aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ابلاغ کا مسئلہ

سلیم احمد

ابلاغ کا مسئلہ

سلیم احمد

MORE BYسلیم احمد

    میرے اس مضمون کا محرک ڈاکٹر وزیر آغا کا ایک مضمون ’’ابلاغ سے علامت تک‘‘ ہے۔ ایسی صورتوں میں جب ایک لکھنے والا بہ یک وقت خالق اور ناقد ہوتا ہے، کبھی کبھی ایک مزے دار صورت حال پیدا ہو جاتی ہے، جس کی طرف ہربرٹ ریڈ نے اشارہ کیا ہے۔۔۔ یعنی کبھی کبھی خالق اور ناقد دو مختلف راہوں پر چلنے لگتے ہیں اور دونوں کاحال کچھ ایسا ہوتا ہے کہ فن کار ڈال ڈال ڈال تو ناقد پات پات۔ خود ہربرٹ ریڈ کے ساتھ ایسا ہی ہوا۔ ان کے اندر کا خالق ان کے اندر کے ناقد سے بچ بچ کر چلتا رہا۔ ہربرٹ ریڈ نے اس کی معذرت یوں کی کہ کسی بھی فنکار، ناقد یا ناقد فنکار میں، ناقد اور فنکار کے درمیان مطابقت ہونی ضروری نہیں ہے۔

    اس کے برعکس ایک مثال ٹی ایس ایلیٹ کی ہے، جن کے ہاں یہ مطابقت پائی جاتی ہے۔ مگر یہ مطابقت کچھ اس قسم کی ہے جیسے بچے اور باپ کے درمیان پائی جاتی ہے۔ ایلیٹ کے معاملے میں فنکار کی حیثیت باپ جیسی ہے، ناقد کی بیٹے جیسی۔ فنکار باپ جدھر جانا چاہتا ہے، ناقد بیٹا اسے اس راستے پر لے چلتا ہے، اس بچے کی طرح جو اندھے باپ کو اس کی منزل کی طرف لے جانے میں مدد دیتا ہے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ایلیٹ کی تنقید صرف اس کی شاعری کا جواز ہے۔ خود ایلیٹ اپنی تنقید کو تخلیق کی ورکشاپ کی چیز کہتا ہے۔ میں اس سلسلہ میں اپنے نقطہ نظر کو اپنے ایک اور مضمون میں بیان کر چکاہوں جو ہفت روزہ’’زندگی‘‘ میں قسط وار چھپا تھا۔

    لیکن وزیر آغا صاحب کی نثری تحریریں دلچسپی سے پڑھنے کے باوجود ان کی شاعر ی سے مطمئن نہیں ہو سکا۔ ان کی نثری تحریروں سے مجھے اچھا خا صا اختلاف ہے، جس کو میں ان کی کتاب’’اردو شاعری کے مزاج‘‘ پر اپنے ایک تبصرے میں بیان کر چکاہوں۔ لیکن میں اختلاف اس سے کرتا ہوں جسے اہم اور وقیع سمجھتا ہوں۔ کنکروں اور پتھروں سے مجھے اختلاف کی کوئی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ ان کایہ دلچسپ، خوبصورت اور بصیرت افروز مضمون پڑھتے ہوئے میں سوچنے لگا کہ ایک ایسے ناقد کی شاعری اتنی میکانکی، بے جان اور بے رنگ کیسے ہو سکتی ہے۔ کیا واقعی تخلیقی جوہر اور تنقیدی صلاحیت اتنی مختلف چیزیں ہیں؟ بہرحال اس سوال کا مجھے جو بھی جواب ملا ہو، مگر ابلاغ کے مسئلے پر میں ان کی نظرکی داد دیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ میرایہ مضمون دراصل اس کے ایک ضمیمے کی حیثیت رکھتاہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس مضمون کے ساتھ وزیر آغا صاحب کا مضمون بھی ضرور پڑھ لیا جائے۔ ویسے وزیر آغا صاحب کے دو ایک بنیادی خیالات کو میں اپنے الفاظ میں بیان بھی کر دوں گا۔

    وزیر آغا صاحب کا کہنا ہے کہ ابلاغ ایک ایسا لفظ ہے جو نوجوان شاعروں اور ادیبوں میں خاصا بدنام ہے۔ یہاں تک کہ بعض نوجوان تو اس سے نفر ت کرتے ہیں۔ وزیر آغا صاحب کا خیال ہے کہ یہ نفرت یا بیزاری لفظ ’’ابلاغ‘‘ کے ایک محدود معنی پرزور دینے سے پیدا ہوئی ہے۔ نام نہاد ترقی پسند اس لفظ کو نہ صرف محدود معنوں میں استعمال کرتے تھے بلکہ سطحی معنوں میں بھی۔ ان کے یہاں ابلاغ کے معنی ایک کاروباری لین دین کے تھے اور خالق اور قاری کا رشتہ پروڈیوسر اور کنزیومر کا ساتھا جو طلب اور رسد کے اصول پرکام کرتے تھے۔ آغا صاحب کاکہنا ہے کہ ابلاغ کاروباری لین دین نہیں ہے اور خالق طلب اور رسد کے اصول پرکام نہیں کرتا۔ آغا صاحب کا کہنا ہے کہ ترقی پسندوں کے نزدیک خالق کا تصور ایک ایسے آدمی کا ہے جو تھڑے پر بیٹھا ہوا ہے اور اس کا قاری بازار میں کھڑا ہوا ہے۔ چنانچہ اس تصور سے خالق اور قاری کے درمیان ثنویت پیدا ہوتی ہے۔ خالق لفظوں کے شفاف پلاسٹک کے تھیلے کو قاری کی طرف پھینکتا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جب پلاسٹک کا تھیلا اوپر سے نیچے آتا ہے تو یہ تھیلا بلکہ اس کے اندر کا خزانہ بھی سب کو دکھائی دے جاتا ہے اور وہ فنی وبعد پیدا نہیں ہونے پاتا جو تخلیقی جست کا محرک ہے۔

    ڈاکٹر صاحب کا کہناہے کہ یہ تصور غلط ہے۔ فنکار تھڑے پر بیٹھا ہو آدمی ہے نہ بازار میں کھڑے ہوئے لوگوں کے لیے لکھتاہے۔ ترقی پسند مسکرائیں نہیں اور سوال پوچھنے میں جلدی نہ کریں کہ فنکار پھر کس کے لیے لکھتا ہے۔ آغا صاحب اس کا جواب خود دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ فنکار کسی قاری کے لیے لکھتا ہی نہیں۔ وہ تو اپنی ذات کے ایک رخ سے کچھ حاصل کرکے اپنی ہی ذات کے دوسرے رخ کے حوالے کر دیتا ہے۔ اس لیے وہ بہ یک وقت فنکار بھی ہوتا ہے قاری بھی۔ یہ بڑی عمدہ بات ہے جو وزیرآغا صاحب نے کہی ہے اور اس سے میرے کئی خیالات روشن ہوئے۔ اسی سے آغا صاحب نے اظہار اور ابلاغ کے درمیان فرق و امتیاز پیدا کرنے کی کوشش بھی ہے۔

    ان کے نزدیک تخلیق کے عمل میں دراصل دوعمل پنہاں ہیں۔ ا یک روح کے بیدار ہونے کاعمل، دوسرا اس روح کا جسم میں منتقل ہونے کاعمل۔ پہلا عمل اظہار ہے دوسرا ابلاغ۔ اظہار کس کا ہے؟ خالق کا۔ ابلاغ کس کو ہوتا ہے۔ خالق کے اندر موجود قاری کو۔ وزیر آغا صاحب کے نزدیک اس عمل کو نہ سمجھنے سے نوجوان شاعروں اور ادیبوں کو یہ غلط فہمی ہوتی ہے کہ تخلیق کا فن اظہار کے سوا اور کچھ نہیں، کیونکہ جب فنکار اپنی ذات کی ایک سطح سے دوسری سطح کی طرف جست بھرتا ہے تو ابلاغ کا مسئلہ ہی خارج از بحث ہو جاتا ہے۔ آغا صاحب کا کہنا ہے کہ ساری گڑبڑ سوچ کے اسی انداز سے پیدا ہوئی ہے، کیوں کہ اظہار تو تجربے کی ایک سطح پر ایک تخلیقی عمل کا نام ہے۔ جب تک اس عمل کو جسم عطا نہ ہوگا، اسے تخلیق کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ جسم کیا ہے؟ ذریعہ اظہار کا انتخاب ہے۔ سر، لفظ یا رنگ وخط فنکار اپنے تجربے کو انہیں کے ذریعے جسم عطا کرتا ہے۔

    یہاں پہنچ کر آغا صاحب کی نظر ایک بڑے لطیف اور باریک نکتے پر جاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک گروہ کا یہ خیال ہے کہ اظہار کا مقام ابلاغ سے پہلے ہے۔ لیکن ایک اور گروہ ابلاغ کو اظہار سے مقدم سمجھتا ہے۔ یہ دوسری بات ناقابل فہم سی معلوم ہوتی ہے۔ لیکن ایک زاویے سے درست ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ تو ٹھیک ہے کہ تخلیق واقعتا اظہار سے ابلاغ کی طرف سفر کرتی ہے مگریہ فنکار کے ہاں جسم حاصل کرنے کے بعد باہر کے قاری تک پہنچتی ہے تو قاری تخلیق کے جسم کو زینہ بناکر واپس اس روح تک رسائی پانے کی کوشش کرتا ہے، جسے شاعر کے ہاں اظہار کا نام ملا تھا۔ گویا وہ فنکار ہی کی طرف ایک تخلیقی جست بھرتا ہے۔ یہ جست ابلاغ سے اظہار کی طرف ہوتی ہے۔ یعنی ایک معکوس ’’تخلیقی عمل‘‘ وجود میں آتا ہے۔

    اس کے بعد وزیر آغا صاحب ایک اور اہم بات یہ کہتے ہیں کہ باہر کا قاری جب اس تخلیق کو پڑھتا ہے تو ایک الٹے تخلیقی عمل میں مبتلا ہوکر فن کار اور قاری کے رشتے کی بازآفرینی کرتا ہے۔ اب اگر فنکار کی تخلیق میں کوئی جان ہے تو وہ باہر کے قاری کے اندر ایک ’’الٹے تخلیقی عمل‘‘ کو جگا دےگی، ورنہ ضائع ہو جائےگی۔ آغا صاحب بہت زور سے کہتے ہیں کہ باہر کا قاری ابلاغ کی کسوٹی ہے۔ کیونکہ یوں تو ہر فنکار دعویٰ کرےگا کہ اس نے تخلیق میں اظہار و ابلاغ کے جملہ مدارج کو طے کر لیا ہے مگر اس کا فیصلہ باہر ہی کا قاری کرےگا کہ وہ کامیاب ہوا یا نہیں۔ آغا صاحب کے نزدیک ایک سچی تخلیق کا یہ سب سے بڑا امتحان ہے۔

    اب تک آغا صاحب کی جو باتیں میں پڑھ رہا تھا، انہیں میری تائید حاصل تھی، لیکن ’’باہر کے قاری‘‘ کی اچانک آمد نے مجھے گڑبڑا دیا۔ آغا صاحب کو یاد نہیں رہا کہ باہر کا قاری تو ترقی پسندوں کے یہاں پایا جاتا ہے جو لین دین کرتا ہے۔ ان کا قاری تو ان کے اندر کا قاری ہے۔ ہمیں باہر کے قاری سے کیا مطلب؟ ہم تھڑے پر بیٹھے ہوئے فنکار تو نہیں ہیں جو بازار میں کھڑے ہوئے قاری کی پروا کریں۔ دراصل جس بات کا جو اب آغا صاحب پر واجب ہے وہ یہ ہے کہ ابلاغ کا مسئلہ اند ر کے قاری کے لیے کیا معنی رکھتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں اندر کے قاری کو اس کی کیا ضرورت ہے؟ اور اگر ہر فنکار یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس نے اظہار وابلاغ کے مدارج طے کر لیے ہیں، یعنی اپنے وجود کے ایک حصے کی بات اپنے وجود کے دوسرے حصے کو پہنچا دی ہے تو اس کا فیصلہ کرنے والا باہر کا قاری کیسے بن گیا۔ ہم اسے تسلیم کب کرتے ہیں۔ وہ تو ترقی پسندوں کا قاری ہے، ہمارا نہیں۔

    افسوس کہ آغا صاحب کے مضمون میں اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہے اور وہ اچانک اندر کے قاری سے باہر کے قاری کی طرف جست لگا گئے ہیں۔ کیا یہ عدم تفہیم ہے یا صرف فروگزاشت؟ ایک سوال اور ہے اور وہ یہ کہ اندر کے قاری میں معکوس تخلیقی عمل کیسے ہوتا ہے۔ یعنی اندر کا قاری ابلاغ سے اظہار کی طرف الٹی جست کیسے لگاتا ہے؟

    مضمون کا باقی حصہ امیج کی بحث سے تعلق رکھتا ہے اور وزیر آغا صاحب نے اس میں کئی ایسی معقول باتیں کہی ہیں جو دوسرے امیج پرستوں کے یہاں نہیں ملتیں۔ یہ حصہ بھی غور سے پڑھنے اور اس کے ذریعے کچھ سیکھنے کے قابل ہے۔ چوں کہ یہ حصہ ابلاغ کی بحث کا ایک پہلو تو ہے مگر مرکزی مسئلہ نہیں ہے، اس لیے میں اپنی گفتگو صرف مضمون کے پہلے حصے تک محدود رکھوں گا۔ میں اپنا سوال ایک بار پھر دہراتا ہوں۔ ہمیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ ہمارے اندر کے قاری کویہ کیسے معلوم ہوکہ اظہار سے ابلاغ تک کی منزل طے ہو گئی یا نہیں؟ اور اس سے بھی زیادہ بنیادی سوال یہ ہے کہ فنکار کے وجود کے دو حصے دراصل کیا ہیں جن میں سے ایک سے کچھ لے کر وہ دوسرے کو دیتا ہے؟ میرا خیال ہے کہ آغا صاحب جلدی میں یا کسی اور سبب سے ان سوالوں سے نظر چرا گئے؟ جس نے مضمون کی افادیت کو بھی کم کر دیا اور مسئلے میں وضاحت کی بجائے الجھن پیدا ہو گئی۔

    آغا صاحب ترقی پسندوں پر غضب ناک ہوئے ہیں کہ وہ فنکار اور قاری میں دکان دار اور گاہک کا رشتہ سمجھتے ہیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ اگر دکان دار اور گاہک دونوں فنکار ہی میں موجود ہوں تو دونوں کا تشخص کیا ہے؟ لیکن آغا صاحب کاروباری لین دین کے مسئلے میں زیادہ پھنس گئے اور اس طرف توجہ نہ کر سکے۔

    جہاں تک آغا صاحب کے اس خیال کا تعلق ہے کہ فنکار اپنے ہی وجود کے ایک حصے سے کچھ لے کر دوسرے کو دیتا ہے، یہ ایک گہرا اور بنیادی خیال ہے۔ عام ترقی پسندوں کی رسائی یہاں تک نہیں ہو سکی۔ لیکن ترقی پسندوں کی یہ بات کہ فنکار کی تخلیقی کاوش اظہار سے گزر کر ابلاغ تک پہنچنی چاہئے، یہ بھی درست ہے۔ یہ دونوں باتیں خود آغا صاحب ہی نے کہی ہیں لیکن جیسا کہ میں دکھا چکا ہوں، وہ ایک بار باہر کے قاری کا انکار کرکے دوسری بار باہر کے قاری کی طرف جست لگا گئے اور اس سوال پر پورا غور نہ کر سکے کہ ہمارے اندر کے قاری اور باہر کے قاری میں کیا رشتہ ہے۔ ترقی پسند بھی اس رشتے کو نہیں سمجھ سکے اور آغا صاحب بھی۔ میں کوشش کروں گا کہ اپنی بساط بھر اس رشتے کو نمایاں کر سکوں۔

    لیکن اس سے پہلے میں بظاہر ایک غیرمتعلق بات کہنا چاہتا ہوں۔ محی الدین ابن عربی نے لکھا ہے کہ پیغمبر جو کچھ اپنی جہت ولایت سے لیتا ہے وہ خود اپنی جہت نبوت کو دے دیتا ہے۔ جہت ولایت کا رخ حق کی طرف ہے اور نبوت کا خلق کی طرف۔ اس طرح پیغمبر حق اور خلق کے درمیان وسیلے کا کام کرتا ہے۔ وہ حق سے جو کچھ لیتا ہے، خلق کو پہنچا دیتا ہے۔ اب خلق کیا کرتی ہے؟ وہ اپنے تجربے کو دیکھتی ہے اور پھر پیغمبر کے تجربے کو۔ جیسے ہی یہ دونوں تجربے ملتے ہیں، وہ پیغمبر کی تصدیق کر دیتی ہے۔ اب ابلاغ مکمل ہو گیا۔ یہ بات غیر متعلق تو معلوم ہوتی ہے مگر ہے نہیں، کیوں کہ شاعری بھی پیغمبری کا ایک جزو ہے۔ اس لیے ایک بات پر غور کرکے ہم دوسری کو سمجھ سکتے ہیں۔

    تو کیا ہم اب یہ کہیں کہ پیغمبروں کی طرح شاعر کی ذات کے بھی دورخ ہوتے ہیں۔ ایک خود اپنی طرف، دوسرا دوسروں کی طرف۔ وہ ایک رخ کی بات دوسرے رخ کو پہنچاتا ہے۔ یہ کہنے سے میرے لیے تو بات واضح ہو جائےگی مگر شاید دوسروں کے لیے نہ ہو۔ ہمیں تھوڑی سی اور تفصیل میں اترنا چاہئے۔ ہمارے اندر شعور کی دو قسمیں ہیں۔ یہ روشنی کے دو دائروں کی طرح ہیں۔ ایک انا کا شعور ہے دوسرے غیرانا کا۔ عملی زندگی میں غیرانا کا شعور پس پشت چلا جاتا ہے اور نیم روشن نیم تاریک رہتا ہے۔ کیوں کہ عملی زندگی میں غیرانا کے شعور سے کام لیتے ہیں (ان دونوں باتوں کی تفصیلات پڑھنے کے لیے غالب پر میری کتاب کا انتظار کرنا چاہئے) مختصریہ کہ ہم اپنی عام زندگی انا کے شعور کے تحت بسر کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ اس میں اتنا ڈوب جاتے ہیں کہ ہمیں غیرانا کے شعور کی موجودگی کا احساس بھی نہیں ہوتا۔ یہ غیرانا کا شعور وہ ہے جسے فرائڈ نے غلطی سے لاشعور کہا ہے۔ دراصل یہ غیرانا کا شعور ہی تھا جوہمارے وجود کا سب سے روشن دائرہ تھا، مگر غیرانا کے شعور نے اسے غصب کر لیا یا دھکیل کر پیچھے ہٹا دیا۔ مگر انا کے شعور کے بغیر ہم کسی قسم کی تخلیق نہیں کر سکتے۔

    تخلیق غیرانا کے شعور کاعمل ہے۔ ان کا شعور صرف میکانکی ہوتا ہے۔ فن کار میں غیر انا کا شعور اپنا کام کرتا رہتا ہے اور عملی دنیا میں کام آنے والے انا کے شعور کو توڑ کر در آتا ہے۔ یہ انسپریشن کا لمحہ ہوتا ہے (میرا ایک خیال یہ ہے کہ اگر آپ چاہیں تو غیرانا کے شعور کی توڑ پھوڑ کرنے کا انتظار کرنے کے بجائے خود بھی اسے عوت نامہ بھیج سکتے ہیں۔) ہوتا یوں ہے کہ جب غیرانا کا شعور تخلیق پر آمادہ ہوتا ہے تو انا کے شعور پر حملہ کرکے اس کے عملی حصار میں شگاف کر دیتا ہے اور اس شگاف سے ’’تخلیقی خیال‘‘ اندر داخل ہو جاتا ہے۔ یہ تخلیقی خیال کیا ہے؟ ایک ننھا سا روشنی کا نقطہ ہے۔ یہ نقطہ کبھی ایک لفظ، کبھی ایک قافیہ، کبھی ایک عنوان، کبھی صرف ایک وزن میں اپنے آپ کو ظاہر کرتا ہے اور پھر ایسا لگتا ہے جیسے اس نقطے کے ارد گرد ایک دنیا رقص کر رہی ہے۔

    واقعی اس نقطے کے اردگرد ایک دنیا ہوتی ہے۔ مگر انا کا عملی شعور اس کے درمیان حائل ہوتا ہے۔ اس لیے وہ مبہم، غیرمرئی اور نیم تاریک ہوتی ہے۔ تخلیقی عمل کے دوران فنکار خود بھی اس نقطے کے گرد رقص تخلیق شروع کر دیتا ہے۔ وہ نقطہ روشن سے روشن تر ہوکر اپنے اردگرد کے دائرے کو روشن کرنے لگتا ہے۔ جب یہ دائرہ پورا روشن ہو جاتا ہے تو تخلیق کا عمل رک جاتا ہے اور تخلیق وجود میں آ جاتی ہے۔ وزیر آغا صاحب نے جس تھنڈر کلاؤڈ کا ذکر کیا ہے، وہ یہی تخلیقی نقطہ ہے۔ اب اظہار سے ابلاغ کا عمل یہ ہے کہ غیرانا کا شعور ہماری طرف جو تاربرقی کا پیغام بھیجتا ہے، ہم تخلیقی عمل کے ذریعے اسے واضح کرتے ہیں۔ واضح کرتے ہیں کس پر، خود غیرانا کے شعور پر۔ یہ غیرانا کا شعور کیا ہے؟ یہی تو وہ مشترک میراث ہے جوبنی آدم کو ملی ہے۔ انا نے بٹوارہ کرکے اس میں سے اپنا حصہ الگ کر لیا ہے ورنہ غیرانا کل کی کل اجتماعی ملکیت ہے۔

    چنانچہ جب فنکارانا کے شعور کو درمیان سے ہٹاکر غیرانا کے پیغام کو وضاحت کے ساتھ پھر غیرانا کے پاس لوٹا دیتا ہے تو ابلاغ کا عمل مکمل ہو جاتا ہے اور حق بحق دار رسید کا معاملہ ہوتا ہے۔ چنانچہ یہ غیرانا سے لے کر خودغیرانا کو دینے کا عمل ہے۔ آپ اس بات پر غور کریں گے تو معلوم ہوگا کہ غیرانا کا ایک رخ انا کی طرف ہے۔ یہ داخلیت ہے۔ دوسرا رخ بنی نوع آدم کی طرف ہے۔ یہ خارجیت ہے۔ یوں اس بات کے معنی صاف ہو جاتے ہیں کہ فنکار اپنی ذات کے ایک رخ سے کچھ لے کر دوسرے رخ کو دیتا ہے۔ یعنی دوسرے لفظوں میں غیرانا کے اس رخ سے، جو داخلی ہے، لے کر اس رخ کو دیتا ہے، جو خارجی ہے۔

    ترقی پسندوں کی غلطی یہ ہے کہ وہ غیرانا کے صرف خارجی رخ کو دیکھتے ہیں۔ نوجوان شعرا کی غلطی یہ ہے کہ وہ غیرانا کے صرف داخلی رخ کو دیکھتے ہیں۔ یہ خود اپنی ہی واردات کونہ سمجھنے کا یا ادھورا سمجھنے کا ایک نتیجہ ہے۔ وزیر آغا صاحب نے بات کو سمجھنے کی کوشش کی مگر بیچ میں کہیں کھو گئے۔ اب سوال یہ ہے کہ اندر کا قاری تو متعین ہو گیا مگر باہر کا قاری کیا کرتا ہے؟ باہر کا قاری بقول وزیر آغا ایک معکوس تخلیقی عمل کے ذریعے اندر کے قاری کی طرف جست کیا کرتا ہے اور اپنے تجربے کی تصدیق اندرکے قاری سے کرتا ہے۔ جیسے بلا تشبیہ رسول کریم کی تصدیق صدیق اکبر نے کی۔ وہ حضور کے اسی طرح قاری ہیں جس طرح ہمارے باہر کا قاری ہمارا۔

    اس بات کی وضاحت کے بعدمیں ایک دعویٰ کرنا چاہتا ہوں۔ دنیا کی ساری بری شاعری مذکورہ بالا تخلیقی عمل کی عدم تفہیم، غلط تفہیم یا جزوی تفہیم سے پیدا ہوتی ہے۔ جیسا کہ وزیر آغا صاحب نے کہا ہے کہ بعض لوگ غلط نظریہ رکھتے ہیں مگر شاعری کے وقت فنکار بن جاتے ہیں اور اچھی شاعری پیدا کر لیتے ہیں۔ یہ اس بنا پر ہوتا ہے کہ ان میں غیرانا کا شعور زیادہ برسرعمل ہو جاتا ہے اور وہ ان کی مرضی کے خلاف انا کے شعور کو معطل کر دیتا ہے۔ ترقی پسندوں کی بری شاعری اس لیے پیدا ہوئی کہ انہوں نے غیرانا کے داخلی رخ کو دیکھنے سے انکار کر دیا۔ جدیدیوں کی بری شاعری اس لیے پیدا ہوتی ہے کہ وہ غیرانا کے خارجی رخ کو پہنچاننے سے منکر ہیں لیکن بری شاعری کی ایک اور قسم وہ ہے جو وزیر آغا اور شمس الرحمن کے یہاں پائی جاتی ہے۔ یہ بری شاعری اس لیے پیدا ہوتی ہے کہ وہ خود وزیر آغا کے الفاظ میں ’’تھنڈر کلاؤڈ‘‘ کے بغیر شاعری کرتے ہیں۔ یعنی غیرانا کا شعورانا کے شعور سے کسی مکالمے پر تیار نہیں ہوتا مگر وہ جھوٹا مکالمہ شروع کر دیتے ہیں اوریہ سمجھتے ہیں کہ اسے سچا مکالمہ سمجھ لیا جائےگا یا پھیکے اور خالی خولی بادل سے بجلیاں چمکنے لگیں گی۔

    یہ دونوں دھوکے ان کے تخلیقی عمل کو میکانکی بنا دیتے ہیں۔ اس میکانکیت کی مثال خود وزیر آغاصاحب کی دی ہوئی وہ مثال ہے جو انہوں نے امیج کے سلسلے میں دی ہے۔ امیج ’’میز‘‘ کے بجائے ’’میز کا شفاف سینہ‘‘ کہنے سے نہیں پیدا ہوتی۔ تخلیقی امیج پوری تخلیقی شخصیت کا نچوڑ ہوتی ہے۔ خود میں نے بہت بری شاعری کی ہے اور اس عمل سے پورا واقف ہوں۔ لیکن خود پر عمل جراحی کسی اور وقت کروں گا۔

    مأخذ:

    مضامین سلیم احمد (Pg. 216)

    • مصنف: سلیم احمد
      • ناشر: اکیڈمی بازیافت، کراچی
      • سن اشاعت: 2009

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے