aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

انسانی تعلقات کی شاعری

شمس الرحمن فاروقی

انسانی تعلقات کی شاعری

شمس الرحمن فاروقی

MORE BYشمس الرحمن فاروقی

     

    میر کی زبان کے اس مختصر تجزیے اور غالب کے ساتھ موازنے سے یہ بات ظاہر ہو جاتی ہے کہ میر اور غالب میں اشتراک لسان ہے اور نہیں بھی۔ استعمال زبان سے ہٹ کر دیکھیے تو بھی اشتراک کے بعض پہلو نظر آتے ہیں۔ اوپر میں نے عرض کیا ہے کہ میر کے بعد غالب ہمارے سب سے بڑے انفرادیت پرست ہیں اور ان دونوں کی انفرادیت پرستی ان کے کلام سے نمایاں ہونے والے عاشق کے کردار میں صاف نظر آتی ہے۔ محمد حسن عسکری نے لکھا ہے کہ فراق صاحب کا ایک بڑا کمال یہ بھی ہے کہ انہوں نے اردو غزل کو ایک نیا عاشق اور نیا معشوق دیا۔ عسکری صاحب کے خیال میں فراق کے عاشق کی نمایاں صفت ’’وقار‘‘ہے۔ آگے وہ لکھتے ہیں کہ غالب کے یہاں بھی ایک طرح کا وقار ہے، لیکن اس میں نرگسیت اور انانیت ہے اور میر کے یہاں بھی ایک نوع کا وقار ہے لیکن اس میں خودسپردگی زیادہ ہے۔ عسکری صاحب فرماتے ہیں،

    میر کے یہاں سپردگی بہت زیادہ ہے لیکن وقار بھی ہاتھ سے نہیں جانے پاتا۔۔۔ میر ایک ایسی دنیا میں بستے ہیں جہاں قدر اولین انسانیت ہے۔۔۔ یہ عاشق محبوب سے محبت کا طالب نہیں، بس اتنا چاہتا ہے کہ اس کے ساتھ انسانوں جیسا برتاؤ کیا جائے، اس کے عالم و فاضل ہونے کی وجہ سے نہیں، بلکہ محض انسان ہونے کی وجہ سے۔۔۔ وہ انسان اس قدر ہے کہ ذہانت لازمی چیز نہیں رہتی۔ چناں چہ اس کا وقار ایک خوددار انسان کا وقار ہے۔

    اس بات سے قطع نظر کہ فراق صاحب کے عاشق میں کوئی وقار یا ذہانت ہے کہ نہیں، عسکری صاحب کا یہ قول بھی محل نظر ہے کہ میر کاعاشق اپنے معشوق سے محبت کا طالب نہیں، صرف انسانی برتاؤ کا طالب ہے اور اس میں وہ وقار ہے جو خوددار انسانوں میں ہوتا ہے۔ واقعہ تو یہ ہے کہ میر کا عاشق اپنے معشوق سے صرف افلاطونی محبت نہیں بلکہ ہم بستری کا بھی طالب ہے۔ وہ ہم بستر ہوتا بھی ہے اور ہجر کے عالم میں ہم بستری کے ان لمحات کو یاد بھی کرتا ہے۔

    یہ بات صحیح ہے کہ وہ انسان اس قدر ہے کہ اس کے لیے ذہانت لازمی چیز نہیں رہتی۔ لیکن اسی انسان پن کے باعث وہ معشوق سے ہاتھاپائی، گالی گلوج اور تشنیع بھی کر لیتا ہے اور ہوس ناکی کا بھی دعویٰ کرتا ہے۔ مگر ان باتوں کی بناپر اس کے کردار میں کوئی انفرادیت نہیں ثابت کی جا سکتی۔ یہ باتیں تو اٹھارہویں صدی کی غزل کا خاصہ ہیں اور آبرو سے لے کر مصحفی تک عام ہیں۔ درد تک کے یہاں اس کی جھلک مل جاتی ہے۔ رہا سوال وقار کا، تو جس چیز کو عسکری صاحب غالب کے عاشق کی انانیت کہتے ہیں، اسی کو ہم آپ اس کا وقار بھی کہہ سکتے ہیں۔ علاوہ بریں، جس طرح کا وقار عسکری صاحب نے میر کے یہاں ڈھونڈا ہے، وہ قائم کے یہاں موجود ہے۔ صرف ایک، اور وہ بھی بہت مشہور شعر سن لیجئے،

    گو ہم سے تم ملے نہ تو ہم بھی نہ مر گئے
    کہنے کو رہ گیا یہ سخن دن گزر گئے

    عسکری صاحب کی نکتہ رس نگاہ نے یہ بات تو دریافت کر لی تھی کہ اردو شاعری میں عاشق کا ایک روایتی کردار ہے اور میر و غالب کے یہاں اس روایتی کردار سے مختلف چیز ملتی ہے۔ اس چیز کو انہوں نے میر و غالب کی انفرادیت پرستی پر محمول کیا تھا اور بجا محمول کیا تھا۔ لیکن اس نئے کردار کے خدوخال متعین کرنے میں انہوں نے کچھ جلدی فیصلہ کر لیا، شاید اس لیے کہ انہیں فراق صاحب کے یہاں ایک تیسری ہی طرح کی انفرادیت دکھانی تھی۔ فراق کے یہاں عاشق کی انفرادیت کا مختصر تجزیہ میں کہیں اور کر چکا ہوں۔ اوپر بھی میں نے اشارہ کیا ہے کہ میر سے فراق صاحب نے کچھ زیادہ حاصل نہیں کیا۔ میر کے عاشق کی انفرادیت دراصل یہ ہے کہ وہ روایتی عاشق کی تمام صفات رکھتا ہے، لیکن ہم اس سے ایک ا نسان کی طرح ملتے ہیں، کسی لفظی رسومیات (verbal convention) کے طور پر نہیں۔ یہ انسان ہمیں اپنی ہی دنیا کا باشندہ معلوم ہوتا ہے، جب کہ رسومیاتی عاشق کے بارے میں ہم جانتے ہیں، وہ بالکل خیالی اور مثالی ہوتا ہے۔

    جیسا کہ میں اوپر عرض کر چکا ہوں، ہماری دنیا کا یہ انسان محمد تقی میر نہیں ہے اور نہ ہی یہ کسی افسانے (fiction) کا کردار ہے کہ اس کے افعال کے عوامل (motivations) تلاش کیے جائیں، اس کی نفسیات کا تجزیہ کرنے میں ہندی کی چندی کی جائے، اس کے تضادات سے بحث کی جائے، اس کی خوبیاں واضح کی جائیں، اس کی خرابیوں پر منھ بنایا جائے یعنی فکشن کے کردار کو ہم (اور فکشن نگار خود) اسی طرح برتتے ہیں جس طرح ہم حقیقی دنیا کے کسی شخص کو برتتے ہیں۔ فکشن کے کردار سے ہم اختلاف کرتے ہیں، اتفاق کرتے ہیں، نفرت کرتے ہیں، محبت کرتے ہیں، وغیرہ۔ اور سب سے بڑی بات وہ جو میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ ہم اس کے عوامل افعال تلاش کرتے ہیں۔ اس نے ایسا کیوں کیا؟ اس نے ویسا کیوں نہ کیا؟ فکشن (بشمول ڈراما) کے کردار کی تنقید کا بنیادی سوال یہیں سے شروع ہوتا ہے۔

    میر کے عاشق سے ہم اس طرح کا کوئی معاملہ نہیں رکھتے بلکہ وہ ان معاملات سے بالاتر اور ماورا ہے یعنی اس کی رسومیاتی حیثیت مسلم ہے اور اس کے باوجود ہم اس کو عام انسان کی سطح پر دیکھتے ہیں اور اصلی انسان کی طرح اس کا تصور کرتے ہیں۔ میر کی یہی زمینی صفت ان کے اسلوب سے تجریدیت کم کر دیتی ہے اور ان کی شاعری کو واقعے کی سطح پر لے آتی ہے۔ یہی زمینی صفت ان کے استعاروں اور پیکروں میں ظاہر ہوتی ہے جو محسوسات سے مملو ہیں۔ یہی زمینی صفت میر کے عشق میں جنسیت اور ان کی جنسیت میں امرد پرستی بن کر ظاہر ہوتی ہے۔ یہی زمینی صفت انہیں معشوق سے پھکڑپن کرنے، اپنے اوپر اپنا مذاق اڑانے، معشوق پر طنز کرنے کا انداز سکھاتی ہے۔

    اسی صفت کی بنا پر میر کی زبان میں فارسی اور پراکرت کا غیر معمولی توازن نظر آتا ہے۔ اسی صفت کی بناپر وہ دنیا اور دنیا کے معاملات میں اس قدر جذب ہیں کہ ان کا صوفیانہ میلان بھی اور کائنات کی عظیم الشان وسعت کااحساس بھی انہیں گوشت پوست کے احساسات سے بےخبر نہیں رکھتا۔ اسی کی بناپر وہ کائنات کے اسرار سے واقف ہونے کے باوجود ان سے خوف زدہ نہیں ہوتے، کیوں کہ روزمرہ کی دنیا سے ان کا رشتہ مضبوط ہے۔ وہ اس دنیا کے ہیں لیکن اس میں قید نہیں ہیں۔ اسی مضبوطی کی بناپر وہ انسانی رشتوں کے تعلق سے ہمارے سب سے بڑے شاعر ہیں۔

    میر کے عاشق کے کردار میں ان کی یہ تمام خصوصیات، جن کا اوپر ذکر ہوا، پوری طرح بروئےکار آتی ہیں۔ میر کے پورے کلام سے ایک کردار ابھرتا ہے جس نے دنیا کے تمام سچ جھوٹ، دکھ سکھ، مسرت اور غم، تجزیہ اور انکشاف کو پوری طرح برتا ہے، پوری طرح برداشت کیا ہے۔ اس کردار کی شخصیت کسی چیز کے سامنے پست نہیں ہوتی۔ اس نے اتنا کچھ دیکھا، برتا اور سہا ہے کہ اس کی روح میں ہر شے نظر آتی ہے، نظر آئی ہوئی سی کا عالم نظر آتا ہے۔ اسے کسی زوال پر، کسی عروج پر، کسی ہجر پر، کسی وصال پر، کسی موت پر، کسی زندگی پر، حیرت نہیں ہوتی۔ یہ شخصیت ہر طرح مکمل ہے اور اس کا پر تو اس عاشق کے کردار پر پڑتا ہے جو میر کے کلام میں جلوہ گر ہے۔

    میر پر یاس پرستی یا سراسر محزونی اور دل شکستگی کا حکم لگانے والے میر کے ساتھ انصاف نہیں کرتے، بلکہ ان کی شخصیت اور کلام کی عظمت کو محدود کر دیتے ہیں۔ جس شخص کے یہاں ہر چیز اپنی پوری قوت اور اپنے پورے پھیلاؤ کے ساتھ موجود ہو، اس کو کسی ایک طرف بند کر دینا خود اس کے ساتھ ہی نہیں، پوری اردو شاعری کے ساتھ زیادتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ میر کا عاشق اور اس کی پوری شخصیت بھی ان کی زبان ہی کی طرح بے تکلف، چونچال، طباع، پیچیدہ اور متنوع ہے۔

    میر کے برعکس، غالب کے عاشق کی انفرادیت اس کی رسومیاتی شدت میں ہے۔ میر اور غالب ہمارے دو شاعر ہیں جن کے یہاں عاشق کا کردار، غزل کے رسومیاتی عاشق سے مختلف ہے اور اپنی شخصیت آپ رکھتا ہے۔ دونوں نے اس انفرادیت پرست کردار کو خلق کرنے کے لیے اپنے طریقوں سے کام لیا۔ غالب اور میر کا افتراق جتنا اس میدان میں ہے، اتنا اور کہیں نہیں ہے۔ میر نے رسومیات کی پابندی کرتے ہوئے بھی اپنے عاشق کو انسان کی سطح پر پہنچا دیا۔ غالب نے رسومیات کو اس شدت سے برتا کہ ان کے یہاں عاشق کی ہر صفت اپنی مثال آپ ہو گئی۔ اپنے استعاراتی اور محاکاتی تخیل اور اس تخیل کے زمین سے اوپر اٹھنے اور تجرید پر مائل ہونے کی بناپر غالب نے عاشق کے خواص و عادات، قول و فعل کے ہر رسومیاتی (یعنی خیالی اور مثالی) پہلو کو اس کی منتہائے کمال تک پہنچا دیا۔

    یہی وجہ ہے کہ رشک ہو یا خودداری، وفاداری ہو یا نرگسیت، وحشت و آوارگی ہو یا اندر ہی اندر جلنے اور ٹوٹنے کا رنگ، جنون اور سودا ہو یا طنز و خود آگاہی، شکست جسم ہو یا نقصان جاں، شوق شہادت ہو یا ذوق وصل، وہ تمام چیزیں جن کا حالی نے بڑے طنزیہ لطف سے ذکر کیا ہے، غالب کے یہاں پوری بلکہ مثالی شدت سے ملتی ہیں۔

    مومن کے یہاں بھی بڑی حدتک ان چیزوں کی کارفرمائی ہے لیکن مومن کا دماغ چھوٹا ہے، وہ استعارے تک نہیں پہنچ پاتے۔ ان کے یہاں کثیر المعنویت کا پتہ نہیں، اس لیے وہ ایک تجربہ کے ذریعے کئی اور تجربے نہیں بیان کر سکتے۔ وہ بات کو گھماکر، پھراکر، بہت بناکر کہتے ہیں، لیکن معنی آفرینی اور استعارے کی کمی کے باعث ان کی بات چھوٹی اور ہلکی رہ جاتی ہے۔ غالب کا معاملہ ہی اور ہے۔ ان کی استعاراتی جہت اتنی وسیع ہے کہ وہ عاشق کے تمام معاملات کو پیچ درپیچ وسعت دے دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ غالب کے یہاں عاشق، مومن کے مقابلے میں بہت زیادہ منفرد اور جاندار نظر آتا ہے۔ لہٰذا میزان کے ایک سرے پر میر ہیں، جو عاشق کو انسان بناکر پیش کرتے ہیں، اور دوسری طرف غالب ہیں جو عاشق کو آئیڈیل بناکر پیش کرتے ہیں۔ یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ غالب گرمی اندیشہ کی بات کرتے ہیں اور میر اپنے شعر کو زلف سا پیچ دار بتاتے ہیں۔ دونوں کی اساس استعارے پر ہے، لیکن غالب کا استعارہ تجریدی ہے اور میر کا استعارہ مرئی۔

    اس بات کی وضاحت چنداں ضروری نہیں کہ مثالی تنظیم و ترتیب، یعنی کسی چیز کو اس طرح اور اس حدتک بڑھانا کہ وہ مثالی ہو جائے، تجرید کے بغیر ممکن نہیں۔ ارسطو نے اسی لیے کہا تھا کہ اگر کوئی چیز بہت زیادہ بڑی ہوجائے تو اس کو دیکھنا ممکن نہ ہوگا۔ تجرید کے بہت سے تفاعل ہیں اور ان میں سے ایک اہم تفاعل استعارہ بھی ہے۔ لہٰذا کوئی تعجب نہیں کہ غالب کے یہاں استعارہ اور تجرید نے مل کر عاشق کا مثالی کردار تعمیر کیا ہے۔ مندرجہ ذیل اشعار اس مثالی کردار اور مثالی ہونے کی بنا پر اس کے فقید المثال (unique) ہونے کو ظاہر کرتے ہیں،

    غالب مجھے ہے اس سے ہم آغوشی آرزو
    جس کا خیال ہے گل جیب قبائے گل

    باوجود یک جہاں ہنگامہ پیدائی نہیں
    ہیں چراغان شبستان دل پروانہ ہم

    زخم سلوانے سے مجھ پر چارہ جوئی کا ہے طعن
    غیر سمجھا ہے کہ لذت زخم سوزن میں نہیں

    حسرت لذت آزار رہی جاتی ہے
    جادۂ راہ وفا جزدم شمشیر نہیں

    ہر قدم دوری منزل ہے نمایاں مجھ سے
    میری رفتار سے بھاگے ہے بیاباں مجھ سے

    خنجر سے چیر سینہ اگر دل نہ ہو دو نیم
    دل میں چھری چبھو مژہ گر خوں فشاں نہیں

    گنجائش عداوت اغیار اک طرف
    یاں دل میں ضعف سے ہوس یار بھی نہیں

    بس کہ ہوں غالب اسیری میں بھی آتش زیرپا
    موے آتش دیدہ ہے حلقہ مری زنجیر کا

    کیجیے بیاں سرور تب غم کہاں تلک
    ہر مومرے بدن پہ زبان سپاس ہے

    سر پر ہجوم درد غریبی سے ڈالیے
    وہ ایک مشت خاک کہ صحرا کہیں جسے

    مری ہستی فضاے حیرت آباد تمنا ہے
    جسے کہتے ہیں نالہ وہ اسی عالم کا عنقا ہے

    سایہ میرا مجھ سے مثل دود بھاگے ہے اسد
    پاس مجھ آتش بجاں کے کس سے ٹھہرا جائے ہے

    موج سراب دشت وفا کا نہ پوچھ حال
    ہر ذرہ مثل جوہر تیغ آب دار تھا

    بندگی میں بھی وہ آزادۂ و خود بیں ہیں کہ ہم
    الٹے پھر آئے در کعبہ اگر وانہ ہوا

    سوبار بند عشق سے آزاد ہم ہوئے
    پر کیا کریں کہ دل ہی عدو ہے فراغ کا

    دل سے مٹنا تری انگشت حنائی کا خیال
    ہو گیا گوشت سے ناخن کا جدا ہوجانا

    لرزتا ہے مرا دل زحمت مہر درخشاں پر
    میں ہوں وہ قطرۂ شبنم کہ ہو خار بیاباں پر

    برنگ کاغذ آتش زدہ نیرنگ بے تابی
    ہزار آئینہ دل باندھے ہے بال یک تپیدن پر

    ظاہر ہے کہ اشعار کی کمی نہیں۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ جن اشعار میں مرئی پیکر ہیں بھی، وہ غیرمرئی باتوں کی وضاحت کے لیے ہیں۔ پورے کلام پر اسرار کی فضا محیط ہے، ایک نیم روشن دھند ہے جس کو دیکھ کر جھرجھری سی آجاتی ہے۔ صرف تین شعر ایسے ہیں (بندگی میں بھی، سو بار بند عشق، اور دل سے مٹنا) جن کے معاملات پر روز مرہ کی دنیا کا دھوکا ہو سکتا ہے اور ان میں ایک شعر ایسا ہے، جس میں پوری دنیا ایک انگشت حنائی میں سمٹ آئی ہے۔ یہاں ہر چیز تصور کی ہوئی سی ہے، نظر آئی ہوئی سی نہیں۔ یہاں وہ مبالغہ نہیں ہے، جو ہم آپ استعمال کرتے ہیں، یہاں ہر چیز کو نچوڑ کر اس کے جوہر کو تمام کرۂ ارض پر پھیلا دیا گیا ہے۔ یہ وہ عالم ہے جس میں بےچارگی بھی بادشاہ وقت کا دبدبہ رکھتی ہے۔ یہاں بقول میر ’’تجرید کا فراغ‘‘ ہے، جس کی بناپر آفتاب اپنے سائے سے بھی بھاگتا ہے۔

    غالب کے علی الرغم میر دنیاوی رشتو ں کے شاعر ہیں۔ انہوں نے اپنے عاشق کو دنیا میں پیش کرنے کے لیے اور اس کی انفرادیت ثابت کرنے کے لیے اس کے بارے میں بہت سی باتیں خود اس کی زبان سے اور دوسروں کی زبان سے کہلائی ہیں۔ آپسی رشتوں کی یہ صورتیں حسب ذیل ہیں،

    عاشق اپنے عادات و خواص وکیفیات کے بارے میں یوں اظہار خیال کرتا ہے، گویا وہ معشوق سے گفتگو کر رہا ہو، یا معشوق کو موجود فرض کر رہا ہو۔ یہ معاملہ بندی نہیں ہے بلکہ اس میں اور معاملہ بندی میں دو بہت بڑے فرق ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ معاملہ بندی میں خود عاشق کے حالات و کیفیات و عادات کا بیان نہیں ہوتا، بلکہ معشوق کی طرف سے کہی یا کی ہوئی بات کا حوالہ ہوتا ہے۔ معشوق کو یہاں بھی موجود فرض کر سکتے ہیں، لیکن بات معشوق کے قول فعل کی ہوتی ہے، تحسین کا رنگ ہوتا ہے اور وہ کسی مخصوص صورت حال کے حوالے سے ہوتا ہے۔ میر نے جو انداز اختیار کیا ہے، اس میں عاشق اپنے قول فعل سے معشوق کو اپنے بارے میں آگاہ کرتا ہے۔ اس میں شکایت یا تحسین کا رنگ بہت کم ہوتا ہے اور اگر ہوتا بھی ہے تو کسی مخصوص صورت حال کے حوالے سے نہیں بلکہ کسی عام صورت حال کے حوالے سے۔ مثال کے طور پر، معاملہ بندی کے چند اشعار حسب ذیل ہیں،

    مومن:
    الٹے وہ شکوے کرتے ہیں اور کس ادا کے ساتھ
    بےطاقتی کے طعنے ہیں عذر جفا کے ساتھ

    مومن:
    یارب وصال یار میں کیوں کر ہو زندگی
    نکلی ہی جان جاتی ہے ہر ہر ادا کے ساتھ

    مومن:
    کہنا پڑا درست کہ اتنا رہے لحاظ
    ہر چند وصل غیر کا انکار ہے غلط

    مومن:
    کس نے اور کو دیکھا کس کی آنکھ جھپکی ہے
    دیکھنا ادھر آؤ پھر نظر ملا دیکھیں

    مصحفی:
    کچھ ہماری بھی تمہیں فکر ہے اب یا کہ نہیں
    جوں ہی یہ بات کہی اس سے تو بولا کہ نہیں

    مصحفی:
    میں اور کسی بات کا شاکی نہیں تجھ سے
    یہ وقت کے اوپر ترا انکار غضب ہے

    غالب:
    کہا تم نے کہ کیوں ہو غیر کے ملنے میں رسوائی
    بجا کہتے ہو سچ کہتے ہو پھر کہیو کہ ہاں کیوں ہو

    داغ:
    کیا اضطرب شوق نے مجھ کو خجل کیا
    وہ پوچھتے ہیں کہیے ارادے کہاں کے ہیں

    ظاہر ہے کہ تمام غزل گویوں کی طرح میر نے بھی معاملہ بندی کے اشعار کہے ہیں۔ معاملہ بندی میں کمی (یا اس میں تنگ دامانی) یہ ہے کہ وہ ہمیں عاشق یا معشوق کی شخصیت کے بارے میں کوئی نئی بات نہیں بتاتی۔ اس کی خوبی یہ ہے کہ اس کے ذریعہ عشق کی واردات مبدل بہ حقیقت (actualize) ہو جاتی ہیں۔ میر کے یہاں سے معاملہ بندی کے چند شعر ملاحظہ ہوں۔ دیوان اول کی ایک غزل میں قطعہ ہے،

    کل تھی شب وصل اک ادا پر
    اس کی گئے ہوتے ہم تو مر رات

    جاگے تھے ہمارے بخت خفتہ
    پہنچا تھا بہم وہ اپنے گھر رات

    کرنے لگا پشت چشم نازک
    سوتے سے اٹھاجو چونک کر رات

    تھی صبح جو منھ کو کھول دیتا
    ہر چند کہ تب تھی ایک پہر رات

    پر زلفوں میں منھ چھپا کے پوچھا
    اب ہووے گی میر کس قدر رات

    کچھ تو قطعہ بندی کی وجہ سے، اور کچھ میر کی ’’پیچ داری‘‘ کی بنا پر یہ اشعار معاملہ بندی کی حد سے کچھ آگے نکل گئے ہیں۔ ورنہ اسی مضمون کو مرزا علی لطف نے ایک ہی شعر میں خوب باندھا ہے،

    یہ بھی ہے نئی چھیڑ کہ اٹھ وصل میں سو بار
    پوچھے ہے کہ کتنی رہی شب کچھ نہیں معلوم

    معاملہ بندی کو غزل کے اس انداز سے بھی بالکل الگ رکھنا چاہیے جس میں شاعر بظاہر تو معشوق کو مخاطب کرتا ہے لیکن دراصل وہ اپنے آپ سے بات کر رہا ہوتا ہے۔ مثلاً غالب:

    تجھ سے قسمت میں مری صورت قفل ابجد
    تھا لکھا بات کے بنتے ہی جدا ہونا

    ملنا ترا اگر نہیں آساں تو سہل ہے
    دشوار تو یہی ہے کہ دشوار بھی نہیں

    یا پھر ایسے اشعار ہیں جن میں بظاہر معشوق سے خطاب ہے، لیکن خودکلامی کا لہجہ نمایاں ہے۔ مثلاً غالب:

    ہے مجھ کو تجھ سے تذکرۂ غیر کا گلہ
    ہر چند برسبیل شکایت ہی کیوں نہ ہو

    ابھی ہم قتل گہ کا دیکھنا آساں سمجھتے ہیں
    نہیں دیکھا شناور جوے خوں میں تیرے توسن کو

    میر کے جس انداز پر یہاں گفتگو مقصود ہے، وہ ان سب سے مختلف ہے۔ اس میں انکشاف ذات یا کم سے کم براہ راست خود اکتشافی کا رنگ ہے اور معشوق کو موجود فرض کرتا ہے۔ یعنی وہ معشوق کو اپنی صورت حال سے مطلع کرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں معاملہ رسومیاتی حدبندیوں سے نکل جاتا ہے اور انسانی تعلق کی سطح براہ راست قائم ہو جاتی ہے۔ واضح رہے کہ ایسے اشعار میں اظہار عشق یا خواہش یا تمنا کا اظہار نہیں ہوتا۔ یہ بات کہ عاشق اپنے معشوق کو اپنی صورت حال سے مطلع کر رہا ہے، خود ہی اظہار عشق یا اظہار خواہش یا اظہار تمنا (یا ان سب) کا حکم رکھتی ہے۔ لہٰذا اس طرح کے اشعار میں وہ شخص اپنا اظہار حال کر رہا ہے، وہ مرکزی اہمیت اختیار کر جاتا ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں۔

    دیوان چہارم:
    لطف ومہروخشم وغضب ہم ہر صورت میں راضی ہیں
    حق میں ہمارے کر گزرو بھی جو کچھ جانو بہتر تم

    دیوان چہارم:
    چپ ہیں کچھ جو نہیں کہتے ہم کار عشق کے حیراں ہیں
    سوچو حال ہمار اٹک تو بات کی تہ کو پاؤ تم

    دیوان اول:
    رنگ شکستہ میرا بےلطف بھی نہیں ہے
    ایک آدھ رات کو تو یاں بھی سحر کرو تم

    دیوان چہارم:
    عہد کیے جاؤں ہوں اب کی آخر مجھ کو غیرت ہے
    جو بھی منانے آوےگا تو ساتھ نہ تیرے جاؤں گا

    دیوانِ اول:
    ویسا کہاں ہے ہم سے جیسا کہ آگے تھا تو
    اوروں سے مل کے پیارے کچھ اور ہو گیا تو

    دیوان اول:
    ہم وے ہیں جن کے خوں سے تری راہ سب ہے گل
    مت کر خراب ہم کو تو اوروں میں سان کر

    دیوان دوم:
    اب تنگ ہوں بہت میں مت اور دشمنی کر
    لاگو ہو میرے جی کا اتنی ہی دوستی کر

    دیوان اول:
    دل وہ نگر نہیں کہ پھر آباد ہوسکے
    پچھتاؤگے سنو ہو یہ بستی اجاڑ کر

    دیوان دوم:
    آج ہمارے گھر آیا ہے تو کیا ہے یاں جو نثار کریں
    الا کھینچ بغل میں تجھ کو دیر تلک ہم پیار کریں

    دیوان سوم:
    وجہ بیگانگی نہیں معلوم
    تم جہاں کے ہو واں کے ہم بھی ہیں

    اپنا شیوہ نہیں کجی یوں تو
    یار جی ٹیڑھے بانکے ہم بھی ہیں

    دیوان اول:
    ہنوز لڑکے ہو تم قدر میری کیا جانو
    شعور چاہیے ہے امتیاز کرنے کو

    دیوان دوم:
    اتنا کہا نہ ہم سے تم نے کبھو کہ آؤ
    کاہے یوں کھڑے ہو وحشی سے بیٹھ جاؤ

    دیوان اول:
    درویش ہیں ہم آخر دو اک نگہ کی فرصت
    گوشے میں بیٹھے پیارے تم کو دعا کریں گے

    دیوان اول:
    چاہوں تو بھر کے کولی اٹھالوں ابھی تمہیں
    کیسے ہی بھاری ہو مرے آگے تو پھول ہو

    دیوان چہارم:
    در پر سے اب کے جاؤں گا تو جاؤں گا
    یاں پھر اگر آؤں گا سید نہ کہاؤں گا

    دیوان چہارم:
    عشق میں کھوئے جاؤگے تو بات کی تہ بھی پاؤگے
    قدر ہماری کچھ جانوگے دل کو کہیں جو لگاؤگے

    دیوان پنجم:
    برسوں میں پہچان ہوئی تھی سوتم صورت بھول گئے
    یہ بھی شرارت یاد رہےگی ہم کو نہ جانا جانے سے

    دیوان دوم:
    یہ طشت و تیغ ہے اب یہ میں ہوں او ریہ تو
    ہے ساتھ میرے ظالم دعویٰ تجھے اگر کچھ

    اس طرح کے اشعار کے ساتھ ان شعروں کو بھی رکھا جائے جن میں دونوں امکانات ہیں، یعنی یہ کہ عاشق کا مخاطب معشوق ہے، یا کوئی بھی نہیں ہے، تو ایسے اشعار کی تعداد سیکڑوں سے زیادہ ہوگی جس میں میر کے عاشق نے اپنی شخصیت کا اظہار کیا ہے۔ اس طرح کے اشعار میں بھی معاملہ غالب سے مختلف ہے، کیوں کہ غالب کے یہاں ذہنی وقوعے یعنی mental event کا اظہار ہے، جب کہ میر کے یہاں موجود یعنی فوری صورت حال کا۔ مثلاً غالب کے دوشعر میں نے جو اوپر نقل کیے ہیں (ہے مجھ کو تجھ سے اور ابھی ہم قتل گہ) دونوں میں ان ذہنی اعمال کا ذکر ہے جن کا براہ راست تعلق فوری صورت حال سے نہیں ہے، بلکہ وہ عام صورت حالات کا اظہار کر رہے ہیں۔ ان کے برعکس، میر کے مندرجہ ذیل اشعار میں فوری صورت حال کا ذکر ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان اشعار کے ذریعے بھی عاشق کی انفرادی حیثیت ظاہر اور قائم ہوتی ہے۔

    دیوان اول:
    کہتے نہ تھے کہ جان سے جاتے رہیں گے ہم
    اچھا نہیں ہے آ نہ ہمیں امتحان کر

    دیوان اول:
    تاکشتۂ وفا مجھے جانے تمام خلق
    تربت پہ میری خون سے میرے نشان کر

    دیوان چہارم:
    تجھ کو ہے سوگند خدا کی میری اور نگاہ نہ کر
    چشم سیاہ ملاکر یوں ہی مجھ کو خانہ سیاہ نہ کر

    دیوان سوم:
    جس چمن زار کا تو ہے گل تر
    بلبل اس گلستاں کے ہم بھی ہیں

    دیوان دوم:
    زردی رخ رونا ہر دم کا شاہد دو جب ایسے ہوں
    چاہت کا انصاف کرو تم کیوں کر ہم انکار کریں

    دیوان چہارم:
    ہم فقیروں کو کچھ آزار تمہیں دیتے ہو
    یوں تو اس فرقے سے سب لوگ دعا لیتے ہیں

    دیوان اول:
    چھوڑ جاتے ہیں دل کو تیرے پاس
    یہ ہمارا نشان ہے پیارے

    دیوان اول:
    دل کی کچھ قدر کرتے رہیو تم
    یہ ہمارا بھی ناز پرور تھا

    دیوان پنجم:
    دور بہت بھاگو ہو ہم سے سیکھے طریق غزالوں کا
    وحشت کرنا شیوہ ہے کیا اچھی آنکھوں والوں کا

    دیوان چہارم:
    خانہ آبادی ہمیں بھی دل کی یوں ہے آرزو
    جیسے جلوے سے ترے گھر آرسی کا بھر گیا

    مندرجہ بالا دونوں طرح کے اشعار میں سے اکثر ایسے ہیں جن کے لہجے میں تمکنت، خود اعتمادی، اپنی قدر وقیمت کا پورا احساس اور کہیں کہیں المیہ ہیرو کا وقار ہے۔ کہیں کہیں مزاح تو کہیں عام آدمی کی سی تلخی یا چڑچڑاپن ہے۔ کہیں چالاکی اور فریب کاری کا بھی شائبہ ہے۔ اگر وہ مسکین روتا بسورتا میر، یا وہ زارزار جوں ابر بہار روتا ہوا میر جو ہمارے نقادوں کے آئینہ خانوں میں جلوہ گر ہے، ان اشعار میں نظر نہیں آتا تو میرا قصور نہیں۔ میر کا کلام میر کا سب سے بڑا گواہ ہے اور میر کے نقاد اور نکتہ شناس اگر اس گواہی کے بدلے مفروضات پر مبنی گواہیوں کو تسلیم کریں تو یہ بھی میرا قصورنہیں۔

    معشوق سے براہ راست گفتگو اور اظہار حال والے اشعار کی ضمن میں ایسے اشعار بھی آتے ہیں، جن میں عاشق نے معشوق کو برا بھلا کہا ہے، جلی کٹی سنائی ہے یا اس کے کردار پر حملہ کیا ہے۔ ان اشعار میں وہ تہ داری اور پیچیدگی بہت کم ہے، جس سے مندرجہ بالا اشعار میں سے اکثر شعر متصف ہیں۔ لیکن جلی کٹی سنانے والے ان اشعار میں واسوخت کا بھی رنگ نہیں ہے، بلکہ وہی روزمرہ زندگی کے حوالے سے بات کہنے کا انداز ہے، جو اس میدا ن میں میر کا خاصہ ہے۔ اس طرح کے اشعار انیسویں صدی کے شعرا میں تقریباً مفقود ہیں۔ اٹھارویں صدی میں تھوڑا بہت ان کا چلن ضرور ملتا ہے۔ میر کے یہاں یہ لہجہ دوسرے شعرا کے مقابلے میں زیادہ عام اور زیادہ متنوع ڈھنگ سے نظر آتا ہے۔ دیوان سوم اور چہارم سے کچھ اشعار بغیر کسی خاص تلاش کے نقل کرتا ہوں،

    دیوان سوم:
    سنا جاتا ہے اے گھتیے ترے مجلس نشینوں سے
    کہ تو دارو پئے ہے رات کو مل کر کمینوں سے

    دیوان چہارم:
    اب تو جوانی کا یہ نشہ ہی بے خود تجھ کو رکھےگا
    ہوش گیا پھر آوے گا تو دیر تلک پچھتاوےگا

    دیوان چہارم:
    خلاف وعدہ بہت ہوئے ہو کوئی تو وعدہ وفا کرو اب
    ملا کے آنکھیں دروغ کہنا کہاں تلک کچھ حیا کرو اب

    دیوان چہارم:
    جو وجہ کوئی ہو تو کہنے میں بھی کچھ آوے
    باتیں کرو ہو بگڑی منھ کو بنا بناکر

    دیوان چہارم:
    کیا رکھیں یہ تم سے توقع خاک سے آکے اٹھاؤگے
    رہ میں دیکھو افتادہ تو اور لگاؤ ٹھوکر تم

    دیوان چہارم:
    غریبوں کی تو پگڑی جامے تک لے ہے اتراوا تو
    تجھے اے سیم برلے بر میں جو زردار عاشق ہو

    دیوان سوم:
    عاقبت تجھ کو لباس راہ راہ
    لے گیا ہے راہ سے اے تنگ پوش

    دیوان چہارم:
    غیر کی ہمراہی کی عزت جی مارے ہے عاشق کا
    پاس کبھو جو آتے ہو تو ساتھ اک تحفہ لاتے ہو

    دیوان سوم:
    کیسی وفا و الفت کھاتے عبث ہو قسمیں
    مدت ہوئی اٹھا دیں تم نے یہ ساری رسمیں

    دوسری صورت جس میں معنوی پیچیدگی کم، لیکن ڈرامائی دلچسپی وافر ہے، یہ ہے کہ کوئی دوسرا شخص، یا کئی لوگ مل کر، معشوق کو میر کی حالت سے مطلع کرتے ہیں، اس کو راے مشورہ دیتے ہیں، اس کو سمجھاتے ہیں۔ یہ لوگ کون ہیں، یہ بات واضح نہیں کی جاتی، لیکن لہجے سے لگتا ہے کہ یہ معشوق کے قریب والے یا ہم راز نہیں ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ عاشق اور معشوق کی باتیں اب اتنی عام ہو چکی ہیں کہ لوگ معشوق کے پاس جاکر میر کے تعلق سے گفتگو کرنا عوامی فریضہ سمجھتے ہیں۔ اس قسم کے اشعار کی کثرت کے باعث میر کے عاشق کی دنیا نہ صرف بہت آباد اور مصروف معلوم ہوتی ہے، بلکہ اس کا عشق بھی روزمرہ کی دنیا کے لیے سروکار (concern) اور تردد کی چیز معلوم ہوتا ہے۔ اور یہ تشویش و تردد، یہ لگاؤ، خالص انسانی ہے۔ اس میں اخلاقی برتری یا ناصحانہ اصلاح کا کوئی شائبہ نہیں۔ جو لوگ معشوق سے گفتگو کرنے جاتے ہیں، وہ سب اس معاملے کو بالکل روز مرہ کے معاملات کی سطح پر برتتے ہیں۔ کوئی تصنع، کوئی تیزی، کوئی جذباتی (sentimental) التجا یعنی جذبے کے تقاضے سے زیادہ الفاظ کا صرفہ، ایسی کوئی بات نہیں۔

    دیوان سوم:
    تم کبھو میر کو چاہو سو کہ چاہیں ہیں تمہیں
    اور ہم لوگ تو سب ان کا ادب کرتے ہیں

    دیوان سوم:
    گیا اس شہر ہی سے میر آخر
    تمہاری طرز بد سے کچھ نہ تھا خوش

    دیوان سوم:
    کیوں کر نہ ہو تم میر کے آزار کے درپے
    یہ جرم ہے اس کا کہ تمہیں پیار کرے ہے

    دیوان اول:
    ٹک میر جگر سوختہ کی جلدی خبر لے
    کیا یار بھروسا ہے چراغ سحری کا

    دیوان دوم:
    حمیت اس کے تئیں کہتے ہیں جو میر میں تھی
    گیا جہاں سے پہ تیری گلی میں آنہ رہا

    دیوان چہارم:
    رحم کیا کر لطف کیا کر پوچھ لیا کر آخر ہے
    میر اپنا غم خوار اپنا پھر زار اپنا بیمار اپنا

    دیوان دوم:
    صرفہ آزار میر میں نہ کرو
    خستہ اپنا ہے زار ہے اپنا

    دیوان دوم:
    گھر سے آگے سے ترے نعش گئی عاشق کی
    اپنے دروازے تلک تو بھی تو آیا ہوتا

    دیوان دوم:
    کہہ وہ شکستہ پا ہمہ حسرت نہ کیوں کے جائے
    جو ایک دن نہ تیری گلی میں چلا پھرا

    دیوان سوم:
    تم کہتے ہو بوسہ طلب تھے شاید شوخی کرتے ہوں
    میر تو چپ تصویر سے تھے یہ بات انہوں سے عجب سی ہے

    دیوان سوم:
    تمہارے پاؤں گھر جانے کو عاشق کے نہیں اٹھتے
    تم آؤ تو تمہیں آنکھوں پہ سر پر اپنے جادیوے

    دیوان دوم:
    تھی جب تلک جوانی رنج و تعب اٹھائے
    اب کیا ہے میر جی میں ترک ستم گری کر

    اس طرح کے اشعار عاشق و معشوق کے مابین ایک نیا ربط بلکہ نئی مساوات قائم کر دیتے ہیں۔ اکثر اشعار میں افسانے کی سی کیفیت ہے، اس معنی میں کہ اشعار میں جو بات بیان ہو رہی ہے، اس کے پہلے بھی کچھ ہو چکا ہے۔ لہٰذا ایسے اشعار کی وجہ سے میر کے عاشق کی دنیا بہت بھری بھری اور مصروف معلوم ہوتی ہے۔ لیکن غزل کی عام دنیا میں معشوق براہ راست عاشق سے بہت کم ہم کلام ہوتا ہے۔ معشوق کی گفتگو اگر غزل میں بیان بھی ہوتی ہے تو ہمیشہ کسی دوسرے کے الفاظ میں۔ زیادہ تر عاشق ہی معشوق کی گفتگو بیان کرتا ہے۔ معاملہ بندی کے ذیل میں جو چند شعر میں نے نقل کیے، ان میں یہ بات واضح طور پر نظر آتی ہے لیکن میر نے عام طریقے کے خلاف جاکر معشوق اور عاشق کی براہ راست گفتگو بھی بیان کی ہے۔ معشوق کا لہجہ یا الفاظ یا دونوں عام طور پر استزائیہ اور تمسخرانہ ہوتے ہیں لیکن کبھی کبھی اس کے برعکس بھی ہوتا ہے۔ ایک قطعہ میں نے اوپر نقل کیا ہے (اب ہووے گی میر کس قدر رات) اس میں معشوق براہ راست مخاطب ہے (یا اس کی گفتگو براہ راست تقریر (direct speech) کے انداز میں نقل ہوئی ہے۔) ان اشعار میں معشوق طنز و استہزا کا بادشاہ نظر آتا ہے۔

    دیوان دوم:
    میں بے نوا اڑا تھا بو سے کو اس کے لب کے
    ہر دم صدا یہی تھی دے گذرو ٹال کیا ہے

    پر چپ ہی لگ گئی جب ان نے کہا کہ کوئی
    پوچھو تو شاہ جی سے ان کا سوال کیا ہے

    دیوان سوم:
    کہنے لگا کہ شب کو میرے تئیں نشہ تھا
    مستانہ میرکو میں کیا جان کر کے مارا

    دیوان دوم:
    یہ چھیڑ دیکھ ہنس کے رخ زرد پر مرے
    ہتا ہے میر رنگ تو اب کچھ نکھر چلا

    دیوان دوم:
    کا ہے کو میں نے میر کو چھیڑا کہ ان نے آج
    یہ درد دل کہا کہ مجھے درد سر رہا

    اس آخری شعر کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ ممکن ہے اس کا متکلم معشوق نہ ہو بلکہ کوئی دوست یا شناسا ہو۔ اس کے دو جواب ممکن ہیں۔ اول تو یہ کہ اس شعر کے دو ہی متکلم ہو سکتے ہیں، یا کوئی دوست شناسا یا خود معشوق۔ شعر میں براہ راست اشارہ نہ ہونے کی وجہ سے دونوں امکان برابر کے قوی ہیں۔ دوسری بات یہ کہ درد کا ذکر، اور میر کی طرف سے درد دل کا پرزور وشور بیان اس گمان کو قوی تر کر دیتا ہے کہ متکلم معشوق ہی ہے۔

    دیوان سوم:
    ہوا میں میر جو اس بت سے سائل بوسۂ لب کا
    لگا کہنے ظرافت سے کہ شہ صاحب خدا دیوے

    دیوان سوم:
    مضطرب ہو جو ہمرہی کی میر
    پھر کے بولا کہ بس کہیں رہ بھی

    دیوان پنجم:
    کہنے لگا کہ میر تمہیں بیچوں گا کہیں
    تم دیکھیو نہ کہیو غلام اس کے ہم نہیں

    دیوان چہارم:
    شوخی تو دیکھو آپ ہی کہا آؤ بیٹھو میر
    پوچھا کہاں تو بولے کہ میری زبان پر

    ان اشعار میں معشوق کا لہجہ استہزائیہ ہے، کہیں کہیں اس میں لگاوٹ بھی ہے۔ لیکن عاشق بھی کوئی مجہول، پس ماندہ شخصیت نہیں رکھتا۔ اکثر تو وہ اپنے انداز گفتگو یا الفاظ کے انتخاب کے ذریعہ یہ ظاہر کر دیتا ہے کہ اس نے بھی معشوق کے ساتھ شوخی برتی ہے۔ کبھی کبھی ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عاشق کے لیے معشوق کی اداے ناز معشوق کے واقعی اقوال و افعال سے بھی زیادہ اہم ہے۔ لہٰذا میر کی ’’پیچ داری‘‘ یہاں بھی موجود ہے۔

    تیسری صورت یہ ہے کہ ایک شخص، یا کچھ لوگ (مثلاً کوئی دوست، شناسایا عام لوگ) عاشق کے حالات، اس کی زندگی اور موت، اس کی شکل و شباہت وغیرہ پر تبصرے کرتے ہیں۔ کبھی کبھی اس تبصرے میں رائے مشورہ بھی شامل ہو جاتا ہے۔ لیکن لوگوں کی اس کثرت کے باوجود پنچائتی کیفیت نہیں پیدا ہوتی، کیونکہ عاشق اپنی سی کرتا ہے، یا کر گذرتا ہے۔

    دیوان سوم:
    جہاں میں میر سے کاہے کو ہوتے ہیں پیدا
    سنا یہ واقعہ جن نے اسے تاسف تھا

    دیوان اول:
    مانند شمع مجلس شب اشکبار پایا
    القصہ میر کو ہم بے اختیار پایا

    دیوان اول:
    آہوں کے شعلے جس جا اٹھتے تھے میر سے شب
    اں جا کے صبح دیکھا مشت غبار پایا

    دایوان اول:
    گلی میں اس کی گیا سو گیا نہ بولا پھر
    میں میر میر کر اس کو بہت پکار رہا

    دیوان اول:
    کہیں ہیں میر کو مارا گیا شب اس کے کوچے میں
    کہیں وحشت میں شاید بیٹھے بیٹھے اٹھ گیا ہوگا

    دیوان دوم:
    کل تک تو ہم وے ہنستے چلے آئے تھے یوں ہی
    مرنا بھی میر جی کا تماشا سا ہو گیا

    دیوان سوم:
    خراب احوال کچھ بکتا پھرے ہے دیر و کعبے میں
    سخن کیا معتبر ہے میر سے واہی تباہی کا

    دیوان سوم:
    تسبیحیں ٹوٹیں فرقے مصلے پھٹے جلے
    کیا جانے خانقاہ میں کیا میر کہہ گئے

    دیوان پنجم:
    آہ سے تھے رخنے چھاتی میں پھیلنا ان کا یہ سہل نہ تھا
    دو دو ہاتھ تڑپ کر دل نے سینۂ عاشق چاک کیا

    دیوان پنجم:
    نالۂ میر سواد میں ہم تک دوشیں شب سے نہیں آیا
    شاید شہر سے ظالم کے عاشق وہ بدنام گیا

    دیوان پنجم:
    دخل مروت عشق میں تھا تو دروازے سے تھوڑی دور
    ہمرہ نعش عاشق کی اس ظالم کو بھی آنا تھا

    دیوان پنجم:
    ایک پریشاں طرفہ جماعت دیکھی چاہنے والوں کی
    جینے کے خواہاں نہیں ہیں مرنے کو تیار ہیں سب

    دیوان پنجم:
    کیا کیا خواہش بے کس بے بس مشتاق اس سے رکھتے ہیں
    لیکن دیکھ کے رہ جاتے ہیں چپکے سے ناچار ہیں سب

    دیوان ششم:
    جاتے ہیں اس کی جانب مانند تیر سیدھے
    مثل کمان حلقہ قامت خمیدہ مردم

    دیوان ششم:
    اے اصرار خوں ریزی پہ ہے ناچار ہیں اس میں
    وگرنہ عجز تابی تو بہت سی میر کرتے ہیں

    دیوان اول:
    میر صاحب رلا گئے سب کو
    کل وے تشریف یاں بھی لائے تھے

    دیوان اول:
    کہیں تو ہیں کہ عبث میر نے دیا جی کو
    خدا ہی جانے کہ کیا جی میں اس کے آئی ہو

    دیوان دوم:
    گفتگو اتنی پریشاں حال کی یہ درہمی
    میر کچھ دل تنگ ہے ایسا نہ ہو سودا ہو میاں

    دیوان دوم:
    تیغ و تبر رکھا نہ کرو پاس میر کے
    ایسا نہ ہو کہ آپ کو ضائع وے کر رہیں

    اس صورت حال کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ لوگ، یا دوست آشنا، عاشق سے براہ راست گفتگو کرتے ہیں،

    دیوان اول:
    میر عمداً بھی کوئی مرتا ہے
    جان ہے تو جہان ہے پیارے

    دیوان اول:
    لیتے ہی نام اس کا سوتے سے چونک اٹھے ہو
    ہے خیر میر صاحب کچھ تم نے خواب دیکھا

    دیوان سوم:
    کیا تم کو پیار سے وہ اے میر منھ لگاوے
    پہلے ہی چومے تم تو کاٹو ہو گال اس کا

    دیوان اول:
    چلا نہ اٹھ کے وہیں چپکے پھر تو میر
    ابھی تو اس کی گلی سے پکار لایا ہوں

    دیوان چہارم:
    چشمک چتون نیچی نگاہیں چاہ کی تیری مشعر ہیں
    میر عبث مکرے ہے ہم سے آنکھ کہیں تو لگائی ہے

    دیوان چہارم:
    چپکے سے کچھ آجاتے ہو آنکھیں بھر بھر لاتے ہو
    میر گزرتی کیا ہے دل پر کڑھا کرو ہو اکثر تم

    دیوان چہارم:
    لگو ہو زور باراں رونے چلتے بات چاہت کی
    کہیں ان روزوں تم بھی میر صاحب زار عاشق ہو

    عاشق (اور اس کے حوالے سے معشوق) کی کردار سازی میں ان اشعار کا بھی بہت بڑا حصہ ہے جن میں عاشق خودکلامی سے کام لیتا ہے، یا اپنے حالات کسی دوسرے شخص سے بیان کرتا ہے۔ چوں کہ اس طرح کے تمام اشعار میں گفتگو کا انداز اور روزمرہ کے واقعات کا ذکر ہوتا ہے، اس لیے ان میں وہ مخصوص شاعرانہ واقعیت پیدا ہو جاتی ہے جسے رینسم (J. C. Ransome) شاعری کی افسانویت کا نام دیتا ہے۔ یعنی یہ بات ہم پر واضح رہتی ہے کہ ہم کسی اصلی شخص کی گفتگو نہیں سن رہے ہیں، لیکن جو کہا جا رہا ہے وہ اصلی دنیا سے مستعار ہے۔ دیوان چہارم کے چند شعر دیکھیے،

    کیا ہم بیاں کسو سے کریں اپنے ہاں کی طرح
    کی عشق نے خرابی سے اس خانداں کی طرح

    چھپ لک کے بام در سے گلی کوچے میں سے میر
    میں دیکھ لوں ہوں یار کو اک بار ہر طرح

    کیسی کیسی خرابی کھینچی دشت و در میں سرمارا
    خانہ خراب کہاں تک پھریے ایسا ہو گھر جاویں ہم

    پاس ظاہر سے اسے تو دیکھنا دشوار ہے
    جائیں گے مجلس میں تو ایدھر ادھر دیکھیں گے ہم

    حیرت سے عاشقی کی پوچھا تھا دوستوں نے
    کہہ سکتے کچھ تو کہتے شرما کے رہ گئے ہم

    اس کی نہ پوچھ دوری میں ان نے پرسش حال ہماری نہ کی
    ہم کو دیکھو مارے گئے ہیں آکر پاس وفا سے ہم

    کیا کیا عجز کریں ہیں لیکن پیش نہیں کچھ جاتا میر
    سر رگڑے ہیں آنکھیں ملیں ہیں اس کے حنائی پا سے ہم

    ضعف دماغ سے کیا پوچھو ہو اب تو ہم میں حال نہیں
    اتنا ہے کہ طپش سے دل کی سرپر وہ دھمال نہیں

    کب تک دل کے ٹکڑے جوڑوں میر جگر کے لختوں سے
    کسب نہیں ہے پارہ دوزی میں کوئی وصال نہیں

    عشق کی رہ میں پاؤں رکھا سو رہنے لگے کچھ رفتہ سے
    آگے چل کر دیکھیں ہم اب گم ہوویں یا پیدا ہوں

    کوئی طرف یاں ایسی نہیں جو خالی ہووے اس سے میر
    یہ طرفہ ہے شور جرس سے چار طرف ہم تنہا ہوں

    دل نہ ٹٹولیں کاش کہ اس کا سردی مہر تو ظاہر ہے
    پاویں اس کو گرم مبادا یار ہمارے کینے میں

    ہائے لطافت جسم کی اس کے مر ہی گیا ہوں پوچھو مت
    جب سے تن نازک وہ دیکھا تب سے مجھ میں جان نہیں

    یوں ناکام رہیں گے کب تک جی میں ہے اک کام کریں
    رسوا ہوکر مارے جاویں اس کو بھی بدنام کریں

    حرف و سخن کی اس سے اپنی مجال کیا ہے
    ان نے کہا ہے کیا کیا میں نے اگر کہا کچھ

    کیا کہیں ان نے جو پھیرا اپنے در پر سے ہمیں
    مر گئے غیرت سے ہم بھی پر نہ اس کے گھر گئے

    بے دل ہوئے بے دیں ہوئے بے وقر ہم ات گت ہوئے
    بے کس ہوئے بے بس ہوئے بے کل ہوئے بے گت ہوئے

    معشوقوں کی گرمی بھی اے میر قیامت ہے
    چھاتی میں گلے لگ کر ٹک آگ لگادیں گے

    اس طرح کے اشعار اتنی کثیر تعداد میں ہے کہ بے تکلف ان سے ایک دیوان تیار ہو سکتا ہے۔ پھر ان میں ان اشعار کو بھی ملا لیجیے جن میں معشوق کا ذکر واحد غائب کے صیغے میں ہے لیکن ایک شخص کی حیثیت سے ہے، علامت (یعنی معشوق کے تصور کی علامت) کے طور پر نہیں۔ معشوق کا ذکر معشوق کے تصور کی علامت کے طور پر غالب کے مندرجہ ذیل اشعار میں دیکھیے،

    ہے صاعقہ و شعلہ و سیماب کا عالم
    آنا ہی سمجھ میں مری آتا نہیں گو آئے

    شور جولاں تھا کنار بحر پر کس کا کہ آج
    گرد ساحل ہے بہ زخم موجۂ دریا نمک

    ابھی ہم قتل گہ کا دیکھنا آساں سمجھتے ہیں
    ابھی دیکھا نہیں خوں میں شناور تیرے تو سن کو

    جلوہ از بس کہ تقاضاے نگہ کرتا ہے
    جو ہر آئینہ بھی چاہے ہے مژگاں ہونا

    اس کے برخلاف، معشوق بطور ایک شخص کا اظہار غالب کے ان اشعار میں دیکھیے،

    تھی وہ اک شخص کے تصور سے
    اب وہ رعنائی خیال کہاں

    گئی وہ بات کہ ہو گفتگو تو کیوں کر ہو
    کہے سے کچھ نہ ہوا پھر کہو تو کیوں کر ہو

    منھ نہ کھلنے پر وہ عالم ہے کہ دیکھاہی نہیں
    زلف سے بڑھ کر نقاب اس شوخ کے منھ پر کھلا

    کرے ہے قتل لگاوٹ میں تیرا رو دینا
    تری طرح کوئی تیغ نگہ کو آب تو دے

    یہ بات ظاہر ہے کہ معشوق کی شخصیت ان اشعار میں بھی کم و بیش پردۂ راز میں رہتی ہے۔ معشوق کو تصور کی سطح پر انگیز کیا گیا ہے۔ آخری شعر میں جہاں ایک جنسی معاملہ بیان ہوا ہے (اگرچہ عام شارحین نے اس شعر کو بھی غیرجنسی کہا ہے) معشوق خود موجود نہیں، صرف خودکلامی اور شاید wishful thinking ہے۔ غالب کاذہن اس قدر تصوراتی اور تجریدی ہے کہ معشوق بحیثیت ایک شخص ان کے یہاں بہت کم ہے اور جہاں ہے بھی، وہاں بھی تصوراتی پہلو حاوی نہیں تو نمایاں ضرور رہتا ہے۔ محمد حسن عسکری کو غالب سے شکایت تھی کہ وہ اپنی شخصیت کو پوری طرح ترک نہیں کرتے بلکہ معشوق کے سامنے بھی اپنے آپ کو الگ شخصیت کا حامل ظاہر کرتے ہیں، لہٰذا ان کے یہاں خودسپردگی کی کمی ہے۔ ممکن ہے کہ غالب کے یہاں خودسپردگی کم ہو، لیکن اس سے ان کی شاعرانہ عظمت نہ گھٹتی ہے، نہ بڑھتی ہے۔

    بنیادی بات یہ ہے کہ تصوراتی اور تجریدی میلان کے حاوی ہونے کے باعث غالب کسی غیر شخص کو (چاہے وہ معشوق ہی کیوں نہ ہو) پوری طرح ظاہر اور بیان نہیں کر سکتے۔ میر کا معاملہ یہ ہے کہ وہ ہر چیز کو ٹھوس، ارضی سطح پر برتتے ہیں۔ لہٰذا ان کے کردار تصوراتی سے زیادہ حقیقی اور علامتی سے زیادہ افسانوی معلوم ہوتے ہیں۔ چنانچہ معشوق کے بارے میں واحد غائب کا صیغہ استعمال کرتے وقت بھی، یا خود کلامی کے دوران ان کا سارا تاثر کسی موجود شخص کا ہوتا ہے، کسی تصور یا علامت کا نہیں۔

    دیوان اول:
    نیمچہ ہاتھ میں مستی سے لہو سی آنکھیں
    سج تری دیکھ کے اے شوخ حذر ہم نے کیا

    دیوان اول:
    بارے کل ٹھیر گئے اس ظالم خوں خوار سے ہم
    منصفی کیجیے تو کچھ کم نہ جگر ہم نے کیا

    دیوان اول:
    خاک میں لوٹوں کہ لوہو میں نہاؤں میں میر
    یار مستغنی ہے اس کو مری پروا کیا ہو

    دیوان اول:
    جوں چشم بسملی نہ مندی آوےگی نظر
    جو آنکھ میرے خونی کے چہرے پہ باز ہو

    اس شعر میں پیکر اس قدر غیرمعمولی اور واقعیت سے بھرپور ہونے کے باوجود شدت اور مبالغہ سے اس طرح بھرپور ہے کہ شیکسپیئر کے بہترین پیکروں کی یاد آتی ہے۔ معشوق کو خونی کہا ہے۔ پھر کہا ہے کہ جو آنکھ اس کے چہرے پر کھل گئی یعنی جس آنکھ نے اس کو دیکھ لیا، پھر وہ ہمیشہ ٹکٹکی لگائے اس کے چہرے کو تکتی رہےگی، جس طرح کہ ذبح کئے ہوئے جانور کی آنکھ کھلی رہ جاتی ہے اور کبھی بند نہیں ہوتی۔ یعنی معشوق کے حسن اور اس حسن کے قتال ہونے، دونوں باتوں کو بہ یک وقت ’’چشم بسملی‘‘ کے پیکر کے ذریعہ ظاہر کر دیا۔

    واقعاتی اشارے بالکل سامنے کے ہیں (معشوق کا حددرجہ حسین ہونا، اس کا ظالم ہونا، اس کا خونی ہونا، لوگوں کا اسے دیکھنا تو دیکھتے رہ جانا) لیکن استعارہ، مبالغہ اور تشدید سے بھرپور ہے۔ اس کے باوجود شعر کی فضا روزمرہ دنیا کی سی ہے، کیوں کہ ’’چشم بسملی‘‘ کے بعد اس میں دوسرا شاہکار لفظ ’’میرے‘‘ ہے۔ یعنی وہ شخص جو میرا معشوق (خونی معشوق) ہے، یا وہ جس نے میرا خون کیا۔ دونوں صورتوں میں ایک گھریلو سی اپنائیت ہے، جو معشوق کی شخصیت کو روزمرہ زندگی کے معاملات سے باہر نہیں جانے دیتی۔ اب دیکھیے غالب نے اسی پیکر کو کس درجہ تصوراتی اور عام دنیا سے کس قدر دور کرکے پیش کیا ہے۔

    اپنے کو دیکھتا نہیں ذوق ستم تو دیکھ
    آئینہ تاکہ دیدۂ نخچیر سے نہ ہو

    معشوق کو ذوق ستم اس قدر ہے کہ جب تک کسی مقتول کی کھلی ہوئی ٹکٹکی لگاکر تکتی ہوئی آنکھ کا آئینہ فراہم نہ ہو، وہ اپنی آرائش بھی نہیں کرتا۔ اس مثال کے بعد میر اور غالب کے طریق کار کا فرق ظاہر کرنے کے لیے مزید کچھ کہنا غیرضروری معلوم ہوتا ہے۔ معشوق کی شخصیت کے بارے میں میر کے چند اشعار صرف دیوان اول سے اور سن لیجیے۔

    دیوان اول:
    استخواں توڑے مرے اس کی گلی کے سگ نے
    کس خرابی سے میں واں رات رہا مت پوچھو

    دیوان اول:
    میری اس شوخ سے صحبت ہے بعینہ ویسی
    جیسے بن جائے کسو سادے کو عیار کے ساتھ

    دیوان اول:
    اس کے ایفاے عہد تک نہ جئے
    عمر نے ہم سے بے وفائی کی

    دیوان اول:
    اس مہ کے جلوے سے کچھ تا میر یاد دیوے
    اب کے گھروں میں ہم نے سب چاندنی ہے بوئی

    دیوان اول:
    باہم سلوک تھا تو اٹھاتے تھے نرم گرم
    کاہے کو میر کوئی دبے جب بگڑ گئی

    دیوان اول:
    کل بارے ہم سے اس سے ملاقات ہو گئی
    دو دو بچن کے ہونے میں اک بات ہو گئی

    دیوان اول:
    شکوہ نہیں جو اس کو پروا نہ ہو ہماری
    دروازے جس کے ہم سے کتنے فقیر آئے

    دیوان اول:
    اس شوخ کی سر تیز پلک ہے کہ وہ کانٹا
    گڑ جائے اگر آنکھ میں تو سر دل سے نکالے

    دیوان اول:
    سو ظلم اٹھائے تو کبھو دور سے دیکھا
    ہر گز نہ ہوا یہ کہ ہمیں پاس بلالے

    غرض کہ ایسے اشعار کا ایک دفتر ہے۔ کلیات کا کوئی صفحہ کھولیے، آپ کو دو چار شعر ایسے مل جائیں گے جن میں عاشق اور معشوق عام زندگی کے انسانوں کی طرح محو معاملات نظر آتے ہیں۔ ملحوظ رہے کہ میں ابھی ان شعروں کا ذکر نہیں کر رہا ہوں جن میں معشوق کے جسمانی حسن سے لذت اندوز ہونے کا براہ راست ذکر ہے اور جن میں معشوق سراسر گوشت پوست کا انسان نظر آتا ہے (اور وہ انسان بھی نہیں جس کے خط و خال کنگھی چوٹی، موباف، انگیا، کرتی اور محرم کے حوالے سے واضح کیے جائیں۔) معشوق سے لذت اندوز ہونے پر مبنی اشعار کو فی الحال چھوڑیے، کیوں کہ ان میں غیرمعمولی حسن اور شوخی تو ہے، لیکن وہ اٹھارویں صدی کی غزل کے عام دھارے سے بہت الگ نہیں ہیں۔ میں نے جن اشعار کا حوالہ اوپر دیا ہے وہ میر کے اپنے طبع زاد رنگ کے ہیں۔ ان میں معشوق کی شخصیت جس نہج سے نمایاں کی گئی ہے، وہ اردو شاعری کی عام نہج نہیں ہے، اور غالب سے بہر حال بالکل مختلف ہے۔

    ان اشعار کے عناصر کا تجزیہ کیجیے تو یہ بات صاف معلوم ہوتی ہے کہ معشوق اور عاشق میں برابری کا رشتہ نہیں ہے، ہو بھی نہیں سکتا۔ معشوق بہرحال عاشق پر حاوی رہتا ہے۔ لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ عاشق بالکل بےچارہ اور بےکس ہے۔ وہ کبھی کبھی احتجاج کرتا ہے، کبھی کبھی بگڑ بھی بیٹھتا ہے، کبھی کبھی اس کی اور معشوق کی ملاقات بھی ہو جاتی ہے۔ جب تک تعلقات ٹھیک رہتے ہیں، وہ معشوق کی سخت نرم باتیں برداشت کرتا ہے، لیکن جب بات بگڑ جاتی ہے، تو وہ بھی ترکی بہ ترکی جواب دیتا ہے۔ وہ اس کی گلی تک پہنچ بھی جاتا ہے۔

    یہ اور بات ہے کہ وہاں معشوق کی گلی کا کتا اس کی ہڈیاں توڑتا ہے، لیکن وہ اس واقعے کا بیان عجیب طمانیت اور تھوڑے بہت مزاح کے ساتھ کرتا ہے۔ مزاح کا عنصر اس کی شخصیت میں زیادہ نمایاں ہے، بے چارگی اور پس ماندگی کا کم لیکن معشوق میں استغنا اور ناپرسی، خوں ریزی اور شوق شکار، زود رنجی اور جور بےوجہ و نہایت کے بھی عناصر پوری طرح کارفرما ہیں۔ یہ بات طے نہیں ہوتی کہ معشوق جان بوجھ کر ظلم کرتا ہے، یا اس کی فطرت میں ظلم اس طرح ودیعت کیا گیا ہے کہ اس کو احساس ہی نہیں ہوتا کہ وہ ظالم بھی ہے۔ دیوان اول کا یہ شعر پھر دیکھیے۔

    نیمچہ ہاتھ میں مستی سے لہو سی آنکھیں
    سج تری دیکھ کے اے شوخ حذرہم نے کیا

    پھر یہ اشعار بھی ملاحظہ ہوں،
    پلکوں سے رفو ان نے کیا چاک دل میر
    کس زخم کو کس ناز کی کے ساتھ سیا ہے

    دیوان سوم:
    قلب و دماغ و جگر کے گئے پر ضعف ہے جی کی غارت میں
    کیا جانے یہ قلقچی ان نے کس سردار کو دیکھا ہے

    ’’قلقچی‘‘وہ سپاہی ہوتا ہے جو بادشاہ کا براہ راست ملازم نہ ہو بلکہ کسی رئیس کا ملازم ہو۔ قلب و دماغ و جگر کی حیثیت قلقچی کی سی ہے، کیوں کہ وہ (میر) عاشق کے ملازم ہیں۔ جب انہوں نے سردار کو دیکھا تو فوراً اس سے جاکر مل گئے اور اپنے رئیس کو چھوڑ دیا۔ یعنی معشوق کا سامنا ہوتے ہی قلب، دماغ، جگر سب ساتھ چھوڑ گئے۔

    دیوان سوم:
    باؤ سے بھی گرپتا کھڑ کے چوٹ چلے ہے ظالم کی
    ہم نے دام گہوں میں اس کے ذوق شکار کو دیکھا ہے

    دیوان چہارم:
    جب تلک شرم رہی مانع شوخی اس کی
    تب تلک ہم بھی ستم دیدہ حیا کرتے تھے

    دیوان چہارم:
    کب وعدے کی رات وہ آئی جو آپس میں نہ لڑائی ہوئی
    آخر اس اوباش نے مارا رہتی نہیں ہے آئی ہوئی

    لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ یہ معشوق مومن (اور بڑی حد تک غالب) کے معشوق کی طرح سطوری (linear) اور کم وبیش باہم یکساں (Consistent) صفات رکھنے والا نہیں ہے۔ بلکہ یہ معشوق بہت ہی پیچیدہ (complex) کردار رکھتا ہے۔ کوئی ضروری نہیں کہ سارے کلیات میں ایک ہی عاشق اور ایک ہی معشوق ہو۔ یہ بحث تو اس وقت پیدا ہوتی جب ہم یہ فرض کرتے کہ یہ عاشق اور معشوق کسی فکشن کے کردار ہیں۔ جیسا کہ میں اوپر واضح کر چکا ہوں، یہ کردار اس معنی میں کردار نہیں ہیں جس معنی میں فکشن نگار اپنے کردار بناتا ہے۔ یہاں بنیادی بات یہ ہے کہ عاشق اور معشوق کا جو پیکر (image) میر کے کلیات میں ملتا ہے، وہ فکشن کے کردار کی طرح اپنی انفرادیت اور شخصیت رکھتا ہے اور واقعی زندگی کے انسانوں کی طرح بہت پیچیدہ بھی ہے۔ ان کرداروں میں رسمی قسم کی واقعیت نہیں ہے، لیکن یہ واقعی کرداروں کی طرح ہم پر اثر انداز ہوتے ہیں، کیوں کہ شاعر نے ان کو تصوراتی اور تجریدی سطح پر نہیں بیان کیا ہے (جیسا کہ غالب کا انداز ہے) بلکہ مرئی اور ارضی سطح پر بیان کیا ہے۔

    واقعیت کے اس رنگ نے بہت سے نقادوں کو اس دھوکے میں مبتلا کر دیا کہ کلیات میر میں عاشق دراصل میر خود ہیں، اور جو معشوق ہے وہ بھی کوئی واقعی شخص ہے۔ حالانکہ معشوق کے کردار میں طرح طرح کے متضاد پہلوؤں اور خود معشوق کی جنس میں کہیں عورت اور کہیں واضح طور پر مرد کا تذکرہ اس بات کو صاف کرنے کے لیے کافی ہونا چاہیے تھا کہ ہم کسی واقعی شخص یا اشخاص کا حال نہیں پڑھ رہے ہیں اور نہ ہم ان غزلوں کے پردے میں میر کی سوانح حیات پڑھ رہے ہیں۔ لیکن نام نہاد سوانحاتی، سماجیاتی، تاریخی اسکول کے نقادوں کو اپنے عقائد اس قدر پیارے ہیں کہ وہ کلیات میر کے بجائے اپنے مفروضات کو پڑھ کر میر پر تنقید فرماتے ہیں۔ میر نے اپنے سوانح بیان کرنے کے لیے خود نوشت سوانح حیات اور مثنوی دونوں اصناف کو برتا ہے۔ غزل کا مقصد ان کی نظر میں یہ تھا ہی نہیں کہ اس میں ’’سچے حالات‘‘ بیان کیے جائیں۔ جو لوگ غزل کو خودنوشت کے طور پر پڑھتے ہیں وہ کلاسیکی غزل کی شعریات سے ناواقف ہیں۔

    میر کا کمال یہ نہیں ہے کہ انہوں نے غزل کے پردے میں اپنی داستان عشق نظم کر دی۔ کلیات کا معمولی سامطالعہ بھی بتا دےگا کہ مختلف واقعات و کیفیات و حالات و جذبات کا یہ بیان، ایسے رویوں کا بیان جو آپس میں کسی طرح بھی باہم یکساں (consistent) نہیں ہیں، عاشق اور معشوق کے آپسی عمل درد عمل میں اس درجہ گوناگونی کا احساس، یہ سب باتیں اس بات کی ضامن ہیں کہ میر کی غزل ان کی خودنوشت سوانح نہیں ہے۔ (خود نوشت سوانح کا نظریہ رکھنے والے نقاد یہ کیوں نہیں سوچتے کہ اگر ان غزلوں کو سوانح حیات ہی ہونا ہے تو وہ میر ہی کیوں، کسی اور کی سوانح کیوں نہیں ہو سکتی؟)

    یہ اور بات ہے کہ شاعر (اور غزل کا شاعر عام شعرا سے زیادہ) اپنے ذاتی تجربات و مشاہدات سے کام لیتا ہے، لہٰذا ممکن ہے کہ میر نے بھی بہت سی باتیں ایسی کہی ہوں جو پوری کی پوری، یا کم و بیش، یا اس سے ملتی جلتی باتیں، خود ان پر گذری ہوں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ آپ بیتی کو جگ بیتی بناکر پیش کر رہے ہیں، یا اپنے دل کا دکھڑا رو رہے ہیں۔

    یہ تصور ہی مہمل ہے کہ میر نے اپنے غم کو آفاقی غم بناکر پیش کیا۔ اول تو یہ بات کوئی ایسی اہم نہیں لیکن زیادہ بنیادی بات یہ ہے کہ اوپر جن اشعار کا حوالہ گذرا، ان کا شاعر آپ بیتی، ذاتی غم والم، دل کا دکھڑا رونا وغیرہ یک سطحی اور محدود باتوں سے بہت آگے اور بہت بلند ہے۔ اس کے یہاں تجربہ اور مشاہدہ کی وہ دنیا ہے جو غم، الم، دردناکی، دل شکستگی، حرماں نصیبی وغیرہ جیسی اصطلاحوں کے ذریعہ نہیں بیان ہو سکتی۔ اس دنیا میں سب کچھ ہو چکا ہے اور سب کچھ ہوتا ہے۔ اس میں موت بھی ہے اور موت سے بدتر زندگی بھی۔ اس میں خودداری اور خودفریبی دونوں ہیں۔ اس میں معشوق بادشاہ بھی ہے اور اوباش بھی۔ اس میں زندگی مزے دار بھی ہے اور تلخ بھی۔ اس میں عاشق بیچارہ بھی ہے لیکن تھوڑا بہت با اختیار بھی ہے۔ جس دنیا میں سب کچھ ہوا ہو، اور جس شاعر نے سب کچھ برتا ہو، اس کو آپ بیتی، اپنے دکھ درد کا محدود اظہار کرنے والاو ہی نقاد کہہ سکتا ہے جس کو میر سے دشمنی ہو۔

    علیٰ ہذالقیاس، وہ نقاد بھی غلط فہمی میں گرفتار ہیں جن کے خیال میں میر کی حرماں نصیبی اور محزونی اس معاشرے کی فطری پیداوار تھی، جس میں عورتیں گھروں میں پردہ نشین رہتی تھیں اور عشق کرنا رسوائی کا سودا تھا۔ آزادانہ اختلاط کے مواقع نہ ہونے کی بناپر عشق میں مایوسی لازمی تھی اور سماج اور مذہب کے خوف کے باعث عاشق و معشوق ان مواقع کا بھی فائد ہ نہ اٹھ اسکتے تھے جو کبھی کبھی ان کو میسر ہو جایا کرتے تھے۔ ظاہر ہے کہ یہ سب باتیں بھی نقادوں کی اپنی اختراع ہیں۔ ان کا غزل کے قواعد اور روایت سے کوئی واسطہ نہیں اور نہ ان سماجی حالات سے جو اٹھارویں صدی کی دلی میں واقعی رونما تھے۔ سماجی حالات کچھ بھی رہے ہوں، جو معشوق مندرجہ بالا اشعار اور ان کی طرح کے سیکڑوں اشعار میں نظر آتا ہے، وہ بہرحال کوئی چھوئی موئی قسم کی پردے کی بوبو، کوئی ڈرتی جھجکتی، کوٹھری میں چھپ چھپ کر رونے والی بنت عم نہیں تھی۔

    اس بات سے قلع نظر کہ اس کی اپنی شخصیت خاصی پر قوت اور بڑی حدتک جارحانہ تھی، وہ اپنے قول فعل میں اس قدر مجبور بھی نہیں تھی کہ اس کا عشق بہرحال ناکام ہی ہوتا۔ بلکہ ہم تو یہ دیکھتے ہیں کہ وہ اپنے التفات و کرم (favours) کو عطا کرنے یا نہ کرنے پر پوری طرح قادر ہے اوراس بات کا بھی اختیار و قوت رکھتی ہے کہ وہ کسی برقعہ پوش کی طرح سہمی ہوئی باہر نکلنے کے بجائے اس طرح باہر نکلے کہ ہر طرف ’’ادھم‘‘ مچ جائے۔

    دیوان سوم:
    آنکھیں دوڑیں خلق جا اودھر گری
    اٹھ گیا پردہ کہاں اودھم ہوا

    مجھے اس سوال سے کوئی بحث نہیں کہ آیا میر کے زمانے میں سماجی حالات واقعی ایسے تھے کہ ان میں اس طرح کا معشوق وجود میں آ سکتا، جیسا کہ ان شعروں سے ظاہر ہوتا ہے؟ سماجی حالات اتنے پیچیدہ اور تہ دار ہوتے ہیں کہ ان کے بارے میں کوئی ایک حکم لگانا خطرے سے خالی نہیں ہوتا۔ لیکن فرض کیا کہ حالات ایسے نہیں تھے کہ معشوق کا وہ کردار ان میں ممکن ہوتا جو مندرجہ بالا شعروں میں نظر آتا ہے۔ تو پھر اس سے ثابت کیا ہوتا ہے؟ سماجی حالت کا وجود یا عدم وجود اشعار کے وجود کو تو عدم سے بدل نہیں سکتا۔ اشعار ہمارے سامنے ہیں، ان کی روشنی میں ہم کو فیصلہ کرنا چاہیے کہ میر کے کلام میں عاشق اور معشوق کا پیکر کس طرح کا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ اس طرح کا نہیں ہے جیسا بعض نقاد فرض کرتے ہیں کہ میر کا معشوق کوئی پردے میں چھپ کر گھٹ گھٹ کر مرنے والی لڑکی ہے اور عاشق بےچارہ پردے کے باعث عورتوں مردوں کی علیحدگی اور سماج کی عاشق دشمنی کا صیدزبوں ہونے کی وجہ سے حرماں نصیبی اور نومیدی جاوید کا مرقع ہے۔

    میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میر کے شعر کی طرح ان کے یہاں عاشق اور معشوق کا کردار بھی انتہائی پیچیدہ ہے۔ اس پر کوئی ایک حکم لگانا میر کے ساتھ زیادتی ہوگی۔ میر کے عاشق و معشوق دونوں میں ایسی انفرادیتیں ہیں جو کسی اور کے یہاں نہیں ملتیں۔ یہ انفرادیتیں خود میر کے مزاج کی انفرادیت کا مظہر ہیں اور ان کا اظہار بعض ایسی شعری اور ڈرامائی واقعیت کی طرزوں سے ہوا ہے جو میر کا طرۂ امتیاز ہیں۔ عاشق اور معشوق کے کردار کی واقعیت اور انفرادیت کا اظہار میر نے ایک ہی شعر میں بھرپور ڈھنگ سے کر دیا ہے۔

    دیوان چہارم:
    میر خلاف مزاج محبت موجب تلخی کشیدن ہے
    یار موافق مل جائے تو لطف ہے چاہ مزا ہے عشق

     

    مأخذ:

    شعر شور انگیز (Pg. 101)

    • مصنف: شمس الرحمن فاروقی
      • ناشر: ڈائرکٹر قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 2006

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے