Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

غالب اور جدید ذہن

شمس الرحمن فاروقی

غالب اور جدید ذہن

شمس الرحمن فاروقی

MORE BYشمس الرحمن فاروقی

     

    بڑی شاعری کی ایک پہچان یہ ہے کہ ہرزمانہ میں اس کے پرستار اس کی بڑائی کی جو وجہیں ڈھونڈتے ہیں، وہ اکثر ایک دوسری سے مختلف ہوتی ہیں۔ اس بات پر سب کا اتفاق ہوتا ہے کہ یہ شاعری بڑی ہے لیکن کیوں بڑی ہے؟ اس سوال کے جوابات نہ صرف مختلف ہوتے ہیں بلکہ اکثر دو مختلف نسلیں جو جوابات ڈھونڈتی ہیں وہ ایک دوسرے سے متخالف اور متغائر بھی ہوتے ہیں۔

    اس کی کئی وجہیں ہیں۔ بنیادی وجہ تو یہ ہے کہ اپنی داخلی وحدت کے باوجود بڑی شاعری اتنی مختلف اللون ہوتی ہے کہ اس میں بہ یک وقت کئی طرح کی افتاد مزاج اور طرز فکر رکھنے والے لوگوں کو مطمئن اور متحرک کرنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ ہر زمانے کا نقاد اور قاری اپنے بعض مخصوص تقاضے بھی رکھتا ہے جو دوسرے زمانوں میں نامعتبر اور غیراہم ہو جاتے ہیں۔ کچھ خودغرضی یا پہلے سے طے کردہ اصولوں کی بھی کارفرمائی ہوتی ہے، مثلاً میں نے یہ فرض کر لیا کہ سنگ مرمر اچھی چیز ہے لہٰذا اس کا تذکرہ شاعری میں ہونا چاہیے۔ اب میں اپنی پسندیدہ شاعری میں یا اپنے موضوع بحث شاعر میں سنگ مرمر کا ذکر ڈھونڈ نکالوں گا۔ یہاں بجائے ’’سنگ مرمر‘‘ کوئی مخصوص جذباتی رجحان یا فکری میلان یا ’’طرز احساس‘‘ کہہ دیا جائے تو بات فوراً صاف ہو جاتی ہے۔

    شاعری چونکہ اشیاء کا نہیں بلکہ اشیاء سے متعلق (اور غیراشیاء سے بھی متعلق) تجربات کا ظہار کرتی ہے۔ اس لیے کسی بھی قابل لحاظ شاعر میں اپنا مخصوص جذباتی رجحان یا فکری طرز احساس ڈھونڈ لینا قاری کے لیے کچھ مشکل نہیں ہوتا۔ ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ شاعری چونکہ انسانی روح کے اصلی اور قبل التاریخی تجربات کو کریدتی اور انھیں دوبارہ زندہ کرتی ہے، اس لیے ہر بڑی شاعری لامحالہ ہر دور کے مخصوص گسٹالٹ Gestalt سے کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی نقطۂ ارتباط پیدا کر لیتی ہے۔

    اس اصول کی روشنی میں یہ بات زیادہ لائق تعجب نہیں ٹھہرتی کہ عبد الرحمن بجنوری نے غالب کو حکیم اور سائنس داں کہا تو جدید نقاد انھیں ایک ایسے علامتی نظام کا خالق ٹھہراتا ہے جس میں انسان کی مرکزی حیثیت بھی ایک مبہم علامت کی سی ہے، جو ہے بھی اور نہیں بھی۔ لیکن ظاہر ہے کہ اس تشخیص تک پہنچنے کے لیے کہ غالب کا کلام ایسے علامتی نظام کا حامل ہے، تنقیدی فکر کے علاوہ اس بنیادی فکر کو کام میں لانا پڑا ہوگا جو شاعر سے متاثر ہوتی ہے اور خود شاعری بھی جس سے متاثر ہوتی ہے۔

    یہ بات تو تسلیم شدہ ہے کہ جب میں ’’جدید نقاد‘‘ کی اصطلاح استعمال کرتا ہوں تو یہ پہلے سے فرض کر لیتا ہوں کہ وہ جدید ذہن کا مالک ہوگا۔ لیکن جدید ذہن کا تعین کیے بغیر یہ واضح نہیں ہو سکتا کہ غالب کے کلام کا جو ذہنی جواب Response جدید نقاد نے دریافت کیا ہے، اس کی اعتباریت اور وقعت کیا ہے؟ یہ نکتہ قابل لحاظ ہے کہ نقاد اپنے دور سے الگ کوئی چار آنکھ والا جانور نہیں ہوتا جو ایسی چیزیں دیکھ لیتا ہے جن کا وجود دوسروں کے لیے اگر معدوم نہیں تو کم سے کم مشتبہ ضرور ہوتا ہے۔

    حقیقت حال یہ ہے کہ جس طرح ہر دور کی شاعری اس کے اپنے تقاضوں کی مرہون منت ہوتی ہے ویسے ہی ہر دور کی تنقید بھی ان مخصوص فکری رجحانات کے ذریعے معرض وجود میں آتی ہے جو اس عہد کا خاصہ ہوتے ہیں، مثلاً اصل الاصول سے حالی نے بحث کی، احتشام حسین نے بھی اور افتخار جالب نے بھی۔ بہت سی باتیں ایسی ہیں جن کے سلسلے میں ان تینوں کے دریافت کردہ نتائج یکساں ہیں، لیکن پتے کی بات یہ ہے کہ کسی بات کی تردید یا تصدیق کے لیے جو دلائل حالی نے دیے ہیں، وہ دلائل احتشام حسین کے نہیں ہیں۔

    اور جو احتشام حسین کے ہیں وہ افتخار جالب کے نہیں ہیں۔ اس طرح صرف یہ کہہ دینے سے کام نہیں چلےگا کہ جدید نقاد نے غالب میں کچھ نئی باتیں دریافت کی ہیں، یہ کہنے کے ساتھ ساتھ اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ جدید نقاد نے غالب میں جو نئی باتیں ڈھونڈی ہیں یا غالب کی جو معنویت اب ثابت کی ہے وہ جدید عہد کی صورت حال کا ایک حصہ ہے، اور اس کا وجود بھی جدید عہد میں ہی ممکن تھا۔

    تو پھر ’’جدید ذہن‘‘ سے کیا مراد ہے۔ اتنی بات تو بڑے سے بڑا مولوی بھی مانےگا کہ دسمبر ۱۹۷۲ء یا فروری ۱۹۷۳ء میں سانس لینا ہی جدید ذہن کی ضمانت نہیں ہے۔ لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ دسمبر ۱۹۷۲ء یا فروری ۱۹۷۳ء میں سانس لینے والے لوگ ویسے ہی ہیں اور وہی ہیں جیسے کہ غالب کے ہم عصر تھے۔ غالب کے فارسی کلیات کی اشاعت دوم (مطبوعہ نول کشور پریس) کا جو نسخہ اب میرے پاس ہے، اس پر صاحب ذوق مالک کتاب نے جگہ جگہ صاد بنائے ہیں اور آخری صفحے پر لکھا ہے کہ یہ صاد میں نے چالیس برس پہلے بنائے تھے۔ اب جو کلیات دوبارہ دیکھا تو بہت سے شعر توجہ کے لائق نہ ٹھہرے اور کچھ ایسے شعروں نے بھی متاثر کیا جو ایام جوانی میں لائق اعتنانہ ٹھہرے تھے۔

    اسی طرح ہمارے آپ کے زمانے میں غالب کا کلام پڑھنے والے چاہے نئے لوگ ہوں یا پرانے، ان کے رد وقبول کے معیار میں اس ہوا کی آمیزش ضرور ہے جو آج اس ملک میں بہتی ہے اور جو اس ہوا سے مختلف ہے جس میں غالب یا حالی یا بجنوری سانس لیتے تھے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جدید ذہن کی کچھ مخصوص نشانیاں ہیں اور وہ نشانیاں جس شخص میں بیش از بیش پائی جائیں گی، اس کا ذہن جدید کے معیار پر بیش از بیش پورا اترےگا۔ ابھی حال میں ایک مغربی ماہر سماجیات نے کہا ہے کہ موجودہ طریقۂ تعلیم سے بے اطمینانی اور عملی زندگی میں اس کے بے مصرف ہونے کا احساس آج تمام دنیا کے نوجوانوں میں مشترک ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ نوجوان کسی نئے آسمان سے اترے نہیں ہیں، نارسی اور بے اطمینانی کا احساس دراصل ہمارے دور کا مزاج ہے اور اسے جدید ذہن کی سب سے بڑی پہچان کہہ سکتے ہیں۔

    محمد حسن عسکری نے ایک بار کہا تھا کہ جب میں لوگوں کو پریشان اور آشفتہ خاطر دیکھتا ہوں تو افسوس کرتا ہوں کہ یہ لوگ بودلیئر Baudelaire کو کیوں نہیں پڑھتے۔ ممکن ہے اب ان کا خیال بدل گیا ہو، لیکن ان کی اس رائے میں ایک بڑا اہم نکتہ پنہاں ہے۔ بے اطمینانی کی جس فضا میں ہم آج زندہ ہیں، اس کا بدل Compensation یہی ہو سکتا ہے کہ ہم ایک ایسی علامتی دنیا تلاش کریں یا خلق کریں جو موجودہ عالم کون وفساد کی تلافی کر سکے۔ ہمارے عہد میں شاعری کے علامتی مفاہیم ڈھونڈنے کی جو کوششیں ہیں وہ اسی تخلیق تلافی کا غیرشعوری اظہار ہیں۔

    سوئفٹ Swift کا تمثیلی مسافر جب گھوڑوں کی سرزمین میں پہنچتا ہے تو اسے یہ جان کر حیرت ہوتی ہے کہ وہاں کے لوگ لفظ ’’جھوٹ‘‘ سے ناواقف ہیں اور جب گلیور Gulliver انھیں سمجھتا ہے کہ جھوٹ کیا چیز ہے تو وہ اس کے لیے ’’وہ جو نہیں ہے‘‘ کی اصطلاح وضع کرتے ہیں!

    سیاست اور مادہ پرستی کے ہاتھوں سچ کی جو درگت بنی ہے اور سائنس نے جس طرح بہت سی سچائیوں کو جھوٹ ثابت کرنے کی مہم کا آغاز کیا ہے، اس کی ایک بازگشت آرویل کے یہاں سوئفٹ کے دو سو برس بعد ملتی ہے۔ آرویل کہتا ہے کہ ہمارے عہد کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ سیاست نے الفاظ کے معنی بدل دیے ہیں، اس لیے جدید ذہن کی بے اطمینانی کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ وہ الفاظ کی اصلی اور فطری تخلیقی قوت کو تسلیم کرتا ہے اور انھیں اسرار اور علامت کی شکل میں پہچانتا ہے۔

    لفظ کی موجودہ تحقیر وتذلیل کا ردعمل لفظ کی تقدیم اور تمحید کی شکل میں ظاہر ہوا ہے۔ اس کا اظہار ایک طرف تو وٹ گنس ٹائن Wittgenstein کے اس نظریے میں ہوا ہے جس کی رو سے تمام الفاظ تصویریں ہیں، اس مفہوم میں تمام کسی نہ کسی اور چیز کی علامت ہیں۔ دوسری طرف مثلاً سوسن لینگر کا یہ کہنا کہ ’’فن ایسی ہیئتوں کی تخلیق ہے جو انسانی احساس کی علامت ہیں۔‘‘ اور اس نتیجے پر پہنچنا کہ فن ایک طرح کی مفصل اور منضبط خفیہ تحریر Code ہے، لفظ کی اسراری وجود کی تصدیق کرتا ہے۔

    وہائٹ ہیڈ اور رسل نے ریاضیاتی علامت اور غیرریاضیاتی علامت کی توضیح کرتے ہوئے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ ریاضی درحقیقت اعدادی اوسط Statistical Average کی زبان میں بات کرتی ہے، جب کہ شاعری آفاقی حقیقت کے کسی مخصوص نمونے کو منور کرکے اس میں ڈرامائی تناؤ پیدا کر دیتی ہے۔ اس سلسلے میں فلپ ہابز بوم Phillip Hobsbaum کو سنیے۔

    ’’لہٰذا ریاضی کسی مقررہ صورت حال کی تجرید کرتی ہے۔ ہمیں اس کی عام سطح سے آگاہ کرتی ہے۔ اس کا اعدادی اوسط بتاتی ہے اورکسی منطقی پیٹرن Pattern کی شکل میں اس کی تعمیم کر دیتی ہے۔ جب کہ شاعری کو یوں سمجھیے کہ وہ کئی مقررہ صورت حالات میں سے کسی ایک کو منور کرتی ہے، اس کے خصائص بیان کرتی ہے اور اس کی معنویت اور اہمیت واضح کرتی ہے۔ ریاضی، آفاقی حقیقت کو کسی واحد فارمولے کے حدود میں پیش کرتی ہے۔ شاعری، آفاقی حقیقت میں ڈرامائی تناؤ اس طرح پیدا کر دیتی ہے کہ وہ اس کے کسی مخصوص نمونے کی گہرائیوں میں اتر جاتی ہے۔‘‘

    رسل نے بتایا ہے کہ الفاظ کی کارفرمائی صرف ان حقائق کو واضح کرنے تک محدود نہیں ہوتی جو ان کے ذریعہ ہمارے سامنے آتے ہیں۔ زبان کو اس کے معنی سے الگ کرکے سمجھنے کی کوشش کرنا بے فائدہ ہے اور کسی لفظ کے ایک متعین معنی ہونے کے باوجود اس کے کثیرالتعداد انسلاکات بھی ہوتے ہیں جو معنی کا درجہ رکھتے ہیں۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا احاطہ جدید ذہن ہی نے کسی حد تک کیا ہے۔ اس کی ایک بہت اچھی مثال ہابز بوم نے بلیک Black کے کلام سے ڈھونڈی ہے۔

    بلیک نے ایک نظم میں ’’تاریک شیطانی کارخانوں‘‘ کا ذکر کیا ہے۔ ایک نقاد نے کہا ہے کہ تاریک شیطانی کارخانے دراصل گرجا گھر ہیں۔ دوسرے نے کہا کہ یہ کپڑے کی ملیں ہیں۔ تیسرے نے کہاکہ یہ الفاظ جدید قاری کے ذہن میں صنعتی انقلاب کا تاثر لامحالہ پیدا کرتے ہیں۔ ایک اور نقاد نے کہا کہ ان الفاظ سے بلیک نے غالباً ’’صنعتی انقلاب کی تباہ کاریاں‘‘ مراد لی ہوں گی۔ سب سے اچھی بات ایک اور نقاد نے کہی کہ ان الفاظ کا فوری رد عمل اتنا شدید ہے کہ ان کے معنی کے قطعی تعین پر اتفاق رائے غیرضروری ہے۔ اس کی تفصیل میں جائے بغیر بھی یہ بات آسانی سے دیکھی جا سکتی ہے کہ لفظ کی پراسرار قوت کی اس توصیف وتمجید میں ایک مخصوص جدید رویے کی کارفرمائی ہے، جسے علامتی اسرار پرستی سے تعبیر کرنا غلط نہ ہوگا۔

    اس علامتی اسرار پرستی کی بڑی وجہ یہی ہے کہ جدید ذہن لفظ کی تذلیل کے خلاف احتجاج کرتا ہے۔ لفظ کی تذلیل کا ایک اہم لیکن غیرمحسوس اظہار اسرار کے فقدان میں نظر آتا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب زمین انسان کے سامنے ایک بند کتاب کی طرح تھی۔ چیزیں تھیں بھی اور نہیں بھی۔ بہت ساری چیزیں نئی تھیں اور بہت ساری چیزیں بےحد پرانی تھیں، اس قدر پرانی کہ ان کی اصل کا پتہ نہ تھا۔ انسان قدم قدم پر اسرار سے دوچار ہوتا تھا جو اسے متحیر بھی کرتے تھے، خوف زدہ بھی کرتے تھے، خوش بھی کرتے تھے اور غمگین بھی کرتے تھے۔ تیز رفتاری ایک جادوئی عمل تھا۔ آواز کو دور دور تک پہنچانا، چھپی ہوئی چیزوں کو دیکھ لینا، اگلی پچھلی باتوں کو جان لینا، یہ سب کرامتیں تھیں۔

    جدید سائنس اور سیاست اصلاً کس قدر نارس اور ناکام ہیں، یہ کم لوگ جانتے ہیں۔ روز کا مشاہدہ تو یہی ہے کہ اب کائنات میں کوئی راز باقی نہیں رہا۔ اب ہر چیزکے بارے میں فیصلہ ہو سکتا ہے کہ یہ ہے کہ نہیں ہے۔ انسان کی قوتیں بہ ظاہر غیرمعمولی کارنامے انجام دے رہی ہیں۔ نتیجہ یہ ہوا ہے کہ اب ہماری دنیا اسرار کے بجائے ریاضی کے فارمولے کی شکل اختیار کر گئی ہے۔ یہ صورت حال اتنی شدید ہو گئی ہے کہ جنوں، پریوں، دیویوں اور چڑیلوں کی وہ کہانیاں بھی ہمارے بچوں کو نہیں سنائی جاتیں جن پر آج سے تیس بتیس برس پہلے ہم پلے بڑھے تھے۔ کچھ دن ہوئے ایک انگریزی پبلشر نے بچوں کی کہانیوں کا نیا ایڈیشن شائع کیا ہے جس میں سے اس طرح کے تمام واقعات حذف کر دیے گئے ہیں، جن میں اسرار، خوں ریزی اور غیرانسانی طاقتوں کا ذکر تھا۔

    جدید ذہن کی تلاش یہ ہے کہ وہ دنیا کو ریاضی کے فارمولے کے بجائے ایک نرم گرم اور نیم روشن حقیقت کی طرح دیکھے، ایک ایسی دنیا جس میں اسرار کا سرچشمہ جاسوسی ناول اور سائنسی فکشن نہ ہو بلکہ وہ غیرقطعی اور نامانوس مگر ہرجگہ موجود رہنے والی حقیقتیں ہوں جن کی بنا پر انسان دنیا کو اپنا گھر سمجھتاہے اور پھر بھی خود کو اجنبی پاتا ہے۔

    لہٰذا جدید ذہن کی مخصوص نشانیاں یہ ہیں، ایک فطری بے اطمینانی اور نارسائی کا احساس، لفظ کا احترام اور وسیع المعنی ہونے کی وجہ سے اس کی علامتی حیثیت کی تصدیق، اپنی ذات (کائنات صغریٰ) میں اور اپنی ذات کے باہر (کائنات کبریٰ) بھی اسرار کی تلاش۔ جدید ذہن (جدید نقاد جس کا نباض ہے) غالب کے کلام کی جس صفت کی طرف سب سے پہلے متوجہ ہوتا ہے وہ اس کی طلسمی اور اسراری فضا ہے۔ یہ فضا چند الفاظ کے استعمال سے وجود میں آئی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ الفاظ صرف غالب ہی نے استعمال کیے ہیں مگر ایسا ضرور ہے کہ ان میں سے کچھ الفاظ غالب کے علاوہ دوسروں نے بہت کم استعمال کیے ہیں اور یہ سارے کے سارے الفاظ غالب کے یہاں جس کثرت سے آئے ہیں، اس کی مثال اردو شاعری میں کہیں نہیں ملتی، میرواقبال کے یہاں بھی نہیں۔ حالانکہ ان دونوں کے کلام میں بھی طلسم اور اسرار کی فضا ملتی ہے۔
     
    غالب کے یہاں طلسمی فضا کی شدت وقوت کی دو خاص وجہیں ہیں۔ ایک تو یہ کہ انھوں نے ان الفاظ کو بعض ایسے Combination میں استعال کیا ہے جو نہ صرف انوکھے ہیں بلکہ توسیع معنی کا کام کرتے ہیں، جیسا کہ میں پہلے کہہ چکاہوں، طلسمی فضا خلق کرنے والے الفاظ میں بعض ایسے ہیں جو غالب کے علاوہ دوسروں نے کم استعمال کیے ہیں اور فضا خلق کرنے والے تمام الفاظ کی تکرار جس حد تک غالب کے یہاں ہے اس حد تک اور کہیں نہیں ملتی۔ لیکن دوسرا نکتہ یہ ہے کہ ان تمام الفاظ کو بہت آسانی سے کئی الگ الگ لڑیوں میں پرونا ممکن ہے اور آخری تجزیہ میں یہ سب لڑیاں باہم دگر مربوط اور منسلک معلوم ہوتی ہیں۔ اس طرح ایک دائرہ بن جاتا ہے، جس میں آغاز اور اختتام یکجا ہو جاتے ہیں۔

    میں اس بات کی وضاحت دوبارہ کرنا چاہتا ہوں کہ طلسمی فضا سے میری مراد محض اس قسم کی فضا نہیں ہے جو تخلیق معنی کے بجائے تخلیق تاثر کا کام کرتی ہے۔ تخلیق تاثر کو معنی سے بہت ہلکا علاقہ ہوتا ہے۔ تاثر اور انسلاک Association ایک ہی چیز نہیں ہیں۔ یہ ممکن ہے کہ کوئی شعر چند الفاظ کے سہارے کوئی تاثر چھوڑ جائے لیکن ان الفاظ میں معنی کی کوئی گہرائی یا پیچیدگی نہ ہو اور جو تاثر پیدا ہو وہ با معنی تو ہو، لیکن معنی خیز نہ ہو، مثلاً سودا کا یہ شعر دیکھیے،

    اے ساکنان کنج قفس صبح کو صبا
    سنتی ہی جائےگی سوئے گلزار، کچھ کہو

    یہ شعر انتہائی خوش گوار تاثر پیدا کرتا ہے اور اس تاثر کا وجود جن الفاظ کا مرہون منت ہے، وہ کسی علامتی نظام سے پیوستہ نہیں ہیں، بلکہ ایک روایتی Conventional اسکیم کے پابند ہیں۔ مثلاً ’’صبا‘‘ کے ساتھ ’’صبح‘‘ کا تصور ایک Convention ہے۔ اگر مصرع یوں ہو جائے،

    اسے ساکنان کنج قفس رات کو صبا

    تو معنویت میں کچھ فرق نہیں آئےگا، اگرچہ تاثر کم ہو جائےگا (یہاں زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس شعر کا تاثر ہی اس کی معنویت ہے۔) اسی طرح ’’قفس‘‘ کے ساتھ ’’گل زار‘‘ کا لفظ بھی ایک Conventional اسکیم کے ماتحت ہے۔ اگر مصرع یوں ہو جائے ع سنتی ہی جائےگی سوئے دل دار کچھ کہو، تو بھی لطف میں تخفیف کے باوجود معنی میں کوئی خاص فرق نہیں پڑےگا۔ اس طرح اس شعر میں کنج قفس، صبح، گل زار، معنی سے زیادہ فضا خلق کر رہے ہیں۔ اس کی برخلاف اس غزل کا مقطع پڑھیے،

    عالم کی گفتگو سے تو آتی ہے بوئے خوں
    سوداہے اک نگہ کا گنہگار کچھ کہو

    ’’گفتگو‘‘ اور بوئے خو‘‘ میں روایتی ربط نہیں ہے، اس طرح ’’اک نگہ کا گنہگار‘‘ ہونا اور پھر ’’کچھ کہو‘‘ یا کچھ کہنے یا کچھ سننے کی آرزو کرنا روایت سے زیادہ استعارے کی بندش میں بندھے ہوئے ہیں، ورنہ گفتگو میں کوئی بو نہیں ہوتی اور نہ گنہگار نگہ کچھ کہتی یا سنتی ہے، لہٰذا اس شعر میں بےچارگی اور خوف کی جو فضا ہے وہ معنوی حکم رکھتی ہے، تاثراتی نہیں۔ اس کے کلیدی الفاظ ’’عالم کی گفتگو‘‘، ’’بوئے خوں‘‘، ’’ نگہ کا گنہگار‘‘ اور ’’کچھ کہو‘‘ اگر بدل دیے جائیں تو شعر کسی کام کا نہ رہےگا۔

    غالب کی طلسمی فضا بذات خود بامعنی ہے۔ اگر بذات خود بامعنی نہ بھی ہوتی تو بھی ایک غیرمعمولی قوت اور کشش کی حامل ہوتی، کیونکہ جیسا کہ میں پہلے کہہ چکاہوں، یہ طلسمی دنیا ہمارے عہد کے ریاضیاتی اور بنجر عقلیت کے صحرا کا ایک خوبصورت اور مقصود بالذات بدل ہوتی ہے، لیکن بجائے خود معنی خیز ہوکر اس طلسمی دنیا نے وہ مرتبہ حاصل کر لیا ہے جو ہمیں شیکسپیئر اور De La Mare میں فرق کرنا سکھاتا ہے۔ خود ہمارے یہاں بھی مثلاً منیر نیازی سے لے کر عادل منصوری تک جو طلسماتی دنیا ملتی ہے وہ مکمل طور پر معنی خیز نہیں بن پائی ہے، (کیونکہ اس کی مختلف علامات باہم دگر پیوست نہیں ہیں۔) غالب کی دنیا ایک دائروی شکل رکھتی ہے، اس لیے قائم بالذات ہے۔ منیر نیازی اور عادل منصوری ابھی مختلف لکیروں کو دائرے کی شکل نہیں دے سکے ہیں، اس لیے ان کے یہاں غیرتکمیلیت کا احساس ہوتا ہے۔

    غالب کی طلسمی دنیا کے مکمل ہونے یعنی معنی خیز ہونے سے میری کیا مراد ہے، اس کی وضاحت شاید چنداں ضروری نہ ہو۔ پھر بھی مثال کے طور پر کسی جنوں پر یوں والی کہانی کا تصور کیجئے۔ ایک بدمزاج پری جو بادشاہ سے ناراض ہے، شہزادی کی شادی کے وقت اس کے سر میں ایک کیل ٹھونک دیتی ہے، جس کے نتیجے میں شہزادی چڑیا بن کر اڑ جاتی ہے۔ اگر شہزادی کے سر میں ٹھونکی ہوئی کیل محض ایک پراسرار واقعہ ہے تو اپنی جگہ پر شاید قوت رکھنے کے باوجود اسے کسی معنوی نظام کا رکن سمجھنا ممکن نہ ہوگا۔ لیکن اگر اس واقعے کے کچھ علامتی یا استعاراتی پہلو بھی ہیں (مثلاً سر میں ٹھونکی ہوئی کیل دراصل زمین کے بنجر Infertile ہو جانے یا انسانی روح کو زنجیر پہنانے یا بالغ ہونے کے اسرار میں Initiation کا استعارہ ہے یا ان کیلوں کی علامت جو مصلوب کرتے وقت جسم میں ٹھونکی جاتی ہیں۔) تو فوراً ایک معنوی نظام برپا ہو جاتا ہے۔

    اس معنوی نظام کا جواز خود اس کے اندر موجود ہوتا ہے۔ جیسا کہ والیری Valery نے کہا ہے، ’’نقاش کا کام یہ ہے کہ وہ ان چیزوں کی تصویر کشی کرے جو دکھائی دینی چاہئیں نہ کہ ان چیزوں کی جو دکھائی دیتی ہیں۔‘‘ وہ چیزیں جو دکھائی دینی چاہئیں، دراصل وہ علامتی مفاہیم ہیں جو اصل شے کو اکثر پس پشت ڈال دیتے ہیں۔ اسی بات کو والیری نے یوں بھی کہا ہے کہ میں ایک مبہم فکر کو ایک روشن فکر کے بدلے قبول کر لیتا ہوں۔ ابہام شاعرانہ معنویت کا جزو لازم ہے لیکن اسے خود کفیل ہونا چاہیے۔ یعنی اس ابہام کے ذریعہ جو دنیا خلق کی جائے، اس میں تکمیل کا پہلو آغاز اور انجام کی شکل میں نہ ہو، بلکہ ایک آزاد نمو ( (Free Growth کے طور پر ہو۔ ایسی دنیا میں ہر چیز ایک دوسرے سے اس طرح پیوستہ ہوتی ہے کہ سفید وسیاہ کا فرق مٹ جاتا ہے۔ اس تمہید کی روشنی میں مندرجہ ذیل فہرست پر غور کیجئے،

    شوق، جلوہ، وحشت، حیرت، تماشا، آئینہ، جوہر
    جوہر، طوطی، سبزہ، لالہ، سویدا، سیاہ
    سیاہ، داغ، دود
    دود، شرر، بجلی، برق، خورشید، شمع، آتش، چراغ، شعلہ
    شعلہ، موج، دریا، بحر
    بحر، حلقہ دام، تار، زنجیر
    زنجیر، نالہ، فغاں، خموشی، خندہ، نوا، آواز، زخم
    زخم، نگہ، چشم، نظر، دیدہ، انتظار، خواب
    خواب، عدم
    عدم، دشت، صحرا، بیاباں، خاک، ذرہ، غبار، جادہ
    جادہ، نقش، تپش
    تپش، تصویر، طاؤس، نقش
    نقش، نیرنگ، طلسم
    طلسم، جلوہ، آئینہ، صحرا، خواب۔

    ان الفاظ کی مخصوص معنویتیں بھی ہیں۔ لیکن ان کے روزمرہ کام میں آنے والے معنی اور ان کے ذریعہ وجود میں آنے والے پیکر اور تراکیب بھی اپنی اہمیت رکھتے ہیں۔ یہ بات قابل لحاظ ہے کہ اگر ان الفاظ کی جگہ کوئی بھی (مانوس یا نامانوس) دوسرے لفظ رکھ دیے جائیں تو چاہے وہ انھیں الفاظ کی طرح ایک دوسرے سے متحد ہوں لیکن جدید ذہن کے لیے وہ کیفیت نہیں پیدا کر سکتے جو غالب کے کلام میں اس وقت اسے ملتی ہے۔ اس کی وجہ ظاہر ہے، مختلف الفاظ کے اس گروہ میں کئی ایسی باتیں مشترک ہیں جو دوسرے کسی گروہ میں یکجا ہونا مشکل ہے۔

    سب سے پہلی بات یہ ہے کہ الفاظ بہ یک وقت مختلف بلکہ اکثر متضاد مفاہیم کے حامل ہوسکتے ہیں، مثلاً آئینہ اور دیدہ کے داخلی معنی ایک دوسرے سے بہت قریب ہیں۔ آئینہ کی حیرانی مشہور ہے۔ دیدہ حیراں بھی جانا بوجھا ہے۔ وہ آنکھ بھی، جو آئینے میں خود کو دیکھتی ہے، حیران ہو سکتی ہے اور وہ آئینہ بھی جس میں آنکھ منعکس ہے، حیران ہو سکتا ہے، آنکھ کے بغیر آئینے کا وجود بے معنی ہے لیکن آئینہ خود بھی آنکھ بن سکتا ہے، گویا وہ چیز جو دیکھی جائے (آئینہ) دیکھنے والی چیز (آنکھ) بن سکتی ہے۔ پھر یہ بھی ممکن ہے کہ آنکھ خود آئینے کا کام دے (یعنی عکس اس میں جلوہ گر ہو) اس طرح آئینہ اور آنکھ کی قلب ماہیت ہو جاتی ہے مثلاً یہ اشعار دیکھیے،

    (۱)
    اپنے کو دیکھتا نہیں ذوق ستم تو دیکھ
    آئینہ تاکہ دیدۂ نخچیر سے نہ ہو

    اس شعر میں قلب ماہیت کا عمل ایک روز مرہ کی سی صورت حال اختیار کر گیا ہے۔ شکار کے دیدۂ حیراں میں عکس معشوق جلوہ گر ہے۔ اس طرح دیدہ حیراں آئینہ بن جاتا ہے (یعنی اور بھی حیران ہو جاتا ہے۔) وہ آنکھ جس میں معشوق جلوہ نما ہے اور جس کو دیکھ کر معشوق اپنی تزئین کرتا ہے، گویا نظارہ جمال کی وہ منزل ہے جہاں معشوق کے دل میں احساس جمال کو اجاگر کرنے کے لیے چشم عاشق کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر عاشق کی آنکھ نہ ہو تو معشوق کاحسن بے معنی ہے (۱)۔ لیکن یہی آنکھ آئینہ بھی ہے جو کہ معشوق کو وجود حسن کا احساس دلانے کا دوسرا ذریعہ ہے کیونکہ آئینے کا وجود ہی اس لیے ہوا ہے کہ جمال معشوق اس میں منعکس ہو اور اس طرح پری جلوے پر عاشق ہو جائے۔

    (۲)
    ہوا ہے مانع عاشق نوازی، ناز خود بینی
    تکلف بر طرف آئینۂ تمیز حاصل ہے

    یہ ناز خودبینی جو آئینے کی وجہ سے پیدا ہوا ہے، خود تمیز حاصل کا آئینہ بن جاتا ہے۔ مگر بات یہیں رکتی نہیں۔ آئینے میں چہرے کا عکس یوں ہے گویا پری شیشے میں اتر آئی ہے (جیسا کہ میں نے اوپر کہا، پری جلوے پر عاشق ہو جاتی ہے) لیکن آئینہ پھر آئینہ کہاں رہتا ہے، وہ آنکھ میں تبدیل ہو ہی چکا ہے اور اب اسے دل میں تبدیل ہونا ہے۔ دل جو خون ہو جاتا ہے اور خود بھی آئینہ ہوتا ہے۔ بیدل کا شعر ہے،

    نیرنگیٔ گلشن نہ شود پیہم سفر گل
    آئینہ ز خود می رود و جلوہ مقیم است

    اب اس کی روشنی میں غالب کا شعر پڑھیے،

    (۳)
    پری بہ شیشہ و عکس رخ اندر آئینہ
    نگاہ حیرت مشاطہ خوں فشاں تجھ سے

    آئینہ جو بے خود ہو گیا ہے کیونکہ جلوہ اس میں مقیم ہے، وہی دل ہے جو دیدار کی حسرت میں خون ہو رہا ہے۔ پری کا سرخ جلوہ جو آئینے میں مقیم ہے دراصل نگاہ حیرت مشاطہ کی خوں فشانی ہے اور مشاطہ بھی دراصل آئینہ ہی ہے، کیونکہ ناز خود بینی کا احساس معشوق کو آئینہ سے ہی ہوتا ہے۔ معشوق آئینے میں خود کو دیکھ سکتا ہے اور آئینہ آنکھ ہے مگر پھر بھی وہ معشوق کو دیکھنے سے قاصر ہے۔

    (۴)
    دل خوں شدۂ کش مکش حسرت دیدار
    آئینہ بہ دست بت مست حنا ہے

    آئینہ بہ معنی دل، بہ معنی آنکھ اور آنکھ بہ معنی آئینہ کی جو توضیح مختصراً اوپر پیش کی ہے اس کے پیچھے صوفیانہ اور اسراری فکر کا ایک طویل سلسلہ ہے، غالب جس کے وارث تھے۔ ان تینوں بنیادی کرداروں کی قلب ماہیئت جس ڈھنگ سے غالب کے یہاں ہوتی ہے وہ اس طلسمی دنیا کا خاصہ ہے جس میں شہزادی چڑیا بن جاتی ہے، پھول حوض بن جاتا ہے اور دریا سانپ کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ اس طلسمی قلب ماہیئت کی کارفرمائی صرف آئینہ اور دیدہ تک محدود نہیں ہے۔ ان دو الفاظ کو میں نے محض اس بات کی مثال کے طور پر پیش کیا ہے کہ متذکرہ بالا مخصوص الفاظ کی ایک معنوی خوبی یہ ہے کہ ان میں سے اکثر الفاظ متضاد مفاہیم کے متحمل ہو سکتے ہیں۔

    غالب کے ان مخصوص الفاظ میں دوسری مشترک خصوصیت یہ ہے کہ یہ سب کے سب معروضی اشیاء کا حکم رکھتے ہیں۔ مگر ان میں غیرمعروض یعنی تجرید کا عنصر تقریباً اتنا ہی واضح ہے جتنا کہ معروضی ہیئت کا۔ حتی کہ طلسم، نقش اور نیرنگ جیسے الفاظ بھی معروض اشیاء کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ دوسری طرف (یعنی معروض کا موضوع میں بدل جانا) آنکھ سے نگاہ، نگاہ سے جلوہ، جلوہ سے خواب اور خواب سے عدم کا سفر بھی بہ یک قدم طے ہو جاتا ہے،

    یاس و امید نے یک عربدہ میداں مانگا
    عجز ہمت نے طلسم دل سائل باندھا

    ذرہ ذرہ ساغر مے خانۂ نیرنگ ہے
    گردش مجنوں بہ چشمک ہائے لیلیٰ آشنا

    طلسم مستیٔ دل آل سوئے ہجوم سر شک
    ہم ایک مے کدہ دریا کے پار رکھتے ہیں

    نگاہ دیدۂ نقش قدم ہے جادۂ راہ
    گذشتکاں اثر انتظار رکھتے ہیں

    نقش کو اس کے مصور پر بھی کیا کیا ناز ہیں
    کھینچتا ہے جس قدر اتنا وہ کھینچا جائے ہے

    اس طرح کے بہت سے اشعار ہیں جن میں نقش، طلسم اور نیرنگ کو کسی معروضی حقیقت سے اس طرح پیوست کر دیا گیا ہے کہ وہ خود معروض کی شکل اختیار کر گئے ہیں، مثلاً تیسرے شعر میں طلسم مستیٔ دل اور پہلے شعر میں طلسم دل سائل اور چوتھے شعر میں نگاہ دیدہ نقش قدم تجرید کی سطح سے الگ ہوکر تجرید اور معروض کے درمیان اس لیے معلق ہیں کہ طلسم سائل پر عجز ہمت کی ناکام صورت اور یاس وامید کی صف آرائی کے لیے عربدہ میدان کا پیکر موجود ہے۔ مستیٔ دل کا طلسم دریا کے پار لہلہاتے ہوئے مے کدے اور دیدہ نقش قدم کی چمک گزرے ے ہوؤں کی چشم انتظار سے اس طرح مربوط ہیں کہ وہ طلسم، طلسم ہی نہیں ہے اور وہ نقش، نقش ہی نہیں ہے۔

    تیسری خصوصیت جو ان الفاظ میں مشترک ہے ان کی غیرقطعیت ہے۔ اس معنی میں کہ یہ ایسی علامتوں کا حکم رکھتے ہیں جو دوسری علامتوں کے جھرمٹ میں اپنا رنگ بدل لیتی ہیں۔ مثلاً زخم کا کھلنا یا ہنسنا، یا دہان زخم کی گفتگو ایک بنیادی استعارے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ایسا بنیادی استعارہ جو علامت کی شکل اختیار کر گیا ہے، چنانچہ خندۂ زخم یا دہان زخم دراصل انسان کی بنیادی بے زبانی اور ترسیل کی کوشش کی نارسائی کی علامت ہیں،

    جب تک دہان زخم نہ پیدا کرے کوئی
    مشکل کہ تجھ سے راہ سخن وا کرے کوئی

    معشوق سے راہ سخن وا کرنے کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ کہ دہان زخم کی گونگی زبان استعمال کی جائے۔ لسانی اظہار اس قدر ناکام ہے کہ خاموشی اس سے زیادہ با معنی اظہار بن گئی ہے۔ اپنی بنیادی غیرقطعیت کی بنا پر زخم کا یہی علامتی استعارہ نئے نئے رنگ اختیار کرتا چلتا ہے،

    ہم غلط سمجھے تھے لیکن زخم دل پر رحم کر
    آخر اس پردے میں تو ہنستی تھی اے صبح وصال

    زخم نے داد نہ دی تنگیٔ دل کی یا رب
    تیر بھی سینۂ بسمل سے پر افشاں نکلا

    سر کھجاتا ہے جہاں زخم سر اچھا ہو جائے
    لذت سنگ بہ اندازۂ تقریر نہیں

    دوسرے اور تیسرے شعر میں زخم کی نوعیت بہ ظاہر روایتی ہے۔ لیکن حقیقت میں ایسا نہیں۔ تنگیٔ دل کی بنا پر زخم بھی تنگ رہا، کھل نہ سکا اور پتھر کھانے کی لذت تقریر کے احاطے سے باہر ہے۔ دل کی تنگی اور زخم کی تنگی بھی اظہار کی نارسائی کی علامت ہیں۔ اور سر میں لگا ہوا زخم خود اپنی لذت کے اعتبار سے ماورائے بیان ہے۔ گویا زخم بیان کی تنگی کا استعارہ ہے اور اس کی ہنسی کھلتی ہوئی صبح کی ہنسی ہے جو زخم دل کو چھٹتی ہوئی شفق کی طرح پارہ پارہ کر دیتی ہے۔ خندۂ زخم کو غلط سمجھنے سے مراد یہ ہے کہ ہم نے اسے شام وصال کی آمد بیعانہ سمجھا تھا لیکن وہ دراصل صبح وصال کی سفیدی تھی جو زخم کے اندر سے ہڈی کی شکل میں جھانک رہی تھی۔

    مختلف اور متضاد مفاہیم کے حامل غالب کے یہ مرکزی الفاظ جو معروض بھی ہیں اور موضوع بھی اور جو جگہ جگہ رنگ بدلنے کے باوجود ہر جگہ اپنے بنیادی علامتی منظر سے پیوست رہتے ہیں، اپنی کیفیت اور اپنے معنی دونوں کے لحاظ سے غالب کے باب طلسم کی کلید ہیں۔ اس طلسم کا نقشہ چند لفظوں میں بنایا جا سکتا ہے۔ یہاں وہ چیزیں جو بہ ظاہر موجود معلوم ہوتی ہیں، دراصل موجود نہیں ہیں۔ کوئی چیز اپنی اصلی شکل میں نہیں ہے اور کسی ایک شکل پر قائم بھی نہیں ہے،

    ہوں بہ وحشت انتظار آوارہ دشت خیال
    اک سفیدی مارتی ہے دور سے چشم غزال

    ہر قدم دوریٔ منزل ہے نمایاں مجھ سے
    میری رفتار سے بھاگے ہے بیاباں مجھ سے

    درس عنوان تماشا بہ تغافل خوش تر
    ہے نگہ رشتۂ شیرازۂ مژگاں مجھ سے

    انتظار آوارہ دشت خیال کو دور سے سفیدی مارنے والی چشم غزال خود دشت خیال میں بند ہے، یعنی معدوم ہے۔ منزل اور تیزی رفتار میں جو رشتہ ہے وہ خود بیاباں کے سرگرم سفرہونے کے باعث منقلب ہو گیا ہے۔ عنوان تماشا تغافل کے ذریعہ بہ طریق احسن سیکھا جا سکتا ہے۔ تماشا ضروری ہے لیکن یہ تماشا تبھی ہوگا جب تماشائی نہ ہو۔ ان اشعار کو لفاظی اور قول محال سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا۔ دراصل اس قسم کے مابعد الطبیعیاتی اور اسراری تجربے کا اظہار ہے جس کے لیے یے ٹس Yeats نے غالب کے کچھ ہی دنوں بعد (غالب کی وفات ۱۸۶۹ء یے ٹس کی پیدائش ۱۸۶۵ء) زندگی میں موت یا موت میں زندگی کا استعارہ وضع کیا تھا۔

    یے ٹس اور غالب میں کئی باتیں مشترک ہیں۔ علی الخصوص یہ کہ دونوں روزہ مرہ کی دنیا کی تاویل اور تعبیر اپنی ایک دنیا بناکر کرتے ہیں، جس میں مشاہدے کی قدر آنکھوں کی محتاج نہیں ہوتی۔ آج ہم جو غالب اور یے ٹس کی طرف بار بار رجوع کرتے ہیں وہ اسی وجہ سے کہ یہ دونوں جدید انسان کی کس مپرسی کو ایک ایسی دنیا میں پناہ دیتے ہیں جو اس دنیا سے بہت قریب ہے، جس کی یادیں جدید انسان کے اجتماعی لاشعور میں پوشیدہ ہیں۔

     

    مأخذ:

    شعر، غیر شعر اور نثر (Pg. 41)

    • مصنف: شمس الرحمن فاروقی
      • ناشر: ڈائرکٹر قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 2005

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے