Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

غالب کا طرز احساس اور سماجی شعور کا مسئلہ

شمیم حنفی

غالب کا طرز احساس اور سماجی شعور کا مسئلہ

شمیم حنفی

MORE BYشمیم حنفی

    غالب کی شاعری کا عقبی پردہ ایک تیزی سے بنتی، بگڑتی اور بدلتی ہوئی دنیا ہے، ایک ایسی اجتماعی صورت حال جس کا رقبہ مسلسل پھیلتا جاتا ہے، اور ایک ایسا معاشرہ جس کی تشکیل کا عمل مغلیہ حکومت کے خاتمے اور انگریزی اقتدار کے تسلط کے باوجود غالب کی زندگی میں مکمل نہیں ہوسکا۔ انیسویں صدی بہ ظاہر ایک نئی تعمیر اور ایک نئی ذہنی بیداری کی صدی تھی لیکن زوال اور کمال کی حدیں آپس میں ایسی گڈمڈ ہو گئی تھیں کہ اس صدی کو کسی ایک زاویے سے نہ تو پوری طرح دیکھا جا سکتا ہے، نہ اسے مطلق طور پر صرف مثبت یا صرف منفی رویے کے مطابق سمجھا جا سکتا ہے۔

    غالب کے لیے یہ صدی ایک آزمائش تھی، ہمارے لیے ایسا سوال ہے جس کا کوئی قطعی جواب ابھی تک تو سامنے آیا نہیں۔ اسی لیے کولونیل اور پوسٹ کولونیل قدروں اور رویوں کی روشنی میں اس صدی کے تجزیے اور تعبیر اور مقبول عام تصورات پر نظر ثانی کا سلسلہ ابھی جاری ہے۔ بہ قول حالی (انیسویں صدی میں اس وقت) ’’جبکہ مسلمانوں کا تنزل درجہ ٔ غایت کو پہنچ چکا تھا، اہل کمال کی صحبتیں اور جلسے عہد اکبری اور شاہجہانی کی یاد دلاتی تھیں۔‘‘ گویا کہ انگریزی تہذیب اور حکومت سے پہلے کا منظر نامہ ایک تھا مگر اس کی تعبیر کے پیمانے مختلف تھے۔ ہندوستانیوں میں ایک طبقہ ایسا بھی تھا جو اپنے ماضی اور حال کی مذمت میں انگریزوں پر سبقت لے جانے کی کوشش کر رہا تھا۔

    سلیم احمد کا خیال تھا کہ سن ستاون کے بعد مسلمان قوم جن حالات سے دوچار ہوئی، ان سے نمٹنے کے لیے شاعری ایک کمزور اور حقیر سی چیز تھی۔ اس وقت جو معاشرہ بن رہا تھا، وہ شاعری کو کسی طرح کی حیات بخش قوت سمجھنے کا اہل نہیں تھا۔ برطانوی اقتدارمیں اضافے اور استحکام کے نتائج پر اگر انیسویں صدی کی ادبی تاریخ کے حوالے سے نظر ڈالی جائے اور ہندوستان کی مختلف علاقائی زبانوں میں ادب کی جو روایت قائم ہو رہی تھی، اس کے واسطے سے بات کی جائے تو سلیم احمد کی یہ رائے بڑی حد تک درست معلوم ہوتی ہے۔ اس ضمن میں غالب کی شاعری ایک استثنائی حیثیت رکھتی ہے، مگر اس شاعری کا حال بھی یہ رہا کہ غدر کے بعد اس کی رفتار بہت سست ہو گئی تھی۔ انگریزی حکومت کے قیام کے ساتھ ہندوستانی معاشرے پر بتدریج ایک غیر دلچسپ قسم کی نثر یت کا غلبہ بڑھتا گیا۔ اردو میں تو حالت پھر بھی غنیمت کہی جا سکتی ہے کہ معاملہ افادی ادب کے تصور تک پہنچ کر ٹھہر گیا تھا۔

    پھر سب سے بڑی بات یہ کہ اس صدی کے پورے شعری منظر نامے پر غالب کا سایہ دور تک پھیلا ہوا ہے۔ لیکن دوسری زبانوں میں رفتہ رفتہ شعر و ادب کے نام پر ایک مستقل سستا پن حاوی ہوتا گیا۔ چنانچہ ہندوستانی ادبیات کی تاریخ میں، مغرب سے ماخوذ اسالیب، اصناف اور تصورات کی چمک دمک کے باوجود، مغربی افکار کے سائے میں سانس لیتی ہوئی انیسویں صدی تخلیقی قوتوں کے اضمحلال اور زوال کی صدی ہے۔ اس کے بر عکس، مغلوں کی پروردہ روایت نے سیاسی ہزیمت کے دور میں بھی تہذیبی اعتبار سے خود کو سنبھال رکھا تھا۔

    بہت دن ہوئے، نسرین محمدی کی ایک تصویر نظر سے گزری تھی، عنوان تھا دھوپ۔ (Sunshine) اس تصویر میں پورے کینوس پر سیاہی کا جال سا بچھا ہوا تھا۔ جہاں تہاں کچھ روشن نقطے، چھن چھن کر آتی ہوئی دھوپ کی طرح جھانک رہے تھے۔ دراصل کچھ ایسی ہی کیفیت انیسویں صدی کے ہندوستانی معاشرے کی تھی۔ حد نگاہ تک پھیلی ہوئی تاریکی میں غالب کی شاعری ہمیں ایک پائدار تخلیقی تمازت کے وجود کا احساس دلاتی ہے۔ غالب نے اس اعصاب شکن ماحول میں بھی اپنی بصیرت کے سوا نہ تو کسی سہارے کی تلاش کی، نہ کسی حد کو قبول کیا۔ اپنے گردوپیش کے ماحول اور دنیا کے بارے میں ان کا ہر تاثر، ہر ذہنی فیصلہ، خارجی حقیقتوں کی تبدیلی کے ساتھ، اسی لیے ایک نئی تعبیر کی گنجائش رکھتا ہے۔ غالب کی بصیرت اپنے زمانے میں محصور نہیں ہوتی۔ اس سے آگے اور اس سے اوپر اٹھ کر نت نئے انسانی تماشوں کو دیکھنے کی طاقت رکھتی ہے۔

    یہی وجہ ہے کہ غالب کی شاعری میں معنی کے امکانات کبھی ختم نہیں ہوتے اور اس کے متعین تاریخی حوالے، مثلا ًمغل حکومت کا خاتمہ، اٹھارہ سو ستاون، غالب کا سفر کلکتہ، ذاتی حالات اور واقعات بھی غالب کی شاعری کو محدود نہیں کرتے۔ یہ شاعری مخصوص (Specific) سے عام (General) کی طرف سفر کرتی ہے۔ ہر طرح کی دستاویزیت (documentation) پر حاوی ہو جاتی ہے۔ نہ تو بند ھے ٹکے وقت کی گرفت میں آتی ہے، نہ قید مکاں کو قبول کرتی ہے۔ مختلف زمانے اور مختلف زمانوں میں گھری ہوئی زندگی، اسی لیے اپنے تجربوں کے مطابق اور اپنی داخلی ضرورتوں کے حساب سے غالب کے آئینۂ ادراک میں اپنے مسائل کا عکس دیکھتی رہتی ہے۔ یہ محض اتفاق نہیں کہ مختلف نسلوں، قبیلوں، معاشروں، زمانوں نے اردو کے کسی دوسرے شاعر سے مکالمہ اس طرح قائم نہیں کیا جس طرح غالب سے۔ میں گیا وقت نہیں ہوں کہ پھر آ بھی نہ سکوں!

    خارجی زندگی میں کشمکش اور تضاد کی کیفیت گہری ہو تو چاروناچار، ہر لکھنے والا کسی نہ کسی سطح پر سماجی ذمے داریوں کو قبول کرتا ہی ہے۔ انیسویں صدی میں سر سید اور ان کے تمام رفیقوں نے یہی کیا۔ جدید نظم، نیچرل شاعری، اصلاحی اور افادی ادب کے تصور کی پوری عمارت اسی رویے نے تعمیر کی ہے۔ لیکن ایک غلطی کا ارتکاب ان سب نے کیا، یہ کہ حقیقت کے مضمرات پر توجہ صرف کیے بغیر یہ طے کر بیٹھے کہ سیاست، ادب، تہذیب، تاریخ، فلسفہ، سب میں حقیقت کے معنی ایک ہوتے ہیں۔ اسی لیے نہ تو اپنی روایت کے تجزیے میں، نہ جدید تصورات کی تفہیم میں بیشتر اصحاب کسی ایسے نتیجے تک پہنچ سکے جو ہمارے لیے آج بھی قابل قبول ہوتا۔ ان سب کا شعور آنے والے زمانوں کا ساتھ دینے سے بالعموم قاصر ہے۔

    اس مقام پر غالب ہمیں ایک مصروف اور پرشور ہجوم میں خاموش، تنہا اور سب سے الگ دکھائی دیتے ہیں، ماسٹر رام چند، سر سید، نذیر احمد، آزاد، حالی، ذکاء اللہ سب سے الگ۔ مرکز جو، میلانات کی لہر اتنی طاقت ور تھی کہ حقیقت کے سکہ بند تصور سے زیادہ تر لوگ اپنے آپ کو دور نہیں رکھ سکے۔ اس واقعے کی طرف کسی کا ذہن نہیں گیا کہ زندگی کے ہر شعبے میں حقیقت کا مفہوم ایک نہیں ہوتا۔ حقیقت کے خاکے اور مفاہیم متعین ہوتے ہیں دیکھنے والے کی شخصیت اور ان کے انفرادی رویوں کی وساطت سے۔ یہ ایک سیال، تغیر پذیر، متحرک مظہر ہے۔ آزاد اور خود کفیل تخلیقی نظر رکھنے والا، اپنے وجدان کے مطالبات اور اپنے من کی موج کے مطابق حقیقت کے رائج الوقت تصور میں پھیر بدل کرتا رہتا ہے اور حقیقت کی تہہ تک اس کی پہنچ اپنے احساسات اور داخلی ضرورتوں کے حساب سے ہوتی ہے۔ چنانچہ اس کا اصل سروکار بھی حقیقت کے منطقی جائزے سے زیادہ حقیقت کی بابت اپنے تاثرات اور جذباتی رد عمل کے اظہار سے ہوتا ہے۔

    پروست کے لفظوں میں، ’’جب کوئی بڑا فن کار جنم لیتا ہے تو یہ کائنات نئے سرے سے بنتی ہے۔ صرف ایک دفعہ بن کر معدوم نہیں ہو جاتی۔‘‘ غرضیکہ بڑے فن کار اور شاعر جس دنیا کی تشکیل کرتے ہیں، وہ بنی بنائی دنیا سے الگ، ایک اور ہی دنیا ہوتی ہے۔ ان کی رہنمائی صرف ان کا دماغ نہیں کرتا۔ وہ تو مجردات کو بھی حسیاتی حقیقتوں کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ا ن کے پاس دماغ اور دو آنکھوں کے علاوہ بھی سوچنے سمجھنے اور دیکھنے کے کئی ذرائع ہوتے ہیں۔

    غالب کے لیے شاعری سماجی تبدیلی اور اجتماعی مقاصد کی حصولیابی کا وسیلہ محض نہیں تھی۔ وہ اسے ایک عام آلہ ٔ کار نہیں سمجھتے تھے، نہ اسے ایک عام آلہ کار کے طور پر برت سکتے تھے۔ یہ ایک عظیم تخلیقی منصب، ایک پیچیدہ جمالیاتی ذوق اور پر اسرار وجدان کے تقاضوں کی تکمیل کا ذریعہ تھی۔ غالب نے شاعری کو زندگی کے معمولی مقاصد کا خدمت گزار بنانے کے بجائے اپنی ہستی کے ادراک و اظہار کا ترجمان قرار دیا۔ یہی وجہ ہے کہ شاعری کی طرف غالب کا رویہ بھی غیر معمولی سنجیدگی کا رہا، اتنا سنجیدہ کہ اس شاعری کو پڑھتے وقت ہم اپنے احساسات میں بھی بے قراری کی ایک مستقل کیفیت کا احساس کرتے ہیں۔ ان کے اشعار کی چھوٹی سی کتاب میں جو مہیب اور پر جلال دنیا اپنی موجودگی کا احساس دلاتی ہے، اس کے مطالبات عام دنیا کے مطالبات سے زیادہ سخت تھے۔ چنانچہ غالب ہمیں اپنے معاصرین ہی میں نہیں، اردو کی پوری شعری روایت میں سب سے زیادہ بے چین، گمبھیر اور اپنے آپ سے الجھتی ہوئی روح کے مالک نظر آتے ہیں۔

    آخر کوئی تو بات تھی کہ وہ آزمائے ہوئے اور مروجہ اسالیب اور افکار پر تکیہ نہیں کر سکے۔ معاشرہ بدہیئتی اور بکھراؤ کی زد پر آجائے تو بڑا شاعر اسالیب اور افکار کے پرانے راستوں سے ہٹتا جاتا ہے اور تجربہ منفرد ہو تو ایک نئی شعری قواعد، ایک نئے محاورے کے بغیر بات نہیں بنتی۔ ہماری شعری روایت اور ہماری اجتماعی تاریخ کا وہ دور جس میں غالب نے اپنی عمر بسر کی، اس پر غالب کے دستخط الگ سے پہچانے جاتے ہیں۔ ’لوح جہاں پہ حرف مکرر نہیں ہوں میں۔‘ حد تو یہ ہے کہ اس عہد کی عام حقیقتیں بھی غالب کے رویوں میں عمومیت کا رنگ پیدا نہیں کر سکیں۔ اپنے زماں اور مکاں کے سیاق میں غالب نے سیدھے سادے طریقے سے بھی خطوط میں، اور اپنی روش خاص کے مطابق شاعری میں، جو باتیں کہیں ہیں، ان کی حیثیت شخصی بیانات (Personal statements) کی ہے۔

    روز اس شہر میں اک حکم نیا ہوتا ہے

    کچھ سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ کیا ہوتا ہے

    مجھ کو دیکھو کہ نہ آزاد ہوں، نہ مقید، نہ رنجور ہوں، نہ تندرست، نہ خوش ہوں نہ ناخوش، نہ مردہ ہوں نہ زندہ، جئے جاتاہوں۔ باتیں کیے جاتا ہوں۔ روٹی روز کھاتا ہوں، شراب گاہ گاہ پیے جاتاہوں۔ جب موت آئے گی مر رہوں گا۔ نہ شکر ہے نہ شکایت، جو تقریر ہے، برسبیل حکایت ہے۔ (بنام تفتہ، ۱۹/دسمبر ۱۸۵۷)

    تم جانتے ہو کہ یہ معاملہ کیا ہے ؟ اور کیا واقع ہوا۔ (بنام تفتہ، ت۵/ دسمبر ۱۸۵۷)

    ناگاہ، نہ وہ زمانہ رہا، نہ وہ اشخاص، نہ وہ معاملات، نہ وہ اختلاط، نہ وہ انبساط، بعد چند مدت کے دوسرا جنم ہم کو ملا۔۔۔ اور میں جس شہر میں ہوں، اس کا نام بھی دلی ہے۔ اور اس محلہ کا نام بلی ماروں کا محلہ ہے۔ لیکن ایک دوست اس جنم کے دوستوں میں سے نہیں پایا جاتا۔ (بنام تفتہ، ۵/دسمبر ۱۸۵۷)

    پانچ لشکر کا حملہ پے بہ پے اس شہر پر ہوا۔ پہلا باغیوں کا لشکر، اس میں اہل شہر کا اعتبار لٹا۔ دوسرا لشکر خاکیوں کا۔ اس میں جان و مال و ناموس ومکان و مکین و آسمان و زمین و آثار ہستی سراسر لٹ گئے۔ تیسرا لشکر کال کا، اس میں ہزارہا آدمی بھوکے مرے۔ چوتھا لشکر ہیضے کا، اس میں بہت سے پیٹ بھرے مرے، پانچواں لشکر تپ کا، اس میں تاب و طاقت عموماً لٹ گئی، مرے آدمی کم لیکن جس کو تپ آئی، اس نے پھر اعضا میں طاقت نہ پائی۔ اب تک اس لشکر نے شہر سے کوچ نہ کیا۔ (بنام انور الدولہ شفق، ۱۸۶۰)

    کیو ں میں دلی کی ویرانی سے خوش نہ ہوں ؟ جب اہل شہر ہی نہ رہے، شہر کو لے کر کیا چولہے میں ڈالوں۔ (بنام سید یوسف مرزا)

    اے میری جان، یہ وہ دلی نہیں ہے جس میں تم پیدا ہوئے ہو، یہ وہ دلی نہیں ہے جس میں تم نے علم تحصیل کیا۔ وہ دلی نہیں ہے جس میں تم شعبان بیگ کی حویلی میں مجھ سے پڑھنے آئے تھے۔ یہ وہ دلی نہیں ہے جس میں اکیاون برس سے مقیم ہوں۔ ایک کیمپ ہے، مسلمان، اہل حرفہ، یا حکام کے شاگرد پیشہ۔ باقی سراسر ہنود۔ معزول بادشاہ کے ذکور جو بقیۃ السیف ہیں وہ پانچ پانچ روپیہ مہینہ پاتے ہیں۔ اناث میں سے جو پیرزن ہیں وہ کٹنیاں اور جو جوان ہیں کسبیاں۔ امرائے اسلام میں سے اموات گنو، حسن علی خاں، بہت بڑے باپ کا بیٹا، سو روپیہ روز کا پینشن دار سو روپیہ مہینہ کا روزینہ دار بن کر نامراد انہ مر گیا۔ میر نصیر الدین باپ کی طرف سے پیرزادہ، نانا اور نانی کی طرف سے امیر زادہ مظلوم مارا گیا۔ آغا سلطان بخش محمد علی خاں کا بیٹا جو خود بھی بخشی ہو چکا ہے، نہ دوا نہ غذا، انجام کار مر گیا۔ تمہارے چچا کی سرکار سے تجہیز و تکفین ہوئی۔ (بنام علائی، ۱۶/فروری ۱۸۶۲)

    میرا حال سوائے میرے خدا اور خداوند کے کوئی نہیں جانتا۔ آدمی کثرت غم سے سودائی ہو جاتے ہیں۔ عقل جاتی رہتی ہے۔۔۔ پوچھو کہ غم کیا ہے۔ غم مرگ، غم فراق، غم رزق، غم عزت۔ (بنام یوسف مرزا، ۲۸/نومبر ۱۸۵۹)

    سماجی شعور کی اصطلاح کا چلن ہمارے یہاں جس طرح عام ہوا، اس نے ایک طرح کے ابتذال اور بازاری پن کی صورت اختیار کر لی تھی۔ ایک وبا سی پھیل گئی تھی، خاص کر ۱۹۴۷ کے آس پاس کی فضا میں۔ کتنے اچھے لکھنے والوں کو حاشیے پر ڈال دیا گیا، دوسرے اور تیسرے درجے کے لکھنے والے سماجی شعور کا غلغلہ بلند کرتے رہے۔ غالب کی زندگی کا ایک بہت بڑا حصہ سن سینتالیس کے ماحول سے ملتے جلتے ماحول میں گزرا تھا اور اٹھارہ سو ستاون سے کچھ پہلے اور بعد کے وہ تمام برس جنہیں ہم غالب کی زندگی کے اختتامیے سے تعبیر کر سکتے ہیں، ان برسوں میں غالب نے تخلیقی سطح پر بڑی حد تک خاموش زندگی گزاری، لیکن یہ تو کیا کہ اپنی شاعری کو جنس بازار نہیں بننے دیا اور شاعری کے ذریعے، براہ راست طریقے سے قومی تعمیر اور سماجی تبدیلی کی جد وجہد میں شریک نہیں ہوئے۔ لیکن غالب کی شاعری، ان کی سرگرم تخلیقی زندگی کے کسی بھی دور میں اپنے زمانے کے واردات سے لاتعلق نہیں ہوئی۔

    خطوں میں غالب نے اپنے عہد کی شکست وریخت اور اپنے باطن کے انتشار و اضطراب کی عکاسی جس انداز میں کی ہے، اس میں حسرت واندوہ کے ساتھ ساتھ رفعت (Sublimity) اور متانت کا عنصر بھی موجود ہے۔ ’’خالص شاعری‘‘ کاراگ الاپتے ہوئے لوگ اس حقیقت کو بھلا بیٹھتے ہیں کہ دنیا کا بڑے سے بڑا ادیب اپنے ماحول سے بیگانگی کی روش اختیار نہیں کر سکتا۔ چنانچہ غالب کے مجموعی طرز احساس کی تشکیل میں بھی سماجی اور سیاسی اور اقتصادی عوامل کا ایک رول رہا ہے۔ غالب کی بڑائی اس واقعے میں ہے کہ یہ عوامل اور باہر کی دنیا کے واقعات ان کے شعور پر مسلط نہیں ہو سکے۔ غالب نے دنیا کے چھوٹے چھوٹے معاملات اور روز مرہ زندگی کی جانی پہچانی سچائیوں سے انس رکھنے، عام انسانی تجربوں میں پوری طرح شریک رہنے کے باوجود، جس کی شہادتیں ان کے خطوط میں ہر طرف بکھری ہوئی ہیں، دنیا سے اپنا تخلیقی فاصلہ بھی قائم رکھا۔

    یہی وجہ ہے کہ غالب ہمیں اپنے وقت اور ماحول میں گھرے ہوئے بھی نظر آتے ہیں اور ان سے آزاد بھی۔ ہجوم میں شامل بھی ہیں اور تنہا بھی ہیں۔ شاعری کی جگہ غالب اگرکوئی ناول لکھ رہے ہوتے تو شاید جوائس کی طرح روز مرہ کی باتیں اور خبریں بھی اس میں داخل کر دیتے۔ سماجی شعور کا علم اٹھانے والوں میں ایک بیزار کن قسم کا ’’بڑبولاپن‘‘ عام ہے۔ لیکن سماجی شعور کا مذاق اڑانے والوں میں ایک اس سے بھی زیادہ مہلک اور مضحکہ خیز رویہ یہ پیدا ہو گیا کہ وہ سیاسی واقعات اور معاشرتی واردات کی اہمیت کے سرے سے منکر ہو گئے۔ غالب شاعری میں اپنے عہد کے واقعات پر دوٹوک طریقے سے اظہار خواہ نہ کریں، پھر بھی ان کے اشعار اس عہد سے غالب کی بصیرت کے تعلق کی تصدیق کرتے ہیں۔ ہر چند کہ غالب کا اسلوب شعر ہمیں اس بات کی اجازت بہت کم دیتا ہے کہ ان کا شعر سوانح یا تاریخ کے طور پر پڑھا جائے۔ مثال کے طور پر یہ چند شعر،

    رشک ہے آسایش ارباب غفلت پر اسد

    پیچ و تاب دل نصیب خاطر آگاہ ہے

    اور تو رکھنے کو ہم دہر میں کیا رکھتے ہیں

    فقط اک شعر میں انداز رسا رکھتے ہیں

    مرا شمول ہر اک دل کے پیچ و تاب میں ہے

    میں مدعا ہوں تپش نامۂ تمنا کا

    ہوں میں بھی تماشائی نیرنگ تمنا

    مطلب نہیں کچھ اس سے کہ مطلب ہی برآوے

    اصل میں غالب نے ’’پیچ و تاب دل‘‘ کو ’’نصیب خاطر آگاہ‘‘ کے طور پر تسلیم کر لیا تھا اور اس رمز سے وہ اچھی طرح واقف تھے کہ وقت کی کائنات میں ان کی حیثیت زیادہ سے زیادہ نیرنگی تمنا کے ایک تماشائی کی ہے۔ وہ ہر دل کے پیچ و تاب میں شامل تھے اور یہ بھی جانتے تھے کہ ان کی ہستی بس ’’تپش نامہ تمنا‘‘ کے مدعا کی سی ہے۔ فقط ایک ’’انداز رسا شعر میں‘‘ ان کے ہاتھ آیا ہے۔ باقی دنیا پر ان کا کچھ اختیار نہیں۔ غالب کی انسان دوستی کاتصور لامحدود اور ان کی رواداری بے مثال تھی۔ وہ ہنداسلامی ثقافت جس کی عظمت و جلال اور جینیس (genius) نے غالب کے شعر اور شعور میں اظہار پایا ہے، غالب کی روشن فکری، وسیع النظری، ان کے تخیل کے بلندی اور وجدان کی دور رسی کا اصل اور بنیادی پس منظر ہے۔

    شاگردوں سے تعلقات میں، مذہب وملت کی تفریق سے انکار میں، ایک وحدت کی کثرت آرائی کے تصور سے وابستگی میں، غالب کی کشادہ جبینی اور بے تعصبی میں ایک پورے تہذیبی سلسلے کی گونج سنائی دیتی ہے۔ اس سطح پر غالب اپنی روایت اور ثقافت کے سب سے بڑے نمائندے نظر آتے ہیں۔ غالب کے بارے میں اس قسم کی تحریریں بھی سامنے آئی ہیں (پروفیسر اطہر صدیقی اور پروفیسر وہاب قیصر کے مضامین غالب کی سائنسی فکر پر اور ڈاکٹر حمید نسیم کا مضمون غالب اور وجودی فلسفے پر) جن کی بنیاد پر بے شک، یہ سوچا جا سکتا ہے کہ غالب انیسویں صدی کے سائنسی مزاج سے اور وجودی فکر کے اولین معماروں کے نظریات سے بھی نسبت رکھتے تھے، دور کی سہی لیکن ان تصورات تک غالب کی رسائی کیونکر ہوئی؟

    ظاہر ہے کہ غالب نے تو لارڈ میکالے کی مغرب پرستی سے اثر لیا تھا نہ کرکے گار، نطشے اور ہائیڈیگر کے فلسفیانہ خیالات سے۔ یہاں ایک بات جو ہمیں یاد رکھنی چاہیے، یہ ہے کہ افکار و نظریات کے ضمن میں براہ راست یا بالواسطہ استفادے سے زیادہ بڑی چیز روح عصر کا ادراک ہے اور اس کے لیے ضروری نہیں کہ اکتساب کا راستہ اپنایا جائے۔ اپنے رفقا اور معاصرین میں غالب روح عصر کے شاید سب سے بڑے رمز شناس بھی تھے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ آئین روزگار کے سامنے پچھلی کئی سچائیاں باطل ٹھہریں، غالب نے آنکھ بند کرکے آئین روزگار کی پیروی نہیں کی۔ مجھے نہیں معلوم کہ حالی کا یہ مقدمہ شعر و شاعری غالب کی زندگی میں چھپ جاتا تو اس پر غالب کا رد عمل کیا ہوتا۔ لیکن غالب کی شاعری سے یہ حقیقت واضح ہے کہ پرانے مسلمات کی طرح اپنے عہد ایجادات کو بھی انہوں نے نہ تو تمام و کمال قبول کیا، نہ اپنی شخصیت اور شعور کی وضع بدلی۔

    اس تصور کے باوجود کہ جزوہم نہیں ہستی اشیا مرے آگے، غالب اشیا کی حقیقت کے متلاشی تھے۔ جانی بوجھی چیزوں کو بھی پھر سے جاننا چاہتے تھے۔ پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے؟ اجزائے آفرینش کے زوال کارمز سمجھتے تھے اور اس منطقی اور مدلل واقعے سے باخبر تھے کہ ’بحر اگر بحر نہ ہوتا تو بیاباں ہوتا۔ ‘لیکن غالب کا شعور ایک سائنس داں کا شعور نہیں تھا اور نہ ہی جمہوری قدروں میں یقین رکھنے اور ایک فلاحی عالمی انسانی معاشرے کا خواب نامہ مرتب کرنے کے باوجود، غالب کا شمار سماجی مفکروں میں کیا جا سکتا ہے۔ غالب شعور کی اس سطح سے اپنے آپ کو اور اپنی دنیا کو دیکھتے تھے جو شعور کی عام تعریف سے آگے کی چیز ہے۔ ’بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے۔ ‘اور اس موسم میں سانس لیتے تھے جس کی تحویل میں ’موجود‘ کے علاوہ گزشتہ اور آئندہ بھی ہیں۔ انحطاط اور ضعف کے باوجود غالب کا معاشرہ بڑی حدتک منظم اور مربوط تھا۔ لوگ ایک دوسرے کا دکھ درد بانٹتے تھے اور ایک دوسرے کو جانتے تھے۔ لیکن غالب یہ بھی جانتے تھے کہ ایک ازلی اور ابدی تنہائی سب کا مقدر ہے اور کوئی کسی کو نہیں جانتا۔ ’ہے ہر اک شخص جہاں میں ورق ناخواندہ۔

    غالب کا طرز احساس، سماجی شعور کے مسئلے میں غور و فکر کے کئی دروازے کھولتا ہے۔ غالب کی شاعری ہم سے یہ مطالبہ کرتی ہے کہ سماجی تجربوں اور حقیقتوں کے سیاق میں بھی اس کا مطالعہ سائنسی فکر، جدید ذہن، سیکولرازم، جمہوریت، انسان دوستی، عقلیت، قومیت اور روشن خیالی (Enlightenment) کے معروف اور سوقیانہ تصورات سے الگ ہو کر کیا جائے۔ غالب کا بنیادی تعہد (Commitment) اپنی بصیرت اور اپنی ہستی سے تھا۔ ہر چند کہ اسے بھی وہ ’’فریب نامہ موج سراب‘‘ سے تعبیر کرتے تھے گویا کہ وہ اپنے آپ سے بھی الجھتے تھے اوراپنے زمانے سے بھی۔ ظاہر ہے کہ کسی ایسے مظہر کو جس کی حدیں تعینات سے عاری ہوں، زمین کے ایک ٹکڑے اور زماں کے ایک دور میں سمیٹنا ممکن نہیں۔ غالب کاشعور اور ان کے احساسات کا رشتہ ان زمانوں سے بھی ہے جو ہماری دسترس سے ابھی دور ہیں اور ان بستیوں سے بھی جنہیں ابھی آباد ہونا ہے۔

    نہ حشر و نشر کا قائل نہ کیش و ملت کا

    خدا کے واسطے! ایسے کی پھر قسم کیا ہے

    مأخذ:

    غالب کی تخلیقی حسیت (Pg. 139)

    • مصنف: شمیم حنفی
      • ناشر: غالب انسٹی ٹیوٹ، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 2005

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے