Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

انسان اور آدمی

محمد حسن عسکری

انسان اور آدمی

محمد حسن عسکری

MORE BYمحمد حسن عسکری

    اس مضمون کے بارے میں ایک اہم بات یہ ہے کہ اس پر کئی ہفتے صرف ہوئے ہیں۔ یہ وقت میں نے لکھنے میں نہیں لگایا، سوچنے میں بھی نہیں۔ اگرمجھ میں کسی نظریاتی موضوع پر اتنی دیر مسلسل اور متواتر سوچنے کی صلاحیت ہوتی تو بھی یہ امر مشکوک رہتا کہ اس قسم کی صلاحیت کسی افسانہ نگار کے لیے موزوں بھی ہے یا نہیں۔ انشاپردازی اور غور و فکر بڑی مرعوب کن چیزیں ہیں۔ مگر میں ایسا دعویٰ کروں بھی تو میرا مضمون اسے جھٹلادے گا۔ میں تو بس کاغذ سامنے رکھے اور قلم ہاتھ میں لیے اونگھتا رہا ہوں۔ مگر ہفتوں میرے صفحے نے داغدار ہونا منظور نہیں کیا۔ اس کی ایک وجہ غالبا ًیہ بھی ہو سکتی ہے کہ موضوع میری دسترس سے باہر تھا۔ مگر میرے احساسات میری دسترس سے باہر نہیں تھے۔

    یہ تو ہوسکتا ہے کہ میری کم علمی، کج بینی، خودپسندی اور ذہنی نخوت کی وجہ سے میرے احساسات شروع ہی سے غلط راستوں پر بھٹک گئے ہوں، مگریہ احساسات جیسے بھی ہوں، میں ان سے بڑے واضح طور پ رواقف تھا۔ مجھے معلوم تھا کہ میں انسان، اور آدمی، ان دو معمولی اور عام استعمال کے مطابق قریب قریب ہم معنی الفاظ میں ایک خاص فرق محسوس کرتا ہوں۔ مجھے ان میں سے ایک لفظ اور اس کے متعلقات و مناسبات پسند ہیں، اور دوسرے کے ناپسند۔ جب احساسات اتنے غیر مبہم ہوں تو کم سے کم عام حالات میں تو قلم بڑی تیزی سے چلنا چاہئے۔

    شاید میرا قلم اس وجہ سے رک رہا تھا کہ میں جن احساسات کا اظہار کرنا چاہتا ہوں وہ فیشن کے خلاف ہیں اور فیشن کے خلاف کوئی حرکت کرتے ہوئے آدمی ضرور ہچکچاتا ہے، خصوصاً خیالات کے معاملے میں۔ شاید مجھے فکر یہ تھی کہ اگر میرے احساسات فیشن کے خلاف ہیں تو کم سے کم میں انہیں خیالات کا رتبہ تو دے ہی دوں اور انہیں علمی استدلال کی شکل میں پیش کروں تاکہ اس انحراف کا تھوڑا بہت جواز تو پیدا ہو جائے۔اس طریقہ کار کے محاسن تو بہت سے ہیں، مگر اسے اختیار کرنا میرے لیے ممکن نہیں۔ نہ تو میں ان دونوں لفظوں کے بنیادی لغوی معنوں پر بحث کر سکتا ہوں، نہ مجھے اخلاقیات، مذہب اور مابعد الطبیعات کی تاریخ یا ان علوم سے تعلق رکھنے والے تصورات کی تدریجی نشوونما کا صحیح علم ہے۔ لے دے کے مجھے کچھ آتا ہے تو ادب کے بارے میں۔ اس شعبے میں بھی کلاسیکی ادوار سے میری واقفیت ایسی نہیں کہ میں اپنی رائے پر اعتماد کر سکوں یا کسی اور کی رائے پڑھوں تو اس کے غلط یا صحیح ہونے کے متعلق کوئی قطعی فیصلہ کر سکوں۔ تھوڑی سی سنی سنائی باتیں میں اردوادب کے بارے میں جانتا ہوں۔ پانچ چھ شاعروں اور مصنفوں کے کلام سے میں براہ راست واقف ہوں۔

    اس کے بعد میری شناسائی فی الجملہ انگلستان اور فرانس ان دو ملکوں کے ادب تک محدود ہے۔ یہاں بھی میں نسبتا پچھلے ڈیڑھ سوسال کے ادب سے زیادہ مانوس ہوں۔ مجھے سب سے زیادہ شدید تجربہ اسی دور کے ادب کا ہے، حالانکہ جس طرح ادب میرے تجربے میں آیا ہے اس کے لیے لفظ شدید ذرا مبالغہ آمیز ہے۔ میں اس ادب سے واقفیت بڑھانے کی اپنی سی کوششیں کرتا رہا ہوں، کبھی گرم جوشی کے ساتھ، کبھی بے دلی کے ساتھ، کبھی محض خانہ پری کے لیے۔ بہر حال مجھے خیال یہ رہا ہے کہ اس ادب کو کسی دوسرے کے احساسات یا خیالات کی مداخلت کے بغیر براہ راست محسوس کروں۔ اس کوشش میں مجھے ایک بری عادت یہ پڑ گئی ہے کہ میں اپنے ادبی تجربوں کو اپنے اور قسم کے تجربوں سے زیادہ خالص اور گراں قدر سمجھنے لگا ہوں اور زندگی کے متعلق جو کچھ سوچتا یا محسوس کرتا ہوں اس میں ان ادبی تجربات کا ہاتھ ضرور ہوتا ہے۔ چونکہ میرے یہ تجربات انسانی رشتوں سے بھی زیادہ یا کم سے کم ان کے برابر ٹھوس ہیں، اس لیے یہ ادبی تجربات مجھے ایک چھٹی حس کا کام دیتے ہیں یا یوں کہئے کہ ایک مزید جبلت بن کے رہ گئے ہیں۔ اگر میں کہہ دوں کہ میرے ادبی تجربات میری قوت ارادی ہیں تویہ مبالغہ توضرور ہوگا مگر صرف اس قسم کا جس کے بغیر کوئی گہری حقیقت بیان نہیں کی جا سکتی۔

    انہیں تجربات کی مدد سے مجھے پتہ چلا کہ انسان اور آدمی میں بہت بڑا فرق ہے۔ اسی کے ذریعے سے مجھے یہ بھی اندازہ ہوا ہے کہ اگر لوگوں نے جلدی ہی یہ فرق واضح طور سے نہ سمجھا تو انسانی تہذیب کا مستقبل صدیوں کے لیے مبہم ہے۔ یہ میرے محسوسات ہیں، علمی دلائل نہیں ہیں، اور نہ میں انہیں یہ شکل دے سکتا ہوں، لہٰذا اگر میرے مضمون میں جابجا استدلال کی جگہ ادعا، توازن کی جگہ تعصب، بلکہ ضد اور ہٹ دھرمی نظر آئے تو مجھے معذور سمجھئے۔ یہ سب واضح محسوسات کی نشانیاں ہیں۔ میرے ادبی تجربات ایسی چیزیں ہیں جو ایک دفعہ ہوکے ہو چکیں۔ماضی کو، قوت ارادی کو (یہ دونوں لفظ بعض حالات میں ہم معنی ہوتے ہیں) بدلنا میرے بس کی بات نہیں۔

    اپنے محسوسات کو میں علمی استدلال تو نہیں بنا سکا، مگر ایک عام آدمی کی طرح مجھے یہ مضمون لکھنے میں جو ہچکچاہٹ ہوتی رہی ہے اس کا تقاضا ہے کہ اور نہیں تو کم سے کم ایک اور آدمی کے محسوسات ہی کو اپنا گواہ بنالوں۔ اس کام کے لیے مجھے اسپین کے فلسفی اور شاعر اونامونو سے بہتر کون آدمی ملے گا جنہیں اپنی پروفیسری کا بھی لحاظ نہ آیا اور بڑی ڈھٹائی سے قبول لیا کہ مجھے مرنے سے ڈر لگتا ہے۔ زندگی کے متعلق انہوں نے جوکچھ سوچا سمجھا تھا، جب وہ اسے ایک فلسفے کی شکل میں مرتب کرنے بیٹھتے تو انہیں سب سے پہلے ایک باب بالکل فالتو لکھنا پڑا۔ محض یہ بتانے کے لیے کہ جو فلسفہ انسان کے بارے میں ہو وہ آدمی کے کام نہیں آسکتا۔ان دونوں کے فرق کا انہیں ایسا شدید احساس ہے کہ اس باب میں بھی پہلی بات یہی کہی ہے کہ میرے نزدیک انسان اور انسانیت بڑی مشتبہ چیزیں ہیں۔

    ایک نیم مہذب ملک کی پسماندہ یونیورسٹی کے پروفیسر کی شہادت کچھ زیادہ قابل اعتبار تو نہیں ہونی چاہئے، مگر ایک ایسا آدمی جو کم سے کم پرانے علوم سے اچھی طرح واقف ہو اور ایک منفرد روح بھی رکھتا ہو، اتنے احترام کا تو مستحق ہے ہی کہ اگر وہ کسی نئی چیزکے بارے میں شبہ ظاہر کرے تو ہم یہ تو دیکھ لیں کہ آخر اسے یہ ضرورت کیوں پیش آئی۔

    یہ شہادت گزارنے کے بعد اب میں قدرے اطمینان کے ساتھ بتا سکتا ہوں کہ میرے ذہن میں ان دونوں لفظوں کا مفہوم کیا ہے۔ آدمی تو وہ ہے جس کی مادی ضروریات بھی ہیں اور غیرمادی بھی۔ جو کھاتا ہے، پیتا ہے، سوتا ہے، جاگتا ہے، جنسی خواہش محسوس کرتا ہے۔ جس کی بعض غیرمادی اقدار ان مادی ضرورتوں کی تابع ہیں اور مادی ضرورتیں بعض مادی اقدارکی پابندی قبول کرنے پر مجبور ہیں، جو خارجی ماحول کو متاثر بھی کرتا ہے اور اس سے متاثر بھی ہوتا ہے اور جس نے ساتھ ہی ساتھ اپنی اقدار، اپنے گزشتہ تجربات، اپنے تعقل اور تخیل کے ذریعہ اپنے گرد ایک غیر مرئی ماحول بھی پیدا کر لیا ہے، جو اس کے لیے اتنی ہی اہمیت رکھتا ہے جتنا جانوروں کے لئے فطری ماحول۔

    ان باتوں کے علاوہ آدمی وہ ہے جو نفرت اور محبت، رحم دلی اور بے رحمی سب کی صلاحیت رکھتا ہے، جوعلوی اور سفلی دونوں قسم کے جذبات محسوس کر سکتا ہے۔ اونامونو کے نزدیک آدمی کی سب سے بڑی پہچان یہ ہے کہ وہ مر جاتا ہے۔ میرے نزدیک زندگی میں اس کی سب سے بڑی پہچان یہ ہے کہ وہ بیک وقت بالکل متضاد اور متناقص رجحانات کی رزم گاہ بنا رہتا ہے۔ اس کے افعال و اعمال کے متعلق یقینی طور سے کوئی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی۔ کیونکہ ہم یہ پتہ نہیں چلا سکتے کہ اس کے اندر کس وقت کون کون سے متضاد جذبے کام کر رہے ہیں۔ آدمی وہ ہے جو تاریخ کی ابتدا سے لے کر آج تک ایک مسئلہ بنا رہا ہے اور جب تک وہ بدل کر کچھ اور نہ بن جائے ہمیشہ مسئلہ بنا رہے گا۔

    آدمی کو سمجھنے کی کوشش دو قسم کے لوگ کرتے ہیں۔ ایک تو حکمران اور دوسرے فنکار۔ یہ دونوں سمجھنے کے الگ الگ طریقے استعمال کرتے ہیں۔ ان دوقسموں کے علاوہ ایک تیسری قسم پیغمبروں کی بھی ہے۔۔۔ پیغمبروں میں حکمران کی نظر بھی ہوتی ہے اور فنکار کی بھی۔ ان کے اندر نہ تو حکمرانوں کا سا افادیت پرستانہ تیقن ہوتا ہے، نہ فنکاروں کا سا حقیقت پرستانہ تشکک، ان کی شخصیت ان دونوں سے کہیں زیادہ متوازن ہوتی ہے۔ مگر اس مضمون میں ہم پیغمبروں کے متعلق غور نہیں کریں گے۔ انسانیت کی پوری تاریخ میں معدودے چند پیغمبر ہوئے ہیں اور یہاں ہم عام آدمیوں کے نقطہ نظر سے سوچ رہے ہیں۔ پھر پیغمبروں کی شخصیت کو سمجھنے کے لیے غیر معمولی بصیرت درکار ہے جس کا میں دعویٰ نہیں کر سکتا۔ اس لیے ہم صرف پہلے دونوں گروہوں کی خصوصیات جاننے کی کوشش کریں گے۔

    حکمرانوں سے میری مراد صرف بادشاہ یا آمر نہیں ہیں بلکہ جمہوری رہنما، سماجی مصلحین، اجتماعی زندگی کے متعلق سوچنے والے فلسفی، ان سب کو میں نے حکمرانوں میں شامل کیا ہے۔ یعنی وہ تمام لوگ جو چاہتے ہیں کہ آدمی ایک خاص طریقے سے زندگی بسر کریں۔ جب یہ لوگ آدمیوں کو سمجھنا چاہتے ہیں تو ان کے سامنے ایک خاص مقصد ہوتا ہے۔ ان کی تفتیش ایک مخصوص اور واضح افادیت پر مبنی ہوتی ہے۔ اس کے برخلاف فنکار جب آدمیوں کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کا کوئی واضح مقصد نہیں ہوتا۔ حکمران آدمیوں کو خام مواد سمجھتے ہیں۔ فنکار کے لیے آدمی بنی بنائی اور مکمل چیز ہوتے ہیں۔ حکمران آدمی کی شخصیت میں سے چند چیزوں کا انتخاب کر سکتا ہے اور اپنے افادی مقصد کے پیش نظر چند چیزوں کو رد کر سکتا ہے۔ فنکار کے لیے اس قسم کے انتخاب کی کوئی گنجائش نہیں۔ فنکار کو آنکھیں بند کرنے کی اجازت نہیں۔

    یہاں ایک ذرا سی تنبیہ ضرور ی معلوم ہوتی ہے۔ حکمران اور فنکار کی صلاحیتیں ایسی چیزیں نہیں جو ہمیشہ ایک دوسرے سے الگ اور بے واسطہ رہتی ہوں۔ حکمران کی شخصیت میں تھوڑا بہت عنصر فنکار کا بھی ہو سکتا ہے اور اسی طرح فنکار میں حکمران کا۔ ابھی میں کہہ چکا ہوں کہ جب فنکار آدمیوں کی طرف توجہ کرتا ہے تو اس کا کوئی ایسا افادی مقصد نہیں ہوتا جس سے فوری نتائج کی امید ہو، اس لیے اس کی تخلیق میں آدمی ہمیشہ آدمی رہتا ہے۔ یہ فنکار کی مجبوری ہے۔ آدمی اور حکمران کے درمیان مقصد حائل ہو جاتا ہے، اس لیے حکمران کو انسان ایجاد کرنا پڑتا ہے۔ یہ حکمران کی ضرورت ہے۔ انسان گوشت پوست کے جیتے جاگتے آدمی کا نام نہیں ہے۔ یہ صرف آدمی کا سایہ ہے، ایک مطلق و مجرد تصور ہے جو مختلف حکمرانوں کے ساتھ بدلتا جاتا ہے اور جس کی صفات حکمرانوں کی ضرورتیں متعین کرتی ہیں۔ انسان، حکمرانوں کی اس حسرت ناک خواہش کا نام ہے کہ اگر آدمی اس قسم کا ہوتا تو ہمیں اس کی تنظیم و ترتیب میں بڑی آسانی رہتی۔

    اونامونو نے کئی قسم کے انسان گنوائے ہیں، مثلاً ارسطو کا بے پروں والا دوپایہ، مانچسٹر اسکول کا معاشی انسان، لینوس کا عقل رکھنے والا انسان، روسو کا معاشری عہد نامے والا انسان۔

    ان مختلف تصورات میں مختلف قسم کی خامیاں ہوں گی، مگرمجھے تو اس وقت روسو کے انسان سے بحث ہے جو رائج الوقت سکہ ہے۔ انسان کا یہ تصورایسا مقبول ہو چکا ہے کہ جو لوگ روسو کا مذاق اڑاتے ہیں، ان کے یہاں بھی یہ تصور کسی نہ کسی شکل میں نمودار ہو ہی جاتا ہے۔ روسو کے انسان کا خاکہ پیش کرنے سے پہلے ذرا سی تصریح لازمی ہے۔ مڈلٹن مری صاحب نے ایک جگہ بڑی خفگی کا اظہار کیا ہے کہ لوگ روسو کو خواہ مخواہ بدنام کرتے ہیں۔ اس کی بعض تحریروں کو بالکل نظر انداز کر کے دوسرے قسم کے اقتباسات پیش کرتے ہیں جن سے اس کی تعلیمات مسخ ہو جاتی ہیں۔ میں مڈلٹن مری صاحب کے دعوؤں کو جھٹلانا نہیں چاہتا مگر اس کے باوجود روسو کو بدنام کرنا چاہتا ہوں۔ ممکن ہے روسو نے اپنے نظر یوں میں خود اصلاح کر لی ہو اور بحیثیت مجموعی اس کے خیالات میں توازن اور اعتدال پیدا ہو گیا ہو۔ مگر روسو کی اصل اور خالص تعلیمات سے ہمیں اتنی غرض نہیں ہے جتنی اس بات سے کہ اس کے نظریے رائج اور مقبول کس شکل میں ہوئے۔

    ہمارے لئے اصل روسو اتنا اہم نہیں ہے جتنا وہ روسو جوچند رجحانات کی علامت بن گیا ہے اور جس نے ایک افسانوی شکل اختیار کر لی ہے۔ بعض دفعہ تاریخی حقیقتیں انسانی معاملات پر اتنا اثر نہیں ڈالتیں جتنا تاریخی افسانے۔ چنانچہ ہمیں اس وقت انسان کے اس تصور سے بحث ہے جو مسخ شدہ صورت ہی میں سہی مگر بہرحال روسو سے اخذ کیا گیا ہے اور جسے انیسویں صدی کے مغربی ادب نے اس زور شور سے پھیلایا ہے کہ وہ ہمارے زمانے کا ایک بنیادی اور لوگوں کی جذباتی زندگی کا لازمی حصہ بن گیا ہے۔

    یہ انسان ایک مصفا و منزہ اور معصوم ہستی ہے جس کی ذہنی اور جذباتی صلاحتییں لامحدود ہیں، جو اصل میں تو خیر کا مجسمہ ہے لیکن کبھی بگڑتا ہے تو ماحول اور خارجی حالات کے اثر سے کائنات میں اس سے اوپر کوئی طاقت نہیں ہے اور وہ پیدا ہی اس لیے ہوا ہے کہ ہر قسم کی رکاوٹوں پر قابو پاتا چلا جائے اور اپنی فتوحات کا دائرہ بڑھاتا رہے۔ اس کے ارادوں پراس کی خواہشات پر کوئی پابندیاں نہیں ہیں، سوائے ان پابندیوں کے جو وہ خود اپنے اوپرعائد کرنا چاہے(روسی اشتراکیت یہ حق فرد کو نہیں دیتی، بلکہ افراد کے مجموعہ یعنی عوام کو دیتی ہے۔ عوام اقتدار اعلیٰ کے مالک ہیں۔ ان کی قوت ارادی کسی بیرونی قوت کی پابند نہیں، صرف اپنی مرضی کے تابع ہے) پھران صفات سے متصف یہ انسان ارتقا پذیر ہے، اپنی اندرونی زندگی کی تنظیم و تدوین کی شرط کے بغیر وہ ترقی کرتا جا رہا ہے۔ اس ترقی میں جو خارجی چیزیں حائل ہیں، جب وہ دور ہو جائیں گی تو انسان مکمل ہو جائے گا۔

    انسان کا یہ تصور ہمارے زمانے کی عملی سیاست میں نہ سہی تو اکثر و بیشتر سیاسی نظریوں میں کم و بیش ضرور ملتا ہے اور بعض ادبی حلقوں میں بھی جنہوں نے سیاسی نعروں کے فریب میں آکے پچھلے ڈیڑھ سو سال کی ادبی تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا۔ ہمارے زمانے کے سیاسی نظریہ ساز ہی نہیں بلکہ بہت سے ادیب بھی یہی مانتے ہیں کہ اگر اس قسم کا انسان موجود نہیں ہے تو خارجی ماحول کو درست کرنے کے بعد کم سے کم پیدا ضرور کیا جا سکتا ہے۔ اس امید کا نام نیا انسان ہے۔ انسان کے اس تصور کی دلکشی کایہ عالم ہے کہ جن لوگوں کی پوری زندگی ہی ادب تھی وہ تک اشتراکی روس کے وجود میں آنے کے بعد یہ سمجھتے تھے کہ اب نیا انسان ضرور پیدا ہوگا۔

    چنانچہ ۳۶ء میں جب پہلی ترقی پسند کانفرنس ہوئی تو آندرے مالرو نے روسی نمائندوں سے سب سے پہلے یہی سوال کیا کہ روس میں نیا انسان پیدا ہو چکا ہے، ہم اس کا چہرہ دیکھنے کو بے چین ہیں، ہمیں نئے انسان کی تصویر دکھائیے۔ جب نئے انسان نے تقاضوں کے باوجود اپنا فوٹو نہ بھیجا تو آندرے ژید جیسے پر عقیدت ادیب اس کی زیارت کے لیےچل کھڑے ہوئے۔ مگر روس پہنچ کر پتہ چلا کہ ماحول کی تبدیلی کے باوجود انسان ویسا کا ویسا ہی ہے جیسا ہمیشہ تھا۔ البتہ کچھ خود پسند ہو گیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بڑے ادیبوں میں روس کے جتنے مداح تھے وہ ایک ایک کر کے چھیجنے لگے۔ سب سے پہلے آندرے ژید مرتد ہوئے، پھر آندرے مالرو، پھر کسٹیلر، پھر سلونے، غرض کہ سب دغا دے گئے۔

    جو سبق ان لوگوں نے خارجی دنیا سے بدظن ہونے کے بعد سیکھا وہ ادب سے بھی حاصل ہو سکتا تھا۔ جن شاعروں نے فطری انسان کے تصور کی اشاعت میں حصہ لیا ہے، خود انہیں کی شاعری بتاتی ہے کہ یہ تصور کیسا کھوکھلا ہے۔ فطری انسان کی سب سے پہلی خواہش یہ ہوتی ہے کہ میری مسرت لازوال اور لامحدود ہو، مگر ان شاعروں کو چھ چھ مہینے کے اندر ہی پتہ چل گیا کہ یہ خواہش کتنی بے معنی ہے اور آدمی کے نشاطیہ لمحے کیسے مختصر اور ناپائیدار ہوتے ہیں۔ فطری انسان کو ایک اور لگن یہ ہوتی ہے کہ میں پوری کائنات پہ چھا جاؤں۔ تو اس خوش فہمی کا دور ہونا بھی کوئی مشکل بات نہیں، زندگی کی چھوٹی چھوٹی محرومیاں آدمی کا مزاج درست کر دیتی ہیں۔ وہ قومیں جو کائنات پر لامحدود فتوحات کے عزائم لے کر اٹھتی ہیں اور اس یقین کے ساتھ کہ ساری کائنات میں انسان سے اوپر یا اس کے مقابلے کی کوئی طاقت ہے ہی نہیں تو خیر انہیں بھی دس پانچ سال سہانے خوابوں کے مزے لے لینے دیجئے۔ یہ وقفہ قوموں کے لیے مہینے بھر کے برابر ہوتا ہے۔ سو پچاس سال گزریں گے تو اپنے آپ حقیقت کھل جائے گی۔

    اسی طرح انسان کے ہر قسم کی پابندیوں سے آزاد ہونے کا سوال ہے۔ انسان کے عمل پر ایک چھوٹی سی پابندی تو یہی ہے کہ اس کی جسمانی طاقت بہت محدود ہے اور اس طاقت سے بھی وہ جی بھر کے کام نہیں لے سکتا۔ ایک خاص عمر کو پہنچنے کے بعد کمزور ہونا شروع ہو جاتا ہے اور بالآخر مر جاتا ہے۔ اور کچھ نہیں تو کم سے کم یہی چیز انسان کے عمل اور تخیل دونوں پر پابندی عائد کر دیتی ہے۔ اگر انسان اپنے تخیل کو آزاد چھوڑ دے گا تو اس کا لازمی نتیجہ غیر معمولی مایوسی اور تلخی ہوگا۔ رومانی ادب سے ہمیں سب سے بڑا سبق یہی ملتا ہے۔ رومانی شاعر بڑی بڑی زبردست امیدیں لے کے چلے تھے اور یہ امیدیں ایک ایک کر کے باطل ثابت ہوتی چلی گئیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے لیے شعریت اوراندوہ بالکل ہم معنی تصورات بن گئے۔ چلے توتھے انسانی زندگی کے حسن اور قوت کے راگ گانے، مگر تان ٹوٹی موت کی آرزو پر۔ اس شکست کی اصل وجہ یہی ہے کہ ان لوگوں نے انسان اور آدمی کو ایک ہی بات سمجھا تھا اور ایک مجرد تصور کی خاطرٹھوس تجربات کو بالکل نظر انداز کر دیا تھا۔

    انسان کے اس تصور کا ادب پر سب سے پہلا اثر یہی ہوا کہ شاعری رونا جھینکنا بن گئی۔ خیر یہاں تک بھی غنیمت تھا، روسو کے انسان نے تو اور بڑے بڑے گل کھلائے ہیں۔ جب شاعروں کو یہ پتہ چل گیا کہ انسان کی لامحدود خواہش اور صلاحیتیں صرف تخیل ہی میں بروئے کار آسکتی ہیں، حقیقی زندگی میں نہیں تو انہوں نے سوچا کہ زندگی کو تخیل ہی تک کیوں نہ محدود کر لیا جائے۔ چنانچہ Villiers Lisleadam کے ڈرامے Axel میں ہیروئن یہ تجویز پیش کرتی ہے کہ ہمیں اتنا زبردست خزانہ مل گیا ہے آؤ چلو، ہندوستان چلیں، وہاں کسی نئے مذہب کی بنیاد ڈالیں گے۔ چین چلیں، وہاں ہیرے جواہرات کی نلیوں میں افیم پیا کریں گے۔ غرض وہ دنیا کے تمام ملکوں اور وہاں حاصل ہونے والی لذتوں کے نام گنا جاتی ہے۔ ایکسل جواب دیتا ہے کہ ہمارے خواب اتنے حسین ہیں تو انہیں حقیقت بنانے کی کوشش کیوں کریں؟ اس وقت ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ باتیں کر کے جو عشرت حاصل ہوئی ہے وہ کل تک فنا ہو جائے گی اور اس کے مقابلے میں اصلی زندگی بالکل پھسپھسی معلوم ہوگی۔ اس لیے اب جینے سے فائدہ؟ اتنا کام تو ہمارے ملازم بھی کر لیں گے۔ چنانچہ یہ دونوں انتہائی دور اندیشی برتتے ہوئے زہر کھا لیتے ہیں۔

    لامحدود مسرتوں پر انسان کا حق اور اس کے اندر اس کی صلاحیت تسلیم کر لینے کا آخری نتیجہ یہ ہوا کہ اصلی زندگی ہی معطل ہوکے رہ گئی ہے۔ اسی لیے انیسویں صدی کے فرانسیسی ناولوں میں خودکشی اورموت کی اتنی بھرمار ہے۔

    پھر یہ عقیدہ آدمی کو خود غرض اور سنگ دل بھی بناتا ہے۔ چونکہ لامحدود مسرت صرف تخیل کی مدد سے اور صرف تخیل میں حاصل ہو سکتی ہے۔ اس لیے آدمی کو دوسرے آدمیوں کی ضرورت صرف اتنی دیر کے لیے پڑتی ہے کہ اس کا تخیل حرکت میں آ جائے۔ اس کے بعد وہ دوسروں سے بالکل بے نیاز ہو جاتا ہے۔ پھر اسے دوسروں کی خواہشات اور جذبات کا احساس تک نہیں رہتا۔ اپنی تخیلی لذت اندوزی سے اسے اتنی فرصت نہیں ملتی۔ اس رسم کے مطابق آدمی اپنی محبوبہ تک سے کتنی بے رحمی برتنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ اس کا اندازہ کرنا ہو تو Benjamin Constant کا ناول Adalphe پڑھئے۔ ویسے یہی مضمون مختصر طور سے Lonio Bouilhet نے اپنی ایک نظم میں بیان کر دیا ہے۔ وہ اپنی محبوبہ سے کہتا ہے،

    ’’تیری شکل میں، میں جس چیز سے محبت کر رہا تھا وہ خود میری سر مستی تھی۔ تو چلی بھی جائے تو میرا کچھ نہیں بگڑتا، ہم نے انتہائی مسرتوں کے دن ضرور ایک ساتھ گزارے ہیں۔ مگر تو تو ایک معمولی ساز تھی۔ جس مضراب سے نغمے پیدا ہوتے ہیں وہ میں تھا۔ اب تیرا جہاں جی چاہے جا، میں نے اپنا پیالہ پی لیا تو دعوت بھی ختم ہوگئی۔ اگر ابھی تھوڑی سی شراب باقی ہے تو اسے نوکر پی لیں گے۔‘‘

    چونکہ روسو کا انسان معصوم اور پاک نفس بھی ہے۔ اس لیے اس سنگ دلی کے باوجود اسے شبہ تک نہیں ہوتا کہ میں بے رحمی سے کام لے رہا ہوں۔ میر نے محبت کی تھی تو انہوں نے عام آدمیوں کی زندگی اور ان کی مجبوریوں کو فراموش نہیں کیا تھا،

    جگر کاوی، ناکامی، دنیا ہے آخر

    نہیں آئے گر، میر، کچھ کام ہوگا

    اگر میر تو یوں ہی روتا رہے گا

    تو ہمسایہ کا ہے کو سوتا رہے گا

    اس قسم کے احساسات سے وہ شاعر بیگانہ ہیں جن کی شاعری کا مرکز روسو کا انسان ہے۔

    اس عقیدے سے جتنی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں، ان میں سب سے بڑی بیماری اکتاہٹ ہے۔ انسان کی جذباتی صلاحیتیں لامحدود سہی، مگر حقیقی زندگی بہ روئےکار آنے کا پورا موقع نہیں دیتی۔ تخیلی زندگی اوراصلی زندگی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ مگر جن لوگوں کویہ سکھایا گیا ہے کہ تم کائنات کی سب سے بڑی طاقت ہو، تم ہر قسم کی پابندیوں سے ماورا ہو، اور زندگی سے اپنی توقعات پوری کرنے کا مطالبہ کر سکتے ہو۔ان کے لیے دوہی باتیں رہ جاتی ہیں۔ یا تواصلی زندگی کو آزمائیں ہی نہیں اور ایکسل کی طرح خودکشی کر لیں، یا ساری زندگی بیزاری اور اکتاہٹ میں گزاریں مگر آدمی طبعاً زیادہ دیر اکتاہٹ برداشت نہیں کر سکتا۔ وہ اکتاہٹ سے چھٹکارا پانے کے لیے نئی نئی دلچسپیاں ایجاد کرنی شروع کر دیتا ہے۔

    HUYSMANS کے ایک ناول کا ہیرو اپنے پاس سے پیسے خرچ کر کے ایک غریب نوجوان کو طوائفوں کی چاٹ لگاتا ہے۔ جب اس نوجوان کی عادت پختہ ہو جاتی ہے تو وہ پیسے دینا بند کر دیتا ہے۔ یہاں تک کہ نوجوان چوری اور قتل تک پر مجبور ہو جاتا ہے۔ اس سے ہیرو کو بڑی تسکین ہوتی ہے کہ میرا تجربہ کامیاب رہا۔ گویتے کے ایک کردار کا خواب یہ ہے کہ میں کسی مشرقی ملک کا سلطان بن جاؤں۔ نرم نرم گدوں پر بالکل بے حس پڑا حقہ پیا کروں اور پیر کسی کنیز کے برہنہ سینے پر رکھے ہوں۔ اکتاہٹ جتنے بھی کھیل کھیل سکتی ہے وہ سب بودلیر نے مختصر لفظوں میں بیان کر دیے ہیں۔

    ’’لیکن گیدڑوں، بھیڑوں، جوؤں

    بندروں، بچھوؤں، گدھوں، سانپوں۔۔۔ بھونکتے، غراتے،

    دھاڑتے عفریتوں کے درمیان

    ہماری بدکاریوں کے شرمناک چڑیا گھر ہیں

    ایک عفریت سب سے گھناؤنا، بدہیئت اور شریر ہے!

    یوں تو وہ اچھلتا کودتا ہے نہ چنگھاڑتا ہے

    مگر اس کا بس چلے تو ساری زمین کو کھنڈر بناکے رکھ دے،

    اور ایک جمائی میں دنیا کو نگل جائے

    اس عفریت کا نام بےلطفی ہے۔۔۔! آنسو اپنے آپ اس کی آنکھوں میں ڈھلک آئے ہیں۔

    وہ بیٹھا حقہ پی رہا ہے اور لوگوں کو سولی چڑھانے کے خواب دیکھ رہا ہے۔‘‘

    بودلیر کے نام کے ساتھ مسئلے کا ایک نیا رخ ہمارے سامنے آتا ہے۔ رومانی تحریک کے شاعروں مثلاً De musset اور Aevigny کو پتہ چلا کہ انسان کے اندر لامحدود صلاحیتیں بتائی جاتی ہیں مگرعملا ایسا نہیں ہے۔ چنانچہ اس احساس کے ساتھ ان پر بڑی رقت طاری ہوئی، مگر وہ رود ھوکے بیٹھ گئے۔ اس کے آگے کچھ نہیں کیا۔ بودلیرنے اس سے آگے بڑھ کر پوچھا کہ آخر ایسا کیوں ہے۔اس کے ہاں انسان نے چپ چاپ حقیقت سے ہارنہیں مان لی، بلکہ پٹ پٹ کے ہردفعہ اٹھتا رہا۔ انسان تو بودلیر کو اپنے پیش روفلسفیوں، ادیبوں اور شاعروں سے ورثے میں ملا تھا اور آدمی خود اس کے اندر موجود تھا۔۔۔ اور آدمی بھی بڑا جاندار اور چوکنا۔

    چنانچہ اس کے اندر انسان اورآدمی دونوں ایک دوسرے سے گتھ گئے۔ بودلیر کی شاعری اسی جنگ کی رزمیہ داستان ہے۔ انسان کوخارجی ماحول سے بھی مدد مل رہی تھی۔ جب آدمی اسے چت کرلیتاتھا تو ماحول انجکشن دے کرانسان کوپھر اٹھابٹھاتا تھا۔ بودلیر کے اندر روسو کا فطری انسان مر تو نہیں سکا، مگر آدمی نے اپنی قوت ضرور دکھا دی۔ بیسویں صدی کی تہذیب کے لیے بودلیر کی شاعری، ایپسٹائن کے بقول، بائبل کی حیثیت رکھتی ہے تو اسی لیے کہ اس کی شاعری نے سب سے زیادہ شدت کے ساتھ ہمیں بتایاکہ موجودہ مغربی تہذیب کا خدا فطری انسان در اصل جھوٹا خدا ہے۔

    نثر میں یہی کام فلوبیر نے کیا ہے۔ اس کی شخصیت بھی انسان اور آدمی کی رزم گاہ تھی۔ انسان کس طرح شکست کھاتا ہے، اس کی تدریجی منزلیں اس نے مادام بو واری میں دکھائی ہیں۔ اس کشمکش کا زیادہ واضح بیان فلوبیر کے خطوں میں ملتا ہے۔ جن عقیدوں کی بنیاد پر اس کی شخصیت تعمیر ہوئی تھی، ان کا تقاضا تھا کہ وہ اپنی ہر آرزو اور ہر جذبے کو لامحدود بنانے کی کوشش کرے، مگر اسے اپنے چاروں طرف دیواریں کھڑی نظر آتی تھیں، اسی گھٹن کے احساس سے وہ تکلیف کے مارے چیخ چیخ اٹھتا تھا۔ ایک طرح دیکھئے تو فلوبیر کو اندازہ ہو گیا تھا کہ جس تہذیب میں فطری انسان کی پوجا ہو وہاں بڑی شخصیتیں پیدا ہی نہیں ہو سکتیں۔ وہ اس طرح کہ وہ اپنے زمانے کے مزاج کو پیش نظر رکھ کر بڑے آرٹ کے خصائص اور شرائط متعین کرتا تھا اور آخر میں یہ بھی اعتراف کرنے پر مجبور ہو جاتا تھا کہ سب سے بڑے فنکار ان شرائط کی پابندی نہیں کرتے، بلکہ ان شرائط سے بے نیازی برتنے کی وجہ سے بڑے بنے ہیں۔

    جس شدت اور والہانہ انہماک کے ساتھ فطری انسان اپنی ساری توجہات کسی خاص طرح کی مسرت کے حصول کےلیے وقف کر دیتا ہے، اسی غلو کے ساتھ فلوبیر نے اپنے آپ کو اپنے فن کے لیے وقف کر دیا تھا اور ایک عام آدمی کی زندگی کے جتنے مطالبات اور مناسبات ہوتے ہیں وہ سب اسی قربان گاہ پر چڑھا دیتے تھے۔ یہاں تک کہ جب اس کی محبوبہ نے اس کی بے توجہی کی شکایت کی اور اسے ٹوکا کہ شاید تمہارے دل میں مجھ سے زیادہ اپنے فن کی محبت ہے، تو فلوبیر نے بڑی صفائی سے اور اس کے جذبات کا خیال کیے بغیر قبول کر لیا کہ ہاں! تم ٹھیک کہتی ہو۔

    آخری عمر میں جاکر اس کی سمجھ میں آنے لگا تھا کہ میری شخصیت اور فن پوری طرح پھولاپھلا نہیں تو اس کی یہی وجہ تھی کہ میرے اندر کا جو آدمی تھا میں ہمیشہ اس کا گلا گھونٹتا رہا۔ اپنے آخری ناول بودارائے پکوشے میں جو میرے نزدیک اس کا عظیم ترین ناول ہے، فلوبیر نے انسان کے اسی رجحان پر طنز کیا ہے کہ وہ اپنی اہلیتوں کی حد سے آگے بڑھنا چاہتا ہے اور زندگی کے ہر شعبے میں مکمل بننے کی آرزو کرتا ہے اور آخر میں رہتا ہے وہی موچی کا موچی، بلکہ اگر اسے اپنی بے جا خواہشوں کی سزا نہ ملے تو اسی کو غنیمت سمجھئے۔

    غرض انیسویں صدی کے آخر تک ادیبوں اور شاعروں نے اپنے ٹھوس تجربات کے ذریعہ ثابت کر دیا تھا کہ انسان کا یہ تصور بجائے خود انسانیت کو برباد کر دینے کے لیے کافی ہے۔ اس کے بعد ادب میں ایک نیا دور شروع ہوتا ہے۔ اس دور میں یہ عقیدہ ختم تو نہیں ہوا اور ادیبوں کے ختم کیے ختم ہو بھی کیسے سکتا تھا جبکہ اس کی پشت پناہی دنیا کے سارے حکمران کر رہے ہوں۔ جو ادیب میرے ذہن میں ہیں ان کے اندر انسان اور آدمی کی کشمکش بدستور جاری ہے، مگر وہ انسان کی شکست دکھا کر چپ نہیں ہو جاتے بلکہ واضح طور سے آدمی کی فتح ثابت کرتے ہیں۔ فلوبیر ساری عمر متوسط طبقے کے لوگوں سے نفرت کرتا رہا تھا۔ مگر آخر آخر میں جب وہ چھوٹے موٹے دکانداروں کو اپنے پورے خاندان سمیت سیر کے لئے جاتے ہوئے دیکھتا تو بڑے تاسف کے ساتھ کہا کرتا تھا کہ شاید یہی لوگ راستی پر ہیں۔

    مارسل پروست، جیمز جوائس اور ٹومس مان نے، ’’شاید‘‘ کا لفظ حذف کر دیا ہے بلکہ جوئس نے تو صاف صاف کہا ہے کہ میرے ناولوں کے آخر میں عام آدمی کی فتح ہوگی۔ یہ ادیب عام زندگی کے مطالبات کو اور اس کی حدبندیوں کو قبول کرتے ہیں، مجبوراً نہیں، بلکہ اسے حیاتیاتی ضرورت اور آدمی کی زندگی کی لازمی شرط سمجھ کر۔ ان لوگوں کا رویہ قطعی طور پر اثباتی ہے۔

    ان دو چارادیبوں نے تو ضرور آدمی کو قبول کر لیا ہے، مگر ہمارے زمانے کے زیادہ تر ادیبوں اور خصوصا حکمرانوں کے دماغ پر ابھی تک انسان حاوی ہے اور اس تصور سے تہذیب اور انسانیت کو جو خطرے لاحق ہو سکتے ہیں وہ ویسے کے ویسے ہی موجود ہیں۔ بعض لوگ یہ ضرور دعویٰ کرتے ہیں کہ روس میں ایک نئی اجتماعیت کی بنیاد رکھی گئی ہے، وہاں اس قسم کا کوئی خطرہ نہیں ہے، وہاں فرد معاشرے کی مرضی کا پابند ہے، اسے خاص قسم کے اخلاقی اصولوں پر عمل کرنا پڑتا ہے، مگر یہ دلیل صرف بادی النظر ہی میں درست ہے۔ روس میں فرد پرجو پابندیاں لگائی گئی ہیں وہ صرف خارجی قسم کی ہیں۔ وہاں فرد کے افعال و اعمال کی حدبندی ضرور ہو گئی ہے، مگر اس کی داخلی زندگی پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ اشتراکی اخلاقیات کا عمل دخل صرف ظاہری اعمال تک ہے، داخلی زندگی تک اس کی پہنچ براہ راست نہیں ہے۔

    کتے کی دم کونلکی میں بند کر کے روسی اشراکیت مطمئن ہو جاتی ہے کہ اب کتے کے دل میں اپنی دم اوپر اٹھاکے ہلانے کی خواہش کبھی پیدا نہیں ہوگی۔ رہا داخلی اقدار کا معاملہ تو انسان کا جو تصور اب تک فرد سے متعلق رہا تھا، اسے عوام کی طرف منتقل کر دیا گیا ہے۔ اس سے زیادہ اور کچھ نہیں ہوا۔ عوام سے اونچی کائنات میں اورکوئی طاقت نہیں ہے،عوام معصوم اور پاک طینت ہیں،عوام کی خواہشات پر کوئی پابندی نہیں ہے، عوام کی طاقتیں لامحدود ہیں۔ یہ نئی اخلاقیات کے مرید اس بات کو بالکل نظر انداز کر دیتے ہیں کہ ان تصورات کی بدولت افراد کو جن تلخ تجربات سے دوچار ہونا پڑا ہے، وہی ایک پوری کی پوری قوم کے سامنے بھی آ سکتے ہیں، کیونکہ جس طرح ایک فردکی صلاحیتیں لامحدود نہیں ہیں اسی طرح افراد کے ایک مجموعے کی صلاحیتیں بھی لامحدود نہیں ہیں۔

    عوام کی شخصیت بھی سیدھی سادی نہیں ہے۔ اس کے اندر بھی متضاد اور متناقص رجحانات موجود ہیں۔ کائنات کی جو طاقتیں فرد کے کام میں کھنڈت ڈال سکتی ہیں، وہی عوام کو بھی پریشان کر سکتی ہیں۔ بہرحال یہ باتیں ایسی نہیں جو کسی زبردست قومی حادثے سے دوچار ہوئے بغیر سمجھ میں آجائیں۔ابھی روسی تہذیب کی عمر ہی کیا ہے۔ یہ تو روسی قوم کو آہستہ آہستہ ہی پتہ چلے گا کہ کائنات کی سب سے بڑی طاقت ہونے کے کیا معنی ہیں۔

    مگر پوت کے پیر پالنے میں دکھائی دے جاتے ہیں۔ چونکہ ادب ہر تصور کے ممکنات کی طرف سو سال پہلے اشارہ کر دیتا ہے، اس لئے روسی تہذیب کے بارے میں ہمیں وہاں کے ادب سے کئی مفید مطلب باتیں معلوم ہو سکتی ہیں۔ عوام ایک مجرد مطلق تصور نہیں ہے بلکہ اس کے مادی مناسبات بھی ہیں تو عوام سے مراد افراد کا مجموعہ ہی ہو سکتا ہے۔ اب اگرعوام یا افراد کے مجموعے کی چند صفات بتائی جاتی ہیں تو فرد یہ سمجھنے میں حق بجانب ہے کہ یہ ساری صفات مجھ میں نہ سہی، مگر ان کا تھوڑا بہت حصہ تو مجھے بھی ملا ہوگا۔ چانچہ وہ سارے تصورات ایک ایک کر کے واپس آنے لگتے ہیں جن کا ذکر اوپر کیا گیا ہے اور ان کے اثرات بھی لازمی طور پر کم و بیش وہی ہوں گے جو سرمایہ دارانہ سماج میں ہوئے تھے۔

    روس کی نئی اجتماعیت نے صرف ظاہری حالات بدلے ہیں۔ صرف معاشی، سیاسی اور سماجی ماحول دیا ہے۔ تہذیب نفس کا کوئی نیا داخلی نظام مرتب نہیں کیا بلکہ انسان کے متعلق اس کاعقیدہ کم و بیش و ہی ہے جو رومانی فلسفہ حیات کا ہے، اور جو ذرا سی ڈھیل ملتے ہی آدمی کو انفرادیت پرستی کی طرف لے جاتا ہے اور جب اس انفرادیت پرستی کی علامتیں فرد میں نمودار ہونے لگتی ہیں تو اجتماعیت پھر فرد کو سزا دیتی ہے۔ کئی اچھے فنکاروں کے ساتھ روس میں یہی ہو چکا ہے۔ آدمیوں کی داخلی زندگی کو قابو میں رکھنے کے لئے روس کی اجتماعیت کے پاس صرف ایک آلہ ہے جبر و احتساب۔ آخر انسانی تاریخ میں اجتماعیت کی اور بھی تو مثالیں ہیں۔ کم سے کم ایسی تہذیبیں تو بہت سی ہوچکی ہیں جن کے لئے مریضانہ انفرادیت پرستی اتنی ہی مہلک تھی جتنی روس کے لئے، مگر انہوں نے جبر کا استعمال اتنی فراوانی سے کیوں نہیں کیا؟

    بہت ہی واضح ارتداد کو تو خیر کوئی بھی منظم معاشرہ قبول نہیں کر سکتا۔ مگر جہاں تک ادب اور فن میں اجتماعی جذبات سے تھوڑے بہت انحراف کا تعلق ہے، اسے ناپسندیدگی کی نظر سے تو ضرور دیکھا گیا ہوگا، مگر یہ کبھی نہیں ہوا ہوگا کہ حکومت تک گھبرا اٹھے، اسے غداری کے برابر سمجھے اور فورا ًکچل دینے کی کوشش کرے۔ یہ بالکل وہی بات ہے کہ کمہار پربس نہ چلا، گدھے کے کان اینٹھے۔ اگر روسی حکومت ایسا ادب چاہتی ہے جو مریضانہ عناصر سے خالی ہو، جس میں توانائی اور توازن ہو، جو پوری قوم کے لئے ہو تو اسے سب سے پہلے داخلی زندگی کی توانا اور متوازن اقدار معین کرنی چاہئیں۔ حکومت کی خواہشات سے منحرف ہونے والوں کو پکڑنے دھکڑنے سے نیاانسان پیدا ہونے کی زیادہ امید نہیں ہے۔ جن تہذیبوں نے توانا اجتماعی ادب پیدا کیا ہے ان کی بنیاد آدمیوں کے ٹھوس تجربے اور کائنات و حیات کے متوازن اور حقیقت آگیں تصور پر تھی، وہ تہذیبیں آدمی کی پوری شخصیت کے لئے ایک تسکین بخش نظام مرتب کرتی تھیں۔ اس لئے لوگ جبر کے بغیر بھی اس اجتماعیت کو قبول کرتے تھے اور اس طرح کہ من تو شدم تو من شدی، کی کیفیت پیدا ہو جائے۔

    ایک خاص قسم کی اجتماعی زندگی کو لوگوں نے قبول کر لیا ہے یا نہیں، وہ ان کے رگ و پے میں بس گئی ہے یا نہیں، اس کا بہترین امتحان یہی ہے کہ جبر و اکراہ بلکہ اصرار و تاکید کے بغیر وہاں بڑے فن پارے پیدا ہوں۔ روسی تہذیب اس امتحان میں پوری نہیں اترتی، حالانکہ سال میں ایک دفعہ ہم یہ اعلان ضرور سن لیتے ہیں کہ روس میں انسانی تاریخ کا سب سے عظیم الشان ادب پیدا ہوگا۔ ایسا ادب پیدا ہونا تو درکنار،جو لوگ معقول ادب پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہ یاتو تھوڑے دن بعد خودکشی کر لیتے ہیں یا ان کی تحریروں کی اشاعت حکماً بند کر دی جاتی ہے۔ یہ بڑی عجیب و غریب صورتحال ہے۔

    اگر روس میں ایک نئی تہذیب پیدا ہو چکی ہے اور ملک والوں کی غالب اکثریت اس اقدار سے پوری طرح مطمئن ہے تو دوچار آدمیوں کے منحرف ہو جانے پر اتنا پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے؟ اگر اس بات کا اندیشہ ہے کہ یہ دوچار آدمی اکثریت کو بہکا کر غلط راستے پر ڈال دیں گے تو اس کامطلب یہ ہے کہ اکثریت اس تہذیب کی اقدار سے پوری طرح مطمئن نہیں ہے اور اس میں کمی محسوس کرتی ہے۔ اگر اکثریت اس تہذیب سے مطمئن بھی ہے۔۔۔ اوراسے بہکایا بھی جا سکتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ روٹی کا مسئلہ آدمی کی زندگی کا سب سے بڑا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ اس کی زندگی میں اتنی ہی اہمیت رکھنے والے اور بھی ایک دو مسئلے ہیں جن کا نام لے کے آدمی کو ایسا فریب دیا جا سکتا ہے کہ وہ روٹی کی فکرچھوڑ کے کسی اور دھن میں لگ جائے۔ اس گتھی کو نہ تو روسی حکومت سلجھاتی ہے نہ روس کے مداح، بلکہ جو آدمی اپنی تسکین کی خاطر یہ بات سمجھنی چاہے، اسے لازمی طور سے روس کا دشمن سمجھ لیا جاتا ہے۔

    روس کے متعلق ایک بات اور قابل غور ہے۔ فرض کیجئے کہ روس میں فطری انسان کی صفات کوعوام کی طرف اس اندازسے منتقل کیا گیا ہے کہ انفرادیت پرستانہ رجحانات کے لئے کوئی گنجائش نہیں رہی اور ایک معمولی فرد کو اس کی اجازت نہیں کہ وہ اپنی ذات میں عوام کی صلاحیتوں کا عکس دیکھے۔ چلئے ہم تھوڑی دیر کے لئے یہ بات تسلیم کئے لیتے ہیں مگرعوام ہر معاملے میں اپنی مرضی کا براہ راست اظہار نہیں کر سکتے۔عملی ضرورتوں کا تقاضا یہ ہے کہ عوام اپنے نمائندے منتخب کریں جن کے ذریعے ان کی مرضی بہ روئے کار آتی رہے۔

    یہ نمائندے جتنی دیر عوام کے نمائندوں کی حیثیت سے کام کریں گے، اتنی دیر کے لئے عوام کی جملہ صفات اور اختیارات کے مالک ہوں گے، اگرعوام معصوم اور بے گناہ ہیں تو اتنی دیر کے لئے یہ بھی بے گناہ ہو جائیں گے۔ کم سے کم انہیں اپنے آپ کو معصوم سمجھنے کا تھوڑا سا حق ضرور حاصل ہوگا، مگر یہ نمائندے بہرحال افراد ہوں گے اور ان میں عام آدمیوں کی سی کمزوریاں ہوں گی۔ کسی اخلاقی نظام کی غیرموجودگی میں ان عوامی نمائندوں کی حکومت انتہائی استبدادی ہوگی۔ کیونکہ یہ لوگ عام آدمیوں کی طرح سنگ دلی اور بے رحمی سے بھی کام لیں گے اورعوامی نمائندوں کی حیثیت سے اپنے آپ کو غلطی سے مبرا بھی سمجھتے جائیں گے۔ عوام کی صورت میں انسان کو کائنات کی سب سے بڑی طاقت اور خیرمطلق سمجھنے کا اور کوئی نتیجہ ہو ہی نہیں سکتا۔

    انسان پرستی فرد اور قوم دونوں کے معاملے میں بڑی جلدی خودپرستی اور مشیخت بن جاتی ہے۔ وہ اس طرح کہ انسان بجائے خود مطلق ہے۔ صرف ماحول اسے بگاڑتا ہے۔ اگر ماحول کو خرابیوں سے پاک کر دیا جائے تو انسان مکمل ہو جائے گا۔ چونکہ کم سے کم نظریاتی طور پر ماحول کی خرابیاں روس میں دور کی جا چکی ہیں۔ اس لئے روسی اپنے آپ کو ہر طرح سے مکمل انسان تصور کرنے کا حقدار سمجھتے ہیں اور اسکولوں کے بچے غیرملکیوں سے پوچھتے ہیں کہ صاحب آپ کے ملک میں ریل گاڑی ہوتی ہے؟

    ذاتی طور پر میں انسان پرستی سے اس لئے ڈرتا ہوں کہ انسان کے ایک مجرد و مطلق تصور پر ایمان لانے کے بعد آدمی بے رحم ہو جاتا ہے۔ انفرادی معاملات میں بھی اور اجتماعی معاملات میں بھی، بلکہ اجتماعی معاملات میں زیادہ۔ کیونکہ اجتماعی فائدے کے لئے حرام چیز کو بھی حلال کر دینے کا میلان ہر آدمی میں ہوتا ہے، انسان پرستی سنگ دلی کیسے بن جاتی ہے اسے چیخوف نے ایک کہانی میں بڑی اچھی طرح سمجھایا ہے۔

    ایک دائی کو کسی وکیل کے یہاں بلایا جاتا ہے۔ وہ وہاں جاکے دیکھتی ہے کہ وکیل بڑا دیانت دار، بڑا شریف اور بااصول ہے۔ مگر پھر بھی اس کے بیوی بچے اس سے نفرت کرتے ہیں۔ بات یہ تھی کہ وکیل کے ذہن میں انسان کے متعلق چند تصورات تھے کہ اسے فلاں فلاں اصولوں کی پیروی کرنی چاہئے۔ چنانچہ اسے بس وہ اصول ہی یاد رہ گئےتھے اورگوشت پوست کے آدمیوں کو وہ بالکل ہی بھول گیا تھا۔

    دوسرے میں انسان پرستی سے اس لئے ڈرتا ہوں کہ اس کے بعد آدمی کے ذہن میں لطیف، وسیع اور گہرے تجربات کی صلاحیت باقی نہیں رہتی اور آدمی کئی اعتبار سے ٹھس بن کے رہ جاتا ہے۔ جب انسان کی صفات پہلے ہی سے مقرر ہیں تو اس کے بارے میں نئے تجربات ہی کیا ہو سکتے ہیں؟ جو چیز پہلے ہی سے مکمل ہے اس میں کوئی اضافہ نہیں ہوسکتا۔

    اسی لئے مجھے اندیشہ ہوتا ہے کہ انسان اور انسانیت کے موجودہ تصورات سے بڑا ادب نہیں پیدا ہو سکتا۔ یہاں ایک بات کا فرق ملحوظ رکھنا ضروری ہے، ایک تو مرے ہوئے اور زندہ سب آدمیوں اور ان کے اگلے پچھلے سارے تجربات کے مجموعے کو بھی انسان یا انسانیت کہہ سکتے ہیں۔ ایسے لمحے ہر آدمی کی زندگی میں آتے ہیں جب وہ اپنے ذاتی تجربات کا دوسروں کے تجربات سے مقابلہ کرتا ہے۔ اپنے تجربات کو تھوڑی بہت تعمیم دیتا ہے، اپنے آپ سے پوچھتا ہے کہ ان تجربات کا مطلب کیا ہے، میں اور مجھ جیسے دوسرے آدمی کون ہیں، کہاں سے آئے ہیں، کدھر جا رہے ہیں۔ اس قسم کا تفکر آدمی کے اندر ہزار قسم کی شادمانیاں، ہزار قسم کی مایوسیاں، ہزار قسم کا استعجاب پیدا کر سکتا ہے۔ جب آدمی اس اندازسے سوچ رہا ہو تو ہم بڑے ٹھوس معنوں میں کہہ سکتے ہیں کہ وہ انسان یا انسانیت کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ اس قسم کے تفکر سے دامن بچا کے ادب کبھی بڑا یا قدرآور نہیں بن سکتا۔

    دوسری قسم کا انسان یا انسانیت وہ ہے جس کی تشریح میں اوپر کر آیا ہوں۔ چونکہ اس کی ساری صفات پہلے ہی سے مقرر ہو چکی ہیں، اس لئے اس کے بارے میں سوچنے کی قطعی ضرورت نہیں، خصوصا نئے اندازسے سوچنے کے معنی تو ٹھیٹ ارتداد ہیں۔ یہ انسان ایسی بے رنگ اور پھس پھسی چیز ہے کہ اس کی شکست کے بارے میں توبہت کچھ لکھا جاسکتا ہے اورڈیڑھ سو سال سے لکھا ہی جا رہا ہے۔ مگر اس کی مدح میں کوئی ایسی چیز نہیں لکھی جا سکتی جسے باذوق آدمی تین چار دفعہ دلچسپی سے پڑھ لیں، میں نے بہت سوچنے کی کوشش کی کہ بڑے ادب کی کوئی ایسی مثال مل جائے جس کا تعلق انسان کے ایسے تصور سے ہو، مگر میں کامیاب نہیں ہو سکا۔

    لے دے کے بس ہیملیٹ کی وہ چھوٹی سی تقریر ضرور یاد آتی ہے جس میں وہ انسان کی لامحدود صلاحیتوں کا ذکر کرتا ہے۔ اول تو میں کہوں گا کہ یہ تقریر اس قسم کا تفکر ہے جس کا ذکر میں نے ابھی ایک منٹ پہلے کیا تھا، مگر شیکسپیئر کے اکثر نقادوں کی رائے ہے کہ نشاۃ ثانیہ کے بعد انسان کے اندر جو آزادی اور خود مختاری آگئی تھی یہ تقریر اس کی مظہر ہے۔ خیریہ اپنا اپنا مذاق سخن ہے۔ اس تقریر کا رنگ تو اس وقت کھلتا ہے جب اسے ہیملٹ کے پورے کردار کے مقابل رکھ کر دیکھا جائے۔ ہیملٹ جیسے آدمی کے منہ سے یہ تقریر واقعی بڑا مزہ دیتی ہے۔

    اقبال کے کلام کو انسان پرستی کے جواز میں پیش کرنے سے بھی زیادہ مدد نہیں ملتی۔ اقبال انسان کی لامحدود صلاحیتوں کا قائل ہے بھی تو بڑی واضح اور معین حدوں کے اندر۔۔۔ یعنی مذہب کی مقرر کی ہوئی حدوں کے اندر۔آپ کہہ سکتے ہیں کہ اقبال کے عقائد اور چیز ہیں، ان کے شاعرانہ احساسات اور چیز ہیں۔ مگر خدا پر اعتقاد ان کے احساس کا ایسا لازمی اور بنیادی جز ہے کہ انسان کے متعلق بلند بانگ سے بلند بانگ دعوے کرتے ہوئے بھی ان کا انداز ایسا رہتا ہے جیسے اپنے سے بڑی کسی طاقت کو للکار رہے ہوں یا اسے چڑا رہے ہوں۔ ان کے شعروں میں یہ احساس ہمیشہ جھلکتا ہے کہ اگر تو یوں ہے تو میں بھی یوں ہوں، یہ بات اس مطلق انسانیت پرستی سے بنیادی طورپر مختلف ہے جو انسان سے آگے کسی ہستی کا تصور کر ہی نہیں سکتی۔

    جب اقبال مطلق انسان پرستی کی طرف مائل ہوتے ہیں تو انہیں موت اور وہ دوسرے اسباب فوراً یاد آجاتے ہیں جو آدمی کو اس کی سطح پر کھینچ لاتے ہیں۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ خدا کے حضور میں شوخ باتیں کہنے کے شوق میں اقبال ایک آدھ جگہ توازن قائم نہیں رکھ سکے ہیں۔ مثلا ایک بڑے سخن فہم اور قابل احترام بزرگ نے اقبال کے مشہور اور مقبول مصرع تو شب آفریدی چراغ آفریدم پر یہ اعتراض کیا ہے کہ رات جیسے آفاق گیر اور پراسرار تصور کے مقابلے میں مٹی کا چراغ لانا ذرا ہلکی سی بات ہے۔ یہ اچھی خطابت ہے، بڑا شعر نہیں ہے۔

    انسان پرستی پر مجھے سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ انسان بننے کے بعد آدمی اخلاقی معیاروں سے آزاد ہوتا ہے۔ اخلاقی معیاروں کی ضرورت تو اس کے لئے ہوتی ہے جس کی شخصیت میں متضاد اور متناقص میلانات موجود ہو ں اور ان میلانات میں سے بعض کو ابھارنا اور بعض کو دبانا لازمی ہو۔ جو ہستی بجائے خود نیک ہو، محض ماحول کی بدی سے مجبور ہو کے بد ہو جاتی ہو، اس کے لئے اخلاقیات کی ضرورت نہیں ہے، ماحول کو بدل دینا کافی ہے۔ ماحول بدل گیا تو پھر اس کی نیکی مسلمہ ہے۔ ایسی ہی مجبوری ہو تو قانون اس کی نگرانی کرتا رہے، ایسے اصولوں کی موجودگی لازمی نہیں جو اندرونی طور پرعمل کرتے ہوں۔

    انسان پرستانہ تہذیب کا واحد اخلاقی اصول یہ ہے کہ جوانسان قانون کے مطابق چلتا ہے وہ نیک ہے۔ چنانچہ انسان کی پرستش کرنے والا آدمی خود پسند اور خودغرض ہو جاتا ہے۔ وہ بودلیر کی طرح اپنے آپ کو کبھی ریاکار نہیں کہہ سکتا۔ اگراس کے مفاد پر براہ راست چوٹ نہ پڑتی ہو تو کوئی اخلاقی گناہ اسے نہیں چونکا سکتا۔ عملی طور پر انسان پرستی اخلاقی بے حسی کا دوسرا نام ہے۔ اگر پوری قوم انسان پرست ہو جائے تو اس کی سیاست بھی اخلاقی پابندیوں سے آزاد ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امن کا جتنا پرچار آج کل ہوتا ہے اتنا کبھی نہیں ہوا ہوگا۔ بین الاقوامی مصالحت کے لئے اتنی مجلسیں بھی کبھی موجود نہیں تھیں، مگر جنگ روز سر پر کھڑی رہتی ہے۔

    یہ تو میں بڑے مفصل طریقے سے بتا چکا ہوں کہ مجھے انسان کیوں ناپسند ہے۔ اب یہ سوال رہ جاتا ہے کہ آدمی کیوں پسند ہے۔ تو یہ بالکل سیدھی بات ہے۔ آدمی انسان نہیں بن سکتا، بلکہ آدمی رہنے پر مجبور ہے۔ یہ ایک احتیاطی مجبوری ہے جس میں آدمی کا کوئی اختیار نہیں۔ اس لئے آدمی کو ترجیح دینا بھی ایک حیاتیاتی ضرورت ہے۔

    اب میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میرے ذہن میں آدمی کی زندگی اور اس کے مطالبات کا کیا تصور ہے۔ یہ بات واضح کرنے کے لئے مثال کے طور پر ایک مکالمہ پیش کرتا ہوں جو میں نے یہ مضمون شروع کرنے سے چند دن پہلے اندھیری رات میں ایک اجاڑسی سڑک پر چلتے ہوئے سنا تھا۔ میرے آگے آگے تین شخص جا رہے تھے، ایک مرد، ایک برقعہ پوش عورت اور ایک آٹھ نوسال کا لڑکا۔ جب میں ان لوگوں کے قریب آیا تو عورت سہارنپوری لہجے میں کہہ رہی تھی،

    ’’پنشن مل جاگی تو ہم تو بھکوں مریں گے۔‘‘

    لڑکے نے بڑی تشویش کے ساتھ پوچھا، ’’کیوں، اماں، کیوں؟ بھوکوں کیوں مریں گے؟‘‘

    ’’پھر ہمیں ملے گا ہی کیا؟‘‘

    باپ نے بھی تائید کی کہ ’’ہاں! آدھے پیسے رہ جائیں گے۔‘‘

    بیٹے نے پوچھا، ’’ابا، تمہیں اب کیا مل رہا ہے؟‘‘

    باپ نے بتایا، ’’اسی روپے!‘‘

    ’’جب پنشن ہوجائے گی تو پھر کتے ملیں گے؟‘‘

    ’’چالیس روپے ملیں گے، بیٹے!‘‘

    بیٹے کو یہ سن کر بڑی فکر ہوئی،’’چالیس روپے میں ہم کیسے کریں گے؟‘‘

    ایک لمحہ غور کرنے کے بعد وہ پھر بولا، ’’کیوں، ابا، جب میں بڑا ہو جاؤں گا تو میں لگوں گا!ٍ‘‘

    جب اس لڑکے نے یہ آخری جملہ کہا ہے تو اس کا لہجہ سننے کے قابل تھا۔ اس کی آواز میں خوشی تھی جیسے اس نے مشکل حل کرلی ہو۔ اپنے اندر ایسی صلاحیت کی موجودگی پر استعجاب تھا، زندگی کی ذمہ داریاں قبول کرنے کی امنگ تھی۔ ان ذمہ داریوں کو پورا کرنے کاحوصلہ تھا۔ ایک عام آدمی کی زندگی سے جو کچھ مراد ہے، اس کی زندگی کا سارا نشاط اور سارا الم اس چھوٹے سے مکالمے میں آ جاتا ہے۔ آدمی کی زندگی اور اس کے فرائض بالکل عامیانہ، بے رنگ اورغیر شاعرانہ ہیں۔ مگر آدمیوں کی آپس کی بے غرض، بے مقصد اور عموما بے وجہ محبت اس زندگی میں رنگ بھرتی ہے، صدیوں سے آدمی اسی چکر میں پھنسا ہوا ہے اوراس کے اندرجوبھی تھوڑی بہت صلاحیتیں ہیں وہ انہیں دھندوں میں صرف ہوتی ہیں، مگر آدمی ابھی تک ان ذمہ داریوں سے نہیں اکتایا ہے۔

    آدمی اپنی تخلیق کے دن سے لے کر آج تک حیاتیاتی زندگی سے جد و جہد میں مصروف رہا ہے، اس نے خون تھوک تھوک دیا ہے مگر ہمت نہیں ہاری۔ اس کی زیادہ تر اہلیتیں اسی فضول کشمکش میں صرف ہوتی ہیں مگر اس کے باوجود اور اپنی انتہائی محدود صلاحیتوں کے بل پر ہی اس نے اپنے لئے ایک غیرحیاتیاتی زندگی بھی تخلیق کرلی ہے۔ اپنے اس کارنامے سے اسے ایسی عقیدت اورمحبت ہے کہ بعض دفعہ اس کی خاطر اپنی حیاتیاتی زندگی قربان کرنے کو بھی تیارہو جاتا ہے۔ یہ ہے وہ ہستی جو اصل میں ہمارے احترام کی مستحق ہے نہ کہ وہ مفروضہ جو مجسم شعریت ہے، مجسم کامرانی ہے۔ یہاں مجھے اپنی ایک جذباتی کمزوری کا اعتراف منظور ہے۔ پنشن یافتہ لوگوں کے سامنے میں نے اکثر اپنے آپ کو بڑا حقیر محسوس کیا ہے۔ زندگی کی ذمہ داریاں پوری کر لینے سے آدمی کے اندر جو تجربات کی پختگی آجاتی ہے اس کے سامنے ہر دوسرا تجربہ کچھ بے جان اور بے حقیقت سا معلوم ہوتا ہے۔

    جو تہذیب آدمیوں کے ٹھوس تجربات سے بے نیاز ہو کر اقدار سازی کرتی ہے اس کے مقدر میں شکستیں اور حسرتیں لکھی ہیں۔ خصوصاً ادب تو آدمیوں سے قطع تعلق کر کے دو قدم نہیں چل سکتا۔ اس دعوے کی دلیل پیش کرنے کی ضرورت نہیں۔ اردو کے نئے ادب خصوصا نئے افسانے کی مثال ہماری آنکھوں کے سامنے ہے۔ ہمارے افسانہ نگاروں نے اپنی تخلیق کا مرکز انسان کو بنایا تھا۔ چنانچہ دس بارہ سال کے اندر اندر سب بیٹھ گئے ہیں۔ تخلیقی اعتبار سے بس ایک منٹو زندہ ہے جس کی گرفت زندہ آدمیوں کے تجربات پر اتنی مضبوط تھی کہ مروجہ عقیدے بھی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکے۔ یا اب کچھ عزیز احمد کے افسانوں میں جان آتی جا رہی ہے، کیونکہ وہ آہستہ آہستہ انسان سے آدمی کی طرف ہجرت کر رہے ہیں۔

    یہ صورتحال کچھ اردو ادب تک ہی محدود نہیں ہے۔ ساری دنیا کا انسان پرست ادب تھک کے چور ہو گیا ہے، اب تک جو کچھ لکھا جا چکا ہے اسے دہراتے رہنے کے سوا اس ادب کے سامنے اور کوئی مستقبل نہیں ہے۔ ہر ملک کے ادیب یہی کہہ رہے ہیں کہ اب کیا کریں؟ اگر روس کے ادیبوں کو اجازت ہوتی تو وہ بھی یہی کہتے۔ دو ایک آدمیوں نے یہ بات کہنے کی جرأت کی تو فوراً ان کی مرمت کردی گئی۔

    ادب میں دوبارہ جان کس طرح آسکتی ہے، یہ تو پھر بھی چھوٹا مسئلہ ہے۔ اب تو نسل انسانی کے پورے مستقبل کا دارومدار اس پر ہے کہ بیسویں صدی کی تہذیب اپنی داخلی زندگی میں بنیادی تبدیلیاں کرے اور انسانی فکر وعمل اور بنیادی تصورات کی حدبندی نئے سرے سے ہو۔ اس تشکیل نو کی سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ اقدار کا یہ نیا نظام آدمی کے لئے ہو، انسان کے لئے نہیں اور آدمی کی پوری شخصیت اور اس کی حقیقی صلاحیتوں کو ذہن میں رکھ کر بنایا گیا ہو۔ اس کے بغیر ساری کانفرنسیں، تجویزیں اور معاہدے بیکار ہیں۔ اگرساری دنیا میں اشتراکی نظام رائج ہو گیا اور آدمی کی داخلی زندگی اسی طرح آزاد رہی تو اس سے کوئی بنیادی فرق نہیں پڑے گا۔

    داخلی زندگی کی اس تشکیل نو میں نسل انسانی اور اس کے مستقبل کا تصور کیا ہوگا، اس کے متعلق آندرے مالرو نے ایک بڑا بلیغ اشارہ کیا ہے۔ جو لوگ بے سوچے سمجھے ہر وقت رجائیت پسند بنے رہتے ہیں، ان کو ذہن میں رکھ کرمالرو نے کہا ہے کہ ہمارے لئے زندگی کا المیہ تصور بہت ضروری ہے کیونکہ ہمیں یہ تو معلوم ہے کہ انسان کہاں سے چلا ہے، مگر یہ پتہ نہیں کہ وہ جا کہاں رہا ہے۔ اس بات کا ایک دوسرا رخ بھی ہے جسے ان لوگوں کے سامنے پیش کرنا چاہئے جو فطری انسان کی شکست سے ایسا مایوس ہوئے ہیں کہ اب انہوں نے تشائم پرستی کو ہی اپنا شعار بنا لیا ہے۔ ان لوگوں سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمار ے لئے زندگی کا نشاطیہ تصور بھی ضروری ہے۔ کیونکہ یہ تو پتہ نہیں کہ انسان جا کہاں رہا ہے۔ مگر ہم یہ ضرور جانتے ہیں کہ وہ چلا کہاں سے ہے۔ المیہ اور نشاطیہ ان دونوں تصورات کی مدد سے ہم ایک متوازن اور صحت مند نظام حیات مرتب کر سکتے ہیں۔

    آخر میں کسی تعصب یا جانبداری کے بغیر یہ کہنا غیر مناسب نہ ہوگا کہ عام آدمی کی شخصیت، اس کی صلاحیتوں اور اس کی زندگی کے گوناگوں تقاضوں کا جتنا لحاظ اسلام نے رکھا ہے اتنا کسی اور مذہب یا نظام حیات نے نہیں رکھا۔ اسلام نے دل خوش کن باتوں سے کہیں زیادہ اصلی زندگی کی حقیقتوں کی طرف توجہ کی ہے۔ اسلام آدمی کی شخصیت کے متضاد اور متناقص مطالبات سے گھبرایا نہیں۔ اس نے کبھی آنکھ چرانے کی کوشش نہیں کی بلکہ ہر تقاضے کو اس کی واجب جگہ دی ہے۔ جس طرح آدمی کی زندگی میں الم اور نشاط دونوں کی جگہ ہے، دونوں کا جواز ہے، اسی طرح اسلام نے بھی دونوں تصورات کی گنجائش رکھی ہے۔ انسان کو ظالم اور جاہل بھی کہا ہے اور اس کی خوبیوں کو سراہا بھی ہے۔ چنانچہ اسلام کے تصور حیات میں شروع سے آخر تک مختلف قوتوں اور میلانات کے درمیان ایک توازن موجود ہے۔

    پاکستان چونکہ اسلامی تصور حیات کی نمائندگی کا دعویٰ کرتا ہے، اس لئے بیسویں صدی کے موجودہ حالات میں ہمارا ایک خاص فرض ہے، وہ یہ کہ ہمارے تصور حیات میں جو ممکنات ہیں انہیں ہم اپنے فکر وعمل اور اپنی شخصیت میں منتقل کریں۔ اسلامی کردار کی تخلیق بیسویں صدی کی انسانی تہذیب میں ایک انقلابی واقعہ ہوگا۔ یہ بات ہمارے لئے ایک اور لحاظ سے بھی اہم ہے۔ دوسری قومیں شاید اپنا تصور حیات چھوڑ کر بھی بری بھلی طرح زندہ رہ سکتی ہیں لیکن ہمارا تصور حیات اتنا واضح، معین اور غیر مبہم ہے کہ مسلمان صرف اپنے تصور حیات پر عمل کر کے ہی زندہ رہ سکتا ہے، اس کے بغیر مسلمان کی زندگی ناممکن ہے۔ ہماری قومی زندگی کی نشو و نما اسی تصورحیات سے وابستہ ہے۔ ہمارے ادب میں بھی صرف اسی طریقے سے جان آ سکتی ہے، ورنہ یہ اسی طرح بے اثری اور ناتوانائی کی خلاؤں میں ٹامک ٹوئیاں مارتا رہے گا۔

    نوٹ، یہ مضمون میں نے حلقہ احباب ذوق لاہور میں پڑھا تو بعض حضرات نے حلقے کی روایتی سنجیدگی، خلوص اور دیانت داری سے کام لیتے ہوئے مجھے بتایا کہ میں نے آخر میں جس انداز سے اسلام کا ذکر کیا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ میں دوسری تہذیبوں یا نظاموں کو قابل غور نہیں سمجھتا۔ چنانچہ مجھے دوسرے مذہبوں خصوصا بدھ اور کنفیوشس کے مذاہب کے متعلق کچھ ضرور کہنا چاہئے تھا۔ چونکہ یہ اعتراض نیک نیتی پر مبنی تھا اس لئے اس نوٹ کا اضافہ ضروری معلوم ہوا۔

    جہاں تک دنیا کے لئے نظام حیات تجویز کرنے کا تعلق ہے، وہ نہ تو اس مضمون کا موضوع ہے نہ مجھ میں اس کی صلاحیت ہے۔ اس لئے میں نے مختلف نظاموں کا تقابلی مطالعہ پیش کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ لیکن چونکہ انسان اور آدمی کی بحث کا تعلق پاکستان کے باشندوں سے بھی ہے، اس لئے اپنے ملک کے حالات کے پیش نظر میں نے آخر میں یہ اشارہ بھی کر دیا کہ ہمارے پاس اس وقت بھی ایک ایسا نظام حیات موجود ہے جو بڑا متوازن اور حقیقت آگیں ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ دوسری تہذیبوں میں جو خوبیاں ہیں ان سے غافل ہوں۔ اسلام نے اہل کتاب کا تصور پیش کرکے مسلمانوں کو یہی ہدایت کی ہے کہ دوسری تہذیبوں کا بھی احترام کرو۔ اگر میں دوسری تہذیبوں کو لغو سمجھنے لگوں تویہ بات اسلام کی روح کے خلاف ہوگی۔

    بدھ اور کنفیوشس کے نظاموں کو بھی میں عزت اور محبت کی نظر سے دیکھتا ہوں، مگر ان کے بارے میں بھی ذرا سی تصریح لازمی ہے۔ بیسویں صدی کے بعد مغربی مفکروں اور ادیبوں نے ان دونوں مذاہب کا ذکرغیر معمولی عقیدت کے ساتھ کیا ہے۔ اس عقیدت کی ایک خاص وجہ ہے اور اس کے پیچھے خاص قسم کے نفسیاتی محرکات کام کر رہے ہیں۔ لامذہبیت، آزاد خیالی اور انسان پرستانہ تصورات سے مغربی تہذیب کو جو نقصانات پہنچے ہیں ان کا مفکروں کو شدید احساس ہے، وہ چاہتے ہیں کہ ان تصورات کو ترک کر کے کوئی نیا نظام حیات اختیار کیا جائے۔ مگر پچھلی صدی میں سائنس اور مذہب کی جو کشمکش ہوئی تھی اور جس طرح لوگوں کی طبیعت میں تشکیک نے غلبہ حاصل کر لیا تھا، اس کے اثرات ان مفکروں کے دماغ سے ابھی زائل نہیں ہوئے ہیں۔ چنانچہ وہ اقدار کا نیا نظام بھی مرتب کرنا چاہتے ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی چاہتے ہیں کہ اس نظام میں کسی مافوق الفطرت قوت کا تصور لازمی نہ ہو۔

    اس قسم کا نظام بدھ اور کنفیوشس کے یہاں ملتا ہے۔ ان دونوں نے نیک زندگی کو زیادہ اہمیت دی ہے اور خدایا حقیقت اعلیٰ کی معرفت پر زور نہیں دیا۔ دونوں مذہبوں میں عملیت اور مصفا دنیاویت کی روح بہت شدید ہے۔ اس لئے مذکورہ بالا مغربی مفکروں کے لئے ان مذہبوں میں بڑی کشش ہے۔ لیکن ہماری ذہنی ضروریات بالکل دوسری قسم کی ہیں۔ ہمارے ملک کے باشندے ابھی تک خدا کے تصور سے بیزار نہیں ہیں اور نہ اسے ترک کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ جتنی عملیت بدھ اور کنفیوشس کے یہاں ہے وہ ہمیں اسلام کے اندر رہتے ہوئے بھی میسر ہے۔

    دوسری طرف یہ بھی خیال رکھنا چاہئے کہ مغربی لوگ بدھ اور کنفیوشس کے تعلیمات کا مطالعہ اصلی اور خالص شکل میں کرتے ہیں، مگر چین میں یہ مذاہب خالص شکل میں رائج نہیں ہیں۔ دوسرے فلسفوں کو ضمیمے کے طور پر استعمال کیا گیا ہے اور کچھ چینی قوم کے مزاج نے ان تعلیمات میں رد و بدل کیا ہے۔ چینی آرٹ اور بدھ مذہب کو مترادف نہیں سمجھنا چاہئے۔ اگر یورپ بدھ مذہب اختیار کرے تو بہت ممکن ہے کہ وہاں سے آرٹ ہی غائب ہو جائے۔ ٹومس مان نے صراحتاً کہا ہے کہ بدھ کے اصولوں کے اندر رہتے ہوئے آرٹ کا تصور نہیں کیا جا سکتا اور بدھ آرٹ ایک ایسی اصطلاح ہے جس کے کوئی معنی نہیں۔

    کنفیوشس نے آرٹ کی افادیت کو بعض جگہ بالکل مضحکہ خیز بنا دیا ہے۔ مثلا انہوں نے اپنے پوتوں کو نصیحت کی ہے کہ شعرا کا کلام پڑھا کرو۔ اس سے تمہیں چڑیوں اور پھولوں کے نام یاد آجائیں گے، تو ہمیں چینی آرٹ پرعاشق ہونے کے بعد اسے کنفیوشس کے مذہب کا لازمی اثر سمجھنے کا حق نہیں پہنچتا، البتہ مغربی مفکروں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی نفسیاتی ضرورتوں کی بنا پر بدھ اور کنفیوشس کے مذاہب کو اور مذاہب پر ترجیح دیں، انہی نفسیاتی ضرورتوں کی بنا پر یہی مغربی مفکر اسلام سے بے اعتنائی برتتے رہے ہیں۔ ازمنہ متوسط کی دشمنی ابھی تک ان کے ذہنوں سے دور نہیں ہوئی۔ مغرب کے آزاد خیال آدمی اپنی سنجیدگی کے باوجود اسلام کے متعلق غور کرنا ضروری نہیں سمجھتے۔ اسی تعصب کا اثر ہمارے آزاد خیال طبقوں پر پڑا ہے اور ہمیں دوسرے نظام خواہ مخواہ غیر ضروری طور پر دلکش نظر آنے لگے ہیں۔

    مأخذ:

    مجموعہ محمد حسن عسکری (Pg. 29)

    • مصنف: محمد حسن عسکری
      • ناشر: سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور
      • سن اشاعت: 2008

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے