Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

غالب کا ایک فرنگی شاگرد آزاد فرانسیسی

عبد الماجد دریابادی

غالب کا ایک فرنگی شاگرد آزاد فرانسیسی

عبد الماجد دریابادی

MORE BYعبد الماجد دریابادی

     

    پچھلے نمبر کے شذرات (معارف) میں اردو کے چند فرنگی شاعروں کا جو مختصر تذکرہ آ گیا تھا، ناظرین کرام نے اس سے دلچسپی کا اظہار کیا اور احباب کو یہ داستان خوشگوار اور پر لطف معلوم ہوئی۔ ان حضرات کی ضیافت ذوق کے لئے ایک فرنگی شاعر کا ذکر کسی قدر تفصیل کے ساتھ کیا جاتا ہے۔

    الگزینڈر ہیدر لی ایک فرانسیسی خاندان کے رکن تھے 1 ولادت غالباً ہندوستان ہی میں ہوئی تھی۔ سال ولادت تقریبا 1829ء۔ اٹھارہ سال کی عمر سے اردو شاعری کا شوق پیدا ہوا۔ مشورۂ سخن کے لئے کلام نواب زین العابدین خاں عارف 2 (شاگرد عزیز مرزا غالب) اور خود غالب کی خدمت میں بھیجنا شروع کیا۔ ان حضرات کا فیض توجہ کہیئے یا خود آزاد کی طباعی کہ کچھ ہی روز میں اچھی خاصی مشق حاصل کر لی، اور کلام میں وہ پختگی آ گئی جو ایک غیر قوم کے فرد کے لئے بہت بڑی بات ہے۔ عمر نے وفا نہ کی۔ کل 32 سال کی عمر میں7 جولائی1861ء کو انتقال کیا۔ تا ہم اس نو عمری میں کلام کا مجموعہ جس قدر ہو گیا تھا، وہ اوسط ضخامت کے دیوان کے لئے کافی تھا۔ چنانچہ وفات کے دو ہی برس بعد ان کے برادر کلاں طامس ہیدر لی نے اس دیوان کو شائع کر دیا۔

    تخلص آزادؔ کرتے تھے۔ اس لئے دیوان ہی دیوان آزادؔ کے نام سے موسوم ہے۔ ضخامت 170 صفحہ ہے۔ مطبع احمدی آگرہ سے 1863ء میں شائع ہوا۔ اب بازار میں نایاب ہے۔ میرے پیش نظر کتب خانہ سرکاری رام پور کا نسخہ ہے۔

    ابتدا میں دو دیباچے ہیں۔ پہلا دیباچہ فارسی میں منشی شوکت علی ساکن شاہ پور ضلع فتح پور کا ہے۔ اب یہ صاحب خود گمنام اور محتاج تعارف ہیں۔ اپنے زمانہ میں معلوم ہوتا ہے کہ مشہور منشیوں میں شمار ہوتے تھے۔ طرز بیان تقریظ نگاروں کے عام دستور کے مطابق شاعرانہ اور بعض بیانات مبالغہ آمیز۔ حمد و نعت کے بعد تحریر فرماتے ہیں،

     ’’فنائے ہنر مندو گوہر ذکا پیوند خدا وند عقل و تمیز صاحب فراست و ہر دلعزیز، مستعد ازلی الگزینڈر ہیدر لی کہ ذہن و ذکاء و خلقش ضمیر بود و سعادت و مروت اور ضمیر جا پذیر درس ہیز وہ سالگی بہ شنیدن، اشعار اساتذہ متقدمین و متاخرین طبع و قاوش در تحصیل کمالش توجہ نموو گاہ گاہ ہنگام فرصت، بمطالعہ تصانیف اوستادان پرداختے، ویا محتشم الدولہ امیر الملک محمد اسد اللہ خاں بہادر سہراب جنگ غالب متخلص و نواب زین العابدین خاں متخلص بہ عارف کہ ہر دو حضرت از اکابر امرا والادوومان دلی بودند بذریعہ مراسلات و مکاتبات استمداد سخن داشتے۔‘‘

     آگے چل کر اسی دیباچے میں یہ ذکر ہے کہ ہیدر لی کو طب میں بھی ید طولیٰ حاصل تھا۔ مریض عموماً ان کے علاج سے شفا یاب ہوتے تھے، مزاج میں سخاوت و فیاضی حد سے بڑھی ہوئی تھی۔ دوائیں بلا قیمت تقسیم کرتے اور دوسرے طریقوں سے بھی غربا کی دستگیری کرتے رہتے۔ خود عسرت سے بسر کرتے لیکن دوسروں کی حاجت روائی کے لئے قرض لینے سے بھی دریغ نہ کرتے۔ ریاست الور میں توپخانہ کے کپتان مقرر ہو کر گئے۔ اسی سال وفات پائی۔

    دوسرا دیباچہ اردو میں ہے اور یہ آزاد کے بڑے بھائی طامس ہیدر لی کے قلم سے نکلا ہے۔ یہ ریاست بھرت پور میں ڈپٹی کلکٹر تھے۔ یہ دیباچہ ذیل میں تمام و کمال درج کیا جاتا ہے۔ آج سے 80-85 سال قبل کی ایک فرانسیسی کی اردو نثر کا نمونہ بجائے خود ایک یاد گار شے ہے۔

    نیاز مند درگاہ لم یزل طامس ہیدر لی ابن مسٹر جیمس ہیدرلی مرحوم بیان کرتا ہے اور اپنا راز دل صاحب دلوں پر یوں عیاں کرتا ہے کہ میرا حقیقی چھوٹا بھائی کپتان الگزینڈر ہیدر لی جوان سعادتمند شیریں، زبان دانش پیوند ابتدائے عمر میں شعر و سخن کا مائل ہوا۔ اور چند روز میں جیسا چاہئے مایہ سخنوری و معنی گستری اس کو حاصل ہوا۔ کیونکر نہ ہو طبیعت دراک تھی، فکر چالاک تھی، جو کچھ دل سے زبان تک اور زبان سے قلم تک آیا، اس نے گلہائے معنی کا ایک تختہ خوش رنگ دکھایا۔ رفتہ رفتہ اس کے کلام کی وہ صورت ہوئی کہ ہم فنون کو رشک ہوا اور دانش مندوں کو حیرت ہوئی۔

    نواب زین العابدین خاں دہلی کے امیر زادہ عالی خاندان جو عارف تخلص کرتے تھے اور جناب نجم الدولہ اسد اللہ خاں بہادر غالب کے شاگرد تھے، وہ اس کے استاد تھے اور اس نوجوان کو اپنے استاد اور اپنے استاد کے استاد کے انداز پیش نظر تھے۔ اور اکثر ان کے اشعار یاد تھے۔ ہنوز برادر موصوف بہت کچھ کہنے نہ پایا تھا، بلکہ میں کہہ سکتا ہوں کہ جو کچھ اس کے دل میں تھا، ابھی اس کی زبان پر نہ آیا تھا کہ نا گاہ وقت ناگزیر آ پہنچا اور اس سعادت مند ازلی کو پیغام اجل آ پہنچا۔ چونکہ سرکار الور میں عہدہ کپتانی پر مامور تھا۔ دنیا سے سفر کرتے وقت میری نظر سے دور تھا۔ ایسا لئیق ہو نہار بھائی جس نے کل دو اوپر تیس برس کی عمر پائی۔ ساتویں جولائی 1861ء کو کام تمام ہوا۔ اس غم کا جس قدر بیان کیجئے، اس سے سوا ہے جو اپنا حال بنا ہے اور جس قدر غم کیا جائے بجا ہے۔ ایں ماتم سخت است کہ گویند جواں مرد، افسوس نہ فریاد میں فائدہ دیکھا نہ رونے میں تاثیر پائی، بہت روئے پیٹے، آخر صبر کرتے بن آئی۔

    اشعار اس مرحوم کے جو پریشاں جا بجا پڑے پائے گویا سونے میں زمرد اور یاقوت کے نگینے جڑے پائے۔ خیال آیا کہ جواہر کو بکھرا پڑا نہ رہنے دیجئے اور ان سب اشعار کو ردیف وار جمع کر کے دیوان مرتب کیجئے تاکہ جو کوئی دیکھے وہ کہے کہ اگر چہ اس شخص کی تھوڑی زندگی تھی مگر واہ اس قلیل مدت میں کیا گہر افشانی تھی۔ نہیں نہیں یہ بات نہیں ہے مجھ کو یقین ہے کہ یہ جو کاغذ پر سیاہی سے لکھے گئے ہیں سو اس کے ماتم میں سیہ پوش ہوئے ہیں۔ الٰہی یہ مجموعہ اشعار مقبول طبع ہر سخنور ہو اور الگزینڈر ہیدر لی کی روح کو حضرت یسوع کے قدم مبارک میں مغفرت میسر ہو۔

    دیوان کی ابتداء قصیدہ، حمد و وحدت سے ہوتی ہے۔ اس کے بعد مسدس نعت مسیح ہے۔ انہی صفحوں میں مختلف اعزہ، احباب اور والیان ریاست کی شان میں قصائد ہیں۔ بعض اچھے خاصے طویل ہیں۔ صفحہ 401 سے صفحہ 156 تک دیوان غزلیات ہے۔ باقی صفحہ 65 تک متفرق قطعات، مخمس، مرثیہ وغیرہ ہیں۔ حمد میں بالکل وہی رنگ ہے جو ایک مسلمان شاعر کا ہوتا ہے۔ توحید باری کی توصیف ہر شعر میں ہے اور اس پر طرح طرح کے شاعرانہ استدلالات کئے ہیں۔ مسدس مسیحی اس لحاظ سے دلچسپ ہے کہ اس کا رنگ بالکل وہی ہے جو مسلمان شعرا کا نعت محمدی میں ہوتا ہے۔ وہی ذوق و شوق وہی تفرع و الحاج اور وہی وابستگی و اعتماد و شفاعت۔

    تیری رحمت حامی رزق گدایان یا مسیح
    تیری بخشش تاج بخش تاجداران یا مسیح

    تیری شفقت ہر کس و ناکس کی خواہاں یا مسیح
    ہے تجھی سے نیک و بد کی مشکل آساں یا مسیح

    ساقی کونین و شاہ دو جہاں تو ہی تو ہے
    یا مسیحا چارہ ساز عامیاں تو ہی تو ہے

    زبان میں اگر کوئی ناہمواری نظر آئے تو زبان دان حضرات گرفت کرنے سے پیشتر یہ یاد کر لیں کہ شاعر ایک غیر ملک اور غیر قوم کا شخص ہے جس کی مادری زبان کو اردو سے کوئی مناسبت نہیں، ایک اور بند اسی مسدس کا،

     خسرو از بسکہ میں میری خطائیں بے حساب
    عاصیان دہر میں اعلا نہیں میرا جواب

    قابل دوزخ ہوں میں اور لائق قہر و عتاب
    عین نصفت ہے جہاں تک مجھ پہ ہوں رنج و عذاب

    اور کچھ چارہ نظر آتا نہیں اپنا مجھے
    تیری الفت پر توکل ہے شفاعت کا مجھے

    ایک مخمس میں مرزا غالبؔ کی غزل ’’تمہیں بتاؤ یہ انداز گفتگو کیا ہے‘‘ کی تضمین کی ہے۔ پہلا بند یہ ہے،

    بلا سے میں نہ سہی خاک بھی اعدو کیا ہے 
    تمہیں اسی کی قسم اس کی آبرو کیا ہے
    زبان شوخ بیاں کا یہ حسن خو کیا ہے 
    ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے
    تمہیں بتاؤ یہ انداز گفتگو کیا ہے

    آخری بند یہ ہے،
    کہا جو میں نے کہ غالب نظر نہیں آتا
    نیاز آپ کی خدمت میں اب نہیں لاتا
    تو بولے بہید کو آزاد تو نہیں پاتا
    ہوا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا
    و گرنہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے

    ایک اور مخمس میں ناسخ کی مشہور غزل ’’میرا سینہ ہے مشرق آفتاب داغ ہجراں کا‘‘ کی بھی تضمین کی ہے۔

    اپنے استاد نواب زین العابدین خاں عارفؔ کاطویل مرثیہ کہا ہے۔ اور بعض بعض شعر خوب نکالے ہیں۔ نمونہ حاضر ہے،

    اے اہل دید دیکھ لو آنکھوں سے کیا ہے آج  
    میں کیا کہوں کہ دہر میں کیا ہو رہا ہے آج

    یاں بعد مرگ حشر کا رکھتے تھے انتظار
    لو سر پہ جیتے جی ہی قیامت بپا ہے آج

    مردے عجب ہے گو نہ اٹھیں جی کے قبر سے 
    ہم بانگ صور نالہ اہل عزا ہے آج

    ماتم سے کیوں نہ دہر میں پڑ جائے زلزلہ
    تشہیر بے ثباتی ارض و سما ہے آج

    پھر ہوگا شور خلق میں طوفان نوح کا 
    اے اہل گریہ گر یہی جوش بکا ہے آج

    اے جذب اتحاد یہی ہے مدد کا وقت
    وہ غم میں ہم کو چھوڑ کے تنہا چلا ہے آج

    اے جاں زار جانے میں یہ ویر حیف حیف 
    کچھ بھی سر وفا تجھے اے بے وفا ہے آج

    غزلیں اکثر غالب کی زمینوں میں کہی ہیں اور ان میں صفائے بیان اور سلاست روانی و شستگی زبان کا سر رشتہ ہاتھ سے جانے نہیں دیا ہے۔ کہیں کہیں مضمون بھی بہت لطیف پیدا کیا ہے۔ بعض اشعار حسن تعلیل کا اعلیٰ نمونہ ہیں۔ ایک غزل غالب کی مشہور غزل، جو تیری بزم سے نکلا سو پریشاں نکلا پر ہے۔

    میں نہ وحشت میں کبھی سوئے بیاباں نکلا
    واں سے دلچسپ مرا خانہ ویراں نکلا

    واعظوں سے سنا کرتے تھے جنت کابیاں
    جبکہ تحقیق کیا کوچہ جاناں نکلا

    اس کی جا آج دریار پہ بیٹھا ہے رقیب
    خاک خوش ہو ویں جو کل یار کا درباں نکلا

    وہ رخ ہوشربا دیکھ کے کب ہوش رہا
    وصل میں بھی تو نہ دل کا کوئی ارماں نکلا

    اشعار ذیل ایک بہتر شاعر اور اہل زبان کے لئے بھی باعث فخر ہو سکتے ہیں،

    شکل قاصد نظر نہیں آتی
    نہیں آتی خبر نہیں آتی

    وہ بلا کون سی ہے صحرا میں
    جو کبھو میرے گھر نہیں آتی

    ایک طویل غزل کا اقتباس یہ ہے،

    خوش ہوں شکل سے کوئی کام جو آساں ہوتا
    دور افلاک کا شرمندۂ احساں ہوتا

    اب تو تا حشر نہیں ہے کوئی مرنے کا سبب
    تھا مرے حق میں جو ہونا شب ہجراں ہوتا

    اہل جنت سے مری روز لڑائی ہوتی           
    خلد بالفرض اگر کوچہ جاناں ہوتا

    ہم بھی مجنوں کی طرح خاک اڑاتے پھرتے
    ہوتے ویران اگر گھر نہ بیاباں ہوتا

    دیکھتے وہ کبھی آئینہ کے دھوکے میں اگر
    میں جو بیتاب ہوا کاش کے حیراں ہوتا

    کس سے بہلائیں سگ یار کو عریانی میں 
    آج کام آتا وہ آزاد جو درباں ہوتا

    تیسرا شعر غالباً غالب کے اس شعر کو پیش نظر رکھ کر کہا گیا ہے،

    کیا ہی رضواں سے لڑائی ہوگی
    گھر ترا خلد میں گر یاد آیا

    ایک اور غزل کے چند شعر ملاحظہ ہوں،
    تقدیر پہ شاکر رہے راضی برضا ہم
    اب کس کی شکایت کریں اور کس کا گلا ہم

    مت حسن پہ بھولو کہ دکھا دیں گے یہ تم کو
    کرتا ہے وفا حسن کہ کرتے ہیں وفا ہم

    مشہور ہو سر حلقہ ارباب جفا تم
    معروف ہیں منجملہ اصحاب وفا ہم

    ہیں شمع صفت انجمن دہر میں آزادؔ
    سر گرم رہ وادی اقلیم فنا ہم

    غالب ؔ ہی کی زمین میں ذیل کے دو شعر سننے کے قابل ہیں،

    نہ دے جو بوسہ گیسو نہ دے، جواب تو دے
    بلا سے جو تجھے دینا ہو وے شتاب تو دے

    حقیقت دل خون گشتہ سر بسر ہو عیاں
    ذرا وہ طرہ پر خم کو پیچ و تاب تو دے

    متانت و سنجیدگی جو اکثر دہلی والوں کا حصہ ہے، آزاد کے ہاں بھی بدرجہ اتم موجود ہے۔ وصل کے بے پردہ مضامین، سوقیانہ محاورہ، ہوس پرستی اور مبتذل الفاظ و تراکیب سے ایک بڑی حد تک ان کا کلام بالکل پاک ہے۔ وہ عاشق ہیں مگر شریف عاشق، وہ معشوق رکھتے ہیں مگر ان کا معشوق زن بازاری نہیں، وہ اپنی شخصیت کے لحاظ سے مغربی ہیں، مگر ان کی شاعری میں مشرق کی بلند پایہ عاشقانہ شاعری کی جھلک پوری طرح موجود ہے، اس کا کچھ اندازہ ان کے منقولہ بالا کلام سے ہوگا اور مزید ثبوت آئندہ اشعار سے ملے گا،

    ہے مگر یہ نہیں ظاہر کہ کہاں
    زخم پنہاں ہے کہ ہے مسکن جاں

    دل وہ دل ہے کہ سدا غم سے گداز 
    چشم وہ چشم کہ خونبا بہ فشاں

    میکشو دین ہے کتنا سستا
    ایک ساغر ہے بہائے ایماں

    ہم نے اس شوخ کو دل میں رکھا
    جب نہ پایا کوئی خلوت کا مکاں

    طبع کو صرف دعا کر آزاد
    ہو چکا حال و حقیقت کا بیاں

    مومن خاں کی ایک مشہور غزل کا مطلع ہے،
    دلبستگی سی ہے کسی زلف دوتا کے ساتھ
    پالا پڑا ہے ہم کو خدا کس بلا کے ساتھ

    جس غزل پر دہلی کے متعدد شاعروں نے غزلیں کہی ہیں، جن میں سالک، انور کی غزلیں اپنی اپنی جگہ پر بہت خوب ہیں، مرزا غالب کی بھی غزل دیوان ناظم (نواب یوسف علی خاں ناظم والی رامپور) میں ملے گی۔ آزاد نے بھی اس زمین میں طبع آزمائی کی ہے۔ بعض اشعار کی داد نہ دینا ظلم ہوگا۔

    اڑتا ہے جسم زار ہمارا ہوا کےساتھ
    چلتے ہیں تیرے کو چہ میں باد صبا کے ساتھ

    بے اعتنائیوں میں بھی کیا کیا لگاؤ ہیں
    ہیں کج ادائیاں تری کس کس ادا کے ساتھ

    جو ہیں، سو بس یہی ہیں مرے مشت استخواں
    ہو جا شریک اے سگ جاناں ہما کے ساتھ

    گویا مرا نوشتہ تقدیر ہو گیا
    وہ ربط ہے جبیں کو ترے نقش پا کے ساتھ

    میں جانتا ہوں جان سے تم کو عزیز تر
    الفت ہوئی ہے جب تو ہوئی بے وفا کے ساتھ

    عشق بتاں میں وہم سے ہوں اپنے بد گماں 
    کیا ورنہ دشمنی مجھے خلق خدا کے ساتھ

    غالب کی اس غزل پر ’’مرہم کو ہم نہ روئیں جو ذوق نظر ملے‘‘ آزادؔ نے ایک دو غزلہ کہا ہے۔ چند شعر یہ ہیں،

    قانع ہوں اس پہ عشق میں جو خشک و تر ملے
    کھانے کو داغ پینے کوخون جگر ملے

    بے درد ہو نصیب مرے مدعی کو دل
    بے داغ دشمنوں کو ہمارے جگر ملے

    حاصل زبس خلاف تمنا ہے کام دل
    جب ہووے زہر کی ہمیں خواہش شکر ملے

    آزادؔ کس کا شیخ و برہمن نہ ان سے پوچھ
    ہے مفت، دین جا کے بھی وہ بت اگر ملے

    افسوس خاک تک نہ ہمیں بہر سر ملے
    وہ لوگ بھی ہیں جن کو اڑانے کو زر ملے

    بس ہو گیا یقین کہ یہی راہ ہار ہے 
    دل جا بجا پڑے جو سر رہ گزر ملے

    پھرتا ہے تو تو خلق کی آنکھوں میں رات دن
    روئے زمیں پہ کس کو ترا رہ گذر ملے

    آزاد ہم تو آج گذر جائیں جان سے 
    کوئے صنم میں جاپئے مدفن اگر ملے

    اس میں شبہ نہیں کہ دیوان آزادؔ میں جا بجا لفظوں اور ترکیبوں کی غلطیاں ملتی ہیں اور بندش تو بہت سے مقامات پر سست نظر آتی ہے لیکن اس لحاظ سے کہ کلام ایک ہندی کا نہیں فرنگی کا ہے جس کو جواں مرگی نے مشاقی کا بھی پورا موقع نہ دیا، دیوان آزادؔ کو بحیثیت مجموعی بہت غنیمت بلکہ قابل قدر سمجھنا چاہئے۔ اردو کے مغربی شاعروں میں ایک اور صاحب کا دیوان نظر سے گذرا ہے۔ دیوان شور ؔ اصل نام مسٹر جارج پیس تھا، غالباً میرٹھ میں قیام رہتا تھا۔ دیوان دو حصوں میں ہے۔ پہلے حصہ کی ضخامت کا خیال نہیں، دوسرا حصہ 228 صفحے میں آیا ہے اور ممتاز المطابع پریس میرٹھ میں خود مصنف کی حسب فرمائش 1878ء، 1295ھ میں شائع ہوا ہے لیکن کلام بہت معمولی ہے۔

     

    حاشیے
    (1) معارف (اعظم گڑھ) جنوری1922ء، نظر ثانی مئی1942ء
    (2) تذکرہ جمخانہ جاوید، ازلالہ سری رام ایم اے
    (3) یہ وہی عارف ہیں جن کی جوان مرگی پر غالب نے وہ مرثیہ کہا ہے جس کا ایک شعر یہ ہے۔
    ہاں اے فلک پیر جواں تھا ابھی عارف، 
    کیا تیرا بگڑتا جو نہ مرتوا کوئی دن او
    (یہ مرثیہ مطبوعہ دیوان غالب (اردو) میں درج ہے) 

                                                                                     

    مأخذ:

    مقالات ماجد (Pg. 8)

    • مصنف: عبدالماجد
      • ناشر: شیخ نذیر احمد
      • سن اشاعت: 1878

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے