Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

حسن اور فنکاری

مجنوں گورکھپوری

حسن اور فنکاری

مجنوں گورکھپوری

MORE BYمجنوں گورکھپوری

    فنکاری ایک فکریاتی حرکت (Ideological Activity) ہے جو انسان کے اجتماعی جذبات اور خیالات کی نمائندگی کرتی ہے۔ پوچھا جا سکتا ہے کہ اس اعتبار سے فنکاری اور انسان کے اجتماعی شعور کے دوسرے مظاہر کے درمیان کیا فرق ہے؟ فن کاری حقیقت کو ایک مخصوص تخیلی پیکر دے کر پھر سے پیدا کرتی ہے، لیکن یہ پیدائش جدید میکانیکی یا اضطراری نہیں ہوتی، جیسا کہ بعض مادہ پرست یاچند بھولے بھالے سطحی واقعیت کے شیدائی سمجھے ہوئے ہیں۔ فنکاری ایک پیچیدہ جدلیاتی تخلیقی عمل کے ذریعے واقعی یا خارجی حقیقت کو نیا جنم دیتی ہے۔

    وہ حال کو ازسرنو اس طرح تشکیل دیتی ہے کہ اس میں ایک زیادہ خوش آئند اور مبارک مستقبل کی جھلک ہم کو مل جائے اور ہم زندگی کو سرتاسر عذاب سمجھ کر شکست خوردگی، پسپائی اور فراریت کی طرف نہ مائل ہوں۔ بلکہ ہمارے اندر یہ احساس پیدا ہو جائے کہ ہماری موجودہ زندگی میں جو خرابیاں اور الجھنیں ہیں وہ ہماری ہی یعنی ہماری ہیئت اجتماعی کی پیدا کی ہوئی ہیں اور ہم ہیئت اجتماعی اور اس کے تمام اداروں کو بدل کران خرابیوں کو دور کر سکتے ہیں اور ایک ایسا مستقبل تیار کر سکتے ہیں جو ماضی اور حال دونوں سے زیادہ خوشگوار اور بافراغت اور دونوں سے زیادہ جمیل ہو۔

    فنکار ایک فرد ہوتا ہے اور فنکاری یقیناً ایک واحد اور منفرد شخصیت کی تخلیق ہوتی ہے۔ اس شخصیت کی تمام انفرادی خصوصیات فنکاری کی ترکیب میں داخل ہوتی ہیں۔ فنکا رلاکھ اپنے زمانے اور ماحول کی مخلوق سہی، جب ایک مرتبہ اس کا ایک کردار بن گیا اور اس نے ایک مستقل اکائی کی صورت اختیار کرلی تو اس کی تمام شخصی خصوصیات، اس کے جملہ جسمانی اور ذہنی حرکات وسکنات میں برروئےکار آئیں گی۔ وہاں اگر فنکار صالح کردار کا مالک ہے اور کھری شخصیت رکھتا ہے تو اس کے اختراعات اور زمانے کے میلانات اور مطالبات کے درمیان کوئی تصادم یا نفاق نہ ہوگا اور اگر کوئی مسخ شدہ کردار یا بگڑی ہوئی شخصیت ہے تو وہ جو کچھ پیدا کرےگا وہ حیات کلی یعنی ہیئت اجتماعی کے کام نہیں آ سکتا، بلکہ عام بنی نوع انسان کی فلاح و بہبود کے لئے مضر ثابت ہوگا۔

    لیکن یہ بھی مسلم ہے کہ شخصیتوں کو بگاڑنے کی ذمہ داری عام طور سے غلط معاشرتی نظام پر عائد ہوتی ہے۔ غلط معاشرتی نظام سے مراد وہ نظام ہے جواپنے مقدر اور اپنی غایت کی تکمیل کر چکا ہو اور اپنی میعاد سے آگے اپنے کو قائم رکھنے کی زبردستی کوشش کر رہا ہو۔ اب اگر کوئی شخصیت ایسی پیدا ہو گئی جو اپنے دور کی تمام رجعتی اور تخریبی قوتوں پر قابو پا گئی اور ان سے بلندوبالا ہوکر زمانہ پر اپنا نقش جما سکی تو وہ اپنے کو بھی مضر اثرات سے بچا لیتی ہے اور ہیئت اجتماعی کے لئے ترقی کی تحریک کا سبب بنتی ہے۔ ایسی ہی شخصیتیں اپنے اپنے دور کے لئے پیغمبر ہوئی ہیں، ایسی ہی شخصیتوں نے دنیا کی رہنمائی کی ہے اور ایسی ہی شخصیتیں تواریخ میں ناقابل فراموش یادگاریں چھوڑ گئی ہیں جو آنے والے دور کے لئے فکر و عمل کے میدان میں شمع راہ بنی ہیں۔

    لیکن انسان محض ایک مجرد اور بے تعلق فرد نہیں ہے۔ وہ جماعت کا ایک رکن بھی ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہوگا کہ ہر فرد کے اندر جماعت موجود اور کارفرما ہوتی ہے۔ ہر انسان ایک خاص ہیئت اجتماعی اور ایک خاص دور تمدن کی مخلوق ہوتا ہے اور دونوں کے اثرات و میلانات اس کے جسم اور ذہن کی تشکیل اور اس کے کردار کی ترکیب میں داخل ہوتے ہیں۔ فرد جماعت میں ہے اور جماعت فرد میں۔ اقبال نے شاید اسی نکتے کو سمجھ کر کہا تھا۔

    فرد تا اندر جماعت گم شود

    قطرہ وسعت طلب قلزم شود

    فرد جماعت میں فنا نہیں ہوتا بلکہ باقی رہتا ہے، ورنہ وہ جماعت کی نئی ترتیب و تحسین میں کوئی حصہ نہیں لے سکتا۔ قطرہ قلزم ہونے کے بعد بھی اپنی قطرہ والی شخصیت کو برقرار رکھتا ہے۔ موج دریا سے باہر بے اصل و بے حقیقت ہو جاتی ہے، لیکن دریا میں رہتے ہوئے بھی ہر موج اپنی فردیت کو قائم رکھتی ہے جس سے دریا کی عظمت اور اس کے شکوہ میں اضافہ ہوتا ہے۔

    یہ سب کچھ ہے، مگر سو حقیقتوں کی ایک حقیقت یہ ہے کہ انسان جماعت پسند اور جماعت آفریں جانور ہے۔ جب سے اس نے آدمیت کا رنگ و روپ پایا، وہ اجتماعی رہا اور اپنے اجتماعی نظام کو روز بروز زیادہ وسیع، زیادہ مستحکم اور زیادہ مہذب بناتا رہا۔ انسان جو کچھ کرتا ہے اس میں شعوری یا غیر شعوری طور پر ایک اجتماعی میلان یا غایت نمایاں یا پوشیدہ ضرور ہوتی ہے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو اس کی ہر حرکت ساقط الاعتبار ہے۔ انسان اور دوسرے جانوروں میں یہی فرق ہے۔ فن کاری میں بھی ہمیں یہ فرق ملےگا۔ انسان کے درجے س ے نیچے بھی بعض جانور ہیں جو جبلی یا یعنی اضطراری طور پر فنکار ہیں، لیکن ان کی فن کاری صرف ذاتی ضروریات اور مفاد پر مبنی ہے۔ وہ جو کچھ کرتے ہیں، اپنی فوری ضرورت سے مجبور ہوکر اور اپنی نسل کی بقا اور فلاح کے لئے کرتے ہیں۔ برخلاف اس کے انسان کی فنکاریاں اس کی ذاتی مسرت اور راحت کابھی سبب ہوتی ہیں اور پوری جماعت بلکہ اکثر تمام بنی نوع انسان کی ترقی وتہذیب میں بھی مددگار ثابت ہوتی ہیں۔

    مارکس اور اس کے ہم خیالوں کا یہ تصور بہت صحیح ہے کہ ایک خارجی دنیا کی عملی تشکیل و تخلیق، ایک غیرنامیاتی بے جان عالم عناصر کو حسب مراد صورت دینا اور اس میں نئی زندگی پیدا کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ انسان نوع حیوانی کا ایک ذی ارادہ ارتقائی رکن ہے۔ وہ حیوانات میں ایک ایسی مخلوق ہے جس کی تخئیل یہ ہے کہ تمام بنی نوع انسان کے ساتھ ویسا ہی برتاؤ کیا جائے جیسا کہ خود اپنی ذات کے ساتھ اور اپنی ضرورتوں کی طرح اپنے تمام ہم جنسوں کی ضرورتوں کا رفیقانہ احساس رکھا جائے۔ یہ شرف کسی اور مخلوق کو حاصل نہیں اور اگر انسان کو اشرف المخلوقات کہا جا سکتا ہے تو اسی بنا پر دنیا میں اور بہت سے جانور ہیں، مثلا شہد کی مکھیاں، مٹے، دیمک اور بھڑ اور چڑیوں میں بیا وغیرہ جو کافی تخلیقی یا تعمیری قابلیت اپنے اندر رکھتے ہیں اور ضرورت کے وقت بے ساختہ اس سے کام لیتے ہیں۔ وہ چھتے، دیموٹ اور گھونسلے ایسی فنکارانہ خوش اسلوبی کے ساتھ بناتے ہیں کہ انسان ان کی نقل بھی نہیں اتار سکتا۔

    لیکن یہ ادنی درجے کے جانور جو کچھ کرتے ہیں اپنی ذاتی یا زیادہ سے زیادہ اپنی اولاد کی فوری ضرورتوں کو رفع کرنے کے لئے کرتے ہیں۔ ان کی کوششیں یک طرفہ ہوتی ہیں۔ انسان کے مساعی اجتماعی قدر لئے ہوئے ہوتے ہیں۔ حیوانات جو کچھ کرتے ہیں اپنی قدرتی جسمانی ضرورتوں کے تقاضوں سے مجبور ہوکر کرتے ہیں اور انسان یعنی مہذب انسان اپنی جسمانی ضرورتوں سے آزاد ہوکر تخلیقی فن کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ وہ اپنی بہترین تخلیق اس وقت کر سکتا ہے جب کہ اس کی ادنی حیوانی ضرورتیں آسودہ ہو چکی ہوں اور وہ ان کے ترددات سے فراغت پا چکا ہو، غیرانسانی مخلوقات اپنی اپنی ذاتوں میں کھوئی ہوئی ہیں۔ وہ زیادہ سے زیادہ اپنے کو پھر سے پیدا کرسکتی ہیں اور انسان سائر کائنات کو پھر سے پیدا کر سکتا ہے۔

    دوسرے جانوروں کی تخلیقی کوششیں ان کی جسمانی خواہشوں اور ضرورتوں سے براہ راست متعلق ہوتی ہیں، یعنی وہ اپنے فطری مطالبات کے غلام ہوتے ہیں برخلاف اس کے انسان اپنی تخلیقات کا پورے احساس و فکر اور مکمل آزادی کے ساتھ سامنا کر سکتا ہے اور ان پر نگاہ بازگشت ڈال سکتا ہے جو خود اپنی جگہ ایک نئی تخلیقی حرکت ہے۔ جانور صرف اپنی نوع کی ضرورت کو اپنی تخلیقات کا پیمانہ بناتے ہیں، انسان ہر نوع کی ضرورت کے مطابق اور ہر وقت ہر موقع پر موضوع کے اعتبار سے نئے پیمانے مہیا یا ایجاد کر سکتا ہے۔ دوسرے حیوانات کی فنی تخلیق میں جو حسن ملتا ہے وہ اضطراری طور پر اس کی ترکیب میں داخل ہوتا ہے۔ انسان کو اس حسن کا نہ صرف شعور بلکہ درک بھی ہوتا ہے اور وہ اپنے ارادے اور اپنی قوت سے اس حسن کو اور زیادہ حسین و جمیل بنا سکتا ہے۔ انسان کی فنکاری نہ صرف ایک مفروضہ حسن کا اظہار ہوتی ہے بلکہ حسن کے اندرونی ناموس کے مطابق خوب سے خوب تر کی جستجو اور اسے پانے کا نام انسانی لغت میں فنکاری ہے۔

    حسن کے وجود اور اس کی اثر آفرینی سے آج تک کوئی انکار نہیں کر سکا ہے۔ لیکن یہ حسن ہے کیا؟ اس سوال نے بڑے بڑے اہل فکر و بصیرت کو حیران رکھا ہے۔ مشہور آفاق سائنسداں اور نظریہ ارتقا کا مبلغ ڈارون مور کی دم کا راز نہ سمجھ سکا۔ مور کی دم پر اس قرینے کے ساتھ گل کاریاں ہوتی ہیں ؟ اس سوال نے ڈارون کی عقل کو چکر میں ڈال رکھا تھا، وہ زندگی کے ہر مظہر کو جہدللبقا، قدرتی انتخاب اور بقائے اصلح کی روشنی میں سمجھنا چاہتا تھا لیکن محض حیاتیاتی مقصد کے ماتحت حسن یعنی قرینہ یا آہنگ کی تاویل نہیں کی جا سکتی۔

    مورکی دم میں اس توازن اور تناسب کے ساتھ خطوط والوان کا التزام نہ ہوتا تو بھی حیاتیاتی غرض یعنی نسل کی افزائش اور اس کی بقا کا مقصد تو پوراہی ہوتا رہتا۔ قدرت نے اپنے تخلیقی نظام میں یہ جمالیاتی اسلوب کیوں ملحوظ رکھا؟ اس کا جواب ہمارے پاس نہیں ہے تاوقتیکہ ہم یہ نہ تسلیم کر لیں کہ قدرت کے اندر وہ آہنگ طبیعی طور پر موجود ہے جسے ہم حسن کہتے ہیں۔ نہ صرف انسان بلکہ حیوانی اور نباتاتی اور بہ ظاہر بے جان جماداتی دنیا بھی ایک جمالیاتی رخ رکھتی ہے۔ جہاں کہیں بھی زندگی کی قوت ہے وہاں یہ حسن بھی موجودہے اور زندگی کی بقا اور فروغ کا ضامن ہے۔

    متقدمین سے لے کر آج تک لوگ حسن کو بلاوجہ ایک غیر ارضی چیز سمجھتے رہے ہیں اور جو چیز کہ سربسر انسانی دنیا کی پیداوار ہے اس کو خواہ مخواہ ایک دیو لوک سے منسوب کرتے رہے ہیں۔ اس ماورائیت نے حسن کو ایک سدیمی (Nebulous) شکل بناکر رکھ دیا ہے۔ افلاطون نے حقیقت، خیر اور حسن کی سہ گانہ تقسیم کرکے ایک عرصہ تک دنیا کو مبہوت رکھا، لیکن وہ خود بڑی الجھن میں تھا۔ اگر ہم غور سے مطالعہ کریں تو اس کے بیان سے زیادہ اس کے بعض وقت کے سکوت سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اپنے نظریہ تصورات کی وجہ سے اپنے نظام فکر میں بہت سے تناقصات محسوس کرتا ہے۔ حسن کے بارے میں بھی اس کو اپنی عدم وضاحت کا احساس تھا۔ اس نے عالم مثال یا عالم تصورات میں پناہ لے رکھی تھی۔ اس عالم اجسام سے باہر ایک عالم ہے، جہاں ہر شئے کا ایک ازلی تصور یا نمونہ موجود ہے۔ عالم موجودات کی ہر شئے اپنے تصور کی ایک ناقص نقل ہوتی ہے۔ پھر ان تصورات سے بلند اور سب پر احاطہ کئے ہوئے تصورات کا تصور، یا تصور اعلیٰ ہے۔ حسن اور خیر اور حقیقت اس تصور اعلیٰ کے تین مختلف رخ ہیں جو عالم اجسام میں الگ پائے جاتے ہیں۔

    افلاطون کے انداز سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے مرشد سقراط کی طرح حسن کو حقیقت اور خیر کے ماتحت تصور کرتا تھا۔ اس جگہ ایک بات یاد رکھنے کے قابل ہے۔ ہم سقراط اور افلاطون اور ان کے متبعین کے نظریہ تصورات سے آج ہرگز اتفاق نہیں کر سکتے۔ لیکن ان لوگوں کے بعض متفرق اقوال ایسے ہیں جو حقیقت کے راستے کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور جنہیں آج بھی ہم تسلیم کئے بغیر نہیں رہ سکتے، مثلا ًحسن کے بارے میں سقراط کے دو اقوال ہیں۔ ایک تو یہ ہے کہ حسن وہ چیز ہے جو لوگوں کو اچھی طرح معلوم ہو، دوسرا یہ ہے کہ حسن اس چیز کا نام ہے جو کسی غرض کو پورا کرے اور غرض سے مراد عملی مفاد ہے۔ آج ہم حیرت کر سکتے ہیں کہ جس مفکر نے حیات اور کائنات کے سارے نظام کی بنیاد مادی اور عملی دنیا سے الگ تصورات پر رکھی ہو وہ حسن کا ایسا افادی نظریہ کیسے پیش کر سکا۔

    بعدکے اشراقیوں اور صوفیوں نے اسی تصور یاعالم مثال کے نظریہ کو اور زیادہ وسعت دی اور ہر ترقی یافتہ زبان کے بڑے بڑے شاعروں اور مفکروں نے اس سرابی بنیاد پر رنگ برنگ کی نازک اور دل پذیر عمارتیں تیار کیں اور ان لوگوں نے لافانی حسن، ازلی حسن، لاہوتی حسن، حسن مطلق، حسن حقیقی وغیرہ جیسے بت تراشے جن کے آگے سر جھکانے والوں کی آج بھی کمی نہیں۔ کیٹس نے حسن کو حقیقت اور حقیقت کو حسن بتایا اور اسی کے اظہار کو شاعری کہا۔ بیدل بھی حسن حقیقت کے قائل ہیں یعنی حسن اور حقیقت کو ایک سمجھتے ہیں اور ہر وقت اور ہر جگہ اسے سامنے موجود مانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس کی جستجو نہ کرنا ہی اس کو پانا ہے۔

    حسن کے اس پراسرار تصور نے فکر و احساس کی دنیا میں بڑی بڑی نزاکتیں پیدا کیں اور اس کی بدولت شاعری اور دوسرے فنون لطیفہ کے ایسے ناقابل فراموش کارنامے وجودمیں آئے جن کی تواریخی قدر ہمیشہ مسلم رہےگی۔ اسی سلسلے میں حسن صورت اور حسن معنی، حسن خیال اور حسن عمل، حسن مجاز اور حسن حقیقت سے متعلق فلسفہ تصوف اور شاعری نے بڑی بڑی موشگافیاں کیں جن کی آخری تان رومانیت کا وہ دبستاں ہے جو مجاز اور حقیقت، جسم اور روح، صورت اور معنی کے درمیان کوئی دوئی نہیں محسوس کرتا، اور جس کی بہترین مثال انیسویں صدی کے اواخر میں انگریزی مصوروں اور شاعروں کی وہ جماعت ہے جو’’پیش رفائیلی اخوت‘‘(Pre-Rahpaelite Brother hood) کے نام سے مشہور ہے۔ ان لوگوں کادعوی یہ ہے کہ صورت معنی ہے معنی صورت، حقیقت مجاز ہے، مجاز حقیقت۔ دوئی کا احساس ہماری فکر و نظر کا قصور ہے۔

    یہ نظریہ جدید متجسس ذہن کے لئے شاید ناقابل قبول نہ ہوتا، اگر چھپے ہوئے طور پر اس کی اندرونی ترکیب میں ماورائیت یا تصوریت کی ایک مرکزی لہر کارفرما نہ ہوتی۔ حسن کی مادی اصلیت اور اس کی افادی غایت کو ہمار ے فنکاروں اور گیانیوں نے بالکل نظر انداز کر دیا اور حسن کو ایک غیرمادی اور ابد ی دنیا سے منسوب کرکے ایک سیمیائی نمود بنا ڈالا اور ہم حسن کی جستجو میں صحرا نور دیا مجذوب ہوکر رہ گئے۔ اس ماورائی رومانیت سے ہماری فکر وبصیرت اور اسلوب اظہار میں جتنی وسعت اور نکھار پیدا ہوا ہے اس کا اعتراف کرتے ہوئے ہمیں یہ کہنا پڑتا ہے کہ حسن کی تلاش میں ہم آج تک بہکے اور بھٹکے ہوئے ہیں، حالانکہ یہ سمجھنے کے لئے زیادہ گہرائی میں جانے کی ضرورت نہیں کہ حسن کا کوئی ازلی نمونہ یا کوئی جامع اور مانع تصور ایک استحالہ یا منطقی مغالطہ ہے۔ یہ احساس بیدل جیسے تصور پرست کو بھی تھا، اگرچہ وہ اس کا اظہار بڑے فریب آفریں الفاظ میں کرتا ہے،

    نزاکتہاست در آغوش مینا خانہ حسرت

    مژہ برہم مزن تانشبکنی رنگ تماشا را

    استعارات کا پردہ ہٹانے کے بعد اشارتاً شعر کا سادہ مطلب یہ ہے کہ انسانی حسرت یعنی انسان کی ضرورت اور مطالبے سے الگ حسن کی نزاکتوں کا وجود نہیں ہے اور پلک جھپکاتے، رنگ تماشا فنا ہو سکتا ہے یعنی رنگ تماشا کا وجود و عدم صاحب تماشہ کے ساتھ وابستہ ہے۔

    حسن یا عشق یا شاعری کے بارے میں ہمارے اسلاف نے اپنے زمانے اور ماحول اور اپنی قوت فکر کے مطابق لطیف اور نازک خیالات کا ایک ذخیرہ ہمارے لئے چھوڑا ہے جسے بغیر جوں کاتوں قبول کئے ہوئے بھی ہم اپنے دور کی تشکیل اور تحسین میں جذب کر سکتے ہیں۔ اگلے وقتوں کے افکار ونظریات سے ہمیں جس قدر بھی اختلاف ہو، لیکن ان کو سامنے رکھے بغیر ہمارا کام نہیں چل سکتا۔ نئے افکار و نظریات کی تخلیق کے واسطے ہمیں اپنے آبا و اجداد کے تخلیقی اکتسابات سے استقرا اور استخراج کرنا ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ نئے دور کی ضرورتوں اور تقاضوں کے مطابق ہمارے نتائج اور ہمارے بزرگوں کے نتائج کے درمیان مشرق اور مغرب کافرق ہو۔

    قبل اس کے کہ عصر حاضر کے میلانات کی روشنی میں حسن اور فنکاری کی اصل ماہیت تک پہنچنے کی کوشش کی جائے، جی چاہتا ہے کہ ہمار ے پیش روؤں نے اپنی اپنی ندرت فکر و بصیرت کے مطابق جو کچھ سمجھا اور کہاہے اس پر بھی ایک نظر ڈال لی جائے، اس لئے کہ اگلے زمانے کے خیالات میں ہمیں پوری حقیقت تو نہیں لیکن حقیقت کے کچھ پہلو مل جائیں گے اوران سے ہم زندگی کی نئی سمتوں میں آگے بڑھنے کے لئے اشارے پائیں گے۔

    انگریزی کا مشہور شاعر شیلے، جس کا مارکس تک قائل تھا، کہتا ہے، ’’عشق اور حسن اور مسرت کے لئے نہ تغیر ہے نہ موت، یہ توصرف ہم ہیں جو بدلتے رہتے ہیں۔‘‘ ظاہر ہے شیلے ایک تصورپرست تھا اور وہ حسن کو ایک ابدی حقیقت مانتا تھا اور انسان کو حادث اور فانی سمجھتا تھا۔ آج ہم اس منزل سے آگے بڑھ گئے ہیں اور کسی عالم کی ابدیت کے قائل نہیں ہیں یا یوں سمجھئے کہ سارے وجود ابدی پاتے ہیں۔ آج ہم حقیقت تک پہنچ گئے ہیں کہ حدوث اور ترقی کے سوا کوئی حقیقت دائمی اور غیرفانی نہیں ہے۔ شیلے نے صرف حسن کو لافانی بتایا تھا۔ آج حکیمانہ بصیرت ساری خلقت کو لافانی بتاتی ہے، مگر اس مسلمہ کی بنا پرکہ ہیئتیں بدلتی رہتی ہیں اور بدلتی رہیں گی۔ شیلے کی آواز اپنے زمانے کی آواز تھی اور اپنے زمانے کے اعتبار سے انقلابی آواز تھی جو ہمارے لئے اب ایک پرانی دھن ہو گئی ہے لیکن اس نازک اور حسین آواز کے ارتعاشات ہمارے اندرنئی دھن کا ذوق پیدا کر رہے ہیں۔

    شاعری کے پیرمغاں حافظ کے بعض ملفوظات یادگار ہیں جن میں حسن کی ماہیت کی طرف مبہم اشارے کئے گئے ہیں۔

    در ازل پر تو حسنش ز تجلی دم زد

    عشق پیدا شد و آتش بہ ہمہ عالم زد

    دوسری جگہ کہتے ہیں،

    دلبر آں نیست کہ موئے و میانے دارد

    بندہ طلعت آں باش کہ آنے دارد

    ایک دوسرا شعر ہے،

    جہاں شخص ز زلف ست و خط و عارض و خال

    ہزار نکتہ دریں کاروبار دل داریست

    اس ایک ’آن‘ اور ان ہزار نکتوں کا احاطہ کون کر سکتا ہے؟ عام انسانی شعور سے یہ منزل بہت دور ہے، لیکن شاعر نے ہمارے لئے اتنا تو کیا ہے کہ حسن کو چند سطحی احساسات اور محض ظاہری خصوصیات کی قید سے باہر لاکر اور آزاد کرکے اس کو وہ پاکیزگی اور شرافت عطا کی جو تمدن انسانی کی رو سے اس کا پیدائشی حق تھا۔

    فغانی شیرازی کا بھی ایک شعر سننے کے لائق ہے،

    خوبی ہمیں کرشمہ و ناز وخرام نیست

    بسیار شیوہاست بتاں راکہ زام نیست

    غالب کا مشہور شعر ہے،

    دہر جز جلوہ یکتائی معشوق نہیں

    ہم کہاں ہوتے اگر حسن نہ ہوتا خود بیں

    آسی غازی پوری کے یہ اشعار بھی اپنی مخصوص کیفیت رکھتے ہیں۔

    اسی کے جلوے تھے لیکن وصال یار نہ تھا

    میں اس کے واسطے کس وقت بے قرار نہ تھا

    لالہ وگل میں اسی رشک چمن کی ہے بہار

    باغ میں کون ہے اے باد صبا کیا کہئے

    اصغر گونڈوی ایک ’’نمونہ جلوہ بے رنگ‘‘ سے اس قدر گم کردہ ہوش ہیں،

    ’’کہ پہچانی ہوئی صورت بھی پہچانی نہیں جاتی‘‘

    ہمارے دور کے مشہور اور ممتاز شاعر فراق گورکھپوری نے اپنی غزلوں اور رباعیوں میں حسن کی جسمانیت پر بڑا زور دیا ہے اور اس کے مادی روپ میں بڑی لطیف رنگینیاں دیکھی ہیں اور یہ جدید نسل کے لئے ان کی بہت بڑی دین ہے۔ لیکن وہ بھی بسا اوقات ہمارے اندر یہ احساس پیدا کرتے ہیں کہ حسن کوئی غیبی یا داخلی قدر ہے۔

    اور عزیز لکھنوی نے تو حدکر دی۔ بعض مخصوص حالات یا ذہنی کیفیات کے زیر اثر کسی کی انگڑائی لاکھ ولولہ انگیز سہہی، لیکن عام طور سے انگڑائی یا جماہی کوئی حسین یا خوش آہنگ نظر نہیں پیش کرتی۔ اس کے بارے میں یہ کہنا کہ ’’اپنے مرکز کی طرف مائل پرواز تھا حسن‘‘ ایک ایسی بلاغت نظر ہے جس کو اوسط درجے کا ذہن مجذوبیت کے سوا اور کچھ نہیں سمجھ سکتا۔

    یہ ساری باتیں تو ایک طرف ذرا داغ کا چونچلا بھی دیکھئے۔ ساری عمر گوشت و پوست کے عشق میں سرشار رہے۔ سڈول اور اشتہا انگیز بدن کے علاوہ حسن کا کوئی مفہوم ان کے ذہن میں سمانہیں سکتا تھا، لیکن خواہ مخواہ کا شوق ہوا تو بغیر سمجھے بوجھے کہہ بیٹھے،

    وہی تو ہے شعلہ تجلی جو دشت ایمن سے تنگ ہوکر

    جب اس نے اپنی نمود چاہی کھلاحسینوں پہ رنگ ہوکر

    عصر جدید کے بعض مشہور شاعروں اور نقادوں، مثلا رابرٹ بریجیز (Robert Bridges) ڈبلیو بی یٹس (W. B. Yeats) ہربرٹ ریڈ (Herbert Read) آئی اے رچرڈز (I. A. Richards) وغیرہ نے بھی حسن یا اس حقیقت کے جس اظہار کا نام شاعری بتایا گیا ہے، کچھ عجیب اثری (Ethereal) نظریات پیش کئے ہیں۔ ان میں سے بعض نے جس قیاس و استدلال سے کام لیا ہے اسے ہم بظاہر علمی یا حکیمانہ کہہ سکتے ہیں لیکن ان کے نتائج کچھ اس قدر موہوم ہیں کہ ہم اصل حقیقت کی طرف سے جوں کے توں نابلد اور ناآشنا رہ جاتے ہیں۔ رابرٹ ریجیز نے اپنی طویل اور تھکا دینے والی نظم ’’عہدنامہ حسن‘‘ (Testament of Beauty) میں حسن کا جو نظریہ پیش کیا ہے وہ ایک قسم کا رومانی تصوف ہے۔ ڈبلیو بی یٹس (W. B. Yeats) کے مطالعے سے جو مجموعی اثر ہوتا ہے، یہ ہے کہ حسن کا تعلق ایک نہایت دور از خیال ماضی اور وہ بھی کلیاطیفی (Celtic) یعنی آئرلینڈ کے اساطیری ماضی سے ہے جو زندگی کی تمام خوبیوں اور سعادتوں کا سرچشمہ ہے۔ اس نے یٹس کی شاعری کو سرتاسر ایک متصوفانہ رمزیت (Mystical Symbolism) بناکر رکھ دیاہے جسے اوسط درجہ کا انسانی ذہن سمجھنے سے معذور ہے۔

    مفکرین میں افلاطون سے لے کر ہیگل اور ہیگل سے لے کر کروچے تک حسن اور فن کے متعلق جتنے نظریے قائم کئے گئے وہ سب کے سب ماورائی ہیں اور عناصر سے پرے ایک عالم مثال یا عالم خیال کے وجود کو تسلیم کرنے پر ہمیں مجبور کرتے ہیں۔ ایک منفرد وجود کی صورت میں جس کے پس پشت ایک مجرد اور مطلق حقیقت کارفرما ہے، تصور اعلیٰ کے مکمل اظہار کا نام حسن ہے۔ یہ ہیگل کا دعوی ہے جو بے انتہا الجھا ہواہے۔ اس کے یہ معنی ہوئے کہ ایک منفرد اور محسوس وجود کو حسین اسی وقت کہا جا سکتا ہے جب کہ وہ اپنے مجرد اورمطلق تصور کے ساتھ پوری یگانگت رکھتا ہو، لیکن یہ مطلق اور مجرد تصور کیا ہے اور وہ کون سے معقول اور مستند شواہد اور علامات ہیں جن کی بنا پر ہم اس تصور کو قائم بالذات اور واجب ماننے کے لئے مجبور ہیں؟

    ہیگل کے سار ے فلسفے کی بنیاد جدلیاتی حرکت پر ہے۔ اس کا خیال ہے کہ اصلی اور اساسی حقیقت تصور ہے، نہ کہ وجود اور یہ تصور فطری طور پر متحرک، تغیر پذیر اور مائل بہ ارتقا ہے۔ ’’صورت، تردید صورت اور تجدید صورت‘‘ اس مثلثی عمل کا کا نام زندگی ہے۔ اگر ہم تھوڑی دیر کے لئے یہ مان بھی لیں کہ اصل حقیقت وجود نہیں ہے بلکہ تصور ہے تو بھی کسی طرح سمجھ میں نہیں آتا کہ تصور مطلق کہاں سے پیدا ہو گیا اور جدلیاتی حرکت یکایک ایک منزل پر آکر رک کیوں گئی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہیگل بلاکسی معقول دلیل کے جدلیاتی حرکت کو ایک نقطہ پر لاکر ختم کرنے کے لئے بے چین تھا، اس لئے کہ اس کو پروشی یعنی جرمانی شہنشاہی کو مابعد الطبیعاتی بنیاد پر قائم رکھنا تھا۔ اس کے سارے نظام فکر میں یہ غرض کارفرما معلوم ہوتی ہے۔

    ہیگل اور اس کے مدرسے کے دوسرے مفکرین کے فلسفے میں ہمیں تناقصات ملتے ہیں، لیکن ان کے پردہ میں ہمیں زندگی کی ماہیت کے بہت سے نئے پہلوؤں کی جھلکیاں بھی نظر آتی ہیں۔ ہیگل اور اس کے مقلدین کایہ معمولی کارنامہ نہیں ہے کہ انہوں نے ہستی کو ایک جامد اور مردہ تصور سے ایک زندہ یعنی متحرک اور انقلاب پذیر حقیقت میں تبدیل کر دیا اور زندگی کو حالت کے بجائے حرکت مان کر ایک مسلسل تواریخ بتایا۔ یہ ہیگل کی وہ دین ہے جس سے بعید ترین مستقبل میں بھی کوئی نسل انحراف نہ کر سکےگی۔

    حقیقت کا ایک اور رخ جو ہیگل کے متناقص فلسفے کے اندر چھپا ہوا نظر آتا ہے، وہ یہ ہے کہ اگر حقیقت اولی تصور ہی ہے تو مادی یا جسمانی روپ کے بغیر اس کا ہونا نہ ہونا برابر ہے۔ ہیگل اس ہستی کو حسین مانتا ہے جو اپنے تصور کا مکمل اظہار ہو، یعنی وہ چیز حسین ہے جو اپنی نوع میں سب سے اعلیٰ ہو۔ اس سے ہم یہ نتیجہ تو نکال ہی سکتے ہیں کہ حسن کسی مجرد تصور میں نہیں ہوتا، بلکہ ایک زندہ اور منفرد مظہر میں ہوتا ہے۔ حسن، تصور اور اس کی جسمانی شبیہ کے درمیانی مکمل یگانگت کا نام ہے یعنی حسن نہ تو تنہا تصور میں ہے، نہ تنہا جسم میں، بلکہ دونوں کی انتہائی ہم آہنگی میں ہے۔

    دوسری بات جو قابل لحاظ ہے وہ یہ ہے کہ حسن سے جو احساس ہمارے اندر پیدا ہوتا ہے یا پیداہونا چاہئے وہ کمال مسرت و انبساط ہے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو انسان کے لئے حسن کا وجود اور عدم برابر ہے۔ جس چیز سے زندگی کی نمو اور بالیدگی میں اضافہ نہ ہو وہ حسین نہیں ہو سکتی۔ انسان کے لئے سب سے زیادہ اہم اور محبوب چیز زندگی ہے اور اسی نسبت سے انسان موت سے نفرت کرتا رہا ہے۔ اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ حسن عین زندگی ہے۔ وہ چیز حسین ہے جس میں زندگی کے فروغ کا امکان ہو، یعنی جس میں ہم اپنی زندگی کی تخئیل کی جھلک پائیں۔ وہ چیز حسین ہے جو ترقی پذیر زندگی کی علامت ہو، جو ہمیں زندگی کی نت نئی توانائیوں کا احساس دلائے۔

    اب اگریہ تعریف صحیح ہے کہ زندگی اور اس کے مظاہر حسن کے اصلی ترکیبی عناصر ہیں تو بیماری یا انحطاط کے اسباب و علامات قدرتی طور پر غیرحسن یاقبح یا بدصورتی قرار پائیں گے۔ تمام موجودات میں، چاہے وہ جمادات ہوں یا حیوانات، وہی صورتیں جمیل ہیں جو یا تو ساخت اور ہیئت کے اعتبار سے سطح انسانی سے زیادہ قرابت رکھتی ہیں، یا اس کی زندگی کی فلاح اور فروغ میں بیش از بیش مؤید ثابت ہوتی ہے۔ خود ہیگل اور پیروان ہیگل کے اکثر ملفوظات ایسے ہیں جن کا مفہوم یہ ہے کہ نظام قدرت میں وہی عناصر اور مظاہر حسین ہیں جو انسان کی یاد دلائیں یا جو شخصیت کا اظہار کریں۔ ان مفکروں کو اصرار ہے کہ کائنات میں حسن کے معنی صرف یہ ہیں کہ جن چیزوں کو حسین کہا جاتا ہے وہ کسی نہ کسی اعتبار سے حیات انسانی کے اغراض ومقاصد کے ساتھ واسطہ رکھتی ہیں یا اس واسطے کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔

    ان خیالات پر غور کیجئے تو تسلیم کرنا پڑےگا کہ اسلاف کے نتائج فکر میں آج بھی ہمیں زندگی کے اسرار و حقائق کی بصیرت افروز جھلکیاں ملتی ہیں جنہیں ہم قبول کرنے کے لئے مجبور ہیں، مثلا کانٹ کے مشہور شاگرد شلر (Schiller) کا یہ خیال کہ حسن محض ذہن کی پیداوار نہیں بلکہ نظام قدرت میں موجود ہے، حقیقت سے بہت قریب ہے اور آج بھی اس کے اس قول کی تردید مشکل ہی سے کی جاتی ہے کہ فنون لطیفہ مادہ اور ذہنی صورتوں میں یا نفس انسانی اور خارجی مظاہر قدرت سے باہم ربط پیدا کرتے ہیں۔ شلر بھی حسن کو زندگی ہی بتاتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اپنے زمانے کے عام میلان کے مطابق وہ جسم اور روح کے فرق کا قائل ہے اور حسن کو جسمانی نہیں بلکہ ایک غیرمادی کیفیت تصور کرتا ہے۔

    اس کا یہ خیال بھی بہت بڑی حد تک صحیح ہے کہ فنون لطیفہ اپنے حسن اسالیب کی بدولت ہمیں قدرت پر فتح پانے میں مدد دیتے ہیں اور مادہ کو لطیف بناتے ہیں۔ اگر ہم اپنے اسلاف کے اکتسابات فکری کو تاریخ کی روشنی میں دیکھیں تو ہمیں نہ ان پر کوئی اعتراض کرنے کا حق ہوتا ہے، نہ ان سے کوئی شکایت ہو سکتی ہے۔ زاویہ اور سطح اور نقطہ نظر کا فرق ہے۔ جسم اور روح مادہ اور شعور کے درمیان تضاد اور تناقص قائم کرکے ہم نے خواہ مخواہ اپنے لئے الجھنیں پیدا کر لی ہیں۔ مادہ اور شعور دراصل توام اور شریک ازلی ہیں۔ شعور کی قدیم ترین صورت قوت اور اس کی اولیں علامت حرکت ہے۔

    حقیقت یہ ہے کہ ہمار ے اور تجربات کی طرح حسن کا تجربہ بھی دوسمتی ہے۔ نہ یہ کہنا صحیح ہے کہ حسن کا وجود خارجی ہے اور نہ یہ دعوی ٹھیک ہے کہ حسن یک سر ایک داخلی کیفیت ہے۔ رنج والم، انبساط و مسرت، سردی اور گرمی کی طرح حسن کا وجود بھی مطلق نہیں اضافی ہے، یعنی ایک حساس ہستی اور ایک محسوس وجود، ایک خارجی مؤثر اور ایک اثر پذیر ذات، ایک معروض اور ایک موضوع کے درمیان ایک ناگزیر اضافت یا تعلق کا نام حسن ہے جو خود اپنی جگہ بڑی اصلی اور ٹھوس حقیقت ہے۔ نہ درد، غصہ، رنج، مسرت بالکل داخلی کیفیتیں ہیں۔ نہ گرمی سردی وغیرہ محض خارجی موجودات کے اعراض ہیں۔ حسن اور گرمی و سردی میں یہ فرق ضرور ہے کہ مؤخرالذکر اثرات کم و بیش زمانہ قبل تاریخ سے اب تک ایک معیار پر قائم ہیں اور حسن کا معیار ملک بہ ملک اور دور بہ دور متغیر ہوتا رہا ہے۔

    لیکن کون یہ کہہ سکتا ہے کہ حدت و برودت کا احساس ہمارے بشر نما (Anthropoid) مورثوں میں اتناہی شدید اور نازک تھا جتنا کہ ہم میں ہے اور آج بھی اتنا تو ہے ہی کہ گرم ممالک کے رہنے والوں کو وہاں کی گرمی اس شدت کے ساتھ نہیں محسوس ہوتی جس شدت کے ساتھ سرد ممالک کے لوگ اسے محسوس کریں گے، اگر ان کو گرم ممالک میں منتقل کر دیا جائے۔ بہ ہر صورت ہر خارجی محسوس کے لئے کسی ذی حس ہستی کا ہونا ضروری ہے، بالکل اس طرح جس طرح ہر احساس یا تاثر کے لئے ذی حس ذات سے باہر اور الگ کسی خارجی محسوس ہو یا موثر کا وجود لازم ہے۔

    کرسٹوفر کا ڈول نے ایک طرف سردی، گرمی، انقباض، انبساط، خوف وغیرہ اوردوسری طرف حسن کے درمیان جو فرق ثابت کرنے کی کوشش کی ہے وہ زیادہ اصلی اور قابل اعتبار نہیں۔ ذات ذی حس سے باہر کسی نہ کسی مؤثر وجود کو تسلیم کئے بغیر احساس کا تصور نہیں کیا جا سکتا اور احساس کے بغیر، جس کا تعلق ذات ذی حس سے ہے، خارجی اور مادی محسوسات و موثرات کا وجود اور عدم برابر ہے۔ انگریزی کے مشہور نقاد آئی اے رچرڈز (I. A. Richards) کا یہ خیال ایک حد تک صحیح ہے کہ حسن ایک طرح کی حسی نسبت یا ہم احساسی (Coenesthesid) ہے، یعنی ایک خارجی محرک یا مہیج سے ایک متناسب داخلی اثر پیدا ہونے کا نام حسن ہے۔ یہ خیال خطرے سے خالی نہیں، کیونکہ اس سے داخلیت میں کھوکر رہ جانے کا اندیشہ ہے۔

    کل زندگی کی طرح حسن کی ترکیب میں بھی ثنویت ہے۔ حسن بھی ایک جدلیاتی حقیقت ہے جس کے دواجزاء ہیں جو بیک وقت باہم متقابل اور رفیق ہیں، ایک خارجی وجود اور ایک نفس ذی ادراک، یہ دونوں اجزا یکساں اہم اور لازم ہیں۔ دونوں کے تعاون عمل کے بغیر حسن کا تصور محض استحالہ ہے۔

    اگر ہم یاد رکھیں کہ حسن کاایک مجرد اور مطلق تصور کی حیثیت سے کہیں کوئی وجود نہیں تو ہم کبھی غلط اندیشی کا شکار نہیں ہو سکتے۔ حسن کا تصور نہیں ہوتا بلکہ حسین چیزوں کا وجود ہوتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ انسان کی فنی تخلیقات سے پہلے کائنات میں وہ خصوصیت موجود تھی، جس کو حسن کہتے ہیں۔ نظام قدرت میں ایک ابتدائی قرینہ، ایک ناقص تناسب، ایک خام آہنگ کا پتہ چلتا ہے جہاں کہیں تخلیقی حرکت کا وجود ہوگا وہاں کسی نہ کسی حد تک آہنگ یا تال سم یا قرینہ بھی ضرور پایا جائےگا، لیکن اس کو قرینہ یا حسن انسان نے سمجھا، اس لئے کہ اس کو اپنی زندگی کی فلاح و بہبود اور تہذیب و تحسین میں ضروری اور مددگار پایا۔ اگر داخلیت کے خطرے سے ہم ہوشیار رہیں تو شاعری کے استعارات میں اقبال، بے نظیر شاہ وارثی اور فراق کے یہ اشعار ہمارے اسی خیال کی ترجمانی کرتے ہیں،

    نعرہ زد عشق کہ خونیں جگرے پیداشد

    حسن لرزید کہ صاحب نظرے پیداشد

    اقبال

    نہو اپنی آنکھ جو حسن بیں تو جہاں میں کوئی حسیں نہیں

    جو وہ غزنوی کی نگاہ ہو، وہی خم ہے زلف ایازمیں

    بے نظیر شاہ وارثی

    مائل دید کوئی اہل نظر ہوتا ہے

    حسن اب تک تو نہ تھا حسن مگر ہوتا ہے

    فراق گورکھپوری

    حسن، خیر اور حقیقت کے درمیان ہزاروں برس سے جو فرق بتایا جا رہا ہے وہ کوئی اصلی اور اساسی فرق نہیں ہے۔ وہ محض رخ اور زاویہ نظر کافرق ہے۔ تینوں کی بنیاد ایک ہے جو یقینا ًافادی ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ ثقافتی ترقی اور تمدنی تواریخ کے ساتھ خود مفاد کامعیار بدلتا رہا اور کثیف سے لطیف اور لطیف سے لطیف تر ہوتا رہا۔ یہ بھی انسانی زندگی کی بدلتی ہوئی ضرورت اور اس کی فلاح کے تقاضے سے ہوا ہے۔ اس کو ایک معمولی مثال کے ذریعے سے سمجھئے۔ انسان بہت پرانے زمانے سے اوزار بنا رہا ہے۔ قدیم ترین زمانوں کے اوزار اور آج کل کے نفیس سائنسی اوزار و آلات کے درمیان جو زمین و آسمان کا فرق ہے وہ ہم کو صحیح اندازہ کرنے سے قاصر رکھتا ہے لیکن قدیم ترین تواریخ میں کسی دو دوروں کے اوزار کا مقابلہ کیجئے جو ایک دوسرے کے فوراً بعد آئے ہوں، مثلاً قدیم حجری اور جدید حجری دوروں کے اوزار کو دیکھئے۔ آخرالذکر دور کے اوزار اول الذکر دور کے اوزار کے مقابلے میں زیادہ سڈول، زیادہ سبک، زیادہ چکنے اور زیادہ راحت بخش ہوں گے، حالانکہ دونوں زمانوں میں پتھر ہی کے اوزار بنائے جاتے تھے۔

    قدیم حجری دود کے انسانوں نے بہت جلد محسوس کیا کہ اس کے بنائے ہوئے بے ڈول اور کھردرے اوزار نہ صرف اس کے ہاتھوں کے لئے تکلیف دہ اور ضرر رساں ہیں بلکہ ان سے اس کی کاری گریوں میں زحمت اور تاخیر بھی واقع ہوتی ہے۔ مسلسل عمل اور فکر و تکرار عمل کے بعد اس کی سمجھ زیادہ واضح ہوتی گئی اور اس کے ہاتھ منجھتے گئے، یہاں تک کہ جدید حجری دور آتے آتے وہ ایسے اوزار بنانے لگا جو اس سے پہلے کے دورکے اوزاروں سے کہیں زیادہ آرام بخش تھے اور جن سے وہ زیادہ سہولت کے ساتھ کم وقت میں اپنا کام کر سکتا تھا۔

    غرض کہ فنی اختراعات میں عہدبہ عہد جو لطافتیں پیدا ہوتی گئیں ان میں بھی ایک مقصدی میلان اور ایک افادی پہلو علانیہ یا مضمر موجود ملےگا۔ حسن کبھی مقصود بالذات نہیں رہا اور فن کسی زمانے میں آپ اپنی غایت نہیں قرار پایا۔ حسن اور فنکاری دونوں معاشرتی مطالبات سے وابستہ رہے ہیں۔ آج فنکاری لطافت، نزاکت اور پیچیدگی کی ایسی منزل پر ہے کہ ہم اس کی مقصدی تہہ تک مشکل سے پہنچ پاتے ہیں اور اس کی تاویل میں طرح طرح کے دو رازکار نظریات گڑھتے رہتے ہیں، لیکن ہمارے قدیم ترین اجداد کی زندگی میں افادی اور جمالیاتی دو الگ الگ قدریں نہیں تھیں۔

    فن کاری کا آغاز حیات انسانی کے ناگزیر مطالبات سے ہوا۔ الفاظ کی فن کاری سے بہت پہلے پہاڑوں کے اندر جائے پناہ بنانا اوزار اور ظروف تیار کرنا، جسمانی حرکات و سکنات سے مافی الضمیر کا اظہار کرنا اور کچھ عرصہ بعد چھینی سے پتھر پر نقش و نگار بنانا، فنکاری کے سب سے زیادہ اہم اکتسابات تھے۔ یہ نقش و نگار یا تو واقعاتی زندگی کی نمائندگی کرتے تھے، یا تعویذی یا طلسمی ہوتے تھے۔ ہمارے وحشی آبا و اجداد یا تو نظام کائنات کے ساتھ اپنے مقابلے اور پیکار کے کارناموں کو نقوش کی صورت میں چٹانوں پر اور اپنے ظروف پر ثبت کرتے تھے، یا اپنے زمانے کے معصوم عقائد کے مطابق جو ان کے لئے زندگی کے سارے فلسفے اور سائنس کا حکم رکھتے تھے، وہ ایسے نقو ش بناتے تھے جو طلسمی تاثیر رکھتے تھے۔ ان کا ایمان یہ تھا کہ اس وسیلے سے وہ غیرانسانی عناصر اور موثرات پر قابو پا سکیں گے، یا ان کو راضی کرکے اپنے اغراض و مقاصد کے لئے موافق اور مبارک بناسکیں گے۔ یہ گویا انسان کی قدیم ترین کوششیں تھیں اپنے حال یعنی مقدر کو بدلنے اور سدھارنے کی۔

    اولیں بنی نوع انسان کے لئے حسن کا تصور اقلیدس یا ہندسی تھا، یعنی ابعادی تناسب سے الگ (Dimensional Proportion) حسن کا کوئی مفہوم نہ تھا۔ زمانے کے امتداد کے ساتھ انسانی ذہن زیادہ بالغ، زیادہ رسا، زیادہ دور اندیش ہوتا گیا اور اسی نسبت سے حسن کے مفہوم میں بھی روز بروز زیادہ بلاغت اور لطافت آتی گئی، یہاں تک کہ آج ظاہری تناسب یا سطحی آہنگ کی جگہ باطنی تناسب یا اندرونی آہنگ نے لے لی ہے۔ نقاشی کے پارسی، راجپوت اور مغل دبستانوں کا موازنہ جدید دبستانوں سے کیجئے۔ مؤخرالذکر دبستانوں کی نقاشیاں قدیم روایتی معیار سے بڑی بھونڈی اور بدقرینہ معلوم ہوں گی، لیکن آج کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ نقاشیاں پرانے زمانوں کی نقاشیوں کے مقابلے میں زیادہ تربیت یافتہ اور بلیغ و لطیف نہیں ہیں۔ ان کے اندر خطوط والوں کا جو آہنگ ہوتا ہے اس کا تعلق ہمارے حواس ظاہری سے اتنا نہیں ہے جتنا کہ باطنی ادراک سے ہے۔ جیسا کہ ہم ایک بار کہہ چکے ہیں حسن کا تصور دور بہ دور کثیف سے لطیف ہوتا گیا ہے۔ اگر کسی کو اصرار ہو تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ حسن جسمانی سے غیر جسمانی، مادی سے غیر مادی ہوتا گیا ہے۔

    جوبات سب سے زیادہ ناقابل تردید ہے، وہ یہ ہے کہ حقیقت اور خیر کی طرح حسن کا تصور بھی خطہ بہ خطہ اور عہدبہ عہد بدلتا رہا ہے۔ ماحول کے مقتضا اور معاشرت کے مطالبے کے مطابق حسن کے مفہوم میں تغیرات واقع ہوتے رہے ہیں۔ حسن ہو یا خیر یا حقیقت سب کی بنیاد انسانی زندگی کی فلاح اور ترقی پر ہے، اس بات کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے۔ تینوں قدریں تغیر پذیر اور مائل بہ ارتقا ہیں۔ حسن کسی قدر مطلق کا نام نہیں ہے۔ فنکاری کوئی وحدانیت نہیں ہے۔ تہدیب ہر ملک اور ہر زمانے کے لئے ایک نہیں ہو سکتی۔ حسن کی ابدیت اور فنکاری کی ہمیشگی کے اگر کوئی معنی ہو سکتے ہیں تو صرف یہ کہ حسن کی ضرورت انسان کی زندگی میں ہمیشہ رہے گی اور فنکاری کے بغیر انسانی معاشرت بہیمیت سے بدتر ہو جائےگی۔

    لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ حسن کا ایک ہی تصور ہمیشہ قائم رہےگا اور فن کاری کا ایک ہی معیار روز قیامت تک باقی رہےگا۔ اس قسم کے مجرد اور بے معنی مسلمات کو حسن اور فنکاری سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ فنکاری کے اکتسابات انسانی زندگی کے مفاد کے لئے ہیں اور مفاد کا معیار برابر بدلتا رہتا ہے اور بدلتا رہےگا۔ قدیم ترین زمانوں کی فن کاری کے نمونے ہمارے دعوی کی تصدیق کرتے ہیں۔ جیسا کہ ہم بتا چکے ہیں کہ فن کاری کے اولیں نمونے اور حسن کے تصور کے قدیم ترین مظاہر ظروف اور اوزار ہیں۔ ان کے بعد گھروں اور عبادت گاہوں کی عمارتیں ہیں جو ابتدا میں نہایت بھونڈی اور بھدی ہوتی تھیں، لیکن جو رفتہ رفتہ اس قدر تربیت یافتہ ہوتی گئیں کہ آج ہم ان کی اصلی غایت کو بھول گئے اور ان کی فنی کیفیتوں کو مقصود بالذات قدر سمجھنے لگے۔

    حسن، خیر، حقیقت یہ تمام قدریں انسان کی پر محن اور پر آزمائش زندگی کے نتائج ہیں۔ اتنا سمجھنا کوئی مشکل بات نہیں، بشرطیکہ ہم ایمانداری اور سچائی کے ساتھ سمجھنے کے لئے آمادہ ہوں۔ قدرت کی طرف سے انسان پر جو مجبوریاں عائد تھیں اور ان کی وجہ سے وہ جن شدائد اور مصائب میں مبتلا تھا، ان سے وہ برابر مقابلہ کرتا رہا اور بتدریج ان پر فتح پاتا رہا۔ اسی مقابلے اور مجاہدے کا ایک ثمرہ فنکاری ہے۔ محنت نے انسان کی زندگی میں وہ قدر پیدا کی جس کو حسن کہتے ہیں اور حسن کا تصور محنت کے اسلوب کو سنوارتا رہا۔

    ارتقاء بشری کی تواریخ میں محنت نے بہت بڑا حصہ لیا ہے۔ محنت جو زندگی کی توام بہن ہے، انسان کے جسمانی اعضا اور دماغی اور روحانی قوی کو روز بروز زیادہ توانا، زیادہ حسین، زیادہ قابل اعتماد اور زیادہ کارگر بنانے میں بڑی مددگار رفیق رہی ہے۔ مثال کے طور پر ہمار ے جسمانی اعضاء میں ہاتھ کو لے لیجئے۔ ہمارا عام خیال یہ ہے کہ جو صحیح ہے کہ ہاتھ محنت کی تخلیق کرتاہے۔ لیکن اس حقیقت کا ایک دوسرا رخ بھی ہے جو اتناہی اہم ہے۔ محنت نے ہمارے ہاتھ کی بھی تخلیق و تربیت کی ہے۔ نیم انسان یا انسان قدیم کے ہاتھ بہت بدہیئت، بھدے، سخت اور سست تھے۔ ہزاروں سال پیہم محنت، نئے حالات اور مواقع کے مطابق نئے طریق عمل اختیار کرتے ر ہنے، سعی، غلطی، ناکامی اور سعی جدید کے تسلسل نے ہمارے ہاتھوں کو زیادہ خوبصورت، زیادہ نرم اور زیادہ پھرتیلا بتایا۔ کام کرتے کرتے ہاتھوں کے مفاصل اور رگوں اور پٹھوں میں بلکہ ان کی ہڈیوں میں بھی لچک، چابکی اور چستی آتی گئی۔ نسلاً بعد نسل ہمارے ہاتھ بنتے اور سنورتے ہوئے آج اس قابل ہو گئے ہیں کہ وہ نقاشی، مجسمہ سازی، عمارت گری اور موسیقی میں نت نئی نزاکتیں اور نفاستیں پیدا کر رہے ہیں۔

    اب ہم حسن اور فن کاری کے متعلق آخر میں چندباتیں ذہن نشین کرا دینا چاہتے ہیں۔ حسن اور فنکاری کے بنیادی تصور میں انسان کی مادی اور جسمانی زندگی کے اغراض و مقاصد اصل اور اہم اجزائے ترکیبی کا حکم رکھتے ہیں اور دونوں میں سے کسی ایک کی مادی ماہیت اور مقصدی غایت سے انکار کرنا ہٹ دھرمی ہوگی۔ دوسری بات، جس کو تسلیم کئے بغیر مفر نہیں، یہ ہے کہ فن کاری کا نصب العین کم سے کم اول اول کسی فرد واحد کی زندگی کی فلاح نہیں بلکہ حیات اجتماعی کی توسیع و ترقی تھا، لیکن اس جگہ بعض مغالطوں سے ہوشیار رہناہے۔ اول تو یہ ہے کہ انسانی تہذیب کے کسی دور میں بھی کسی انسانی جماعت کے کل افراد نے مل کر کسی فن کو ایجاد نہیں کیا۔

    ہر گروہ یا قبیلہ یا خاندان میں دوچار ایسے افراد رہے ہوں گے جو عوام کے مقابلے میں ذہانت، رسائی، فکر ابداعی قوت اور عملی سوجھ بوجھ کے لحاظ سے زیادہ خوش اندیش، خوش تدبیر رہے ہوں گے اور انہیں ذہن میں پہلے پہل ایجاد و اختراع کا خیال آیا ہوگا۔ اوزار یا ظروف کی ضرورت یقیناً پوری جماعت کی ضرورت تھی، مگران کا تصور اور ان کی شناخت کا نقشہ افراد کے دماغوں کی تخلیق ہیں۔ علت مادی اور علت غائی کے لحاظ سے فنکاری خارجی اور اجتماعی ہے لیکن علت صوری اور علت فعلی کے اعتبار سے داخلی اور انفرادی ہے۔ یہاں یہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ فرد خود بھی خارجی اسباب و عوارض اور اجتماعی محرکات و میلانات کی پیداوار ہے۔

    فنکاری زندگی کی اور تخلیقات کی طرح اپنی غرض وغایت کی روسے نہ تو انفرادی ہے نہ طبقاتی یا جماعتی بلکہ اجتماعی یعنی جمہوری ہے۔ اس کا مقصد خلائق کی زندگی کا فروغ ہے، لیکن ہماری بدنصیبی سے بہت جلد بہت سی زندگی بخش طاقتوں کی طرح فن کاری کی طاقت بھی مخصوص طبقے کا اجارہ بن کر رہ گئی ہے۔ اس اجارہ دا رطبقے نے فنکاری کو عوام الناس پر اپنا رعب قائم رکھنے کا آلہ اور خود اپنے لئے عیش و تفریح کا ذریعہ بنائے رکھا۔ بطریقی (Patriarchal) یا پدر شاہی دور یا پروہت کال سے لے کر آج کل کے دور سرمایہ داری تک ایسا ہی رہا ہے۔ ایک بافراغت اور بااقتدار اقلیت زندگی کی تمام برکتوں کو اپنائے رہی اور انہیں کے بل بوتے پر طرح طرح کے فریب پیدا کرکے اور عوام کو ان کے پیدائشی حقوق سے محروم رکھ کر ان پر حکومت کر رہی ہے۔

    اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ کوئی دور ایسا نہیں گزرا جس میں زندگی کے اور مساعی کی طرح فن کاری نے بھی ترقی نہ کی ہو، زمانہ قبل تاریخ کے بھونڈے اوزار، بھدے برتنوں اور بدہیئت مسکنوں سے لے کر عصر حاضر کے نفیس ترین اختراعات تک لطافت اور نزاکت کے ارتقائی مدارج طے کرتی ہوئی فن کاری آج جس بلند مقام پر ہے اس کا اعتراف نہ کرنا تنگ نظری کے سوا کچھ نہ ہوگا۔ لیکن اب دنیا کی آنکھوں سے بہت سے پردے ہٹ چکے ہیں۔ اب التباسات کا زمانہ نہیں رہا۔ اب ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ زندگی کی جو سعادتیں اب تک ایک چیدہ اور برگزیدہ کم تعداد گروہ کا اجارہ رہی ہیں، ان کو جمہور کے لئے عام ہو جانا چاہئے۔ فنکاری کے لئے بھی ہمارا مطالبہ یہی ہے۔

    اب ہم کو ایسے نظام معاشرت کی ضرورت ہے جو جماعت کے ہر فرد کے لئے ایسے اسباب اور مواقع مہیا کرے کہ وہ چاہے تو فن کا ہو سکے یا کم سے کم فن کاری کے اکتسابات سے حسب مراد بہرہ اندوز ہو سکے۔ فنکاری انسان کی ثقافتی تخلیقات میں بے انتہا مبارک تخلیق ہے اور اس کی برکت کو تمام بنی نوع انسان کے لئے سہولت کے ساتھ قابل حصول ہونا چاہئے۔ فن کاری کی انفرادی ابداعی قوت کو تسلیم کرتے ہوئے ہمارا اصرار یہ ہے کہ اس ابداعی قوت کے نتائج جمہوری یا اجتماعی زندگی کی صحت اور ترقی میں مددگار ثابت ہوں۔ اب تک فنکار کو پیغمبر یا فوق البشر کی قسم کی مخلوق سمجھا جاتا رہا جو فریب تھا۔ فنکاری حیات انسانی کی نشوونما اور اس کی توسیع و ترقی میں صحیح طور پر اسی وقت مفید اور مددگار ثابت ہو سکےگی جب فنکار اپنے کو عوام کی طرح انسان سمجھےگا اور عوام فن کار کو اپنوں میں شمار کر سکیں گے۔

    جب ہمارا معاشرتی نظام بدل جائےگا، جب زندگی کے تمام حقوق عام ہو جائیں گے، جب افلاس اور مارت کی بنا پر اختلاف مدارج مٹ جائےگا، اس وقت ہر فرد بالفعل یا بالقوی فن کار ہوگا، اس وقت فنکار بھی ہماری طرح ایک انسان ہوگا، یا پھر ہم سب فوق الانسان یا اعلیٰ انسان ہوں گے۔ جب تک ایسا نہیں ہوتا اس وقت تک کسی فرد یا کسی انسانی مخصوص گروہ کا زندگی کے تمام حقوق پر قبضہ کرکے فوق الانسان ہونا عام بنی نوع انسان کے لئے بے انتہامہلک اور تباہ کن ہے۔

    مأخذ:

    ادب اور زندگی (Pg. 125)

    • مصنف: مجنوں گورکھپوری
      • ناشر: اردو گھر، علی گڑھ
      • سن اشاعت: 1984

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے