Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

غالب کا زمانہ

محمد مجیب

غالب کا زمانہ

محمد مجیب

MORE BYمحمد مجیب

    مرزااسداللہ خاں غالب ۲۷ دسمبر ۱۷۹۷کوپیداہوئے۔ ستمبر۱۷۹۶ءمیں ایک فرانسیسی، پروں، جواپنی قسمت آزمانے ہندوستان آیاتھا، دولت راؤسندھیا کی ’شاہی فوج‘ کا سپہ سالار بنادیاگیا۔ اس حیثیت سے وہ ہندوستان کا گورنربھی تھا۔ اس نے دہلی کا محاصرہ کرکے اسے فتح کرلیا اور اپنے ایک کمانڈر لے مارشاں کوشہرکا گورنر اورشالم عالم کا محافظ مقررکیا۔ اس کے بعد اس نے آگرہ پرقبضہ کیا۔

    اب شمالی ہندوستان میں اس کے مقابلے کا کوئی نہیں تھا اوراس کی حکومت ایک علاقے پرتھی جس کی سالانہ مال گذاری دس لاکھ پاؤنڈ سے زیادہ تھی۔ وہ علی گڑھ کے قریب ایک محل میں شاہانہ شان وشوکت سے رہتا تھا۔ یہیں سے وہ راجاؤں اورنوابوں کے نام احکامات جاری کرتا اوربغیرکسی مداخلت کے چمبل سے ستلج تک اپناحکم چلاتاتھا۔

    ۱۵ ستمبر ۱۸۰۳ کوجنرل لیک، سندھیاکے ایک اور سرداربورگی میں کو شکست دے کر فاتحانہ اندازسے دہلی میں داخل ہوا۔ بورگی میں کاکچھ عرصہ تک شہر پر قبضہ رہ چکا تھا اور اس نے اسے انگریزوں کے لیے خالی کرنے سے پہلے بہت اہتمام سے لوٹاتھا۔ جنرل لیک شہنشاہ کی خدمت میں حاضر ہوا، اسے بڑے بڑے خطاب دیے گئے اور شاہ عالم اوراس کے جانشین ایسٹ انڈیا کمپنی کے وظیفہ خوارہوگئے۔

    اٹھارہویں صدی کا دوسرا حصہ وہ زمانہ تھا جب یورپ سے سپاہی اور تاجرہندوستان میں اپنی قسمت آزمانے آئے اورانہوں نے خوب ہنگامے کیے۔ اس کے مقابلے میں وسط ایشیا سے موقع اورمعاش کی تلاش میں آنے والوں کی تعداد کم تھی، مگرتھوڑے بہت آتے ہی رہے۔ انہیں میں سے ایک مرزاقوقان بیگ، محمدشاہی دور کے آخر میں سمرقند سے آئے اورلاہور میں معین الملک کے یہاں ملازم ہوئے۔ ان کے بارے میں ہمیں بہت کم معلوم ہوہے۔ ان کے دو لڑکے تھے، مرزاغالب کے والد عبداللہ بیگ اورنصراللہ بیگ۔ عبداللہ بیگ کوسپہ گری کے پیشے میں کوئی خاص کامیابی نہیں ہوئی۔ پہلے وہ آصف الدولہ کی فوج میں ملازم تھے، پھرحیدرآباد میں اورپھرالور کے راجہ بختاورسنگھ کے یہاں۔ بیشتر وقت انہوں نے ’’خانہ داماد‘‘ کی حیثیت سے گزارا۔ ۱۸۰۲ میں وہ ایک لڑائی میں کام آئے، جب غالب کی عمر پانچ سال کی تھی۔ ان کے سب سے قریبی عزیز، لوہارو کے نواب بھی ترکستان سے آئے ہوئے خاندان کے تھے اوران کے جداعلیٰ اسی زمانے میں ہندوستان آئے تھے جب کہ مرزاقوقان بیگ۔

    ایسے حالات، جبکہ نظام زندگی کے قائم رہنے کا اعتبارنہ ہو اور نراج اورتشدد کا دور دورہ ہو، جب معلوم ہوتا ہوکہ سب کچھ چندجاں بازوں کے ہاتھ میں ہے، سماج پراپنا اثرڈالتے ہیں اورمستقل مایوسی کی فضا پیدا کردیتے ہیں۔ ویسے بھی حساس طبیعتیں خوشی سے زیادہ درد اورغم کی طرف مائل رہتی ہیں۔ غالب کی زندگی کا پس منظر مغل سلطنت کا زوال، دیہاتی سرداروں کا ابھرنا اور اقتدارحاصل کرنے کے لیے ان کے مسلسل مقابلے ہیں۔ مگرانہیں کچھ خاص اہمیت نہیں دی جاسکتی۔

    ہندوستان میں سیاسی زندگی کا دائرہ وسیع نہیں تھا، نمک حلالی کی قدر کی جاتی تھی لیکن سیاسی وفاداری کوعام طورپر ایک اخلاقی اصول نہیں ماناجاتاتھا۔ رعایا کے خیرخواہ حاکم امن اوراطمینان قائم رکھنے کی اپنے بس بھرکوشش کرتے تھے، مگر دیہاتی آبادی میں ایسے عناصر تھے جوموقع پاتے ہی رہزنی شروع کردیتے۔ ہم اگراندازہ کرنا چاہیں کہ شمالی ہندوستان کی مشترک شہری تہذیب اوراس ادب پر جو اس تہذیب کا ترجمان تھا، کیاکیا اثرات پڑے توہم دیکھیں گے کہ اس کی تشکیل میں برطانوی تسلط سے پہلے کی بدنظمی سے زیادہ دخل ان عادتوں اوران تصورات کوتھا جوصدیوں سے اس تہذیب کوایک خاص شکل دے رہے تھے۔ اس مشترک شہری تہذیب کوشہری ہونے او رشہری رہنے کی ضدتھی۔ اس کے نزدیک شہر کی وہی حیثیت تھی جوصحرامیں نخلستان کی۔ شہر کی فصیل گویاتہذیب کواس بربریت سے بچاتی تھی جو اسے چاروں طرف سے گھیرے ہوئے تھی۔ زندگی صرف شہر میں ممکن تھی، اورجتنا بڑا شہراتنی ہی مکمل زندگی۔

    یہ ہوسکتا تھاکہ عشق اوردیوانگی میں کوئی شہر سے باہرنکل جائے۔ قدرت سے قریب ہونے کے شوق میں شاید ہی کوئی ایسا کرتا، اس لیے کہ یہ مانی ہوئی بات تھی کہ قدرت کی تکمیل شہر میں ہوتی ہے اور شہر کے باہرقدرت کی کوئی جانی پہچانی شکل نظر نہیں آتی۔ شہرمیں باغ ہوسکتے تھے اورپھولوں کے ہجوم، سروکی قطاروں کے درمیان خرام ناز کے لیے روشیں، پتیوں اور پنکھڑیوں پرموتیوں کی سی شبنم کی بوندیں۔ یہاں بادصبا چل سکتی تھی، بلبلیں گلابوں کواپنے نغمے سناسکتی تھیں، قفس کے گرفتار آزادی سے لطف اٹھاتے ہوئے پرندوں پر رشک کرسکتے تھے، آشیانوں پربجلیاں گرسکتی تھیں۔ بے شک شاعر کا تصورتشبیہوں اوراستعاروں کی تلاش میں شہر سے باہر جانے پرمجبورتھا، جن کی مثال قافلے اورکارواں اورمنزلیں، طوفان سے دلیرانہ مقابلے، دشت، صحرا، سمندراورساحل تھے۔

    لیکن استعاروں کی افراط بھی شہر ہی کے اندرتھی۔ میخانہ، ساقی، شراب، زاہد، واعظ، کوچہ یار، دربان، دیوار، سہارا لے کر بیٹھنے یا سرپھوڑنے کے لیے، وہ بام جس پر معشوق اتفاق سے یا جلوہ گری کے ارادے سے نمودارہوسکتاتھا، وہ بازار جہاں عاشق رسوائی کی تلاش میں جاسکتاتھا یا جہاں دارپرچڑھنے کے منظراسے دکھاسکتے تھے کہ معشوق کی سنگ دلی اسے کہاں تک پہنچاسکتی ہے۔ شہروں ہی میں محفلیں ہوسکتی تھیں جن کوشمعیں روشن کرتیں اورجہاں پروانے شعلے پرفداہوتے، جہاں عاشق اورمعشوق کی ملاقات ہوتی۔ ہم شاعروں پر اس کا الزام نہیں رکھ سکتے کہ انہوں نے شہرکو یہ اہمیت دے دی، شہر اوردیہات کی بیگانگی صدیوں سے چلی آرہی تھی، یہ گویاہندوستان کے دومتضاد حصے تھے۔

    ملک کی تقسیم اسی ایک نہج پرنہیں تھی۔ بادشاہ، امراء، سپہ سالار اقتدار کی کشمکش میں مبتلا تھے، ایک جوئے کے کھیل میں جہاں ہرایک ہمت، موقع اور اپنی مصلحت کے لحاظ سے بازی لگاتا، باقی آبادی کو بس اپنی سلامتی کی فکر تھی۔ ضمیر اوراخلاقی اصول بحث میں نہیں آتے تھے، بازی ہارنا اورجیتنا قسمت کی بات تھی۔ عام مفاد کا کوئی تصور تھابھی تو وہ ذاتی اغراض کی گنجلگ میں کھوجاتا اور اگرکوئی عام مفاد کومحسوس کرتا اوراسے بیان کرناچاہتا تواسے دینی اورفقہی اصطلاحوں کاسہا را لینا پڑتا جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا کہ ایک مذہبی بحث کھڑی ہوجاتی۔ شاہ اسماعیل شہیدؒ کی تصانیف میں جہاں کہیں سیاسی مسائل موضوع بحث ہیں، وہاں ہم دیکھتے ہیں کہ ایک نیک نیت انسان جس کی خواہش یہ تھی کہ حکومت کی بنیاد عدل پرہو، صرف اپنے غم اورغصہ کا اظہار کرسکتا تھا۔ کوئی واضح اورمدلل بات کہنا ممکن ہی نہیں تھا۔ شاعر کواختیارتھا کہ اہل دولت و ثروت کی شان میں قصیدے لکھے یاتوکل پردرویشوں کی سی زندگی گزارے۔ کسی مربی پربھروسا کرنے سے اعلیٰ معیارکی شاعری کرنے میں رکاوٹ نہیں پیدا ہوتی تھی، مربی کا احسان ماننا ایک رسمی بات تھی، عشق اور وفاداری کا مستحق صرف معشوق تھا اورشاعراپنی تعریف بھی جس انداز سے چاہتا کرسکتا تھا۔ اگروہ کسی حد تک بھی نام پیداکرتا تو اس کا شمار منتخب لوگوں میں ہوتا تھا اوراس کی دنیا منتخب لوگوں کی دنیا ہوتی تھی۔

    ایک اور تقسیم ’آزاد‘ یعنی شریف مردوں عورتوں کی تھی۔ عام طور پر لوگوں کواندیشہ تھا کہ دیکھنے سے گفتگو اور گفتگو سے بدن چھونے تک بات پہنچتی ہے، اوربدن چھونے کا نتیجہ یہ ہوسکتا تھا کہ دونوں فریق بے قابوہوجائیں۔ اس ندیشے نے ایک رسم بن کرآزاد نامحرم مردوں عورتوں کوسختی کے ساتھ ایک دوسرے سے الگ کردیا۔ اسی وجہ سے آزادعورتوں کے بارے میں لکھنا انہیں زبان اور ادب کی آنکھوں سے دیکھنے کے برابراور اس لیے نامناسب قراردیاگیا۔

    عشق سے مراد مرد عورت کی وہ محبت نہیں تھی جس کا مقصدرفیق حیات بننا ہو اوراس بنا پر شاعر یہ ظاہر نہیں کرسکتا تھا کہ اس کا معشوق مرد ہے یا عورت۔ معشوق کے چہرے اور کمر کاذکرکیاجاسکتاتھا، اس کے علاوہ اس کے جسم کے بارے میں کچھ کہنا بے ہودگی میں شمارہوتا تھا، اگرچہ ایسے دور بھی گزرے ہیں جب بیان میں عریانی وضع کے خلاف نہیں سمجھی جاتی تھی، لیکن قاعدے کی پابندی کامطلب یہ نہیں تھا کہ عورت کے وجودہی کونظراندازکیاگیا۔ ان مثالوں کوچھوڑکرجہاں ایرانی روایت کی پیروی میں معشوق کوامردماناگیاہے، یہ صاف ظاہرہوجاتاہے کہ اردو کے شاعر کا معشوق عورت ہے۔ البتہ اس بات کا پتہ اس کے طورطریق، نازوانداز سے چلتاہے، جسمانی تفصیلات سے نہیں اورپس منظرگھر نہیں ہے بلکہ طوائف کی بزم۔

    ’’مرقع دہلی‘‘ سے جو ۱۷۳۹ کی تصنیف ہے، معلوم ہوتا ہے کہ طوائفیں کس درجہ شہر کی تہذیبی اورسماجی زندگی پرحاوی تھیں۔ لکھنؤ اور دوسرے بڑے شہروں کی حالت وہی ہوگی جوکہ دہلی کی۔ شاہ اسماعیل شہیدؒ کے بارے میں ایک قصہ ہے کہ انہوں نے بہت سی عورتوں کی ٹولیوں کو، جو بہت آراستہ پیراستہ تھیں راستے پر سے گزرتے دیکھا۔ دریافت کرنے پرمعلوم ہواکہ یہ طوائفیں ہیں اورکسی ممتاز طوائف کے یہاں کسی تقریب میں شرکت کے لیے جارہی ہیں۔ شاہ صاحب نے انہیں راہ راست پرچلنے کی ترغیب دلانے کے لیے اسے ایک بہت اچھا موقع سمجھا اورفقیر کا بھیس بناکر اس مکان کے اندرپہنچ گئے جہاں طوائفیں جمع ہورہی تھیں۔ ان کی شخصیت میں بڑاوقار تھا اوراگرچہ انہیں اصلاح کا کام شروع کیے زیادہ عرصہ نہیں ہواتھا، صاحب خانہ نے انہیں فوراً پہچان لیا۔

    اس کے سوال کے جواب میں کہ وہ کیسے تشریف لائے ہیں، شاہ صاحب نے قرآن کی ایک آیت پڑھی اورایک وعظ کہا جس کوسن کرطوائفیں آب دیدہ ہوگئیں۔ ندامت سے آنسوبہانا طوائفوں کی تہذیب میں شامل تھا، اگرچہ نجات کی خاطر پیشہ ترک کردینا قابل تعریف مگر خلاف معمول سمجھا جاتا۔ طوائفیں اپنے خاص قاعدوں اوررسموں کے مطابق زندگی بسر کرتی تھیں اوراگرایک طرف ان کا پیشہ بہت گرا ہوا مانا جاتاتھا تودوسری طرف بعض اعتبار سے اس نقصان کی کچھ تلافی بھی ہوجاتی تھی۔

    وہ بزم جس کا اردوشاعری میں اتناذکرآتا ہے دوستوں کی محفل نہیں ہوتی تھی، لوگ کسی میزبان کی دعوت پر جمع نہیں ہوتے تھے، نہ تہذیبی مشاغل کے لیے عام اجتماع ہوتاتھا۔ ایسی محفلوں میں معشوق اوررقیب اورغیرکاکیا کام ہوتا، مگر طوائف کی بزم میں یہ سب ممکن تھا۔ غالب نے یہ شعر کہے تو ایسی ہی بزم ان کی نظرمیں ہوگی،

    میں نے کہا کہ بزم ناز چاہیے غیر سے تہی

    سن کے ستم ظریف نے مجھ کو اٹھا دیا کہ یوں

    ہاں وہ نہیں خداپرست جاؤ وہ بے وفا سہی

    جس کو ہو دین ودل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں

    ہم جتنا ان صورتوں پرغورکریں جن میں کہ معشوق ایک عورت ہے اوردیکھیں کہ وہ عاشق کے ساتھ کیا برتاؤ کرتی ہے، اتنا ہی یہ واضح ہوجاتاہے کہ اس شاعرانہ استعارہ سے مراد کیاہے اوراتنا ہی صاف بزم کا نقشہ ہوجاتاہے۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ تمام شاعر جومعشوق کی بزم کاذکرکرتے ہیں طوائفوں کی بزم میں شریک ہوتے تھے، جیسے شراب اورمیخانہ کا ذکرکرنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ شراب کی دکان پر بیٹھ کر ٹھرہ چڑھاتے تھے۔ مگراس میں شک نہیں کہ شہر میں لونڈیوں اور خادماؤں اورمزدورپیشہ عورتوں کے علاوہ صرف طوائفیں بے نقاب نظرآتی تھیں۔ ناز وادادکھانے، تلخ اور شیریں گفتگو کرنے، لطف اورستم سے پیش آنے کا موقع انہیں کوتھا۔ انہیں ناچ اورگانے کے علاوہ گفتگوکافن سکھایاجاتاتھا اور طوائفوں کی بزم ہی ایک ایسی جگہ تھی جہاں مردبے تکلفی اورآزادی کے ساتھ رنگین گفتگو، فقرہ بازی اور حاضرجوابی میں اپناکمال دکھاسکتے تھے۔

    بڑی خاندانی تقریبوں میں طوائفوں کا ناچ گانا کرانا خوشحال گھرانوں کا دستورتھا اور جو لوگ بزم میں شرکت کرناپسند نہ کرتے وہ ایسے موقعوں پرگفتگو کے فن میں اپنا ہنر دکھاسکتے تھے۔ شریفوں اور طوائفوں کے یکجا ہونے کے موقع عرس بھی فراہم کرتے تھے جن میں سے اکثر میں طوائفوں کوشریک ہونے کی اجاز ت تھی۔ اب ہم خود ہی سوچ سکتے تھے کہ معشوق کی تصویریں کس بنیادی عکس کو سامنے رکھ کر بنائی گئی ہوں گی اورایسی عورت کون ہوسکتی تھی جس کا کوئی خاندان نہ ہو، جس کے تعلقات اورذمہ داریاں نہ ہوں اورجو اس وجہ سے ایک وجود محض، ایک خالص جمالیاتی تصور میں تبدیل کی جاسکے۔

    انیسویں صدی کے نصف آخر کی ذہنی کیفیت اور اصلاح کی مخلصانہ کوششوں نے اس حقیقت پرپردہ ڈال دیاہے۔ دوسری طرف پارسا مزاج اور حیازدہ لوگ اس پرمصر رہے ہیں کہ میخانہ اورشراب کی طرح معشوق بھی ایک علامت، ایک استعارہ ہے، جسے مجازی کثافتوں سے کوئی نسبت نہیں۔ انہیں اپنی ضدپوری کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی، اس لیے کہ صوفیانہ شاعری کی روایات نے تمام کیفیتوں کواورخاص طورسے عاشق ومعشوق کے رشتے کو ایک روحانی حقیقت کا عکس ماناہے۔ لیکن اس وجہ سے ہمارے زمانے کے نقادکیوں سماجی حالات کونظرانداز کریں اور کیوں شاعر کواس الزام سے نہ بچائیں کہ اس کا معشوق بالکل فرضی، اس کا عشق محض دھوکا اوراحساسات خالص تصنع ہے۔

    اب کچھ اور سماجی حالات کودیکھئے جن کا ادب پرعکس پڑا۔ شہروں میں شریفوں کے لیے پیدل چلنا دستورنہ تھا، کسی قسم کی سواری پر آنا جانا لازمی تھا۔ گھوڑے گاڑی کا رواج انگریزوں کی وجہ سے ہوا، گھوڑے کی سواری لمبے سفر پرکی جاتی، شہر کے اندر اس کا رواج نہ تھا۔ عام سواری کسی قسم کی پالکی تھی۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ کوئی حیثیت والا آدمی اکیلا ٹہل نہیں سکتا تھا، راستے میں کھڑے ہوکرلوگوں کواپنے کام سے آتے جاتے نہیں دیکھ سکتا تھا، صحت کی خاطربھی پیدل سیرنہیں کرسکتاتھا، عوام میں گھل مل نہیں سکتاتھا، عوام میں گھلنے ملنے کا اورکوئی امکان نہیں تھا۔ شرعی قانون کے مطابق سب انسان برابر تھے اوراس قانون کوماننے سے کسی نے انکار نہیں کیا۔ لیکن قانون نے اس کا حکم نہیں دیاتھا کہ لوگ اعلیٰ اورادنی، امیر اورغریب کے فر ق کونظرانداز کرکے سب سے برابر کی حیثیت والوں کی طرح ملیں اور ان قاعدوں پر، جن کی وجہ سے مختلف طبقے الگ رہتے تھے سختی سے عمل کیاجاتھا۔

    ممکن ہے یہ ذاتوں کی تقسیم کا اثرہو، کیوں کہ ہندوستانی مسلمانوں کے طورطریق میں بعض باتیں ہیں جواسلامی ملکوں میں نہیں ملتی ہیں۔ بہرحال سماجی تقسیم کے ان قاعدوں کے وجود سے انکارنہیں کیاجاسکتا۔ ا ن کی وجہ سے شاعرعوام سے الگ اور شاعری عوام کے جذبات سے دوررہی۔ صرف نظیر اکبرآبادی نے شاعری کواس قرنطینہ سے نکالا اور ان کے کلام کا حسن اور اس کی رنگینی اس کی شہادت دیتی ہے کہ اردو شاعری نے سماجی پابندیوں کالحاظ کرکے اپنے آپ کوبہت سی واردات قلبی سے محروم رکھا۔ لیکن نظیر اکبرآبادی کے طریقے کوشاعروں اور نقادوں نے پسندنہیں کیااوران کے ہم عصرلوگوں پران کے کلام کااثرنہیں ہوا۔ اس طرح شاعر کے احساسات کا تعلق اس کی ذات سے ہی رہا، اس کی کیفیتیں سماج کی خوشی اور رنج سے الگ اورمختلف رہیں۔

    سفرکا رواج بھی انسانوں کوایک دوسرے کے قریب لانے کا ذریعہ ہے، لیکن یہ بھی سماج میں ربط پیدا نہ کرسکا، سفرکرنا مشکل تھا، لوگ شہر سے باہرنکلنے سے گھبراتے تھے۔ غالب کاایک فارسی کا شعر ہے،

    اگربدل نہ خلد ہرچہ در نظر گذرد

    خوشا روانی عمرے کہ در سفر گذرد

    لیکن دراصل وہ سفر کی زحمتوں سے بچناچاہتے تھے۔ کلکتہ جاتے ہوئے انہیں جولطف آیا وہ ملاقاتوں اور صحبتوں کا لطف تھا، یاپھرنئے شہردیکھنے کا۔ بنارس اورکلکتہ دونوں کی انہوں نے فارسی کی مثنویوں میں بہت تعریف کی ہے۔

    قانون اور رسم ورواج دونوں، ہرفرد کو سماج اور اس خاص جماعت کا جس کا وہ رکن ہوتا، ماتحت اور پابند رکھتے تھے۔ شایداسی سے رہائی حاصل کرنے کے لیے حساس افراد دل ودماغ کی تنہائی میں اپنی زندگی الگ بناتے تھے۔ اس کے علاوہ اس دور میں الگ الگ ذہنی خانوں میں بندہوکرسوچنے اورعمل کرنے کی ایک عجیب وغریب کیفیت تھی۔ شاعرکوان سیاسی تبدیلیوں سے جن کا شروع میں ذکرکیاگیا، اس قدر کم واسطہ تھا کہ گویاشاعری اورسیاسی زندگی میں کوئی لازمی اورقدرتی تعلق نہیں۔ غالب نے اپنی ایک فارسی کی مثنوی میں وجودیوں اورشہودیوں کے اختلافات کا ذکرکیا ہے، مگراس کے باوجود یہ کہنا غلط نہیں ہے کہ اس دور کی اصلاحی تحریکوں کا، جن کی رہنمائی سیداحمدشہیدؒ اورشاہ اسماعیل شہیدؒ جیسے بزرگ کررہے تھے، شاعری پرکوئی خاص اثر نہیں پڑا۔

    غالب نے جہاں کہیں زاہد اورواعظ کا ذکرکیا ہے، اس سے مراد روایتی زاہد اور واعظ ہیں، ان کے اپنے زمانے کے لوگ نہیں ہیں۔ خود غزل کاطرزخانوں میں بندہوکر سوچنے کی ایک نمایاں مثال ہے کہ غزل کے ہر شعر کا الگ موضوع ہوتا ہے اور اس کا پچھلے اوربعد کے شعر سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ بے شک غزلوں میں بھی کبھی کبھی خیال کا تسلسل ملتاہے اورقطعہ بند کی بھی ممانعت نہیں تھی، لیکن مناسب یہ تھا کہ ہرشعر کامضمون الگ ہو۔ معلوم ہوتاہے کہ غالب کے دور میں شاعر کے سیاست، سماج اور مذہب کے معاملات سے الگ رہنے کا اصل سبب یہ تھا کہ زندگی کا مختلف خانوں میں تقسیم ہونا عام طورپر تسلیم کرلیاگیاتھا۔

    شاعروں میں انفرادیت کوفروغ وحدت الوجود کے نظریے کی وجہ سے بھی ہوا۔ اس نظریے کے مطابق انسان اوراس کے خالق کے درمیان براہ راست تعلق ہوسکتا تھا، کسی وسیلے کی ضرورت نہیں تھی۔ اس طرح شاعر عقیدے اور عمل کے معاملات میں خودفیصلہ کرنے کا اختیار رکھتاتھا اور سماج سے الگ ہوکر وہ اپنی انفرادیت کا جوتصور چاہتا تھا کرسکتا تھا، اپنی زندگی کا الگ نصب العین مقرر کرکے چاہتا توکہہ سکتا تھا کہ عشق، عاشق اورمعشوق کے سوا جوکچھ ہے سب ہیچ ہے۔

    مأخذ:

    غالب اردو کلام کا انتخاب (Pg. 5)

    • مصنف: محمد مجیب
      • ناشر: مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 1969

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے