Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ہندوستانی فکر و فلسفہ اور اردو غزل

گوپی چند نارنگ

ہندوستانی فکر و فلسفہ اور اردو غزل

گوپی چند نارنگ

MORE BYگوپی چند نارنگ


    بظاہر غزل اور فلسفے کا ربط عجیب سا معلوم ہوتا ہے۔ غزل خالص جمالیاتی شاعری ہے جو جذبے اور وجدان کے پروں سے اڑتی ہے، یہ بیان ہے وارداتوں اور حسن وعشق کی گھاتوں کا۔ عشق اور عقل دو متضاد قوتیں ہیں۔ چنانچہ عشقیہ شاعری میں بظاہر فلسفے کی باتوں کے لیے گنجائش نہ ہونا چاہیے۔ لیکن اصلیت اس کے برعکس ہے۔ وہ اس لیے کہ غزل کا شاعر اکثر شعری منطق کو بروئےکار لاتا ہے اور کسی نہ کسی طرح اپنے احساسات کو ان معقولات کے تحت لانا چاہتا ہے جن کا اثر اس نے مذہب اور تہذیب سے قبول کیا ہے۔ دوسرے یہ کہ غزل کی زبان رمزواشارہ ہے اور وجدانی و روحانی مسائل چونکہ رمزواشارہ کے سوائے کسی دوسری زبان میں ادا ہو ہی نہیں سکتے، اس لیے غزل میں حیات اور کائنات کے بنیادی مسائل پر غور کرنے کی روایت شروع سے ملتی ہے۔

    رہی یہ بات کہ اردو غزل ہندوستانی فکر و فلسفے سے کہاں تک متاثر ہے تو اسے وہ لوگ اہمیت نہیں دیں گے جو ادب کا مطالعہ اس کے فکری سرچشموں سے ہٹ کر کرتے ہیں یا جو ادب کے تہذیبی محرکات کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ وہ کہیں گے کہ اردو میں غزل فارسی سے آئی اور نہ صرف ساخت اور ہیئتی ڈھانچہ بلکہ موضوعات بھی وہیں سے آئے۔ لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ اردو زبان ہندوؤں اور مسلمانوں کے اشتراک سے وجود میں آئی اور اس کی پشت پر جو تصور ہے وہ ملی جلی تہذیب کا ہے۔ خود اردو زبان اسی گنگا جمنی اشتراک کی نشانی ہے اور جب لسانی ساخت ہی اشتراک و اختلاف پر مبنی ہے تو فکریات میں یہ اثر کیوں کر نہ آئےگا۔

    اردو کی دوسری اصناف کی طرح مشترک تہذیب کا اثر غزل نے بھی قبول کیا ہے۔ غزل نے بھلے ہی ویدانت یااپنشدوں کے فلسفے سے براہ راست کوئی اثر نہ لیا ہو، لیکن یہ اثرات غزل تک تصوف کے وجودی فلسفے کے ذریعے پہنچے، جس میں ہندوستانی اور اسلامی نظریات کا جوہر گھل مل کے ایک ہو گیا تھا۔

    اردو غزل نے جس سماج میں آنکھ کھولی اس میں ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں کے عقلی نظریات کارفرما تھے۔ دنیاکے اکثر مذہبوں کی طرح ہندو مذہب اور اسلام دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ اصل ہستی یاذات واجب الوجود صرف ایک ہے لیکن جب اس ذات واحدکی علمی اصطلاحوں میں تعبیر کی جاتی ہے اور اس کے اور کائنات کے باہمی تعلق کا پتہ چلانے کی کوشش کی جاتی ہے تو ذات باری کے دومختلف تصورات حاصل ہوتے ہیں۔

    اپنشدوں کی رو سے اصل ہستی ’’برہمہ‘‘ یعنی خدائے مطلق ہے جس تک عقل وادراک کی رسائی نہیں۔ برہمہ ہر قسم کی صفات سے بالا تر ہے۔ وہ موضوع کلی ہے۔ اس کے دو پہلو ہیں، آتما اور کائنات یعنی پرش اور پراکرتی۔ برہمہ، آتما اور کائنات ان تینوں میں ایک ہی بنیادی رشتہ ہے۔ ان کا فرق جو ہمیں عالم رنگ وبو کی کثرت میں نظر آتا ہے محض اعتباری ہے، اصل نہیں۔ حقیقت ایک ہی ہے جو ہر جگہ اور ہر کہیں موجود ہے، سوائے اس حقیقت کے جو کچھ نظر آتا ہے وہ ’’مایا‘‘ ہے یعنی فریب حواس ہے اور طلسم خیال۔

    اسلام خدا کا تصور ذات واحد کی حیثیت سے کرتا ہے۔ خدا کو یہاں بھی تعینات سے بری قرار دیا گیا ہے، مگر اس حد تک نہیں کہ اس کا کوئی تصور ہی قائم نہ ہو سکے۔ قرآن شریف کی رو سے ذات باری اور کائنات میں خالق اور مخلوق کی نسبت ہے۔ خدانے کائنات کو اپنے خاص ارادے سے پیدا کیا ہے چنانچہ کائنات ’’طلسم خیال‘‘ یا ’’فریب نظر‘‘ یاواہمہ (یعنی مایا) نہیں، بلکہ ٹھوس حقیقت ہے۔

    غرض اسلامی اور ہندوستانی نظریوں میں فرق ہے۔ ایک ذات واحد کو کائنات میں جاری و ساری بتاتا ہے۔ دوسرااس کے برعکس صفات کو ذات تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ایک دنیا کو فریب نظر کہتا ہے دوسرا اسے ٹھوس اصلیت قرار دیتا ہے۔ اسلام میں روحانی ماورائیت اور کائنات کے فریب حواس ہونے کے خیالات تصوف کے ذریعے داخل ہوئے اور تصوف کے بارے میں اتناا شارہ پہلے کیا جاچکا ہے کہ اس میں اور ویدانتی فلسفے میں گہری مشابہت ہے۔

    روحانی ماورائیت کے نظریے کو تصوف کی اصطلاح میں ’’وحدت وجود‘‘ یا ’’ہمہ اوست‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس کی رو سے ذات باری کائنات کی ہر شے میں جاری وساری ہے مگر ’’وحدت شہود‘‘ یا ’’ہمہ از اوست‘‘ کی رو سے کائنات مظہر ذات ہے لیکن عین ذات نہیں۔ جیسا کہ پہلے کہا گیا کہ ہندوستان میں زیادہ مقبولیت پہلے نظریے یعنی وحدت وجود ہی کو حاصل ہوئی کیونکہ اس میں اور ہندوستانی فلسفے میں روحانی ماورائیت کے خیالات قدر مشترک کی حیثیت رکھتے ہیں۔

    عہد وسطیٰ میں نظریہ وحدت وجود کے قبول عام کا یہ عالم تھا کہ مذہب، اخلاق، تہذیب، علمیت، قابلیت، شعروادب، شاید ہی زندگی کا کوئی شعبہ ہو جو اس سے متاثر نہ ہوا ہو۔ اردو غزل میں ’’روحانی ماورائیت‘‘ کے ان خیالات نے رفتہ رفتہ ایک باقاعدہ موضوع کی حثییت اختیار کر لی۔ غزل میں چونکہ عقلی نظریات کو بھی تاثرات کے پیرائے میں بیان کیا جاتا ہے، اس میں وجودی تصورات بے حد رنگا رنگ صورتیں اختیار کر گئے ہیں۔ اس سلسلے میں اگرچہ غزل کے صحیح رجحانات کا پتہ چلانا آسان نہیں اور شاعری کے بارے میں قطعیت مناسب نہیں، تاہم غزل میں بعض مضامین اور خیالات کی فکروتعمیم سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اردو غزل کا میلان وحدت وجود کے انہیں نظریات کی طرف رہاہے جو کثرت میں وحدت دیکھنے کی ہندوستانی ذہن کی خصوصیت خاصہ سے پوری طرح ہم آہنگ ہیں۔ یہ چند اشعار ملاحظہ ہوں۔

    ولی
    عیاں ہے ہر طرف عالم میں حسن بے حجاب اس کا
    بغیر از دیدۂ حیراں نہیں جگ میں نقاب اس کا

    ہواہے مجھ پہ شمع بزم یک رنگی سوں یو روشن
    کہ ہر ذرہ اُپر تاباں ہے دائم آفتاب اس کا

    شاہ عالم آفتاب
    واحد ہے لاشریک تو ثانی ترا کہاں
    عالم ہے سب کے حال کا تو ظاہرونہاں

    ظاہر میں تو اگرچہ نظر آتا ہے نہیں
    دیکھا جو میں نے غور سے تو ہے جہاں تہاں

    سودا
    اس قدر سادہ و پرکار کہیں دیکھا ہے
    بے نمود اتنا نمودار کہیں دیکھا ہے

    میر تقی میرؔ کایہ شعر دیکھیے، کوئی ویدانتی بھی اس سے بڑھ کر کیا کہےگا، 

    آنکھیں جو ہوں تو عین ہے مقصود ہر جگہ
    بالذات ہے جہاں میں وہ موجود ہر جگہ

    میر ہی کے چند اور شعر ملاحظہ ہوں، 

    تھا وہ تو رشک حور بہشتی ہمیں میں میر
    سمجھے نہ ہم تو فہم کا اپنی قصور تھا

    عام ہے یار کی تجلی میر
    خاص موسیٰ وکوہ طور نہیں

    گل ورنگ وبہار پردے میں
    ہر عیاں میں ہے وہ نہاں ٹک سوچ

    قائم چاند پوری
    جلوہ کس جاپہ نہیں اس بت ہر جائی کا
    یہ پریشاں نظری جرم ہے بینائی کا

    خواجہ میر درد خواہ اپنے مسلک کو کچھ نام دیں، ان کے یہاں بھی ماورائی تصورات کے یہی خیالات ملتے ہیں، 

    جگ میں آکر ادھر ادھر دیکھا
    تو ہی آیا نظر جدھر دیکھا

    جان سے ہو گئے بدن خالی
    جس طرف تو نے آنکھ بھر دیکھا

    ہے غلط گر گمان میں کچھ ہے
    تجھ سوابھی جہان میں کچھ ہے

    دل بھی تیرا ہی ڈھنگ سیکھا ہے
    آن میں کچھ ہے آن میں کچھ ہے

    ان دنوں کچھ عجب ہے میرا حال
    دیکھتا کچھ ہوں دھپان میں کچھ ہے

    ایک اور شعر میں فرماتے ہیں، 

    ڈھونڈے ہے تجھے تمام عالم
    ہر چند کہ تو کہاں نہیں ہے

    شاہ نیاز بریلوی کی یہ پوری غزل ہمہ اوست کی تخلیقی تشکیل ہے، 

    دید اپنے کی تھی اے خواہش
    اس کو ہر طرح سے بنا دیکھا

    صورت گل میں کھل کھلاکے ہنسا
    شکل بلبل میں چہچہا دیکھا

    شمع ہوکر کے اور پروانہ
    آپ کو آپ میں جلا دیکھا

    کرکے دعویٰ کہیں انا الحق کا
    برسردار وہ کھچا دیکھا

    کہیں وہ درلباس معشوقاں
    برسر ناز او ر ادا دیکھا

    کہیں عاشق نیاز کی صورت
    سینہ بریاں ودل جلا دیکھا

    اس سلسلے میں دو شعر غالب کے بھی ملاحظہ فرمائیے، 

    دہر جز جلوۂ یکتائی معشوق نہیں
    ہم کہاں ہوتے اگر حسن نہ ہوتا خود بیں

    ہے تجلی تری سامان وجود
    ذرہ بے پر توخورشید نہیں

    ان اشعار میں بار بار کہا گیا ہے کہ عالم رنگ وبو کی کثرت صفاتی ہے یا اعتباری۔ اس کی اصلیت وہی وحدت ہے جو کائنات کے ذرے ذرے میں جاری و ساری ہے۔ چنانچہ ماورائی تصورات کی وجہ سے بھی اردوغزل میں تنگ نظری اور تعصب کے لیے کوئی گنجائش نہیں۔ رواداری کے رجحانات ہندوستان کی وحدت آموز فضا میں صدیوں سے موجود رہے ہیں۔ اسلامی وجودی فلسفے میں بھی مذہب کے ظواہر کی بہ نسبت اس کی باطنی روح پر زیادہ زور دیا جاتا ہے۔ یہ باطنی روح چونکہ تمام مذہبوں میں یکساں ہے، اس لیے تصوف کے اثر سے اردو غزل میں باہمی اشتراک اور رواداری کی قوتوں کو خاصا فروغ حاصل ہوا۔

    ہمارے شاعروں نے ان مذہبی ظاہر داریوں کی ہمیشہ مذمت کی ہے جو دلوں میں دوری پیدا کرتی ہیں اور انسان کو انسان سے جدا کرتی ہیں۔ اردو غزل اس وحدت پر زور دیتی ہے جو تمام مذہبوں کی بنیاد ہے۔ مسلمان کا خدا اور ہندو کا برہمہ الگ نہیں۔ مسجد ہو یا مندر، کعبہ ہویا کلیسا، ہر جگہ ایک ہی وحدت کارفرما ہے۔ اردو غزل میں یہ رجحان رسمی یا روایتی نہیں بلکہ اس کی پشت پر صدیوں کی مشترک تہذیبی قوتوں کا ہاتھ رہا ہے۔

    محمد قلی قطب شاہ
    میں نہ جانوں کعبہ وبت خانہ ومے خانہ کوں
    دیکھیا ہوں ہر کہاں دستا ہے تجھ مکھ کا صفا

    شاہ حاتم
    یہ کس مذہب میں اور مشرب میں ہے ہندو مسلمانو
    خدا کو چھوڑ دل میں الفت دیر وحرم رکھنا

    سودا
    بہکےگا تو سن کے سخن شیخ وبرہمن
    رہتا ہے کوئی دیر میں اور کوئی حرم میں

    میرنے کیا خوب کہا ہے، 

    دیر وحرم کو دیکھا اللہ رے فضولی
    یہ کیا ضرور تھا جب دل سا مکاں بنایا

    گوش کو ہوش کے ٹک کھول کے سن شور جہاں
    سب کی آواز کے پردے میں سخن ساز ہے ایک

    ذوق
    کیسا مومن کیسا کافر کون ہے صوفی کیسا رند
    بشر ہیں سارے بندے حق کے سارے جھگڑے شر کے ہیں

    ملاحظہ ہو غالبؔ کس اعتماد سے کہتے ہیں، 

    دیر وحرم آئینہ تکرار تمنا
    واماندگی شوق تراشے ہے پناہیں

    وفاداری بہ شرط استواری اصل ایماں ہے
    مرے بت خانے میں تو کعبے میں گاڑوبرہمن کو

    ہم موحد ہیں ہمارا کیش ہے ترک رسوم
    ملتیں جب مٹ گئیں اجزائے ایماں ہو گئیں

    غرض اردو غزل کے یہ تصورات ہندوستانی فکروفلسفے سے پوری طرح ہم آہنگ ہیں۔ اردوغزل میں یہ تصوف کے ذریعے سے آئے۔ خود تصوف میں مسلمانوں کے ہندوستان آنے سے پہلے ویدانتی نظریات سے ملے جلے یہ وجودی خیالات جڑ پکڑ چکے تھے۔ مسلمانوں کے ساتھ جب یہ نظریات ہندوستان آئے تو چونکہ ہندوستانی مزاج سے مناسبت رکھتے تھے، یہاں بہت مقبول ہوئے اور اردو غزل نے بھی انہیں قائم رکھنے اور فروغ دینے میں پورا پورا حصہ لیا۔

    مأخذ:

    جدیدیت کے بعد (Pg. 205)

    • مصنف: گوپی چند نارنگ
      • ناشر: ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 2005

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے