Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

غزل کی شعریات: فراق اور احمد مشتاق کا محاکمہ

شمس الرحمن فاروقی

غزل کی شعریات: فراق اور احمد مشتاق کا محاکمہ

شمس الرحمن فاروقی

MORE BYشمس الرحمن فاروقی

    میزبان: حمید قیصر، سہیل احمد زیدی

    رپورٹ: احمد محفوظ

     
    غالباً ۱۹۸۶ء کی بات ہے کہ جناب حمید قیصر کے دولت کدے پر ادارۂ فن وادب، الہ آباد کی ایک مخصوص نشست منعقد ہوئی۔ اس کے انعقاد کی ایک خاص وجہ تھی۔ فراق صاحب کا انتقال ۱۹۸۲ء میں ہو چکا تھا اور ان کی یاد میں جگہ جگہ سمینار اور جلسے منعقد ہو رہے تھے۔ ۱۹۸۵ء میں ایک سمینار فراق صاحب پر الہ آباد میں بھی ہوا تھا جس میں شمس الرحمن فاروقی نے ایک مضمون پڑھا تھا جو ان کے متنازع فیہ مضمون ’’اردو غزل کی روایت اور فراق‘‘ (۱۹۸۲ء) کے تسلسل میں تھا۔ ۱۹۸۲ء والے مضمون میں فاروقی صاحب نے کہا تھا کہ احمد مشتاق، فراق سے بہتر شاعر ہیں۔ اس بات پر اردو کے تمام ادبی حلقوں میں لعن طعن اور بحثیں ہو رہی تھیں۔ بعض لوگوں نے فاروقی کی بات کا سخت جواب بھی دیا۔ (مثلاً کراچی کے شمیم احمد نے)، اس لیے راقم الحروف اور کچھ احباب نے طے کیاکہ ایک نشست رکھی جائے جس میں پندرہ شعر فراق صاحب کے اور پندرہ ہی شعر احمد مشتاق کے پڑھے جائیں اور فاروقی صاحب سے کہا جائے کہ وہ ان اشعار کے حسن وقبح پر گفتگو کریں۔ فاروقی بخوشی راضی ہو گئے۔
     
    طے یہ ہوا تھا کہ فاروقی صاحب کو یہ اشعار جلسے سے دس پندرہ دن پہلے دیے جائیں گے لیکن بعض وجوہ سے ایسا نہ ہو سکا۔ جب فاروقی نشست میں آئے تو جلسے سے قبل ہمارے یہاں آدھے گھنٹے کا وقت جو چائے نوشی کے لئے ہوتا ہے، اسی میں انھیں یہ اشعار دیکھنے کے لیے دیے گئے۔ اشعار کا انتخاب میں نے فرخ جعفری، عبدالحمید اور ڈاکٹر ابواللیث کے ساتھ مل کر کیا تھا۔ ساری گفتگو ریکارڈ کر لی گئی تھی۔
     
    کم وبیش دس برس سے یہ گفتگو کیسٹ میں بند تھی۔ ہم احمد محفوظ کے شکر گزار ہیں کہ انھوں نے اسے قلم بند کر دیا۔ ایک بات قابل ذکر اور ہے کہ فاروقی صاحب کی تقریر کے بعد لوگوں نے کچھ سوالات بھی کئے اور فاروقی صاحب نے ان کے مفصل جواب دیے تھے۔ افسوس کہ یہ سوال جواب ریکارڈ نہ ہو سکا کیونکہ ٹیپ ریکارڈ اسٹیج پر تھا، محفل بڑی تھی اور لوگ محفل کے مختلف گوشوں سے سوال کر رہے تھے۔ (سہیل احمد زیدی، صدر ادارۂ فن وادب، الہ آباد۔) 
     
    فراق صاحب کے درج ذیل اشعار عبدالحمید نے پڑھے،
     
    کچھ آدمی کی بھی مجبوریاں ہیں دنیا میں
    ارے وہ درد محبت سہی تو کیا مر جائیں
     
    کیا کیفیت حسن بھی اک بار ہے یا رب
    سر تا بہ قدم وہ ہیں کہ بل کھائے ہوئے ہیں
     
    مرے دل کے سوا کیا رزم گہ تھی ہی نہیں کوئی
    یہ جنگ خیروشر یارب یہیں کیوں ہو یہیں کیوں ہو
     
    تیرہ بختی نہیں جاتی دل سوزاں کی فراق
    آج بھی شمع کے سر پر وہ دھواں ہے کہ جو تھا
     
    مہربانی کو محبت نہیں کہتے اے دوست
    آہ اب مجھ سے تری رنجش بے جا بھی نہیں
     
    وہ مخاطب بھی ہیں قریب بھی ہیں
    ان کو دیکھیں کہ ان سے بات کریں
     
    حاصل حسن و عشق بس ہے یہی
    آدمی آدمی کو پہچانے
     
    اکا دکا صدائے زنجیر
    زنداں میں رات ہو گئی ہے
     
    نگاہ یار کچھ ایسی پھری ہجراں نصیبوں سے
    کہ اب تو جس کا جی چاہے وہی غم خوار ہو جائے
     
    جسم اس کا نہ پوچھئے کیا ہے
    ایسی نرمی تو روح میں بھی نہیں
     
    چپ ہو گئے تیرے رونے والے
    دنیا کا خیال آ گیا ہے
     
    ہم سے کیا ہو سکا محبت میں
    خیر تم نے تو بے وفائی کی
     
    دل دکھے روئے ہیں شاید اس جگہ اے کوئے دوست
    خاک کا اتنا چمک جانا ذرا دشوار تھا
     
    شکوہ کیا الم کا تو نم دیدہ ہو گئے
    تم تو ذرا سی بات پہ رنجیدہ ہو گئے
     
    ہمارا جی بہت ڈرتا ہے جب سنسان راتوں میں
    ہم ایسے میں تری یادوں کی چادر تان لیتے ہیں
     
    شمس الرحمن فاروقی، جناب حمید قیصر صاحب، سہیل زیدی صاحب، بزرگو، اور دوستو۔ سب سے پہلے تو اس بات کا شکریہ ادا کرنا ہے کہ مجھ ہیچ مداں کو جو الہ آباد شہر میں خود کو سب سے زیادہ حقیر سمجھتا ہے، آپ نے عزت بخشی، یہاں بلایا اور مجھے اس قابل سمجھا کہ میں آپ سے گفتگو کر سکوں۔ سب سے زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ آج کے لیے جو موضوع رکھا گیا ہے کہ فراق صاحب اور احمد مشتاق کے کچھ اشعار پر تبصرہ پیش کروں۔ یہ خود بڑی خیال انگیز بات ہے، کیونکہ جو کچھ میں کہوں گا اس میں شاید اکثر باتوں سے آپ کو اتفاق نہ ہو۔ لیکن اظہار کی آزادی تو ہے ہی۔ ہاں مجھے یہ امید ضرور ہے کہ میری باتوں سے آپ لوگوں کو کچھ فکر وخیال کی راہیں نظر آئیں گی۔
     
    میں فراق صاحب کی شاعری کا بہت قائل نہیں ہوں۔ ایک دفعہ میں نے کہیں لکھا بھی تھا، اگرچہ وہ بات کچھ اوچھی سی تھی لیکن قلم سے نکل گئی تھی کہ احمد مشتاق غزل کی شاعری میں فراق سے بہتر شاعر ہے۔ شاید اسی کی باز گشت میرے عزیز بھائی سہیل کے ذہن میں تھی جس کے سبب احمد مشتاق کے اشعار کا موازنہ فراق کے اشعار سے رکھا ہے۔ خیر، وہ بات تو میں نے یوں ہی کہی تھی۔ اس میں ایک بات ضرور تھی، اور وہ یہ کہ غزل کا فن ایک الگ شے ہے اور غزل کے مضامین الگ شے۔ میں نے غزل کے فن کے لحاظ سے کہا تھا کہ ناصر کاظمی اور احمد مشتاق دونوں ہی غزل کے فن کے معاملے میں فراق صاحب سے بہتر ہیں۔ اس بات کی وضاحت بروقت نہ ہو سکی، اس لئے میں نے اسے ایک ’’اوچھی سی بات‘‘ کہا۔
     
    بہرحال بنیادی معاملہ یہ ہے کہ میں فراق صاحب کی شاعری کا کچھ بہت قائل نہیں ہوں اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ میں اپنے بزرگوں اور ہم عمروں کی طرح شروع میں فراق صاحب کے بارے میں بہت خوش گوار اور بڑا اچھا تاثر رکھتا تھا یعنی ہم لوگوں کے لڑکپن میں یہ خیال عام تھا کہ فراق صاحب گویا آسمان شاعری کے آفتاب ماہتاب کی طرح سے تھے اور میں بھی یہی سمجھتا تھا کہ وہ بہت بڑے شاعر ہیں۔ میرے سامنے ان کا جو بھی کلام تھا وہ بہت اچھا معلوم ہوتا تھا۔ مجھے یہی معلوم ہوتا تھا کہ اردو شاعری میں فراق صاحب کی شاعری بہت بڑا اضافہ ہے۔ پھر اس کے بعد جب میں نے کچھ اور پڑھا اور سیکھا، خاص طور سے اردو شاعری کی کلاسیکی اور فارسی شاعری کی کلاسیکی روایت پر غور کیا اور اس کو کھنگالا تو فراق صاحب کے بارے میں میری جو غلط فہمیاں تھیں وہ کم ہوئیں۔
     
    ۱۹۶۷ء میں یعنی آج سے بیس سال پہلے میں نے ایک مضمون لکھا تھا جس میں میری کوشش تھی کہ فراق صاحب کے بارے میں میری پہلے کی رائے جو اچھی تھی اور اس وقت کی رائے جو اچھی نہیں تھی، انھیں کسی طرح سے Reconcile یعنی ہم آہنگ کیا جائے۔ وہ میں بہت حد تک تو نہیں کر پایا۔ میں نے کہا تھا کہ نئی غزل کے پیش روؤں میں فراق صاحب کا نام بہت نمایاں ہے۔ یہ میں اب بھی کہتا ہوں اور تب بھی میں نے کہا تھا۔ مگر اس وقت میں نے یہ کہا کہ بڑی حد تک فراق صاحب کی شاعری مجلسی قسم کی شاعری ہے۔ جس میں کہنا چاہیے کہ Cleverness زیادہ تھی، گہرائی نہیں تھی اور انھوں نے اپنے مزاج کے برخلاف اپنی شاعری کے دھارے کو معنی آفرینی اور استعارے کی طرف موڑا۔ گویا میں نے تسلیم کیا کہ ان کے یہاں معنی آفرینی اور استعارہ ہے۔ لیکن میں نے یہ بھی کہا کہ یہ ان کے مزاج میں نہیں تھا بلکہ انھوں نے اپنے مزاج کو اس طرح زبردستی موڑا تھا اور یہ کہ ان کا بنیادی مزاج ایک سطحی قسم کا مزاج تھا۔
     
    بعد میں فراق صاحب کی زندگی میں ہی میں نے ایک مضمون اور لکھا، ناصر کاظمی پر۔ چونکہ ناصر کاظمی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ فراق سے بہت متاثر تھے اور فراق سے اور میر سے انھوں نے بہت سیکھا تھا، تو لامحالہ جب ناصر کاظمی کا ذکر آئے تو فراق اور میر کا ذکر ضرور آنا چاہیے۔ اس مضمون کے ایک بڑے حصے میں میں نے یہ دکھانے کی کوشش کی کہ میر، ناصر کاظمی اور فراق میں کیا فرق ہے؟ اور فراق کے یہاں کیا کمزوریاں ہیں، جن کی بنا پر وہ کلاسیکی شاعروں کی بڑی صف میں شامل نہیں ہو سکے۔
     
    اس کے بعد میں نے ایک کتاب لکھی ’’عروض، آہنگ اور بیان‘‘ (مطبوعہ ۱۹۷۷ء) جس میں ایک باب رکھا، ’’غلطی عیب نہیں ہے۔‘‘ اس میں یہ ظاہر کیا تھا کہ شعر میں غلطی کا واقع ہونا، جیسے مذکر مونث کا غلط ہو جانا، یا اس طرح کی اور کوئی غلطی ہونا، کوئی بہت بڑی بات نہیں ہے۔ یہ بڑے شاعروں کے یہاں بھی ہے۔ میر کے یہاں تو خیر بے حد ہے، غالب کے یہاں ہے، میر انیس کے یہاں ہے، سب کے یہاں ہے تو غلطی مذکر مونث کی ہو جائے یا محاورے کو غلط باندھ دیجئے تو یہ کوئی بڑا عیب نہیں ہے۔
     
     اصل عیب شعر کا یہ ہوتا ہے کہ شعر میں الفاظ کا استعمال غیرضروری ہو یا پھر یہ کہ جسے میں نے عجز نظم کہا تھا، کہ خیال پوری طرح سے ادا نہ ہوسکے یا الفاظ پوری طرح کارگر نہ ہوں۔ پھر میں نے کہا کہ فراق صاحب کے یہاں عجز نظم والی برائیاں بہت نظر آتی ہیں۔ یہ سب باتیں میں فراق صاحب کی زندگی میں ہی کہہ چکا تھا۔ (حالانکہ بعد میں لوگوں نے کہا کہ دیکھئے صاحب فراق صاحب مر گئے تو فاروقی صاحب نے ان کے خلاف لکھنا شروع کیا۔) سچ یہ ہے کہ میں فراق صاحب سے گالی بھی کھا چکا ہوں۔
     
    جب ناصر کاظمی والا مضمون چھپا تو یہیں الہ آباد کے ایک جلسے میں، جس میں میں موجود تھا، فراق صاحب نے میرا نام لیے بغیر مجھے بہت برا بھلا کہا تھا۔ یعنی یہ کہ یہ کل کے لونڈے ہیں، گدھے ہیں، یہ کیا جانیں کہ شاعری کیا ہوتی ہے وغیرہ وغیرہ۔ مطلب یہ کہ ایسا نہیں ہے کہ میں نے ان کی زندگی میں یہ بات نہیں کہی تھی، جب کہ بعض لوگ اور ہیں جنھوں نے فراق صاحب کے مرنے کے بعد ان کے خلاف لکھا جیسے جگن ناتھ آزاد وغیرہ۔ تومیں نے ان کی زندگی میں ہی یہ باتیں کہیں اور ان کی گالیاں بھی کھائیں۔
     
    کہنے کا مطلب یہ ہے کہ فراق صاحب کی شاعری سے میرا جو معاملہ ہے وہ تقریباً تیس بتیس برس پرانا ہے اور تب سے لے کر اب تک جو تبدیلی مجھ میں آئی وہ یہی تھی کہ شروع شروع میں نوعمروں کی طرح میں بھی فراق صاحب کو بہت بڑا شاعر سمجھتا تھا۔ پھر میں نے یہ گمان کیا کہ وہ بہت بڑے شاعر نہ سہی لیکن اچھے شاعر ضرور ہیں۔ افسوس کہ پھر میں یہاں تک پہنچا کہ وہ اچھے شاعر بھی نہیں ہیں۔ اچھا اس کی وضاحت کرنے کے لیے میں تین چار باتیں جو پہلے کہہ چکا ہوں انھیں دہراتا ہوں، پھر اشعار کی طرف آتا ہوں۔
     
    پہلی بات یہ کہ فراق صاحب کلاسیکی غزل اور نئی غزل کے درمیان پل کا حکم رکھتے ہیں اور کلاسیکی غزل کے مزاج سے واقف ہونے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں اور انھوں نے کام بھی بہت سے کیے، مثلاً کئی کلاسیکی شاعروں کے بارے میں لکھا، جس سے معلوم ہوتا تھاکہ وہ کلاسیکی غزل کے مزاج شناس ہیں۔ کلاسیکی غزل کے جو تقاضے ہیں ان کو پورا کرنے کا دعویٰ بھی وہ کرتے ہیں جیسا کہ انھوں نے خود ہی لکھا ہے کہ میں شاگرد تھا وسیم خیرآبادی کا اور ان کے واسطے سے شاگرد تھا امیر مینائی کا اور ان سے میں نے بہت کچھ حاصل بھی کیا لیکن جلد ہی ان کے راستے چھوڑکر میں نے اپنی الگ راہ نکالنے کی کوشش کی۔ لیکن ان لوگوں سے میں نے فن بہت سیکھا۔
     
    فراق صاحب کے بارے میں مجھے بنیادی شکایت یہ ہے کہ ان کا کلام اس تقاضے کو ہی پورا نہیں کرتا جسے غزل کی شعریات کااولین اور سب سے اہم تقاضا کہا جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ شعر میں کوئی حشو نہیں ہونا چاہیے۔ شعر میں جتنے بھی الفاظ ہوں وہ بے انتہا کارآمد ہوں۔ الفاظ کم ہونا چاہیے کہ الفاظ کا کم ہونا ہمیشہ شعر کی خوبی مانی جاتی رہی ہے۔ الفاظ معنی کے مرتبے کے اعتبار سے لائے جائیں۔ اگر معنی کا مرتبہ کچھ ہے اور الفاظ کچھ ہیں تو ظاہر ہے کہ شعر کی خرابی ہے۔ دوسری بات یہ کہ فراق صاحب کے اکثر اچھے اشعار کسی نہ کسی استاد کے شعر سے مستفاد ہیں۔ اچھا یہ معاملہ تو ایسا ہے کہ ایں گنا ہیست کہ در شہر شما نیز کنند۔ غالب کے یہاں بے انتہا ملتا ہے۔ آتش کے یہاں بے انتہا ملتاہے، تو بات دراصل یہ ہے کہ آتش نے میر کے اشعار کو مسخ کرکے لکھا ہے۔
     
    جن حضرات نے تھوڑا بہت دیکھا ہوگا، جیسا کہ میں میر پر لکھ رہا ہوں۔ اس میں میں نے جگہ جگہ یہ دکھایا ہے کہ کس طرح میر کے اشعار کو آتش نے براہ راست اختیار کیا ہے اور خراب کرکے اختیار کیا ہے۔ غالب نے بھی میر کے اشعار کو اور الفاظ کو اختیار کیا ہے اور تقریباً ہر جگہ برابر برابر لکھا ہے یا بڑھا کر لکھا ہے تو اگر کسی پرانے اور بڑے شاعر کے مضمون سے آپ کا شعر مستفاد ہے تو یہ کوئی بری بات نہیں ہے، بشرطیکہ اس استفادے کے ذریعہ آپ اس مضمون میں کوئی اضافہ کر سکیں، کوئی نئی بات، کوئی نیا پہلو نکال سکیں یا کم از کم اس کے برابر کے ہی مرتبے کا مضمون اس میں رکھ سکیں۔
     
    تیسرا عیب فراق صاحب کے یہاں یہ ہے کہ وہ عجز نظم کے بہت شکار ہو جاتے ہیں، یعنی وہ پوری بات نہیں کہہ سکتے۔ ان کے پاس کہنے کو بہت کچھ ہے لیکن وہ اسے کہہ نہیں پاتے۔ اور یہ دراصل اس زمانے کی خرابی ہے، جس زمانے میں فراق صاحب شعر کہہ رہے تھے، اس زمانے میں یہ ہوا کہ اچانک لوگوں کو خیال آیا کہ شعر میں مضمون ہی سب کچھ ہوتا ہے۔ شعر میں اسلوب کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتا۔ نئی بات کہنا ضروری ہے۔ ایسی بات کہنا چاہیے جو لوگوں نے پہلے نہ کہی ہو۔ وہ بات جیسے بھی ادا ہو جائے، اس کی پروا نہیں کرنا چاہیے۔ چنانچہ فراق صاحب کے سب سے پہلے مداح نیاز فتح پوری نے ان کی جو تعریف وغیرہ کی وہ تو کی، لیکن پھر بھی یہ لکھا کہ ابھی ان کے یہاں لغزشیں بہت نظر آتی ہیں، پختگی کم ہے۔ وہ پوری طرح اپنی بات ادا نہیں کر پاتے۔ میں تمنا کرتا ہوں کہ ایک دن وہ آئے جب فراق اپنے لہجے اور اظہار پر پوری طرح قابض ہو جائیں گے۔
     
    یہ بات ۱۹۳۷ء کی ہے۔ اس کے چار پانچ سال بعد آل احمد سرور نے ایک کتاب (جو ’’نیا ادب‘‘ کے نام سے شائع ہوئی تھی اور جس کے مرتب عزیز احمد اور سرور صاحب تھے) کے دیباچے میں جہاں اور بحثیں کیں کہ آج کل شاعری کیسی ہو رہی ہے، کون کون سے شاعر اہم ہیں اور کیوں؟ تو اس میں فراق صاحب کا بھی ذکر کیا اور یہ لکھا کہ ’’مجھ کو ان کی پختگی کا انتظار ہے۔ اگرچہ نیاز کو ان کی پختگی سے ڈر معلوم ہوتا ہے۔‘‘ یہ اندیشہ اس معنی میں تھا کہ نیاز صاحب کا خیال تھا کہ جب پختگی آجائے گی تو مضمون کی تازگی ختم ہو جائےگی تو گویا نیاز صاحب کا خیال اس زمانے کی فیشن ایبل شعریات سے ہم آہنگ تھا کہ اظہار اگر لڑکھڑا بھی گیا تو کوئی ہرج نہیں، لیکن اگر بات نئی کہہ رہے ہو تو بہت بڑا کارنامہ کر رہے ہو۔
     
    فراق صاحب نے اس بات کی بہت کوشش کی کہ جہاں تک ہو سکے نئے مضمون لائیں۔ مضمون کی اس تلاش میں انھوں نے اظہار کی پروا نہیں کی، حالانکہ اظہار کی خوبی ہی غزل کا خاصہ ہے۔ غزل کے جو بڑے کمالات ہیں، مثلاً مضمون آفرینی، معنی آفرینی، کیفیت، شور انگیزی ان سب میں ایک شرط یہ ہوتی ہے کہ اظہار پر آپ کو پورا پورا کمال ہونا چاہیے۔ ناسخ کے یہاں مضمون آفرینی اور خیال بندی بہت ملتی ہے۔ ناسخ نے ذوق اور غالب کو متاثر بھی کیا اورناسخ بڑے شاعر تھے۔ لیکن وہ جتنے بڑے شاعر ہو سکتے تھے، اتنے بڑے شاعر نہیں ہو سکے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کے یہاں جتنی تلاش مضمون کی ہے، اتنی تلاش اظہار کی نہیں ہے۔
     
    یہ چند باتیں میں نے فراق صاحب کے بارے میں آپ سے عرض کیں۔ اب اگر آپ چاہیں تو میں ان اشعار میں سے کچھ کا یا سب کا تجزیہ کرکے آپ سے عرض کروں کہ کون سے اشعار ان میں واقعی اچھے اور کیوں اچھے ہیں؟ اور کون سے اشعار اچھے نہیں ہیں اور کیوں اچھے نہیں ہیں؟ (یہاں سامعین کی طرف سے اصرار ہوا کہ ہر شعر پر گفتگو ہو۔) 
     
    شمس الرحمن فاروقی، ملاحظہ ہو،

    کچھ آدمی کی بھی مجبوریاں ہیں دنیا
    ارے وہ درد محبت سہی تو کیا مر جائیں
     
    یہ اردو کے لیے نیا مضمون ہے۔ انگریزی میں یہ مضمون نیا نہیں ہے۔ فراق صاحب کے بہت سے اس قبیل کے مضامین ۱۸۹۰ء سے لے کر ۱۹۰۵ء تک انگریزی شاعروں میں بہت ملتے ہیں۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ ان پر وہ کیفیت طاری تھی جسے ان کی اصطلاح میں ’’صدی کا آخر‘‘ Fin de circle کہتے ہیں۔ تو اس زمانے میں ایک طرح کی تلخی، ایک طرح کی بے اعتباری عشق سے، معشوق سے اور اس کے بارے میں اور ایک طرح سے اپنے دفاع میں، یعنی اپنے بے راہ روی، ہوس ناکی کے دفاع میں یہ کہنا کہ عشق ہوتا ہی کیا ہے؟ اور عشق میں کیا رکھا ہے، تم سے نہ سہی، کسی اور سے سہی، یہ چیزیں اس وقت بڑی عام تھیں اور فراق صاحب جب انگریزی پڑھ رہے تھے تو یہ چیزیں بہت مشہور تھیں۔ تو اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ مضمون اردو میں بالکل نیا ہے۔ اس لیے یہ شعر بڑا قابل قدر ہے کہ یہ مضمون اردو میں فراق صاحب سے پہلے کسی نے نہیں باندھا (کم از کم میرے علم کی حد تک) تو مضمون کے اعتبار سے تو آپ اس شعر کو سو میں سو نمبر دے دیجئے۔
     
    اب پہلے مصرعے پر آئیے ’’کچھ آدمی کی بھی مجبوریاں ہیں دنیا میں۔‘‘ ظاہر ہے کہ ’’بھی‘‘ اس میں غلط جگہ آ گیا ہے۔ ’’بھی‘‘ کو ’’مجبوریاں‘‘ کے بعد ہونا چاہیے تھا، جیسا کہ ہم کہتے ہیں کہ ’’کچھ مجبوریاں بھی ہیں۔‘‘، ’’آدمی بھی‘‘ سے مراد تو یہ ہوئی کہ مجبوریاں تو اور لوگوں کی بھی مثلاً جنات کی یا پرندوں کی ہوتی ہوں گی تو آدمی کی مجبوریاں کیوں نہ ہوں؟ آدمی کی بھی مجبوریاں ہیں۔ ظاہر ہے کہ بالکل غلط بات ہے۔ بالکل مہمل بات ہے۔ شعر کی خوبصورتی کو اس مہمل بات نے خراب کر دیا ہے۔ اگر آپ ’’بھی‘‘ کو صحیح جگہ پر رکھتے توایک بہت بڑا عیب کم ہو جاتا، کیونکہ آپ نے جو کلیہ قائم کیا ہے وہ کلیہ اس میں بنتا ہی نہیں ہے۔ یا پھر پوری بات یوں کہتے کہ جنات، دیو، چرند، پرند، (یا تمام غیرانسانی مخلوق) کو مجبوریاں لاحق ہیں، پھر آدمی کو بھی کیوں نہ ہوں؟
     
    لیکن چار ارکان کے مصرعے میں اتنی باتیں بھرنا غیرممکن تھا (اگر شاعر میر یا غالب نہ ہو) ہذا کلیہ یا ادعائے شاعر، قائم ہی نہیں ہوا، پھر یہ کہ ’’مجبوریاں ہیں دنیا میں۔‘‘ اس میں ’’دنیا میں‘‘ کی ضرورت بالکل نہیں تھی۔ یہ اور بات ہے کہ ہم لوگ زور بیان کے لیے ’’دنیا میں‘‘، ’’آسمان میں‘‘، ’’زمانے میں‘‘ وغیرہ کہہ دیتے ہیں۔ لیکن جب ہم شعر کہتے ہیں تو زور بیان کا خیال نہیں رکھتے، بلکہ یہ خیال رکھتے ہیں کہ لفظ پوری طرح کارگر ہے کہ نہیں۔ زور بیان کا سوال اس کے بعد کا ہے بلکہ زور بیان تو خود ہی پیدا ہو جائےگا اگر لفظ کار گر ہیں۔ اس مصرعے کو، اگرچہ ناموزوں ہے، آپ اس طرح سے پڑھ لیجئے کہ ’’کچھ آدمی کی مجبوریاں بھی ہیں‘‘ تو بات پوری ہو جاتی ہے۔
     
    ’’بھی‘‘ صحیح جگہ لگا دیجئے اور ’’دنیا میں‘‘ کاٹ دیجیے تو کم از کم معنی کے اعتبار سے مصرع پورا ہے۔ اب وزن پورا نہیں ہوتا تو مجبوراً آپ کچھ نہ کچھ اور رکھیں گے۔ لہٰذا دنیا میں، الہ آباد میں، دلی میں، کچھ بھی لگا دیجئے۔ لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ یہ دو لفظ شعر کے معنی میں اضافہ نہیں کر رہے ہیں۔ انسان تو دنیا میں ہے ہی، اس کی مجبوریاں اللہ میاں کے یہاں کیا ہیں، وہ اللہ ہی جانے۔ ہم کو کیا معلوم ہم تو یہیں کی بات کر سکتے ہیں، تو اس سارے شعر کی خوبصورتی کو پہلے مصرع نے تباہ کر دیا۔ کیونکہ ’’بھی‘‘ اس میں صحیح جگہ پر نہیں ہے اور دو لفظ اس میں فالتو ہیں۔
     
    دوسرے مصرعے میں ’’ارے‘‘ کا لفظ رکھ کر زیادتی کر دی ہے۔ ’’ارے‘‘ کو بھی نکال دیجیے۔ اب اس شعر کی نثر ہوگی، ’’کچھ آدمی کی مجبوریاں بھی ہیں۔ وہ درد محبت سہی تو کیا مر جائیں۔‘‘ بات مکمل ہو گئی۔ اب صرف وزن پورا کرنے کے لیے آپ نے غیرضروری الفاظ کو اس میں ٹھونس دیا ہے۔ اس سے شعر بنا نہیں۔ ہاں مضمون یقیناً بہت بڑا ہے، بہت اہم ہے۔ اردو کے لیے بالکل نیا مضمون ہے۔ لیکن وہ مضمون پر زیادہ زور دے رہے ہیں اور غزل کی پہلی صفت یہ ہے کہ وہ ارتکاز سے کام لیتی ہے اور ہر لفظ اپنی جگہ پر اتنا کارگر ہوتا ہے کہ جسے نثر یا عام زبان کے مقابلے میں چھ گنا یا آٹھ گنا سمجھیے۔
     
    رلکے (Rilke) نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ نظم میں جو کاما Full Stop کام میں لائے جاتے ہیں وہ عام زبان سے بڑھ کر کارگر ہوتے ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ کہ کوئی لفظ بھی مصرعے میں بےکار نہ ہو۔ کوئی لفظ ایسا نہ رکھا جائے جو معنی کی تعمیر میں یا معنی کی ترقی میں اضافہ نہ کرتا ہو۔ تین چیزیں ہیں، معنی کی تعمیر معنی کی توسیع اور معنی کی ترقی۔ سب سے بڑی منزل ترقی کی ہوتی ہے۔ توسیع اور ترقی کو تو خیر چھوڑ دیجیے۔ چلیے معنی کی تعمیر ہی کر لیجئے۔ ہم اسی کو بہت سمجھ لیں گے۔ میرے خیال میں اس شعر میں یہ الفاظ معنی کی تعمیر میں حصہ نہیں لے رہے ہیں۔ اگلا شعر ہے،
     
    کیا کیفیت حسن بھی اک بار ہے یا رب
    سر تا بہ قدم وہ ہیں کہ بل کھائے ہوئے ہیں
     
    میں اس کو کوئی بہت اچھا شعر نہیں سمجھتا۔ لیکن چلیے مان لیتے ہیں کہ اچھا شعر ہے۔ اس طرح کے شعر تو سراپے میں بہت سے کہے گئے ہیں بلکہ اس سے بہت اچھے شعر لوگوں نے کہے ہیں۔ خیر میں اس کو بھی اچھا شعر کہے لیتا ہوں اور اس بحث میں نہیں پڑتا کہ سراپے میں اور بھی اچھے شعر کہے گئے ہیں۔ آپ نے غور فرمایا ہوگا کہ ’’کیفیت‘‘ کا لفظ یہاں کوئی کام نہیں کر رہا ہے۔ حسن کا بار ہو سکتا ہے کہ حسن ایک بار ہے، لہٰذا بل کھائے ہوئے ہیں۔ یہ تو ٹھیک ہے۔ لیکن ’’کیفیت‘‘ کا یہاں کیا مطلب ہے؟ اس سے مراد یہ ہوئی کہ معشوق میں حسن نہیں ہے۔ صرف کیفیت حسن ہے۔ پھر تاکید الذم بما یشبہ المدح والا معاملہ ہو گیا کہ تعریف کرنے کے بجائے آپ برائی کرنے لگے۔ آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ معشوق میں کیفیت حسن تو ہے مگر حسن نہیں ہے اور اسی بنا پر وہ بل کھا رہا ہے تو معلوم یہ ہوا کہ لفظ ’’کیفیت‘‘ بے کار ہو گیا۔ ’’سر تا بہ قدم بل کھانا‘‘ بھی بہت غیرمناسب ہے۔ خیر، اب اگلے شعر کو دیکھیں،
     
    مرے دل کے سوا کیا رزم گہ تھی ہی نہیں کوئی
    یہ جنگ خیروشر یارب یہیں کیوں ہو یہیں کیوں ہو
     
    یہ مضمون تو بہت سامنے کا ہے۔ قرآن شریف میں اللہ میاں نے تو کہہ ہی دیا ہے اور بھلا اس سے اچھا کوئی کیا کہےگا؟ (یعنی ہم نے انسان کو اچھی تقویم پر بنایا اور پھر اس کو گرا دیا) تو یہ صفت تو انسان میں ہے ہی۔ یہ کم بخت تو بنایا ہی ایسا گیا ہے کہ آسمان سے لے کر زمین تک خیروشر میں مبتلا ہے۔ غالب کا مصرع ہے ’’کیوں نہ ہو چشم بتاں محو تغافل کیوں نہ ہو۔‘‘ اس پر طباطبائی نے کتنے پتے کی بات لکھی ہے جو غور کرنے کے قابل ہے۔ طباطبائی کہتے ہیں کہے عام طور پر تکرار ناروا اور فضول ہوتی ہے، لیکن بڑے شاعر کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ جب تکرار کرتا ہے تو اس میں کوئی نہ کوئی مضمون یا معنی کا پہلو رکھ دیتا ہے، جیسے کہ یہاں رکھا ہے۔ ’’محو تغافل‘‘ کے بعد سوالیہ نشان لگا دیجئے اور دوسرے ’’کیوں نہ ہو‘‘ کے بعد سوالیہ نشان رکھئے یا استعجابیہ نشان لگا دیجئے۔
     
    اب اس میں تکراد دو معنی پیدا کر رہی ہے۔ ایک تو یہ کہ آپ زور دے کر کہہ رہے ہیں اور دوسرا یہ کہ پہلے حصے میں تو آپ نے سوال پوچھا کہ ’’کیوں نہ ہو‘‘ اور دوسرے حصے میں استفہام انکاری سے جواب دیا کہ کیوں نہ ہو، یعنی ہونا چاہئے، لہٰذا تکرار جب تک معنی یا مضمون میں اضافہ نہ کرے وہ بالکل فضول ہے۔ ہاں اس سے آپ شعر کا پیٹ بھر لیجئے جیسا کہ فراق صاحب کے اس شعر میں ہے۔ یہ جنگ خیروشر یا رب یہیں کیوں ہو پر بات پوری ہوگئی۔ اب چونکہ مصرع پورا نہیں ہو رہا ہے اس لیے چوتھا رکن بڑھانے کے لیے ’’یہیں کیوں ہو‘‘ ایک بار اور لکھ دیا۔ غالب کے مصرعے میں یہ صورت نہیں ہے۔ اسے تین طرح سے پڑھا جا سکتا ہے اور ہر بار معنی کا نیا پہلو برآمد ہوتا ہے لہٰذا وہاں تکرار نے بہت بڑا کام کیا ہے۔ آگے چلیں،
     
    تیز ہ بختی نہیں جاتی دل سوزاں کی فراق
    آج بھی شمع کے سر پر وہ دھواں ہے کہ جو تھا

    اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ شعر بہت اچھا ہے۔ یہ شعر اردو کے بہت اچھے شعروں میں شامل کئے جانے کے قابل ہے۔ ہر طرح سے شعر مکمل ہے۔ اگرچہ اس پر بہت دور سے غالب کے اس شعر،
     
    شمع بجھتی ہے تو اس میں سے دھواں اٹھتا ہے
    شعلۂ عشق سیہ پوش ہوا میرے بعد
     
    کی پرچھائیں پڑ گئی ہے۔ لیکن جانے دیجئے کوئی ایسی بات نہیں۔ پرچھائیں بہت دور سے آ رہی ہے۔ دھواں ہلکا آ گیا ہے۔ بہرحال اس شعر کو میں بہت ہی عمدہ شعر سمجھتا ہوں۔ بہت ہی کامیاب شعر ہے۔ یقیناً اسے اردو کے اچھے شعروں میں شمار کرنا چاہیے۔ اگلا شعر ہے،
     
    مہربانی کو محبت نہیں کہتے اے دوست
    آہ اب مجھ سے تری رنجش بےجا بھی نہیں
     
    ایک تو فراق صاحب میں یہ بہت ہی بری عادت ہے کہ وہ ہر جگہ ’’اے دوست‘‘، ’’اے یار‘‘ وغیرہ بہت لکھتے رہتے ہیں۔ ’’اے دوست‘‘ کا یہ فقرہ بہت ہی فضول ہے۔ فراق صاحب کے بعد اور ہمارے پہلے کے ترقی پسندوں میں یہ روش بہت عام تھی کہ جہاں مصرع پورا نہیں ہو رہا ہے وہاں ’’اے دوست‘‘ یا ’’اے یار‘‘، ’’یارو‘‘ وغیرہ لگاکر اسے پورا کر دیا۔ اب دیکھئے ’’مہربانی کو محبت نہیں کہتے’’اسی پر بات پوری ہو گئی۔ ’’اے دوست‘‘ کی کیا ضرورت ہے؟ ’’آہ اب مجھ سے تری رنجش بے جا بھی نہیں۔‘‘ دوست ہی سے کہا جا رہا ہے اور کسی سے تو نہیں؟ لفظ ’’آہ‘‘ بھی یہاں فضول ہے۔ معاملے کا شعر ہے، شکوے شکایت کا شعر ہے، اس میں ’’آہ‘‘ کی کیا ضرورت؟ پورا بیان ہی آہ پر مبنی ہے۔
     
    اس شعر کی باریکی ’’رنجش بے جا‘‘ کی ترکیب میں ہے۔ اگر یہ ترکیب نہ ہوتی تو شعر دو کوڑی کا تو چاہے نہ ہوتا لیکن بہت اچھا شعر بھی نہ ہوتا۔ اس شعر کی ساری بڑائی ’’رنجش بےجا‘‘ کی وجہ سے ہے۔ یہ معشوق سے معاملے کی بات ہے۔ مگر اس کو نظیری بہت پہلے کہہ چکے ہیں،
     
    تا منفعل ز رنجش بے جا نہ بینمش
    می آرم اعتراف گناہ نہ بودہ را
     
    گستاخی ہوتی ہے، معاف کیجئےگا۔ اس شعر کا جواب فراق صاحب تو کیا بڑے بڑے صاحب بھی نہیں دے سکتے۔ تو جب نظیری نے اس طرح باندھ دیا تو اب کیوں باندھتے ہو؟ جب ’’رنجش بےجا‘‘ کو چار سو برس پہلے ایک آدمی گجرات میں بیٹھ کر باندھ چکا ہے تو ہمیں کیا تکلیف ہے کہ کہ اسے پھر باندھیں؟ اور اگر باندھتے تو کم از کم پوری طرح باندھتے۔ پہلے مصرع میں تو ’’اے دوست‘‘ لکھ کر آپ نے مصرع تباہ کر دیا۔ پھر دوسرے مصرع میں ’’آہ‘‘ بھی لگا دیا۔ ’’آہ‘‘ کی کیا ضرورت تھی؟ آہ، ہائے، وائے کی کوئی ضرورت یہاں نہیں ہے۔ بات اس طرح ہی پوری ہے کہ ’’مہربانی کو محبت نہیں کہتے۔ اب مجھ سے تری رنجش بےجا بھی نہیں۔‘‘ لیکن مصرع پورا کرنے کے لیے ’’اے دوست‘‘ اور ’’آہ‘‘ لکھنا پڑا۔ نظیری کے یہاں سے بات لے کر آئے پھر بھی بات نہیں بنی۔ بہرحال شعر اچھاہے لیکن ان وجوہ کی بنا پر اس میں کمزوری بھی پیدا ہو گئی ہے۔ آگے چلیں،
     
    وہ مخاطب بھی ہیں قریب بھی ہیں
    ان کو دیکھیں کہ ان سے بات کریں
     
    یہ تو مہمل شعر ہے بھائی۔ ہاں ٹیلی فون پر مخاطب ہو رہے ہیں تو اور بات ہے، ورنہ مخاطب ہیں تو سامنے تو ہوں گے ہی۔ پھر ’’قریب بھی ہیں‘‘ کہنے کی کیا ضرورت ہے؟ جب آپ مجھ سے مخاطب ہو رہے ہیں تو ظاہر ہے میرے سامنے ہی تو ہوں گے۔ یہ تو ہے نہیں کہ ٹیلی فون پر بیٹھے بات کر رہے ہیں یا ٹی وی پر ہیں۔ اس زمانے میں تو ٹیلی ویژن تھا بھی نہیں۔ تو ’’وہ مخاطب بھی ہیں‘‘ کافی ہے، ’’قریب بھی ہیں‘‘ کہنا بے معنی ہے۔ ہاں دوسرا مصرع بہت اچھا لائے ہیں ’’ان کو دیکھیں کہ ان سے بات کریں۔‘‘ یا ’’تم کو دیکھیں کہ تم سے بات کریں‘‘ لیکن اب پہلے مصرعے کو پورا کرنے کی پریشانی ہے تو کیا کرتے۔ بڑے شاعر ہوتے تو بات بنا لیتے۔
     
    میر کے یہاں اس کی سیکڑوں مثالیں مل جائیں گی کہ ایک مصرعے میں بات مکمل ہو گئی ہے تو دوسرے مصرعے میں کوئی اور مضمون پیدا کر دیا ہے۔ یہاں مضمون پیدا کرنے کے چکر میں یہ نہیں دیکھا کہ مصرع میں اہمال پیدا ہو گیا ہے۔ یہ نہیں غور کیا کہ جب مخاطب ہے تو قریب تو ہوگا ہی، ورنہ ایسا تو ہے نہیں کہ دور سے پکار رہا ہوگا۔ ہاں اگر جلسۂ عام میں لکچر دے رہا ہے تو اور بات ہے لیکن اس صورت میں دیکھنا ہی دیکھنا ہوگا، بات تو نہیں ہو سکتی۔ اگلا شعر ہے،
     
    حاصل حسن و عشق بس ہے یہی
    آدمی آدمی کو پہچانے

    اس سے بہ درجہا بہتر طریقے سے تو ہمارے پنجابی اقبال ہی کہہ گئے ہیں، ’’جاوید نامہ‘‘ میں،

    آدمیت احترام آدمی
    باخبر شو از مقام آدمی
     
    اب کیا ضرورت تھی آپ کو جھک مارنے کی؟ لیکن اگر جھک مارنا ہی تھا تو ذرا سوچتے کہ حسن کا حاصل کیا ہوتا ہے بھائی؟ حسن کوئی عمل تھوڑا ہی ہے۔ ہاں عشق عمل ہے، لہذا عشق کا حاصل تو سمجھ میں آتا ہے۔ لیکن’’حسن کے حاصل‘‘ سے کیا مراد ہے؟ حسن تو ایک کیفیت ہے۔ حاصل حسن نہیں ہو سکتا۔ حاصل عشق ہو سکتا ہے، حاصل ہجر ہو سکتا ہے وغیرہ۔ یعنی جہاں کوئی عمل ہو وہاں ’’حاصل‘‘ ہو سکتا ہے۔ حسن تو عمل نہیں ہے۔ عشق توعمل کے لیے آپ کو مجبور کرتا ہے کہ آپ عمل فرمائیں (ہنسی) اس لیے حسن کا حاصل غلط ہے۔
     
    اگر ہم یہ کہتے ہیں کہ حسن وعشق کے معاملات کا حاصل یہ ہے کہ تو سبحان اللہ، حسن وعشق کے مجادلے کا حاصل یہ ہے، تو بھی بہت خوب۔ حسن کا حاصل کچھ نہیں ہو سکتا۔ اقبال کی برائی کرتے کرتے فراق صاحب مر گئے لیکن جہاں ضرورت سمجھی وہاں وہ اقبال کے یہاں سے مضمون لے بھی آئے جیسے یہاں۔ اتنا زبردست اور مکمل شعر ایک آدمی کہہ کے مر گیا ہے تو اب ہم کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ اس کی نقل کریں،

    آدمیت احترام آدمی
    باخبر شو از مقام آدمی

    دوسرا مصرع آپ دیکھیے۔ اس پر بھلا کیا کوئی مصرع لگائےگا؟ تو اب کیوں کہہ رہے ہو؟ لیکن اگر کہہ رہے ہو تو ٹھیک سے کہو۔ اب اگلا شعر دیکھیں،
     
    اکا دکا صدائے زنجیر
    زنداں میں رات ہو گئی ہے

    کیا غضب کا شعر کہا ہے، لیکن درد کا یہ شعر بھی سن لیجئے،
     
    اٹھتی نہیں ہے خانۂ زنجیر سے صدا
    دیکھو تو کیا سبھی یہ گرفتار سو گئے
     
    یہ درد کا شعر ہے۔ درد کے برابر کا تو نہیں، لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ فراق صاحب نے یہ بہت اچھا شعر کہا ہے۔ لیکن اگر کہا جائے کہ یہ اردو کے بڑے اور شاہ کار شعروں میں شمار ہو سکتا ہے تو اس سے میں اختلاف کرتا ہوں۔ درد کا شعر یقینا اس سے بہتر ہے اور کم از کم بہت پہلے کا کہا ہوا ہے۔ اس طرح درد کو تقدم تو حاصل ہی ہے۔ آگے بڑھتے ہیں،
     
    نگاہ یار کچھ ایسی پھری ہجراں نصیبوں سے
    کہ اب تو جس کا جی چاہے وہی غم خوار ہو جائے
     
    دوسرا مصرع بہت ہی اچھا کہا ہے۔ اگرچہ اس طرح کے مضمون اس سے بہت اچھی طرح میر کہہ چکے ہیں۔ ان کا ایک شعر یاد آ گیا،
     
    ایک بیمار جدائی ہوں میں آپ ہی تس پر
    پوچھنے والے جدا جان کو آ جاتے ہیں
     
    بھئی جب یہ شعر کہا جا چکا ہے تو۔۔۔ اچھا چلیے، میں نے پھر بھی مان لیا کہ ڈھائی سو برس پہلے کہا تھا۔ بے چارہ بڈھا میر۔۔۔ اس شعر کو لوگ بھول بھال گئے۔ کسی نے شاید پورا کلیات پڑھا بھی نہیں ہوگا۔ لیکن یہاں یہ غور فرمائیے ’نگاہ یار کچھ ایسی پھری۔ اس پر بات پوری ہو گئی۔ جس سے نگاہ یار پھر گئی وہ ہجراں نصیب تو ہو ہی گیا بلکہ اس سے بھی بدتر ہو گیا، لہٰذا یہاں ’’ہجراں نصیبوں سے‘‘ کا فقرہ مصرع پورا کرنے کے لیے رکھا گیا ہے اور بس۔
     
    جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ معنی کا مرتبہ کیا ہے، اس کے اعتبار سے الفاظ لائے جائیں اور الفاظ کے اعتبار سے معنی لائے جائیں، جیسے میر انیس کے یہاں تھا۔ میر انیس کا جو بڑا کمال ہے وہ یہی ہے کہ وہ ہمیشہ معنی کے مرتبے کے لحاظ سے لفظ لاتے ہیں اور لفظ کے اعتبار سے معنی رکھتے ہیں۔ یہاں تو یہ ہے کہ جس سے نگاہ یار پھر گئی وہ بے انتہا منحوس آدمی ہوا۔ اس حساب سے ہجراں نصیبی تو بہت معمولی بات ہے۔ ہجراں نصیبی میں تو یہ ہے کہ معشوق آج نہیں ہے، ممکن ہے کل مل جائے، ابھی دلی چلا گیا، کلکتے چلا گیا یا کہیں اور چلا گیا ہے لیکن کل آ جائےگا۔ ہجراں نصیب جو آدمی ہے اس کے بارے میں ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ معشوق اس سے پھر گیا ہے۔ بھئی دنیا والوں نے الگ کر دیا ہوگا، طلاق دلوادی ہوگی، جھگڑا ہو گیا، کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ یعنی یہ کہ ہجراں نصیبی میں نگاہ یار کے پھر نے کا مفہوم شامل نہیں ہے۔
     
    نگاہ یار کا پھرنا ہجراں نصیبی کے مقابلے میں بڑے معنی رکھتا ہے۔ ہجراں نصیب ہونا عشاق کی صفت ہے اور نگاہ پھیر لینا معشوق کی صفت ہے۔ ظاہر ہے کہ معشوق کی صفت کا درجہ عاشق کی صفت کے درجے سے بلند تر ہوگا۔ اس طرح یہاں دونوں معنی برابر نہیں ہیں، لہٰذا پہلی بات تو یہ کہ ’’ہجراں نصیبوں سے‘‘ کی کوئی ضرورت نہیں تھی، ’’نگاہ یار کچھ ایسی پھری‘‘ ہی کافی تھا۔ دوسری بات یہ کہ اگر ضرورت تھی بھی تو یہ دونوں برابر کے ٹکڑے نہیں ہیں اور تیسری بات یہ کہ اس سے بہت ہی اچھا شعر میر کا میں بھی سنا ہی چکا ہوں۔ اب آپ کے انتخاب میں حسب ذیل شعر ہے،
     
    جسم اس کا نہ پوچھئے کیا ہے
    ایسی نرمی تو روح میں بھی نہیں
     
    ارے بھائی! اس کو تو سات سو برس پہلے امیر خسرو کہہ گئے تھے اور ایسا کہہ گئے کہ ہمارے میر صاحب کو ستر برس مشق کرنی پڑی اور انھوں نے پانچ بار اس مضمون کو باندھا۔ بہرحال پہلے خسرو کا شعر سن لیجئے،
     
    گر جان یوسف از عدم ایں سو نیا مدست
    ایں تن کہ دید مش بہ تہ پیرہن چہ بود
     
    یعنی اگر یوسف کی روح عدم سے واپس نہیں آ گئی ہے تو وہ بدن جو اس کے تہ پیرہن میں نے دیکھا وہ کیا تھا؟ تو وہ شخص جو سات سو برس پہلے اس مضمون کی انتہا تک پہنچ چکا ہو، کہ جان ہی نہیں کہا، جان یوسف کہا اور یہ بھی کہا کہ جان یوسف عدم سے لوٹ کر آ گئی ہے تو میں نے اس کو عریاں دیکھ لیا ہے۔ ’’این تن کہ دید مش بہ تہ پیرہن۔‘‘ یعنی پیراہن کے ساتھ بھی عریاں دیکھا اور بغیر پیرہن کے بھی عریاں دیکھا۔ اس کے ایسے شعر پر منہ چڑھانے کیوں بیٹھے ہیں؟ اب کچھ شعر میر کے دیکھے،
     
    کیا بدن کا رنگ ہے تہ جس میں پیراہن پہ ہے
    کیا تن نازک ہے جاں کو بھی حسد جس تن پہ ہے
     
    لطف اس کے بدن کا کیا کہوں میر
    کیا جانئے جان ہے کہ تن ہے
     
    لطف بدن کو اس کے ہرگز پہنچ سکے نہ
    جا پڑتی تھی ہمیشہ اپنی نگاہ جاں پر
     
    کوئی لائے ان اشعارکا جواب۔ میر کو ستر برس لگے اس مضمون کو طرح طرح سے باندھنے میں اور اسے میر نے چھ دیوانوں میں باندھا ہے۔ ستر برس تک میر نے اس مضمون کی مشق کی کہ شاید کہیں امیر خسرو کے شعر کا جواب بن جائے، تو جس اکھاڑے میں گاما پہلوان لڑ رہے ہیں وہاں آپ اپنے پدی کو لڑوا رہے ہیں اور یہ بھی خیال رکھیے کہ اس مضمون کو آبر وبھی باندھ چکے ہیں، دو تین بار 1 بہرحال، اگلا شعر ملاحظہ ہو،
     
    چپ ہو گئے تیرے رونے والے
    دنیا کا خیال آ گیا ہے
     
    بہت عمدہ شعر کہا ہے۔ اگرچہ، جیسا کہ میں نے کہا، یہ مضمون بھی انگریزی کی شاعروں سے مستعار ہے لیکن پھر بھی بہت عمدہ کہا ہے۔ لیکن ذرا ٹھہریے۔ میر کا شعر ہے،
     
    جگر چاکی ناکامی دنیا ہے آخر
    نہیں آئے جو میر کچھ کام ہوگا
     
    اب اس شعر کا جواب لائیے۔ اس کے آگے ’’چپ ہو گئے تیرے رونے والے‘‘ کہنا کتنا برا معلوم ہوتا ہے۔ کہنا چاہئے تھا، ’’تیرے باعث رونے والے‘‘، یا ’’تیری بنا پر رونے والے‘‘ یعنی وہ لوگ جن کو تو نے رلایا، چپ ہو گئے۔ یہاں تو مفہوم یہ نکلتا ہے کہ تو مر چکا ہے اور تیرے رونے والے اب چپ ہو گئے ہیں تو بالکل دوسری بات ہو گئی۔ اسی کو ’’عجز نظم‘‘ کہتے ہیں۔ اگلا شعر آپ کے انتخاب کا ہے،
     
    ہم سے کیا ہو سکا محبت میں
    خیر تم نے تو بے وفائی کی
     
    یہ بھی اسی انداز کا شعر ہے اور اچھا شعر ہے۔ اسی انداز سے مراد یہ کہ عشق اور معشوق کو اپنی سطح پر لاکر دیکھنا۔ اس طرح کا مضمون مومن اس سے پہلے باندھ چکے ہیں۔ آپ نے وہ شعر ضرور سنا ہوگا۔
     
    ہم بھی کچھ خوش نہیں وفا کرکے
    تم نے اچھا کیا نباہ نہ کی
     
    فراق کا شعر اس شعر سے براہ راست مستعار ہے۔ یہ ضرور ہے کہ فراق کے یہاں خود پر ایک نفرت کا اظہار کیا جا رہا ہے جو مومن کے یہاں نہیں ہے۔ مومن کے یہاں محض ایک شکست اور ایک طرح کا حرمان ہے۔ فراق صاحب کا یہ خاص انداز ہے، جیسا میں نے عرض کیا فراق صاحب کے دو مضمون بہت خاص ہیں۔ ایک مضمون تو وہ جس میں تلخی بہت ہوتی ہے۔ یعنی اپنے بارے میں، معشوق کے بارے میں اور دنیا کے بارے میں خاص کر اپنے بارے میں یہ کہنا کہ ان میں وہ سچائیاں نہیں ہیں جو کہ وہ سمجھتے آ رہے ہیں، جیسا کہ ان کے شعر ’’ارے وہ درد محبت سہی۔۔۔ ’’ یا ’’دنیا کا خیال آ گیا۔۔۔ ’’ میں کہا گیا ہے۔ مطلب یہ کہ عشق ومحبت وغیرہ ہی سب کچھ نہیں ہیں بلکہ ان کے علاوہ دنیا میں اور چیزیں بھی ہیں۔
     
    فراق صاحب کا دوسرا خاص مضمون یہ ہے کہ معشوق کی وہ ادائیں جو بظاہر ستم معلوم ہوتی ہیں، فی الواقع وہ ستم نہیں ہوتیں۔ یہ مضمون میر اور غالب کے یہاں بھی بہت ملتا ہے۔ زیر بحث شعر کے بارے میں یہ ضرور ہے کہ شاید فراق صاحب کے علاوہ اور کوئی یہ شعر نہ کہہ سکتا کیونکہ یہ فراق صاحب کے مزاج کا مضمون ہے۔ لیکن چونکہ اس مضمون کو مومن بڑی حد تک باندھ چکے ہیں، اولیت انھیں کو ہے، یہ الگ بات ہے کہ دو الگ الگ لائنیں ہو گئی ہیں۔ اگلا شعر ملاحظہ ہو،
     
    دل دکھے روئے ہیں شاید اس جگہ اے کوئے دوست
    خاک کا اتنا چمک جانا ذرا دشوار تھا
     
    پہلے مصرع کے ’’اے کوئے دوست‘‘ میں ’’اے‘‘ کی کیا ضرورت تھی؟ دوسرا مصرع ظاہر ہے بہت عمدہ اور صاف کہا ہے۔ ’’دل دکھے‘‘ کا فقرہ مجھے ذرا دکھتا ہے لیکن چلئے آپ معاف کر دیں تو مجھے بھی کوئی اعتراض نہیں ہے کیونکہ ’’دل دکھے‘‘ اور ’’دل جلے‘‘ برابر کے لفظ ہیں۔ ’’دل جلے‘‘ تو محاورے میں شامل ہے لیکن ’’دل دکھے‘‘ محاورے میں شامل نہیں ہے اور ’’دکھنا‘‘ اور ’’جلنا‘‘ دونوں افعال میں فرق ہے۔ لیکن چلئے میں کوئی اتنا برا نہیں سمجھتا اس لئے کہ شاعر کو حق ہے، خاص کر اچھے شاعر کو، کہ وہ الفاظ کے ساتھ تھوڑا بہت کھیل کرے مگر یہ تو ماننا ہی پڑےگا کہ ’’اے کوئے دوست‘‘ میں ’’اے‘‘ کا لفظ بالکل ہی غیرضروری ہے۔ یوں تو ’’کوئے دوست‘‘ بھی غیرضروری ہے لیکن چلئے ہم اسے چھوڑ دیتے ہیں۔ اس مضمون کو میر نے بھی استعمال کیا ہے اور غالب نے تو ایسا استعمال کیا ہے کہ اب اس سے اچھا کوئی کیا کہےگا،
     
    جب بہ تقریب سفر یار نے محمل باندھا
    تپش شوق نے ہر ذرے پہ اک دل باندھا
     
    لیکن فراق صاحب نے یہ بہت اچھا شعر کہا ہے۔ بس یہ ہے کہ اس میں ’’اے کوئے دوست‘‘ کی بھرتی بھی ہے۔ آگے دیکھتے ہیں،
     
    شکوہ کیا الم کا تو نم دیدہ ہو گئے
    تم تو ذرا سی بات پہ رنجیدہ ہو گئے
     
    ٹھیک ہے، اچھا شعر ہے، دوسرا مصرع بہت صاف کہا ہے۔ پہلے مصرعے میں پھر وہی بات کہ معنی کے مرتبے کے اعتبار سے الفاظ نہیں آئے۔ اول تو انسان الم کا شکوہ نہیں کرتا۔ شکوہ ستم کا ہوتا ہے، ہجر کا ہوتا ہے۔ اگر زیادہ جوش میں آ جائیں تو شکوہ بےوفائی کا بھی کر لیجئے۔ آپ الم کا شکوہ نہیں کرتے، لیکن اگر آپ شکوہ کرتے بھی تو ’’الم‘‘ کا لفظ کمزور ہے یعنی ’’الم‘‘ کی قبیل کے اور الفاظ میں یہ لفظ کمزور سمجھا جاتا ہے، اس لیے یہ ٹکڑا ’’شکوہ کیا الم کا‘‘ بڑا عجیب سا لگتا ہے۔ دوسرا مصرع جتنا اچھا بنا ہے اتنا اچھا پہلا مصرع نہیں بن پایا ہے۔ لیکن خیر چلئے یہ شعر ٹھیک ہے، اگرچہ ’’رنجیدہ‘‘ کا لفظ ’’نم دیدہ‘‘ کے پہلے آتا تو بہتر تھا کہ ’’نم دیدہ‘‘ قوی تر ہے۔ اگلا شعر ہے،
     
    ہمارا جی بہت ڈرتا ہے جب سنسان راتوں میں
    ہم ایسے میں تری یادوں کی چادر تان لیتے ہیں
     
    میر کا شعر اس مضمون پر بہت اچھا موجود ہے،
     
    افسانے ماومن کے سنیں میر کب تلک
    چل اب کہ سوویں منھ پہ ڈوپٹے کو تان کر
     
    فراق کے شعر کا سارا مزہ ’’چادر تان لینے‘‘ میں ہی ہے۔ یہ میر کے یہاں کئی بار آچکا ہے۔ ایک شعر ابھی سنا چکا ہوں۔ پھر بھی میں اس شعر کو اچھا مان لیتا ہوں مگر ایک بات یہ ہے کہ آپ نے پہلے مصرعے میں ’’جب‘‘ کہہ دیا ہے تو دوسرے مصرعے میں ’’ایسے میں‘‘ کہنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ کیونکہ ’’جب‘‘ کے معنی میں ’’ایسے میں‘‘ کا مفہوم شامل ہے، لہٰذا ان دونوں میں سے صرف ایک ہی کو استعمال کرنا چاہئے تھا۔ موجودہ صورت میں دو میں سے ایک لفظ یقیناً حشو ہے۔ دوسرے مصرعے میں چادر تان لینے کا ایسا زبردست پیکر استعمال ہوا ہے کہ اس کو سننے کے بعد یہ ہوش نہیں رہتا کہ شعر میں کوئی نقص بھی ہے۔ ورنہ غور کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ اس شعر میں ایک بڑی خامی موجود ہے۔ پھر فراق صاحب کے لہجے میں جو اٹھلاہٹ Cutesiness ہے وہ شعر کے مضمون سے مناسبت نہیں رکھتی۔
     
    اصل میں فراق صاحب کی کامیابی کے جہاں اور بہت سے راز تھے، جن سے آپ واقف ہوں گے، ایک بہت بڑا راز یہ تھا کہ ان کے شعروں میں کیفیت بہت پائی جاتی ہے۔ مشکل یہ بھی آ پڑی ہے کہ ہمارے یہاں پرانے استادوں نے غزل کی تعریف میں جو اصطلاحیں استعمال کی تھیں انھیں ہم بھول گئے ہیں، مثلاً میر نے خود ’’کیفیت‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ کیفیت، معنی آفرینی، مضمون آفرینی، نازک خیالی، خیال بندی، اس طرح کی بارہ پندرہ اصطلاحیں ہیں۔ جب تک ان کے مفاہیم پورے واضح نہ ہوں، آپ غزل کی تنقید نہیں کر سکتے، اور خاص کر وہ غزل جو کلاسیکی غزل کہلاتی ہے یا جو اس کے رنگ میں ہے، تو اس میں کیفیت کی بڑی اہمیت ہے۔
     
    پرانے لوگوں نے جہاں شعر کے بہت سے محاسن بتائے ہیں، وہیں انھوں نے ’’کیفیت‘‘ کو شعر کا ایک حسن کہا ہے۔ ’’کیفیت‘‘ سے مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ شعر جو فوری طور پر آپ کو Emotional Response کے لئے تیار کردے لیکن جس میں معنی کی کمی ہو۔ صرف میر کے یہاں ایسا ہے اور اسی بنا پر میر کو غالب سے بڑا شاعر سمجھتا ہوں کہ میر کے یہاں کیفیت اور معنی برابر آتے ہیں۔ میر اس معنی میں غیرمعمولی شاعر ہے کہ اس کے یہاں معنی آفرینی بھی کثرت سے ہے اور کیفیت بھی کثرت سے ہے۔ غالب کے یہاں کیفیت بہت کم ہے۔ غالب کے شعر ہمیشہ آپ کو معنی کے لحاظ سے متاثر کرتے ہیں۔ کیفیت کے اشعار میں معنی بہت کم ہوتے ہیں۔ جو شعر فوری طور پر آپ کو متاثر کرتے ہیں کہ واہ کیا بات کہی ہے، وہ کیفیت کے شعر کہلاتے ہیں، مثلاً مصحفی کا مشہور شعر ہے، وہ کیفیت کا شعر مانا جاتا ہے،
     
    چلے بھی جا جرس غنچہ کی صدا پہ نسیم
    کہیں تو قافلۂ نو بہار ٹھہرےگا
     
    اس شعر میں معنی کچھ بھی نہیں ہیں۔ میں آپ حضرات سے درخواست کرتا ہوں کہ اس شعر پر غور کریں۔ آپ کو معلوم ہوگا کہ اس میں معنی کچھ بھی نہیں ہیں۔ لیکن اس میں کیفیت ہے، اس کی بنا پر یہ شعر فوراً متاثر کرتا ہے۔ چنانچہ اسی بنا پر پرانے زمانے میں کہا جاتا تھا کہ ’’شعر خوب معنی ندارد۔‘‘ یعنی اچھے شعر میں معنی نہیں ہوتے، تو کیفیت وہ چیز ہے جس میں معنی کم ہوتے ہیں۔ معنی آفرینی اور طرح کی چیز ہے اور جیسا کہ میں نے عرض کیا میر کے یہاں معنی آفرینی اور کیفیت دونوں کی فراوانی ہے۔ فراق صاحب کے اچھے یا کامیاب اشعار میں کیفیت بہت ملتی ہے اور اسی وجہ سے ان کے اشعار کا سقم ہم سے نظرانداز ہو جاتا ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ بہت عمدہ شعر ہے۔
     
    ظاہر ہے کہ ایک بات پیدا ہوتی ہے اور فوراً لگتا ہے کہ اس شعر نے ہمارے جذبات و احساسات کو بہت برانگیخت کر دیا، ورنہ غزل کے جو لوازم ہیں یا فنی شرائط ہیں ان پر فراق صاحب کے بہت کم شعر پورے اترتے ہیں اور جو اچھے شعر ان پر پورے اترتے بھی ہیں، ان میں سے اکثر پر کسی پہلے کے اچھے یا بڑے شاعر کی چھاپ نظر آتی ہے۔ ان کا عام عیب یہ ہے کہ وہ الفاظ کے مرتبے سے واقف نہیں ہیں، لہٰذا ان کے یہاں الفاظ غیرضروری ہوتے ہیں یا ان کے یہاں معنی کا مرتبہ کچھ ہوتا ہے اور لفظ کا کچھ ہوتا ہے۔
     
    (اس کے بعد فاروقی صاحب احمد مشتاق کے بارے میں پہلے عمومی اظہار کرتے ہیں جو حسب ذیل ہے۔) 
     
    شمس الرحمن فاروقی، احمد مشتاق پنجاب پاکستان کے رہنے والے ہیں۔ ان کی عمر پچاس باون کے قریب ہے۔ سنہ پچاس اکیاون کے قریب یعنی آزادی کے بعد غزل کی نئی رو، جو پاکستان میں آئی، اس میں تین چار لوگوں کے نام پاکستان میں اس زمانے میں بہت اہم تھے۔ عسکری صاحب نے خاص جن لوگوں کا ذکر کیا ان میں ناصر کاظمی، احمد مشتاق اور جمیل الدین عالی تھے۔ ایک آدھ لوگ اور بھی تھے لیکن یہ تین نام انھوں نے خاص طور پر لئے۔ ناصر کاظمی کو تو آپ جانتے ہی ہیں کہ ان کا انتقال ۱۹۷۲ء میں ہو گیا۔ جتنا انھوں نے کہا، بہت ہی اچھا کہا، بہت اہم شاعر تھے۔ نئی غزل کے اکثر شاعر اب بھی ناصر کاظمی کو اپنا امام یا پیش رو سمجھتے ہیں۔
     
    احمد مشتاق اس زمانے میں بھی خاصے معروف ہو چکے تھے۔ ان کا پہلا مجموعہ بہ عنوان ’’مجموعہ‘‘ ۱۹۶۲ء میں چھپا۔ وہ اس وقت بہت کم کہتے تھے اور اب بھی بہت کم کہتے ہیں۔ لیکن اس مجموعے کی بنا پر لوگوں نے حکم لگا دیا کہ یہ ناصر کاظمی وغیرہ کے برابر کا شاعر ہے لیکن ان سے مختلف ہے، اپنی زبان اور اپنے لہجے کے اعتبار سے۔ اس کے یہاں وہ محزونی نہیں ہے جوناصر کاظمی کے یہاں ہے بلکہ اس کے یہاں ایک طرح کا کھردرا پن پایا جاتا ہے۔ لیکن غزل کے جو لوازم ہیں جنھیں ہم میر سے لے کر بعد کے شاعروں تک دیکھتے ہیں، ان پر یہ شخص پورا اترتا ہے۔ ناصر کاظمی کے مرنے کے بعد وہ کچھ دن تو بالکل خاموش رہے۔ اس وقت وہ چارٹرڈ بینک میں ملازم تھے۔ بعد میں اسی بینک کی ملازمت پر امریکہ آ گئے اور اب مستقلاً وہیں رہتے ہیں۔
     
    احمد مشتاق بہت ہی کم گو، کم سخن اور کم آمیز شخص ہیں۔ ان سے میری دو تین ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ یہ شخص بہت کم گفتگو کرتا ہے بلکہ جو کچھ کہتا ہے گویا شعر ہی کی زبان میں کہتا ہے۔ جیسا کہ ابھی آپ کو معلوم ہو جائےگا کہ بالکل نئے ذائقے کا شعر کہنے والا آدمی ہے۔ جس چیز نے ناصر کاظمی کو ممتاز کیا تھا اور جیسا کہ ناصر کاظمی کا مشہور مقولہ بھی ہے کہ ’’ہمارے عہد کی رات میر کے عہد کی رات سے جاملی ہے۔‘‘ تو ان کے ذہن میں یہ تصور تھا کہ میر بڑے محزوں اور مایوس وغیرہ وغیرہ قسم کے شاعر تھے۔
     
    ظاہر ہے کہ یہ بات غلط ہے، لیکن ناصر کاظمی کا یہ اپنا تصور تھا۔ ان کے یہاں بچھڑنے کا، گھر کے خالی ہو جانے اور شہر کے خالی ہو جانے کا اور شہر میں آوارہ پھرنے کا، گویا گھر نہ ہونے کا بیان اور اس طرح کے مضامین خاص طور پر ملتے ہیں۔ ان کے برخلاف احمد مشتاق کے یہاں مضامین کا زیادہ تنوع ہے۔ ایک طرح کا کھردراپن، ایک طرح کی سختی اور صلابت ہے۔ اس وقت تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ احمد مشتاق کی نسل کے اور ان کے ہم عمر شاعروں میں پاکستان میں ان سے اچھا کوئی شاعر نہیں ہے۔
     
    (اس کے بعد احمد مشتاق کے حسب ذیل اشعار ڈاکٹر ابواللیث صدیقی نے پڑھ کر سنائے۔) 
     
    دل کو بے وجہ سکوں ملنے لگا ہے مشتاق
    کوئی شے ٹوٹ رہی ہے مرے اندر دیکھو
     
    دل پریشاں ہو گیا رنگ زوال حسن سے
    آگ دیکھی تھی دھواں پہلے کبھی دیکھا نہ تھا
     
    روشنی رہتی تھی دل میں زخم جب تک تازہ تھا
    اب جہاں دیوار ہے پہلے یہاں دروازہ تھا
     
    پتھر ابھی پنہاں ہے خدوخال کے پیچھے
    قائم ترے چہرے کی صباحت ہے ابھی تک
     
    جاتے ہوئے ہر چیز یہیں چھوڑ گیا تھا
    لوٹا ہوں تو اک دھوپ کا ٹکڑا نہیں ملتا
     
    اب بتائیں بھی تو کیسے دل کے بجھنے کا سبب
    ہم کہ اپنے آپ سے پہلو تہی کرتے رہے
     
    یہ کہنا تو نہیں کافی کہ بس پیارے لگے ہم کو
    انھیں کیسے بتائیں ہم کہ وہ کیسے لگے ہم کو
     
    میں کبھی یہ حرف نہ بولتا میں کبھی یہ راز نہ کھولتا
    تری آنکھ نے دیا حوصلہ تو یہ بوجھ ادھر سے ادھر کیا
     
    ہم نے اپنے آپ سے دھوکا کیا
    تم نے اپنی خواہشوں کا کیا کیا
     
    کس قدر گونج ہے اس رات کے سناٹے میں
    نہ یقیں آئے تو آواز لگا کر دیکھو
     
    یہ پانی خامشی سے بہہ رہا ہے
    اسے دیکھیں کہ اس میں ڈوب جائیں
     
    اجنبی لوگ ہیں اور ایک سے گھر ہیں سارے
    کس سے پوچھیں کہ یہاں کون سا گھر اس کا ہے
     
    اہل ہوس تو خیر ہوس میں ہوئے ذلیل
    وہ بھی ہوئے خراب محبت جنھوں نے کی
     
    ان کہی بات نے اک حشر اٹھا رکھا تھا
    شور اتنا تھا کوئی بات نہ ہونے پائی
     
    نئے دیوانوں کو دیکھیں تو خوشی ہوتی ہے
    ہم بھی ایسے ہی تھے جب آئے تھے ویرانے میں
     
    شمس الرحمن فاروقی، حضرات، میرے خیال میں تو ان اشعار پر اظہار خیال کرنے کی زیادہ ضرورت نہیں ہے۔ ایک دو باتیں ضرور آپ نے نوٹ کی ہوں گی۔ جیساکہ میں نے عرض کیا تھا، ناصر کاظمی کے یہاں تو ایک طرح کی محزونی اور یاس انگیزی ہے۔ اس کے برخلاف اس شخص کے یہاں ایک طرح کا کھردرا پن، صلابت اور تھوڑی سی سختی نظر آتی ہے جو کہ کہیں کہیں پر کلبیت کی حد تک پہنچتی دکھائی دیتی ہے۔ ان اشعار میں بھی پرانے لوگوں کے اشعار کی بازگشت ہے لیکن بہت کم ہے، جیسا کہ میں ابھی عرض کروں گا۔ سطحی طور پر آپ اگر دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ شاید یگانہ کو اس آدمی نے بہت پڑھا ہوگا اور شاید فراق صاحب سے بھی کچھ سیکھا ہو۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ فراق صاحب نے بہت لوگوں کو متاثر کیا ہے اور یہ کوئی حیرت انگیز بات بھی نہیں ہے۔
     
    ایسا اکثر ہوتا ہے کہ کوئی شاعر تاریخ کے کسی خاص موڑ پر ایسا آ جاتا ہے اور جو وقت کی کسی ضرورت کو ایسی پوری کرتا ہے کہ وہ اپنے بعد کے آنے والوں پر کچھ نہ کچھ چھینٹ ضرور ڈال دیتا ہے یا کوئی چھوٹا شاعر کبھی کبھی بڑے شاعرسے ٹکرا جاتا ہے۔ جیسا کہ بہت مشہور مثال ہے کہ ایڈگرایلن پو (Edgar Allen Poe) جو کہ چھوٹا سا انگریزی کا شاعر تھا، اس نے فرانس کے بہت ہی بڑے شاعر بودلیئر (Charles Baudelaire) کو متاثر کیا۔
     
    جب فرانس میں بیٹھے ہوئے بودلیئر نے پوکو پڑھا تو اس نے لکھا کہ ’’میری آنکھیں کھل گئیں اور میرے لیے تو دنیا بدل گئی۔‘‘ آپ تو جانتے ہی ہیں کہ بود لیئر کو فرانس کے سب سے بڑے شاعروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ بہت سے لوگ تو اس کو سب سے بڑا نقاد بھی کہتے ہیں، حالانکہ میری یہ رائے نہیں ہے۔ لیکن شاعر تو وہ بہت بڑا تھا ہی۔ ایڈگرایلن پو اور بودلیئر کا کوئی مقابلہ ہی نہیں۔ اب پہلے شعر کو لیتے ہیں،
     
    دل کو بے وجہ سکوں ملنے لگا ہے مشتاق
    کوئی شے ٹوٹ رہی ہے مرے اندر دیکھو

    فانی کا شعر ہے،
    فانی جس میں آنسو کیا دل کے لہو کا کال نہ تھا
    ہائے وہ آنکھ اب پانی کی دو بوندوں کو ترستی ہے

    ظاہر ہے یہ شعر میر سے لیا ہے اور میر کا شعر تو طوفان کا شعر ہے،
     
    وے دن گئے کہ آنکھیں دریا سی بہتیاں تھیں
    سوکھا پڑا ہے اب تو مدت سے یہ دو آبا
     
    بنیادی خیال یہ ہے کہ ایک منزل وہ آتی ہے کہ جب ہم غم کو بھی انگیز کرنے کے قابل نہیں رہتے اور اس کی جگہ ایک ٹھہراؤ سا آ جاتا ہے۔ جو نئی بات احمد مشتاق کے اس شعر میں ہے، وہ یہ ہے کہ اس کو وہ تعبیر کرتا ہے کسی اندرونی انہدام سے۔ جب وہ کہتا ہے کہ ’’دل کو بے وجہ سکوں ملنے لگا ہے مشتاق۔‘‘ تو یہ مصرع معمولی ہے، کوئی بھی کہہ سکتا ہے۔ لیکن دوسرے مصرعے میں کہا ہے ’’کوئی شے ٹوٹ رہی ہے مرے اندر۔۔۔‘‘ یعنی یہ داخلی یا باطنی انہدام ہے اور یہ ہماری غزل کی شاعری کی بنیادی پہچان ہے۔ دردمندی اور سوز دروں کو ہماری روایت میں بہت اہم مقام دیا گیا ہے۔ فراق صاحب نے اس سے الٹی بات کہی ہے اگرچہ اس کو میں فراق کا اچھا شعر کہتا ہوں،
     
    تیرہ بختی نہیں جاتی دل سوزاں کی فراق
    آج بھی شمع کے سر پر وہ دھواں ہے کہ جو تھا
     
    یہ تیرہ بختی نہیں، یہ تو تقدیر کا چمک جانا ہے کہ دل ہمیشہ جلتا رہے۔ یہاں جملۂ معترضہ کے طور پر ایک واقعہ سنانا چاہتا ہوں۔ شاید اس سے بات مزید واضح ہو جائے یعنی درمندی کی اہمیت کے تعلق سے۔ میر کے زمانے سے ذرا پہلے دلی میں ایک بزرگ تھے۔ ان کا نام سید رسول نما تھا۔ ان کی کرامت یہ تھی کہ کسی سے بھی دو ہزار روپے لے کر اس کو رسول اللہ کی زیارت کرا دیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ ان کی بیوی نے ان سے کہا کہ آپ تمام لوگوں کو زیارت کراتے ہیں لیکن ہم کو کبھی یہ موقع نہ دیا۔ انھوں نے کہا کہ دو ہزار روپئے لاؤ۔ بیوی نے کہا کہ گھر میں تو پھوٹی کوڑی نہیں ہے، دو ہزار روپے میں کہاں سے لاؤں؟ تو انھوں نے کہا کہ اچھا ایسا کرو کہ رسول اللہ کی زیارت کا معاملہ ہے۔ اچھے کپڑے پہن کر آؤ، وہ کپڑے جو چوتھی کے جوڑے کے بطور تمھارے گھر سے آئے تھے، پھر بیوی نے نہایا دھویا، غازہ وغیرہ ملا۔ غرض یہ کہ خوب بن ٹھن کر بیٹھیں۔
     
    میاں باہر سے آئے اور خوب ہنسے اور کہا کہ اچھا، بڈھی گھوڑی لال لگام، یہ عمر اور یہ سجاوٹ۔ لال سرخ کپڑے پہن کر بیٹھی ہیں آپ! غرض کہ وہ ان پر اتنا ہنسے اور ان کا اتنا مذاق اڑایاکہ وہ رونے لگیں اور روتے روتے بے ہوش ہو گئیں۔ اسی بے ہوشی میں ان کو رسول اللہ کی زیارت نصیب ہو گئی۔ اب وہ اٹھیں تو ہنستی ہوئی اٹھیں۔ بزرگ نے پوچھا کہ ہنستی کیوں ہو؟ تو وہ کہنے لگیں کہ ہم نے خود ہی دیکھ لیا۔ آپ بلا وجہ ہم سے مذاق کر رہے تھے تو انھوں نے کہا کہ بیوی بات یہ ہے کہ جب تک دل میں درد نہ ہو، زیادرت نصیب نہیں ہوتی۔ اچھا ایرے غیرے سے دو ہزار روپے لے لیتا ہوں۔ اتنی بڑی رقم دینے والے کا دل دکھتا ہے کہ پتہ نہیں کیا ہو، کیا نہ ہو، اتنی بڑی رقم تو چلی گئی، اس لیے اس کے دل کو دکھانے کے لیے میں اس سے دو ہزار روپے لیتا ہوں۔ تمہارے پاس تو روپے تھے نہیں، اس لیے میں نے تمہیں رلایا۔
     
    تو مطلب کہنے کا یہ ہے کہ دردمندی ہماری روایت کی بہت بنیادی صفت ہے، اسی لیے ہمارے یہاں جو یہ کہا جاتا ہے کہ غم بہت اچھی چیز ہے، غم کو ہم قبول کرتے ہیں اور اسے گلے سے لگائے پھرتے ہیں تو یہ اسی روایت کی بنا پر کہتے ہیں۔ اب اس بات کو آپ ذہن میں رکھتے ہوئے اس مصرع کوئی پڑھئے، کوئی شے ٹوٹ رہی ہے مرے اندر دیکھو۔ یعنی بظاہر تو سکون ہے اور ٹھیک ٹھاک معاملہ ہے لیکن دراصل باطنی اور داخلی سطح پر میرا زوال ہو رہا ہے۔ دردمندی کا مضمون تو پرانا تھا، لیکن اس شعر میں مضمون نیا پیدا ہو گیا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہاں ڈرامائی انداز بھی ہے، کیونکہ پہلے مصرعے میں بہت ہی سپاٹ اور سیدھی سی بات کہہ کر دوسرے مصرعے میں شاعر ہمیں ٹہوکا دیتا ہے کہ کوئی شے ٹوٹ رہی ہے مرے اندر دیکھو۔
     
    اب یہاں یہ بھی دیکھئے کہ معنی کے مرتبے کس طرح الفاظ کے ساتھ اٹھتے ہیں۔ پہلے مصرع میں جان بوجھ کر شاعر سستے طریقے سے بات کہتا ہے تاکہ آپ کو دھوکا ہو جائے کہ ایسی ہی کوئی معمولی بات دوسرے مصرعے میں بھی ہوگی۔ یہاں یہ بھی عرض کر دوں کہ یہ غزل کا خاصہ ہے۔ قصیدہ، مثنوی وغیرہ میں یہ صفت نہیں ہوتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مثلاً مثنوی میں کوئی شعر پڑھا جائے تو اس کے پہلے مصرعے کو سن کر ذہن فوراً الفاظ کی طرف جاتا ہے جن میں سے کوئی لفظ دوسرے مصرعے کا قافیہ ہو سکتا ہے، لہٰذا ہمیں پہلے سے کم از کم اتنا تو معلوم ہی ہو جاتا ہے کہ اگلے مصرع میں بات کس انداز کی ہو سکتی ہے؟ اسی طرح قصیدے میں اگر تشبیب کا کوئی شعر پڑھا گیا تو وہاں بھی ہمیں یہ معلوم رہتا ہے کہ بات کس پس منظر میں کہی جا رہی ہے اور اگلے مصرع یا اگلے شعر میں کس طرح کی بات کہی جا سکتی ہے۔
     
    ان اصناف کے برخلاف غزل میں ایسا قطعی نہیں ہوتا کیونکہ قصیدہ یا مثنوی میں معاملہ مربوط ہوتا ہے لیکن غزل کے اشعار میں آپسی ربط کا کوئی چکر نہیں ہوتا، اسی لیے غزل کے شعر کے پہلے مصرعے کو سن کر ہم کچھ بھی اندازہ نہیں لگا سکتے کہ اگلے مصرعے میں بات کیا ہوگی، جیسا کہ مذکورہ شعر میں احمد مشتاق نے کہا ہے۔ اگلا شعر ہے،
     
    دل پریشاں ہو گیا رنگ زوال حسن سے
    آگ دیکھی تھی دھواں پہلے کبھی دیکھا نہ تھا
     
    مضمون نیا ہے لیکن بالکل نیا نہیں ہے۔ غالب نے بھی کہا ہے۔ میر بھی کہہ چکے ہیں۔ غالب نے تو اس مضمون پر بہت بڑا شعر کہہ دیا ہے،
     
    پوچھ مت رسوائی انداز استغنائے حسن
    دست مرہون حنا رخسار رہن غازہ تھا
     
    غزل کی ایک صفت یہ ہوتی ہے کہ شعر میں جتنے لفظ ہوتے ہیں وہ اگلے الفاظ کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور ان سے آپس میں دست وگریباں ہوتے ہیں۔ اب یہاں دیکھئے لفظ ’’پریشاں‘‘ کو لیتے ہیں۔ پھر آتا ہے ’’رنگ‘‘ کا لفظ (اس کے بارے میں تو آپ جانتے ہی ہیں کہ رنگ کی صفت پریشاں ہونا بھی ہوتی ہے)، غالب کا مشہور شعر ہے،
     
    سوخت جگر تا کجا رنج چکیدن دہیم
    رنگ شو اے خون گرم تا بہ پریدن دہیم
     
    تو اڑنا اور پریشان ہونا رنگ کی صفت میں شامل ہے، اس لیے اب جو آپ نے لفظ ’’پریشاں‘‘ کہا تو یہ اتنا کمزور نہیں رہا جتنا بظاہر معلوم ہوتا ہے۔ اس طرح پہلے مصرعے میں ’’رنگ‘‘ کا ’’پریشاں‘‘ سے تعلق پیدا ہو گیا۔ اب اس رنگ کو آگے لائیے۔ دوسرے مصرعے کا پہلا لفظ ’’آگ‘‘ ہے۔ اس میں بھی رنگ ہوتا ہے (میر کا کیا عمدہ مصرع ہے، ’’ترا رنگ شعلہ مرا رنگ کا ہی‘‘) تو یہاں رنگ زوال حسن کے بعد شاعر آگ کا استعارہ لاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ آگ میں دونوں صفات شامل ہیں یعنی ’’رنگ‘‘ کی اور ’’پریشانی‘‘ کی۔ رنگ پریشاں ہوتا ہے اور دھواں پریشان ہوتا ہے۔ یہ پورا شعر ایسا گتھا ہوا ہے کہ اس میں آپ ایک حرف ادھر سے ادھر نہیں کر سکتے۔
     
    میں یہ نہیں کہتا کہ مضمون کے اعتبار سے یہ بہت بڑا شعر ہے کیونکہ یہ مضمون تو عام ہے، کوئی بھی کہہ سکتا ہے۔ لیکن مضمون کو شعر میں جس طرح باندھا گیا ہے اور الفاظ کو جس طرح درو بست میں رکھا گیا ہے وہ قابل داد ہے۔ سچ پوچھئے تو اسی کو ہمارے یہاں موتی پرونا کہا گیا ہے کیونکہ اس شعر میں ’’پریشاں‘‘ کی جگہ حزیں یا غمگیں وغیرہ کہہ دیجئے اور ’’رنگ‘‘ نہ کہہ کر اس کی جگہ اس طرح کا کوئی اور لفظ رکھ دیجئے تو یہ بات ہی پیدا نہیں ہوگی۔ اب شعر حسب ذیل ہے،
     
    روشنی رہتی تھی دل میں زخم جب تک تازہ تھا
    اب جہاں دیوار ہے پہلے یہاں دروازہ تھا
     
    اس میں غضب کا استعارہ تو ہے ہی۔ ایک بات اور غور کر لیجئے کہ زخم کو چراغ سے تشبیہ دیتے ہیں۔ اگر آپ اس سے قطع نظر کرکے دیکھیں تو کوئی خاص بات نظر نہیں آئے گی، بلکہ زخم اور روشنی کے تعلق کو بھی کھینچ تان کر ثابت کرنا پڑےگا۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ بنیادی بات وہی ہے کہ زخم کو چراغ سے تشبیہ دیتے ہیں۔ زخم کی دو تشبیہیں ہوتی ہیں، ایک چراغ کی اور ایک غنچے کی، اس لئے کہ غنچہ بھی کھلتا ہے اور زخم بھی کھلتا ہے۔ چراغ کی تشبیہ زخم کی سرخی کی بنا پر ہوتی ہے اور چونکہ زخم سے دل کی زینت ہوتی ہے اس لیے بھی اس کو چراغ کہتے ہیں۔ اب آپ کو روشنی کا ثبوت مل گیا۔
     
    پھر پہلے مصرع کو شاعر آگے بڑھاتا ہے اور ’’دیوار‘‘ اور ’’دروازہ‘‘ لاتا ہے یعنی پورا زخم بھر گیا تو دیوار ہو گئی۔ دیوار کا کام فصل پیدا کرنا ہے اور دروازے کا کام وصل پیدا کرنا ہے تو زخم جب کھلا ہوا تھا تو اس کو دوازہ کہا۔ اب آپ یہ غور فرمائیے کہ زخم ایک طرف تو چراغ ہے اور دوسری طرف وہ دروازہ ہے جو کھلتا ہے، غالباً معشوق کی طرف یا دنیا کی طرف یا کامیابی کی طرف یا اور کسی طرف۔ اب جو وہ بھر گیا تو گویا دیوار بن گئی۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ مضمون نیا نہیں ہے لیکن نہایت ہی عمدگی اور بڑی خوبصورتی کے ساتھ اس شعر میں ادا کیا گیا ہے۔ اگلا شعر ہے،
     
    پتھر ابھی پنہاں ہے خد وخال کے پیچھے
    قائم ترے چہرے کی صباحت ہے ابھی تک
     
    اس کو ہم کئی طرح پڑھ سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ گورے چہرے کو سنگ مرمر سے تشبیہ دی جاتی ہے اور ایک یہ کہ پتھر سے معشوق یا انسان کا پتھر دل ہونا بھی مراد لیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس شعر کو اگر آپ سوالیہ انداز میں پڑھئے یعنی قائم ترے چہرے کی صباحت ہے ابھی تک؟ یعنی یہ کہ تم یہ تو غور کرو کیا اب بھی تمہارے اندر وہی ظلم وستم اور بے اعتنائی کی کیفیت ہے جو پہلے تھی۔ لیکن تمہارے چہرے پر اب وہ گورا پن کہاں رہ گیا جو پہلے تھا؟ ایک معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ جب تک تمھارا گورا پن باقی رہےگا تب تک تمھارا غرور حسن، یعنی تمھارا پتھر سے بنا ہوا ہونا بھی باقی رہےگا۔ یعنی حسن کی صفت ہی سنگ دلی ہے۔ اگلا شعر ملاحظہ ہو،
     
    جاتے ہوئے ہر چیز یہیں چھوڑ گیا تھا
    لوٹا ہوں تو اک دھوپ کا ٹکڑا نہیں ملتا
     
    بظاہر تو یہ لگتا ہے کہ یہاں دھوپ وقت کا استعارہ ہے لیکن اس شعر میں کئی منزلیں ہیں۔ دھوپ علامت بن جاتی ہے کسی محبوب چیزکی مثلاً بچے کی، معشوق کی یا اپنی یادوں کی جو میں یہاں چھوڑ گیا تھا یا ان ملاقاتوں کی جو اس گھر میں مجھے لوگوں سے ہوا کرتی تھی۔ اچھا ایک سوال یہ بھی ہے کہ میں گھر سے کیوں نکلا تھا اور کہاں گیا تھا؟ اب اسے آپ فراق کہیں ہجرت کہیں یا اور کچھ کہہ لیں مگر یہ کیوں ہوا؟ پورے شعر میں جو پس منظر ہے وہ شعر کے منظر نامے سے بہت بڑا ہے۔ خود شعر اپنی جگہ پر متاثر کرتا ہے لیکن غور کریں تو باتیں زیادہ گہری نظر آتی ہیں۔
     
    اس شاعر کی ایک صفت یہ ہے کہ اس کے یہاں ایک لطیف سا ابہام ہوتا ہے۔ آپ طرح طرح کے سوال قائم کرتے ہیں اور ان کا جواب تلاش کرتے ہیں لیکن اوپر سے شعر بالکل صاف نظر آتا ہے۔ غالب اور میر کے ابہام میں یہی فرق ہے کہ غالب کے یہاں شعر اوپر سے شفاف نہیں ہوتا یعنی اوپری سطح پر ہی سوال قائم ہونے لگتا ہے، جب کہ میر کے یہاں ایسا نہیں ہے۔ ان سے یہاں اوپر سے شعر بالکل صاف اور شفاف رہتا ہے اور ہم یہ سمجھتے ہیں کہ بات بالکل صاف طور پر کہہ دی گئی، لیکن جب غور کرتے ہیں تو طرح طرح کے سوال اٹھنے لگتے ہیں۔ مثال کے طور پر میر کا ایک شعر پڑھتا ہوں (ہنستے ہوئے) سنئے صاف مزے دار شعر ہے۔ ہم لوگوں کے لیے خاص طور سے،
     
    تھی جب تلک جوانی رنج وتعب اٹھائے
    اب کیا ہے میر جی میں ترک ستم گری کر
     
    دیکھے فوراً محسوس ہوتا ہے کہ کیا صاف شعر نکالا ہے۔ لیکن جب معنی پر غور کیجئے تو سوال پیدا ہونے لگتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ اس کی جوانی باقی، اپنی جوانی ختم ہو گئی؟ یا یہ کہ وہ کیوں کر اب بھی جوان ہے؟ یہ سوال پھر آکھڑا ہوتا ہے۔ ایک اور شعر سن لیجئے۔ یہ ولی کا شعر ہے،
     
    ہے حسن ترا ہمیشہ یکساں
    جنت سوں بہار کیوں کے جاوے
     
    دیکھئے یوں بنتا ہے شعر۔ جو دعویٰ کیا اس کی کیا دلیل رکھ دی۔ کیا شعر کہا ہے۔ اب میر کا شعر پھر پڑھئے کہ تھی جب تلک جوانی، اس میں اور بھی بہت سی باریکیاں ہیں۔ تو یہ میر کی سب سے نمایاں صفت ہے۔ پہلے تو ہم سمجھتے ہیں کہ میر صاف اور سادہ شعر کہتا ہے، لیکن جب رک کر اور غور کرکے پڑھیں تو شعر سے طرح طرح کی کرید پیدا ہونے لگتی ہے کہ یہ کیوں کہا؟ ایسا کیوں کہا؟ وغیرہ وغیرہ۔ یہ صفت احمد مشتاق احمد میں بھی ہے، میر کے اتنی تو نہیں لیکن یہ بھی اسی خاندان کے شاعر ہیں۔ جیسے کہ اس شعر میں ہے کہ تمام باتیں مبہم ہیں، مثلاً کیوں گئے تھے؟ کہاں گئے تھے؟ اور گھر میں تھا کیا کیا، جس کے بارے میں کہتا ہے کہ سب کچھ چھوڑ گیا تھا۔
     
     پھر یہ کہ واپس لوٹنے پر وہ کیا چیز ہے جو نہیں ملتی؟ یعنی دھوپ کو جس کی علامت بنایا ہے، تو اس طرح بہت سے سوال اٹھتے ہیں اور ان کے جواب بھی طرح طرح سے بنتے ہیں۔ پھر واپسی کا عمل بھی پراسرار ہے کہ واپسی کیوں ہوئی؟ سفر کی غرض اور واپسی کی غایت دونوں میں استعارہ دراستعادہ پنہاں ہے۔ ’’اک دھوپ کا ٹکڑا نہیں ملتا‘‘ کے ایک معنی یہ بھی ہیں کہ ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا ہے، روشنی کا نام نہیں۔ ظاہر ہے کہ بہت مکمل شعر کہا ہے۔ اگلا شعر ملاحظہ ہو،
     
    اب بتائیں بھی تو کیسے دل کے بجھنے کا سبب
    ہم کہ اپنے آپ سے پہلو تہی کرتے رہے
     
    اس شعر میں زیادہ کچھ وضاحت کی ضرورت نہیں ہے۔ صرف ایک بات عرض کرنے کی ہے۔ وہ یہ کہ شعر میں ربط اس طرح پیدا کرتے ہیں۔ دیکھئے اس میں وجہ بیان نہیں کی۔ پہلے مصرعے کو پڑھئے تو ایمان کی بات یہ ہے کہ جو کچھ کہنا تھا وہ مکمل طور پر کہہ دیا گیا ہے۔ اب بظاہر مزید کچھ کہنے کو باقی نہیں بچتا۔ لیکن جو مشاق شاعر ہوتا ہے وہ اس میں بھی کوئی پہلو نکال لیتا ہے۔ یہاں دوسرا مصرع اس طرح لایا گیا ہے کہ اس کے تین معنی ہو سکتے ہیں۔ اول تو یہ کہ ہم وجہ کیا بیان کر سکتے ہیں؟ ہم تو وہ ہیں جو آپ اپنا ہی پہلو تہی کرتے رہے ہیں۔
     
    دوسرے یہ کہ جب ہم نے خود ہی اپنے آپ سے پہلو تہی کر لیا ہے تو دل تو بجھ ہی گیا ہوگا۔ جب ہم نے اتنا بڑا کام کر لیا کہ خود اپنے کو ہی بھلا بیٹھے تو ہم کو اس سے کیا مطلب کہ دل بجھا تو کیوں بجھا؟ تیسرے یہ کہ دل کے بجھنے کا سبب تم نہیں سمجھ سکتے۔ ہم نے اپنے آپ سے پہلو تہی کی ہے اور ہم ہی دل کے بجھنے کا سبب سمجھ سکتے ہیں۔ تمھیں یہ سبب بتانے سے کوئی فائدہ نہ ہوگا کہ یہ تمھارے سمجھنے کی چیز ہی نہیں ہے۔
     
    دیکھئے پہلے مصرعے میں جو سوال رکھا ہے، اسی سے معنی کے یہ سب امکانات روشن ہوئے ہیں، اسی لئے پرانے لوگوں نے کہا ہے کہ سوالیہ یا انشائیہ انداز خبر یہ انداز سے بہتر ہوتا ہے۔ خبریہ انداز سے مراد وہ انداز ہے جس میں کوئی بیان ہو اور جس کے بارے میں ہم یہ کہہ سکیں کہ سچ ہے یا جھوٹ ہے، مثلاً ہم کہیں کہ ’’تیرا نام فاروقی ہے۔‘‘ تو یہ خبریہ بیان ہے۔ اس کے بارے میں آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ سچ ہے، یا کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ جھوٹ ہے۔ انشائیہ بیان وہ بیان ہے جس کے بارے میں سچ اور جھوٹ کا حکم نہ لگ سکے۔ اس کی پہلی پہچان یہ ہے کہ وہ بیان استفہامیہ ہو سکتا ہے، جیساکہ اس شعر میں آپ نے دیکھا، ’’اب بتائیں بھی تو کیسے دل کے بجھنے کا سبب۔‘‘ اس میں سوال ہے، لہٰذا اس پر نہ سچ ہونے کا حکم لگ سکتا ہے اور نہ جھوٹ ہونے کا۔ میر اور غالب کے یہاں اس طرح انشائیہ انداز، خاص کر سوالیہ انداز کے مصرعے کثرت سے ہیں۔ اب حسب ذیل شعر ہے،
     
    یہ کہنا تو نہیں کافی کہ بس پیارے لگے ہم کو
    انھیں کیسے بتائیں کہ وہ کیسے لگے ہم کو

    ظاہر ہے کہ یہ شعر میر سے مستعار ہے اور میر نے سعدی سے لیا ہے۔ سعدی کا شعر ہے،
     
    دوستاں منع کنندم کہ چرا دل بہ تو دادم
    باید اول بہ تو گفتن کہ چنیں خوب چرائی

    پھر میر نے کہا،
     
    پیار کرنے کا جو خوباں ہم پہ رکھتے ہیں گناہ
    ان سے بھی تو پوچھئے کیوں اتنے تم پیارے ہوئے
     
    دیکھئے میر پھر استفہام لے آئے اور وہ بھی بیک وقت دو استفہام ہیں۔ یعنی خود پوچھ رہے ہیں اور ان سے بھی کہہ رہے ہیں کہ پوچھو۔ لیکن بنیادی طور پر ’’پیارا‘‘ لفظ رکھ کر اس کے ذریعہ پورے معنی بیان کر دیے گئے ہیں، جیساکہ حالی نے کہا ہے۔ احمد مشتاق نے یہ مضمون تو اٹھایا میر کے یہاں سے اور اس میں ایک نیا پہلو نکالنے کی کوشش کی۔ اگرچہ کوئی بڑا پہلو تو نہیں نکل سکا ہے لیکن پھر بھی۔۔۔ جب وہ کہتا ہے کہ ’’یہ کہنا تو نہیں کافی کہ بس پیارے لگے ہم کو۔‘‘ تو گویا یہ وہی بات ہے جو میر نے کہی ہے۔ پھر دوسرے مصرع میں سوالیہ انداز کے ساتھ یہ کہنا کہ ’’انھیں کیسے بتائیں ہم کہ وہ کیسے لگے ہم کو۔‘‘ اس بات کی کوشش ہے کہ مضمون آگے بڑھ جائے۔ حالانکہ ایسا واضح طور پر نہیں ہو سکا۔ کیونکہ پیارا لگنے کے علاوہ معشوق کیا لگ رہا تھا، اس کا کوئی خفیف سا اشارہ بھی شعر میں نہیں ہے۔
     
    یہ بڑا شعر نہیں ہے لیکن یہ ہے کہ احمد مشتاق نے میر کے شعر کو مسخ کرکے نہیں کہاہے بلکہ اپنی حیثیت برقرار رکھی ہے۔ معنی کا پہلو اس ابہام میں ہے کہ شاید کوئی موقع ایسا ہے جب معشوق کے سامنے اس کے حسن اور معشوقیت کی ثنا کرنی ہے یا شاید خط لکھنا ہے یا بالمشافہ اظہار محبت کرنا ہے وغیرہ۔ سعدی کے شعر کو میر نے مسخ نہیں کیا، بلکہ بڑھا کر کہا ہے۔ یہاں مجھے اپنے انگریزی کے استاد جناب غلام مصطفیٰ خاں رشیدی گورکھپوری کاشعر یاد آیا۔ اسے سامنے رکھیں تو احمد مشتاق کا شعر اور بھی کھل اٹھےگا،
     
    ہے ملاحتوں کا وہ حال ان پہ صباحتیں بھی نثار ہیں
    میں تجھے بھی اپنی نگاہوں سے ترا حسن کاش دکھا سکوں
     
    اب آپ کی فہرست میں یہ شعر آتا ہے،
     
    میں کبھی یہ حرف نہ بولتا میں کبھی یہ راز نہ کھولتا
    تری آنکھ نے دیا حوصلہ تو یہ بوجھ ادھر سے ادھر کیا
     
    اس شعر کے پہلے ڈیڑھ ٹکڑے تک تو کوئی ایسی بات نہیں تھی۔ لیکن آخری ٹکڑا ’’تو یہ بوجھ ادھرسے ادھر کیا‘‘ ایسا کہا ہے کہ اب حرف اور راز دونوں بوجھ ہو جاتے ہیں۔ یہ ’’حرف‘‘ میرا کلام، میرا شعر بھی ہے جیسا کہ میر نے کہا ہے،
     
    کیا تھا شعر کو پردہ سخن کا
    سو ٹھہرا ہے یہی اب فن ہمارا
     
    اور یہ ’’حرف‘‘ اپنا راز عشق بھی ہے۔ زیر بحث شعر میں شاعر یہ کہہ رہا ہے کہ اگر میں اپنا کلام، اپنا شعر نہ کہتا تو میرے دل پر ایک بوجھ تھا اور راز تو تھا ہی۔ اب تیری آنکھ سے حوصلہ ملا تب میں نے یہ بوجھ ادھر سے ادھر کیا ہے۔ یعنی یہ بوجھ تجھے دے دیا یا دنیا کو دے دیا۔ دیکھئے کتنی آہستگی سے بات کو کہہ گیا ہے۔ یہ شعر بھی میر سے لیا گیا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کس طرح چھوٹے پر شاعر بڑے شاعر کی چھوٹ پڑتی ہے۔ میر کا شعر یوں ہے،
     
    منظور ہے کب سے دل شوریدہ کا دینا
    چڑھ جائے نظر کوئی تویہ بوجھ اتاریں
     
    احمد مشتاق کا اگلا شعر ہے،

    ہم نے اپنے آپ سے دھوکا کیا
    تم نے اپنی خواہشوں کا کیا کیا
     
    بھئی اس شعر کی میں کیا وضاحت کر سکتا ہوں؟ اس میں اس قدر معنی ہیں کہ ان سب کو بیان کرنا بڑا مشکل ہے۔ اس میں بے شمار پہلو نکلتے ہیں، جیسے تلخی کے، کھر درے پن کے اور ایک طرح کی غمناکی کے بھی۔ ایک طرح کی خود ترحمی کے بھی۔ اس میں صرف ایک بات کہنے کی ہے وہ یہ کہ اس شعر میں ’’تم‘‘ جو مخاطب ہے وہ معشوق بھی ہو سکتا ہے اور ہم آپ میں سے بھی کوئی ہو سکتا ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ خود شاعر کی دو شخصیتیں ہوں جیساکہ میر کے یہاں اکثر ہوتا ہے یعنی ایک تو متکلم جو شاعر ہے دوسرا جو شخص ہے یعنی میر۔ تو اس طرح کا رنگ اس شعر میں نظر آتا ہے۔ اگلا شعر ملاحظہ ہو،
     
    کس قدر گونج ہے اس رات کے سناٹے میں
    نہ یقیں آئے تو آواز لگا کر دیکھو
     
    یہاں معنی کو تو چھوڑ دیجئے، کیفیت بھی بہت ہے۔ اس شعر کے ایک خاص لفظ پر آپ کو توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ اس طرح کے Construction میں عام طور پر ’’اس‘‘ کا لفظ بے کار ہو جاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ پہلے مصرع میں ’’اس‘‘ غیرضروری ہے۔ اسے نکال دینے پر بھی مصرع مکمل ہے۔ لیکن ذرا غور کیجئے تو معلوم ہوتا کہ یہ ’’اس‘‘ کسی خاص رات کے لیے کہا جا رہا ہے۔ یعنی یہ ہر رات نہیں ہے بلکہ کوئی خاص رات ہے۔ جس میں اس قدر گونج پائی جاتی ہے۔ چاہے وہ ہجر کی رات ہو، موت کی رات ہو، مکاشفے کی رات ہو یا اور کوئی خاص رات ہو۔ اب شعر ہے،
     
    یہ پانی خامشی سے بہہ رہاہے
    اسے دیکھیں کہ اس میں ڈوب جائیں
     
    ظاہر ہے کہ یہ شعر تعریف سے ماورا اور بےنیاز ہے۔ اس میں دو باتیں عرض کرنے کی ہیں۔ ایک تو یوں دیکھئے کہ پانی عام طور پر زندگی کی علامت قرار دیا جاتا ہے، خاص کر بہتے ہوئے پانی کو۔ یعنی عام طور پر پانی زندگی کی علامت ہے۔ سمندر، دریا، جھیل اور اس طرح کے الفاظ بھی عام طور پر ہمارے یہاں زندگی کی علامت کے طور پر استعمال کیے جاتے ہیں۔ اب دوسرے مصرعے کو لیجئے، اسے دیکھیں کہ اس میں ڈوب جائیں۔ اب ایک طرف اگر ہم یہ کہتے ہیں کہ دریا زندگی کی علامت ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ زندگی کا دریا بالکل خاموش بہہ رہا ہے۔ پھر اس میں یہ بھی اشارہ ہے کہ اس کے نیچے کچھ اور ہوگا۔ کچھ تلاطم ہوں گے۔ شاید وہاں تک ہم پہنچتے تو ہمیں طوفان نظر آتا۔ اوپر سے تو بڑا پرسکون اور خوبصورت منظر ہے جس سے دل میں غالباً ایک خواہش مرگ جاگتی ہے کہ دیکھیں اس کے نیچے کیا ہے؟
     
    یا پھر یہ کہ اور کہیں تو سکون ہے نہیں، یہ دریا جو بہت ہی خاموش اور پرسکون ہے، میں اس میں ڈوب جاؤں تو شاید وہ سکون مجھے مل جائے جو میرے دل میں نہیں ہے۔ اب لفظ ’’خامشی‘‘ پر غور کیجئے جو میر کے یہاں بہت آتا ہے۔ وہاں یہ خاموشی اظہار کی حد کے طور پر بھی ہے۔ بیدل کے یہاں تو یہ بہت ہے کہ خاموشی اظہار کی آخری منزل بن جاتی ہے۔ غالباً یہ اس طرح کی خاموشی کا ذکر ہو رہا ہے یعنی میں اتنا کچھ کہتا ہوں، شعر کہتا ہوں، کلام کہتا ہوں، لیکن وہ بات کہاں جس کو بیدل نے یوں کہا ہے کہ ’’عبارتیست خموشی کہ انتخاب نہ دارد۔‘‘ مطلب یہ کہ میں شاید وہاں تک ابھی نہیں پہنچا ہوں گا۔ اگلا شعر ملاحظہ ہو،
     
    اجنبی لوگ ہیں اور ایک سے گھر ہیں سارے
    کس سے پوچھیں کہ یہاں کون سا گھر اس کا ہے
     
    ظاہر ہے کہ یہ شعر تو بالکل ہمارے آپ کے زمانے کا شعر ہے۔ اب کسی بھی بڑے شہر کا منظر نظر میں رکھ لیجئے، جہاں کی عمارتیں ایک طرح کی ہیں۔ پھر اس شعر پر غور کیجئے۔ اس میں ایک تو معاصر انسان کی صورت حال ہے اور کھو جانے اور خود کو اکیلا محسوس کرنے کا بیان ہے۔ اگر اس شعر میں بات یہیں تک ہوتی تو بھی شعر اچھا ہوتا لیکن یہاں بات اور آگے بھی ہے اور وہ بات یہ ہے کہ وہ شخص جو اجنبی لوگوں اور اجنبی شہر میں بیٹھا ہے، اسے یہ وہم بھی ہے کہ یہاں معشوق کا، یا دوست کا، یا شاید دشمن کا گھر ہوگا۔ مگر وہ کہتا ہے کہ کس سے پوچھوں کہ وہ گھر کہاں ہے؟ اب اسے آپ اس کی معصومیت کہیں، جنون کہیں، یا استغراق فی المعشوق کہیں کہ اگرچہ وہ بالکل اجنبی جگہ پر ہے پھر بھی دعویٰ کر رہا ہے کہ یہاں اس کا گھر یقیناً ہوگا۔ اب یہ شعر ملاحظہ ہو،
     
    اہل ہوس تو خیر ہوس میں ہوئے ذلیل
    وہ بھی ہوئے خراب محبت جنھوں نے کی
     
    یہ شعر بھی تعریف سے مستغنی ہے سوائے اس کے کہ لفظ ’’ذلیل‘‘ اور ’’خراب‘‘ کو نظر میں رکھئے۔ عام طور پر ذلیل کے برابر ’’خوار‘‘ کا لفظ لایا جاتا ہے جیسے ’’ذلیل وخوار۔‘‘ لیکن یہاں ’’خراب‘‘ کا لفظ رکھا ہے کیونکہ ’’خراب‘‘ میں ایک معنی اور بھی ہے۔ آپ تو واقف ہی ہیں کہ نشے کی چار منزلیں ہوتی ہیں، پہلی منزل سرخوش، دوسری منزل تردماغ، تیسری سیہ مست اور چوتھی خراب۔ ’’وہ بھی ہوئے خراب‘‘ میں ایک پہلو یہ بھی ہے کہ وہ ذلیل تو ہیں ہی کیوں کہ شراب نوشی میں ذلت تو ہوتی ہے۔ مزید یہ کہ ’’خراب‘‘ سے ’’خرابہ‘‘ اور ’’تباہی‘‘ بھی ہے۔ اگر ’’خراب‘‘ کے بجائے ’’خوار‘‘ کہتے تو یہ بات پیدا نہ ہوتی۔ ’’خراب‘‘ کے لفظ میں ایک خوبی یہ ہے کہ کہنے کو تو بات برابر کی کہہ رہا ہے پھر اس میں ایک امتیاز رکھ دیا ہے۔ اگلا شعر ہے،
     
    ان کہی بات نے اک حشر اٹھا رکھا تھا
    شور اتنا تھا کوئی بات نہ ہونے پائی
     
    فیض کا وہ مشہور شعر تو آپ کے ذہن میں ہوگا ہی،

    وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
    وہ بات ان کو بہت ناگوار گذری ہے
     
    اس میں کوئی شک نہیں کہ فیض صاحب کا یہ شعر ہمارے زمانے کا بڑا شعر ہے لیکن اس میں اضافہ احمد مشتاق کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ اس قدر شور تھا کہ ہم کوئی بات بھی نہیں کر سکے۔ یہ ظاہر نہیں کیا کہ وہ شور کہاں تھا اور کیوں۔ وہ شور میرے دل میں ہی تو نہیں تھا جس کی بنا پر میں کچھ نہیں کہہ سکتا، جیسا کہ میر نے کہا ہے۔ یا میں نے فرض کر لیا ہے کہ معشوق یا میرے سننے والوں کے ذہن میں غصہ اور خلفشار ہوگا، تلاطم کی کیفیت ہوگی۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ فیض کا شعر اتنا مکمل ہے کہ گمان گذرتا ہے کہ اب اس مضمون کو مزید آگے نہیں لے جایا جا سکتا۔ لیکن یہاں آپ دیکھ رہے ہیں کہ بات آگے بڑھائی گئی ہے۔ اب شعر یہ آتا ہے،
     
    نئے دیوانوں کو دیکھیں تو خوشی ہوتی ہے
    ہم بھی ایسے ہی تھے جب آئے تھے ویرانے میں
     
    ایک مشہور لطیفہ ہے، آپ لوگوں نے سنا ہوگا۔ ایک صاحب جو بہت بڑے افسر تھے وہ پاگل خانے تشریف لے گئے کچھ معائنہ کرنے کے لیے۔ وہاں ان سے ایک پاگل نے پوچھا کہ آپ کون ہیں؟ تو انھوں نے کہا کہ میں فلاں محکمہ کا حاکم ہوں۔ اس پر اس پاگل نے کہا کہ ہاں جب ہم یہاں آئے تھے تو ہم بھی سمجھتے تھے کہ ہم اس ملک کے حاکم ہیں۔ اس لطیفے سے اپنے اوپر ہنسنے کی بات ظاہر ہوتی ہے۔ اور یہ انداز عام طور پر نئے شاعروں میں کم پایا جاتا ہے۔ ظفر اقبال کے علاوہ اور لوگوں میں بہت کم ہے۔ ناصر کاظمی کے یہاں بالکل نہیں ہے۔ احمد مشتاق کے یہاں بھی کم ہے لیکن اس شعر میں نظر آتی ہے۔ یہ بھی ایک ادا ہے۔
     
    میں نے ان اشعار کی جو تھوڑی بہت وضاحت کی ہے غالباً وہ آپ کے لیے دلچسپی کا باعث رہی ہوگی اور اگر نہ بھی رہی ہو تو یہ تو ہے کہ ایک نئے شاعر سے آج آپ کی ملاقات ہوئی۔ میرے خیال میں یہ بھی بڑی بات ہے کہ آپ کو اس گفتگو کے ذریعہ ایک نئے شاعر سے کچھ قریب ہونے کا موقع ہاتھ آیا۔ شکریہ۔

    نوٹ از مرتب محفل ختم ہونے کے پہلے سہیل احمد زیدی نے احمد مشتاق کا یہ شعر اپنا پسندیدہ شعر کہہ کر سنایا،

    جمع وتفریق سے تھا دشت تمنا خالی
    حاصل عمر یہی ہے جو ہوا کھائی ہے
     

    حاشیہ از فاروقی
    (۱) گفتگو چونکہ فی البدیہ تھی، اس وقت آبرو کے اشعار یاد نہ آئے، اب حاضر کرتا ہوں،
     
    لگا سرسوں قدم لگ عاشق بے دل کو دل جانو
    قدم سوں سر تلک معشوق نازک تن کو جاں سمجھو
     
    بر میں خیال کے بھی کیوں کر کے آسکے دل
    نازک ہے جان سیتی تیرا بدن ممولا

    مأخذ:

    معرفت شعر نو (Pg. 39)

    • مصنف: شمس الرحمن فاروقی
      • ناشر: الانصار پبلی کیشنز، حیدرآباد
      • سن اشاعت: 2010

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے