Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ہماری شاعری کا سیاسی پس منظر

خان رشید

ہماری شاعری کا سیاسی پس منظر

خان رشید

MORE BYخان رشید

    میرؔ نے سب کی طرف پرامید نگاہوں سے دیکھا لیکن جب حریفِ مئے مرد افگنِ عشق کوئی بھی نظر نہ آیا تو فقر کا سہارا نہ لیتے تو کرتے بھی کیا،

    چور اُچکے سکھ مرہٹے شاہ و گدا سب خواہاں ہیں

    چین سے ہیں جو کچھ نہیں رکھتے فقر بھی اک دولت ہے یہاں

    زوال و انحطاط کے عبرتناک مرقعے اس سے بڑھ کر اور کیا ہوں گے،

    دلّی میں آج بھیک بھی ملتی نہیں انہیں

    تھا کل تلک دماغ جنہیں تخت و تاج کا

    ہمیں فی الحال ایسے اشعار سے سروکار نہیں لیکن اس تاریخی پس منظر پر روشنی ڈالنی ہے جس میں ایسے اشعار معرضِ وجود میں آتے رہے اور ’’گاہے گاہے بازخواں‘‘ کے مصداق وہی ’قصہ پارینہ‘ سنانا ہے جس کا آغاز تیموری جلال و عظمت کے آفتاب سے ہوا۔ لیکن انجام میں ’اک شمع رہ گئی ہے سو وہ بھی خموش ہے کے بعد حسرت چیخ اٹھی کہ ’’بجھا ہوا ہے چراغِ دہلی‘‘ ۔

    سلطنتِ مغلیہ کے زوال کی ابتدا (۱۲۷۹ھ) اورنگ زیب کے بعد ہوتی ہے۔ اس لیے ہم اس داستان کا آغاز عہدِ اورنگ زیب ہی سے کرتے ہیں۔ اس لیے کہ کمال کا نقطۂ عروج بھی یہی تھا اور چونکہ کمال کی انتہا کے بعد ارتقاء کی مزید گنجائش نہیں ہوتی اور تغیر کے اٹل قانون کو بہرحال اپنا فرض پورا کرنا ہی پڑتا ہے اس لیے عروج نہ ہو تو زوال ہی شروع ہوجاتا ہے۔

    ۱۰۲۸ھ سلطنتِ مغلیہ کے افق پر یہ آفتابِ عالمتاب طلوع ہوا اور اپنی آب و تاب سے جلد ہی ثابت کردیا کہ ’’گوہر تاج الملوک اورنگ زیب‘‘ (۱۰۲۸ھ) وہی ہے۔ اس کی بہادری اور پامردی کی ابتدا ۱۰۴۲ھ سے ہوتی ہے جب کہ ابھی اس کی عمر صرف پندرہ برس کی تھی۔ سدھکر نامی ایک ہاتھی بگڑ بیٹھا۔ بڑے بڑے سورما بھاگ کھڑے ہوئے لیکن اورنگ زیب ٹس سے مس نہ ہوا اور مردانہ وار اس کا مقابلہ کیا،

    دریں حسن اگر بودے افراسیاب

    ہمی گشتی ازویدنِ فیل آب

    (بحوالہ خانی خاں)

    عنفوانِ شباب میں اورنگ زیب نے دکن کی صوبیداری کرتے ہوئے بندیل کھنڈ کے راجہ کی سرکشی کو دبایا۔ ایک لاکھ سے زیادہ ازبکوں کو صرف تیس ہزار سپاہیوں کی مدد سے شکست دے کر بلخ کی مہم سر کی۔ دکن اور برہان پور کے حالات درست کیے۔ گولکنڈہ اور بیجاپور پر پے درپے حملے کرکے دادِ شجاعت دی۔ ۱۰۶۷ھ میں شاہجہان بیمار پڑا اور جمعہ کے دن ذی قعدہ ۱۰۶۸ھ میں اورنگ زیب تخت نشین ہوا۔ ۵۱ برس تک حکومت کی۔ ساری عمر شورشوں کو دباتے اور نظم و نسق کو بحال کرتے گزری۔ ۸۵ برس کی عمر میں بھی وہ میدانِ کارزار میں مردانہ وار ڈٹا ہوا نظر آتا ہے اور جب سے اس نے ہوش سنبھالا تھا پوری عمر میں شاید چند روز بھی ایسے نصیب نہ ہوئے ہوں گے جب وہ فراغت اور اطمینان کا سانس لے سکا ہو۔ لیکن تمام معرکہ آرائیوں کے باوجود وہ صرف شورشوں کو دبا ہی سکا، ان کا قلع قمع نہ کرسکا۔ زوال آمادہ قوم کے افراد کی اصلاح اس کے بس کا روگ نہ تھا۔ وہ تقدیر سے لڑ بھی تو نہ سکتا تھا جو اپنی آخری مہر ثبت کرچکی تھی اور قوم و ملک کا زوال مقدر ہوچکا تھا۔

    جاگیرداری نظام کا زہر سماج کی رگ رگ میں سرایت کرچکا تھا۔ زوال اور انحطاط کے بادل منڈلا رہے تھے۔ انسانی نفس کی شر افشانی وقتی طور پر دب گئی تھی تو صرف اس لیے کہ اس کی آنکھیں بند ہوتے ہی اپنی پوری تباہ کاریوں کے ساتھ ایک آتش فشاں پہاڑ کی طرح لاوا اگلنے لگے تاکہ وہ سلطنتِ مغلیہ کی عظمتوں کو ہمیشہ کے لیے اپنی تہوں میں لپیٹ لے اور صفحہ ہستی پر اس کا نام و نشان بھی باقی نہ رہنے دے۔

    ۳/مارچ ۱۷۰۷ء (۱۱۱۸ھ) کو یہ ’’آفتابِ عالمتاب‘‘ غروب ہوا۔ عالمگیر کی خوں گشتہ آرزوئیں کچھ دیر اور شفق رنگ گلکاریاں کرتی رہیں لیکن انجام کار انہیں ادبار و نکبت کی بڑھتی ہوئی تاریکیوں نے لپیٹ لیا۔ اندھیرا بڑھا تو دیے جلائے گئے۔ یکے بعد دیگر جلائے گئے اور پھر بلاضرورت سمجھ کر بجھا دیے گئے۔ ادھر تو نحوست اور ادبار کی گھٹائیں گھنگھور ہوتی جارہی تھیں اور اُدھر ہر نئے دیے کی روشنی پہلے کے مقابلے میں تیز ہونے کی جگہ اور مدھم ہی ہوتی جاتی تھی۔ یہاں تک کہ وہ دور آیا جب اورنگ زیب کی عالمگیری بہادر شاہ ظفرؔ کی قلعہ گیری تک محدود ہوگئی اور آفتابِ عالمتاب (۱۰۲۸ھ) کی جگہ صرف چراغ دہلی (۱۲۵۳ھ) باقی رہ گیا۔ اور پھر غدر کے بعد دہلی کا یہ چراغ رنگون بھیج دیا گیا جہاں ۱۲۷۹ھ میں بادِمخالف کی تاب نہ لاکر یہ بھی ہمیشہ کے لیے بجھ گیا۔

    خیر یہ تو تھا چراغ دہلی کا عبرتناک انجام۔ لیکن فی الحال ہمیں اس سے سروکار نہیں بلکہ ان شمع ہائے شبستانِ نحوست کے دھندلکوں کا جائزہ لینا ہے جو آفتابِ عالمتاب کے غروب کے بعد روشن ہوئیں بلکہ کی گئیں اور ان دیوں کا ذکر کرنا ہے جن کی مدھم روشنی میں بے شمار سایے بھوتوں کی طرح ناچتے ہوئے نظر آتے تھے۔ اور جن کا ذکر میرؔ اپنے شعر میں کر رہے ہیں یعنی ’’چور، اُچکے، سکھ، مرہٹے۔‘‘ وغیرہ وغیرہ۔

    اورنگ زیب کے انتقال کے بعد ۱۱۱۸ھ (۱۷۰۷ء) تخت و تاج کے لیے شہزادوں میں خانہ جنگی شروع ہوئی۔

    ازاں اعظم و زیں سوئے معظم

    جھڑا جھڑو دھڑا دھڑ ہر دو پایم

    بہ بینم تا خدا از کیست راضی

    بخواند خطبہ برنامے کہ قاضی

    (جعفر)

    محمد معظم کو شکست ہوئی اور اسی سال قاضی وقت نے شاہ عالم بہادر شاہ یعنی محمداعظم کے نام کا خطبہ پڑھا۔ ابھی عالمگیری دبدبے کا اثر تھوڑا بہت باقی تھا اس لیے چھوٹی موٹی شورشوں کے علاوہ جنہیں بآسانی دبادیا گیا کسی شاندار معرے کا اول تو سوال ہی پیدا نہ ہوا اور دوسرے ہوا بھی تو ٹکرانے کی سکت کس میں باقی تھی۔ ۱۷۱۲ء میں محمد اعظم کا انتقال ہوا اور ایک مرتبہ پھر زوال پذیر سلطنتِ مغلیہ کی دیرینہ روایات تازہ ہوگئیں۔ یعنی شہزادوں میں شکست و خون شروع ہوگیا۔ جہاندار شاہ (معزالدین) اپنے بھائیوں خصوصاً عظیم الشان والئ بنگال سے نبردآزما ہوا اور امیر الامراء سید ذوالفقار خاں کی مدد سے تخت نشین ہوا۔ کچھ مدت بعد سلطنت کی باگ ڈور سیدوں کے ہاتھ میں آگئی اور بادشاہ ان کے ہاتھ میں کٹھ پتلی کی طرح ناچنے پر مجبور ہوگیا۔ اس پر طرہ یہ ہوا کہ لال کنور نامی طوائف سلطنتِ مغلیہ کے اسٹیج پر رقص کرنے لگی۔ اس نے بادشاہ کو وہ تگنی کا ناچ نچایا کہ مغلیہ دانش و تدبر کا ستارہ بھی گردش میں آگیا۔ پوری مملکت میں اندھیرا چھاچکا تھا۔ عقل و خرد کی روشنی زائل ہو تو اندھیرا کیسے دور ہو۔ اس لیے بادشاہ نے تیل کے دیے روشن کروائے۔ جہاندار شاہ کا شوقِ چراغاں اتنا بڑھا کہ دلی میں تیل نایاب ہوگیا۔ عوام کی فلاکت اور بے اطمینانی فروغ پاتی رہی۔ ۱۷۱۳ء میں سید برادران نے اس دیے ہی کو بچھا دیا۔ اب فرخ سیر کو تخت نشین کیا گیا۔ انہیں گھوڑوں کا شوق تھا۔ گھوڑے دانہ کھاتے رہے اور عوام گھاس پھوس۔ افلاس او رمعاشی بدحالی مزید رنگ لائی۔ قحط کے آثار نمودار ہوئے اور لوگ فرخ سیر کو بادشاہِ دانہ کش کا لقب دینے پرمجبور ہوئے،

    سکہ زد برگندم وموٹھ و مٹر

    بادشاہِ دانہ کش فرخ سیر

    (جعفر)

    اور ’’بادشاہِ بحر و برفرخ سیر‘‘ کا فریب عوامی آواز کو زیادہ مدت تک نہ دبا سکا۔ آہستہ آہستہ ذوالفقار خاں جیسے نامور اور مدبر امیر جن کے لیے ناصر سرہندی نے اپنا مشہور قصیدہ لکھا تھا،

    اے شانِ حیدری زجبینِ تو آشکار

    نامِ تو در نبر دکن کارِ ذوالفقار

    یا سازشوں کے ماحول میں خود بھی اسی رنگ میں رنگے جاتے رہے یا ناپید ہوتے رہے۔ نظامِ حکومت عوام کی آرزوؤں اور خواہشات سے ہم آہنگ ہونے کی جگہ انہیں بہ جبر حسرت و یاس میں تبدیل کرتا رہا۔ عمالِ حکومت چور اور اچکے تھے۔ نظم و نسق کی گرفت ڈھیلی پڑی تو فتنوں نے سراٹھایا۔ فرخ سیر کے عہد میں سیاسی ابتری سے فائدہ اٹھاکر مرہٹوں اور سکھوں کو بھی غارت گری کے خاطر خواہ مواقع ملے۔

    اس زمانے میں ان کے مظالم اتنے بڑھے کہ ہندومسلمان سب ان کی بیخ کنی کے طالب ہوگئے۔ جنوبی ہند تک تو فرخ سیر کے گھوڑے نہ دوڑ سکتے تھے لیکن لاہور بہرحال دور نہ تھا۔ ۲۲/فروری ۱۷۱۳ء کو عبدالصمد خاں کو لاہور کا گورنر بنایا گیا۔ اسی زمانے میں سکھوں نے اپنے گرو بندہ کی سرکردگی میں قتل و غارت کا بازار گرم کیا۔ مسلمان اور ہندو عوام پر بے انتہا مظالم توڑے۔ ہندوؤں پر اس لیے کہ اپنے لوٹ مار کے ذوق کی تسکین مقصود تھی لیکن مسلمانوں پر اس لیے کہ ان کے اقتدار سے نفرت تھی اس لیے اصل ہدفِ ستم تو مسلمان ہی تھے۔ بہرحال جان و مال اور عزت و آبرو کچھ بھی سکھوں کی چیرہ دستیوں سے محفوظ نہ تھا۔ ان کی بربریت اور سفاکی روز بروز شرمناک تر ہوتی گئی۔ آخر ۱۷/دسمبر ۱۷۱۵ء کو گورداس پور کو فتح کیا گیا اور گروبندہ کو گرفتار کرکے ۷۴۰ دوسرے سکھ قیدیوں کے ساتھ ۱۰/مارچ ۱۷۱۶ء کو دہلی لایا گیا اور ۱۹/جون ۱۷۱۶ء کو اسے بیدردی سے قتل کر دیا گیا۔ خوشی کی لہر دوڑ گئی اور وزیر خاں، جلال خاں اور عبدالصمد کی خدمات کو سراہا گیا۔

    وزیر خالی زہے غازی لگائی سیس کی بازی

    گرو کا گھر کیا ماضی جگت غازی کہا یا ہے

    جو عبدالصمد غازی نے لیا ہے گھیر کافر کو

    پکڑ بیگار کاریگر سکھوں کا سرمنڈایا ہے

    جپے نس دن بہت مالا کبھی بوڑھا کبھی بالا

    عجب شیطان کا سالا نیا مذہب بنایا ہے

    غم و غصہ میں گرونانک جیسے صلح جو کو بھی نہیں بخشا گیا،

    گوبرگنیش دردلی گرونانک چہ پشملی؟

    کبھو تلی کبھو بلی شہر کو لوٹ کھایا ہے

    (جعفر)

    یہ عوامی آواز دراصل ان مصائب کا ردِّعمل تھی جن کا عوام کو شکار ہونا پڑا اور دراصل ان جگر خراش چیخوں کی صدائے بازگشت تھی جو وحشیانہ مظالم کے نتیجے میں فضا میں عبرتناک ارتعاش پیدا کر رہی تھیں۔ ایسی درشت کلامی کے پس منظر کو نگاہ میں رکھیے تو جعفر جیسے عوامی شعراء کو معذور قرار دیا جاسکتا ہے۔ جب سکھ تحریک خالصتاً مذہبی تحریک تھی مسلمان حکمرانوں نے نہ صرف اسے پھلنے پھولنے کاموقعہ دیا بلکہ اس کی اعانت بھی کی لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ کوئی بھی مذہبی تحریک طاقت پانے کے بعد زیادہ مدت تک صرف مذہبی تحریک نہیں رہ سکی بلکہ جلد یا بدیر اس کی حیثیت ایک سیاسی تحریک کی سی ہو کر رہی۔ ہندوستان میں مذہب اور سیاست ہمیشہ سے دوش بدوش چلے ہیں۔ مذہبی عبادت گاہیں سیاسی مراکز کی حیثیت بھی رکھتی ہیں۔ بہرحال یہی سیاسی تحریک طاقت کے نشے میں تشدد اور انتہا پسندی کی طرف رجوع کرتی ہے تو گڑبڑ شروع ہوتی ہے۔

    ’’تیغ بہادر (۱۶۶۴ء۔ ۱۶۷۵ء) نے کشمیر کے ہندوؤں میں بغاوت پھیلانا شروع کی تو اورنگ زیب نے اسے قتل کرادیا۔‘‘

    ’’۱۶۷۶ء میں جب بادشاہ مسجد سے نکلے تو ایک سکھ نے ان پہ اینٹیں پھینکیں۔‘‘ مآثر عالمگیری ص۱۵۴

    اورنگ رنگ کے انتقال کے بعد ان کے مظالم کا یہ عالم ہوا کہ،

    ’’زن ہائے حاملہ راشکم دریدہ و جنین راکشیدہ می کشتند۔‘‘ (سیرالمتاخرین، ص۴۰۲)

    ۱۷۱۰ء میں جب سکھوں نے سرہند پر حملہ کیا تو بہت سے مسلمانوں نے بھیس بدل کر ہندوؤں کے گھروں میں پناہ لی۔ ان کے تعصب کا یہ عالم تھا کہ وہ مزارات کے بے حرمتی سے بھی باز نہیں رہے۔ شاہ خمیص قادری کا مزار خود ان کی اولاد سے کھدوایا گیا۔ سہارنپور میں عورتیں سکھوں کے ڈر سے کنوؤں میں ڈوب کر مرگئیں۔ اس زمانے میں سکھوں کے مظالم کتنے شرمناک تھے ہمیں اس سے بحث نہیں بلکہ اس درشت کلامی کا پس منطر دیکھنا تھا جو ایسے اشعار میں موجود ہے جس کا نمونہ مندرجہ بالا اشعار ہیں،

    گزشتہ عہدِ عالمگیر اعظم شاہ آیا ہے

    بہادر شاہ غازی نے پلک میں بل مٹایا ہے

    پھر بھی یہ ضرور ہے کہ زوال و انحطاط کی فضا میں سکھ باوجود ایک طاقتور قوم ہونے کے اس قابل نہیں رہ گئے تھے کہ مغلوں کے جانشین بن سکتے اور کچھ زمانہ گزرا تو میرؔ کو بھی ان کے روپ میں چور، اچکے اور لٹیرے ہی نظر آئے۔ وہ دوسری طاقتور قوم مرہٹوں کی تھی، وہ بھی خود غرض لٹیروں کے سوا کچھ اور نہ تھے۔

    ۱۶۶۳ء میں مرہٹوں کی غارت گری اپنے کمال پر پہنچ چکی تھی۔ اس وقت سیواجی ان کا سرغنہ تھا۔ ۱۶۸۳ء تک اورنگ زیب نے طرح دی اور خود تصادم سے گریز کرکے اپنے امراء اور سرداروں کے ذریعہ ان کی سرکوبی کرنا چاہی لیکن یہ فتنہ دبائے نہ دبا تو ۱۷۰۰ء سے ۱۷۰۲ء تک اس نے خود بہ نفسِ نفیس مہم کو اپنے ہاتھ میں لے کر مرہٹوں کا قلع قمع کیا۔ نیز بیجاپور اور گولکنڈہ کو تسخیر کرکے ان کے پشت پناہوں کی گوشمالی بھی کردی۔ ابوالحسن تاناشاہ اور اس کے وزراء اوتا اور اکنا کی بھی خبر لی گئی لیکن اس کی آنکھیں بند ہوتے ہی فتنوں کو تو آنکھیں کھولنی ہی تھیں۔ مرہٹے پھر جاگے۔ فرخ سیر کے عہد میں انہوں نے اتنا زور پکڑا کہ سید حسین علی نے دکن میں مرہٹوں کو اپنا طرفدار بنانے کے لیے بالاجی وشواناتھ کو تمام دکن سے چوتھ اور سردیش مکھی وصول کرنے کا حق دے دیا۔ فرخ سیر نے اس حق کو تسلیم کرنے سے انکار کیا تو حسین علی فروری ۱۷۱۹ء میں انہیں مرہٹوں کی فوج ساتھ لے کر دہلی پر حملہ آور ہوا۔ مرہٹوں کو لوٹ مار کا اس سے بہتر موقع کب ہاتھ آتا۔ وہ بھی سکھوں کی طرح بلکہ ان سے کچھ زیادہ ہی مغلوں سے بھرے بیٹھے تھے۔ ہر طرف وحشت اور بربریت کا دور دورہ تھا۔ ان کے مظالم کی نوعیت کا اندازہ کرنے کے لیے مختلف ادوار سے متعلق ذیل کے حوالے ملاحظہ ہوں،

    ’’شاہو راجہ کے فوجی سپاہی حاملہ عورتوں اور بچوں، برہمنوں اور غریبوں کو بڑی بے دردی سے قتل کرتے تھے۔ وہ ہر طرح کے گناہ کرتے تھے اور جدھر سے گزرجاتے ایک قیامت برپاہوجاتی۔‘‘

    وینشورپالنکر بنگال کے شاعر گنگا رام نے بھی لکھا ہے کہ،

    ’’برگیوں (مرہٹوں) نے دیہاتیوں کو لوٹنا شروع کردیا۔ کچھ لوگوں کے انہوں نے ہاتھ، ناک اور کان کاٹ لیے۔ خوبصورت عورتوں کو وہ رسیوں میں باندھ کر لے گئے۔ جب ایک بے حرمتی کرچکتا تھا تو دوسرا کرتا تھا۔ عورتیں چیخیں مارتی تھیں۔ انہوں نے گھروں کو آگ لگادی اور ہر طرف لوٹ مار کرتے ہوئے گھومے۔‘‘

    (بحوالہ بہادر شاہ اور ان کا عہد)

    یہ ہندوؤں کا بیان ہے اور قومی ہمدردی کے مطابق عام طور پر ان مظالم کا ذکر ہے جو ہندوؤں پر کیے گئے اور جب اپنے ہم قوموں کے ساتھ مرہٹوں نے یہ ظلم روا رکھا تو مسلمانوں کے ساتھ انہوں نے کیا کچھ نہ کیا ہوگا۔ بالاجی وشوناتھ راؤ کے بعد اس کے بیٹے باجی راؤ (۱۷۱۰ء۔ ۱۷۴۰ء) نے مالوہ اور گجرات سے خراج وصول کیا اور بندیل کھنڈ پر قبضہ کرلیا۔

    بہرحال یہ مرہٹوں کا عالم تھا جو ہندستان کی دوسری طاقتور قوم تھی۔ ظاہر ہے مرہٹے بھی مغلوں کے جانشین بن کر ہندستانی عوام پر حکومت کرنے کے اہل نہ تھے۔ سکھوں اور مرہٹوں نے ملکی طاقت پر ہی کاری ضرب لگائی۔ مغلیہ سلطنت دم توڑ رہی تھی۔ فرخ سیر بیمار پڑا تو اس کا علاج ایک یورپین ڈاکٹر ہملٹن گبرل نے کیا۔ معاوضے میں ڈاکٹرکی خواہش کے مطابق ایسٹ انڈیا کمپنی کے محصول کی معافی اور ان کے لیے کچھ رقم سالانہ کی منظوری دے دی گئی اور انگریزوں کو قدم جمانے کاموقع ملا۔ یہی اس وقت ملک کی بیماری کا صحیح علاج بھی تھا جس کا انتظام قدرت نے کردیا۔ ہندستان کی متفرق اقوام کی خود غرض اور نفسی نفسی کے مقابلے میں میں انگریزوں کا قومی شعور، ان کی یکجہتی اور اجتماعی مفاد کا خیال صحیح معنوں میں انہیں اس کا اہل بناتا تھا کہ وہ مغلوں کے جانشین بن سکیں۔ اس وقت ان میں اولوالعزمی تھی اور ان کی اغراض اجتماعی تھیں۔ اپنوں کے ستم رسیدہ عوام انگریزوں سے ہمدردی نہ رکھتے ہوں تاہم اپنوں سے بیزرا ضرور تھے۔ اگر انگریز بھی عوام کے درد کا احساس رکھتے ہوتے تو شاید انہیں ہندستان نہ چھوڑنا پڑتا۔ لیکن اقتدار کے نشے میں وہ بربریت اور سفاکی پر اتر آئے۔ ہندستان کی دولت کی فراوانی نے بہت جلد ان کی حرص و آزکو ظلم و جبر کی حدتک بڑھادیا اور سوبرسوں بعد انہیں بھی اپنا بوریا بستر سنبھالنا پڑا۔ عوامی آواز کو نہ جیل خانوں میں بند کیا جاسکتا تھا نہ پھانسی کا تختہ اس کا دم گھونٹ سکتا تھا۔

    ان باتوں سے قطع نظر ہم پھر بادشاہِ دانہ کش یا پشہ کش یعنی فرخ سیر کی طرف لوٹتے ہیں۔ فرخ سیر عوام کے دیے گئے ان خطابات کا اہل ثابت ہوچکا تھا لیکن ہر طرف سے ناامید عوام پھر بھی اس سے بہبودی کی توقعات وابستہ کیے ہوئے تھے۔ عوام کی صدیوں کی بادشاہ پرستی بہرحال بادشاہت کاخاتمہ نہ چاہتی تھی۔ پیاسوں کے لیے سراب بھی غنیمت ہے۔ کم از کم جینے کی امنگ تو باقی رہتی ہے مگر فرخ سیر کو ۱۱۳۱ھ (۱۷۱۹ء) میں قتل کردیا گیا اور ایسی سفاکی اور درندگی سے قتل کیا گیا کہ بدنصیب عوام خود اپنے مصائب کو یاد کرکے لرز اٹھے۔ انہوں نے سوچا کہ جب بادشاہوں کایہ انجام ہوسکتا ہے تو ان کا انجام کیا ہوگا۔ بے یقینی کی زندگی اور بے ثباتی کی بے رخی نے عوامی شعور میں ایک تڑپ پیدا کی اور بیدلؔ بھی جو سیدؔ حسین علی خاں کے حلقہ بگوش تھے چلااٹھے،

    دیدی کہ چہ بادشاہ گرامی کردند

    صد جورو جفاز راہِ و غامی کردند

    تاریخ چو از خرد بجستم فرمود

    سادات بوئے نمک حرامی کردند

    یہ اور بات ہے کہ حسین علی خاں کے خوف سے بیدلؔ کو جان بچاکر بھاگنا بھی پڑا مگر عوامی آواز دبائے نہ دب سکی۔ اقتدار کی کشمکش نے میدانِ سیاست کو خودغرضی کے گردوغبار سے اٹ دیا تھا۔ بڑے بڑے نامور امراء اور اکابرسلطنت کی آنکھیں دھندلاگئی تھیں۔ سید حسین علی خاں اور سید عبداللہ بھی حرص و ہوس میں اندھے ہوگئے۔ اب تک مرہٹے دلی کی طرف آنکھ اٹھاکر بھی نہ دیکھ سکتے تھے اور آج حسین علی خان کی سرکردگی میں وہ دلی کی گلیوں میں قتل و غارت گری سے خاک اڑا رہے تھے۔ جب کوئی سہارا نہ رہا تو بدنصیب عوام نے کتوں کی موت پر لڑمرنے کو ترجیح دی۔

    ’’بازار کے بچوں اور تماشائیوں اور بے روزگار مغلوں نے خبردار ہوکر تلواریں ہاتھ میں لیں اور ہر طرف سے مرہٹوں کو مارتے۔‘‘ (ذکاء اللہ۔ تاریخ ہند جلد نہم)

    ’’اس سلسلے میں عوام نے مرہٹوں پر ہلہ بول دیا۔ ان کے پندرہ سو آدمی مارے گئے۔ مقتولین میں پرسوجی بھونسلے کا بیٹا سنتاجی بھوسلہ اور بالاجی مہادیو بھی تھے۔‘‘

    بزدلی او رظلم لازم و ملزوم ہیں۔ عوام نے مرہٹوں کی خاص درگت بنائی لیکن ایک فوجِ ظفر موج کا مقابلہ کب تک کرسکتے تھے اور اب جو مرہٹوں کو موقع ملا تو دلی کی گلیوں میں ان کی بزدلی نے اسی شدت کے ساتھ ظلم کا مظاہرہ شروع کیا۔ منشی انند رام مخلصؔ کی زبان سے سنئے،

    بردلِ ماتیرہ روزاں صیف مژگانِ گذشت

    آنچہ از فوجِ وطن برملکِ ہندستان گذشت

    درچمن بر برگ گلہا نگزرد صبح از نسیم

    برگریباں آنچہ از وستم شبِ و ہجراں گزشت

    بربریت نے جی بھر کر ارمان نکالے۔ عوام سے ہٹ کر ذرا خود بادشاہ کی حالت دیکھیے۔ رکن الدولہ اعتماد خاں یعنی محمد مراد بخش کاشمیری، سربلند خاں اور نظام الملک آصف جاہ لڑنے کے لیے سرپٹخ کر رہ گئے مگر فرخ سیر کا تذبذب دور نہ ہوا اور اس نے مقابلے کی اجازت نہ دی اور جب سید برادران قلعے میں داخل ہوئے تو انہوں نے بادشاہ کو حرم سے کھینچ کر باہر نکالا۔ اس کی آنکھوں میں سلائی بھروائی گئی اور پھر ایک چھوٹی سی کوٹھڑی میں بند کردیا گیا۔ ابھی تو آنکھوں کا نور ہی چھینا تھا کچھ دن بعد زہر دے کر زندگی بھی چھین لی۔

    فرخ سیر کے قتل کے بعد سات ماہ کی مدت میں سیدوں نے یکے بعد دیگرے دو باشاہ تخت پر بٹھائے۔ رفیع الدرجات اور رفیع الدولہ لیکن اتفاق سے دونوں اسی سال مختلف بیماریوں میں مرگئے۔ یہ دیے بجھے تو امراء نے آگرے میں تخت کے ایک اور دعویدار نیکو سید کو تحت پر بٹھایا لیکن سید حسین علی خاں نے انھیں شکست دے کر قتل کردیا۔ سیاسی حالات آئے دن بد سے بدتر ہوتے جارہے تھے۔ دیوں سے ناامید ہوکر سیدوں نے ایک ستارے کی طرف نہ دیکھا۔ اب کے وہ غلطی کر گئے۔ ۱۱۳۱ھ میں روشن اختر محمد شاہ کو تخت نشین کیا۔ ۱۷

    سالہ محمد شاہ رنگیلے پر رقاصہ فلک کے رنگین اثرات جب رنگ لائے تو کوکہ جی خادمہ، روشن الدولہ خواجہ سرا اور عبدالغفور شاہ جی جیسے نچلے درجے کے لوگوں نے انہیں انگلیوں پر نچانا شروع کیا۔ جاگیرداری کی پروردہ مخصوص قسم کی طبقاتی کشمکش اور نسلی امتیازات اپنے پورے شباب پر تھے۔ امراء بھلا کیونکر برداشت کرسکتے تھے۔ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لیے بغض و حسد کا شکار ہوئے۔ سازشوں اور لوٹ کھسوٹ کی گرم بازاری ہوئی۔ اِدھر محل میں طبلوں پر تھاپ پڑ رہی تھی اور اُدھر خوف و ہراس سے عوام کے دل دھڑک رہے تھے۔ بے بسی کی سسکیوں کے کے سرگم پر قہقہوں کی تانیں اڑائی جارہی تھیں۔ سید برادران نے بھی خوب کھل کھیلے۔ محمد شاہ کی غفلت نے ان کی چیرہ دستیوں کے حوصلے ذرا اور بلند کردیے۔ عوام کے آنسو بیگمات اور رقاصاؤں کے پرتکلف لباسوں میں موتی بن کر چمکتے رہے۔ ان کا خون شبستانِ عشرت میں مئے گلرنگ بن کر کیف و مستی کے سامان پیدا کرتا رہا لیکن کسی نے خبر نہ لی۔ عوامی آواز سادات کے خلاف تھی۔ لب نہ ہل سکے لیکن دلوں میں انتقام اور نفرت کے شعلے بھڑک رہے تھے۔ عوامی درد کی یہی کسک تھی جس کا احساس سب سے پہلے محمد شاہ کی ماں کو ہوا اور اس نے محمد شاہ کو خوابِ غفلت سے چونکایا۔ ۱۱۳۲ھ (۱۷۱۹ء) میں دکن کے بندوبست کے سلسلے میں سید حسین علی خان کو لے کر روانہ ہوا۔ فتح پور سیکری سے ۳۵ کوس پر میر حیدربیگ کا شغری کو عرضی دینے کے بہانے سید حسین علی کے پاس بھیجا گیا۔ اس نے پہلو میں خنجر بھونک دیا۔ پھر گرفتار کرکے زہر دے دیا گیا۔ دوسرے بھائی سید عبداللہ نے دلی کے تخت پر شہزادہ ابراہیم کو بٹھادیا۔ اس کا سکہ بھی مضروب ہوگیا لیکن یہ کھوٹا سکہ نہ چل سکا۔ متھرا کے شمال میں محمد شاہ سے جنگ ہوئی۔ سید عبداللہ مارا گیا اور ایک ماہ بعد ابراہیم کا بھی انتقال ہوگیا۔

    عوام میں خوشی کی ایک لہر دور گئی لیکن ایسے لوگ بھی تھے جو سید حسین علی خاں کے مداح تھے۔ ذاتی تعلقات نے اس کا موت پر ماتم بھی کیا۔ سید عبداجلیل بلگرامی اس سے بڑی عقیدت رکھتے تھے۔ انہوں نے مرثیہ لکھا،

    آثارِ کربلا ست عیاں از جبیں ہند

    زوجوش خونِ آلِ نبی از زمینِ ہند

    شد ماتمِ حسین علی تازہ درجہاں

    سادات گشتہ اند مصیبت نشینِ ہند

    نیلی ست زیں معاملہ پیراہنِ عرب

    وزخونِ گرید سرخ شد است آستینِ ہند

    گیتی چرا سیاہ نہ گرود زدودِ غم

    خاموش شد چراغِ نشاط آفرینِ ہند

    ہند ایں چنیں مصیبت عظمیٰ ندیدہ است

    عدیم داستانِ شہور و سنینِ ہند

    ازداغِ دل زوند چراغانِ اشبک جوش

    ایں است نوبہارِ گلِ آتشینِ ہند

    ماہی در آب می طپد و مرغ در ہوا

    از شیونِ عظیم اسیرِ مہینِ ہند

    ہنداز شہادتش تنِ بے روح گشتہ است

    یعنی کہ بود او نفسِ واپسینِ ہند

    عالم چوتیرہ در نظر خلق شد سیاہ

    افتاد تاز خاتم دہرآں نگینِ ہند

    دل چاک چاک گشت جگر داغ داغ شد

    زیں غم کہ گشت زہر ازو انگبینِ ہند

    رستم نشاں حسین علی خاں شہید شد

    از خنجرے کہ بود نہاں در مکینِ ہند

    آں صفدرے کہ از قلمِ تیغ بارہا

    تحریر کردہ نسخۂ فتحِ مبینِ ہند

    از دستِ ابنِ بلجمِ ثانی شہید شد

    گوئی زکوفہ است گلی ماتمینِ ہند

    تاکر بلا وتانجف و تامدینہ رفت

    سیلابِ خون دیدہ و آہِ انین ہند

    اے دوستانِ آل و محبانِ اہل بیت

    غمگیں شوید بہرِ حسینِ حزینِ ہند

    تاحقِ اہلِ بیتِ رسالت اداشود

    بررغم ایں جماعت منصوبہ بین ہند

    سالِ شہادتش زقلم واسطی نوشت

    قتلِ حسین کردیزیدِ لعینِ ہند

    امیرالامراء حسین علی خاں بلاشبہ ایک بہادر اور فیاض سردار تھے لیکن اقتدار کی ہوس اور قوت کے نشے نے سخاوت، رحم اور عدل کو تباہ کردیا۔ ان کی دانشمندی اور تدبر نے تعمیر سے بے نیاز ہوکر تخریب ہی پر پوری توجہ منعطف کی اور انجام کار خود ان کی اپنی تباہی کے سامان پیدا کیے۔ ان کی سیادت اور سخاوت نے متوسلین کو عقیدت مند ضرور بنایا لیکن عوامی رجحان اس کے برعکس تھا۔ اضمحلال اور کسمپرسی کی زندگی تغیر کی خواہاں تھی۔ حیدربیگ، جلیل بلگرامی کی نگاہ میں ابنِ ملجم ہی رہا ہو لیکن عوام اسے اپنا نجات دہندہ ہی سمجھتے تھے۔

    بہرکیف امیرالامراء کا کردار دراصل اس سازشی ماحول کے قریب قریب تمام امیروں اور سرداروں کی نمائندگی کرتا ہے۔ محمد شاہ نے سادات کی گرفت سے نکل کر اطمینان کا سانس لیا لیکن سازشوں کے اس ماحول میں فراغت کہاں۔ سید حسین علی نہ رہے تو دوسرے پیدا ہوگئے۔ ایک فردہی مٹا تھا جماعت تو باقی تھی۔ وقت کو غنیمت سمجھتے ہوئے محمد شاہ رنگیلے نے رنگ رلیاں منانا شروع کیں۔ دلی کے شاہی محلات پر بہار آئی ہوئی تھی۔ ہر روز روزِ عید تھا ہر شب شبِ برات، اور جب صلائے عام ہو یارانِ نکتہ داں کے لیے تو دور دراز علاقوں کے صوبہ دار بھی اپنے صوبوں میں اپنے فرائض سے منہ موڑ کر بادشاہ کی محفلوں میں دادِعیش دینے کے لیے کیوں نہ جمع ہوجاتے؟ دربار میں بہت سے اکابر کا جمع ہوجانا جن میں سے ہر شخص فلاں ابنِ فلاں اور اپنی نگاہ میں دوسروں سے بہتر تھا، قیامت ہوا۔ پھر بادشاہ کی عیش کوشی کی پروردہ غفلت نے سازشوں اور رقابتوں کو پھلنے پھولنے کے حسبِ دلخواہ مواقع بھی دیے۔ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے احساس اور کوششوں نے دشمنوں کو ہوادی۔ دربار میں سازشوں کا دور دورہ تھا۔ بازار میں سوائے عصمتوں کے ہر جنس گراں تھی۔ محلات میں رقص و موسیقی اور عیش و نشاط کی فراوانی تھی۔ سلطنتِ مغلیہ طاؤس ورباب کے دور سے گزر رہی تھی۔ فنونِ لطیفہ کا ضرورت سے زیادہ پرچار ہوا۔ موسیقی پر بہت سی کتابیں لکھی گئیں۔ محمد شاہ خود شاعر بھی تھا اور موسیقی میں خصوصی درک رکھتا تھا۔ خود کو رنگیلا کہلواناپسند کرتا تھا جیسا کہ اس کی ٹھمریوں سے بھی ظاہر ہے،

    ’’جانے نہ دسیوں گگری بھرن کو صدا رنگیلے ٹھارونٹ پر

    بوند بوند چاروں اور گھٹا چھائی بجری چمکت ہے

    سدا رنگیلے محمد شاہ برس سے مینہا بوند بوند چاروں اور۔‘‘

    (بحوالہ دلّی کا دبستانِ شاعری)

    ’’بارہ ماسہ اور بگٹٹ کہانی‘‘ بھی محمد شاہ سے منسوب کی جاتی ہیں۔ شعر بھی بڑے رنگیلے کہتا تھا،

    خوف سے مار کے یاراں اسے لرزاں نہ کرو

    زلف کا نام نہ لو اور پریشاں نہ کرو

    مگر یہ رسمی باتیں ہیں ورنہ محمد شاہ پریشان ہونا جانتا ہی نہ تھا۔ نیند اس کی تھی، دماغ اس کا تھا، راتیں اس کی تھیں اور کیوں نہ ہوتیں جب کہ نہ جانے کتنی زلفیں تھیں جو اس کے شانوں پر پریشاں ہوگئیں۔ وہ عیش کر رہا تھا، امراء سازشیں کر رہے تھے اور عوام اپنی تقدیر کا ماتم۔

    سیدوں کے ابھارنے پر مرہٹوں نے مالوہ اور گجرات کو لوٹا اور دوآبہ، آگرہ اور دلّی تک ہاتھ صاف کیے۔ سیدوں نے بھرت پور کے جاٹوں کو بھی ابھارا تھا۔ انہوں نے اس علاقے پر قبضہ جمالیا۔ سیدوں کا زور ختم کرنے میں سعادت خان برہان الملک اور نظام الملک نے کارہائے نمایاں انجام دیے تھے۔ ۱۱۳۳ھ (۱۷۲۰ء) میں برہان الملک کو پنج ہزاری منصب اور اکبر آبادی کی صوبہ داری ملی۔ دربار میں حاسدوں کی سازشوں نے ان کی بہادری کو سراہا اور اب وہ اودھ بھیجے گئے کہ شیوخ کے فتنے کو ختم کریں۔ منشاء یہ تھا کہ شیوخ کی طاقت برہان الملک کی تباہی کا باعث ہوگی، مگر ایسا نہ ہوا۔ دلّی کی کمزوری سے فائدہ اٹھاکر برہان الملک نے اودھ پر قبضہ جمالیا۔ نام کو نواب وزیر تھے عملی طور پر قریب قریب خود مختار تھے۔ نظام الملک دکن بھیجے گئے جہاں انہوں نے ۱۱۳۴ھ سے اپنی خودمختاری کی کوشش شروع کردی اور ۱۱۳۶ھ میں دولتِ آصفیہ خود مختار تسلیم کرلی گئی۔ بنگال، اڑیسہ وغیرہ بھی خود مختار ہوگئے۔ چھوٹے چھوٹے علاقوں کے حاکم بھی یکے بعد دیگرے خود مختار ہوتے رہے۔ روہیل کھنڈ کے علاقے پر روہیلوں نے قبضہ جمایا اور فرخ آباد کے علاقے پربنگش خاندان کا تسلط ہوا۔ دیکھتے ہی دیکھتے مملکتِ ہند کے بائیس صوبوں میں چند بھی باقی نہ رہے جو تھے وہ بھی صرف برائے نام دلّی کے زیر نگیں تھے۔

    ۱۷۳۷ء میں دکن سے نظام الملک کو انتظام اور بندوبست کے لیے بلوایا گیا۔ بادشاہ، خان دوران خان کی مٹھی میں تھا، نظام الملک کو کیونکر برداشت کیا جاسکتا تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ انہیں اپنا سا منہ لے کر واپس آنا پڑا لیکن رشک و رقابت نے جوش مارا تو جاتے جاتے مرہٹوں کو شہ دے دی اور وہ دلّی پر چڑھ دوڑے۔ پہلے سید حسین علی خاں کی مہربانی سے مرہٹوں کو یہ جرأت ہوئی تھی، اب نظام الملک کی عنایت ہوئی اور دونوں سلطنتِ دلّی کے رکنِ رکین کی حیثیت رکھتے تھے۔ بالاجی وشوناتھ کاانتقال ہوچکا تھا، اس کا بیٹا باجی راؤ پیشوا مسند نشین تھا۔ مرہٹے انتربید، یعنی دوآبہ گنگ و جمن کو اپنی عنایاتِ چنگیزی سے سرفراز کرتے ہوئے دلّی کے قریب آدھمکے تو لڑنے کی سکت کس میں تھی۔ برہان الملک نے حسبِ دستور انہیں کچھ دے دلاکر رخصت کیا۔ برہان الملک پھر اودھ پہنچے،

    نواب محمد امین یافت

    تشریف اودھ بقدر افزوں

    گنقش ملک از سربشارت

    تشریف اودھ بود ہمایوں

    (۱۱۵۰ھ)

    اور نظام الملک دکن پہنچے،

    صد شکر کہ ذات دیں پناہی آمد

    رونق دہ ملکِ بادشاہی آمد

    تاریخ رسید نش بہ گوشم ہاتف

    گفت آیتِ رحمتِ الہیٰ آمد

    (۱۱۵۰ھ)

    اسی زمانے میں سوداؔ محمد شاہی امیر خواجہ سرا بسنت خاں کی مدح میں مصروف تھے،

    جو کچھ کہا ہے تونے یہ تجھ کو سب مبارک

    میں اور میرے سر پر میرا بسنت خاں ہو

    کس واسطے کہ مجھ کو اتنا ہی چاہیے ہے

    جامہ ہو ایک تن پر، کھانے کو نیم ناں ہو

    بادشاہ بھی حکومت سے بے نیاز عیش و نشاط میں مشغول تھا کہ عین کرپال میں غلیلہ لگا۔ یعنی ۱۱۵۱ھ (۱۷۳۸ء) میں نادرشاہ آدھمکا۔ محمد شاہ ’’ہنوز دلّی دور است‘‘ کے فریب میں مبتلا نادرشاہ کی مصالحت پسندی کو ’غرقِ مئے ناب اولیٰ‘ کر رہا تھا کہ عوام واویلا کرنے لگے کہ ’’شامتِ اعمالِ ماصورتِ نادرگرفت‘‘ محمد شاہ نے دولاکھ کی فوج سے مقابلہ کیا لیکن ان دولاکھ میں شاید دوہزار کی اغراض بھی تو اجتماعی نہ رہی ہوں گی۔ تلواروں میں چمک ضرور تھی لیکن کاٹ دلوں میں تھی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ نادری فوج بلاتکلف دلّی میں درآئی۔ نادری سپاہی بڑے وقار اور نظم و ضبط کے ساتھ شہر میں داخل ہوئے۔ ارادہ تھا ظلم و جبر کی جگہ مصالحت سے دلّی کی دولت لوٹی جائے کہ اس میں زیادہ فائدے کی توقع تھی۔ تھکے ہوئے سپاہی یوں بھی اب آرام کرنا چاہتے تھے مگر وہ ابھی کمریں ہی کھول رہے تھے کہ بھنگڑ خانے سے کب کی ایک چنگاری اٹھی اور نادری قہر کے بارود کو اڑاگئی۔ عوام کا نادری سپاہ پر حملہ کرنا تھا کہ صبح آٹھ بجے سنہری مسجد کی سیڑھیوں پر نادری تلوار چمکی۔ اب اہل دلّی کے خرمنِ عافیت پر بجلی گرپڑی۔ شام کے تین بجے تک اہل دہلی کا قتل عام ہوتا رہا۔ امیر و غریب میں کوئی امتیاز نہ تھا۔ دلّی کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی۔ جوان، بوڑھے، عورت اور بچے میں کوئی تمیز نہ تھی۔ کہاں دلّی کی یہ شان کہ،

    ’’دریں ایام کہ درنہایت کیفیت و لطافت کہ ہر کوچہ اش چوں زلف بنفشہ مویاں دل آویز وہر محلہ اش بہ رنگ نفس بلبلاں شورانگیز معمور گردیدہ۔‘‘

    (وقائع آنند رام مخلص حصہ دوم)

    اور کہاں یہ حال ہوا کہ

    ’’صبحدم کہ عبارت ازیازدہم ذی الحجہ از موقف جلال شاہی حکم قتلِ عام شدقیامتے قائم گروید دریک آنِ واحد کارجہاں تمام شد۔ سرتا سرآراستہ از چاندی چوک و کٹرہ بازار و دریبہ گردوپیش جامع مسجد از بسکہ آتش کشید ند بہ خاکِ سیاہ برابر گشت و برسکنہ اش از قتل و غارت عام کہ قلم بہ تیغ کشتند، چگویم کہ چہ قیامت گذشت اکثر جاہا بہ رسم ہندوستان جو ہر واقع گروید درربیش ثرمواقع کار زار خودداری گزشتہ بہ سرحد خودکشی کشید قشون، قرلباش و ستِ تسلط استبلا بہ کشت و خوں کشادند دانواع اقمشہ و جواہر والالی و اقسامِ ظروف و نقرہ وتخوش خادت ساختہ وار یغما دارند۔۔۔ تادوپہر روزگار ہنگامۂ قتل گرم بود۔ بہ ہرکس از قتل و غارت و برباد رفتن عرض و ناموس ہرچہ گزشت تاروزگار طویل کوچہ ہائے مشہر کہ از کوچہ باغ ہاپائے کمی نداشت مردہ زار برود شہر دشت آتش کشیدہ برابر خاک گرویدہ درنظر یای نمود۔‘‘

    (رائے ٹیک چند بہارؔ۔ بحوالہ وقایع انندرام حصہ دوم)

    کوچہ وبازار ویران ہوگئے۔ نالیوں میں پانی کی جگہ خون بہتا تھا۔ ہر طرف بے بسی کی لرزتی چیخیں تھیں، بدنصیب ہندستان قضا کو خون کے آنسو رلارہا تھا۔ مگر مقتل میں شادیانے بھی بجائے گئے۔ نادرشاہ نے اپنے بیٹے کی شادی عالمگیر کی ایک پوتی سے رچائی۔ ستر کروڑ کا سامان سمیٹا اور تخت و طاؤس لے کر واپس ہوا۔ یہ تو سرکاری حساب تھا۔ عوام کا سب کچھ اس کے علاوہ لوٹا گیا۔ دلّی میں اگر کچھ باقی بھی بچا تو وہ مغلیہ سلطنت اور عوام کے آنسو تھے،

    جس جاخس وخار کے اب ڈھیر لگے ہیں

    واں ہم نے انہی آنکھوں سے دیکھی ہیں بہاریں

    یاقافلہ درقافلہ ان رستوں میں تھے لوگ

    یا ایسے گئے یاں سے کہ پھر کھوج نہ پایا

    میرؔ ۱۱۳۵ھ میں پیدا ہوئے تھے اور ایسے اشعار کہتے وقت بلاشبہ ان کے ذہن میں ماضی کی یہ تلخ یادیں موجود رہی ہوں گی۔

    نادری قہر شاید نہ ٹوٹتا اگر سلطنت کے دوسرے رکنِ رکین سعادت خان برہان الملک نے نادرشاہ سے مل کر یہ موقع نہ دیا ہوتا۔ برہان الملک کی غداری نے عوامی خون سے ہولی کھیلی اور قومی عظمت کا سرنگوں کیا۔ یہ سازش بے نقاب ہوئی تو محمد شاہ بھی ان سے بدظن ہوگیا وہ خود بھی شرمسار ہوکر لکھنؤ سدھارے اور کہا جاتا ہے کہ اسی شرمندگی سے ۱۱۵۱ھ (۱۷۳۹ء) میں انتقال ہوا لیکن اب کیا ہوسکتا تھا۔ دلّی لٹنی تھی سو لٹ چکی۔ خون تھا سو بہ چکا۔ اب برہان الملک کے بھانجے اور داماد نواب منصور علی خاں صفدر جنگ نے وزارتِ اودھ کا قلمدان سنبھالا۔ انہی کے بیٹے نواب شجاع الدولہ تھے جو ۱۱۴۴ھ میں پیدا ہوئے،

    زدولت خانۂ نواب منصور

    برآمد آفتاب از مطلع نور

    (۱۱۴۴ھ)

    نواب صفدر جنگ نے نادری تاوان کے لیے اودھ سے دوکروڑ روپیہ فراہم کرکے وزارت حاصل کی تھی۔ نادری ضرب کے سلطنتِ دلّی کی رہی سہی ساکھ بھی ختم کردی اور ہر طرف مطلق العنانی اور افراتفری کا دور دورہ ہوا۔ دلّی دربار کی سازشوں کا کیا عالم تھا وہ صرف نواب امیر خان انجامؔ کے انجام سے ظاہر ہے۔ نادری حملے کے بعد الہ آباد کی صوبہ داری پر مامور تھے۔ ہفت ہزاری منصب تھا۔ محمد شاہ کے منہ لگے دوست تھے۔ بادشاہ نے دلّی بلوایا تو لکھ بھیجا کہ،

    اب یہی احسان ہے تیرا جو ہوں آزاد ہم

    پھر چمن میں جائیں کیا منہ لے کے اے صیاد ہم

    مگر صیاد کو اجل سے مفر کہاں۔ اعتماد الدولہ وزیر کے کہنے سے پھر دلّی آئے۔ ۱۱۵۶ھ (۱۷۴۳ء) کے بعد یہ عالم تھا کہ،

    ’’اس حالی دودمان کو شاہ عالم پناہ محمد شاہ سے ایسی صحبت برآ ہوئی تھی کہ رشک تھا ان سب ارکانِ دولت کو اور اعیانِ مملکت کو حسد تھا۔ بادشاہ کوایسا اپنی طرف مصرو ف کرلیا تھا کہ ایک دم کی جدائی ان کی جہاں پناہ کو شاق تھی۔ آٹھ پہر طبیعت ان کی طرف مشتاق تھی۔‘‘

    (تذکرہ گلزار ابراہیم)

    میرحسنؔ نے لکھا ہے،

    ’’نواب امیرخاں از امرائے عظام و ظرفائے عالی مقام نواب عمدۃ الملک۔ از مقربان درگاہ فردوس آرام گاہ بود۔‘‘

    اور یہی ان کا گناہ تھا۔ حاسدوں کے کلیجے پر سانپ لوٹ گئے۔ تین برس بھی گزرے نہ تھے کہ سیر المتاخرین کے مطابق ۱۱۵۹ھ (۱۷۴۶ء) میں صحنِ دولت خانہ میں بادشاہ کے اشارے پر ایک شخص نے کٹار مار کر انہیں ہلاک کردیا۔ وہ شخص بھی وہیں مارڈالا گیا۔ خواجگی کی رسم معہود یہی ہے تاکہ افشائے راز کا شبہ ہی باقی نہ رہے۔ یہ صرف انجام کاانجام نہیں ہے بلک جملہ اکابرِ سلطنت اور مقربین بارگاہ کا یہی انجام تھا۔ صدیوں کی جاگیرداری دم توڑ رہی تھی۔ سکرات کا عالم طاری ہوناناگزیر تھا۔ بزم تیموریہ میں اس سانحے کی تاریخ ۱۱۵۶ھ (۱۷۴۳ء) دی گئی ہے جو درست ہے۔

    محلات میں الف لیلوی روایات تازہ کی جارہی تھیں اور مملکت میں طوائف الملوکی فروغ پارہی تھی۔ محمد خاں جمعدار جو سادات بارہہ کی وساطت سے شاہی نوکر ہوا۔ ترقی کرتے کرتے قائم جنگ کے خطاب کے ساتھ ۱۱۴۳ھ میں صوبہ دار مالوہ بنا۔ اس کا بیٹا نواب احمد خاں بنگش صفدر جنگ کے ایماء پر بریلی کے پٹھان سردار سعد اللہ خاں سے لڑا اور مارا گیا۔ صفدر جنگ کی سفارش پر فرخ آباد اور بارہ مواضعات محمد شاہ نے اس کی ماں کو انعام میں دیے اور نول رائے کو وصول تحصیل کے لیے مقرر کیا گیا۔ احمد خاں بنگش نے نول رائے سے جنگ کی اور اسے مارڈالا۔ اب اس نے خودمختاری کی۔ علی محمد خاں روہیلہ نے بریلی اور مرادآباد کے پٹھانوں کو شکست دے کر کسٹھیر کے علاقے پر قبضہ کرلیا۔ ۱۱۵۴ھ (۱۷۴۱ء) تک اس نے الموڑہ اور کمایوں کے علاقے بھی فتح کرلیے۔ ۱۱۵۶ھ (۱۷۴۳ء) میں محمد شاہ نے اس پر فوج کشی کی۔ گرفتار کرکے دلّی لایاگیا لیکن امراء کی اکثریت اس کی طرف دار تھی اس لیے رہا کردیا گیا۔ ۱۱۵۸ھ (۱۷۴۵ء) میں پھر کسٹھیر کی حکمرانی مل گئی۔ ۱۱۶۲ھ (۱۷۴۹ء) میں اس کے انتقال پر اس کے بیٹوں کا اتالیق حافظ رحمت خاں روہیل کھنڈ کاحاکم مقرر ہوا۔ ایک طرف اس طرح کی خانہ جنگیاں جاری تھیں۔ سکھ، مرہٹے، روہیلے، جاٹ اور دوسری قومیں لوٹ اور غارت گری پر کمربستہ تھیں اور دوسری طرف ان تباہ کاریوں سے ہریشان ہوکر عوام کا علاج غیر ملکی امداد کی شکل میں تلاش کر رہے تھے۔

    ۱۱۶۱ھ (۱۷۴۸ء) میں احمد شاہ ابدالی لاہور کو فتح کرتا ہوا دلّی پہنچا۔ محمد شاہ بیمار تھا، اس نے صفدرجنگ اور قمرالدین کی معیت میں اپنے بیٹے احمد شاہ کو مقابلے کے لیے بھیجا۔ سرہند کے قریب فوجیں مقابلے کے لیے صف آرا ہوئیں۔ ابدالی کی فوج کے کچھ بان اسی کے لشکر پر گرپڑے۔ بھگدڑ مچ گئی اور احمد شاہ کو فتح حاصل ہوئی۔ اس فتح کی تاریخ ’’فتح خداساز‘‘ (۱۱۶۱ھ) نکالی گئی۔ قمرالدین جو بادشاہ کو بہت عزیز تھا مرگیا اور اسی صدمے میں ۱۱۶۱ھ (۱۷۴۸ء) میں محمد شاہ کا بھی انتقال ہوگیا۔

    اب صفدر جنگ وزیر تھے، ذوالفقار جنگ سادات خاں جن کی بیٹی محمد شاہ کو بیاہی تھی میربخشی ہوئے۔ موقع پاکر نواب بہادر خواجہ سرا نے ۱۱۶۴ھ (۱۷۵۱ء) میں سادات خاں کو قید کیا اور یہ عہدہ آصف جاہ کے بیٹے فیروز جنگ کو دے دیا۔ روہیلوں نے سراٹھایا تو صفدر جنگ نے جاٹوں اور مرہٹوں کو مدد کے لیے بلایا جن پر ملک کا روپیہ بے دریغ خرچ کیا گیا۔ جاٹ دلّی اور آگرہ کے نواح میں اپنی گڑھیاں بناچکے تھے اور گردنواح میں ان کی لوٹ مار جاری تھی بلکہ اکبرؔ کے مقبرے سے اس کی ہڈیاں بھی نکال کر جلادی تھیں۔ یہ سلوک اس اکبرؔ کے ساتھ تھا جس نے بندرابن اور متھرا میں جگل کشور، گوپی ناتھ، گروندردیو وغیرہ مندر اپنے مصارف سے جاٹوں کے لیے بنوائے تھے۔ جاٹوں کے مظالم بھی اس قدر بڑھ گئے کہ دہلی اور اردگرد کے باشندوں کی زندگی وبال ہوگئی تھی۔ جاوید خاں نے صفدر جنگ کے جلانے کے لیے اس کے دشمن بالوجاٹ کو ۲/جولائی ۱۷۵۲ء (۱۱۶۵ھ) کو خلعت اور انعام دیا اور جاٹوں کے حوصلے اتنے بڑھے کہ وہ دلّی سے صرف ۳۲ میل دور سوداگروں کو الٹا لٹکاکر کوڑے مار مار کر روپیہ وصول کرتے تھے۔ متھرا اس وقت جاٹوں کے قبضے میں تھا۔

    ۱۱۶۱ھ (۱۷۴۸ء) میں احمد شاہ سریر آراے سلطنت ہوا۔ اسی کے زمانے میں مرہٹوں اور جاٹوں کو دوبارہ لوٹ مار کا موقع ملا۔ ابھی ان فتنوں کا سدِّباب نہ ہوا تھا کہ ۱۱۶۲ھ (۱۷۴۹ء) میں احمد شاہ ابدالی نے دوبارہ حملہ کردیا۔ بادشاہ نے لاہور اور ملتان کے دوصوبے دے کر جان چھڑائی۔ فیروز جنگ دکن کی طرف روانہ ہوئے جہاں ان کے والد نظام الملک نے اپنی خودمختار حکومت قائم کرلی تھی۔ برہان پور کے قریب فیروز جنگ کا انتقال ہوگیا۔ اب ان کے بیٹے عماد الملک کو باپ کا خطاب اور عہدہ دیا گیا۔ نوعمر تھے اس لیے صفدر جنگ کے سپرد کیے گئے۔ صفدر جنگ نے دغا سے نواب بہادر خواجہ سرا کو قتل کردیا۔ میرؔ اور جملہ دوسرے شعراء اس کے متوسلین میں تھے۔ جاوید خاں کو اگست ۱۱۶۵ھ (۱۷۵۲ء) میں قتل کیا گیا۔ میرؔ اس وقت انہی کی ملازمت میں تھے، اس لیے لکھتے ہیں،

    ’’موسمے کہ صفدر جنگ نواب بہادر رادغاکشت روز گارِ عالم برہم خورد۔ من نیز بیکارشدم۔‘‘ (ذکرِ میرؔ، ص۷۲)

    نواب بہادر ہردل عزیز تھا اس لیے ان کا قتل عام طور پر ناگوار ہوا۔ خود بادشاہ احمد شاہ بھی صفدرجنگ سے کبیدہ خاطر ہوگیا۔ عمادالملک نے صفدر جنگ کے نائب موسوی خاں کو جو میرآتش تھے نکال دیا۔ صفدرجنگ نے عماد الملک سے عہدہ چھین کر سادات خاں کو میربخشی مقرر کروادیا۔ عماد الملک نے ملہار راؤ ہلکر کو، مالوے سے جے اپا کو ناگپور سے اپنی مدد کے لیے بلایا لیکن ان کے پہنچنے سے پہلے ہی صفدر جنگ سے صلح ہوگئی۔ صفدر جنگ اور سادات خاں کو اودھ کی صوبہ داری کی طرف جانا پڑا۔ اسی دوران میں عمادالملک نے مرہٹہ سرداروں سے مل کر سوج مل جاٹ پر حملہ کردیا اور جاٹوں کے قلعے ڈیگ، کمھیر اور بھرت پور کا محاصرہ کرلیا۔ شاہی امداد نہ ملی تو شاہی منصب داروں اور جاگیرداروں کی جاگیرداری میں لوٹ مار شروع کردی۔ اِدھر سوج مل جاٹ نے شاہی امداد چاہی۔ بادشاہ توپ خانہ لے کر خود مدد کے لیے چلا۔ متھرا کے راستے میں ہلکر سے مٹھ بھیڑ ہوگئی۔ بادشاہ کو شکست ہوئی اور وہ بھاگ کر دلّی پہنچا۔ عماد الملک نے احمدشاہ اور اس کی ماں کو قید کردیا اور اسی روز یک شنبہ جون ۱۷۵۴ء (۱۱۶۷ھ) کو خود وزیر بن بیٹھا اور جہاندار شاہ کے بیٹے عزیز الدین کو عالمگیر ثانی کے لقب سے تخت نشین کیا۔ سوداؔ کے مطابق،

    نہیں ہے معجزِ عیسیٰ سے کم تری تدبیر

    کیا ہے زندہ سرِنو سے جس نے عالمگیر

    سنا نہیں ہے کہ غازی دیں عماد الملک

    جو میر بخشی تھا واں کا سواب ہوا ہے وزیر

    کرے ہے عرض یہ سوداؔ ہمیشہ عالم کا

    رہے تو کارکشا اے امیر ابنِ امیر

    اسی عیسیٰ نے یہ معجزہ دکھایا کہ ایک ہفتہ بعد سلیم گڑھ کے قلعے میں احمد شاہ اور اس کی ماں کو اندھا کردیا گیا جہاں ۱۷۷۴ء میں احمد شاہ کاانتقال ہوگیا۔ اشرف علی فغاںؔ احمد شاہ کے رضاعی بھائی اور ندیم خاص بھی تھے۔ احمد شاہ سے بے حد محبت کرتے تھے۔ اس کی معزولی اور قید کے بعد فغاں دلّی سے مرشدآبادچلے گئے۔ وہیں احمد شاہ کی یاد میں ایک نظم لکھی،

    جہاں میں مرا ایک دلدار تھا

    اسی سے مجھے تو سروکار تھا

    نہ کچھ کام تھا مجھ کو گلزار سے

    نہ واقف تھا ہرگز گل و خار سے

    نہ سمجھوں تھا بلبل کے فریاد کو

    نہ جانوں تھا میں جورِ صیّاد کو

    *

    وہی ماہ تھا اور وہی شاہ تھا

    غرض کچھ ہی تھا میرا اللہ تھا

    *

    ارے اے مری جان اس وقت میں

    ارے تیرے قربان اس وقت میں

    ترا ہنس کے کہنا میں گھر جاؤں گا

    مرا رو کے کہنا میں مرجاؤں گا

    یہی مجھ میں اس میں تھا راز و نیاز

    کوئی اس میں محمود، کوئی ایاز

    فلک نے یکایک ستم یہ کیا

    دلِ شاد کو داغِ حرماں دیا

    یہ ذاتی تعلقات کی حقیقی ترجمانی ہے۔ ویسے احمد شاہ انتہائی نااہل تھا۔ اس نے اپنی ماں ’اودھم بائی‘‘ طوائف کو نواب قدسیہ بیگم، حضرت بیگم عالم، صاحب الزمانی وغیرہ خطابات دے رکھے تھے۔ خواجہ سرا جاوید فرائضِ شاہی انجام دیتا تھا۔ رذیل فرقے کے لوگوں کو بڑے عہدے دے رکھے تھے۔ اودھم بائی نے اپنے بدمعاش اور اوباش بھائی کو شش ہزاری منصب دے دیا تھا۔ خزانہ خواجہ سرا جاوید کی تحویل میں رہتا تھا۔ نوکروں کو بروقت تنخواہیں نہ ملتی تھیں۔ احمد شاہ بچوں کے کھیل کھیلا کرتا تھا یا عورتوں میں پڑا رہتا تھا۔

    ۱۷۵۳ء میں اپنے ایک تین سالہ لڑکے کو پنجاب کا صوبہ دار مقرر کردیا تھا اور ایک سالہ بچہ کو لاہور کا نائب بناکر بھیجا۔ یہاں دیوانِ خاص میں تین سالہ بچہ نذرانے قبول کرتا اور اپنے نائب کے لیے لاہور میں تحائف بھیجتا۔ اب سلطنتِ دلّی کی عملداری دوآبہ کے اور ستلج کے چند اضلاع تک محدود ہوکر رہ گئی اور وہاں بھی بدنظمی اور افراتفری کا یہ عالم تھا کہ عوام کی زندگی اجیرن تھی۔ سوداؔ کے یہاں اس کے نقوش موجود ہیں۔ سوداؔ محمد شاہ کی وفات ۱۱۶۱ھ (۱۷۴۸ء) کے بعد احمد شاہ کے دور میں دلّی ہی میں تھے۔ سادات خاں ذوالفقار جنگ کے بھانجے احمد علی خاں سیف الدولہ ان کے سرپرست تھے۔ سوداؔ نے ان کی مدح میں تین قصیدے کہے ہیں اور حسبِ دستور ان کی بڑی تعریف کی ہے۔ مثلاً،

    یعنی وہ سیف الدولہ بہادر کہ جس نے

    پاوے نہ کوئی لطف و کرم کا کسی میں ڈھنگ

    کہنے لگا کہ تجھ سے تعجب ہے یہ سخن

    اتنا تو ہو کہ عاقل و دانا و ہوشیار

    یہ رمز اب تلک نہیں سمجھا ہزار حیف

    ہے یہ وہ جس کے خوانِ کرم کا تو وزیر و خوار

    یعنی وہ سیف الدولہ بہادر کہ جس کی تیغ

    کرتی رہی سدا سرِا عدا یہ کارزار

    اسی طرح نواب عماد الملک کے برسراقتدار آنے پر ان کے مظالم کو نظرانداز کرکے ان کی بھی مدح کی ہے اس لیے کہ جہاں تک سوداؔ کی ذات کا تعلق ہے ان پر عماد الملک کی نوازشیں عام تھیں اسی لیے پرامید ہوکر وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ،

    اس کے مصرف کے جو دیہات ہیں بس ان میں سے

    اپنے مداح کو کبھی کردے مقدر صحنک

    تو ہی ٹک دل میں کر اب عرض کا میری انصاف

    جائے کس درپہ کوئی پہنچ کے ایسے درتک

    عالمگیر ثانی کی مدح میں بھی سوداؔ کے پچیس اشعار پائے جاتے ہیں،

    تجھ آستاں پہ ولے اب مدد کے طالع سے

    ہوا ہے آن کے حاضر یہ بندۂ درگاہ

    بس اب جہاں میں کوئی خوش نصیب ہے مجھ سے

    امید جس کی برآئی ہو اتنی خاطر خواہ

    فلک پہ سبعۂ سیاہ تاقیامِ جہاں

    پھرا کریں تری مرضی شریف کے ہمراہ

    ترا چراغ رہے تجھ سے اس طرح روشن

    کہ جیسے پر تو خورشید ہو مشعلِ راہ

    مگر شخصی تعلقات سے ہٹ کر جب سوداؔ نے اپنے گردوپیش نظر ڈالی تو انتشار بے چینی اور افراتفری کی فضا میں فارغ البالی اور ذاتی آسائش کے باوجود وہ عوامی درد کو نظرانداز نہ کرسکے اور انہیں کہنا ہی پڑا کہ،

    سخن جو شہر کی ویرانی سے کروں آغاز

    تو اس کو سن کے کریں ہوش چغد کے پرواز

    نہیں وہ گھر نہیں جس میں شغال کی آواز

    کوئی جو شام کو مسجد میں جائے بہرِ نماز

    تو واں چراغ نہیں ہے بجز چراغ غول

    جہاں آباد تو کب اس ستم کے قابل تھا

    مگر کبھو کسی عاشق کا یہ نگر دل تھا

    کہ یوں مٹا دیا جیسے کہ نقشِ باطل تھا

    عجب طرح کا یہ بحرِ جہاں میں ساحل تھا

    کہ جس کی خاک سے لیتی تھی خلق موتی ودل

    دیا بھی واں نہیں روشن تھی جس جگہ فانوس

    پڑے ہیں کھنڈروں میں آئینہ خانہ کے ناموس

    کروڑوں دل تھے پرامید ہوگئے مایوس

    گھروں سے یوں نجبا کے نکل گئی ناموس

    ملی نہ ڈولی انہیں تھے جو صاحب چنڈول

    نجیب زادیوں کا ان دنوں ہے یہ معمول

    وہ برقعہ سر پہ ہے جس کا کھر تلک ہے طول

    ہے ان کی گود میں لڑکا گلاب کا سا پھول

    اور ان کے حسن طلب کا ہر ایک سے یہ اصول

    کہ خاک کی تسبیح ہے جو لیجیے گا مول

    میرؔ نے اس سے کہیں بدتر حالت پیش کی ہے،

    کیونکر کہ رہے شرم مری شہر میں جب آہ!

    ناموس کہاں اتریں جو دریا پہ ازاریں

    عماد الملک، غازی الدین خاں فیروز جنگ (ابنِ نظام آصف جاہ) کا بیٹا تھا۔ اس کا اصل نام شہاب الدین تھا۔ عماد الملک بڑا بہادر تھا نیز فنِ شعر و انشاء میں خصوصی ادراک رکھتا تھا لیکن ہوسِ جاہ و مال نے طبیعت میں بے رحمی اور سفاکی کو ہوادی جس سے سارے محاسن ہواہوگئے۔

    احمد شاہ کے دور میں بدحالی اور افراتفری کا یہ عالم تھا کہ فوجیوں کو تنحواہ نہ ملتی تھی۔ روز چوری اور ڈاکے کی خبریں آتی تھیں۔ فوجی روز بلوے بھی کیا کرتے تھے۔ افسروں کا دستہ روک لیتے۔ محل کے دروازے بند کرلیے جاتے اور اس طرح کئی کئی دن اہل قلعہ کا کھانا پانی بند رہتا۔ مرہٹے اور جاٹ دلّی کے گردونواح میں قتل و غارت گری عام کر رہے تھے۔

    محل میں الگ سازشیں تھیں۔ بادشاہ نے عماد الملک کے اختیارات میں اضافہ کیا تو امرائے سلطنت کو اتنا ناگوار ہوا کہ ۱۴/ستمبر ۱۷۵۳ء کو جمعہ کی نماز کے لیے جاتے وقت بادشاہ کے ساتھ ایک آدمی بھی نہ تھا۔ ۱۶/ اور ۱۷/ستمبر دربار کی تاریخیں تھیں لیکن سوائے صفدرجنگ کے حواریوں کے اور کوئی بھی حاضر نہیں ہوا۔ (تاریخ احمد شاہی) ۲۲/ستمبر ۱۷۵۲ء (۱۱۶۵ھ) کو مرہٹے تال کٹورہ کے قریب آکر خیمہ زن ہوگئے اور لوٹ مار کرنے لگے۔ نومبر ۱۷۵۲ء (۱۱۶۵ھ) میں ابدالی کے کوچ کی خبر نے دلّی سے لاہور تک سنسنی پھیلادی۔ ۵/فروری ۱۷۵۳ء (۱۱۶۶ھ) کو افغان سفیر نے دھمکی دی کہ پچاس لاکھ روپے خراج کے داخل کرو ورنہ ابدالی آکر دلّی کی اینٹ بجادے گا۔ ۲۶/مئی ۱۷۵۳ء (۱۱۶۶ھ) کو صفدرجنگ نے بغاوت کی اور خانہ جنگی ۷/نومبر ۱۷۵۳ء (۱۱۶۶ھ) تک جاری رہی۔

    صفدر جنگ نے سورج مل جاٹ کو اکسایا جس نے دلّی کی شہر پناہ تک لوٹ مار کی کہ محلے کے محلے تباہ و ویران ہوگئے۔ تاریخ احمدی میں مرقوم ہے کہ مرد و عورت، بچہ، کوئی بھی ان کے ظلم سے نہ بچ سکا۔ پرانی دلّی کے لوگوں کا یہ حال تھا کہ وہ اپنی جان کے ڈر سے ایک محلے سے دوسرے محلے اور ایک گھر سے دوسرے گھر بھاگے بھاگے پھرتے تھے۔

    ہرچرند اس مصنف چہارگلشن شجاعی کے مطابق،

    ’’جب جاٹوں نے لوٹ مار شروع کی تو دہلی کے باشندے گھر سے نکل کھڑے ہوئے۔ وہ دربدر گلی گلی مارے مارے پھرتے تھے۔ بالکل اسی طرح جیسے کوئی ٹوٹا ہوا جہاز، ظالم موجوں کے رحم و کرم پر ہو۔ پاگلوں کی طرح ہرشخص پریشان حال اور گھبرایا ہوا نظر آتا تھا۔‘‘

    دلّی کا ایک یہ عالم تھا کہ،

    ہر روز نیا ایک تماشہ دیکھا

    ہر کوچے میں سو جوان رعنا دیکھا

    دلّی تھی طلسمات ہر جگہ میرؔ

    ان آنکھوں سے آہ ہم نے کیا کیا دیکھا

    میرؔ، ص۲۲

    یا یہ عالم ہوگیا کہ،

    اب خرابا ہوا جاں آباد

    ورنہ ہر اک قدم پہ یاں گھر تھا

    میرؔ، ص۴۲

    *

    اب شہر ہر طرف سے میدان ہوگیا

    پھیلا تھا اس طرح کا کاہے کو یاں خرابا

    میرؔ، ص۲۵

    ایک وہ بھی دن تھے کہ،

    ہفت اقلیم ہر گلی ہے کہیں

    دلّی سے بھی دیار ہوتے ہیں

    میرؔ، ص۳۲

    *

    دلّی کے نہ تھے کوچے اوراقِ مصور تھے

    جو شکل نظر آئی تصویر نظر آئی

    میر، ص۲۲

    یا اب یہ حالت ہے کہ،

    دلّی میں آج بھیک بھی ملتی نہیں انہیں

    تھا کل تلک دماغ جنہیں تاج و تخت کا

    میر، ص۳۴ کلیات دیوان، اول

    *

    جس سر کو غرور آج ہے یاں تاجوری کا

    کل اس پہ یہیں شور ہے پھر نوحہ گری کا

    میرؔ، ص۶

    بے بسی اور بے کسی کا یہ عالم تھا کہ بلا پر بلا نازل ہو رہی تھی اور داد و فریاد سننے والا بھی کوئی نہ تھا،

    جن بلاؤں کو میرؔ سنتے تھے

    ان کو اس روز گار میں دیکھا

    میر، ص۱۹

    *

    کرنالہ کشی کب تئیں اوقات گذاریں

    فریاد کریں کس سے کہاں جا کے پکاریں

    میرؔ، ص۶

    نہ صرف سازشوں نے بے اعتباری کو ہوا دی تھی بلکہ ہر چیز سے اعتبار اٹھ گیا تھا۔ ایک لمحہ جو مقتدر تھے دوسرے لمحے وہی ذلیل و خوار دکھائی دیتے تھے،

    کیا اعتبار یاں کاپھر اس کو خوار دیکھا

    جس نے جہاں میں آکر کچھ اعتبار پایا

    میرؔ، ص۱۰

    انہی باتوں سے گھبراکر میرؔ پہلے تو یہ سوچتا ہے کہ،

    لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام

    آفاق کی اس کار گہ شیشہ گری کا

    میرؔ، ص۶

    بے ثباتی دنیا ہراساں کرتی ہے تو طے کرتا ہے کہ،

    رہ گزر سیلِ حوادث کا ہے بے بنیاد دہر

    اس خرابے میں نہ کرنا قصد تم تعمیر کا

    میرؔ، ص۱۲

    *

    اس کہنہ خرابے میں آبادی نہ کر منعم

    اک شہر نہیں یاں جو صحرا نہ ہوا ہوگا

    لیکن گوشہ نشینی اور ترکِ تعلقات پر بھی سکون نہیں اور جب اس کا تجربہ بھی ہوجاتا ہے کہ،

    بہت سعی کیجیے تو مر رہیے میرؔ

    بس اپنا تو اتنا ہی مقدور ہے

    تو دنیا سے بیزار اور دل برداشتہ ہوکر سوائے اس کے اور کہہ ہی کیا سکتا تھا،

    کاش اے جانِ الم ناک نکل جاوے تو

    اب تو دیکھا نہیں جاتا یہ ستم ہم سے بھی

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے