Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

گاندھی جی، فلسفی اور ادیب

سید عابد حسین

گاندھی جی، فلسفی اور ادیب

سید عابد حسین

MORE BYسید عابد حسین

    در اصل گاندھی جی کے فلسفے میں کوئی خیال نیا نہیں۔ یہ سب تصورات قدیم ہندی فلسفے میں پائے جاتے ہیں۔ نئی چیز وہ ربط ہے جو گاندھی جی نے ان میں پیدا کیا اور اس سے بھی بڑھ کر یہ ہے کہ انھوں نے اس سلسلے کی ایک ایک کڑی کو اپنی زندگی میں عمل اور تجربے کی کسوٹی پر کسنے کے بعد قابل قبول سمجھا۔ مشہور حکیموں میں گاندھی جی سے پہلے فلسفے کے اصول روز مرہ کی عملی زندگی سے اخذ کرنے کی خصوصیت سقراط میں پائی جاتی ہے۔ ان دونوں میں اور بھی باتیں مشترک ہیں، جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ دونوں کے یہاں فلسفے کی بحثوں میں زندگی کی حرکت اور حرارت ہے، جس کی وجہ سے اس کی حدود ادب سے مل جاتی ہیں۔

    اگر ہم فلسفی اور ادیب کی منطقی تعریف کے جھگڑے میں نہ پڑیں اور سیدھے لفظوں میں ان دونوں اصطلاحوں کا مطلب سمجھانا چاہیں تو کہہ سکتے ہیں فلسفی وہ ہے جو دنیا اور انسانی زندگی کی حقیقت کو خواہشات اور جذبے سے الگ ہو کر مجرد تصورات کی مدد سے سمجھے اور سمجھائے، اور ادیب وہ ہے جو اس حقیقت کو فکر، احساس اور آرزو کی سموئی ہوئی نظر سے دیکھے اور دکھانے۔ جب تک انسانی ذہن میں تازگی، سادگی آواز بے ساختہ پن موجود تھا فلسفی اور ادیب دونوں زندگی اور دنیا کا براہ راست مشاہدہ کر کے اپنی ذاتی فکر کے نتیجوں کو فلسفے اور ادب کے نام سے پیش کرتے تھے، مگر جب یہ ذہن روایات کے بوجھ میں دب کر جولانی اور اپج سے محروم ہو گیا تو فلسفی اسے کہنے لگے جو روایتی فلسفے کے چشمے سے اور ادیب اسے جو روایتی ادب کی عینک سے حقیقت کا مطالعہ کرنے کی کوشش کرے۔ فلسفی اور ادیب کا تصور لوگوں کے ذہن میں اتنا جم گیا ہے کہ اتفاق سے کوئی ایسا شخص پیدا ہو جائے جو دنیا اور زندگی کا عکس کتابوں کے دھندلے آئینے میں دیکھنے کے بجائے ان کا سیدھا اور صاف مطالعہ کرے تو اسے فلسفی اور ادیب کا درجہ دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ زیادہ سے زیادہ ایک بے ضابطہ سوچنے والا اور بے قاعدہ لکھنے والا مان لیں گے۔ گاندھی جی ان فلسفیوں اور ادیبوں میں سے ہیں جن کے فلسفے اور ادب کو ہم رسم و روایات، قاعدے اور ضابطے کے پیمانوں سے نہیں ناپ سکتے، صرف اصلیت اور حقیقت کے کانٹے پر تول سکتے ہیں۔

    جہاں تک گاندھی جی کے فلسفے کا تعلق ہے، ظاہر ہے اس پر اس مختصر مضمون میں تفصیلی بحث تو ہو نہیں سکتی، ہم صرف ان کے حیات و کائنات کے بنیادی تصور پر ایک سرسری نظر ڈال سکتے ہیں۔ سب سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ ان کی فلسفیانہ فکر کا موضوع اور مقصد کیا ہے۔ وہ خود ایک جگہ لکھتے ہیں ’’وہ چیز جس کی مجھے تلاش ہے، جس کی آرزو اور سعی میں تیس سال سے بے چین ہوں۔ معرفت نفس، دیدار الٰہی، حصول موکش ہے۔ یہی تلاش، یہی کوشش میرا اوڑھنا بچھونا ہے، یہی میری زندگی ہے۔ میری تحریر و تقریر کا میری سیاسی جد و جہد کا یہی مقصد ہے۔‘‘

    اس کے معنی یہ ہیں کہ عہد قدیم کے ہندی فلسفیوں کی طرح گاندھی جی کے یہاں بھی فلسفے اور مذہب کی حدود الگ الگ نہیں ہیں، بلکہ ان کے موضوع فکر میں مابعد الطبیعیات اور الٰہیات ایک دوسرے سے ملے جلے ہوئے ہیں اور ان کا مقصد صرف نظری نہیں بلکہ عملی بھی ہے۔ عہد جدید کے فلسفی ان چیزوں کو ایک دوسرے سے الگ رکھتے ہیں۔ الٰہیات سے انھیں عام طور پر دلچسپی نہیں ہوتی، اور اگر ہو بھی تو وہ صرف سرچشمۂ حقیقت کا پتہ چلانے تک محدود ہوتی ہے، مگر گاندھی جی اس کے علاوہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ اس کا پتہ چلانے کے بعد روحِ انسانی کو وہاں تک پہنچانے اور سعادت ابدی کا وہ مقام حاصل کرنے کی کوشش کریں، جسے مذہب کی اصطلاح میں نجات کہتے ہیں۔

    لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ موضوع اور مقصد کے لحاظ سے تو گاندھی جی کی فکر عہد قدیم اور عہد وسطیٰ کے رنگ میں رنگی ہوئی ہے، لیکن سوچنے کا طریقہ انھوں نے ایسا اختیار کیا ہے جو عہد جدید کی علمی تحقیق کے معیار پر پورا اترتا ہے۔ فلسفے کی تعریف میں عہد جدید کی یہ خصوصیت سمجھی جاتی ہے کہ بیکن سے لے کر کانٹ تک مفکروں کے ایک پورے سلسلے نے نظریۂ علم کے مسائل پر غور کر کے تجربے اور مشاہدے کے طریقۂ تحقیق کو نشونما دی۔ یوں تو یہ طریقہ یونانیوں کے یہاں موجود تھا اور عربوں نے اسے خاصی ترقی دی تھی، لیکن عہد وسطیٰ میں اسے ترک کر دیا گیا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ فلسفہ بے سر و پا خیال آرائیوں میں پڑ گیا اور حقیقی علمی ترقی رک گئی۔ عہد جدید کے ہر ادیبوں نے اسے پھر سے زندہ کیا اور تکمیل کو پہنچایا اور اس کے فیض سے علوم طبیعی نے جو سائنس کہلاتے ہیں حیرت انگیز ترقی کی، گاندھی جی نے جدید فلسفے یا سائنس کی باقاععدہ تعلیم نہیں پائی تھی۔ لیکن جب وہ بیرسٹری کا ڈپلوما لینے کے لیے انگلستان گئے تو انھوں نے اصول قانون کا مطالعہ کیا اور اپنے خداداد ذوق صحیح کے بدولت علمی طریق فکر کو اپنا لیا۔ جتنی چیزیں علمی مشاہدے کے لیے ضروری ہیں۔۔۔ احساس ذمہ داری، ذہنی دیانت، صبر احتیاط، جذبات اور خواہشات سے الگ ہو کر ہر چیز کو معروضی نظر سے دیکھنا، اپنے مشاہدے کے نتائج کو بغیر کسی رنگ آمیزی کے اصلیت میں ڈوبی ہوئی سادگی کے ساتھ بیان کرنا، غرور اور ادعا کے بجائے عاجزی اور انکساری سے کام لینا۔۔۔ وہ سب گاندھی جی میں اسی حد تک موجود تھیں، جتنی آج کل بڑے سے بڑے فلسفی یا سائنس داں میں ہوتی ہیں۔ بلکہ ان کے مذہبی جذبے نے ان صفات میں اور زیادہ وسعت اور گہرائی پیدا کر دی تھی۔ وہ ان تجربوں کے متعلق جو تلاش حق میں فرماتے ہیں،

    ’’میرا ہرگز یہ دعویٰ نہیں کہ یہ تجربے مکمل ہیں۔ میں انھیں اس سے زیادہ قابل وثوق نہیں سمجھتا جتنا ایک دیانت دار سائنس داں اپنے تجربوں کو سمجھتا ہے۔ وہ بہت صحت کے ساتھ خوب سمجھ بوجھ کر ذرا ذرا سی باتوں کا خیال رکھتے ہوئے تجربے کرتا ہے، مگر پھر بھی اسے یہ دعویٰ نہیں ہوتا کہ نتیجے اسے حاصل ہوئے، وہ آخری اور قطعی ہیں بلکہ وہ ان میں ترمیم اور اصلاح کی گنجائش سمجھتا ہے۔ میں نے بہت گہرے مشاہدۂ باطن سے کام لیا ہے۔ اپنے نفس کو اچھی طرح ٹٹولا ہے اور ہر نتیجوں پر پہنچا ہوں، وہ آخری اور قطعی یا خطا سے بری ہیں۔ البتہ اتنا دعویٰ مجھے ضرور ہے کہ میری ذات کے لیے یہ نتیجے بظاہر بالکل صحیح اور فی الحال قطعی ہیں، کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو میں ان پر اپنے عمل کی بنیاد نہ رکھتا۔ لیکن میں نے ہمیشہ ہر قدم اٹھانے سے پہلے غور کر لیا ہے کہ کس نتیجے کو قبول کروں اور کسے رد کروں اور اس کے بعد جو رائے قائم ہوئی اس پر عمل کیا ہے۔‘‘

    اس جدید عملی طریق فکر سے کام لیتے ہوئے گاندھی جی نے اپنی دو تہائی زندگی تلاش حق میں صرف کی۔ اس کے نتائج کو انھوں نے مختلف تقریروں اور تحریروں میں عام طور پر عملی مسائل کے سلسلے میں بیان کیا ہے۔ ان بکھرے ہوئے موتیوں کو مسلسل اور مدلل نظریوں کی لڑیوں میں پرونا رسمی اور مکتبی فلسفیوں کا کام ہے۔ مگر گاندھی جی کے بنیادی تصور کا جو سرسری خاکہ پیش کیا جاتا ہے، اس سے اتنا اندازہ ضرور ہو جائے گا کہ یہ کام کرنے کا ہے، اور اس سے صرف مذہبی اور اخلاقی بلکہ علمی فائدے بھی حاصل ہو سکتے ہیں۔

    گاندھی جی کے فلسفے کا لب لباب آپ کو ذیل کے ٹکڑوں میں مل جائے گا،

    (۱) ’’میرے نزدیک حق اصل اصول ہے، جس میں اور بہت سے اصول شامل ہیں۔ یہاں حق سے مراد لفظوں کی سچائی نہیں بلکہ خیال کی سچائی بھی ہے، ہمارے ادراک کی اضافی سچائی نہیں بلکہ حق محض جوہر ابدی یعنی خدا کی بے شمار تعریفیں کی گئی ہیں کیونکہ اس کے نور کی تجلیاں بے شمار ہیں۔ ان کے تصور سے مجھ پر رعب اور حیرت طاری ہوتی ہے اور ایک لمحہ کے لیے ان میں محو ہو جاتا ہوں۔ لیکن خدا کی پرستش میں اسے حق خض سمجھ کر کرتا ہوں۔‘‘

    (ب) ’’مجھے حق کے جو جلوے کبھی کبھی نظر آگئے، ان سے اس نور محض کا کوئی اندازہ نہیں ہو سکتا، جس کے آگے آفتاب ایک ذرہ بے نور ہے۔ سچ پوچھئے تو جو کچھ میں نے دیکھا وہ فروغ تجلی کا ایک خفیف سا پرتو ہے، مگر اتنا وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ حق کا کامل دیدار اسی کو نصیب ہو سکتا ہے جو اہنسا کی تکمیل کر چکا ہو۔‘‘

    (ج) ’’حق وہ روح کلی ہے جو کائنات میں جاری و ساری ہے۔ انسان اس کے جلوے کی تاب تب ہی لا سکتا ہے جب وہ ادنیٰ سے ادنیٰ مخلوق کو اپنی جان کے برابر عزیز رکھتا ہو۔‘‘

    (د) ’’ہر ذی حیات سے روحانی اتحاد کا احساس بغیر تزکیہ نفس کے نا ممکن ہے۔ جب تک نفس آلائشون سے پاک نہ ہو جائے اہنسا کے قانون کی پابندی محض خیال خام ہے۔ جو شخص عفت سے محروم ہے، اسے خدا کی معرفت کبھی حاصل نہیں ہو سکتی۔ تزکیۂ نفس کے معنی یہ ہیں کہ زندگی کے ہر شعبے میں عفت برتی جائے، پاک نفسی میں خدا نے بڑی تاثیر دی ہے۔ اگر انسان اپنے نفس کا تزکیہ کرے تو اس کا ماحول بھی آلوئشوں سے پاک ہو جاتا ہے۔ مگر تزکیۂ نفس کی منزل بڑی کھٹن ہے۔ کامل عفت حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان خیال قول اور فعل میں جذبات کی غلامی سے آزاد ہو جائے۔ محبت اور عداوت، غیرت اور نفرت کی دوئی سے نجات حاصل کر لے۔‘‘

    اگر آپ مندرجہ بالا عبارتوں کے مطلب پر غور کریں تو آپ ان سے گاندھی جی کے تصور کائنات اور فلسفۂ زندگی کے بارے میں حسب ذیل نتیجے اخذ کر سکتے ہیں۔

    (ا) زندگی اور کائنات کے یہ سب مظاہر جو نت نیا رنگ بدلتے رہتے ہیں، آنی و فانی، عارضی اور اعتباری ہیں۔ ا ن میں کوئی حقیقت صرف بس وجود مستقل، اس جوہر ابدی میں ڈھونڈھنی چاہیے جو ان سب بدلتے ہوئے مظاہر کی تہہ میں ہے اور خود کبھی نہیں بدلتا۔ یہی وہ ہستی ہے جو ہم کو اور ساری دنیائے مظاہر کو پیدا کرنے والی اور پالنے والی ہے۔ جسے مذہب کی اصطلاح میں خدا کہتے ہیں، اس کی بہت سی مثالیں ہیں، لیکن ہماری عبادت اور محبت کی سب سے زیادہ مستحق شان حقیقت یعنی حق محض ہونے کی شان ہے۔

    (ب) وحدت وجود کے اس عقیدے کا لازمی نتیجہ ہے کہ انسان کل مخلوق کو جن میں وہ خود بھی شامل ہے، ایک ہی وجود حقیقی کا اجزا مان کر ایک رشتہ اتحاد و محبت میں مربوط بنائے، ادنیٰ سے ادنیٰ مخلوق کو اپنی جان کے برابر عزیز رکھے۔

    (ج) اگر انسان کے نزدیک کل مخلوق ایک ہی نور ابدی کا پرتو ہے اور اپنی جان کے برابر عزیز ہے تو کسی جاندار کو کسی قسم کا دکھ دینا محض دکھ دینے کی خاطر یا تکلیف پہنچانا محض تکلیف پہنچانے کی خاطر ایسا ہے، جیسے اپنی جان پر یا معاذ اللہ حق تعالیٰ پر ظلم کیا جائے۔ اس لیے جو انسان اہنسا سے کام لیتا ہے وہ در اصل اس رشتۂ اتحاد سے جو اسے کل مخلوق سے اور خالق سے مربوط کرتا ہے ناواقف، دوسرے الفاظ میں خود اپنی حقیقت کا اور حقیقت مطلق کا نامحرم ہے۔ اسی لیے کہا گیا ہے کہ معرفت نفس اور معرفت حق کے لیے اہنسا کو ترک کر کے اہنسا کو اختیار کرنا لازمی ہے۔

    (د) ہنسا یا تشدد غصے، نفرت، سہولت اور اسی قسم کے شدید جذبات و خواہشات سے پیدا ہوتا ہے۔ اہنسا یا عدم تشدد کے لیے ضروری ہے کہ نفس کو ان آلودگیوں سے پاک کیا جائے۔

    (ہ) یہ تزکیۂ نفس بہت مشکل کام ہے، اس کے لیے انسان کو خیال، قول اور عمل میں جذبات کی غلامی سے آزاد ہونا چاہیے۔ کامل ضبط نفس اور سکون قلب اہنسا کی اور اہنسا کے ذریعے سے ستیہ یا معرفت حق کی پہلی سیڑھی ہے۔

    یہ ہے گاندھی جی کے فلسفے کا نچوڑ۔ در اصل اس میں کوئی خیال نیا نہیں۔ یہ سب تصورات قدیم ہندی فلسفے میں پائے جاتے ہیں، نئی چیز وہ ربط ہے جو گاندھی جی نے ان میں پیدا کیا اور اس سے بھی بڑھ کر یہ ہے کہ انھوں نے اس سلسلے کی ایک ایک کڑی کو اپنی زندگی میں عمل اور تجربے کی کسوٹی پر کسنے کے بعد قابل قبول سمجھا۔ مشہور حکیموں میں گاندھی جی سے پہلے فلسفے کے اصول روز مرہ کی عملی زندگی سے اخذ کرنے کی خصوصیت سقراط میں پائی جاتی ہے۔ ان دونوں میں اور بھی بہت سی باتیں مشترک ہیں، جن میں سے ایک یہ بھی کہ دونوں کے یہاں فلسفے کی بحثوں میں زندگی کی حرکت اور حرارت ہے، جس کی وجہ سے اس کی حدود ادب سے مل جاتی ہیں۔

    گاندھی جی کی تحریروں کی ادبی خصوصیات ان کی فلسفیانہ خصوصیات سے پیدا ہوئی ہیں۔ یہ تو ظاہر ہی ہے کہ ان کے نزدیک ادب محض تفریح اور تفنن کا ذریعہ بلکہ اس کا کام زندگی کی اعلیٰ قدروں ستیہ اور اہنسا اور عدم تشدد کی ترجمانی اور تبلیغ ہے۔ اسی لیے ان کے یہاں نفس مضمون کے مقابلے میں زبان اور اسلوب بیان کی اہمیت کچھ کم ہے۔ زیادہ اہتمام وہ اس کا کرتے ہیں کہ جو بات کہی جائے وہ سچی ہو، اور اپنی سچائی کی وجہ دل کو لگتی ہو۔ اس کی اتنی فکر نہیں کرتے کہ اسے کس ڈھنگ سے اور کس زبان میں کہا جائے۔ خالص ادبی مقصد کو پیش نظر رکھ کر کوئی کتاب لکھنا گاندھی جی کے رفیق ان کے لیے اور وہ خود اپنے لیے اس حد تک قابل اعتراض سمجھتے تھے کہ انھیں اپنی آپ بیتی ’’تلاش حق‘‘ لکھتے وقت خاص طور پر معذرت کرنی پڑی کہ یہ اس طرح آپ بیتی نہیں جیسی عام طور پر لکھی جاتی ہیں، بلکہ محض ان تجربوں کی روداد ہے جو مصنف نے ’’تلاش حق‘‘ میں کیے۔ اعتراض ان کے ایک ساتھی نے ان لفظوں میں کیا تھا،

    ’’یہ آپ کو کیا سوجھی کہ اس جھگڑے میں پڑ گئے۔ آپ بیتی مغربی ملکوں کا دستور ہے۔ میں نے آج تک نہیں سنا کہ مشرق میں سوا ان لوگوں کے جن پر مغرب کا اثر ہو گیا ہے، کسی نے آپ بیتی لکھی ہو اور آپ لکھیں گے کیا؟ فرض کیجیے کہ آج آپ جن اصولوں کے سامنے ہیں وہ بدل جائیں، تو کیا اس کا اندیشہ نہیں کہ جو لوگ آپ کی تحریر اور تقریر پر عمل کرتے ہیں وہ دھوکے میں پڑ جائیں گے؟ کیا آپ کے خیال میں یہ بہتر نہیں کہ آپ ابھی اس قسم کی کتاب نہ لکھیں، بلکہ کبھی نہ لکھیں۔‘‘

    گاندھی جی اس کے جواب میں فرماتے ہیں،

    ’’اصل میں میرا مقصد اس قسم کی کتاب لکھنا نہیں جو آپ بیتی کہلاتی ہے۔ میں تو صرف یہ چاہتا ہوں کہ میں نے حق کی تلاش میں تجربے کیے ہیں، ان کی کہانی سنا دوں۔ یہ سچ ہے کہ مری ساری عمر انھیں تجربوں میں گزری ہے، اس لیے یہ کہانی آپ بیتی بن جائے گی، لیکن اگر کتاب کے ہر صفحے میں سوا ان تجربوں کے کسی چیز کا ذکر نہ ہو تو میں ایسی آپ بیتی لکھنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتا۔ اب چاہے یہ میرے نفس کا دھوکا ہو، مگر مجھے یقین ہے کہ ان تجربوں کا ایک مسلسل بیان پڑھنے والوں کے لیے فائدے سے خالی نہ ہوگا۔‘‘

    لیکن پھر بھی گاندھی جی اپنے اس عام اصول کے ماتحت کہ اچھے مقصد کے لیے وسائل بھی اچھے ہونے چاہئیں، معنی کے مقابلے میں صورت مواد کے مقابلے میں ہیئت یعنی نفس مضمون کے مقابلے میں طرز بیان کی اہمیت کو گھٹا نہیں سکتے تھے۔ انھوں نے بڑے اہتمام اور کوشش سے اپنی زبان اور اسلوب کو ایسے سانچے میں ڈھالا جو ان کے مقصد کے لحاظ سے سب سے زیادہ موزوں اور مناسب تھا۔ چونکہ ان کا سب سے بڑا مقصد حق گوئی اور حق جوئی تھا اس لیے سب سے زیادہ زور وہ اسلوب بیان کی سادگی اور اصلیت یعنی حقیقت نگاری پر دیتے تھے۔ اپنی جنوبی افریقہ کی زندگی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں،

    ’’جس طرح آج ینگ انڈیا اور نوجیون میری زندگی کا آئینہ ہیں ان دنوں ’’انڈئین اوینٹس‘‘ تھا۔ ہر ہفتے اس میں انہی واردات قلب کی داستان درد دل کی کہانی کہا کرتا تھا اور ستیہ گرہ کے عمل اور اصول کے متعلق اپنے خیالات ظاہر کرتا تھا۔ دس سال کے عرصے میں یعنی 1914ء تک بجز اس زمانے کے جو میں نے قید میں گزارا، کبھی ایسا نہیں ہوا کہ میں نے اس میں مضمون نہ لکھا ہو، مجھے یاد نہیں کہ میں نے ان مضامین میں ایک لفظ بھی بغیر سوچے سمجھا لکھا ہو۔‘‘

    مأخذ:

    گاندھی جی اور ڈاکٹر سید عابد حسین (Pg. 44)

      • ناشر: مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 2012

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے