Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

حالی کی شاعرانہ اہمیت

سجاد ظہیر

حالی کی شاعرانہ اہمیت

سجاد ظہیر

MORE BYسجاد ظہیر

    ادب اور آرٹ کی تاریخ پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ کبھی کبھی قوموں اور افراد کی طرح، وہ ایسی منزل پر پہنچ جاتے ہیں جب ان میں نمو اور ترقی کی رفتار دھیمی ہوتے ہوتے جیسے رک جاتی ہے۔ جدّت نظر کی دل کشی، فکر کی جولانی اور مسائل حیات پر ایسا تبصرہ کرنے کی قوت اور صلاحیت، جوذہن کو جلا بخشے، دلوں میں حرارت پیدا کرے اور روح میں بالیدگی، باقی نہیں رہتی۔ ابتذال اور گھٹیاپن ذوق سلیم کو جیسے لے ڈوبتے ہیں اور اس دم گھٹنے والے ماحول میں جو ہر اصلی کی پرکھ کامادہ تقریباً غائب ہو جاتا ہے۔

    خواجہ الطاف حسین حالی نے اپنے عہد میں، جو ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں ہندوستانیوں کی ناکامی کے بعد کا اور سخت سماجی اور سیاسی اتھل پتھل کا عہد تھا، اردو ادب اور خاص طور پر اردو شاعری کو فضول نگاری اور ابتذال کے ایسے ہی مرحلے میں گرفتار پایا۔ حالی کی عظمت یہ ہے کہ انھوں نے تہذیبی اور ادبی زوال کی ان کیفیتوں کو نہ صرف شدت سے محسوس کیا، انھوں نے اس کے اسباب کو بھی دریافت کرنے کی کوشش کی اور پھر نہایت جرأت مندی کے ساتھ ہمارے ادبی دھارے کا رخ ترقی، روشن خیالی، سادگی، عمومیت اور حقیقت نگاری کی سمت موڑ نے کی کوشش کی۔

    انھوں نے اپنے زمانے کی اس قسم کی شاعری پر جو بیشتر چٹکلے بازی، پست قسم کی لذت کوشی اور مرصع نگاری بن کر رہ گئی تھی، جس میں انسانی زندگی کے اہم ترین مسائل اور اس کی بلند ترین قدروں کا نام و نشان بھی نہیں تھا اور جو سطحی تفریح کے علاوہ کسی دوسرے بلند اخلاقی مقصد کا اظہار نہیں کرتی تھی، سخت نکتہ چینی کی اور انھوں نے اس نکتہ چینی میں اتنے جوش بلکہ غصے کا اظہار کیا کہ لوگ تلملا اٹھے۔ حالی نے اپنے ’’مسدس‘‘ میں لکھا،

    وہ شعروقصائد کا ناپاک دفتر

    عفونت میں سنڈاس سے جو ہے بدتر

    زمیں جس سے ہے زلزلے میں سراسر

    ملک جس سے شرماتے ہیں آسماں پر

    ہوا علم ودیں جس سے تاراج سارا

    وہ ہے ہف نظر علم و انشاء ہمارا

    برا شعر کہنے کی گر کچھ سزا ہے

    عبث جھوٹ بکنا اگر ناروا ہے

    تو وہ محکمہ جس کا قاضی خدا ہے

    مقرر جہاں نیک و بد کی سزا ہے

    گنہ گارواں چھوٹ جائیں گے سارے

    جہنم کو بھر دیں گے شاعر ہمارے

    لیکن حالی نے اگر ایک طرف ایک خاص قسم کی شاعری کو اتنے شدومد کے ساتھ رد کیا تو دوسری طرف اپنے لا جواب ’’مقدمہ شعروشاعری‘‘ میں شاعری کی وہ تعریف بھی کر دی جو ان کے نزدیک اس کی اصلی اور بہترین خصوصیت ہے۔ انھوں نے ’’مقدمہ شعروشاعری‘‘ میں لکھا، ’’شاعری کائنات کی تمام اشیائے خارجی اور ذہنی کا نقشہ اتار سکتی ہے۔ عام محسوسات، دولت کے انقلابات، سیرت انسانی، معاشرت نوع انسانی، تمام چیزیں جونی الحقیقت موجود ہیں، تمام وہ چیزیں جن کا تصور مختلف اجزائے اشیاء کو ایک دوسرے سے ملا کر کیا جا سکتا ہے، سب شاعری کی سلطنت میں محصور ہیں۔‘‘

    اور پھر آخر میں یہ کہا کہ، ’’شاعری ایک سلطنت ہے جس کی قلم رواسی قدر وسیع ہے جس قدر خیال کی قلم رو۔‘‘ حالی نے اگر شعر کے میدان کو اس قدر زیادہ وسیع کیا تو اسی کے ساتھ ساتھ انھوں نے شعر میں سچائی اور خلوص کا بھی مطالبہ کیا اور بڑی سادگی سے ہمیں یہ بتایا کہ، ’’سچا شعر کہنے کی صلاح کچھ اس لیے نہیں دی جاتی کہ جھوٹ بولنا گنا ہ ہے۔ نہیں، بلکہ اس لیے دی جاتی ہے کہ تاثیر جو شعر کی علّت غائی ہے، وہ جھوٹ میں بالکل باقی نہیں رہتی۔‘‘

    جس نئی قسم کی شاعری کا تصور حالی کے ذہن میں پیدا ہو رہا تھا، ویسی شاعری کرنے کا موقع انھیں اپنے لاہور کے قیام کے دوران ملا۔ حالی تقریباً چار سال لاہور میں رہے، جہاں مولوی محمد حسین آزاد بھی مقیم تھے۔ آزاد بھی پرانی شاعری سے بیزار ہو چکے تھے۔ انھوں نے ۱۸۷۴ء میں ایک نئے قسم کے مشاعرے کی بنیاد ڈالی جس میں مصرع طرح کے بجائے، شعر کے مضمون کا تعین کیا جاتا تھا اور شاعروں کو آزادی ہوتی تھی کہ جس اسلوب میں چاہیں، اس مضمون کو نظم کریں۔

    حالی نے انھیں مشاعروں کے لیے اپنی چار مشہور نظمیں لکھیں۔ برکھارت، امید، تعصب و انصاف اور حب وطن۔ حالی کی نظم حب وطن نے اردو میں دراصل شاعری کی اس نئی صنف کی بنیاد رکھی جسے آج ہم قومی شاعری کہتے ہیں، یعنی ایسی شاعری جس میں اپنے وطن اور اس کے باسیوں اور ان کے سیاسی یاسما جی مسئلوں کے کسی پہلو کولے کر حب وطن اور حب انسان کے جذبے کو ابھارا جائے، قومی آزادی کے لیے لوگوں کے دلوں میں جوش اور ولولہ پیدا کیا جائے، قومی اتحاد اور یک جہتی کی تلقین کی جائے اور قوم کی کم زوریوں اور خامیوں پر روشنی ڈال کر انھیں دور کرنے کے لیے لوگوں کو آمادہ کیا جائے۔

    اپنی اس پراثر نظم میں، جس کی غیر معمولی سادگی اور روانی ہمارے دلوں پر گہرا اثر کرتی ہے، حالی نے سب سے زیادہ قومی اتحاد اور قومی بیداری پر زور دیا ہے اور ہماری سب سے بڑی برائی اس چیز کو بتایا ہے کہ ہم خود غرضی میں مبتلا ہیں اور ابنائے وطن کے ساتھ مل کر مشترکہ بھلا ئی کے کام نہیں کرتے۔ حالی کہتے ہیں،

    تم اگر چاہتے ہو ملک کی خیر

    نہ کسی ہم وطن کو سمجھو غیر

    قوم سے جو تمہارے ہیں برتاؤ

    سو چواے میرے پیارو اور شرماؤ

    اہل دولت کو ہے یہ استغنا

    کہ نہیں بھائیوں کی کچھ پروا

    فاضلوں کو ہی فاضلوں سے عناد

    پنڈتوں میں پڑے ہوئے ہیں فساد

    الغرض جس کے پاس جو ہے چیز

    جان سے بھی سوا ہے اس کو عزیز

    اور نئے پڑھے لکھوں کی خود غرضی کے متعلق یوں لکھا،

    تربیت یافتہ جو ہیں یاں کے

    خواہ بی اے ہوں اس میں یا ایم اے

    بند اس قفل میں ہے علم ان کا

    جس کی کنجی کا کچھ نہیں ہے پتا

    کیجے انصاف شرم کی جا ہے

    گر نہیں بخل یہ تو پھر کیا ہے

    حالی کا سب سے بڑا اور اہم شعری کارنامہ یقینی ان کا مسدس ’’مدّوجزر اسلام‘‘ ہے۔ گوکہ اس کے مخاطب صرف ہندستانی مسلمان ہیں اور ہم احیا پرستی کے نظریے کو، خواہ وہ مسلمانوں کے ہوں یا ہندوؤں کے، تاریخی اعتبار سے غلط اور عملی اعتبار سے گمراہ کن سمجھتے ہیں لیکن اس مسدس کے بہت سے حصے ایسے ہیں جو دراصل ہماری پوری قوم کی اس وقت کی زبوں حالی پر بڑے خلوص اور دردناکی کے ساتھ روشنی ڈالتے ہیں۔

    ساتھ ساتھ ’’مسدس‘‘ کے بعض حصوں میں ایسی دانش مندی اور دور اندیشی کی بھی باتیں کہی گئی ہیں جو ہماری جدید جمہوری فکرونظر کے عین مطابق ہیں۔ مسدس سے اس کی متعد و مثالیں دی جا سکتی ہیں لیکن یہاں پر میں صرف دو پر اکتفا کرتا ہوں۔ پہلے، حالی نے مسدس میں تمام مفت خوروں اور نکمّوں کی سخت ندمت کرنے کے بعد محنت کش طبقے کا ذکر کیا اور کہا کہ یہی طبقہ دنیا میں سب سے زیادہ عزت و شرف کا مستحق ہے، اس لیے کہ اس کی ہی محنت سے دنیا کا سارا کاروبار چلتا ہے۔ حالی نے کہا،

    زمیں سب خدا کی ہے گلزار انھیں سے

    زمانے کا ہے گرم بازار انھیں سے

    ملے ہیں سعادت کے آثار انھیں سے

    کھلے ہیں خدائی کے اسرار انھیں سے

    انھیں پر ہے کچھ فخر، گر ہے کسی کو

    انھیں سے ہے گر ہے شرف آدمی کو

    دوسرے، حالی نے پوری نوع انسانی کو ایک کنبہ کہا۔ تعصب، تفرقہ پردازی اور مختلف مذہبوں کے ماننے والوں میں یا مختلف قوموں کے لوگوں میں باہمی نفرت، دشمنی، بغض وعنا دیا جنگ و جدال کی سخت مذمت کی۔ انھوں نے کہا،

    یہ پہلا سبق تھا کتا ب ہدی کا

    کہ ہے ساری مخلوق کنبہ خدا کا

    وہی دوست ہے خالق دوسرا کا

    خلائق سے رشتہ ہے جس کو وِلا کا

    یہی ہے عبادت، یہی دین و ایماں

    کہ کام آئے دنیا میں انساں کے انساں

    حاؔلی کی ان اچھی باتوں اور نصیحتوں کو آج بھی ہمیں یاد رکھنے کی ضرورت ہے!

    مأخذ:

    مضامین سجاد ظہیر (Pg. 54)

    • مصنف: سجاد ظہیر
      • ناشر: غلام حسین زیدی
      • سن اشاعت: 1979

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے