Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ہندوستانی مصوری

پریم چند

ہندوستانی مصوری

پریم چند

MORE BYپریم چند

    ہندوستان کی قومی بیداری کا سب سے اہم اور مبارک نتیجہ وہ بینک اور کارخانے نہیں ہیں جو گزشتہ چند سالوں میں قائم ہوئے اور ہوتے جاتے ہیں۔ نہ وہ تعلیم گاہیں جو ملک کے ہر ایک حصہ میں وجود پذیر ہوتی جاتی ہیں بلکہ وہ فخر جو ہمیں اپنے قدیم صنعت وحرفت اور علم ادب پر ہونے لگا ہے اور وہ احترام جس سے ہم اپنے ملک کے قدیم صنعتی یادگاروں کو دیکھنے لگے ہیں۔

    ہم اب ہومرؔ اور ملٹنؔ کو اقلیم سخن کا بادشاہ نہیں مانتے بلکہ سعدیؔ اور کالیداسؔ کو۔ یہی خودداری ہر ایک صیغہ میں نمایاں ہے۔ ہمارا قدیم فن تعمیر اور نقاشی کبھی قدردانی کا محتاج نہیں رہا۔ وہ اب بھی دنیا میں حیرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور اس کے جو کچھ آثار دستبرد روزگار سے بچ رہے ہیں وہ اس فن میں ہم کو ہمیشہ بے عدیل ثابت کرتے رہیں گے۔ ہمارا قدیم فن تصویر عرصہ دراز سے قعر گمنامی میں پڑا رہا۔ اورنہ صرف یورپ کے محقسین نے یہ نتیجہ نکال لیا تھا کہ ہندوستان میں ا س فن کو کبھی فروغ نہیں حاصل ہوا، بلکہ ہندوستانی بھی اس خیال میں ان کے شریک ہوگئے تھے۔ مگر اس قومی بیداری نے ہمارا خیال اس فن کی طرف رجوع کردیا ہے اور جہاں چند سال پہلے ایک شخص بھی ایسا نہ تھا جو یقین کے ساتھ کہہ سکے کہ ہندوستان نے اس فن میں بھی کمال حاصل کیا تھا، وہاں آج ہزاروں ہندوستانی ایسے ہیں جو اپنے قدیم فن تصویر کی قدر کرنے لگے ہیں۔ اور وہ آسانی سے اس بات کو ہرگز تسلیم نہ کریں گے کہ اس فن لطیف کو کمال پر پہنچانے کا سہرا اطالیہ کے سر ہے۔

    جس دماغ نے فن شعر اور تعمیر میں معجزے دکھائے وہ فن تصویر میں کیوں کر قاصر رہ سکتا ہے۔ یہ تینوں فنون باہم اس قدر مربوط ہیں کہ ایک کا فروغ پانا اور دوسرے کا وجود میں نہ آنا غیر ممکن ہے۔ گو یہ ممکن ہے کہ فن شعر کے مقابلے میں نقاشی اور تصویر نگاری کی نشوونما زیادہ دنوں میں ہو۔ شکر ہے کہ اتنے نوں کی بے خبری کے بعد ہمارے دلوں میں اس فن کی قدر کرنے کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ اوراس کے لئے ہم کو کلکتہ کے باکمال مصور بابو روندر ناتھ ٹھاکر کا مشکور ہونا چاہئے۔ انہوں نے طرز قدیم پر رنگ جدید کا روغن دے کر ہندوستان کے جدید فن تصویر کی بنیاد ڈال دی ہے۔ اور یوروپین مصوروں کی نقالی کی ذلت سے اس فن کو بچا لیا ہے۔ ان کے کئی شاگرد جن میں سے بعضوں کی تصویریں یورپ اور ہندوستان پر بڑے اعزاز کی نگاہوں سے دیکھی گئی ہیں، انہیں کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔

    اس اسکول کا اخلاقی معیار بہت رفیع ہے اور وہ اپنی تصاویر پر قوم کے بہترین خیالات اور جذبات کا عکس پیدا کر دیتا ہے۔ جو ہر ایک ملک کے فن تصویر کی جان ہے۔ بابو صاحب ممدوح کی تصاویر زیادہ تر تاریخی اور مذہبی ہوتی ہیں۔ کالیداس کے رت سنگھار کے بھی کئی مناظر آپ نے اپنے زور قلم سے کھینچے ہیں۔ مگر یہ تصویریں خواہ ادبی ہوں یا تاریخی، ان کا سب سے بڑا وصف یہ ہے کہ وہ قومیت کے جذبہ سے مالامال ہوتی ہیں۔ سیلون کے مشہور مبصر ڈاکٹر آنند کمار سوامی نے بھی ہمارے فن تصویر کو گوشہ تاریک سے نکالنے میں زبردست کوشش کی ہے۔

    گزشتہ تین چار سال سے آپ نے اسی مبحث پر ہندوستان اور یورپ کے نامی رسالوں میں متعدد پرزور مضامین لکھے ہیں اور قدیم فن تصویر کے کتنے ہی ایسے نمونے پیش کردیے ہیں جن سے یہ خیال جم جاتا ہے کہ اس فن میں کبھی ہم کو بھی کمال تھا۔ یہ انہیں کی پرزور تنقیدوں کا اثر ہے کہ یورپ میں ہمارے فن تصویر کا کچھ کچھ چرچا ہونے لگا ہے۔ اور شاید اس مبحث پر آئندہ جو کتاب لکھی جائے گی اس کا مصنف ہندوستانی فن تصویر کو اتنی حقارت سے نہ دیکھ سکے گا کہ اس کا ذکر نہ کرے۔ انہیں حضرات کی تحریک اور اثر سے لندن کے چند نامور مصوروں اورمبصروں نے ایک انجمن قائم کی ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ وہ ہندوستانی فن تصویر کی تحقیقات اور یورپی مصورانہ مذاق میں ہندوستانی تصاویر اور جذبات کے سمجھنے کی قابلیت پیدا کرے، اور ہماری قدیم تصاویر کو جمع اور شائع کرنے کا انتظام کرے۔

    ابھی حال ہی میں میجر برڈووڈ صاحب نے ہندوستانی فن تصویر کو نشانہ ملامت بنایا تھا اور اس سرزمین کو نشوونما کمال کے لئے مضر قرار دیا تھا۔ یہ حضرت بہت عرصہ تک ہندوستانی صنعت اور حرفت کے مدح خواں رہے ہیں اور کئی مستند کتابیں اسی مبحث پر لکھی ہیں۔ مگر جب آپ کی زبان سے یہ خیالات نکلے تو لوگوں کی آنکھیں کھلیں۔ لیکن ان کی عملی تردید اسی انجمن کے اراکین نے کی۔ انہوں نے انگریزی اخباروں میں ایک تحریر شائع کی، جس میں برڈوورڈ کے بے گانگی مذاق کا پردہ فاش کیا گیا تھا۔ افسوس ہے کہ یہ تحریر جتنے اصحاب کے نام سے شائع ہوئی، ان میں صرف دو ہندوستانی نام نظرآتے تھے باقی سب انگریز تھے۔ ایسی انجمن کا لندن میں قائم ہونا اس امر کی زبردست دلیل ہے کہ ہندوستانی فن تصویر کے محاسن کے قدردان جتنے انگریز ہیں اتنے ہندوستانی نہیں۔ ہمارے تعلیم یافتہ ہم وطن اپنے ذاتی مشاغل میں اس حد تک منہمک ہیں کہ انہیں ان مسائل کی طرف متوجہ ہونے کی مطلق فرصت نہیں۔ اس کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ ہمارا نصاب تعلیم تزئین اور تربیت مذاق کے ذرائع سے بالکل عاری ہے۔ اورہماری طبیعتوں میں وہ احساس نہیں جو اپنے کارنامہ ہائے سلف پر زندہ دلانہ فخر کرے۔ کیا یہ عبرت کا مقام نہیں ہے کہ یورپ اور امریکہ کے سیاح جو چند ہفتوں کے لئے ہندوستان آئیں وہ اجنتا اور سانچی کی زیارت کرنا اپنا فرض سمجھیں۔ اور ہندوستانیوں کو اپنے اجداد کے ان صنعتی معجزات کے ملاحظہ کرنے کی فرصت اور توفیق نہ ہو۔

    ہندوستانی فن تصویر تاریخی حیثیت سے تین فرقوں میں منقسم ہوتا ہے۔ متقدم، متوسط اور جدید۔ پہلا دور سنہ عسوی کے دو سال قبل سے عیسیٰ کی ساتویں صدی تک ختم ہوتا ہے۔ یہ زمانہ بودھوں کے عروج کا تھا۔ بودھوں نے نقاشی اور تعمیر کے فنون کو جس کمال تک پہنچایا اس پر آج ساری دنیا کے لوگ حیرت کرتے ہیں۔ مگر وہ مزاولت جو فن تصویر میں انہیں حاصل تھی، عام طورپر معلوم نہیں اور نہ اس زمانہ کی تصاویر اتنی تعداد میں موجود ہیں جن سے ان کے کمال کا عام طور پر اندازہ کیا جا سکے۔ اس دور کی سب سے قابل قدر اور مشہور یادگارغار اجنتا کی تصاویر ہیں۔ یہ غار جو تعداد میں انیس ہیں، غالباً دوسری اور ساتویں صدی کے درمیان تعمیر ہوئے اور انہیں بودھوں کے نقاشی، معماری اور مصوری کے ابتدائے بلوغیت اور کمال کی تاریخ سمجھنا چاہئے۔

    یہ عام طورپر لوگ جانتے ہیں کہ یہ غار سلطنت نظام کے جنوبی حصہ میں واقع ہیں۔ اس زمانہ کے مصوروں اور نقاشوں نے اس غارکی سقف اور دیواروں کو اپنے کمال کے نمونوں سے آراستہ کیا تھا۔ مورتیں اور گلکاریاں اب تک اچھی حالت میں ہیں۔ مگر اکثر تصویریں سرد مہری روزگار سے مٹ گئیں تاہم بعض اب تک قائم ہیں۔ یہ تصاویر اس زمانے کے طرز معاشرت، آداب اور اخلاق اور رسم ورواج کی مبسوط تاریخ ہیں۔ ان تصاویر میں اعضا کا تناسب، انداز کی بے تکلفی اور جذبات کی واقعیت بدرجہ اتم موجود ہے۔ یورپ کے مبصر ان فن نے ان تصاویر کی دل کھول کر داد دی ہے۔ اور انہیں اطالیہ کے چودہویں صدی کی تصاویر کا مدمقابل ٹھہرایا ہے۔ ان تصاویر کا مضمون زیادہ تر بودھ مذہب سے تعلق رکھتا ہے۔ مگر کہیں کہیں اہم تاریخی اور تمدنی حالات بھی بڑی خوبی سے دکھائے گئے ہیں۔

    اس دور کی ایک حیرت ناک خصوصیت یہ ہے کہ جہاں کہیں اس زمانہ کی تصویریں موجود ہیں، ان سبھوں میں ایک خاص امتیازی یکسانیت اور ہم رنگی پائی جاتی ہے۔ گویا سب ایک ہی اسکول کے صناعوں کا کام ہے اور یہ یکسانیت صرف ہندوستان تک محدود نہیں۔ مقام سگریامین جو جزیرہ سیلون میں واقع ہے چھٹی اور ساتویں صدی کی تصویریں پائی گئی ہیں۔ وہ اجنتا کی تصویروں سے بہت مشابہ ہیں۔ جزیرہ جاورا میں اس دور کی تصاویر کا سراغ ملا ہے اور ان میں بھی وہی یک رنگی اور خصوصیت پائی گئی ہے۔ اکثرنقاد ان فن کا خیال ہے کہ یہ مشابہت اس سے ذرا بھی کم نہیں ہے جو فی زمانہ یورپین فن تصویر میں پائی جاتی ہے۔ یورپ کی یک رنگی مذاق کا راز سمجھ میں آجاتا ہے کیونکہ اس کے بے شمار ذرائع موجود ہیں۔ مگراس دور قدیم میں مذاق کا یکساں ہونا جن امور پرمبنی تھا ان کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔

    چونکہ بودھ فن معماری اور تصویر کا گہوارہ بہار تھا، ضرور ہے کہ بہار کے کاریگر ہندوستان کے ہر ایک خطہ میں گئے ہوں گے اور سارے ملک میں ایک ہی رنگ کا رواج پید ہوا ہوگا، جو صدیوں تک تدریجی ترقی کے ساتھ جاری رہا۔ مگر یہ صرف ایک معمولی قیاس ہے جس کی تصدیق کرنے کا کوئی ذریعہ موجود نہیں ہے۔ ساتویں صدی کے بعد ہندوستانی فن تصویر کے رخ زیبا پر اک تاریک پردہ سا پڑ جاتا ہے اور شاہان مغلیہ کے عہد تک اس کا کچھ حال معلوم نہیں ہوتا۔ نہ اس درمیانی دور کی تصویریں ملتی ہیں جو زبان حال سے اپنا کچھ قصہ سنائیں۔ اس درمیان میں ملک کی بالکل کایا پلٹ ہوگئی۔ بودھ مذہب بیخ و بن سے اکھڑ گیا ہے اور اس کے ساتھ ا س کی معماری، نقاشی اور تصویرنگاری نے بھی ہندوستان کو خیرباد کہہ دیا ہے۔

    ملک کے شمالی حصہ میں اسلامی حملہ آوروں نے قدم جما لئے ہیں اور بالاخر ملک کا بڑا حصہ ان کے زیرنگیں ہوگیا ہے۔ ان انقلابات عظیم پر طرہ یہ کہ ہندوستان کے ان نئے تاجداروں کو تصویر نگاری سے نفرت تھی۔ جسے مجتہد لوگ کفرخیال کرتے تھے۔ ایسی حالت میں تصویرنگاری کا فروغ پانا تو درکنار زندہ رہنا محال تھا۔ کچھ تو ان کی سخت گیریوں اور کچھ اس بے اطمینانی اور ہلچل سے جو ایسے ملکی انقلابات کا لازمی نتیجہ ہوا کرتی ہے۔ ہندوستانی فن تصویر اگر مطلقاً مٹ نہیں گیا تو مٹنے کے قریب ضرور ہوگیا۔

    شہنشاہ اکبر کے زمانہ تک ہم کو اس فن کے نشوونما کی مطلق خبر نہیں ہوتی۔ مگراکبرکا زمانہ ہمہ گیر ترقیوں کا زمانہ تھا۔ فن تصویر نے بھی اس میں نمایاں حصہ لیا۔ اکبر گوخود علم سے بے بہرہ تھا مگراس کو قدرت نے وہ قابلیتیں عطا کی تھیں جن پر کتابی علم کوئی اضافہ نہیں کرسکتا۔ اس کو موسیقی اور نقاشی، تاریخ اور ادب تصویر اور معماری سے یکساں شغف تھا۔ فتح پور سیکری میں اس نے جو عمارتیں بنوائیں ان میں ہندو اورمسلمان طرز تعمیر کو اس نفاست سے ملایا ہے کہ اس کی معمارانہ نگاہ پر حیرت ہوتی ہے۔ ہندو مصوروں کی اس نے بڑی قدر کی۔ ایک موقع پر اس نے ان کی نسبت کہا تھا،

    ’’ان کی تصویریں ہمارے تخیلات سے بالاترہوتی ہیں۔‘‘ اس سے واضح ہوتا ہےکہ تاوقتیکہ ہندو مصوروں کے فن میں خاص اوصاف نہ ہوتے، اکبر جیسا باریک بیں شخص جو فارس کے مصورانہ کمال سے واقف تھا، ہرگز ایسا نہ کہتا۔ اس کی سچی مصورانہ قدردانی کا ثبوت ان الفاظ سے ملتا ہے،

    ’’ایسے بہت سے لوگ ہیں جو مصوری سے نفرت رکھتے ہیں۔ میری نگاہ میں ایسے آدمیوں کی کچھ وقعت نہیں۔ مجھے ایسا گمان ہوتا ہے کہ مصور کی معرفت حق کے خاص مواقع حاصل ہیں کیونکہ جب مصور جانداروں کی شبیہیں اتارتا ہے اوران کے اعضا کی ترتیب کرتا ہے تواس کے دل میں یہ خیال ضرور آتا ہے کہ میں قالب میں جان نہیں ڈال سکتا۔ اوراس طرح خدا کی عظمت اور قدرت اس کے دل میں جاگزیں ہوجاتی ہے اور وہ عارف کے رتبہ کوپہنچ جاتا ہے۔‘‘

    فتح پور سیکری کے بعض محلوں کی دیواروں پر بالخصوص اکبرکی خواب گاہ میں اس زمانہ کے تصاویر کے کچھ مٹے ہوئے آثار باقی ہیں۔ مگران کی تعداد بہت کم ہے۔ اس دورکی سب سے بیش بہا یادگار کتابی تصویریں ہیں۔ ناظرین کو اوپر معلوم ہوا ہوگا کہ بودھوں کے زمانہ میں تصویریں دیواروں پر بنائی جاتی تھیں۔ کاغذ پر کھینچ کر چوکھٹوں سے آراستہ کرکے انہیں دیواروں پر لٹکانے کا رواج اس وقت کیا اکبر کے زمانہ تک نہیں تھا۔ یہ رواج یورپ سے آیا ہے۔ عہد مغلیہ تک دیواروں پر تصویر بنانے کا رواج کم وب یش باقی تھا۔ مگراس کا زوال اسی زمانہ میں شروع ہوگیا۔ چنانچہ اس دور کی سب تصاویر کتابوں کی شکل میں ہیں۔ مگراس رواج قدیم کا ہندوستان میں اب تک کچھ کچھ نشان باقی ہے۔ اور اب بھی بعض بعض پرانے وضع کے مکانات کی دیواروں پر ہاتھی، گھوڑے، اونٹ، مچھلی، سپاہی، پیادے وغیرہ کی رنگین تصویریں نظرآجاتی ہیں۔ ہاں اب یہ فن بہت بدمذاق ہاتھوں میں آگیا ہے۔ اوراس کے قدرداں اب معدودے چند ہیں۔ دور مغلیہ کی تصاویر کا ذکر کرتے ہوئے یورپ کا ایک پختہ مغز نقاد لکھتا ہے،

    ’’ان کی فطرت نگاریوں میں وہ پرشوق ولولہ موجود ہے، جو اس نئے زمانے کی تصاویر مناظر قدرت میں نظر آتا ہے، اور دھوپ چھاؤں کی جاں فزا کیفیات دکھانے کا انہیں خاص ملکہ تھا۔ جہاں مصور نے انسانی شبیہیں اتاریں وہاں اس کے جسدانسانی کے پر غور مطالعہ کا ثبوت ملتا ہے۔ اس کی باریک نگاہی، اس کے مشاہدے کی صفائی، اس کا کمال خط کشی اور اس کے چہرے سے جذبات دل کے اظہار کی قابلیت نے باہم مل کر ایسی تصویریں بنائی ہیں جو مغرب کے چھوٹے پیمانے کی بہترین تصاویر سے آنکھ ملا سکتی ہے۔‘‘

    مگر اکبر کا زمانہ فن تصویر کے انتہائے عروج کا زمانہ نہیں تھا۔ یہ فخر شاہ جہانی عہد کو حاصل ہے۔ شاہجہاں اس فن کا پرجوش قدرداں تھا۔ مغلیہ خاندان کے زوال اور خاتمہ کے ساتھ فن تصاویر کا بھی زوال اورخاتمہ ہوگیا۔ وہ ملوک گردی جو اس خاندان کے زوال کے بعد ملک پر مسلط ہوئی، فن تصویر کے حق میں جانگزا ثابت ہوئی۔ اٹھارہویں صدی کے آخر تک اس فن کی حالت ردی ہوتی گئی۔ آخر انیسویں صدی میں مغربی تہذیب اور فن کی کورانہ غلامی نے ہمارے اس فن کا قصہ تمام کردیا۔

    عہد مغلیہ کے دفاتر تصاویر بالعموم غیرمذہبی ہیں۔ ان میں تاریخ دنیا کے ایک معرکۃ الآرا زمانے کی معاشرت اور اخلاق کا عکس کھینچا ہوا نظر آتا ہے۔ کہیں مصور عشق اور محبت کا افسانہ اور رزم و بزم کی داستان سناتا ہوا نظر آتا ہے، کہیں امراء دربار اور ان کے معشوقوں کی شبیہیں اور ان کی پرلطف صحبتوں کا جلوہ دکھاتا ہے۔ کبھی کبھی اس کی نگاہ تخلیہ کے ان مواقع پر جا پہنچتی ہے جہاں عام آنکھوں کی رسائی نہیں، کہیں پہلوانوں کے خم ٹھونکنے کی آواز کانوں میں آتی ہے اور کہیں شکارگاہ کا نظارہ پیش نظر ہو جاتا ہے۔ میکشان حقیقت اور ان کے شیشہ و جام کے نظارے بھی خال خال دکھائی دے جاتے ہیں۔

    الغرض اس دور کا فن تصویر اول سے آخر تک شاہی دربار کے رنگ میں رنگا ہوا ہے جس کا مقصد شوقین امراء کی نفاست پسند طبیعتوں کو خوش کرنا ہے۔ ان تصاویر میں اکثر واقعہ نگاری کی انتہا کی حدیں کھنچ گئی ہیں۔ مصور واقعات پر ایسی اصلیت کا رنگ چڑھاتا ہے اورایسی امتیازی نفاست کے ساتھ کہ کہیں نغمہ مجلس کی دلکش صدا کانوں میں آنے لگتی ہے، کہیں ان رشک فردوس باغیچوں کی ہوائے جانفزا اورپھولوں کی فرحت بخش خوشبودل و دماغ کو تازہ کر دیتی ہے جہاں پرستان کی پریاں باریک ریشمی لباس زیب بر کئے نغمہ وستار کا لطف اٹھا رہی ہیں۔

    ان تصاویر میں ایک اور خصوصیت ان کے حاشیہ کی نفیس مرصع کاری ہے۔ اکثر نہات خوش رنگ، خوبصورت پھول بنائے جاتے تھے، جو اس زمانہ کی سنگ مرمر کی گلکاریوں سے بہت ہی مشابہ ہیں۔ رنگ آمیزی میں اس دور کے مصوروں کو کمال تھا۔ وہ بالعموم آبی رنگ استعمال کرتے تھے۔ اس زمانہ میں رنگوں کی ترکیب اہل فن خود کرلیتے تھے۔ بسا اوقات وہ رنگ آمیزی کے لئے مثلاً برش وغیرہ حتیٰ کہ مطلوبہ کاغذ بھی خود ہی بنا لیتے تھے۔ زمین عموماً سفید چینی مٹی سے تیار کی جاتی تھی۔ بعض نمونوں میں صرف خاکوں ہی پر اکتفا کی گئی ہے۔

    اس موقع پر عہد مغلیہ کی صرف تین تصویریں دی جاتی ہیں۔ (۱) پہلی تصویر ایک تاریخی واقعہ کی ہے۔ جہانگیر کا زمانہ ہے۔ فارس سے سفارت آئی ہے۔ اس زمانہ کے رواج کے مطابق سفیر بادشاہ کے لئے بیش قیمت گھوڑے اور بیش بہا تحائف ساتھ لائے ہیں۔ بادشاہ سلامت ابھی نمودار نہیں ہوئے۔ دونوں سفیران خاص انتظار میں سرتسلیم خم کئے ہوئے ہیں۔ ان کے چہرہ سے ادب اور احترام نمایاں ہے۔ نوبت خانہ میں شاہی خیرمقدم کا راگ الاپا جارہا ہے۔ صحن دربار میں اراکین سلطنت مؤدبانہ طرز سے ایستادہ ہیں۔ اس عکسی نقل سے اصل تصویر کے کمال کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا۔ مگر تصویر کے دیکھنے سے دل پرشاہی رعب اور جلال کا احساس ہوتا ہے۔ نوبت خانہ کا سین مصور کی جزنگاہی کی پرزور دلیل ہے۔ (۱) اس مضمون کے ساتھ زمانہ کے اس شمارہ میں یہ تین رنگین تصویریں بھی شائع ہوئی تھیں۔

    دوسری تصویر جہانگیر شاہ جہاں کے زمانہ کے کسی متصدی یا منشی کی ہے۔ اس تصویر میں مصور نے شبیہ نگاری کو کمال پر پہنچا دیا ہے۔ دھوپ اور چھاؤں ایسے استادانہ انداز سے ملائے گئے ہیں کہ تصویر میں ایک پیکر سنگ کی شان آگئی ہے۔ چہرہ کی متانت بہت موزوں ہے۔ اور شانوں کا جھکاؤ کہے دیتا ہے کہ کاغذوں کے بوجھ نے میری یہ گت بنا رکھی ہے۔ جن لوگوں کو یورپ کے مشہور چہرہ نگار مثلاً رمبرانٹ کی تصاویر کے عکسی نقلوں کے دیکھنے کا موقع ملا ہے، وہ خود فیصلہ کر سکتے ہیں کہ اس تصویر کا ان کے مقابلہ میں کیا پایہ ہے۔

    تیسری تصویر ہندو مذہبی رنگ میں ہے۔ یہ دوراکبر ی کے ہندو مصوروں کے کمال کا نمونہ ہے۔ رات کا وقت ہے۔ تصویرمیں دلآویز متانت اور راحت بخش سکون موجود ہے۔ اما(۱) اپنی دو سکھیوں کے ساتھ شیو کی پرستش کے لئے آئی ہیں۔ داہنے جانب شیوجی کی مورت جلوہ افروز ہے۔ اوپر سے پانی کی ایک پتلی دھار مورتی کے اوپر گرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ یہ گنگا ہیں جو پہلے شیوجی کے فرق مبارک سے گزر کر زمین پر آتی ہیں۔ اما کے چہرہ سے ناقابل بیان عقیدت کا اظہار ہو رہا ہے اور تصویر مجموعی طور پر ناظر کے دل پر ایک پاک پر اطمینان اثر پیدا کرتی ہے۔ (۱) اما راجہ دکش پرجا کی لڑکی تھی۔ شیوجی سے انہیں عشق تھا۔ ان کی عقیدت سے بالآخر شیوجی خوش ہوگئے ور ان کی مراد بر آئی۔

    افسوس ہے کہ عہد مغلیہ اور قرون وسطیٰ کے ہندوستانی فن تصویر کی اب تک اہل یورپ اور نیز ہندوستان نے وہ قدر نہیں کی جس کی وہ مستحق ہے۔ ان کے جمع کرنے اور ان کے کمالات ظاہر کرنے کی اب تک کوئی باقاعدہ اور وسیع کوشش نہیں کی گئی۔ مگر اس کا سبب یہ ہرگز نہیں کہ اس زمانہ کی تصویریں معدوم ہیں۔ بلکہ جن کے آبا واجداد کے خیال اور معاشرت کے وہ مخازن ہیں وہ خود ان کے محاسن اور اہمیت سے بے خبر ہیں۔ ہندوستانی فن تصویر پر اس وقت تک جتنی کتابیں لکھی گئی ہیں، وہ سب اہل یورپ نے لکھی ہیں۔ اور یہ قدرتی بات ہے کہ وہ یورپین فن تصویر کے مقابلہ میں ہندوستانیوں کے فن کو ہیچ سمجھیں۔ یہ بہت قابل شرم مگر واقعی امر ہے کہ ہندوستانی فن کے قدرداں ہندوستان میں اتنے نہیں ہیں جتنے یورپ میں اور شاید اہل ہند اس پر غور کرنا اس وقت تک نہ سیکھیں گے جب تک کہ اہل یورپ اس کی سفارش نہ کریں گے۔

    مأخذ:

    مضامین پریم چند (Pg. 44)

      • ناشر: مطبع مسلم یونیورسٹی,علی گڑھ
      • سن اشاعت: 1960

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے