Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ہندی آریہ فلسفہ

باری علیگ

ہندی آریہ فلسفہ

باری علیگ

MORE BYباری علیگ

    ہندی آریوں کے عقلی دور (۱۰۰۰ ق م سے ۳۰۰ ق م) میں کپل اور گوتم بودھ کی ہستیاں بہت نمایاں ہیں۔ ایک فلسفی تھا اور دوسرا مصلح۔ ایک نے فلسفے اور دوسرے نے اصلاح سے انسانوں کی خدمت کی۔ فلسفی صرف فلسفے تک ہی محدود رہا۔ اس نے صرف غور کرنے والوں سے مخاطب کیا۔ مصلح نے ایک نیا مذہب قائم کیا۔ کپل عمر بھر فلسفیانہ سرگرمیوں میں مصروف رہا۔ وہ گوتم بودھ سے سو سال پہلے پیدا ہوا۔ اس کے نام پر جو بستی آباد کی گئی گوتم بودھ اسی میں پیدا ہوا۔ کپل دنیا کا پہلا فلسفی ہے جس نے فلسفے کو تحریری صورت میں پیش کیا۔ اس نے عقلیت کی بناپر بڑے بڑے پیچیدہ مسئلوں پر غور کیا۔ وہ اپنے فلسفے کو سانکیا سوتر میں پیش کرتا ہے۔ اس کے فلسفے کا مقصد انسان کو ہر قسم کے دکھوں سے نجات دلانا ہے۔ وہ قربانی کی ویدک رسموں کو نہیں مانتا۔ اس کے نزدیک انسان کی نجات، گیان اور دھیان (علم وفکر) میں ہے۔ وہ اس تصور کو نہیں مانتا کہ تمام روحیں روح کل کے اجزا ہیں۔ اس کے نزدیک ہر روح کی ہستی الگ الگ ہے اور ہر روح نجات پانے کے بعد اپنی اسی جداگانہ حیثیت کو برقرار رکھے گی۔ اس کے نزدیک ’’روح کے سوا ہرچیز مادی ہے۔ نہ صرف عناصر، مدرکات اور اعضائے فعل مادی ہیں۔ بلکہ نفس، شعور اور ذہن بھی مادے ہی کے نتائج ہیں۔‘‘ وہ تین قسم کے ثبوت کا قائل ہے۔ ادراک، استخراج، اور تصدیق، وہ کسی ایسی شے کا قائل نہیں جو ان ثبوتوں سے باہر ہو۔ یہی وجہ ہے کہ خالق کا قائل نہیں۔ وہ عقلیت کا قائل ہے۔ ’’ہروجود کی علت ہے کیونکہ کوئی وجود علت کے بغیر نہیں ہوسکتا۔‘‘ وہ روح کے سوا باقی تمام اشیا کو مادی کہتا ہے اور تمام مادی اشیا کے سرچشمے کو ’’ابتدائی مادہ‘‘۔ (پراکرتی) کا نام دیتا ہے۔ وہ روح کے وجود کو مادے سے الگ تسلیم کرتا ہوا روح کل کا قائل نہیں بلکہ بہت سی روحوں کا قائل ہے۔

    دوسری صدی قبل مسیح میں پتانجلی نے کپل کے فلسفے میں خدا کے تصور کا اضافہ کرکے یوگ کا فلسفہ پیش کیا۔ کپل کے نزدیک روح صرف گیان اور دھیان ہی سے نجات پاسکتی ہے یعنی جسم کی آخری قید سے آزاد ہوسکتی ہے۔ پتانجلی نے اس نجات کے لیے جو ریاضت وضع کی اسے یوگ کہا جاتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ خدا کی طرف لو لگانے ہی سے روح کو جسم کی قید سے ہمیشہ کے لیے رہائی مل سکتی ہے۔ پتانجلی مشرقی ہندوستان کے ایک شہر گونا روا کا رہنے والا تھا۔ اس کی زندگی کا بہت سا حصہ کشمیر میں کٹا۔

    نیائے (منطق) کا بانی گوتم اپنے ہم نام گوتم بودھ کا ہمعصر تھا۔ کپل نے فلسفے کی بنیاد رکھی اور گوتم نے منطق کی۔ اس کی ’’نیائے سوتر‘‘ منطق کی پہلی کتاب ہے۔ پتانجلی کی طرح منطقی گوتم نے بھی کپل کے اس اصول کو مان لیا کہ ’’ہرشخص کی روح جدا جدا ہے۔ اور یہ روح جسم اور مدرکات سے الگ علم کا ایک مقام ہے، ہر انفرادی روح لامتناہی اور ابدی ہے۔‘‘ لیکن گوتم نیائے سوتر میں کپل کے فلسفے میں اضافہ کرتا ہوا لکھتا ہے کہ ’’روح عظیم ایک ہے۔ وہ ابدی علم کا مقام ہے یہی روح عظیم ہر چیز بنانے والی ہے۔‘‘ اس کے نزدیک ہر فعل نیکی یابدی کی علت ہے وہ کہتا ہے کہ روح کی نجات کا انحصار فعل پر نہیں بلکہ علم پر ہے وہ نیائے میں صغریٰ اور کبریٰ (سلوجزم) کے ذریعہ استخراج کرتا ہے۔ اس کا سلوجزم پانچ اجزا سے مرکب ہے،

    (۱) پہاڑی کو آگ لگی ہوئی ہے۔

    (۲) کیونکہ وہاں سے دھواں نکلتا ہے۔

    (۳) جہاں کہیں سے بھی دھواں نکلے وہاں آگ ہوتی ہے۔ جیسے رسوئی۔

    (۴) پہاڑی سے دھواں نکل رہا ہے۔

    (۵) اس لیے وہاں آگ لگی ہوئی ہے۔

    گوتم کے سلوجزم کے پہلے دو یا آخری دو اجزا مٹا دیے جائیں تو ارسطو کا سلوجزم بن جاتا ہے۔

    کناد کا وششک ذریت پر مبنی ہے۔ ذریت سے مراد یہ ہے کہ ہر مادی چیز ذروں، پانی کو آبی ذروں، ہوا کو فضائی ذروں اور روشنی کو روشن ذروں سے مرکب بتاتا ہے۔ اس کے نزدیک ذرات ابدی ہیں۔ اور ذروں سے مرکب اجسامِ مادی صرف منتشر ہونے کی صورت میں فنا ہوتے ہیں۔ آخری ذرہ مرکب نہیں بلکہ مفرد ہے۔ کناد کا وششک فلسفہ کم اور طبیعات زیادہ ہے۔ ہندوستان کے ان فلسفیوں نے مادے، حرکت، اجتماع اور انتشار کے قوانین وضع کیے۔ سارے ہندی آریہ فلسفے میں مادے کو ازلی اور روح سے الگ مانا گیا ہے۔ صرف ویدانت یہ تسلیم کرتا ہے کہ مادہ ایک ایسی روح عظیم کا مظہر ہے جو اپنے اندر سب کچھ رکھتی ہے۔

    کپل کے فلسفے نے بہت سے مفکروں کو اپنشدوں کی تعلیم سے دور ہٹادیا تھا۔ عوام بودھ مت میں شامل ہوکر ذات پات اور ویدک رسموں سے نکل چکے تھے۔ چنانچہ اس دور میں اپنشدوں کی عالمگیر روح کے مسئلے کو زندہ کرنے کے لیے فلسفے کے دو نئے اسکول جاری ہوئے۔ جنہیں میمانسا کہا جاتا ہے۔ میمینی، پوردا میمانسا میں ویدک رسموں کے احیا پر زور دیتا ہے، ویاس، اترمیمانسا میں عالمگیر روح کی تعلیم دیتا ہے۔ اترمیمانسا کو ویدانت بھی کہا جاتا ہے۔ ساتویں صدی مسیحی کمارل بھٹ نے پوروامیانسا کو پھر سے زندہ کیا اور نویں صدی میں شنکرا چاریہ نے ویدانت کے فلسفے کو غالب کردیا۔ ویاس اترمیمانسا میں کپل کے ساتھ (سانکیا) پاتنجل کے لوگ اور کناد کے وششک کارو پیش کرتا ہے۔ ویدانت کی رو سے ’’وینا کا وجود، قرار، اور فنا خدا کے بس میں ہے۔ تخلیق اسی کے ارادے سے ہے۔ وہی دنیا کے بنانے کا مادی سبب ہے، وہ فاعل بھی ہے اور فعل بھی، وہ عظیم الشان ہستی تنہا ہے۔ اس کا کوئی ثانی نہیں۔‘‘

    مأخذ:

    ادب لطیف،لاہور (Pg. 9)

      • ناشر: چودھری برکت علی
      • سن اشاعت: 1946

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے