aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

حالی کا مرتبہ اردو ادب میں

مجنوں گورکھپوری

حالی کا مرتبہ اردو ادب میں

مجنوں گورکھپوری

MORE BYمجنوں گورکھپوری

    تاریخ ادب میں حالی کی تین حیثیتیں ہیں۔ سب سے پہلے تو وہ شاعر تھے اور غزل کے شاعر۔ میں یہ کچھ صرف اس لئے نہیں کہہ رہا ہوں کہ ان کی کلیات کا ایک خاصا جزو غزلیات پر مشتمل ہے، بلکہ اس لئے کہ ایک مخصوص قسم کا تغزل ان کی فطرت کا ایک اہم عنصر تھا اور یہ عنصر جیسا کہ میں ابھی واضح کرنے کی کوشش کروں گا، اپنا کام کرتا رہا، جبکہ حالی کا دل پرانی شاعری سے سیر ہو چکا تھا اور جھوٹے ڈھکوسلے باندھنے سے ان کو شرم آنے لگی تھی۔

    حالی کے کلام کا مطالعہ کرنے والے کو سب سے پہلے جس بات کا احساس ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ ان کا کوئی شعر حال سے خالی نہیں ہوتا۔ حالی کے یہاں نہ کہیں زبردستی کی پرواز تخیل ہے، نہ خواہ مخواہ کے تشبیہات و استعارات۔ جو بات ہے ’’دو اور دوچار‘‘ کی طرح سیدھی مگر عالم گیر حقیقت ہے اور پیرایہ سادہ حسین و دلپذیر۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی کہی ہوئی بات کو ہر شخص اپنے دل کی بات کی طرح مانوس پاتا ہے۔ چند اشعار سنئے،

    دنیا کے خرخشوں سے چیخ اٹھے تھے ہم اول

    آخر کو رفتہ رفتہ سب ہو گئے گوارا

    گوجوانی میں تھی کج رائی بہت

    پرجوانی ہم کو یاد آئی بہت

    گھٹ گئیں کچھ تلخیاں ایام کی

    بڑھ گئی ہے یا شکیبائی بہت

    آرہی ہے چاہ یوسف سے صدا

    دوست یاں تھوڑے ہیں اور بھائی بہت

    گھر ہے وحشت خیز اور بستی اجاڑ

    ہو گئی اک اک گھڑی تجھ بن پہاڑ

    اک عمر چاہئے کہ گوارا ہونیش عشق

    رکھی ہے آج لذت زخم جگر کہاں

    ہم جس پہ مر رہے ہیں وہ ہے بات ہی کچھ اور

    عالم میں تم سے لاکھ سہی تم مگر کہاں

    کس سے پیمان وفا باندھ رہی ہے بلبل

    کل نہ پہچان سکے گی گل تر کی صورت

    عشق سنتے تھے جسے ہم یہ وہی ہے شاید

    خود بخود دل میں ہے اک شخص سمایا جاتا

    بارہا دیکھ چکے تیرے فریب اے دنیا

    ہم سے اب جان کے دھوکا نہیں کھایا جاتا

    بے قراری تھی سب امید ملاقات کے ساتھ

    اب وہ اگلی سی درازی شب ہجراں میں نہیں

    رنجش و التفات و ناز ونیاز

    ہم نے دیکھا بہت نشیب و فراز

    کر دیا خوگر جفا تو نے

    خوب ڈالی تھی ابتدا تونے

    اب وہ اگلا سا التفات نہیں

    جس پہ بھولے تھے ہم وہ بات نہیں

    کوئی دل سوز ہو تو کیجئے بیاں

    سرسری دل کی وارادت نہیں

    کوئی محرم نہیں ملتا جہاں میں

    مجھے کہنا ہے کچھ اپنی زباں میں

    نیا ہے لیجئے جب نام اس کا

    بہت وسعت ہے میری داستاں میں

    بہت جی خوش ہوا حالی سے مل کر

    ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں

    ہوا کچھ اورہی عالم میں چلتی جاتی ہے

    ہنر کی عیب کی صورت بدلتی جاتی ہے

    دریا کو اپنی موج کی طغیانیوں سے کام

    کشتی کسی کی پار ہو یا درمیاں رہے

    کھیتوں کو دے لو پانی اب بہہ رہی ہے گنگا

    کچھ کر لو نوجوان اٹھتی جوانیاں ہیں

    ان اشعار سے ہم پر یہ بھی اثر ہوتا ہے کہ حالی اپنے کو ہمیشہ لیے دیے رہنے والے آدمی تھے۔ ان کی شاعری غیر معمولی ضبط و خودداری کا پتہ دیتی ہے۔ ان کے نالے رکتے ہوئے اور ان کی فریادیں تھمتی ہوئی ہوتی ہیں۔ ان کو جو چیز دوسرے اردو شاعروں سے ہمیشہ ممتاز رکھے گی وہ عقل و جذبات کے درمیان ایک توازن ہے۔ اگر حالی مسدس لکھنے سے پہلے ہی مرگئے ہوتے اور صرف غزلیات چھوڑ جاتے تو آج یہی توازن ان کا سب سے بڑا اکتساب اور اردو شاعری میں سب سے زیادہ قابل قدر اضافہ ہوتا۔ اسی توازن کا نتیجہ ہے کہ وہ غزلیں ہوں یا ’’مسدس‘‘ یا کچھ اور حالی کے کلام میں جوش نہیں ہوتا، گرمی اور دیرپا تاثیر ہوتی ہے۔

    حالی نے ایک جگہ اعتراف کیا ہے کہ وہ شاگر تو مرزاغالب کے تھے، لیکن تقلید میر کی کرتے رہے اور مستفیض شیفتہ سے ہوتے رہے اور اس میں شک نہیں کہ ان کی شاعری میں یہ تینوں اثرات نہایت خوبصورت اور مکمل آہنگ کے ساتھ نظر آتے ہیں۔ ان کے یہاں خستگی اور گھلاوٹ میر کی ہے، ظرف اور تمکنت کے تیور غالب کے ہیں، شائستہ عمومیت اور مہذب سادگی شیفتہ کی ہے۔ غالب کے شاگرد کو غالب کی پیچیدہ خیالی اور مشکل گوئی سے جس چیز نے بچالیا وہ یقینا ًشیفتہ کی صحبت کا فیض تھا۔

    حالی کئی لحاظ سے ہم کو انگریزی کے دو مشہور شاعر گرے (Gray) اور کالنس (Colins) کی یاد دلاتے ہیں جو انگریزی ادب میں رومانی تحریک (Romantic Movement) کے پیش رو سمجھے جاتے ہیں۔ جب ہم حالی کی غزلیات پڑھتے ہیں تو ہم کو وہ کالنس سے کافی قریب نظر آتے ہیں۔ اپنے وقت کی غزل گوئی کے رسوم وقیود سے بغیر کسی قسم کی بغاوت کئے ہوئے غزل کو حالی نے گویا ازسرنو پیدا کیا ہے اور ان میں نئی کیفیتیں بھر دی ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے اشعار میں جو مخلصانہ سادگی اور نرمی اور سنبھلی ہوئی غمگینی پائی جاتی ہے، وہ بھی کالنس ہی کی یاد تازہ کرتی ہے۔ گرے کی خصوصیت حالی میں یہ ہے کہ وہ اپنے راز کو کبھی اچھی طرح افشا نہیں کرتے۔ بس زیرلب کچھ کہہ کر رہ جاتے ہیں۔ گرے کے متعلق بھی یہی کہا جاتا ہے کہ وہ کبھی کوئی بات کھل کر نہیں کہتا تھا۔

    جہاں تک اسلوب کی بے ساختگی اور زبان و دل کی یکجہتی کا تعلق ہے، حالی ورڈسورتھ سے بھی بہت قریب کی مشابہت رکھتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ ان کے کلام میں اس عارفانہ اداسی اور مفکرانہ گداز کا احساس نہیں ہوتا جو ورڈسورتھ کے کلام میں حاوی ہے۔ لیکن اردو شاعری کو انہوں نے ہی پرخلوص سادگی، وہی پرتاثیر بے رنگی اور وہی دھیمی موسیقیت دی جو ورڈسورتھ نے انگریزی شاعری کو دی اور پھر یہ بھی نہ بھولئے کہ حالی سے اردو شاعری میں جدید اسلوب کی ویسی تحریک شروع ہوئی جو انگریزی شاعری میں ورڈسورتھ اور کولرج سے ہوئی تھی۔ اگرچہ اس تحریک اور رومانی تحریک کے درمیان سوااس کے کوئی قدر مشترک نہیں کہ دونوں نے دور گزشتہ کے ادبی مفروضات و اسالیب سے بالارادہ انحراف کیا اور ساگی اور فطری انداز پرزور دیا۔ اردو شاعری میں آج جو سیدھاپن اور فطری انداز پایا جاتا ہے اس کے موجد اور مبلغ حالی ہیں۔

    حالی کی شاعری فلسفہ اور تصوف سے بالکل خالی ہے۔ ان کے اندر کوئی فلسفیانہ بصیرت یا عارفانہ رمز شناسی نہیں تھی۔ یہ ان کی فضیلت بھی ہے اور کمزوری بھی۔ فضیلت اس اعتبار سے کہ یہی خصوصیت ہے جو اور شاعروں کے مقابلے میں ان کو عوام الناس سے قریب اور مانوس بنائے ہوئے ہے۔ ورنہ ان کے اندر گہرائیاں ہوتیں تو وہ اس قدر عام فہم شاعر نہ ہو سکتے۔ لیکن یہی ان کی کمزوری ہو جاتی ہے کیونکہ اس کمی کی وجہ سے وہ نہ تو کوئی تعمیری تخیل (Constructive Idea) پیش کر سکے اور نہ اپنے ترنم میں کوئی تنوع (Variety) پیدا کر پائے۔ ان کی ہر دھن ایک ہی دھن معلوم ہوتی ہے جس کو مجموعی اعتبار سے مرثیہ کی دھن کہہ سکتے ہیں، اگرچہ مرثیے کی عامیانہ قسم کی عام رقت پسندی اوریا (افادی الاقتصادی مرحوم کی اصطلاح میں) تیسرے درجے کے ابل پڑنے والے جذبات سے وہ منزلوں دور تھے۔ مگر اس کا سبب وہی توازن و استقلال ہے جس سے حالی کا خمیر ہوا تھا۔ اور جس کی طرف اشارہ کر چکا ہوں۔

    حالی میں ہم کو دو چیزیں ہر جگہ نمایاں نظر آتی ہیں۔ واقعیت (Realism) اور عقلیت (Rationalism) انہیں دو چیزوں نے ان کو بچا لیا اور انہیں سے وہ کھوئے گئے۔ یہی واقعیت و عقلیت ہے جس نے حالی کے کلام میں وہ توازن اور ٹھہراؤ پیدا کیا جو کسی دوسرے اردو شاعر میں نہیں ملتا۔ لیکن یہی معقول پسندی اور واقعہ کے ساتھ بڑھی ہوئی موانست تھی جس نے حالی کو اس لطیف ہذیان سے محروم رکھا جس کو شیلی ’’پر آہنگ دیوانگی‘‘ (Harmonius Madness) کہتا ہے اور جو دنیا کے مشہور ترین شاعروں اور ادیبوں کی فطرت رہی ہے، ورنہ وہ اس سہولیت کے ساتھ اپنا انداز بدل نہ دیتے اور زمانے کے ان میلانات اور اثرات کے سامنے اتنا جلد سر نہ جھکا دیتے جو سرسید کی سرکردگی میں تحریک علی گڑھ کی صورت میں رونما ہو رہے تھے۔

    یہ سچ ہے کہ یہ تحریک مسلمانوں کے لئے اسی طرح ضروری اور مفید تھی جس طرح مریض کے لئے جلاب، مگر پھر یقیناً وہ اسی طرح وقتی اور عارضی بھی تھی اور اس زمانے کی چیز تھی جب کہ مسلمان ’’فرنگی کے پیسے کو مردار‘‘ سمجھتے تھے اور محنت و مشقت کو باعث ننگ وعار۔ آج جب کہ ہم ڈوم اور چنڈال کے پیسے کو بھی حلال سمجھنے کے لئے تیار ہیں، یہ تحریک ہمارے لئے زیادہ سے زیادہ تاریخ کے صفحات میں اہمیت رکھ سکتی ہے۔ ایسی تحریکوں سے مغلوب ہوکر رہ جانا شاعر کے لئے زیبا نہیں۔ اس کو کسی خاص جگہ یا کسی خاص زمانے کی چیز ہوکر نہ رہنا چاہئے، اگرچہ اپنے زمانے اور اپنی جگہ سے بالکل بے نیاز اور بےپروا رہنا بھی شاعر کی ایک ناقابل معافی کمزوری ہوتی ہے۔

    حالی نے زمانے کے ساتھ گھاٹے پر صلح کرلی اور اس کے ہر نشیب و فراز کو بغیر چوں و چرا کے تسلیم کر لیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ میر و مصحفی کی روش کو چھوڑ کر ’’مغرب کی پیروی‘‘ میں لگ گئے۔ کرتے کیا؟ زمانے کے میلان کے ساتھ مصالحت کر لینا نہ صرف سرسید کی تحریک تھی بلکہ حالی کی اپنی طبیعت کا تقاضا بھی تھا۔ ان کے پیغام کا ایک اہم جزو یہ بھی ہے،

    زمانے کا دن رات ہے یہ اشارا

    کہ ہے آشتی میں مری یاں گزارا

    نہیں پیروی جن کو میری گوارا

    مجھے ان سے کرنا پڑےگا کنارا

    سدا ایک ہی رخ نہیں ناؤ چلتی

    چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی

    خیر عام مسلمانوں کو ہوا کا رخ پہچان کر چلنا نہ اس وقت آتا تھا نہ آج تک آیا۔ لیکن حالی نے اپنی قوم کا کفارہ تنہا اپنی ذات سے ادا کرنے کا بیڑا اٹھا لیا۔ زمانے کا رنگ بدلا ہوا دیکھا تو ساری مروجہ شاعری ان کو ایک ’’ناپاک دفتر‘‘ نظر آنے لگی اور شاعروں کی حیثیت ان کی نگاہ میں ’’قلی اور نفر‘‘ سے بھی گر گئی۔ لیکن شاعری ان کی فطرت میں داخل تھی اور اس کو دبا کر فنا کر دینا ایسا آسان کام نہ تھا۔ خود حالی ’’مسدس‘‘ کے دیباچے میں تسلیم کرتے ہیں کہ ’’یہ ایک ایسے ناسور کا منہ بند کرنا تھا جو کسی راہ سے تراوش کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اس لئے بخارات اندرونی جن کے رکنے سے دم گھٹا جاتا تھا، دل و دماغ میں تلاطم کر رہے تھے اور کوئی رخنہ ڈھونڈتے تھے۔‘‘ آخرکار دبائے ہوئے بخارات کو نکلنے کے لئے رخنہ مل گیا۔ ’’غزل کے شاعر‘‘نے لاکھ اپنی فطرت سے انکار کیا، پھر بھی ’’مسدس‘‘ کا شاعر ہوکر رہا۔

    یہ نہایت کھلی ہوئی بات ہے کہ ’’مسدس حالی‘‘ تبلیغی یا تنظیمی ادب (Propaganda Literature) کے عنوان کی چیز ہے، یعنی وہ ایک خاص دور کی چیز ہے اور اس کے خاص دور میں بھی ملک کی ایک محدود جماعت کے لئے مخصوص ہے، لیکن وہ شاعری بھی ہے اور صحیح معنی میں شاعری اور اس حیثیت سے اس کے اندر وہ تمام خصوصیات کہیں کم اور کہیں زیادہ موجود ہیں جو حالی کی عام شاعری میں عام طور پر ملتی ہیں۔ خود حالی نے مسدس کو ابالی کھچڑی سے تشبیہ دی ہے جو مزہ لے کر نہیں کھائی جا سکتی۔ شمس العلما مولانا امدادامام اثر حالی کی رائے سے اتفاق کرکے کہتے ہیں کہ ہر کچی بریانی اورمرغ مسلم پکانے والا ایسی کھچڑی نہیں تیار کر سکتا۔ میں خود مسدس حالی کو ایک قسم کی پرہیزی کھچڑی سمجھتا ہوں مگر وہ ابالی نہیں ہے۔ اس میں نمک اور دوسرے مسالے بڑے انداز سے ملے ہوئے ہیں۔ اگر آٖپ اس کو مزہ لے کر نہ کھائیے تو البتہ محض ابالی معلوم ہوتی ہے۔ یہ پکانے کے کمال کی دلیل ہے۔

    ’’مسدس‘‘ کی شان نزول کچھ بھی ہو، اس کے وجود میں آنے کے اسباب و محرکات لاکھ غیرشاعرانہ سہی، اس میں سرسید کی غیرشاعرانہ تحریک کے جو اثرات نمایاں ہیں وہ سب مسلم، لیکن ’’مسدس‘‘کے ایک خاصے حصے میں جو شخص شاعری نہیں پاتا وہ مذاق شعر کے محدود اور ناقص ہونے کا ثبوت دیتا ہے۔ بقراط کا جامہ پہن کر بھی حالی کا انداز قد چھپ نہیں سکتا اور صاف پہچانا جا سکتا ہے۔ وہ ہم کو ہمارے مرض کا سبب اور اس کی علامت سمجھاتے ہوئے آئے ہیں لیکن ہم کو دھوکہ نہ کھانا چاہئے۔ طبیب خود بھی اس مرض کے جراثیم سے بچا ہوا نہیں ہے جس کو تشخیص کرکے اس نے ’’تپ دق‘‘ بتایا ہے۔ البتہ اس نے اپنے پھیپھڑوں میں مصنوعی طور پر آکسیجن بھر لیا ہے جس سے اس میں تندرستی کی عارضی علامتیں آ گئی ہیں۔

    جو لوگ مسدس کو شاعری نہیں سمجھتے ان کو عموما ًدو جماعتوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک تو وہ جوتبلیغ و تنظیم کو شعروادب سے بلند و برتر چیز مانتی ہے اور ’’مسدس‘‘ کو شاعری کہنا اس کی توہین سمجھتی ہے۔ اس جماعت میں خود حالی بھی شامل ہیں بلکہ اس کے علم بردار ہیں۔ دوسری جماعت وہ ہے جس نے شاعری کے مفہوم کو بے انتہا محدود کر لیا ہے اور جس کے مذاق کو غزل کے سہل اور سست کیف و اثر نے بگاڑ دیا ہے۔ تمام اصناف سخن میں غزل سے بڑھ کر دھوکے کی چیز کوئی نہیں۔

    غزل شاعری کی معراج بھی ہو سکتی ہے اور اس کو خوار و رسوا بھی کر سکتی ہے۔ اس سے ہمارے مذاق میں اگر ایک طرف تمکنت آ سکتی ہے تو دوسری طرف ہمارے مذاق کے رکیک اور مبتذل ہو جانے کا بھی اندیشہ ہے۔ بہرحال اگر ہم ’’مسدس‘‘میں شاعری محسوس نہیں کرتے اور اس سے لطافت نہیں اٹھا سکتے تو اس کی ذمہ دار اگر ایک طرف ہماری بڑھی ہوئی ثقاہت ہے تو دوسری طرف اسی حد تک ہمارے مذاق کی عامیانہ سہل پسندی بھی ہے۔ ورنہ مسدس غیرشاعرانہ ہوتے ہوئے بھی شاعری ہے۔

    مگر ایک تیسری جماعت بھی ہے جس کی نگاہ میں شاعر کا مرتبہ مبلغ یا مصلح سے زیادہ بلندہے۔ یہ لوگ کسی ایسے پیغام کو جو وقتی مصلحتوں پر مبنی ہو یا جس کا روئے خطاب کسی محدود جماعت کی طرف ہو، شاعری کا صحیح موضوع نہیں مانتے۔ وہ کہتے ہیں کہ شاعر زمان ومکان کاغلام نہیں ہو سکتا۔ وہ توازل اور ابد کو اپنی مٹھی میں لئے ہوتا ہے۔ مسدس کا پیغام صرف ایک چھوٹی سی جماعت اور وہ بھی ایک خاص وقت کے لئے تھا جو اب دفن ہوکر رہ گیا۔ پھر اس کو شاعری کیوں کر کہا جائے؟ شاعری تو وہ ہے جو اپنی تمام وقتی اور مقامی خصوصیات کے ساتھ بھی عام بنی نوع انسان کے لئے یا کم از کم کثیر سے کثیر تعداد کے لئے ابد تک روشنی اور صدائے بازگشت کا کام کر سکے۔

    ’’مسدس‘‘ پر اس جماعت کا یہ اعتراض کافی اہم اور قابل غور ہے۔ اس کے جواب میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ’’مسدس‘‘ جہاں تک پیغام ہے وہاں تک شاعری نہیں ہے۔ ’’مسدس‘‘ کے اہم ترین ٹکڑ ے وہ ہیں جن میں یا تو اسلام کی گزشتہ شان و شوکت کی تصویر دکھائی گئ ہے یا ہندوستان کے مسلمانوں کی موجودہ ابتری اور پستی کا نقشہ کھینچا گیا ہے اور یہ ٹکڑے شاعری کے مکمل نمونے ہیں جن کو پڑھ کر ماننا پڑتا ہے کہ حالی کی غزلیات اور ان کے ’’مسدس‘‘میں دراصل کوئی تصادم نہیں ہے۔ وہی انسانی دردمندی اور دل سوزی، وہی جذبات کی سنجیدگی، وہی دھیما تھما ہوا لب ولہجہ اور وہی زبان کی سادگی اور بے ساختگی، غرض کہ وہی تمام خصوصیات جوان کی قدیم و جدید غزلیات یا ’’حب وطن‘‘ یا ’’مناجات بیوہ‘‘ کو شاعری بنائے ہوئے ہیں، ’’مسدس‘‘ میں بھی نمایاں ہیں۔

    ’’مسدس‘‘ اپنے موضوع پر اور اپنی نوعیت کی نہ صرف اردو میں بلکہ شاید دنیا کی اور زبانوں میں بھی سب سے زیادہ طویل نظم ہے۔ اس پر بھی ملک میں اس قدر مقبول ہوئی کہ گھر گھر پڑھی اور کسی زمانے میں بار بار پڑھی گئی۔ ایسی طویل نظمیں عموماً پڑھنے والوں کو تھکا دیتی ہیں، لیکن ’’مسدس‘‘اس عیب سے پاک ہے۔ شروع سے آخر تک پڑھ جائیے، نہ کہیں گرانی محسوس ہوگی نہ جی اکتائےگا، مسدس حالی کی مقبولیت کا سب سے بڑا سبب اس کا تسلسل اور زبان کی سنجیدہ سادگی ہے جو اس کی تاثیر کے وزن کو اول سے آخر تک یکساں قائم رکھے ہوئے ہے۔

    آخر میں ’’مسدس‘‘ کے متعلق پھر بھی ایک سوال ہوتا ہے اور وہ یہ اگر’’مسدس‘‘ شاعری ہے تو کس مرتبہ کی اور مستقبل میں اس کو کیا حیثیت دی جائےگی؟ یہ تو نہایت کھلی ہوئی سی بات ہے کہ غزل یا خالص داخلی شاعری کی تاثیر و مقبولیت تو’’مسدس‘‘ جیسی نظم کو کبھی میسر نہیں ہو سکتی۔ آخر فردوسی، نظامی اور جامی یا ہومر، و رجل اور ڈانٹے کو غزل یا (Lyrics) والی بات کہاں نصیب ہوئی۔ لیکن انسان کی زندگی میں ایسے لمحے بھی آتے ہیں جبکہ وہ غزل کی ساحرانہ آواز کی طرف سے کان بندکر لیتا ہے اور یہ ساحرہ اپنی تمام ساحری کے باوجود اس کو اپنی طرف نہیں کھینچ سکتی۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو دنیا میں خارجی شاعری کا وجود ہی نہ ہوتا۔

    جو لوگ آج غزل کو حقیر سمجھ رہے ہیں اور اس کو بے حیثیت اور ذلیل ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں وہ تو خیر اپنے مذاق شاعری کو ناقابل اعتبار ثابت ہی کر رہے ہیں، لیکن جو لوگ شاعری کو صرف غزل تک محدود رکھتے ہیں وہ بھی اپنی تنگ حوصلگی کا ثبوت دے رہے ہیں۔ ہمارے مذاق کو ابھی بہت کچھ وسیع، متوازن اور مہذب ہونا ہے۔ ’’مسدس‘‘غزل نہ سہی، لیکن مرثیہ ضرور ہے اور نہایت بلند معیار کا جو بحیثیت مجموعی ہم کو افسردہ او ربے دم نہیں کر دیتا۔ تاریخ اسلام کے ایک خاص رخ کو اس سے زیادہ دلکش اور پرتاثیر پیرائے میں نہیں پیش کیا جا سکتا تھا۔

    رہ گیا یہ سوال کہ آئندہ مسدس کو کیا حیثیت ملےگی؟ میرا خیال ہے کہ اس کو کسی قوم کی منظوم انجیل (Bible) کا درجہ تو نہیں حاصل ہو سکتا، لیکن اردو مرثیوں سے تو اسے بلند مانا ہی جائےگا، اس لئے کہ اس میں تغزل کے لطیف عناصر بھی موجود ہیں اور اگر ہم کو غم دنیا سے سر اٹھانے کی اتنی مہلت ملی کہ شعروادب سے لطف اٹھا سکیں تو آئندہ یقیناً وہ اس سے زیادہ پڑھی جائےگی جتنی کہ اس وقت پڑھی جاتی ہے۔ اپنے وقت میں تو وہ شاعری سے زیادہ پیغام سمجھی گئی، اب وہ زمانہ آ رہا ہے کہ اس کو شاعری میں شمار کیا جائے۔

    اگر حالی کی ’’مسدس‘‘ میں کوئی فلسفہ تمدن (Social Philosophy) یا کوئی واضح اور متعین مرکزی تخئیل ہوتی یا اگر اس میں کوئی مسلسل اور مربوط داستان بیان کی گئی ہوتی تو آج وہ رامائن، مہابھارت، شاہنامہ، الیڈ اور پیرڈائزلاسٹ کے ٹکر کی چیز ہوتی۔ تاہم ان تمام خصوصیات سے معرا ہوتے ہوئے بھی مسدس جتنی پڑھی گئی ہے، شاید ہی اس قسم کی کوئی دوسری طویل نظم پڑھی گئی ہو۔

    حالی کی تیسری حیثیت سے بحث کرنا باقی ہے، یعنی ان کی تنقید نگاری سے۔ یہ حالی کی وہ حیثیت ہے جس پرکچھ زیادہ کہنے کی ضرورت نہیں، کیوں کہ یہاں آکر رائیں ایک ہو جاتی ہیں۔ حالی نے نہ صرف اردو شاعری کو جدید راستے پر لگایا بلکہ اردو تنقید اور سیرت کے بھی مجتہد ہیں۔ وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے سیرت اور تنقید نگاری میں مغربی اصول فن کو رواج دیا اور اردو میں ادب کی ان دو اہم صنفوں کو معیار کی چیزیں بناکر پیش کیا۔ کہا جا سکتا ہے کہ تنقید میں حالی اردو کے ڈرائڈن (Dryden) ہیں۔ جس طرح ڈرائڈن نے انگریزی تنقید میں نئی روح پھونکی اور جدید فن تنقید کی بنیاد ڈالی، اسی طرح حالی نے اردو تنقید کو تذکرہ نگاری کی سطح سے بلند کرکے ایک علمی اور تحقیقی فن کی حیثیت بخشی۔

    جو خصوصیات حالی کی شاعری کی گنائی گئی ہیں، وہی ان کی تنقیدوں کی بھی شان امتیازی نظر آتی ہیں۔ یعنی وہی توازن اور وہی معقول پسندی۔ سرسید کے ساتھ انہوں نے جس بڑھی ہوئی عقیدت مندی اور جانب داری کا اظہار کیا ہے، اس کے لئے اگر رواداری کا ایک حاشیہ چھوڑ دیا جائے اور اس جگہ ان کو محض اردو کا باسویل (Boswell) تصور کر لیا جائے تو اردو میں ایسا معقول پسند اور منصف مزاج نقاد دوسرا نظر نہیں آتا۔ یہاں بھی وہ افراط و تفریط کے قائل نہیں، نہایت سنجیدگی کے ساتھ بغیر ماتھے پرشکن ڈالے ہوئے اپنی جنچی تلی رائے دیتے چلے جاتے ہیں اور اس کا خاص لحاظ رکھتے ہیں کہ کوئی بات اتنی گہری نہ ہونے پائے اور زبان وبیان میں کہیں اتنی ادنی خصوصیات نہ اکٹھا ہو جائیں کہ وہ مدرسہ کی چیز ہوکر رہ جائے اور ہر خاص و عام اس کو نہ سمجھ سکے۔ شاعری ہویا نثر، حالی ہر جگہ میر کی طرح اس مقولے پر عمل کرتے نظر آتے ہیں۔

    بات میری ہے گو خواص پسند

    پر مجھے گفتگو عوام سے ہے

    پھر ایک صاحب اسلوب کی حیثیت سے دیکھا جائے تو بھی حالی اردو نثر میں ایک زبردست شخصیت کے مالک ہیں۔ اگر سرسید کے ساتھ حالی کی نثر وجود میں نہ آ جاتی تو غالب کی نثر کے باوجود اردو نثر اسی جگہ رہ جاتی جہاں مرزا رجب علی بیگ سرور نے اس کو چھوڑا تھا اور اس قابل نہ ہوتی کہ اپنی ادبی حیثیت قائم رکھتے ہوئے بے تکلفی اور سہولت کے ساتھ کسی سنجیدہ موضوع پر بحث کر سکے۔ سرسید کی اخباری نثر میں ادبی جان بالکل نہیں تھی اور اس سے اردو میں کوئی ادبی تحریک نہیں شروع ہو سکتی تھی، اس لئے کہ کوئی ادیب ان کے اسلوب کی تقلید نہیں کر سکتا تھا۔ حالی سے اردو نثر کے اسلوب میں وہی تحریک شروع ہوئی جو انگریزی میں بیکن (Bacon) سے ہوئی۔

    مأخذ:

    ادب اور زندگی (Pg. 317)

    • مصنف: مجنوں گورکھپوری
      • ناشر: اردو گھر، علی گڑھ
      • سن اشاعت: 1984

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے