Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

غزل کیا ہے

فراق گورکھپوری

غزل کیا ہے

فراق گورکھپوری

MORE BYفراق گورکھپوری

    غزل سے پہلے قصیدے نے جنم لیا۔ قصیدہ کسی آدمی یا کسی اور موضوع پر مسلسل اشعار میں قافیہ اور ردیف کی پابندی ہوتی تھی۔ بہت سے قصیدوں میں صرف قافیہ ہوتا تھا ردیف نہیں ہوتی تھی۔ یہ صنفِ سخن عربی شاعری سے فارسی میں آئی اور فارسی سے اردو میں۔ ایک قصیدے میں بسا اوقات صدہا اشعار ہوتے تھے۔ دنیا کی دوسری زبانوں میں ردیف اور قافیہ کی اتنی پابندی ناممکن ہے کیونکہ دوسری زبانوں کی لغات میں دو دو تین تین سو ہم قافیہ الفاظ ہیں ہی نہیں اور نہ ان کے صرف و نحو میں ان صدہا ہم قافیہ الفاظ کو ایک متعینہ ردیف سے ملا کر باندھا جاتا ہے۔ جلیل مانکپوری کے ایک قصیدے کا یہ مصرعہ ہے،

    شبِ غم لاکھ طوفانی ہو تڑکا ہو ہی جاتا ہے۔

    اس قصیدے میں ’’تڑکا‘‘ قافیہ ہے اور ’’ہو ہی جاتا ہے‘‘ ردیف ہے۔ اس قصیدے میں سیکڑوں ہم قافیہ الفاظ آ سکتے ہیں جنہیں ’’ہو ہی جاتا ہے‘‘ کے ساتھ باندھا جاسکتا ہے۔ مثلاً ’’ایسا ہو ہی جاتا ہے‘‘ تمہارا ہوہی جاتا ہے ’’اچھا ہو ہی جاتا ہے‘‘ کسی کا ہوہی جاتا ہے ’’پیدا ہو ہی جاتا ہے‘‘ ہویدا ہوہی جاتا ہے ’’اشارہ ہو ہی جاتا ہے‘‘ ، ’’مسیحا ہوہی جاتا ہے‘‘ ، ’’دھوکا ہوہی جاتا ہے‘‘ ، ’’ہمارا ہوہی جاتا ہے‘‘ ، ’’شناسا ہوہی جاتا ہے‘‘ ، ’’دریا ہوہی جاتا ہے‘‘ ، ’’نظارہ ہوہی جاتا ہے‘‘ ، ’’جلوہ ہوہی جاتا ہے‘‘ کی ردیف کے ساتھ باندھے جاسکتے ہیں۔ ان قافیوں کو آپ خوب سوچ لیجئے اور ان کی ایک فہرست بنا لیجئے۔

    کسی ایک موضوع پر قصیدہ کہنے کا طریقۂ کار یہ ہوتا تھا کہ بہت سے ہم قافیہ و ہم ردیف اشعار کہتے چلے جاتے اور جب شاعر یہ بکھرے ہوئے اشعار کافی تعداد میں کہہ لیتا تھا تو اس کے بعد اصل موضوع کی طرف رجوع کرتا تھا۔ یہ ابتدائی اشعار بظاہر غیر مسلسل ہوتے تھے لیکن ان میں داخلی طور پر ایک تسلسل ہوتا تھا اور ان اشعار کو قصیدے کی اصطلاح میں ’’تشبیب‘‘ کہتے تھے۔ تشبیب کے اشعار کہہ چکنے کے بعد شاعر اسی ردیف میں اور اسی قافیے میں قصیدے کو ایک نیا موڑ دے دیتا تھا۔ اس نئے موڑ کو ’’گریز‘‘ کہتے تھے۔ ’’گریز‘‘ میں اصلی موضوع پر براہِ راست اشعار کہے جاتے تھے۔

    غزل کا ہیولا اور غزل کے امکانات قصیدے کی ’’تشبیب‘‘ میں پنہاں تھے۔ ’’تشبیب‘‘ میں ایسی چیزوں کا ذکر ہوتا تھا جو عام طور سے انسانوں کی دلچسپی کا موجب ہوں۔ مثلاً حسن وعشق، زندگی، مناظرِ قدرت، ایسی آپ بیتی جو جگ بیتی ہو اور دیگر مرکزی ردعمل۔ ’’تشبیب‘‘ کے مضامین محدود نہیں ہوتے۔ شرط صرف اتنی ہے کہ ان مضامین میں ہمہ گیری ہو اور ہماری انسانیت کے لیے ایک ایسی اپیل ہو جسے ہم تہذیب کے ہر دور میں اپنا سکیں۔ زندگی بدلتی رہتی ہے۔ زندگی بسر کرنے کے ذریعے بدلتے رہتے ہیں، زندگی کے نظریے بدلتے رہتے ہیں، زندگی کی بہت سی قدریں بدلتی رہتی ہیں لیکن تغیر کی اس ہمہ گیری کے باوجود زندگی میں تسلسل قائم رہتا ہے جو اقدار زندگی اس تسلسل کی حامل ہوتی ہیں وہی موضوعاتِ غزل ہیں۔ یہ موضوعات کبھی پرانے نہیں ہوتے، یہ سدا سہاگ اور سدا بہار ہیں۔ جاگیر دارانہ تہذیب کے پیداوار شعرا کے کچھ اشعار میں سناتا ہوں، کیا روس اور چین کے انقلاب کے بعد یہ اشعار باسی ہو گئے اور کیا انقلابی چین کی نئی انسانیت ان اشعار کو باسی سمجھے گی۔

    نیند اس کی ہے، دماغ اس کاہے، راتیں اس کی ہیں

    تیری زلفیں جس کے بازو پر پریشاں ہوگئیں

    غالب

    تو اور آرائشِ خمِ کا کل

    میں اور اندیشہ ہائے دور دراز

    غالب

    زندگی یوں بھی گزر ہی جاتی

    کیوں ترا راہ گزر یاد آیا

    غالب

    ہمہ عمر با تو قدح زدیم و نہ رفت رنجِ خمار ما

    چہ قیامتی کہ نہ می رسی زکنارِ ما بہ کنارِ ما

    بیدل

    در دلِ ما غمِ دُنیا غمِ معشوق شود

    بادہ چو خام بود پختہ کند سیشۂ ما

    عرفی

    درمیانِ قعرِ، دریا تختہ بندم کردہ ای

    باز می گوئی کہ دامن تر مکن ہشیار باش

    حافظ

    دلِ پُرخوں کی اک گلابی سے

    عمر بھر ہم رہے شرابی سے

    میر

    کھولی تھی آنکھ صبحِ ازل کو تیرے لئے

    آخر جاگ جاگ کے ناچار سوگئے

    خواجہ میر درد

    زمانے کے ہاتھوں سے چارا نہیں

    زمانہ ہمارا تمہارا نہیں

    عبرت گورکھپوری

    موت مانگوں تو ملے آرزوئے خواب مجھے

    ڈوبنے جاؤں تو دریا ملے پایاب مجھے

    آتش

    کیا یہ اشعار جواب سے بہت پہلے کہے گئے تھے، مارکس، لینن، دنیا کے سائنس دانوں اور جدید ترین فلسفہ اور علوم اور نظریوں کے نمائندوں یا آنے والی نسلوں کے لئے کبھی بھی بے معنی وبے کیف ہو سکتے ہیں۔ یہ اشعار تیزی سے بدلتی ہوئی زندگی کے تسلسل کی نشاندہی کرتے ہیں۔ یہی حال اور یہی حقیقت وید مقدس سے آج تک کے آفاقی اشعار میں ہم پاتے ہیں۔

    کئی برسوں سے ابھی کل تک لفظ غزل کے معنی محبوب سے بات چیت کرنا بتائے جاتے تھے۔ غزل کی یہ تفسیر ہمیں سنسکرت کی اس مشہور کہاوت کی یاد دلاتی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ شاعری کسی پیارے دوست کو نصیحت کرنے یا سمجھانے کا نام ہے۔ مجھے یاد آتا ہے کہ اب سے کچھ دنوں پہلے غزل کے کچھ اس سے بھی گہرے اور موثر مفہوم کا پتہ چلایا گیا۔ جب شکاری کتے یا دوسرے خونخوار جانور جنگل میں پیچھا کرتے ہیں اور جب ہرن بھاگتے بھاگتے کسی ایسی جھاڑی یا کسی ایسے مقام میں آکر پھنس جاتا ہے جہاں سے وہ بھاگ نہیں سکتا اور جہاں وہ محسوس کرتا ہے کہ شکاری کتے یا دوسرے درندے اسے مار ڈالیں گے تو اُس کے گلے سے ایک انتہائی درد بھری آواز نکلتی ہے جسے غزل کہتے ہیں۔ غرض کہ حقیقی معنوں میں غزل کی شاعری وہ ہے جو ہمیں درد بھری اور آنسوؤں میں ڈوبی ہوئی اور دل کی گہرائیوں سے نکلی ہوئی آواز سنائی دے۔

    غزل بغیر کسی کتھا کہانی، بغیر کسی واقعہ کا ذکر کئے ہوئے، جس میں ظاہری طور پر کوئی پر درد بات ہوئی ہو، کم سے کم لفظوں میں درد میں ڈوبی ہوئی بات سناتی ہے۔ ہم درد بھری باتیں کیوں سننا چاہتے ہیں، ہم درد بھرے اشعار کو کیوں پیار کرتے ہیں اس لئے کہ اگر درد سچا اور پکا ہے اور اس میں خلوص ہے، معصومیت ہے، نرمی ہے اور ترنم ہے تو ایسا درد ہماری ڈھارس بندھاتا ہے۔ گہرے سے گہرا اطمینان اور توانائی بخشتا ہے اور حیات و کائنات کے لیے ہمارے اندر محبت کے جذبات پیدا کر دیتا ہے۔ سنسکرت میں دوسروں کو بہت اونچا مقام دیا گیا ہے۔ کرن رس اور شانت رس یہ بھاؤ اور دس ناٹکوں میں، بیانیہ نظموں میں، کہانیوں میں اور بڑی کتھاؤں میں بھی ہمیں مناسب موقعوں پر مل جاتے ہیں لیکن غزل موقعہ اور واقعہ کی دست نگر نہیں ہوتی۔ غزل براہِ راست ایک مختصر سی بات سیدھے سادے، بول چال کے الفاظ کہہ کر یہ اثر پیدا کر دیتی ہے۔ مثلاً پوری رامائن کی کہانی جو ہزارہا صفحوں پر پھیلی ہوئی ہے، ایک شعر میں سمٹ آتی ہے،

    ہرلیا ہے کسی نے سیتا کو

    زندگی ہے کہ رام کا بن باس

    دیکھئے کس طرح رام کی آپ بیتی، جگ بیتی بن گئی۔ یا یہ شعر لیجئے،

    رام ہوں یا ہوں کرشن کہ مجنوں یا ہم تم

    ملن کے بعد بیوگ، جگ کی ریت یہی

    اس زمان ومکان میں بکھرے اور پھیلے ہوئے واقعات کاست یا جوہر نکال لیتی ہے اوراس کی آپ بیتی کو جگ بیتی بنا دیتی ہے۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ کسی خاص کہانی، کسی خاص روایت یا کسی خاص نام کا سہارا لیا جائے۔ مثلاً یہ اشعار سنئے،

    کچھ آدمی کو ہیں مجبوریاں بھی دنیا میں

    ارے وہ دردِ محبت سہی تو کیا مر جائیں

    یہی کہہ کر ستاروں کو کیا رخصت شبِ وعدہ

    کہ جس کا آسرا تھا شام سے اب تک نہیں آیا

    کبھو در کو تک کے چلے گئے، کبھو آہ بھر کے چلے گئے

    ترے کوچے ہم کبھو آئے تو ٹھہر ٹھہر کے چلے گئے

    ناموں اور واقعات کا سہارا تو غزل میں بہت کم لیا جاتا ہے البتہ غزل میں کچھ علائم (روپک) سے لائے جاتے ہیں کہ ان کی تعداد تو تھوڑی سی ہے لیکن ان کے ذریعہ سے ہزارہا اشعار کرنڑ رس (سوز و گداز) سے بھرے ہوئے اب تک کہہ ڈالے گئے ہیں۔ ان میں خاص روپک یہ ہیں (۱) گل و بلبل اور ان کے متعلقات مثلاً صیاد ودام، آشیانہ، بجلی، اسیری، آزادی (۲) بہار وخزاں (۳) ساقی ومے خانہ اور ان کے متعلقات مثلاً جام، ساغر، صراحی، رند، مستی، نشہ (۴) شمع و پرانہ (۵) کارواں (۶) ویرانہ (۷) صحرا (۸) منزل (۹) وطن (دیس) (۱۰) غربت (پردیس) (۱۱) ہوش اور دیوانگی (۱۲) زنداں (۱۳) زنجیر (۱۴) کعبہ وبُت خانہ (۱۵) گناہ و ثواب وغیرہ وغیرہ۔ ان روپکوں یا علائم کے سہارے غزل کے بڑے شاعروں نے تھوڑے میں بہت کچھ کہہ دیا ہے۔ چند مثالیں پیش کرتا ہوں،

    قفس میں مجھ سے رودادِ چمن کہتے نہ ڈر ہمدم

    گری ہے جس پہ کل بجلی وہ میرا آشیاں کیوں ہو

    قید خانے میں رہ کر گھر کی بربادی یا گھر پر کوئی مصیبت آنے کی خبر کتنی درد ناک ہوتی ہے، اس کی تصویر غالب نے مندرجہ بالا شعر میں کھینچی ہے۔ ایک اپنا شعر حاضر کرتا ہوں،

    کچھ قفس کی تیلیوں سے چھن رہا ہے نور سا

    کچھ فضا، کچھ حسرتِ پرواز کی باتیں کرو

    دوسرا شعر جگت موہن لال رواںؔ کا ہے،

    اب چمن میں بھی کسی صورت سے جی لگتا نہیں

    ہاں مگر جب تک قفس میں تھے قفس بدنام تھا

    میرؔ کا یہ شعر سنئے،

    رات بھر شمع سر کو دھنتی رہی

    کیا پتنگے نے التماس کیا

    داغِ فراق صحبتِ شب کی جلی ہوئی

    اک شمع رہ گئی ہے سو وہ بھی خموش ہے

    غالب

    چھُٹ کے گھر آگئے اسیر ترے

    لیکن اب ان کو کون پہچانے

    کچھ موجِ ہوا پیچاں اے میرؔ نظر آئی

    شاید کی بہار آئی، زنجیر نظر آئی

    لیکن علائم یا روپکوں کا سہارا لئے بغیر بھی غزل میں نہایت پر درد اوپر تاثیر اشعار کہے گئے ہیں،

    ہم سے کیا ہو سکا محبت میں

    خیر تم نے تو بے وفائی کی

    ایسے وحشی کہاں ہیں اے خوباں

    میرؔ کو تم عبث اداس کیا

    دل نے دنیا نئی بنا ڈالی

    اور ہمیں آج تک خبر نہ ہوئی

    آج آنکھوں میں کاٹ لے شب ہجر

    عمر ساری پڑی ہے سو لینا

    وصل میں رنگ اڑگیا میرا

    کیا جدائی کو منہ دکھاؤں گا

    دور بیٹھا غبارِ میرؔ اس سے

    عشق بن یہ ادب نہیں آتا

    جب نام ترا لیجے تب آنکھ بھر آئے

    اس زندگی کرنے کو کہاں سے جگر آئے

    جاتا ہے آسماں لئے کوچے سے یار کے

    آتا ہے جی بھرا درو دیوار دیکھ کر

    کرنڑ رس یا سوز و گداز میں جب پختگی آجاتی ہے تو غم، غم نہیں رہتا بلکہ ایک روحانی سنجیدگی میں بدل جاتا ہے۔ غزل کی شاعری میں غم اور خوشی، امید اور نا امیدی، محبوب کی مہربانی اور نا مہربانی، آرزوؤں اور تمناؤں کا خون ہو جانا یا اُن کا بار آور ہونا، دکھ اور سکھ، موت اور زندگی، سنجوگ اور بیوگ، غرضیکہ زندگی کی وہ کیفیتیں جو ایک دوسرے کی ضد معلوم ہوتی ہیں، ان سب کا سنگم ہو جاتا ہے اور یہ سب مل کر زندگی کی پوری ایک اکائی بن جاتی ہیں۔ یہاں پہنچ کر غزل کی شاعری وہ مقام حاصل کر لیتی ہے جس کی طرف کرشن بھگوان نے گیتا میں اشارہ کیا ہے اور جسے میں نے ظاہر کرنے کی اس نظم میں کوشش کی ہے اِن الفاظ میں،

    بصیرت، عقل، ہمدردی، صداقت اور خدا ترسی

    شجاعت، خوف، ہستی، نیستی، نیکی، ریاکاری

    سکون قلب، دکھ سکھ، نیک نامی اور بدنامی

    مرے ہی نور کی کرنیں ہیں یہ کیفیتیں ساری

    غزل کا موضوع کیا ہے۔ کچھ لوگ تو اس خیال کے ہیں کہ صرف حسن وعشق کے معاملے اور واردات ہی کو غزل میں جگہ ملنی چاہیے لیکن فارسی اور اردو کے عظیم ترین غزل گو شعراء نے حسن وعشق کے علاوہ حیات و کائنات کے ان سد ا سہاگ مسائل و موضوعات کو بھی نہایت رچاؤ کے ساتھ غزل میں جگہ دی ہے جو ہماری زندگی کے مرکزی ردہائے عمل اور دلچسپیوں سے متعلق ہیں اور جو زندگی کے دائمی اقدار کے حامل ہیں۔ حسن و عشق کے موضوع ہی کو لے لیجئے! شہوانی اور نفسانی خواہشات و محرکات سے عشقیہ شاعری شروع ہوتی ہے لیکن جب عارضی تلذذ سے گزر کر محبوب کا خیال اور اس کی یاد یا اس کی شخصیت عاشق پر اِس قدر چھا جائے کہ جنسی لذت حاصل ہونے پر بھی محبوب کا خیال شعور سے نہ اترے تو بھوگ ولاس ترقی کر کے عشق بن جاتے ہیں۔

    محبوب کا ایسا تصور عشق کی دوسری منزل ہے۔ اس کے بعد محبوب کا تصور حیات و کائنات اور پوری زندگی، پوری تاریخ و تمدن، علوم و فنون تمام فلسفیانہ مسائل کے ایک ایسے تصور کو اپنے آغوش میں لے لیتا ہے جو انسانی زندگی اور اس کے ادراک کورَس اور جس سے بھر دیتے ہیں۔ یہاں پہنچ کر ایک مختصر سا شعر ساری کائنات کی شاعری بن جاتا ہے۔ غزل اس نازک کام میں اس لہجے کے ذریعے سے کامیاب ہوتی ہے جو بہت مشکل سے ہاتھ آتا ہے اور جس کے لیے ایک داخلی روحانی ریاضت یا سادھنا اور توفیقِ غیبی کی ضرورت پڑتی ہے۔ لامحدود وجود کو انسانیت کی صفت عطا کرنا، کائنات کو انسان نما بنا دینا اوراس طرح ایسا کرنا کہ دل پر دائمی اثر پڑے، یہی غزل کی غرض وغائت ہے۔ علم و فلسفہ، اخلاق و مذہب، تہذیب و تمدن، جذبات و عمل سب اُس انسانیت کی تخلیق کے لئے کھاد کا کام دیتے ہیں جو ٹھیٹ انسانیت ہے اور جو ان سب کو ہضم کر کے ہماری معصومیت ہمیں پھر سے واپس دے دیتی ہے۔

    غزل وہ بانسری ہے جسے زندگی کی ہلچل میں ہم نے کہیں کھو دیا تھا اور جسے غزل کا شاعر کہیں سے پھر سے ڈھونڈ لاتا ہے اور جس کے لے سن کر بھگوان کی آنکھوں میں بھی انسان کے لئے محبت کے آنسو آ جاتے ہیں۔

    مأخذ:

    فراق گورکھپوری (Pg. 183)

    • مصنف: فراق گورکھپوری
      • ناشر: نیشنل بک ٹرسٹ، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 2010

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے