Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

انتظار حسین کی: جستجو کیا ہے؟

محمد کاظم

انتظار حسین کی: جستجو کیا ہے؟

محمد کاظم

MORE BYمحمد کاظم

    فکر معاش، ذکر بتاں، یاد رفتگاں

    اس مختصر حیات میں کیا کیا کرے کوئی

    بیسویں صدی کے نصف ثانی اور اکیسویں صدی کے شروعاتی دنوں میں اردو کے بہت سے ادیب و شاعر نے خود نوشت سوانح لکھے اور اسے شائع کرایا۔ ان میں سے زیادہ تر ان کی زندگی میں ہی شائع ہوکر مقبول عام ہوئے اور اس کا تاثر خود ان کو کبھی براہ راست تو کبھی بالواسطہ ملا۔ لیکن انتظار حسین کی خود نوشت دوسری تمام خودنوشت سے مختلف اور منفرد ہے۔ جستجو کیا ہے؟ کے مطالعے کے بعد یہ احساس ہوتا ہے کہ یہ ایک سوانح نہیں ہے بلکہ اسے سفرنامہ کہا جانا چاہیے۔ یہ کتاب ان کے پاکستان ہجرت کرنے کے بعد ہندوستان کے بہت سے سفر کی داستان ہے۔ بلکہ اس کتاب کا زیادہ تر حصہ ہندوستان کے مختلف شہروں کے اس سفر پر مبنی ہے جو انھوں نے 2006 میں ساہتیہ اکیڈمی کے پریم چند فیلو کے زمانے میں کئے۔ اسی دوران انھوں نے اپنی بستی کا تفصیلی سفر کیا۔ گویا پریم چند فیلو ہونے کے بعد موجودہ ہندوستان کے مختلف رنگ کو دیکھا اور اپنے زمانے کے مشترکہ ہندوستان کی یادداشتوں کی بنیاد پر دو ملکوں کی داستان، اس کی تہذیب اور ان میں بسنے والے ایک جیسے لوگوں کی فکر کے امتزاج سے بنی ایسی مشترک قدروں کو محفوظ کرنے کی سعی کی جنھیں فراموش کرنے کی کوشش کرنے کے باوجود بھلایا نہیں جا سکتا۔ انتظار حسین نے اس سوانح / سفرنامے میں ان تمام قدروں کو محفوظ کردیا ہے جس سے سیاسی طور پر انکار کرنے کی دانستہ کوشش کی جاتی رہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بہت سی ایسی حقیقتیں سامنے آتی ہیں جس سے ہم نے اپنی نظریں ہٹائے رکھنے کی کوشش کی ہے۔ انتظار حسین غیر منقسم ہندستان میں پیدا ہوئے۔ یہاں کی تہذیب و ثقافت اور قدروں کی مناسبت سے ابتدائی، ثانوی اور اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ انتظار حسین اپنے خاندان کے بارے میں لکھتے ہیں،

    اصل میں ہمارا خاندان چتکبرا ہے۔ چتکبرا بھی ایسا کہ ایک رنگ کچھ زیادہ گہرا ہو گیا ہے۔ بس یہ سمجھ لو کہ شیعہ تو بس آٹے میں نمک کی نسبت سے بلکہ تنک اس سے بھی کم۔ باقی سب اہل سنت۔ یہ میں والد کی طرف سے جو ہمارا خاندان ہے، اس کا ذکر کر رہا ہوں۔ والدہ کی طرف سے سب یک رنگ تھے یعنی خالص مولائی۔ مگر میں ذکر کر رہا ہوں اپنے پدری خاندان کا جس نے اب خیر سے اپنا شجرئہ نسب بھی بر آمد کرلیا تھا اور اس کے طفیل امام حسین سے اپنی نسبت بھی دریافت کر لی تھی مگر اس سے آٹے اور نمک کے تناسب میں کوئی فرق نہیں پڑا۔

    (جستجو کیا ہے؟ انتظار حسین، صفحہ ۲۲)

    اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انتظار حسین ایسی مشترکہ تہذیب کے پاسدار رہے ہیں جس کی مثال تو کبھی کبھی مل جاتی ہے لیکن اس کے محافظ کم کم ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ان کے والد خالص مذہبی آدمی تھے اور امام حسین سے اپنی نسبت جوڑتے تھے۔ ان کی ماں مولائی یعنی سنی تھیں۔ گویا انتظار حسین نے ایک ایسے گھر میں آنکھ کھولی جہاں مشترک قدریں بلکہ اسلام کے دو ایسے نظریے کو ماننے والے یکجا تھے، جن کا ملن کم کم ہی ہوتا ہے اور جہاں انھوں نے اپنی زندگی کے بیشتر دن گزارے وہاں کے قتل و غارتگری کے وجوہات میں شامل ہے۔ وہاں یہ دونوں ایک دوسرے کے خون کے پیاسے دکھائی دیتے ہیں اور اکثر خبروں میں رہتے ہیں۔ انتظار حسین کے والد نے جس خاندانی شجرے کو بڑی مشکل سے حاصل کیا اورجس میں اپنی نسل اور اولاد کو شامل کرنے کے بعد محفوظ کیا اس کی اہمیت انتظار حسین کی نظر میں کیا تھی اور اس کا انھوں نے کیا کیا، اس سے متعلق ہی نہیں بلکہ اپنے خاندان کے بارے میں وہ بتاتے ہیں،

    میں تو شجرئہ نسب کی نقل کہیں رکھ کر بھول گیا ہوں جو میرے بزرگ مجھے عنایت کر گئے تھے، مگر یار کہیں گے کہ خاندان کے دور پرے کے عزیزوں، رشتہ داروں کا اتنا ذکر کیا، کچھ خاص اپنے گھرانے کے متعلق تو بتاﺅ۔ ارے وہاں بتانے کے لیے کیا ہے۔ ایک ماموں، ایک چچا، ایک خالہ، پھوپھی ندارد۔ پانچ بہنیں، بھائی کے نام صفر۔ بھانجے بھانجیاں قطار اندر قطار۔ بیٹا بیٹی غائب۔ لو اب لکھتے ہوئے احساس ہو رہا ہے، پہلے یہ خیال ہی نہیں آ تھا کہ کتنے اہم رشتے تو میری زندگی سے خارج ہیں۔

    (جستجو کیا ہے؟ انتظار حسین، صفحہ ۵۲)

    اس چھوٹے سے اقتباس میں بہت ساری باتیں کہہ دی گئی ہیں۔ ایک بڑا اور معتبر ادیب جب کچھ بیان کرتا ہے تو کم سے کم الفاظ میں بہت ساری اور بڑی باتیں کرجاتا ہے۔ ان کے ہر جملے میں جہان ِمعانی پوشیدہ ہوتا ہے اور ایسا ہی احساس ان جملوں سے بھی ہوتا ہے۔ ان کی زندگی میں اتنی ساری رنگینیوں اور رنگوں کے ہونے کے باوجود زندگی کیسے بے رنگ ہے اس کا احساس یہاں بخوبی ہوجاتا ہے۔

    انتظار حسین نے اپنے بچپن کا حال جن الفاظ میں بیان کیا ہے ان میں صرف بچپن نہیں بلکہ اس وقت کا ڈبائی یعنی ہندستان موجود ہے۔ اس گاﺅں میں ہندستان کے تمام طبقات اور پیشے سے متعلق لوگ جمع ہیں اور اب تک انتظار حسین کو وہ سب یاد ہے یعنی مردان کبابی، رنگریز، ان کے پڑوسی فقیر چند کی دکان، مٹھن لال حلوائی کی دکان اور اس کی گجیا، گاﺅں کا مندر، ان کے گھر کے قریب کی مسجد، اکہ کی سواری، کربلا، شہنشاہ حسین وغیرہ۔ ڈبائی کی مشترکہ تہذیب، کھلے ذہن کے لوگوں کے ساتھ ساتھ کھلا کھلا آسمان اور وسیع و عریض گھر اور اس کا دالان اور آنگن۔ محلہ بٹا ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے قربت اور ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک رہنے اور ایک دوسرے کے گھر کے ساتھ ساتھ دلوں میں گھر کئے رہنے کی روایت۔ اس کے برخلاف آج گھر تو وہی ہے لیکن وہ سمٹا ہوا نہ صرف محسو س ہوتا ہے بلکہ دکھائی بھی دے رہا ہے۔ پہلے کشادگی نہ صرف سڑکوں اور گلیوں میں تھی بلکہ ذہن میں بھی ہوتی تھی لیکن اب دونوں ہی سطحوں پر ختم ہو چکی ہیں۔ اس کی عکاسی انتظار حسین کے اس بیان سے ہوتی ہے جب وہ ڈبائی گئے اور اپنے مکان کو دیکھا،

    وہ پورا گھر ہی مجھے سکڑا سمٹا نظر آرہا تھا۔ پہلے کتنا وسیع و عریض نظر آتا تھا مگر اب جیسے سکڑ کر چھوٹا ہوگیا ہے۔ اس بستی کی سڑکوں، گلیوں کے ساتھ بھی یہی صورت نظر آئی۔ میرے تصور میں وہ کتنی کشادہ چلی آرہی تھی۔ اب جو سڑکوں، گلیوں سے گزرا توحیران کہ یا الٰہی یہ کیا ماجرا ہے۔ ہماری بستی کی ہر سڑک کتنی تنگ اور ہر گلی کتنی پتلی ہوگئی ہے۔ اور مکان پہلے کتنے بلند و بالا تھے۔ اب وہی مکان یعنی ان میں سے جتنے جہاں تہاں ویران و خستہ کھڑے نظر آرہے تھے، کتنے پست اور رقبہ میں کتنے مختصر دکھائی دے رہے تھے۔ ہمارے گھر کا صحن کتنا بڑا تھااور سامنے والے دالان کے در کتنے اونچے اونچے تھے۔ اب وہی صحن کتنا چھوٹا رہ گیا تھا اور در پچک کر کتنے پست اور چھوٹے نظر آرہے تھے۔ مگر صراف صاحب کہتے تھے کہ ہم نے سٹرکچر میں کوئی تبدیلی نہیں کی ہے۔ بس ضرورت کے حساب سے تھوڑی ترمیم اور تھوڑی لیپا پوتی کر لی ہے۔

    (جستجو کیا ہے؟ انتظار حسین، صفحہ ۱۱)

    یہ صراف صاحب یعنی ارجن کمار صراف صاحب وہ ہیں جنھوں نے انتظار صاحب کے ماموزاد بھائی سے اس مکان کو خریدا۔ صراف صاحب اس شہر کے میونسپلٹی کے چیئر مین رہ چکے ہیں اور اب بھی ان کا رعب اور دبدبہ ہے۔ لیکن یہ انتظار صاحب کی کشادہ ذہنی بھی ہو سکتی ہے یا بچپن کی یادیں کہ ان کی یاد داشت میں ہر چیز بڑی اور کشادہ محفوظ تھی۔ لیکن موجودہ دور کے لوگوں اور ان کے رویے کی وجہ سے اب وہ چھوٹی اور سکڑی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔

    انتظار حسین کے افسانوں کے مطالعے کے بعد یہ احساس ہوتا ہے کہ ان کے ذہن پر ہندستان، ہندستان کے لوگ، یہاں کا گاﺅں، دیہات، قصبہ اور شہر سوار ہے۔ وہ نسٹیلجیا کے افسانہ نگار ہیں۔ اور کیوں نہ ہوں۔ انھوں نے اپنی زندگی کا وہ حصہ یہاں گزارا جس میں ذہن بالیدہ ہوا، اس کے نہاں خانوں میں یہاں کی تہذیب و ثقافت محفوظ ہوئے اور وہ پاکستان گئے بھی تو غور و فکر کے بعد نہیں بلکہ اچانک ایک دن ریڈیو پر حسن عسکری کا پیغام سنا اور چل دئے لاہور۔ وہاں کسمپرسی کی زندگی گزارنے کا سلسلہ شروع ہوا اور پھر چھوٹے چھوٹے کام کے بعد مشکل سے ملازمت ملی یا پھر فری لانسنگ کی۔ ابتدائی زمانے میں سڑکوں کی خاک بھی چھانی اور اس خاک چھاننے میں ان کے ساتھ دوسرے دوستوں اور احبابوں کے ناصر کاظمی بھی تھے۔ ہاں بھئی وہی ناصر کاظمی جسے ہم ایک باغی اور انقلابی شاعر کے طور پر جانتے ہیں۔ ناصر کاظمی کے ساتھ لاہور میں انتظار حسین کے شب و روز خوب گزرے۔ ان شب و روز میں انھیں اپنا پن کم کم ہی محسوس ہوا۔ لہٰذا انھیں اپنا وطن جو اب ان کا نہیں تھا، اپنا گاﺅں جس سے وہ اب بہت دور تھے، اپنا شہر جسے اب وہ اپنا کہہ نہیں سکتے تھے، ان کے خوابوں میں نہ صرف آنے لگے بلکہ اکثر وہ ان ہی مقامات پر رہنے لگے۔ اس سلسلے میں خود ان کے الفاظ دیکھیں،

    ان خوابوں نے یا اس خواب نے ان دنوں میں جاکر رنگ پکڑا جب میں لاہور شہر میں رچ بس چکا تھا اور چھڑی ہوئی بستی خواب و خیال بن چکی تھی۔ ناصر کاظمی کے ساتھ جو شب و روز بسر ہوئے یہ ان کا فیض تھا۔ ان دنوں ناصر کے ساتھ نہیں یاروں کی پوری منڈلی کے ساتھ اس شہر میں اتنا گھوما پھرا۔ گلی گلی کوچہ کوچہ سڑک سڑک، سمجھ بیٹھا کہ ناصر کے ساتھ میں بھی اس شہر کا روڑا بن چکا ہوں۔ سو اب اپنی چھوڑی ہوئی بستی کی گلیاں کو چے بھی کم کم ہی یاد آتے تھے مگر خوابوں میں تو وہ اب زیادہ ہی آنے لگے تھے۔ شاید انھوں نے مجھے لاہور کے گلی کوچوں میں رچتا بستا دیکھ کر میرے بیدار شعور سے پسپا ہوکر میرے خوابوں میں پناہ لے لی تھی۔ شاید میرے اندر وہ چھپ کر بیٹھ گئے تھے اور مجھے نیند میں غافل پاکر مجھے یاد دلانے آتے تھے کہ نیا دیار، نئے کوچے برحق مگر ہم بھی یہیں کہیں تمہاری یادوں میں شاد آباد ہیں۔

    (جستجو کیا ہے؟ انتظار حسین، صفحہ۷۱)

    اور ان خوابوں نے نہ صرف ان کے ذہن کو ان بستیوں اور وہاں بسنے والوں لوگوں سے وابستہ رکھا بلکہ ان کے حافظے کی قوت میں اضافہ کیا۔ ان حافظے کی مدد سے اپنے بچپن اور نوجوانی کے گاﺅں اور شہر اور ان سے وابستہ لوگوں کو مرکز میں رکھ کر کئی ناول اور کہانیاں لکھیں۔ یہ کہانیاں نہ صرف ان کی اچھی کہانیوں میں شمار ہوتی ہیں بلکہ اردو کی اہم اور ناقابل فراموش کہانیوں میں اپنا مقام بنا چکی ہیں۔ ان کہانیوں میں سے چند کا ذکر کرتے ہوئے انتظار حسین لکھتے ہیں،

    اور ہاں میرے خوابوں ہی کی تجدید نہیں ہوئی، میرا حافظہ بھی پھر سے جاگ اٹھا تھا۔ ارے میں نے تو جب اپنا ناولٹ ”دن“ لکھ لیا تو جانا کہ گمشدہ بستی کے نام میری یادوں پر آخری خط کھنچ گیا۔ پھر اور اورطرف دھیان گیا۔ اوراور رنگ کی کہانی لکھی۔ ”آخری آدمی“، ”زرد کتا“، ”کایا کلپ“، ”پرچھائیں “، ”ہم سفر“ بھلا ان کہانیوں کا اس راگ سے جسے یاروں نے روگ بتایا تھا اور نوسٹلجیا سے تعبیر کیا تھا، کیا تعلق تھا۔ مگر پتہ چلا کہ مرض دب گیا تھا، گیا نہیں تھا،

    چشم خوں بستہ سے کل رات لہو پھر ٹپکا

    ہم نے جانا تھا کہ بس اب تو یہ ناسور گیا

    یادوں کا ناسور پھر ابل پڑا۔ بھلا یہ کون سا وقت تھا بیتے لمحوں کو یاد کرنے کا، مگر یادیں کسی منطق کو نہیں مانتیں یا شاید یادوں کی اپنی منطق ہوتی ہے اور حافظہ اپنے حساب سے کام کرتا ہے۔

    (جستجو کیا ہے؟ انتظار حسین، صفحہ ۹۱)

    جی ہاں حافظہ اپنے حساب سے ہی کام کرتا ہے اور انتظار حسین کے حافظے میں جو ہندستان کا گاﺅں، قصبہ، شہر، یہاں کے لوگ اور تہذیب و ثقافت بسی تھی وہ ان کی زندگی کے اکثر موڑ پر ان کی اکثر و بیشتر کہانیوں میں مختلف صورتوں میں کام کرتی رہی۔ ان کا گھر جس محلے میں تھا وہ تھا تو مسلمانوں کے محلے میں لیکن ان کے گھر کے چاروں طرف غیر مسلم کے مکانات تھے۔ گویا ان کے خاندان کے لوگوں کے علاوہ اگر کوئی رشتہ دار تھے تو یہی غیر مسلم حضرات اور ان کے گھر کے لوگ۔ ان کے گھر کی چھتیں دوسرے گھروں سے ایسے ملی ہوئیں تھی کہ ایک سے دوسرے چھتوں پر آسانی سے جایا جاسکتا تھا۔ اور اکثر بچے ہی نہیں بلکہ بڑے بھی چھتوں کو پار کرتے ہوئے ایک دوسرے کے گھروں تک پہنچ جاتے۔ گویا یہ چھتوں کا ملن نہیں بلکہ دلوں کا جوڑ تھا۔ بظاہر یہ الگ الگ مکانات تھے لیکن ایک دوسرے سے مل کر ایک ہو گئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اس زمانے میں ایک دوسرے کے سکھ دکھ کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کے تہواروں میں بھی شریک ہوتے اور اسی گرم جوشی سے اسے مناتے۔ بلکہ بہت سی رسمیں تو ایک دوسرے میں ایسے مدغم ہو گئیں تھیں کہ یہ معلوم کرنا مشکل ہوجاتا کہ کون سی رسم کس کی ہے۔ اس کے علاوہ کچھ رسمیں ایسی تھی جس کا تعلق مذہب سے نہیں تھا اور اس میں تمام لوگ شریک رہتے تھے۔ قدرتی آفات سے نپٹنے کے لیے تمام مذاہب کے لوگ اپنے اپنے طور پر کچھ کرنے کے ساتھ ساتھ مشترکہ طور پر بھی شامل رہتے تھے۔ ایسی بہت سے رسموں کی تفصیلات انتظار حسین نے اس کتاب میں پیش کیں ہیں۔ سورج گرہن کے لگنے کا ذکر کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں،

    ہاں ایک برس سورج گرہن بھی تو ایسا پڑا تھا کہ کھڑی دوپہری میں گہری ہوتی شام کا سماں پیدا ہو گیا۔ ہمارے گھر کے آس پاس جو اتنی ہندو دکانیں تھیں وہ کتنی پھرتی سے بند ہوئیں کہ ایک دم سے بازار میں سناٹا چھا گیا۔ ہمارے آس پاس جو گھر تھے، ان میں بھی دیکھتے دیکھتے کنڈیاں چڑھ گئیں۔ پھر بھکاریوں کا ایک غول نمودار ہوا اور کتنی تیزی سے پوری سڑک کا چکر لگایا۔ پتہ نہیں کیا الاپ رہے تھے، مگر جس گھر پر رکتے اور شور کرتے، اس کا دروازہ کھلتا۔ اندر سے للائن اناج لیے برآمد ہوتیں۔ اناج جھولیوں میں ڈال پھر سٹاک سے اندر اور دروازہ دھاڑ سے بند۔ اور میں اپنے گھر کے دروازے پہ کھڑا حیران کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ اندر سے چلانے کی آوازیں۔ میری والدہ کی آواز، ”ارے اس کمبخت کو اس وقت بھی گھر میں چین نہیں آیا۔ کدھر نکل گیا۔ بس میں نے فوراً دروازہ بند کیا اور اندر آگیا۔ والد صاحب جانماز پر بیٹھے تھے۔ مجھے غصے سے دیکھا مگر بولتے کیسے۔ اس وقت وہ تحفتہ العوام کھولے بیٹھے تھے اور دعائیں پڑھ رہے تھے۔ ضمون وہی کہ ”اے پاک پروردگار، اے ارض و سماءکے مالک ڈ شمس مشکل میں ہے، اس کی مشکل آسان کر۔

    (جستجو کیا ہے؟ انتظار حسین، صفحہ ۳۳)

    ہم نے دیکھا کہ کس طرح لوگ اپنے اپنے طور پر مشغول ہیں۔ ان کے توہمات ایک جیسے ہیں۔ تمام لوگ ایک جیسا سوچتے ہیں اور ایک دوسرے کی عز ت کرتے ہیں۔ یہاں اگر ہم انتظار حسین کے اسلوب بیان پر غورکرتے ہیں معلوم ہوتا ہے کہ ان کی زبان میں کس قدر برجستگی ہے۔ کتنی رواں اور سلیس ہے۔ بیانیہ کتنا پر اثر ہے۔ دراصل یہ ان کی زبان نہیں بلکہ ان کی شخصیت کی انفرادیت ہے جس کی عکاسی ان کے یہاں مکمل صورت میں ہوتی ہے۔ اس سے ان کی یادداشت اور ان کے ذہن میں رچی بسی ہندستانی رسومات اور تہذیب و ثقافت کا اندازہ ہوتاہے۔ دکانوں پر سامان بیچنے والوں کے اخلاق، پھیری لگانے والوں کے طور طریقے، ان کی ہانک لگانے اور ان کی مختلف طرح کی حرکتوں کا ذکر اس انداز میں کرتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے ان کا ذاتی تجربہ ہے۔ اس سے ان کے مشاہدے اور فکر کا بخوبی علم ہوتا ہے۔ مختلف طرح کے سامان بیچنے والوں کی مخصوص آوازیں اور ان کے سامان بیچنے کے انداز کو اس طرح سے قلم بند کرتے ہیں کہ ان کا حلیہ اور پورا منظر آنکھوں کے سامنے نظر آنے لگتا ہے۔ ایک منظر آپ بھی دیکھیں اور محظوظ ہوں،

    دھوں، دھوں، دھوں۔ یہ دور سے آتی ہوئی ڈھول کی آواز ہے۔ اے لو چوپئی آگئی۔ ہولی جلنے کے بعد دیہات سے جو گانے بجانے والوں والیوں کی ٹولیاں مہینہ پندھرواڑے تک لگاتار آتی رہتی تھیں، ہم انھیں چوپئی کہتے تھے۔ مردانہ اچھل کود اور ڈھول ڈھمکا تو اب ٹھیک طرح یاد نہیں مگر وہ نرتکی ٹھمک ٹھک کرتی جس طرح مجمع کے بیچ لمبا چکر لیتی، پھر تھرکتی پھرکنی کی طرح گھومتی۔ ساتھ میں گھنگھرو باجتے۔ پھر کچھ ٹولی شور مچاتی، کچھ تماشائی ہوہا کرتے۔ لیجیے چوپئی ہوگئی۔ پھر خرید و فروخت بھی تو اسی گلی والے دروازے پہ ہوتی۔ پھیری والوں میں کوئی چین بیل والا، کوئی صدا لگا رہا ہے۔ ریشم کی لچھیاں لے لو۔ پھر موسم کے میوے کی صدا لگانے والے۔ کسی کے سر پہ شہتوت کا بڑا سا چھابڑا ہے۔ کوئی کمرخ بیچتا ہے۔ کوئی فالسے کی صدا لگاتا ہے اور ہاں رات آندھی چلی تھی۔ آندھی میں جانے کتنی امبیاں گری تھیں کہ ٹوکرے امبیوں سے بھرے سر پہ دھرے کنجڑے چلے آرہے ہیں۔ ٹکے دھڑی لگادی ہیں امبیاں۔ منہارن تو خیر بے تکلف اندر چلی آتی تھی۔ وہ آئی اور ہماری بہنوں کی عید ہو گئی۔ کلائیوں پر چڑھتے چڑھتے کتنی چوڑیاں چکنا چور ہو جاتی تھیں۔

    اور ہاں سیر بین والی دلی کا لال قلعہ دیکھو۔ قطب صاب کی لاٹھ دیکھو۔ تاج بی بی کا روضہ دیکھو۔ مکہ دیکھو۔ مدینہ دیکھو۔ بارہ من کی دھوبن دیکھو۔ بمبئی کا بازار دیکھو۔ پھر کھڑی دوپہری میں ایک آواز سینگی بائی کی۔ اس آواز کو سن کر میرا تو دل دھڑ دھڑ کرنے لگتا تھا۔ یہ سینگی والیاں بالکل جادوگرنیاں دکھائی دیتی تھیں۔

    (جستجو کیا ہے؟ انتظار حسین، صفحہ ۴۳)

    یہاں جن مناظر کا بیان کیا گیا ہے یا دکھانے کی کوشش کی گئی ہے، ان تمام مناظر سے گاﺅں اور دیہات میں رہنے والے لوگوں کا سابقہ ضرور پڑا ہوگا۔ ہم سب نے اس کا براہ راست تجربہ کیا ہے۔ اپنے باغ میں شہتوت اور امبیا ہونے کے باوجود دوسرے کے باغ سے چراکر کھائے ہیں۔ ایک ڈبے میں بند سنیما گھر کے سوراخ سے ان چلتی تصویروں کو اس دور کے مقبول فلمی گیتوں کے ساتھ ضرور دیکھیں ہیں۔

    ہندستانی تہواروں میں دکھنے والی شراکت اور ایک دوسرے کے تئیں محبت اور عزت و احترام انتظار حسین کی تحریر کا خاصہ ہے۔ جس طرح کا منظر عید وبقرعید کا ذکر تے ہوئے نظر آتا ہے ویسا ہی ہولی اور دیوالی کا بھی دکھتا ہے۔ انھوں نے تمام مذاہب کا مطالعہ خوب کیا ہے، یہی وجہ ہے کہ ان کی پکڑ تمام مذاہب کی رسومات اور ان کے تہواروں پر بہت مضبوط ہے۔ وہ ایک جانب ہولی کا تہوار تزک و اہتما م سے مناتے ہیں تو اتنی ہی دلچسپی سے شب برات بھی مناتے ہیں۔ ہر تہوار کی تفصیل کے ساتھ اس کے منانے کا جواز بھی پیش کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر شب برات کے بارے میں ان کے الفاظ دیکھیں،

    اور ہاں شب برات کا حلوہ۔ حلوے اور روٹی پر مردوں کی فاتحہ مگر تخصیص کے ساتھ حلوہ کیوں؟ ہماری ایا اماں نے بتایا کہ جنگ احد میں حضور پاک کا مبارک دانت شہید ہو گیا تھا تو بی بی فاطمہؒ نے ان کے لیے حلوہ پکایا تھا۔ سو یوں تھا کہ شب برات کا حلوہ تو سنت ہے۔ سو اب تک کس ذوق و شوق سے حسب مقدور اس مبارک دن حلوے تیار کیے جاتے ہیں۔ نیاز دلاتے ہیں۔ بانٹتے ہیں اور خود کھاتے ہیں۔

    (جستجو کیا ہے؟ انتظار حسین، صفحہ ۱۴)

    آج ہم میں سے بہت سے لوگ تہوار اور اس کے رسومات تو ضرور ادا کرتے ہیں لیکن اس کے بارے میں جانکاری یا توہے ہی نہیں یا برائے نام ہی رکھتے ہیں۔ ہم شب برات مناتے ہیں لیکن اس کی روح کو چھوڑ کر یہاں کے دوسرے تہواروں کی نقل میں ہم نے اسے حلوے، پٹاخے اور دوسری رسومات کی ادائیگی کے طور پرمنانے لگے۔ اسی طرح کئی دوسرے رسومات کو بھی تہوار کے طور پر منانے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ مثلاً شب برات سے پہلے ایک اور تہوار آتا ہے۔ اسے بھی ہم دھوم دھام سے مناتے ہیں۔ اس کو ہم کونڈے کاتہوار کہہ سکتے ہیں۔ اس کے منانے کے جواز اور اس کی تیاریوں کے بارے میں انتظار حسین لکھتے ہیں،

    مگر شب برات سے پہلے ایک تیوہار اور بھی تو آتا تھا۔ بھلا کونسا تیوہار۔ مسلمانوں کے تو گنے چنے تین تیوہار ہیں۔ عید، بقرعید، شب برات۔ شب برات سے پہلے بیچ ماہ رجب میں یہ کونڈوں کا شور کیسا ہے اور یہ کس خوشی میں کونڈوں کی نیاز ہورہی ہے اور کس اہتمام سے۔ ہفتہ ڈیڑھ ہفتہ پہلے سے ہمارے گھر میں اس کی تیاری شروع ہو جاتی تھی۔ وہ بڑا دالان جس میں برابر برابر دو چوکیاں جوڑ کر ان پر سفید چادر بچھائی جاتی تھی۔ اس کے فرش کی پہلے لپائی ہوتی تھی۔ پھر درودیوار کو پوتا جاتا تھا۔ پھر 21 رجب کو صبح سے لے کر شام تک برتنوں کی دھلائی منجھائی ہوتی رہتی تھی۔ صرف برتنوں کی نہیں چمٹا، پھونکنی، کڑھائی، توا سب کو دھونے کے بعد تین تین دفعہ تریڑے دے کر پاک کیا جاتا تھا اور ایااماں بتاتی تھیں کہ پہلے تو وہ لکڑیاں بھی جو اس شب ایندھن کے طور پر استعمال ہوتی تھیں، دھوکر پاک کی جاتی تھیں۔ مٹی کے کونڈے دھوئے جاتے اور اسی طرح پاک کیے جاتے۔ کئی دن تک دھوپ میں سوکھنے کے بعد وہ لکڑیاں اس قابل ہوتی تھیں کہ چولہے میں جلائی جائیں۔ ہاں چولہا بھی تو الگ ہی تیار ہوتا تھا۔ وہیں دالان میں جہاں نیاز ہوتی تھی۔ شام کسے کڑھاہی چڑھائی جاتی۔ رات بھر چڑھی رہتی۔ میدے سوجی کی میٹھی پوریاں مستقل تلی جارہی ہیں۔ ادھر صبح کی اذان کان میں پڑی، ادھر نیاز شروع ہو گئی۔ حضرت امام جعفر صادق کے نام کی نیاز۔ مگر کس خوشی میں، کچھ پتہ نہیں۔ کوئی کہانی تھی کہ کسی بوڑھیا نے امام سے اپنی مفلسی کا رونا رویا۔ انھوں نے فرمایا کہ پوریاں پکاکر فلاں لکڑہاڑے کی کہانی سنو اور سناﺅ اور پھر نیاز دلاﺅ، مراد پوری ہوگیخیر اس کے بعد جو 26 رجب کو کونڈے ہوتے تھے ان کے متعلق تو طے تھا کہ یہ نیاز شب معراج کی خوشی میں ہے۔ مگر اس میں نہ پوریوں کی کوئی قید تھی نہ مٹی کے کونڈوں، پیالوں کی۔ جو لذیذ غذائیں مقدد میں ہیں، تیار کرو اور کونڈوں میں چینی کے طشت میں، ڈونگوں میں، جس میں جی چاہے سجا کر رکھو۔

    (جستجو کیا ہے؟ انتظار حسین، صفحہ ۲۴۔ ۱۴)

    اس اقتباس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ صرف ایک تہوار نہیں ہے بلکہ ہماری تہذیب و ثقافت کا اٹوٹ حصہ ہو گیا ہے۔ کلکتے میں اس طرح کے کونڈے میں جانے کا موقع مجھے بچپن میں کئی بار ملا۔ میرے جو بھی دوست یا جاننے والے اپنے یا کسی دوسرے کے گھر ہمیں لے جاتے جہاں کونڈے کا اہتمام کیا جاتاتھاتو وہ صرف اتنا کہتے کہ چل حلوہ پوری کا تہوار ہے اور ہم ان کے ساتھ چلے جاتے صرف اس مقصد سے کہ وہاں حلوہ پوری کھانے کو ملے گا۔ ہم وہاں جاتے اور مٹی کی ہانڈی سے حلوہ نکال کر پوری کے ساتھ دیا جاتا اور ہم سب مزے لے لے کر کھاتے۔ ہمارے ساتھ جانے والوں میں یہ تفریق نہیں رہتی تھی کہ کھانے والے کا مذہب کیا ہے؟ اورنہ وہ لوگ جاننا چاہتے تھے۔ لیکن ہم نے یہ جاننے کی کبھی کوشش نہیں کی کہ یہ تہوار کون سا ہے، کیوں منایا جاتا ہے اور اسے سبھی مسلمان کیوں نہیں مناتے۔ اور غیر مسلم ہم سے یہ پوچھتے کہ تم لوگ اسے کیوں نہیں مناتے۔ کیوں کہ ہمارے گھر میں اس کا اہتمام کبھی نہیں کیا گیا اور نہ ہی شب برات کے موقع پر حلوہ بنایا گیا۔ ہاں میری پھوپھی کے یہاں شب برات کے موقع پر مختلف طرح کے حلوے بنائے جاتے اور ہم لوگ اس موقعے پر ان کے گھر چلے جاتے۔ گویا ان دونوں تہواروں کو حلوہ پوری کا تہوار کے طور پر ہی جانتے رہے۔

    انتظار حسین نے اپنی اس کتاب میں تہذیب و ثقافت کو محفوظ کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے دور کے مختلف مناظر، لوگوں کی فکر، زمانے کو لے کر عوام و خواص کے رویے، ادیب و شاعر کی ذمہ داریاں، اساتذہ کے کردار، صحافیوں کے رویے اور ان کے مطالعہ پر اپنی رائے کو بھی محفوظ کردیا ہے۔ انھیں درون خانہ کا اچھا خاصہ علم تھا۔ انھوں نے اپنی ایا اماں کا کا ذکر بار بار کیا ہے۔ انھیں اپنے خاندان اور تہذیب کے بارے میں زیادہ تر معلومات اپنی ایا اماں سے ہی حاصل ہوئی ہے۔ انھیں اپنے مذہب کے ساتھ ساتھ دوسرے مذاہب کا بھی اچھا خاصہ علم تھا۔ دوسرے مذاہب کی تہذیب و ثقافت سے بھی واقف تھے۔ ایک جگہ ہجری اور عیسوی کلنڈر کے ساتھ ساتھ ایک اور کلینڈر کا ذکر کرتے ہیں۔ یہ کلینڈر خواتین کا اپنا بنایا ہوا ہے جو پہلے کی خواتین استعمال کرتی تھیں اور اب بھی بوڑھی پرانی خواتین استعمال کرتی ہیں۔ انتظار حسین کی زبانی آپ بھی دیکھیں،

    اور یہ جو ہجری کیلنڈر ہے، ویسے تو یہ اسلام کے طفیل عرب سے ہمارے یہاں آیا تھا مگر اس دیار کی بیبیوں نے عربی رنگ کاٹ کر ان مہینوں کو اپنے رنگ میں رنگ لیا یا شاید دلی کی بیبیوں نے یہ کمال دکھایا ہو۔ تو ربیع الا ول کا مہینہ بارہ وفات کا مہینہ بن گیا۔ ربیع الثانی، میراں جی کا مہینہ یا گیارہویں کا مہینہ۔ شعبان کا مہینہ شب رات کا مہینہ۔ شوال عید کا مہینہ۔ ذی قدہ کے مہینے میں کوئی تیج تیوہار نہیں، سو یہ خالی کا مہینہ کہلایا۔

    (جستجو کیا ہے؟ انتظار حسین، صفحہ ۳۴)

    ان مہینوں کے نام میں نے بھی اپنی دادی، نانی اور اماں کی زبان سے سنے ہیں۔ ان سے جب بھی پوچھا تو انھوں نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ تمھاری سمجھ میں نہیں آئے گا۔ جب بھی سنا دادی، نانی، اماں، چچی، خالہ کی زبان سے ہی سنا کبھی کسی مرد کی زبان سے سننے کا موقع نہیں ملا اور اب تو شہر میں رہنے والی کسی خاتون کی زبان سے بھی شاز و نادر ہی سننے کو مل پاتا ہے۔ ہاں جب کبھی گاﺅں دیہات میں جاتا ہوں تو وہاں کی خواتین کی زبان سے سننے کو مل جاتا ہے۔ جب سے ہمارا شہری کرن ہونے کا سلسلہ شروع ہوا ہے گویا اب یہ بھی ختم ہوتا جا رہا ہے۔

    جستجو کیا ہے؟ کہ مطالعے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انتظار حسین کو پرندوں کی پہچان اور ان کے رنگ و آواز کا خاصہ علم تھا۔ انھوں نے اپنے کئی افسانوں اور ناولوں میں اس کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ انھیں کائنات میں موجود قدرتی مناظر اورقدرت کی عنایتوں کے اظہار میں بہت لطف ملتا ہے۔ انھوں نے اکثر اپنے گھر میں بنے کبوتر کے ڈربے کے ساتھ ساتھ اسی مکان میں رہنے والے سانپ، بندراور اس سے گھر والوں کی انسیت کا ذکر کیا ہے۔ اس لطف کے اظہار سے وہ یہاں بھی بعض نہیں رہ سکے۔ لیجیے ان جملوں کو دیکھیں اور آپ بھی ان سے لطف اندوز ہوں،

    کوئل، اس کی مت پوچھو۔ نظر نہیں آتی جیسے پردے میں ہو۔ بس اس پردہ نشیں کی لمبی کوک سنے جاﺅ۔ بلبل فقط آواز ہے۔ نہیں بلبل نہیں کوئل۔ کوئل فقط آواز ہے طاﺅس فقط رنگ۔ مگر فقط رنگ نہیں۔ آواز کیا اس کی کم سریلی ہے۔ مگر میں کوئل کی بات کررہا تھا۔ وہ اور درختوں پر بھی بیٹھتی ہوگی میں یہی سمجھتا تھاکہ بس آم کے درخت پر پتوں میں چھپ کر بیٹھتی ہے اور آم کھا تو نہیں سکتی آم پر بیٹھ کر پاد تو سکتی ہے۔ یہ جو کسی آم پر کالا دھبا پڑا ہوتا ہے اسے ہم کوئل پدا آم کہتے تھے۔ اور شوق سے کھاتے تھے۔ سمجھتے تھے کہ اس پر کوئل نے پادا ہے، ضرور میٹھا ہوگا، مگر خود آم کیوں نہیں کھا سکتی۔

    (جستجو کیا ہے؟ انتظار حسین، صفحہ ۷۴)

    انتظار حسین نے اپنے بچپن کی حرکتوں اور اپنی فکر کو یہاں پیش کرتے ہوئے کئی اہم پرندوں کی شکل اور اس کی خاصیت بیان کردی ہے۔ کوئل کے بارے میں ان کا جو بیان ہے یہ صرف ان کا ہی ماننا نہیں تھا یہ اس زمانے کا تھا اور اس سے وہی ں لوگ زیادہ لطف اندوز ہو سکتے ہیں جو آم کے باغ میں جاتے ہیں، آم کو بور لینے سے لے کر اس کی امیا اور پھر اس میں گٹھلی آنے اور پکنے تک کے عمل سے واقف ہی نہیں ہوتے بلکہ دیکھتے ہیں۔ ہم میں سے بہت سے لوگ ایسے ہیں جنھوں نے ان پرندوں کو دیکھا بھی نہیں ہوگا۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ اب بڑوں کے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ وہ بچوں کو لے کر باغ کی سیر کو نکلیں اور چلتے چلتے ان پرندوں کو دکھائے، ان کے بارے میں بتائے اور ان کی آواز کی شناخت کرائے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ اب ہمیں ان پرندوں کی اہمیت کا احساس ہی نہیں ہے۔ اب تو بہت سے پرندے ڈھونڈنے پر بھی نہیں ملتے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ ان کا نام و نشان مٹتا جا رہا ہے اور ہم ہیں کہ اپنے نئے اور تکنیکی ساز و سامان اورشور کرنے والے تفریح کے ذرائع میں گم ہو تے جا رہے ہیں۔ اب رات کو دادی، نانی کہانیاں نہیں سناتی، اب رات کو جاگ کر داستانیں نہیں سنی جاتیں، اب آلھا اودل گاکر سنانے والوں کو مدعو نہیں کیا جاتا کہ وہ اسے سنائے اور وقفہ کے دوران گھر کی عورتیں چائے کے پتیلے چڑھائے اور گانے، سنانے والوں کے ساتھ ساتھ سننے والوں کو پلائے۔ اب ہاٹ بازار میں آلھا اودل سنانے والے دیکھے بھی نہیں جاتے۔ اس میں ان کا قصور نہیں بلکہ ہم نے ان فنون و رسوم کی اہمیت کو بھلا کر اسے ختم ہونے کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ اردو کے آخری داستان گو میر باقر علی کے بارے میں لکھتے ہیں،

    ان (میر باقر علی) کی داستان حیات کچھ اس طرح بیان ہوئی ہے، یا شاید وہ زندگی ہی اس طور گزری ہے کہ اس کے درجہ بدرجہ زوال کے ساتھ دلی کا بھی درجہ بدرجہ زوال دیکھتے چلے جائیے۔ آگے رجواڑوں سے بلاوے آتے تھے۔ کس ٹھسے کے ساتھ وہاں جاتے تھے اور راجوں مہاراجوں کو داستان سناتے تھے۔ وہ دروازہ بند ہوا تو دلی کے دیوان خانوں میں ساتھ عزت کے بلائے جاتے۔ رفتہ رفتہ وہ سلسلہ بھی بند ہو گیا۔ پھر دلی کے رئیس چھنا مل کے یہاں داستان سنانے پر ملازم ہو گئے۔ ماہوار تنخواہ مبلغ چالیس روپے۔ پھر وہ در بھی بند ہو گیا۔ اب ایرا غیرا نتھو خیرا جس کی گرہ میں دو روپے ہیں وہ گھر پر میر صاحب کو بلائے اور داستان سن لے۔ پھر بقول شاہد صاحب ’’جب لوگوں کو دو روپے بھی اکھرنے لگے تو میر صاحب نے گھر پر داستان کی محفل سجانی شروع کردی۔‘‘ ایک آنے کا ٹکٹ خریدو اور میر باقر علی سے داستان سن لو۔ مگر پھر کیا ہوا۔ دلی میں بائیسکوپ آگیا۔ دلی والوں نے داستان سے منھ موڑا اور بائیسکوپ پر ٹوٹ پڑے۔

    (جستجو کیا ہے؟ انتظار حسین، صفحہ ۲۷۲۔ ۳۷۲)

    اور اس بائیسکوپ کے آنے سے نہ صرف داستان گوئی بلکہ نہ جانے کتنی تہذیبی اور ثقافتی روایتوں نے دم توڑ دیا۔ اور یہ دم بھی ایسے نہیں توڑا بلکہ ان فنکاروں کے ساتھ ساتھ فن پارے کا نام و نشان مٹانے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ خود انتار حسین میر باقر علی اور داستان گوئی کے ختم ہونے کے بارے میں لکھتے ہیں،

    تب میر صاحب نے داستانیں طاق میں رکھیں اور چھالیاں کتر کتر کے بیچنے لگے۔ پہلے ان کی زبان چلتی تھی، اب ان کا سروطہ چلتا تھا۔ کیا گول گول چھالیا ں کترتے تھے۔ گلی محلہ میں انھیں اس حال میں پھیری لگاتے دیکھ کر کوئی پوچھ بیٹھتا کہ میر صاحب یہ چھالیاں اور آپ، تو جواب دیتے کہ ’’دلی والے پان کھانے کے آداب بھول چکے ہیں، انھیں وہ آداب یاد دلا رہا ہوں۔‘‘ بس دلی والوں کو پان کھانے کے آداب سکھاتے سکھاتے ہی دنیا سے گزر گئے۔ داستان گوئی کی روایت نے شاہی درباروں سے آغاز کیا تھا، ایک سروطے پر جاکر وہ ختم ہوئی۔

    (جستجو کیا ہے؟ انتظار حسین، صفحہ۳۷۲)

    حالاں کہ اب جدید دور کے تقاضے کے مطابق اور داستان گوئی کی روایت کو ملحوظ رکھتے ہوئے داستان گوئی کا از سر نو احیا ہوا ہے۔ 2005 سے محمود فاروؓی اور ان کے ساتھی مسلسل اسٹیج پر داستان سنا رہے ہیں۔ گویا میر باقر علی کے آخری طریقے یعنی ’’ایک آنے کا ٹکٹ خریدو اور میر باقر علی سے داستان سن لو‘‘ کی طرح اب آڈیٹوریم میں فلاں تاریخ کو آﺅ اور محمود یا ان کے ساتھوں سے داستان سن لو۔ بلکہ قدیم داستانوں کے ساتھ ساتھ نئی داستانیں بھی سن لو۔

    اسی طرح ایک اور اہم لوک روایت کا معدوم ہو جانا بہت تکلیف دہ ہے۔ اور یہ لوک روایت گاﺅں اور دیہاتوں میں کسی بھی مقام پر پیش کیا جانے والا فن ’’آلھا اودل‘‘ ہے۔ کم ب بیش اب یہ فن بھی ختم ہو گیاہے۔ اس کے بارے میں انتظار حسین لکھتے ہیں،

    دوسری قسم کی ٹولی اپنی سبھا جماتی اور اپنے رنگ میں شروع ہوجاتی۔ یہ کیا ہے؟

    ایک تو بیٹی ہے راجے کی، دوسرے روپ دیا کرتار

    تیسرے چوندا ہے جوبن کا، چوتھے سولہ کیے سنگار

    جیسی دلہن ہے آلھا کی ایسی کسی دیش میں نائے

    ارے یہ تو آلھا اودل گائی جا رہی ہے

    مارا جھونٹا جب سکھیوں نے، جھونٹا لگا سرگ میں جائے

    پروا ہوا چلے ساون کی، ساری بناسپتی لہرائے

    جھونکا لگا گیا جب پروا کا چونری مچھلا کی اڑجائے

    گھونگھٹ اڑ گیا رانی کا چہرہ دمک دمک رہ جائے

    اور بھیا دوہا سنو،

    ایک تو دھکا اس کو لگ جا جس کا گھر ساون میں گر جائے

    دوسرا دھکا اس کو لگ جا جس کی لین بھینس مر جائے

    تیسرا دھکا اس کو لگ جا جس کی بھری چلم گر جائے

    چوتھا دھکا اس کو لگ جا جس کا جوان پوت مرجائے

    (جستجو کیا ہے؟ انتظار حسین، صفحہ۱۵۔ ۲)

    آپ نے محسوس کیا ہوگا کہ آلھا اودل میں منظوم بیانیے کی کتنی قوت موجود ہے۔ اکثر دو فنکار اپنے ساز کے ساتھ بیٹھتے اور نثر و نظم کو کبھی بیان کرتے، تو کبھی لے میں بتاتے، تو کبھی گا کر سناتے اور کبھی اداکاری کے ذریعے مکالمے کی صورت میں ادا کرتے۔ یہ لوگ اچھا گانے بجانے والے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے اداکار بھی ہوتے۔ کہانی بیان کرتے وقت بیچ بیچ میں واقعہ اور موقع کی مناسبت سے دوہا، چوپائی، قطعہ اور اشعار بھی سناتے جاتے۔ گویا اگر انھیں ہمہ جہت فنکار کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ آج اس طرح کے فنکار ناپید ہوتے جا رہے ہیں اور اس کے ذمہ دار ہم ہیں کیوں کہ ہم نے ان کی ناقدری کی ہے اور حکومت نے بھی اس پر اثر فن اور فنکار کی امداد یا اسے محفوظ رکھنے کی جانب کوئی توجہ نہیں دی ہے۔ موسیقی اور اداکاری کے اس اہم ذرائع کی حفاظت ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ ہاں ہم نے تکنیکی میڈیم اور اس کے ذریعے پیش کیے جانے والے فن اور ان سے منسلک فن کار کی امداد کا کام ضرور کیا ہے۔ یعنی اب ہم نے آدمی کے بجائے مشین کو اہمیت دینے کا کام شروع کردیا ہے لیکن ہم یہ بھول گئے ہیں کہ آدمی نے ہی مشین کی ایجاد کی ہے۔ اب زمانہ گلیمر کی جانب بھاگ رہا ہے، یہ بھو ل کر کہ ہر چمکنے والی چیز سونا نہیں ہوتی۔ لیکن ہم اپنی عقل کا کیا کریں کہ چمک دمک نے انسان کے دماغ پر قبضہ کرکے اسے مفلوج کر دیا ہے۔ ایسی ہی گلیمر کی ایک دنیاآج کی طرح انتظار حسین کے زمانے میں بھی بمبئی ہی تھی۔ آج کی مانند اس زمانے میں بھی لوگ اپنی زمین جائداد تک بیچ کر اس مایا نگری میں آتے اور اس امید پر آتے کہ میں اس مصنوئی دنیا کا حصہ بنوں گا اور اس دنیا کے لوگوں کی قربت حاصل کروں گا۔ انتظار حسین کی زبان میں دیکھیں،

    بمبئی کا بھی ایک زمانے میں عجب گلیمر تھا۔ پری چہرہ نسیم ہی نہیں، سب پری چہرہ لوگ وہیں رہتے تھے۔ جو چہرے غروب ہو گئے جیسے سلوچنا، مادھوری اور جو اب چمک دمک رہے تھے، ونمالا بی اے بی ٹی، لیلا چٹلس بی اے، جے شری۔

    خیر وہ گلیمر تو اب بھی ہے مگر اس زمانے کے نوخیز عاشقوں کے رنگ ڈھنگ اور تھے۔ پہلے خط لکھ لکھ کر بھیجتے تھے۔ جب جواب نہ آتا اور جذبئہ عشق زیادہ زور کرتا تو گھر سے تھوڑی رقم چراکر بمبئی کی راہ لیتے۔ بمبئی جانے والے ان دنوں دو قسم کے لوگ ہوا کرتے تھے۔ ایک تو حج پر جانے والے، جو بمبئی جاکر پانی کے جہاز پر سوار ہوتے اور مکہ شریف روانہ ہوجاتے۔ دوسرے وہ نوخیز عاشق پیشہ جن کی منزل مقصود خود بمبئی شہر ہوتا۔

    (جستجو کیا ہے؟ انتظار حسین، صفحہ ۹۷)

    لیکن انتظار حسین نے نہ تو بمبئی کے گلیمر کی راہ لی اور نہ ہی عام لوگوں کی مانند صرف ڈگری حاصل کرنے کی تگ و دو کی۔ انھوں نے ڈبائی میں ابتدائی تعلیم گھر میں حاصل کی تو ثانوی تعلیم کے لیے ہاپور منتقل ہو گئے۔ وہاں انھیں ہاپوڑ کے کمرشیل اینڈ انڈسٹریل ہائی اسکول میں پڑھنے کا موقع ملا۔ ان کے اسکول کے زمانے کے ساتھیوں میں ادیب و شاعر کے ساتھ ساتھ سرکاری افسران بھی شامل ہیں۔ ان ساتھیوں میں سے ایک ریوتی سرن شرما اہم شخصیت ہیں۔ اسی زمانے میں انھوں نے داستان کا مطالعہ کرنا شروع کیا۔ جب اسکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد میرٹھ کالج پہنچے تو ان کے استاد کرار صاحب نے داستان کے مطالعے کی تاکید کی۔ بلکہ وہ ہر طالب علم کو یہ تاکید کرتے اور اگر کسی نے داستان نہیں پڑھی ہے تو اسے وہ ادیب و شاعر ماننے سے انکار تک کرنے میں عار محسوس نہیں کرتے۔ انتظار حسین کے افسانوں اور ناولوں میں جو داستانوی رنگ ہے وہ اسی کا نتیجہ ہے۔ بلکہ وہ تو حقیقت کو بھی داستانوی رنگ میں پیش کر دیتے ہیں۔ یہی رنگ ان کی اس کتاب پر بھی غالب ہے۔ انھوں نے اس میں کسی سن اور تاریخ کا حوالہ یا ذکر کئے بغیر صرف کہانی بیان کردی ہے۔ خواہ وہ بچپن کا ذکر ہو یا لڑکپن کا، وہ اسکول کے زمانے کا ہو یاکالج کے دنوں کا، وہ اپنے اساتذہ سے ملنے بچھڑنے کاہو، وہ ہندستان میں قیام کے دن ہوں یا پاکستان ہجرت کرنے کا، کہیں بھی دن اور تاریخ نہیں ملتی۔ ہاں واقعات و حادثات سے کہیں کہیں زمانے کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ اس لیے بھی اسے سوانح کہنے کے بجائے سفرنامہ کہنے کو ہی جی چاہتا ہے۔

    انتظا ر حسین نے 31 باب کے اس کتاب، جستجو کیا ہے؟ میں ہجرت کے بعد کی زندگی کو زیادہ تفصیل سے بیا ن کیا گیاہے۔ اور کیوں نہ کرتے انھیں ناصر کاظمی جیسے دوست، حسن عسکری جیسے محسن، فیض جیسے ذہن ساز جو ملے۔ انھوں نے پاکستان میں اردو صحافت، صحافیوں کی فکر اور اس دور کے پاکستان کی ادبی صورت حال اور اس پر ہونے والے بحث و مباحثے کو مختلف ابواب میں تفصیل سے بیان کیا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ حلقئہ ارباب ذوق نے جس قدر اس علاقے میں زور پکڑا یہا ں کم کم تھا اور اس کی سرگرمیوں اور خود کے جنرل سکریٹری ہونے کو بار بار لکھا ہے۔ انھوں نے لاہور میں موجود شخصیات مثلاً چراغ حسن حسرت، ڈاکٹر تاثیر، پطرس بخاری، اختر شیرانی، حمید نسیم، ضیا جالندھری، سعادت حسن منٹو، مولانا عبدالمجید سالک، سبط حسن، جمیل الدین عالی، غلام عباس، قرةالعین حیدر، قدرت اللہ شہاب، ممتاز مفتی وغیرہ کے ساتھ اپنے رشتے کو فخریہ انداز میں بیان کیا ہے۔

    جستجو کیا ہے؟ کے مطالعے سے اس کا احساس ہوتا ہے کہ انتظار حسین نے ایک جانب ہندستانی تہذیب و ثقافت اور داستانوی رنگ کو ہمیشہ اپنی تحریر کا خاصہ بنایا ہے تو دوسری جانب پاک ٹی ہاﺅس، پاک کافی ہاﺅس، مختلف اخبار و رسائل کے دفاتر اور دوسرے مراکز پرجدید ادب اور عالمی رجحانات پر ہونے والی گفتگو کو بھی سمیٹنے کی کوشش کی ہے۔ ہاں اس میں ان کی اپنی فکر غالب نظر آتی ہے۔ سارتر کی پیروی، فوکو کا نظریہ، روسی ادب کی اہمیت کا ذکر بار بار آتا ہے۔ پاکستان میں مارشل لا کی خامیوں کے ساتھ ساتھ اس کی خوبیوں کا بھی ذکر ملتا ہے۔ جرنل ایوب خاں کے زمانے کے ظلم کا ذکر کرتے ہیں تو جرنل ضیاءالحق کی خامیوں اور ظلم کے ساتھ ساتھ ان کی خوبیوں کا بھی بیان ملتاہے۔ انھوں نے کم و بیش پچیس برس مسلسل ”مشرق میں کالم لکھے۔ ان کالموں میں ادبی، سماجی، ثقافتی، معاشرتی، سیاسی، غرض انسان کی زندگی سے وابستہ تمام موضوعات پر کالم لکھے۔ انھوں نے یہاں جرنل ایوب خاں کے بعد ذوالفقار علی بھٹو اور جرنل ضیاءالحق کی حکومتوں کے درمیان ذلفقار علی بھٹو کی حکومت کا ذکر نہایت پر اثر انداز میں کیاہے۔ آپ بھی دیکھیں،

    تو اس طرح ”مشرق“ میں میری کالم نگاری پروان چڑھی جہاں میں نے پابندی سے پچیس سال تک کالم لکھا اور اب پیچھے مڑکر ان پچیس برسوں پر نظر ڈالتا ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ ان پچیس برسوں میں پاکستان کی دنیا کیا سے کیا ہو گئی۔ جو واقعات گزر گئے اس کے بعد دنیا کو بدلنا ہی تھا۔ ہندوستان سے ایک جنگ، پھر دوسری جنگ۔ انجام شکست اور شکستگی۔ مشرقی پاکستان کا الگ ہوکر بنگلہ دیش بن جانا۔ ادھر پاکستان اب آدھا رہ گیا تھا۔ اس آدھے پاکستان کی زمام حکومت ذوالفقار علی بھٹو نے سنبھالی اور اسے نئے پاکستان کے خطاب سے نوازا۔ پھر نئے پاکستان میں نئے نئے گل کھلے۔ بھٹو صاحب کے عزائم بلند تھے اور اڑان اونچی تھی مگر انہیں وقت کتنا ملا۔ پانچ چھ برس کی مدت بھی کوئی مدت ہوتی ہے۔ چار دن کی چاندنی پھر اندھیری رات۔ بھٹو صاحب کے منظور نظر جرنیل ضیاءالحق جلد ہی آن دھمکے۔ پھر انھوں نے نو برس تک کوسِ لمن الملکی بجایا۔ جرنیلی بندوبست کیا خوب کیاکہ کوڑوں اور پھانسیوں کا دور دورہ ہوا۔ بچپن سے جو سنتا آیا تھا اس حساب سے بڑی سزائیں دو ہی تھیں۔ کالا پانی یا پھانسی۔ کالے پانی کی سزا فرنگی راج کے ساتھ آئی، اسی کے ساتھ چلی گئی۔ اب وہ جدوجہد آزادی کی تاریخ کا حصہ ہے اور بیتے دنوں کی کہانی۔ پھانسی کا پھندا بھی کل تک شنید تھا، اب میرے لیے دید بن گیا۔

    (جستجو کیا ہے؟ انتظار حسین، صفحہ۷۳۱۔ ۸۳۱)

    انتظار حسین نے اپنی اس کتاب میں دو ملکوں کی داستان اور اس کی تہذیب کو محفوظ کرنے کے ساتھ ساتھ ادب اور ادیب کے نظریے پر بھی روشنی ڈالتے ہیں۔ تخلیق کار اور نقاد کی ذمہ داریوں اور ان سے رشتہ پر بھی لکھا ہے۔ موجودہ دور میں اب تو تخلیق کار تنقید نگار سے نہ صرف رشتے بنانے لگا ہے بلکہ اسے مختلف طریقے سے رام کرنے کا سلسلہ بھی شروع کر چکا ہے۔ گویا اب تعلقاتی تنقید کی راہیں ہموار ہو چکی ہیں۔ جبکہ انتظار حسین کا ماننا ہے کہ نقاد سے تخلیق کار جتنی زیادہ دوری بنائے رکھے اتنا ہی اچھا ہے۔ اس حوالے سے ایک مختصر سا اقتباس دیکھیں،

    لکھنے والا اپنے نقاد کی آنکھوں سے اوجھل رہے اسی میں اس کا بھلا ہے۔ لکھنے والا بھی آخر بندہ بشر ہے۔ سو طرح کے عیب اس میں ہوتے ہیں۔ تحریروں کی حد تک وہ اپنے نقاد کو بھلا نظر آتا ہے۔ جب نقاد اسے دیکھتا بھالتا ہے تب اسے مایوسی ہوتی ہے۔ جس کی تحریروں کو ہم نے نوازا تھا، وہ خانہ خراب کچھ نہ نکلا۔

    (جستجو کیا ہے؟ انتظار حسین، صفحہ۷۵۱)

    انتظار حسین کی زندگی میں دو ایسے موڑ آئے جہاں سے ان کا فکر و فن نئی کروٹ لیتا ہوا نظر آتا ہے اور ساتھ ساتھ ہندوستان کا نہ صرف مسلسل سفر کا سلسلہ شروع ہوتا ہے بلکہ وہ اکثر ہندوسران میں ہی رہنے لگے۔ ان میں سے پہلا تو انھیں ہارپر کولنز کے رسالہ یاترا میں الوک بھلہ کے کیے ہوئے ان کی کہانیوں کے ترجمے کا شائع ہونا اور انھیں یاترا ایوارڈ سے نوازا جانا اور دوسرا انھیں ساہتیہ اکیڈمی کا پریم چند فیلو شپ کا ملنا۔ اس حوالے سے وہ خود لکھتے ہیں،

    اب میری کہانیاں الوک بھلہ کی معرفت انگریزی میں اپنا تعارف کرا رہی تھی اور میں ان کہانیوں کے ناشر ہارپر کولنز سے اس تقریب سے ایک ایوارڈ لینے دلی جارہا تھا بلکہ دلی سے پرے کلکتہ جہاں یہ تقریب ہونی تھی۔

    (جستجو کیا ہے؟ انتظار حسین، صفحہ۷۵۱)

    ترجموں پر مشتمل یہ کہانیاں Leaves کے عنوان سے انگریزی میں شائع ہوئی اور انھیں لوگوں نے یعنی ہارپر کولنز نے انھیں ”یاترا“ ایوارڈ سے نوازا جسے لینے کی غرض سے وہ دلی ہوتے ہوئے کلکتے کا سفر کیا تھا۔ اور پھر یہ سفر کا سلسلہ ایسا نکلا کہ تھمنے کا نام ہی نہ لیتا تھا۔ آج ایک شہر تو کل دوسرے شہر۔ ایک ایک دن میں کئی کئی جلسے اور ان جلسوں میں ادبی، تہذیبی اور ثقافتی تقریب بھی شامل تھیں۔ انھوں نے اس دوران کئی اہم مذہبی مقامات کا دورہ بھی شامل رہا۔ ایک ادیب جب اور جہاں جاتا ہے وہ اپنے مطلب کی چیز تلاش کرتا رہتا ہے۔ اور ہم جانتے ہیں کہ انتظار حسین کو داستانوں کے ساتھ ساتھ جاتک کتھاﺅں اور مذہبی کتابوں، قصوں اور کہانیوں سے خاصی دلچسپی تھی اور ان کا مطالعہ بھی تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں کہیں بنیادی طور پر تو کہیں ضمنی طور پر اس کا ذکر ملتا ہے بلکہ بعض اوقات اسی کی بنیاد پر اپنی کہانیوں کا تانا بانا بنتے ہیں۔ جب انھوں نے ہندوستان کا سفر شروع کیا تو ان میں متھورا اور برندا بن بھی شامل رہا اور جب وہ متھورا گئے تو وہاں کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنی چاہی۔ متھورااور برندا بن کے تمام مذہبی مقامات وہاں کے مہنت نے انھیں دکھائے اور اس کی تفصیل بھی بتائی۔ ان تفصیلات میں کئی بہت اہم معلوم ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر اس پیڑ کی نشاندہی کا واقعہ جہاں سے کرشن گوپیوں کے کپڑے سمیٹ کر چھپ گئے تھے۔ اور اس پیڑ کی معلومات کرنے والا کوئی اور نہیں بلکہ بنگال کا باسی چیتنیا تھا۔ لیجیے اس واقعے کو سوامی جی کی زبانی، انتظار حسین کے الفاظ میں دیکھیں،

    یہ ہے وہ پیڑ جہاں کرشن جی گوپیوں کے کپڑے لتے سمیٹ کر آن چھپے تھے بوجھو کہ اس پیڑ کا پتہ کیسے چلا؟ خود بندرا بن کا پتہ نشان کیسے ملااصل میں چیتنیا نے اس جگہ کو دریافت کیا تھا۔ یہ چیتنیا کون تھا۔ بنگال کا باسی۔ کرشن جی کا بھکت، کہہ لیجیے کہ عاشق ِ صادق۔ وشنو کا پرچارک۔ کرشن لیلا میں گم۔ اس کیفیت میں ناچ رہا ہے، گا رہا ہے، کلکاریاں مار رہا ہے، پری میں باس کررہا تھا۔ ایک دن ترنگ اٹھی کہ چلیں برندا بن چلیں۔ اڑیسہ کے جنگلوں سے گزر ہوا اس جنگل میں شیر چیتے دندناتے پھرتے تھے۔ جس نے اس جنگل میں قدم رکھا جان سے گیا۔ چیتنیا اپنے ترنگ میں چلا جاتا تھاتو چیتنیا بنگال سے چل کر یہاں آیا کتنے دنوں اس ویرانے میں بھٹکتا پھرا۔ ڈھونڈتا پھرتا تھاکہ بندرابن کہاں آباد تھا۔ کہاں ہے وہ جمنا تٹ جہاں گوپیوں نے اپنے کپڑے دھرے تھے۔ کہاں ہے وہ پیڑ جہاں کرشن مہاراج ان کپڑوں لتوں کو بغل میں دبا کر اس کی شاخوں کے بیچ جا چھپے تھے۔ کتنوں نے اسے پتہ نشان بتایا، پر اس کا جی نہ ٹھٹکا۔ بس چلتا رہا، بھٹکتا پھرا۔ کبھی اس راہ، کبھی اس راہ۔ بس ایک دن کسی شبھ گھڑی میں وہ چلتے چلتے ٹھٹھکا۔ ٹھیک کدم کے اس پیڑ کے سامنے۔ اسے تکتا رہا۔ پھر اعلان کیا کہ یہ ہے وہ پیڑ جہاں کرشن مہاراج گوپیوں کے کپڑے چراکر اس کی شاخوں میں چھپ گئے تھے۔

    چیتنیا نے اس مقام کا پتہ لگا لیا ہے جہاس بندرابن آباد تھا۔ اب بندرابن دوبارہ آباد ہوا چاہتا ہے۔ گوسوامی جی بتاتے ہیں کہ اس بستی کو پھر سے بسانے کی منصوبہ بندی چیتنیا نے اس طرح کی کہ چھ گوسوامیوں کا ایک بورڈ تشکیل دیا۔ ان میں تین مسلمان تھے۔ مسلمان؟ ہاں مسلمان۔ کہنے لگے کہ اس وقت بنگال میں مسلمانوں کا راج تھا۔ چیتنیا کا حاکم طبقہ میں اچھا خاصا رسوخ تھا۔ اس نے اس طبقہ سے تین گوسوامی چنے۔ انھوں نے کہا کہ ہم تو مسلمان ہیں۔ چیتنیا نے کہا، پھر کیا ہوا، کرشن بھکت تو ہو۔ ہاں وہ تو ہم ہیں۔ تو بس تم لوگ ان گوسوامیوں میں شامل ہو جو اس نگر کو پھر سے آباد کرنے کا جتن کریں گے۔

    (جستجو کیا ہے؟ انتظار حسین، صفحہ۳۶۱۔ ۴۶۱)

    آپ نے محسوس کیا کہ کرشن بھکتوں کے اس مذہبی مقامات کو دوبارہ آباد کرنے کی منصوبہ بندی میں بنگال کے تین مسلمان بھی شامل تھے۔ کس طرح کی ہم آہنگی تھی اور آج کیا ہو رہا ہے۔ صرف یہی نہیں اسی طرح بندرا بن میں ایک ایسا مندر ہے جو باہر سے کسی بھی طور مندر نہیں معلوم ہوتا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ عمارت بابر کی مدد سے اسی لال پتھر سے بنی جس سے فتح پور سیکری کا قلعہ، اور یہ پتھر بابر نے اس مندر کو بنانے کے لیے تحفے میں دئے۔ اس کی تفصیل بھی انتظار حسین کے الفاظ میں سوامی جی کی زبانی دیکھیں،

    میں نے کہا ”یہ مندر تو مجھے مندر ہی نظر نہیں آرہا۔

    ”جی ہاں۔ اس کا طرز تعمیر مختلف ہے۔ یہاں اسلامی اور ہندو طرز تعمیر کا امتزاج ہے۔ کہہ لیجیے کہ یہ مندر گنگا جمنی تہذیب کا مظہر ہے اور اب سنیے کہ اس تعمیر کی تاریخ کیا ہے۔ رکے اور پھر شروع ہو گئے۔ ”یہ مندر اکبر کی آشیرواد سے تعمیر ہوا تھا۔ اس وقت مسئلہ کیا تھا، اکبر کو مہارانا پرتاپ سنگھ سے مقابلہ درپیش تھا اور اکبر یہ چاہتا تھا کہ ہندوﺅں میں سے کسی بااثر گروہ کی اخلاقی حمایت اسے حاصل ہوجائے اور لڑائی خالی ہندو مسلمان کی لڑائی کا رنگ نہ پکڑے۔ تو یہ مشن راجہ مان سنگھ کے سپرد کیا گیا۔ مان سنگھ متھرا سے ہوتا ہوا بندرا بن میں آن براجا۔ یہاں کے گوسوامیوں سے ملا اور اکبر سے مہارانا پرتاپ کے خلاف حمایت کی درخواست کی۔ انھوں نے کہا کے ہ ہم ضرور حمایت کریں گے مگر ایک شرط کے ساتھ۔ وہ کیا شرط ہے ہماری تمنا ہے کہ جو پتھر فتح پور سیکری کے قلعہ میں لگا ہے وہی اس مندر کے لیے حاصل کیا جائے۔ مان سنگھ اس شرط پہ پریشان ہوا اور بولا، قلعہ کی تعمیر کے بعد بادشاہ نے مناہی کردی ہے کہ اب یہ پتھر کسی عمارت میں استعمال نہیں ہوگا۔ تو اور کچھ مانگو۔ ہماری مانگ تو بس یہی ہے۔

    مان سنگھ مایوس واپس آیا اور اکبر کو بتایا کہ انھوں نے تو ایسی شرط رکھ دی ہے کہ پوری ہوہی نہیں سکتی۔ پھر وہ شرط بتائی۔ اکبر نے کہا کہ یہ شرط کیوں پوری نہیں ہو سکتی۔ ضرور پوری ہوگی۔ فوراً احکامات جاری کیے کہ فتح پور سیکری کے قلعہ میں جو پتھر لگا ہے، وہ بندرابن کے مندر کے لیے بھجوایا جائے۔

    لیجیے وہ خاص پتھر جو فتح پور سیکری کے قلعہ میں لگا تھا، ادھر بندرا بن ڈھلنے لگا۔ بندرابن کا بڑا مندر گوبند مندر تعمیر ہونے لگا۔ مگر تعمیر نے کیا رنگ پکڑا۔ سوامی جی کہتے ہیں کہ بندرابن کے ان گوسوامیوں نے جو چیتنیا کے مقرر کردہ تھے، یہ سوچا کہ جب اکبر بادشاہ نے ہم پر یہ عنایت کی ہے تو ہمیں بھی اس مسلمان بادشاہ کے مذہبی جذبات کا احترام کرنا چاہیے۔ سو طے یہ ہوا کہ مورتیاں سب اندر ہوں، باہر کی دیواروں پر نہ بنائی جائیں۔ بس اسی احساس کے تحت طرز تعمیر بھی بدلا گیا۔

    (جستجو کیا ہے؟ انتظار حسین، صفحہ۵۶۱۔ ۶۶۱)

    صرف بابر نے ہی نہیں بلکہ ہر زمانے کے مختلف حکمراں و نوابین نے برندا بن میں تعمیر عمارتوں اور مندروں میں تعاون کیا ہے۔ کبھی براہ راست تو کبھی بالواسطہ۔ برندا بن کے سوامی جی ایسے ہی ایک مندر کو دکھاتے ہوئے ایک اور واقعہ بیان کیا۔ یہ مندر ان کے آشرم کے قریب ہی واجد علی شاہی مندر تھا۔ اس کی تفصیل بھی خود انتظار حسین کے الفاظ میں ہی دیکھیں،

    وہ مندر جو دکھانا چاہتے تھے، وہ تو آشرم کے پڑوس میں ہی تھا۔ واجد علی شاہی مندر۔ واجد علی شاہی کی تقریب سے۔ گوسوامی جی بتانے لگے کہ یہ مندر اس شخص نے بنوایا ہے جو نواب واجد علی شاہ کا خزانچی تھااور کتھک میں ان کا گروتھا۔ 1857 کی قیامت میں لکھنﺅ سے نکلا۔ چونکہ خزانچی تھا، اس لیے بہت سی دولت لے کر نکلا اور برندابن آن براجا اس نے یہاں ایک مندر بنوایا اور اہتمام کیا کہ جو نقشہ واجد علی شاہ کے دربار کا تھا وہی نقشہ یہاں جمایا جائے۔ سو ایسا ہی کیا گیا کہ کہیں چوسر کی بساط بچھی ہے، کہیں پتنگ بازی کا نقشہ ہے۔

    (جستجو کیا ہے؟ انتظار حسین، صفحہ۷۶۱)

    ان واقعات کے بیان کرنے سے گوسوامی جی کی جو شبیہ بنتی ہے وہ ایک مہنت کے ساتھ ساتھ تاریخ کے ایک جانکار کی بھی۔ کہا جاتا ہے کہ کسی بھی مذہب کا سچا پیروکار کبھی فرقہ پرست یا دوسرے کے مذہب کی بے حرمتی نہیں کرے گا۔ بلکہ دوسرے کے مذہب اور اس کے پیروکار کی خوبی کا بیان کرے گا۔ اور اس کا ثبوت ہمیں برندا بن کے گو سوامی جی کی شکل میں نظر آتا ہے۔ گوسوامی جی نے ایک اور اہم بات بتایا جسے سن کر موجودہ دور میں یقین کرنے کو جی تو نہیں چا رہا لیکن چونکہ انتظار حسین کا ذاتی تجربہ ہے اس لیے بھروسہ کیا جاسکتا ہے۔ اورنگ زیب کو آج جن الفاظ میں یاد کیا جاتا ہے اور ان سے متعلق جس طرح کی غلط فہمیوں کو رواج دیا جاچکا ہے، جس کی بنیاد پر ان سے جس نفرت کا اظہار کیا جارہا ہے، ایسے میں ایک مندر کے گوسوامی کا یہ کہنا کتنا اہم اور اندھیرے میں جگنوں کی روشنی معلوم ہوتی ہے۔ آپ بھی دیکھیں،

    گوسوامی جی کہنے لگے، ’’اگر ہم تاریخ کو صحیح طریقے سے پڑھیں تو ہندو مسلمانوں کے بہت سے جھگڑے ختم ہو جائیں۔‘‘ پھر اپنے بیان میں انھوں نے ایک ٹکڑا اور لگایا۔ بولے کہ ’’اورنگ زیب تو مفت میں بدنام ہے۔ ہندوﺅں کے ساتھ زیادتی تو اصل میں شاہ جہاں نے کی تھی۔ اورنگ زیب نے تو بلکہ اس زیادتی کی تلافی کی تھی۔ شہنشاہ اکبر نے ہندوﺅں کو جو رعایات دی تھیں، وہ شاہ جہاں نے واپس لے لیں۔ اکبر کے جاری کیے ہوئے ایسے سارے احکامات منسوخ کر دیئے۔ اورنگ زیب نے تخت پر بیٹھنے کے بعد پہلا کام یہ کیا کہ اکبر کے منسوخ احکامات کو بحال کردیا۔ ہندوﺅں سے جو رعایات چھن گئی تھیں، وہ انھیں واپس مل گئیں۔‘‘

    (جستجو کیا ہے؟ انتظار حسین، صفحہ۸۶۱)

    انتظار حسین کی زندگی میں کلکتے کی جو اہمیت ہے اس کو وہ بھول نہیں پاتے اور اس کی وجہ بھی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ مرزا غالب نے کلکتے کا ایک ناکام سفر کیا اور زندگی بھر اسے نہیں بھول پائے تو انتظار حسین کی کامیاب زندگی کا آغاز جس کلکتے سے ہوئی ہو اسے کیسے فراموش کرسکتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ جب بھی ہندوستان آتے تو کلکتہ آنے کی خواہش لے کر آتے اورانھیں اس میں اکثر کامیابی ملتی تو بعض سفر میں حسرت لیے لوٹ جاتے۔ تبھی تو وہ کہتے ہیں،

    وہاں سے جو زقند لگائی تو کلکتہ میں۔ مٹیا برج میں ایک ایک سے پوچھ رہا ہوں کہ یہاں نواب واجد علی شاہ آسودہ خاک ہیں۔ کچھ پتہ ہے کہ وہ امام باڑہ جہاں وہ آرام کر رہے ہیں، کس طرف ہے۔ کلکتہ سے اڑے اور

    (جستجو کیا ہے؟ انتظار حسین، صفحہ۱۸۱)

    انتظار حسین کی کتاب ’’جستجو کیا ہے؟‘‘ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کتاب کی شروعات سفر سے ہوتی ہے اور اس کا خاتمہ بھی سفر پر ہوتا ہے۔ انھوں نے اس کتاب کے 31 باب میں ہندوستان کے جن شہروں کے سفر کی روداد پیش کی ہے ان میں علیگڑھ، دلی، ڈبائی، کلکتہ، میرٹھ، بھوپال، اجین، بنارس، الہ آباد، لکھنﺅ، پٹنہ، اورنگ آباد، دولت آباد، خلد آباد، حیدرآباد، میسور، بنگلور، جودھپور، ہاپوڑ، ممبئی خصوصیت کے حامل ہیں۔ ان میں سے کم و بیش تمام شہروں پر خصوصی باب قائم کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ غیر ممالک میں امریکہ، برطانیہ، برلن اور بنگلہ دیش سے متعلق اسفار کی تفصیل پیش کی گئی ہے۔ اس کتاب میں انتظار حسین نے اپنے اور اپنے متعلقین کے بارے میں تفصیل بیان کرنے کا ذریعہ سفر کو بنایا ہے بلکہ اس میں سفرنامے کا عنصر غالب نظر آتا ہے۔ اس کے علاوہ اس میں ایک دو مقامات کو چھوڑ کر کہیں بھی تاریخ، ماہ و سال دکھائی نہیں دیتا۔ اس لیے مجھے اسے خود نوشت کہنے اور ماننے میں دشواری محسوس ہو رہی ہے۔ چونکہ یہ کتاب انتظار حسین کی زندگی میں اور خودنوشت سوانح کے طور پر شائع ہوئی ہے اس لیے میں اس کتاب کو سوانحی سفرنامہ کے طور پر ماننے کو تیار ہوں۔

    اس کتاب کے مطالعے سے ہم نے محسوس کیا کہ یہاں کم و بیش پچاس سال کا ذکر اس پر اثر انداز میں کیا گیا ہے کہ منظر آنکھوں کے سامنے پھر جاتا ہے۔ اس منظر میں کبھی کبھی انتظار حسین ایسا رنگ بھرتے ہیں کہ وہ مزید خوش نما معلوم ہونے لگتا ہے۔ انتظار حسین کے اسلوب کی خاصیت بھی یہی ہے کہ وہ تلخ سے تلخ بات زبان کے اس پیرائے شیرینی میں کہہ جاتے ہیں کہ وہ زہر قند معلوم ہونے لگتا ہے۔ اور ایسے زہر قند کا احساس اس سوانحی سفرنامے میں اکثر مقام پر ہوتا ہے۔

    انتظار حسین نے اس 296 صفحات پر مشتمل 31 باب کے سوانحی سفرنامے میں بغیر کسی سال اور تاریخ کے اتنا کچھ کہہ دیا ہے کہ تمام کا احاطہ کرنا یہاں ناممکنات میں سے ہے۔ اس لیے اگر مختصراً یہ کہا جائے کہ ہندستان اور موجودہ پاکستان کی تہذیب و ثقافت، یہاں کی ادبی بیٹھکیں، حلقہ ارباب ذوق کی محفلیں اور ان سے متعلق ادیب و شاعر، ملک و قوم کا حال، اپنوں سے بچھڑنے کا غم اور اپنوں کے درمیان اجنبی ہونے کا احساس، ان ممالک کے شاعرو ادیبوں کی صورت حال اور سڑکوں پر موٹروں کا جال، انسانوں کی گرتی ہوئی قیمت اور غیر انسانی حرکات و سکنات کی اہمیت، ایک ملک کا تین حصے میں تقسیم ہونا اور ان کے حالات، غیر ممالک کا ان پر کستا ہوا شکنجہ اور ان ممالک کی بے خبری، موجودہ ہندستان کے مذہبی، تہذیبی، ثقافتی اور ادبی مراکز اور اس کی صورت حال، اس سے متعلق عقائد اور انسان دوستی کے بارے میں جاننا ہو تو یہ ایک معاون کتاب ثابت ہو سکتی ہے۔ انھوں نے ان تمام شخصیات اور واقعات کا بیان کہیں تفصیل سے تو کہیں ضمناً کر دیا ہے جن کا تعلق ان کی ذات سے ہو یا نہ ہو ان دو ممالک سے ضرور ہے۔ ہاں کہیں کہیں اپنے وطن سے محبت کے ساتھ ساتھ وطن ثانی سے ان کی الفت امڈ پڑتی ہے اور اس موقعے پر وہ جذباتی ہو جاتے ہیں، اور یہ جذبات پھر جانبداری کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ گویا اگر یہ کہا جائے کہ انتظار حسین کی خود نوشت سوانحی سفرنامہ ’’جستجو کیا ہے؟ انتظار حسین کی کم لیکن ان سے متعلق اشخاص، مقام اور ممالک کی زیادہ پرتیں کھولتا ہے تو شاید بے جا نہ ہو۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے