں۔ یہ خصوصیات ہیں روایت سے انحراف، نئے استعاروں کی بہتات، اظہار میں جرأت اور غنائی سانچوں کا انتخاب۔

    نئی غزل کی پیش رو روایت پر نظر ڈالی جائے تو فانی، یگانہ اور فراق کے نام تقریباً ایک ساتھ سامنے آتے ہیں۔ اصغر، حسرت اور جگر کی شہرت ان تینوں سے کم نہیں مگران کی غزل اس صنف کے مانوس اور روایتی فریم سے باہر نہیں نکلتی۔ فانی اور یگانہ کے یہاں احساس اور ادراک کے ایک نئے آہنگ کا کچھ سراغ ضرور ملتا ہے مگر یہ آہنگ محدود بہت ہے۔ دونوں کے مزاج کی مجبوریاں ان کی غزل کو ایک خاص ڈھرے سے نکلنے نہیں دیتیں۔ دونوں کے یہاں غیر متوقع نتائج تک جا پہنچنے کی صلاحیت کا حیرت ناک فقدان ہے اور دونوں کی شاعری ایک طرح کی انتہا پسندانہ ذات آلودگی کا شکار ہے۔

    خلیل الرحمن اعظمی نے کلام فراق کے انتخاب کے ساتھ (۱۹۶۵ءمیں) جو مقدمہ ترتیب دیا تھا، اس میں فانی اور یگانہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ، ’’حسرت کے معاصرین میں فانی کے یہاں تھوڑی سی دبازت معلوم ہوتی ہے لیکن ان کا تصور مرگ اور ان کا متصوفانہ تفلسف جدید ذہن کے لئے دلکشی نہیں رکھتا تھا۔ البتہ اس زمانے میں مرزا یگانہ کے یہاں زندگی کے متضاد اور پیچیدہ مسائل سے نبرد آزما ہونے کا حوصلہ ملتا ہے اور ان کی شاعری میں ذہن کا عنصر بھی خاص حد تک ہے، لیکن یگانہ کی بدقسمتی یہ ہے کہ انہوں نے اپنی شخصیت کی اس قوت سے مثبت طور پرکوئی فائدہ نہیں اٹھایا۔ اس لئے آگے چل کر ان کے ذہنی سوتے خشک ہو گئے اوران کے اندر ایک ایسی کرختگی اور خشونت پیدا ہو گئی جس نے ان کی غزل کے امکانات کو محدود کر دیا۔‘‘

    فانی اور یگانہ کے برعکس فراق کی غزل اپنی ناہمواری اور کھردرے پن کے باوجود نئی حسیت کے ایک رواں دواں سرچشمے کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کی مجموعی ساخت پر ایک ایسی تجربہ گاہ کا گمان ہوتا ہے جہاں احساس اور اظہار کی سطحیں جامد اور متعین نہیں ہیں اور ان سطحوں پر تبدیلیوں کے نشانات برابر ابھرتے رہتے ہیں۔ فراق کی غزل اپنے ماضی سے مربوط ہوتے ہوئے بھی ہمیں ایک نئے فکری اور جذباتی نظام تک لے جاتی ہے اور اپنے وقت سے پیچھے نہیں ہٹتی۔ اس کا سبب یہ ہے کہ فراق کی تخلیقی شخصیت اپنے تمام معاصرین کے مقابلے میں کہیں زیادہ وسیع اور پہلودار تھی۔ ان کی شاعری اور تنقید سے جو شعری کردار ابھرتا ہے وہ بڑی حد تک نیا اور نامانوس ہے اور ہرچند کہ نثرونظم دونوں میں فراق کا اسلوب جذباتی ہے، مگر ان کے رویے اور ایقانات جذباتی نہیں ہیں۔ اسی لئے فراق کی شاعری اور تنقید کو ہم ایک دوسرے سے پوری طرح الگ نہیں کر سکتے۔

    اندازے، حاشیے، اردو کی عشقیہ شاعری، اردو غزل گوئی، یہاں تک کہ ان کے خطوط کے مجموعے من آنم میں شعر اور شاعری سے متعلق کچھ واضح قسم کے تصورات کی موجودگی اور تکرار بھی ان تحریروں کو نظریہ بازی اور نظریہ سازی کے عیب سے بچائے رکھتی ہے۔ فراق روایتی انداز کے استدلال سے گریز کے باوجود اپنی تمام نثری کتابوں میں ایک مخصوص منطقی رویے کے پابند دکھائی دیتے ہیں اور کوئی انوکھی، متنازعہ یا نئی بات بھی دلیل اور مثال کے بغیر نہیں کہتے۔ فانی اور یگانہ کے مقابلے میں فراق کی تخلیقی حسیت ہمیں جو زیادہ مؤثر، منظم اور مربوط نظر آتی ہے تو اسی لئے کہ فراق ان دونوں کی بہ نسبت ایک بہتر اور وسیع تر تنقیدی شعور رکھتے تھے۔ فراق کا شعری تناظر اپنے تمام معاصرین سے زیادہ وسیع ہے۔ فراق مخصوصیت کو شاعری کا دشمن سمجھتے تھے۔ (PARTICULARIZATION IS THE ENEMY OF POETRY)

    اور کسی خاص واقعے یا صورت حال سے کہیں زیادہ دلچسپی انہیں زندگی کی مجموعی صورت حال یا اس کی عام صداقتوں سے تھی۔ اپنی ایک گفتگو میں (دلی دوردرشن، ۲۸ مارچ سن ۸۲) فراق نے یہ معنی خیز بات کہی تھی کہ بڑے شاعر کے یہاں خارجی زندگی کے واقعات (اپنے معین حوالوں کے ساتھ) یا تو آئیں گے نہیں، یا آئیں گے تو لوگ انہیں قیامت تک پہچان نہیں سکیں گے۔ شاید اسی لئے عسکری نے بھی کہا تھا کہ فراق کی شاعری آہٹوں کی شاعری ہے۔ یہ شاعری ایسی دنیاؤں میں سانس لیتی ہے جو کچھ سمجھ میں آتی ہیں کچھ نہیں آتیں۔ اپنے زباں زد خاص و عام شعر،

    زندگی کیا ہے آج اسے اے دوست

    سوچ لیں اور اداس ہو جائیں

    کی مثال دیتے ہوئے فراق نے کہا تھا کہ اس شعر کی روشنی میں اگر کوئی یہ نتیجہ برآمد کرلے کہ فراق نے یہ شعر اپنے والد کے انتقال پر کہا تھا تو وہ اس شعر سے ہمیشہ کے لئے دست بردار ہو جائیں گے۔ زندگی کے اسرار اور زندگی کی ہمہ گیر سچائیوں کو ایک غیرزمانی سطح پر دیکھنے کی جیسی کوشش ہمیں فراق کے یہاں ملتی ہے، ان کے کسی دوسرے ہم عصر کے یہاں نظرنہیں آتی۔ فراق نے اپنے آپ کو نہ تو اپنی روایت کا پابند رکھا، نہ اپنے عہد کے فکری اور جذباتی ماحول کی اطاعت قبول کی۔

    ان کی غزل ایک کٹر اور بے لوچ مزاج رکھنے والی صنف میں بھی اپنے لئے نجات کے راستے نکال لیتی ہے۔ کھلی فضاؤں میں پرواز کرتی ہے اور تخلیقی آزادی کے ایک مستقل احساس کی توثیق کرتی ہے۔ آزادی کا یہ احساس فراق کی غزل میں کئی سطحوں پر رونما ہوا ہے اور شعری ادراک کے کئی واسطوں سے آیا ہے۔ زبان وبیان، لہجہ، اسلوب، آہنگ، مصرعوں کی ساخت، تجربوں کی رنگارنگی اور بےتکلفی، مانوس اور نامانوس اشیا اور مظاہر سے تقریباً یکساں شغف کے معاملے میں فراق سے پہلے غزل گویوں میں صرف میر کا نام لیا جا سکتا ہے۔ اس جملے سے اگر کسی کویہ گمان گزرتا ہے کہ میر اور فراق ہم مرتبہ شاعر ہیں تو یہ اس کا اپنا مسئلہ ہے۔

    میں تو بس اتنا عرض کرنا چاہتا ہوں کہ میر اور فراق کی شعری کائنات میں بعض بنیادی مماثلتیں موجود ہیں اور زبان وبیان، واردات اور تجربے، تصور اور احساس کی طرف اپنے رویوں کے اعتبار سے اردو کے تمام غزل گویوں میں فراق کو سب سے زیادہ قربت میر صاحب سے حاصل ہے۔ غزل کی ماہیت اور ہیئت کے بارے میں فراق نے کچھ ایسے نکات کی طرف اشارے کئے تھے جو لگ بھگ چالیس برس کے بعد بھی (یہ مضمون ۱۹۵۸ء۔ ۱۹۵۷ء میں لکھا گیا تھا) ہماری توجہ اور تجزیے کا تقاضہ کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر فراق کا یہ کہنا کہ،

    (۱) غزل انتہاؤں A series of Climaxes کا ایک سلسلہ ہے۔

    (۲) غزل کی ماہیت تہذیب و انسانیت کے مرکزی جمالیاتی و وجدانی تجربات کی اس ماہیت میں پوشیدہ ہے، جہاں عقلی، اخلاقی اور جمالیاتی حقیقتوں کا ایک ماورائی عالم میں یا لامحدود کے مرکز پر سنگم ہوتا ہے۔

    (۳) غزل کہنے کے لئے بہت سیانی اور بہت معصوم طبیعت چاہئے۔

    (۴) ہر کامیاب غزل نتائج کا سلسلہ ہوتی ہے۔

    (۵) کلیم الدین احمد نے غزل کو نیم وحشی صنف سخن بتایا تھا۔ دور وحشت کی جبلتیں اگر یک لخت ترک کر دی جائیں تو تہذیب اور فنون لطیفہ کی موت ہو جائے۔ (یہاں فراق کا یہ قول بھی یاد آتا ہے کہ، Literature is brilliant Illiteracy

    (۶) غزل کے وہ اشعار جن میں غزل کی حقیقی روح کار فرما ہے، ہمیں بتاتے ہیں کہ زندگی کی چھوٹی چھوٹی بے نام واردات تہذیب کی اساس ہوتی ہیں۔

    (۷) علم میں، خیال میں، عمل میں بلند اور مشکل سے مشکل فکر میں یا فلسفہ میں وہ گہرائی نہیں ہوتی جو رچے ہوئے جذبات اور خالص کیفیات میں ہوتی ہے۔

    (۸) غزل ایک بنیادی مذاق زندگی کی پیداوار ہے۔

    (۹) غزل کے اشعار کا ایک مجموعی اثر ہم پر پڑتا ہے اور اس طرح ہمارے وجدان میں ایک داخلی نظام رونما ہوتا ہے۔

    (۱۰) غزل کے اشعار میں ایک وجدانی ہم آہنگی ہوتی ہے۔ ایک خاص وجدانی عمل عاشق اور معشوق کے تعلقات، انسان سے انسان کے تعلقات، انسان کے اپنے آپ سے تعلقات، انسان کی زندگی سے رشتے، کائنات سے ہم آہنگی اور پنہاں رشتے، زندگی کے دکھ درد، غم خوشی، دنیا سے مانوسیت، کائنات سے پیدا ہونے والے استعجاب، مناظر فطرت کی علائمی اور اشاریاتی معنی خیزی، زندگی کے وہ خواب اور وہ تصورات جن کے بغیر زندگی نہیں رہتی، کائنات کی وہ حس (Feeling) جس کے بغیر ہم اس آفاق کے حقیقی باشندے یا شہری بن ہی نہیں سکتے۔ جس کے بغیر زندگی مہذب ہوکے بھی ویران رہتی ہے، ہماری بکھری ہوئی شخصیتوں کو اندر سے سالم بنانے کا عمل۔

    ان تمام اقتباسات میں انسانیت کے تصور کو شاعری کی ایک بنیادی سچائی کے طور پر دیکھا گیا ہے۔ فراق زندگی کے عام شعور اور شاعری کے شعور کو ایک دوسرے کے حوالے کے طور پر برتنا چاہتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ صنف غزل کی حدتک یہ رویہ فراق کے عہد میں بہت عام نہیں تھا اور فراق کی سی شدومد کے ساتھ ان کے کسی بھی ہم عصر نے اس سوال پر غور نہیں کیا تھا کہ ادب اور زندگی میں اوصاف اور محاسن کے اشتراک کی ایک اور صورت بھی تلاش کی جا سکتی ہے۔ غزل کی ہیئت اور ماہیت کی بحث میں فراق بار بار زندگی کی حقیقتوں کو سمجھنے اور سمجھانے کی جستجو بھی کرتے ہیں۔ گویا کہ شاعری بھی زندگی ہی کی طرح ایک روحانی مہم کا درجہ رکھتی ہے۔

    ادب کا احترام فراق کے نزدیک زندگی کے احترام کی ہی ایک شکل تھا۔ ناصر کاظمی نے میر پر اپنے مضمون میں لکھا تھا کہ ’’ہمیں ازسرنو ایک ذہنی اور اخلاقی تصور زبان اور فلسفہ حیات کی ضرورت ہے اور گو کہ میر صاحب کے زمانے اور ہمارے زمانے میں بڑا بُعد ہے اور دنیا اتنی بدل چکی ہے کہ آج کے شاعر کے سامنے پہلے سے بھی کہیں وسیع منظر حیات کھل گیاہے۔ مگر واقعات کی مماثلت کی وجہ سے میر صاحب کا زمانہ ہمارے زمانے سے مل گیا ہے۔‘‘

    فراق کی حسیت جس ذہنی اور جذباتی ماحول میں مرتب ہوئی، وہ آج کی دنیا کے ماحول سے مماثل نہ ہوتے ہوئے بھی ہمارا اپنا تجربہ اس لئے بن جاتا ہے کہ اس کی طرف فراق کا رویہ ان کے بعدکی نسل کے رویے سے مماثلت رکھتا ہے۔ فراق کے رویے نے ان کی غزل کی سر زمین، اس کی سرشت، وہ کچھ نہیں رہنے دی جس کا تماشا ہم حسرت، اصغر، جگر، فانی اور یگانہ کے یہاں دیکھتے ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ایک تو فراق کے یہاں زبان کا شعور زندگی سے تعلق کے پس منظر میں ابھرتا ہے۔ دوسرے یہ کہ فراق اپنی ہر بات اشاروں میں کہتے ہیں، تفصیل سے بچتے ہیں اور خیالوں کو بھی اشخاص کی طرح جیتا جاگتا، مجسم اور متحرک دیکھنے پرقادرہیں۔ ذہنی زندگی سے یہ انس ہمیں فراق کے عہد کے کسی دوسرے غزل گو کے یہاں نظر نہیں آتا۔

    اس سلسلے میں ایک اور حقیقت جس کا تجزیہ ضروری ہے، یہ ہے کہ فراق کی حسیت کو تشکیل دینے میں ادب کی تین روایتوں کا عمل دخل تقریبا یکساں رہا ہے۔ ایک تو ہند ایرانی روایت جس سے فراق کا تعارف فارسی غزل کے علاوہ اٹھارہویں اور انیسویں صدی کے اردو غزل گویوں کے واسطے سے ہوا۔ یہ روایت فراق کی بصیرت کے سیاق میں ایک طرح کی تہذیبی یادداشت کا مرتبہ رکھتی تھی۔ پھرمغربی ادبیات کی روایت تھی جس سے فراق نے براہ راست استفادہ کیا تھا اور جس کا اثر فراق کی تنقید اور فراق کی شاعری دونوں پر دیکھا جا سکتا ہے۔

    البتہ اس سلسلے میں ایک غلط فہمی کا ازالہ ضروری ہے کہ فراق صاحب رومانی تنقید یا شعر کے صرف رومانی تصور سے مناسبت رکھتے تھے، فراق کی شاعری اور تنقید کچھ بھی ثابت نہیں کرتی۔ بس حوا س کے کچھ راستے روشن کرتی ہے، اور یہ راستے ہمیں صرف رومانی طرز احساس تک نہیں لے جاتے۔ ان راستوں کی مدد سے ہم فکر کے ایک پورے نظام تک پہنچتے ہیں جو زندگی اور شاعری دونوں کا احاطہ کرتا ہے۔ اسی لئے عسکری نے یہ بات کہی تھی کہ فراق کی تنقید ادب کی تنقید ہے۔ تنقید کی تنقید نہیں ہے اور یہ تنقید ہمارے لئے ادب کی روح کی ساتھ ساتھ اپنی شخصیت اور اپنی انسانیت کو سمجھنے کا وسیلہ بھی بن جاتی ہے۔ فراق کی حسیت میں ایک نئی انسان دوستی اور روشن خیالی کے عناصر انہی واسطوں سے شامل ہوئے جن کا سرچشمہ مغربی لبرلزم کو قرار دیا جا سکتا ہے۔

    تیسری روایت جس نے فراق کی حسیت کا ایک واضح رخ متعین کرنے میں نمایاں حصہ لیا، قدیم ہندوستانی تصورات اور شعریات کی روایت ہے۔ فراق صاحب انگلستان کے صنعتی انقلاب اور نئی ٹکنالوجی کے شیدائیوں میں تھے اور مشین کی دریافت کو تہذیب کی ترقی کا ناگزیر وسیلہ سمجھتے تھے، اس حد تک کہ ماضی پرستی کے رویے کو انہوں نے اپنی نثر و نظم میں ایک مستقل موضوع کی حیثیت دی ہے اور اس پر سخت اعتراضات کئے ہیں۔ مگر فراق نے اسی جوش و خروش کے ساتھ اپنے مزاج اور بصیرت کی ارضی بنیادوں، اس کے مکانی رابطوں، اس کے دیسی پن کو محفوظ رکھنے پر بھی زور دیا ہے۔ اس سلسلے میں یہ خیال کہ فراق کی شاعری میں مقامی رنگ صرف ان کی دو تین نظموں (کارتکی پورنما، دیوالی کے دیپ جلے، ہنڈولہ، جگنو) اور روپ کی رباعیوں تک محدود ہے، درست نہیں ہے۔ فراق نے غزل کے بہت سے شعروں میں ایک نئی زبان اور نیا محاورہ وضع کرنے کی کوشش کی بھی ہے۔

    بہاری، تلسی داس، سورداس، کبیر داس کے لہجے اور طرز اظہار کے علاوہ فطرت اور کائنات کے مظاہر کی طرف قدیم سنسکرت شعرا کے رویے کی گونج بھی فراق کی غزلوں میں دیکھی جا سکتی ہے۔ فراق صاحب کوجتنی دلچسپی تصورات سے اور اپنی ذہنی زندگی سے تھی، اس سے کم دلچسپی انسانوں اور اشیا سے نہیں تھی۔ موسموں، منظروں، موجودات کے بیان میں فراق کا انہماک فطرت سے ان کی مکمل ہم آہنگی کا پتہ دیتا ہے۔ فطرت میں خود کو گم کر دینا ان کے نزدیک ایک نئی اور وسیع ترانسانی سطح پر خود کو پا لینے کے مترادف ہے۔

    یہ شاعری ایک واضح انسانی موقف کی شاعری ہے اور بہ قول نیاز فراق شعر نہیں کہتے، زندگی اور محبت اور فطرت کے نکات پر تبصرہ کرتے ہیں۔ چنانچہ فراق کی حسیت کو سمجھنے کے لئے صرف جمالیاتی قدروں کے اندر رہ کر اس کی قدر قیمت کاحساب کرنا صحیح نہیں ہوگا۔ فراق کی حسیت نے اردو غزل کی روایت میں کئی ایسے عناصر کا اضافہ کیا ہے جو اپنے آپ کو، اپنے زمانے کو اور اپنی دنیا کو پرکھنے اور پہچاننے میں ہماری مدد کرتے ہیں۔

    مأخذ:

    تاریخ، تہذیب اور تخلیقی تجربہ (Pg. 190)

    • مصنف: شمیم حنفی
      • ناشر: سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور
      • سن اشاعت: 2006

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے