Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

گلشن امید کی بہار

محمد حسین آزاد

گلشن امید کی بہار

محمد حسین آزاد

MORE BYمحمد حسین آزاد

    انسان کی طبیعت کو خدا نے انواع و اقسام کی کیفیتیں عطا کی ہیں مگر زمین جس قدر تخم امید کو پرورش کرتی ہے اس کثرت سے کسی کیفیت کو سرسبز نہیں کرتی اور کیفیتیں خاص خاص وقت پر اپنا اثر کر اٹھتی ہیں یا بمتقضائے سن خاص عمروں میں ان کے اثر ظاہر ہوتے ہیں۔ مگر امید کایہ حال ہے کہ جس وقت سے اس بات کی تمیز ہونے لگی کہ حالت موجودہ ہماری خوش حالی یا بدحالی بھی ہو سکتی ہے، اسی وقت اس کی تاثیر شروع ہو جاتی ہے۔

    امید ایک رفیق ہمدم ہے کہ ہرحال اور ہر زمانہ میں ہمارے دم کے ساتھ رہتا ہے۔ دم بدم دلوں کو بڑھاتا ہے اور سینے کو پھیلاتا ہے۔ خیالات کو وسعت دیتا ہے۔ اور نئی نئی کامیابیوں کی ترغیبیں دیتا ہے، غرض ہمیشہ کسی نہ کسی خوش حالی کا باغ پیش نظر رکھتا ہے کہ یا اس سے کوئی کلفت رفع ہو یا کچھ فرحت زیادہ ہو۔ خدائی کی نعمتیں اور ساری خوش نصیبی کی دولتیں حاصل ہو جائیں، پھربھی یہ جادو نگار مصور ایک نہ ایک ایسی تصویر سامنے کھینچ دیتا ہے جسے دیکھ کر یہی خیال آتا ہے کہ بس یہ بات ہو جائےگی توساری ہوسیں پوری ہوجائیں گی اور پھر سب آرزوؤں سے جی سیر ہو جائےگا۔

    اس میں بھی شک نہیں کہ امید کا ہونا ہرحال میں ضروری ہے۔ مفلسی، بیماری، قید، مسافرت بہت سے دنیا کے دکھ درد ہیں کہ امید نہ ہو تو ہرگز نہ جھیلے جائیں۔ آسا جئے، نراسا مرے۔ یہ نعمت جو بظاہر ہر کس وناکس میں عام ہو رہی ہے وہ ضروری شے ہے کہ دنیا کی بہتر سے بہتر حالت بھی ہم کو اس صورت سے بے نیاز نہیں کر سکتی کیوں کہ حقیقت میں یہ مشغلہ زندگی کے بہلاوے ہیں۔ اگر ان کا سہارا ہمارا دل نہ بڑھاتا رہے تو ایک دم گزارنا مشکل ہو جائے اور زندگی وبال معلوم ہونے لگے،

    ایک دم بھی ہم کو جینا ہجر میں تھا ناگوار
    پر امید وصل پر برسوں گوارا ہو گیا

    اس میں شک نہیں کہ امید دھوکے بہت دیتی ہے اور ان باتوں کی توقع پیدا کرتی ہے جو انسان کو حاصل نہیں ہو سکتیں۔ مگر وہ دھوکے اصلی نعمتوں سے سو امزہ دیتے ہیں اور موہوم وعدے قسمت کی لکھی ہوئی دولتوں سے گراں بہا اور خوشنما معلوم ہوتے ہیں۔ اگر کسی معاملہ میں ناکام بھی کرتی ہے تو اسے ناکامی نہیں کہتی بلکہ قسمت کی دیر کہہ کر ایک اس سے بھی اعلیٰ یقین سامنے حاضر کر دیتی ہے۔ میں ایک رات انہی خیالات میں حیران تھا اور سوچ رہا تھا کہ انسان کے دل میں یہ شوق کہاں سے پیدا ہو جاتا ہے، جس سے اپنے تئیں آپ دھوکے دیتا ہے اور زمانہ آئندہ پررنگ آمیزیاں چڑھا کر خود اپنے لئے امید و بیم اور نفع و نقصان کے سامان تیار کر لیتا ہے۔

     یکایک آنکھ لگ گئی۔ دیکھتا ہوں کہ میں ایک باغ و بہار میں ہوں جس کی وسعت کی انتہا نہیں۔ امید کے پھیلاؤ کا کیا ٹھکانہ ہے۔ آس پاس سے لے کر جہاں تک نظر کام کرتی ہے تمام عالم رنگین و شاداب ہے۔ ہر چمن رنگ روپ کی دھوپ سے چمکتا، خوشبو سے مہکتا، ہوا سے لہکتا نظر آتا ہے۔ زمین فصل بہار کی طرح گلہائے گو ناگوں سے بو قلموں ہو رہی ہے اور رنگارنگ کے جانور درختوں پر چہچہے بھر رہے ہیں۔ یہ سماں بہار کا دیکھ کر دل پر ایک عالم طاری ہوا کہ سرتا پا محو ہو گیا۔ جب ذرا ہوش آیا تو ان چمن ہائے دلکشا کو نظرغور سے دیکھنے لگا اور ایسا معلوم ہوا کہ اگر آگے چلوں تو شگفتگی اور تفریح کا لطف زیادہ ہو۔ 1

    پھر دیکھا کہ تھوڑی ہی دور آگے رنگیلے چمکیلے پھول کھلے ہیں۔ آب زلال کے چشمے دھوپ کی چمک سے جھلمل جھلمل کر رہے ہیں۔ اونچے اونچے درخت جھنڈ کے جھنڈ چھائے ہوئے ہیں۔ جو جانور دھیمی دھیمی آواز سے بولتے سنائی دیتے تھے یہاں خوب زور شور سے چہکار رہے ہیں۔ چاروں طرف ہرے ہرے درخت لہلہاتے ہیں اور پھول اپنی خوشبو سے مہک پھیلاتے ہیں۔ مگر پھر یہاں سے جو نظر اٹھائی تو اور ہی طلسمات نظر آیا۔ یعنی دیکھا کہ سامنے جو درخت جھوم رہے ہیں ان کے تیار میوے زمین کو چوم رہے ہیں۔ اس لطف نے اور آگے بڑھنے کو للچایا۔ چنانچہ قدم اٹھایا۔ مگرجوں جوں آگے بڑھتا گیا زیادہ حیران ہوتا گیا۔ کیونکہ جوہر یاول سامنے سے لہلہاتی دکھائی دیتی تھی، پاس پہنچ کر اس کی رنگت پھیکی پڑ گئی 2 اورمیوے تو گرہی چکے تھے۔ بلبلیں جو چہچہے بھر رہی تھیں وہ آگے آگے اڑتی چلی جاتی تھیں۔ اگرچہ میں بہت پھرتی سے پہنچا تھا اور جو بہاریں تھیں وہ ہر قدم پر سامنے ہی تھیں۔ مگر تو بھی ہاتھ نہ آ سکیں۔ 3 گویا میرے شوق آرزو کو ڈہکاتی تھیں کہ جوں جوں میں آگے بڑھتا تھا وہ اوربھی آگے بڑھتی جاتی تھیں۔

    اگرچہ باربار خوش اور دم بدم غم گین ہوتے ہوتے میں دق ہو گیا تھا مگر دل کے کان میں کوئی یہی کہے جاتا تھا کہ چلے چلو، جونعمتیں ڈہکار ہی ہیں کبھی نہ کبھی ہاتھ بھی آئیں گی۔ آخر چلتے چلتے ایک جمگھٹا نظر آیا جس میں زن ومرد، خورد و کلاں بہت سے آدمی اچھلتے کودتے چلے جاتے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہ سب کسی مجلس یا میلے میں جاتے ہیں یا کسی نشاط عام کے جشن میں شامل ہوتے ہیں کیوں کہ ہر ایک کے منہ پر یقین کا رنگ چمک رہا تھا اور ایک ایک کی آنکھ سرمہ شوق سے روشن نظر آتی تھی۔ ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہوتا تھا کہ ہر ایک کی خوشی کچھ خاص قسم کی ہے کہ وہ اسی کے دل میں ہے۔ سب ملے جلے ساتھ ہی چلے جاتے ہیں۔ مگرنہ کوئی اپنا ارادہ دوسرے کو بتانا چاہتا تھا، نہ اپنے فکر کا راز دوسرے کو جتانا گوارا کرتا تھا۔ 4

    بہت لوگوں کی گرمی رفتار سے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اگر کوئی آرزومند شوق کی پیاس سے تڑپتا ہو تو انہیں اس کے بجھانے کی فرصت نہیں۔ 5 اس واسطے ان کے روکنے کو جی چاہا۔ اورتھوڑی دیرتک غور سے دیکھا کیا۔ آخر ایک بڈھا نظر آیا کہ باوجود بڑھاپے کے انہی میں شامل تھا۔ ہاتھ پاؤں بہت مارتا تھا مگر کچھ نہ ہو سکتا۔ 6 میں نے خیال کیا کہ بڈھے کواب کیا ہوس ہوگی، اسے تو شاید کچھ جواب دینے کی فرصت ہو۔ چنانچہ اسے سلام کیا۔ بڈھے نے تیوری بدل کرمنہ پھیر لیا اور کہا، صاحب دق نہ کیجئے، آپ جانتے بھی ہیں، جس وقت کی ہم عمروں سے آرزو کر رہے تھے وہ وقت آن پہنچا ہے۔ اب ایک عہد آیا ہے کہ تمام عالم فارغ البالی سے مالا مال ہو جائےگا، افلاس زدہ اور طالب روزگار، بیچارے ٹیکس اور محصولوں کے مارے آئے دن کی جان کنی سے خلاص ہو جائیں گے بلکہ فلک کے سیمرغ جو اہل عالم کے کاروبار میں رات دن سرگرداں ہیں وہ بھی بازو ڈال کر آرام سے بیٹھ جائیں گے۔

    میں نے بڈھے کو اس کی خشکی دماغ کے حوالے کیا اور وہیں ٹھہر گیا۔ اتنے میں ایک شخص سامنے آیا جس کی ملائمت شکل اور آہستگی رفتار سے معلوم ہوا کہ شاید کچھ اخلاق سے پیش آئے مگر جب میں اس کی طرف بڑھا تو اس نے جھک کر ایک سلام کیا اور کہا، اگر آپ کی خدمت کی فرصت ہوتی، تومیں بہت خوش ہوتا۔ مگر اب اس خوشی کا ہوش نہیں کیوں کہ بیس برس سے میں ایک عہدہ کی امیدواری کر رہا تھا۔ اب وہ خالی ہوا چاہتا ہے۔ میں نے اسے بھی چھوڑا اور ایک اور کو جا لیا۔ وہ گھبرایا ہوا جاتا تھا کہ چچا کی میراث پر قبضہ کرے کیونکہ اس کی بیماری کی خبر سننے میں آئی تھی۔ اس کے پیچھے ایک اور شخص کو دیکھا کہ بے تحاشہ بھاگا چلا آتا تھا۔ اس نے ایک غوطہ خوری کی کل ایجاد کی تھی۔ اس کے دریا سے منافع میں غوطہ مارا چاہتا تھا۔ یعنی اگر کچھ اور نہ ہو تو ایجاد کا انعام ہی ہاتھ آ جائے۔ ایک شخص کو دیکھا کہ تھوڑی دور چلتا ہے اور ٹھہر جاتا ہے۔ معلوم ہواکہ وہ طول بلد اورعرض بلد کے خیالات پھیلا رہا ہے اور سرکار علم سے انعام کا امیدوار ہے۔

    جب جا بجا سے ٹکریں کھائیں، تو سوچا کہ اوروں سے دریافت کرنا بے حاصل ہے۔ اب جو اپنی آنکھ کہے وہ ٹھیک ہے۔ آگے بڑھو اور آپ دیکھو کہ اتنے میں ایک نوجوان شوقین بے پروا سا نظرآیا۔ وہ آزادی کے عالم میں مسکراتا چلا جاتاہے۔ اسے دیکھ دل میں کہا کہ بھلا ایک دفعہ تو اسے بھی ٹٹولنا چاہئے۔ چنانچہ معمولی سوال کا سبق اسے بھی سنایا۔ وہ ہنسا اور کہا، صاحب، جہاں آ پ کھڑے ہیں یہ ملکہ امید کا باغ ہے۔ وہ ملکہ آرزو کی بیٹی ہے۔ ذرا سامنے دیکھو بہت سی پریاں خوشنما اور نفیس نفیس چیزیں لئے کھڑی ہیں۔ جن لوگوں کوتم نے زور شور مچاتے دیکھا، یہ انہی کے اشاروں پر للچائے ہوئے دوڑے جاتے ہیں۔

    آنکھ اٹھا کر دیکھوں، توفی الحقیقت سامنے ایک ایوان عالیشان ہے اور اس کے صدر میں ایک پری جس کا گلزار جوانی عین بہار پرہے، سرتخت جلوہ گر ہے۔ مسکراہٹ اس کے زیر لب پارہ کی طرح لوٹتی ہے۔ لعل و جواہر، تاج مرصع، موتیوں کے ہار، خلعت زرنگار، کشتیوں میں چنے آگے دھرے ہیں۔ قسمت اور نصیب جہاں کی نعمتیں سجائے اس کے دائیں بائیں دست بستہ حاضرہیں اور بہار زندگی کے پھولوں کا فرش سامنے بچھا ہے۔ عیش مدام اور فرحت دوام سے چہرہ روشن ہے۔ اس کے لبوں کی مسکراہٹ اور آنکھ کی لگاوٹ عام سے خاص تک برابر سب کی حق شناسی کر رہی ہے۔ اس سے ہرشخص یہی سمجھ رہا ہے کہ ملکہ میری ہی طرف متوجہ ہے اور اسی بھروسہ پر ہر ایک فخر اور ناز کے مارے پھولا نہیں سماتا۔ رستہ کے دونوں طرف کہیں کہیں ایک آدھ جھونپڑی نظر آتی تھی۔ وہ دیکھنے میں پست اور بے حقیقت تھی۔ مگر ہرے درختوں نے سایہ کیا ہوا، دیواریں لپی ہوئیں، دروازہ پر روشن حرفوں میں لکھا تھا، ’’قناعت کا آرام گھر۔‘‘بعضے تھکے ماندے ان میں چلے جاتے اور پاؤں پھیل اکر بیٹھ جاتے۔ رستہ والے دیکھ دیکھ کر غل مچاتے کہ بھاگ گئے اور ہمت میدان ہار گئے۔

    باغ امید کے دودروازے

    یہ 7 دیکھ کر میں ایک ٹیلے پر چڑھ گیا کہ وہاں سے ہرجگہ نظر پہنچ سکتی تھی اور اس جمگھٹ کے بھی ایک ایک آدمی کا حال خوب خیال میں آتا تھا۔ وہاں سے معلوم ہوا کہ باغ امید کے اندر جانے کے دودروازے ہیں۔ ایک داروغہ دانش کے اختیار میں ہے، دوسرا داروغہ خیال کے تحت میں ہے۔ داروغہ دانش ایک تند مزاج اور وسواسی شخص ہے کہ جب تک بہت سے سوال اور الٹی سیدھی حجتیں نہیں کر لیتا تب تک قفل کی کنجی کوجنبش نہیں دیتا۔ مگر داروغہ خیال خلیق اور ملنسار شخص ہے۔ وہ اپنا دروازہ کھلا ہی رکھتا ہے۔ بلکہ جو اس کی حد میں جائے اس سے بڑی عزت و توقیر کے ساتھ پیش آتا ہے۔ چنانچہ جو لوگ داروغہ دانش کی حجتوں سے گھبراتے تھے یا جنہیں اس نے جانے نہیں دیا تھا، ان لوگوں کی بھیڑ اس دروازے پر لگ رہی تھی۔

    داروغہ دانش کے دروازے سے ملکہ کی تخت گاہ خاص کو رستہ جاتا تھا۔ مگر اس راہ کی زمین پھسلنی، سڑک پتھریلی، رستے ایسے ایچ پیچ کے تھے کہ کٹھن گھاٹی اسی کو کہتے ہیں۔ جب کسی قسمت والے کو داروغہ سے اجازت مل جاتی تھی تو اس کٹھن گھاٹی میں دکھ بھرنے پڑتے تھے، اگرچہ چڑھنے والے پہلے سے بھی رستہ کے ایچ پیچ اچھی طرح جانچ لیتے تھے اور جو جو بچاؤ کے مقام تھے ان میں قدم قدم پرنشان کر لیتے تھے۔ مگر پھر بھی اکثر ایسی مشکلیں پیش آتی تھیں جن کا سان گمان بھی نہ ہوتا تھا۔ بلکہ جہاں صاف سیدھا راستہ سمجھے ہوئے تھے وہاں کچھ ایسا تہلکہ پیش آتا تھا کہ یکایک تھم جانا پڑتا تھا۔ ہزاروں الجھاؤں میں الجھتے تھے۔ صدہارپٹنوں میں رپٹتے تھے۔ بہتیرے ٹھوکریں کھا کھا کر گرتے تھے۔ اکثر خس پوش گڑھوں میں جا پڑتے تھے۔

    غرض ایسی ایسی خطرناک وارداتیں اور ناکامی کے صدمے تھے کہ بہت آدمی تو پہلے ہی دھاوے میں الٹے پھر آتے تھے۔ بہتیرے رستے میں غش کھاکر رہ جاتے تھے۔ بعض بعض ایسے بھی تھے کہ ان کی استقلال سے راہ تھی۔ وہ اس کی دستگیری سے ملکہ کے ایوان تک جا پہنچتے تھے۔ ان میں اکثر ایسے ہوتے تھے جو صلہ کو دیکھ کر پچھتاتے تھے کہ ہائے ہماری محنت تو اس سے بہت زیادہ تھی، یہ تو کامیابی نہیں ہوئی، حق تلفی ہوئی ہے۔ باقی جو لوگ کہ اخیرانعام لے کر پھرتے تھے ان کاانجام یہ ہوتا تھا کہ دانائی، داروغہ دانش کی بی بی، ملکہ کی مصاحب تھی، وہ ان کا ہاتھ پکڑتی تھی، اس کی رہنمائی سے وہ لوگ گوشہ قناعت میں جا بیٹھتے تھے۔

    اے راہ امید کے مسافرو! چونکہ داروغہ دانش کی حجتیں اوران کے رستہ کی مشکلیں مجھے بہت سخت معلوم ہوئیں، اس لئے میں نے داروغہ خیا ل کی طرف رخ کیا۔ یہاں بارگاہ کی طرف جانے کو کوئی معمولی سڑک نظر نہ آئی، مگر ملکہ صاف سامنے کھڑی تھی۔ وہ یہاں سے سرتاپا ساری نظر آتی تھی اور اپنی عجائب غرائب، نایاب اور بیش قیمت پر سب کو برابر حسن طلب کے انداز دکھاتی تھی۔ پھر بھی لطف یہ تھا کہ ایک ایک دل کو اپنی ہوا میں جداجدا انداز سے اڑا رہی تھی، جس سے ہر شحص یہ جانتا تھا کہ جو نگاہ مجھ پر ہے وہ کسی پر نہیں اور مجھ سے زیادہ کسی کو کامیابی کی امید نہیں۔ اسی واسطے بجائے خود کسی کا دماغ پایا نہ جاتا تھا۔ پہاڑ اس خیالی رستے کی طرف سے ایسا ڈھلوان تھا کہ قدم نہ ٹھہر سکتا تھا، کیوں کہ وہمی باتوں میں پایہ داری کہاں؟ باوجود اس کے آمدورفت کے نشان بہت کثرت سے تھے کیوں کہ اس رستہ میں چلنے والے بہت ہیں۔ اس کی سڑک سایہ دار درختوں سے ایسی چھائی ہوئی تھی کہ کسی کو جانا مشکل نہ معلوم ہوتا تھا۔ ساتھ ہی اس کے ہر شخص یہ جانتا تھا کہ جو رستہ میں نے پایا ہے وہ کسی کو ہاتھ ہی نہیں آیا۔

    یہ ملا نصیب لوگ بہتیرے جتن کر رہے تھے۔ بعضے توایسے کلدار پر لگانے کی فکر میں تھے جن کی حرکت کبھی تھمے ہی نہیں۔ بعضے کہتے تھے ’’جو ہوا سو ہوا، انہی قدموں چلے جاؤ، بلا سے مرجاؤ۔‘‘ یہ سب حکمتیں کرتے تھے۔ اس پر بھی زمین سے اٹھ نہیں سکتے تھے اور اٹھے تو وہیں گرپڑے۔ مگریہاں پڑے تھے، تاک ادھر ہی لگی تھی اوراس حال تباہ پر خودپسندی کایہ عالم تھا کہ جو لوگ سامنے عقل کی کٹھن منزل میں ہاتھ پاؤں مار رہے تھے ان پر پڑے پڑے ہنستے تھے۔

    اکثرخیال کے پیارے اور وہم کے بندے ایسے بھولے بھالے تھے جنہوں نے اس باغ میں آکر اوروں کی طرح چڑھنے کاارادہ بھی نہ کیا تھا۔ یوں ہی ایک جگہ پڑ رہے تھے۔ یہ مقام کاہل گھاٹی کہلاتا تھا اور ایک سنسان اور بے آزار موقع پر تھا۔ مگر ملکہ یہاں سے بھی سامنے تھی۔ یہ اسی یقین میں خوش پڑے تھے کہ کوئی دم میں وہ خود یہاں آیا چاہتی ہیں۔ اگرچہ اور لوگ ان وہمیوں کو احمق اور کاہل وجود سمجھتے تھے مگر انہیں کچھ پروا بھی نہ تھی، بلکہ یہ غم غلط لوگ اسی دعوے میں خوش بیٹھے تھے کہ سب سے پہلے ہم پر نظرعنایت ہوگی۔

    انہی بے پرواؤں میں میں بھی پڑا پھرتا تھا۔ ان میں اتنا لطف پایا کہ اگر کوئی بات کرے تواس کا جواب دیتے تھے اور اپنی باتوں سے بھی دل خوش کرتے تھے۔ اسی خیال میں یکایک نظر پھیر کرجو دیکھا تو معلوم ہواکہ دو دیو ڈراؤنی صورت، بھیانک مورت، اس گھاٹی میں چلے آتے ہیں کہ ان کی کسی کو خبر نہیں۔ ایک کوتو میں جانتا ہوں کہ عمر ہے مگر دوسرا افلاس تھا۔ ان کے دیکھتے ہی سارے باغ اور چمن آنکھوں میں خاک سیاہ ہوگئے اور یہ معلوم ہوا کہ بس عیش وآرام کا خاتمہ ہو گیا۔ دلوں پر خوف و ہراس چھا گیا۔ لوگ جوڈر کے مارے چیخیں مارمار کر چلائے تو گویا عالم میں ایک کہرام مچ گیا۔ اسی سے میں بھی چونک پڑا اور دیکھا تو کچھ بھی نہ تھا۔


    حاشیے
    (۱) دیکھ لو دنیا میں جوں جوں انسا ن کامیاب ہوتا ہے، اس سے آگے کی کامیابیوں کی ہوس دل میں پیدا ہوتی جاتی ہے۔
    (۲) انسان کی طبیعت کا عجیب حال ہے۔ جو ہوس پوری ہو جاتی ہے وہ مزہ نہیں دیتی، اس سے آگے کے لطف دل میں ارمان اور ذوق و شوق پیدا کرتے ہیں۔
    (۳) جوں جوں حصول مراد میں دیر لگتی ہے شوق زیادہ ہوتا جاتا ہے اور امید بھی اس کے ملنے کے سامان سامنے دکھاتی جاتی ہے۔
    (۴) انسان جس مقصد کے لئے کوشش کرتا ہے، کسی سے کب کہتا ہے، اندرہی اندر تدبیریں کرتا ہے۔
    (۵) اپنے کام کے آگے کسی اور کی احتیاج کی کون پروا کرتا ہے!
    (۶) سچ ہے، بڈھوں کو جوان سے زیادہ ہوس ہوتی ہے۔
    (۷) یہ باتیں ہم پر روز گزرتی ہیں مگر کوئی خیال نہیں کرتا۔ دیکھو یہاں انہیں کس خوبصورتی سے رنگ دے کر بیان کیا ہے۔ عقل جب تک سب تدبیروں اور تجویزوں کے پورے بندوبست نہیں کر لیتی تب تک کسی امید پر کوشش کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔ وہم وگمان کے بندے ذرا سا سہارا دیکھتے ہیں اور اٹھ دوڑتے ہیں، وہیں ٹکراتے ہیں اور ناکام ہوتے ہیں۔

    مأخذ:

    نیرنگ خیال (Pg. 47)

    • مصنف: محمد حسین آزاد
      • ناشر: مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 1970

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے