Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اقبال شناسی کی روایت اور مجلہ راوی ۲۰۰۰ء-۲۰۲۰ء تک

علی حسن اویس

اقبال شناسی کی روایت اور مجلہ راوی ۲۰۰۰ء-۲۰۲۰ء تک

علی حسن اویس

MORE BYعلی حسن اویس

     

     

    راوی، ۱۹۰۶ء سے مسلسل شائع ہو نے والاگورنمنٹ کالج یونی ورسٹی لاہور کا علمی و ادبی مجلہ ہے۔ اس مجلے میں جہاں مختلف علمی و ادبی موضوعات پر مضامین لکھے جاتے رہے، وہاں علامہ اقبال کی شخصیت اور شاعری بھی موضوع بحث رہی۔ اس مضمون میں مجلہ راوی میں کے ۲۰۰۰ء سے ۲۰۲۰ء تک کے شماروں میں، علامہ اقبال کی شخصیت اور شاعری کے متعلق شائع ہونے والے مضامین کو موضوعِ بحث بنایا گیا ہے۔ 

    اگر محمد دین فوق کے اقبال پر لکھے گئے سوانحی خاکے کو، جو اپریل ۱۹۰۹ء میں کشمیری میگزین میں شائع ہوا، اقبال شناسی کی روایت کا نکتہ آغاز تسلیم کر لیا جائے تو یہ روایت صد سال سے زائد عرصہ پر محیط ہے۔ نواب ذوالفقار علی خان اور مولوی احمد دین کی کتب بالترتیب A voice from the East اور ”اقبال“ کو اقبالیات کے میدان میں اقبال پر لکھی گئی اولین کتب قرار دیا جائے تو پھر بھی یہ روایت سو سالہ عرصے پر پھیلی ہوئی ہے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ یہاں اردو میں اقبال شناسی کی روایت کو زیر بحث لانا مقصود نہیں بلکہ اس مضمون میں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور سے شائع ہونے والے مجلے ”راوی“ (۲۰۰۰ء-۲۰۲۰ء تک)میں علامہ اقبال پر لکھے گئے مضامین کو زیر بحث لانا ہے۔ گورنمنٹ کالج لاہور (موجودہ یونیورسٹی)کی جانب سے شروع سے ہی علامہ اقبال کو خراجِ تحسین پیش کرنے کی روایت رہی ہے۔ جیسا کہ مجلہ ”راوی“ ۱۹۰۸ء کے اکتوبر کے شمارے میں کالج کے پرنسپل رابسن نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ ڈاکٹر شیخ محمد اقبال شاندار کامیابیاں حاصل کر کے انگلستان سے واپس آ گئے ہیں، ان کی کتاب فلسفہ عجم نے فلسفہ کے مسلم الثبوت ماہرین سے خراجِ تحسین وصول کیا ہے۔“ 1 اقبال شناسی کے آغاز کے متعلق چند باتیں بیان کرنے کے بعد اب اپنے اصل موضوع کی طرف بڑھتے ہیں۔ 

    محمد علی خان کی ادارت میں شائع ہونے والے ۲۰۰۲ء کے مجلہ راوی میں علامہ اقبال پر تین مضامین شامل ہیں۔ پہلا مضمون محمد حنیف رامے کا بعنوان ”علامہ اقبال اور فارسی“، دوسرا مضمون ”اقبال اور رومانویت“ ڈاکٹر محمد خان اشرف نے لکھا ہے جبکہ تیسرا مضمون شفیق عجمی نے ”خطبات اقبال کی عصری معنویت“ کے عنوان سے لکھا ہے۔ 

    محمد حنیف رامے نے مضمون کے شروع میں اقبال کی شاعری کو دو ادوار میں تقسیم کیا ہے۔ پہلا دور ۱۸۹۵ء سے ۱۹۱۱ء تک اور دوسرے دور کو اقبال کی وفات تک پھیلاتے ہوئے، اس دور میں اقبال کی باقی تمام شاعری کو شامل کرتے ہیں۔ محمد حنیف رامے لکھتے ہیں کہ ”ذہنی و فکری ارتقا کے لحاظ سے اقبال کی زندگی کو دو ادوار میں رکھ کر ان کے تاریخ ساز کردار کو دیکھا جا سکتا ہے۔“ 2

    جب کہ شیخ عبد القادر نے بانگ درا کے دیباچے میں اقبال کے ذہنی و فکری ارتقا کے لحاظ سے ان کی شاعری کو تین ادوار میں تقسیم کیا ہے۔ 3 بانگِ درا میں شامل دیباچہ ۱۹۲۳ء میں لکھا گیا تھا لہذا ۱۹۲۳ء کے بعد کی شاعری کو اقبال شناسوں نے ان کی شاعری کا چوتھا دور قرار دیا ہے۔ طاہر فاروقی نے ”سیرت اقبال“ میں، عبدالسلام ندوی نے ”اقبال کامل“ میں اور ڈاکٹر عبد الغنی نے ”اقبال کا ذہنی و فکری ارتقا“ میں اقبال کی شاعری کو چار ادوار میں تقسیم کیا جبکہ سید عبداللہ نے ”طیف اقبال“ میں اقبال کی شاعری کو پانچ ادوار میں تقسیم کیا ہے۔ یوں دیکھا جائے تو حنیف رامے کی متعین کردہ ادوار بندی کسی اور اقبال شناس کے ہاں نظر نہیں آتی۔ 

    محمد حنیف رامے کا مضمون تعارفی مضمون ہے اس میں یہ نکتہ اٹھایا گیا ہے کہ اقبال کے ہاں فارسی کلام ہی زیادہ کیوں ہے۔ محمد حنیف رامے نے اس سلسلے میں اقبال کا ایک بیان شامل کیا ہے کہ اقبال نے ایک موقع پر یوں کہا ”مجھ پر شعر نازل ہی فارسی میں ہوتے ہیں۔“ 4

    دوسرا مضمون ڈاکٹر محمد خان اشرف کا بعنوان ”اقبال اور رومانویت“ ہے۔ مختصر مضمون جو کہ بمشکل تین صفحات پر مشتمل ہے اختصار کے باوجود اقبال کے ہاں رومانویت پر بحث کرنے کے بجائے، زیادہ توجہ رومانویت کے آغاز ارتقا پر مرکوز کی گئی ہے۔ اس سبب مضمون کی معنویت کمزور پڑ گئی ہے۔ اقبال کے ہاں رومانویت کی مثال کے لیے صرف نظم ہمالہ کا حوالہ دیا گیا ہے۔ ڈاکٹر محمد خان اشرف لکھتے ہیں کہ ”ہمالہ ایک نئے انداز کی نظم تھی جس میں ہمیں پہلی دفعہ فطرت کا ایک نیا تصور نظر آتا ہے۔۔۔ اس نظم کی زبان بھی روایتی زبان سے مختلف تھی جس میں تخیل کو آزادی اظہار تھی اور روایتی خیالات کی بجائے نئے خیالات اور نئے تصورات پیش کیے گئے تھے۔ یہ تصورات ایسے تھے جن میں فطرت کے قرب کی خواہش ماضی کی بازیافت کی خواہش اور انسان و فطرت کے قرب کا ذکر ملتا ہے۔ یہ نظم دراصل ایک انقلاب کا آغاز تھی جس نے اردو ادب کی کایا پلٹ دی اور اردو ادب رومانویت کی دلکش اور دلفریب وادی میں داخل ہو گیا۔“ 5

    اس کے علاؤہ اقبال کی شاعری سے کوئی اور نظم یا شعر بطور مثال شامل نہیں کیا گیا مگر جب ڈاکٹر محمد خان اشرف انسان کے تصور اور اس کے کائنات میں مقام پر بات کرتے ہیں تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ ان کے مطابق کائنات ایک نامکمل وجود ہے جو ہر لمحہ اور ہر لحظہ متحرک اور تغیر کے عمل سے گزر رہا ہے تو ذہن فوراً اقبال کے اس شعر کی طرف منعطف ہوتا ہے کہ، 

    یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
    کہ آ رہی ہے دمادم صدائے کن فیکوں 6

    المختصر اس مضمون میں اقبال اور رومانویت پر تفصیلی بحث کے بجائے اقبال کی شاعری میں رومانویت کی طرف، محض چند اشارے کیے گئے ہیں لیکن یہ اشارے ”اقبال اور رومانویت“ کے موضوع پر کام کرنے والوں کو ایک بنیاد فراہم کرتے ہیں۔ 

    تیسرا مضمون ”خطبات اقبال کی عصری اہمیت“ شفیق عجمی نے لکھا ہے۔ مضمون کے عنوان سے معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ دور میں علامہ اقبال کے خطبات کی اہمیت و افادیت پر بحث کی جائے گی مگر مضمون کی نوعیت قدرے مختلف ہے۔ شفیق عجمی نے مضمون کے آغاز میں علامہ کے خطبات کا پس منظر بیان کیا ہے اور یہ بتایا ہے کہ ”اقبال نے یہ خطبات مسلم ایسوسی ایشن مدراس کی دعوت پر جنوری ۱۹۲۹ء میں ارشاد فرمائے۔“ 7 پھر تمام خطبات کے عنوانات سے متعارف کروایا ہے اور ان آراء پر بات کی ہے جو خطبات کے منظر عام پر آنے کے بعد مختلف حلقوں کی طرف سے سامنے آئیں۔ شفیق عجمی لکھتے ہیں کہ خطبات اقبال پر سید سلیمان ندوی نے یوں تبصرہ کیا کہ ”اقبال اگر خطبات نہ لکھتے تو زیادہ بہتر ہوتا۔“ 8

    مضمون میں خطبات اقبال کے مختلف تراجم پر تفصیلی بحث کی گئی ہے۔ سید نذیر نیازی نے خطبات اقبال کا ترجمہ بعنوان ”تشکیل جدید الہیات اسلامیہ“ سے کیا اس کے متعلق شفیق عجمی یوں لکھتے ہیں کہ ”اس ترجمہ کی خاص بات تو یہ ہے کہ اس کو خطبات کے اردو تراجم میں نہ صرف اولیت کا درجہ حاصل ہے بلکہ اس پر کام کا آغاز ۱۹۳۰ء میں علامہ کی رہنمائی میں ہی ہو گیا تھا۔“ 9 اس ترجمہ کے متعلق یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اس کی زبان دقیق اور دشوار ہے۔ شفیق عجمی نے اس اعتراض کا جواب مضمون میں یوں دیا ہے کہ ”ان اعتراضات کا اگر گہری نظر سے جائزہ لیا جائے تو ان کی سطحیت نمایاں ہو جاتی ہے۔ کیونکہ خطبات اقبال کی زبان و معطلمات براہ راست اس کے موضوعات و مباحث کا ناگزیر نتیجہ ہے۔“ 10

    دوسرا ترجمہ جس پر بات کی گئی ہے وہ شہزاد احمد کا بعنوان”اسلامی فکر کی نئی تشکیل“ ہے۔ یہ خطبات کا سلیس اور رواں ترجمہ ہے۔ اس ترجمے کے متعلق شفیق عجمی یہ بتاتے ہیں کہ اس ترجمے اور سید نذیر نیازی کے ترجمے میں اختلاف متن موجود ہے جو کہ اچنبھے کی بات ہے۔ جبکہ اس میں نئی چیز یہ شامل ہے کہ اردو اصطلاحات کے سامنے ان کے انگریزی مترادفات بھی درج کیے گئے ہیں۔ 

    شریف کنجاہی کے ترجمے کے متعلق شفیق عجمی لکھتے ہیں کہ ”شہزاد احمد“ سے پہلے ایک اردو ترجمہ پروفیسر شریف کنجاہی بھی ۱۹۹۲ء میں ”مذہبی افکار کی تعمیر نو“ کے عنوان سے کر چکے ہیں۔“ 11 اس کے ساتھ ساتھ مختلف نقادوں مثلاً سید عبداللہ اور مظفر حسین وغیرہ نے خطبات اقبال پر جو کام کیا اس کی تفصیلات بہم پہنچائی ہیں۔ مضمون کے آخر میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ موجودہ نسل کو اسلامی تشکیل نو کی اہمیت سمجھانے کے لیے خطبات اقبال کو نصاب کا حصہ بنایا جانا چائیے۔ 

    اس تفصیل کے بعد ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ یہ مضمون خطبات اقبال کی عصری اہمیت کو اجاگر کرنے کے بجائے صرف تاریخی حقائق کا مجموعہ ہے۔ شفیق عجمی نے اس مضمون میں خطبات کی اہمیت و افادیت پر بحث کرنے کے بجائے محقق کا کردار ادا کرتے ہوئے صرف وہ مواد بہم پہنچایا ہے جو اقبال پر تاریخی حوالوں سے تحقیق کرنے والوں کے لیے اہمیت کا حامل ہو سکتا ہے۔ 

    عبد السمیع کی ادارت میں شائع ہونے والے مجلہ راوی ۲۰۰۳ء کے شمارے میں علامہ اقبال کے حوالے سے تین مضامین شائع ہوئے جن میں پہلا ظہیر صدیقی کا بعنوان ”اقبال اور دانشگاہ گورنمنٹ کالج لاہور“، دوسرا ڈاکٹر لیاقت علی خان کا بعنوان ”علامہ اقبال کے معاشی افکار“ جبکہ تیسرا مضمون شفیق عجمی کا بعنوان ”اقبال اور فرزند اقبال (”اپنا گریباں چاک“ کے تناظر میں)“ شامل ہیں۔ 

    ظہیر صدیقی نے مضمون ”اقبال اور دانشگاہ گورنمنٹ کالج لاہور“ میں علامہ اقبال کے گورنمنٹ کالج میں بطور طالب علم داخل ہونے سے پروفیسر تک کے سفر کا احوال لکھا ہے مگر یوں کہ ساتھ ساتھ گورنمنٹ کالج کی تاریخ بھی بیان کرتے جاتے ہیں اور علمی و ادبی سرگرمیوں کا تذکرہ بھی موجود ہے۔ اس کے علاؤہ کوارڈررینگل ہاسٹل (موجودہ اقبال ہاسٹل) میں علامہ اقبال کے قیام اور اس ہاسٹل کی فضا، طرزِ تعمیر، نظم و ضبط اور طلبا کے رویوں کو بھی زیر بحث لایا گیا ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ ۱۹۹۵ء میں جب علامہ اقبال نے گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لیا اس وقت گورنمنٹ کالج آج کے گورنمنٹ کالج سے بہت مختلف تھا۔ اس کی وجہ وہ یہ بتاتے ہیں کہ کالج کے اردگرد بے آب و گیاہ میدان تھے اور وہ بیضوی میدان جسے ovel ground کہا جاتا ہے بھی موجود نہ تھا۔ ایک اقتباس دیکھئے کہ کس طرح ظہیر صدیقی نے علامہ اقبال کے گورنمنٹ لاہور میں داخلے کا ذکر کرتے ہوئے، گورنمنٹ کالج کے ابتدائی حالات کا نقشہ کھینچا ہے۔ 

    ”جس زمانے میں اقبال گورنمنٹ کالج میں داخل ہوئے اس وقت ایف اے کے طلبا سے آٹھ روپے , بی اے کے طلبا سے ۱۰ روپے اور ایم اے کے طلبا سے ۱۲ روپے فیس لی جاتی تھی۔“ 12

    علامہ اقبال کے تعلیمی سفر کا تذکرہ کرتے ہوئے انھوں نے نا صرف اقبال کے ان اساتذہ کا ذکر کیا ہے جن سے وہ نصاب کی کتب پڑھا کرتے تھے بلکہ اقبال کے پسندیدہ اساتذہ سے اقبال کے تعلق پر بھی گفتگو کی ہے۔ ساتھ ساتھ اقبال کی تعلیمی کارکردگی پر بھی بات کی گئی ہے۔ وہ اقبال کے تعلیمی سفر کے متعلق یوں لکھتے ہیں کہ ”اقبال نے ۱۸۹۷ء میں بی اے کا امتحان دیا۔۔۔ اقبال کو بی اے میں دو تمغے ملے۔ عربی میں سب سے زیادہ نمبر حاصل کرنے کی وجہ سے انھیں جمال الدین میڈل اور انگریزی میں بھی سب سے زیادہ نمبر حاصل کرنے کی بنا پر انھیں خلیفہ محمد حسین ایچیسن میڈل ملا۔ اقبال ۱۸۹۸ء میں قانون کے ابتدائی امتحان پی ای ایل میں شریک ہوئے لیکن کامیاب نہ ہو سکے، ۱۸۹۹ء میں ایم اے فلسفہ کا امتحان پاس کیا، وہ ایم اے فلسفہ کے واحد طالب علم تھے اس لیے پہلے انعام کے وہی مستحق قرار پائے اور انھیں خان بہادر نانک بخش میڈل ملا۔“ 13

    اس مضمون میں علامہ اقبال کے بطور استاد گورنمنٹ کالج سے وابستہ ہونے کے حوالے سے بھی تحقیقی نوعیت کی معلومات موجود ہیں جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ اقبال کب کب گورنمنٹ کالج لاہور میں تدریسی فرائض انجام دیتے رہے۔ اقبال کے ہاسٹل کے زمانے کی محفلوں کے حوالے سے اس مضمون میں نیرنگ کا بیان شامل ہے جس سے اقبال کی شخصیت کا ایک پہلو کھل کر سامنے آتا ہے کہ وہ زمانہ طالب علمی میں کیسی طبیعت کے حامل تھے۔ بیان دیکھئے کہ ”اقبال کی طبیعت میں اسی وقت سے ایک گونہ قطبیت تھی اور وہ ”قطب از جانمی جنبد“ کا مصداق تھے۔ میں اور کالج کے بورڈنگ ہاؤس میں جو جو ان کے دوست تھے سب ان کے کمرے میں ان کے پاس جا بیٹھتے تھے۔ وہ وہیں میر فرش بنے بیٹھے رہتے تھے۔ حقہ جبھی سے ان کا ہمدم و ہم نفس تھا، حقہ پیتے رہتے تھے اور ہر قسم کی گپ اڑاتے رہتے تھے۔ طبیعت میں ظرافت بہت تھی، پھبتی زبردست کستے تھے، ادبی مباحثے بھی ہوتے تھے، شعر کہے بھی جاتے تھے اور پڑھے بھی جاتے تھے۔“ 14

    مضمون کے آخر میں راوی کے مختلف شماروں میں علامہ اقبال پر لکھے گئے مضامین، نظموں اور فرد اشعار کا تذکرہ کیا گیا ہے اور اقبال شناسی کی روایت میں مجلہ راوی کا حصہ، پر بحث کی گئی ہے۔ گورنمنٹ کالج کی مجلسِ اردو کلب کو اقبال سے موسوم کرنے کا ذکر ظہیر صدیقی نے یوں کیا ہے کہ ”۲۰ اپریل ۱۹۳۸ء کو کالج کے پرنسپل ایچ بی ڈینکلف نے مجلس اردو کلب کا نام مجلسِ اقبال رکھا اور میاں امیر الدین صاحب نے مجلسِ اقبال میں سب سے اچھا مضمون پڑھنے والے کو ہر سال چاندی کا تمغہ دینے کی پیشکش کی۔“ 15

    مضمون کے اختتام میں گورنمنٹ کالج لاہور کے اساتذہ اور طلباء کی اقبال سے عقیدت کو سامنے لایا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ گورنمنٹ کالج کے اس عظیم سپوت پر گورنمنٹ کالج میں کتنا تحقیقی کام کیا جا چکا ہے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ کالج اور اقبال کے رشتے کو یوں بیان کرتے ہوئے مضمون کو ختم کیا گیا ہے کہ ”اقبال کی عظیم شخصیت کی تشکیل میں گورنمنٹ کالج کا بہت بڑا حصہ ہے اور اقبال کی عظیم شخصیت کے ذکر سے گورنمنٹ کالج کو ہمیشہ عظمتیں ملتی رہیں گی اور اس ادارے کا نام روشن ہوتا رہے گا۔“ 16

    مجلہ راوی کے ۲۰۰۳ء کے شمارے میں اقبال پر دوسرا مضمون ڈاکٹر لیاقت علی خان کا بعنوان ”علامہ اقبال کے معاشی افکار“ شامل ہے۔ یہ مختصر مضمون بیک وقت اقبال کی نثری کتاب علم الاقتصاد اور ان کی شاعری کا احاطہ کرتا ہے۔ علم الاقتصاد کے حوالے سے بنیادی معلومات، یعنی جدید معاشیات پر اردو زبان میں یہ پہلی کتاب ہے، کے حوالے سے بہم پہنچانے کے بعد اس کتاب کے مقدمے سے اقتباسات شامل کیے گئے ہیں اور علامہ اقبال کے ہاں علم الاقتصاد کی اہمیت کو علامہ اقبال کے اپنے بیانات کے ذریعے سے پیش کیا گیا ہے۔ علامہ اقبال لکھتے ہیں کہ ”علم الاقتصاد انسانی زندگی کے معمولی کاروبار پر بحث کرتا ہے اور اس کا کام اس امر کی تحقیق کرنا ہے کہ لوگ اپنی آمدنی کس طرح حاصل کرتے ہیں اور اس کا استعمال کس طرح کرتے ہیں۔ پس ایک اعتبار سے تو اس کا موضوع دولت ہے اور دوسرے اعتبار سے یہ اس وسیع علم کی ایک شاخ ہے جس کا موضوع خود انسان ہے۔“ 17

    علم الاقتصاد کی اہمیت بیان کرنے کے ساتھ ہی اقبال کی کتاب علم الاقتصاد کا مختصر تعارف پیش کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر لیاقت علی خان نے اقبال کے ہاں تصور ضبط تولید اور اس کے معاشیات پر اثرات پر بھی گفتگو کی ہے۔ اقبال کے ایک خطبے کا حوالہ دیتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ ”علامہ اقبال نے خطبہ الٰہ آباد ۱۹۳۰ء میں پہلی بار مسلمانوں کی اقتصادی بدحالی اور مقروضیت کا کھل کر اظہار کیا۔“ 18

    علامہ اقبال کے معاشی افکار علم الاقتصاد کے تناظر میں بیان کرنے کے بعد اقبال کے کلام میں معاشی افکار کو موضوع بحث بنایا گیا ہے۔ اس ضمن میں ڈاکٹر لیاقت علی خان نے علامہ اقبال کی نظموں خضر راہ، لینن خدا کے حضور میں، سے اشعار پیش کیے ہیں اور یہ نکتہ اٹھایا ہے کہ اقبال سرمایہ دار اور مزدور کی جنگ میں مزدور کے حامی نظر آتے ہیں۔ 

    اٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو 
    کاخ امرا کے در و دیوار ہلا دو

    جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی 
    اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو 19

    مضمون کے آخر میں علامہ اقبال کے قائد اعظم کے نام خط سے ایک اقتباس پیش کیا گیا ہے جس میں علامہ اقبال نے قائد اعظم سے، معاشیات اور مسلم قوم کے مسائل پر بات کی ہے۔ اقبال قائد اعظم کو لکھتے ہیں کہ ”سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کے افلاس اور ناداری کے مسلے کا حل کیا نکالا جائے۔ مسلم لیگ کے مستقبل کا انحصار تمام تر اسی پر ہے کہ وہ اس مسلے کا کیا حل پیش کرتی ہے۔“ 20

    یہ مضمون بمشکل تین صفحات پر مبنی ہے مگر اس کی اہمیت اور خاصیت یہ ہے کہ اس میں نا صرف اقبال کے معاشی افکار کو ان کی کتاب کے ذریعے سے پیش کیا گیا ہے بلکہ ان کے کلام اور خطوط کو بھی بطور مثال پیش کرتے ہوئے یہ نتیجہ نکالا گیا ہے کہ اقبال کے ہاں معاشی افکار بڑی معنویت کے حامل ہیں اور اقبال معاشی ترقی کو براہ راست انسانی و قومی ترقی سے تعبیر کرتے ہیں۔ 

    راوی کے ۲۰۰۳ء کے شمارے میں ایک اہم مضمون شفیق عجمی کا بعنوان ”اقبال اور فرزند اقبال (اپنا گریباں چاک، کی روشنی میں)“ ہے۔ مضمون کی آغاز میں بال جبریل کے اس شعر پر روشنی ڈالی گئی ہے جس سے ڈاکٹر جاوید اقبال کی خود نوشت ”اپنا گریباں چاک“ کا عنوان چنا گیا ہے۔ اور بیان کیا گیا ہے کہ مختلف شارحین، اس شعر کی تشریح کرتے وقت محض شاعرانہ اسلوب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آگے بڑھ جاتے ہیں۔ شعر دیکھئے کہ، 

    فارغ تو نہ بیٹھے گا محشر میں جنوں میرا
    یا اپنا گریباں چاک، یا دامنِ یزداں چاک 21

    مگر ڈاکٹر جاوید اقبال نے اپنی خود نوشت کا عنوان اس شعر سے اٹھاتے ہوئے شوخی و بیباکی کا اظہار کیا ہے۔ 

    مضمون میں اس المیہ پر تفصیلاً روشنی ڈالی گئی ہے کہ اقبال کے فرزند ہونے کے سبب ڈاکٹر جاوید اقبال کا اپنا مقام فراموش کر دیا گیا اور انہیں شو پیس بناتے ہوئے ہر کانفرنس میں سجایا جانے لگا۔ اقتباس دیکھئے کہ، 

    ”اقبال کے نام کی برکات اور ثمرات بے بہا ہیں۔ فرزندِ اقبال کی حیثیت سے قومی اور بین الاقوامی سطح پر خصوصی احترام بھی نصیب ہوا لیکن اس حیثیت کا اتنا پرچار کیا گیا کہ انکی انفرادیت اور پہچان آنکھوں سے اوجھل رہی یا اس کو تسلیم کرنے میں ہچکچاہٹ سے کام لیا گیا۔ ڈاکٹر صاحب کا یہ احتجاج بے جا نہیں کہ انھیں پاکستانی حکمرانوں نے اقبال کے حوالے سے بیرونی شخصیات کے دوروں کے موقعوں پر ”میوزیم پیس“ کی طرح استعمال کیا۔“ 22

    اس بحث کے بعد ڈاکٹر جاوید اقبال بطور اقبال شناس موضوع گفتگو ہے۔ اس حوالے سے ان کے مقالات کے مجموعے ”مئے لالہ فام“ اور اقبال کی سوانح عمری ”زندہ رود“ پر بات کی گئی ہے اور ساتھ ہی جاوید اقبال کے علمی افکار پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ شفیق عجمی نے، ڈاکٹر جاوید اقبال کی سوانح عمری ”اپنا گریباں چاک“ میں بیان کردہ افکار پر اقبال کے اثرات کے حوالے سے یوں لکھا ہے کہ، 

    ”فرزندِ اقبال کی اس سوانح عمری میں ایسے مقامات بھی آتے ہیں جہاں افکارِ اقبال کی گونج واضح طور پر سنائی دیتی ہے بالخصوص حیات بعد الموت کے متعلق جہاں ڈاکٹر صاحب نے لکھا ہے کہ موت کے بعد زندگی کی توقع رکھنا میرا حق نہیں، میں صرف اس کا امیدوار ہوں۔ یہ نعمت خدا کی طرف سے انعام ہے جسے چاہے دے جسے چاہے نہ دے۔“ 23

    مضمون کے آخر میں شفیق عجمی نے اس سوانح عمری کی خصوصیات پر روشنی ڈالتے ہوئے اس کی انفرادیت کی طرف اہم اشارے کیے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ ”اردو کی کچھ دوسری سوانح عمریوں کے برعکس ڈاکٹر صاحب نے غیر ضروری واقعات و تفصیلات کے طومار سے اس سوانح حیات کو “ طلسم ہوشربا ”بنانے سے گریز کیا ہے۔ اختصار کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر صاحب کا اسلوب صاف، سیدھا اور دلچسپ ہے۔“ 24

    اگر مجموعی طور پر اس مضمون کو دیکھا جائے تو اس میں نہ صرف ڈاکٹر جاوید اقبال کی سوانح عمری ”اپنا گریباں چاک“ کا تعارف و جائزہ پیش کیا گیا ہے بلکہ اس کتاب کے مقام و مرتبہ اور انفرادیت کو بھی بیان کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر جاوید اقبال کے زندگی کے المیوں کو زیر بحث لانے کے ساتھ ساتھ ان کے علمی افکار پر بھی گفتگو کی گئی ہے۔ کہیں ان افکار کو سراہا گیا ہے تو کہیں اختلاف کا رویہ بھی موجود ہے۔ البتہ مضمون میں کہیں کہیں ایسی عمومی آرا بھی موجود ہیں جو کسی بھی نثر نگار کے لیے صحیح ثابت ہو سکتی ہیں۔ مثلاً مضمون کے آخر میں ڈاکٹر جاوید اقبال کے اسلوب کے متعلق شفیق عجمی کی رائے کسی انفرادی گوشے پر روشنی نہیں ڈالتی۔ مختصراً یہ مضمون ڈاکٹر جاوید اقبال کی سوانح عمری کی معنویت کے کئی در وا کرتے ہوئے اس کو سمجھنے میں کلیدی حیثیت کا حامل ہے۔ 

    مجلہ راوی کے ۲۰۰۶ء کے شمارے میں اقبال پر دو مضامین ہیں۔ پہلا شفیق عجمی کا بعنوان ”اقبال اور عصری مسائل“ جبکہ دوسرا ناصر حفیظ کا ”مولانا رومی اقبال کی نظر میں “ کے عنوان سے ہے۔ 

    شفیق عجمی کا مضمون ”اقبال اور عصری مسائل“ دراصل ڈاکٹر کنیز فاطمہ یوسف کی کتاب ”اقبال اور عصری مسائل“ کا تعارف اور تنقیدی جائزہ ہے جو اس کتاب کی خوبیوں کے ساتھ ساتھ خامیوں کا بھی احاطہ کرتا ہے۔ مضمون کے آغاز میں بخاری آڈیٹوریم جی سی یونیورسٹی لاہور میں منعقدہ ایک تقریب کا تذکرہ ہے جو مذکورہ کتاب کی تعارفی تنقید کے لیے منعقد کی گئی۔ یہی تقریب اس مضمون کے لکھے جانے کا محرک ہے۔ 

    اس کتاب پر تبصرہ کیے جانے سے قبل شفیق عجمی نے ڈاکٹر صاحبہ کے مقالے ”اقبال کے انگریزی خطبات“ کو موضوع بحث بنایا ہے اور یہ موقف اختیار کیا ہے کہ اس مقالے میں ڈاکٹر صاحبہ نے نام لیے بغیر ان خطبات کے پہلے مترجم پر بے جا الزامات عائد کیے ہیں مگر ثبوت فراہم نہیں کیے گئے جس سبب مقالہ تعصب پر مبنی تحریر بن کر رہ گیا ہے۔ چاہے مقالہ کتنا ہی مختصر کیوں نہ ہو اگر اس میں کسی اختلاف پر بات کی گئی ہے تو اس کا ثبوت فراہم کرنا اور مثال پیش کرنا مقالہ نگار کے اپنے دعویٰ کی صداقت کے لیے ضروری ہے۔ خطبات کے ترجمہ میں اختلاف متن کے حوالے سے ڈاکٹر کنیز فاطمہ یوسف کے اعتراضات کے متعلق شفیق عجمی نے یوں لکھا ہے کہ ، 

    ”ڈاکٹر صاحبہ کے ان اعتراضات، بلکہ صحیح لفظوں میں الزامات پر قاری چونکتا ہے اور شاید ڈاکٹر صاحبہ یہی چاہتی بھی ہیں لیکن وہ اختلاف متن کی ایک مثال بھی پیش کیے بغیر مضمون کے خاتمے کا اعلان فرما دیتی ہیں۔“ 25

    اس کے بعد مضمون میں ڈاکٹر صاحبہ کی زندگی کے نشیب و فراز اور لیبیا سازش کیس پر بحث کی گئی ہے اور آخر میں تفصیلی گفتگو مزکورہ کتاب ”اقبال اور عصری مسائل“ کے گرد گردش کرتی ہے۔ 

    اس کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے شفیق عجمی یہ بتاتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحبہ نے اقبال مخالف لوگوں کو چھ گروہوں میں تقسیم کیا ہے مگر اپنی بحث کا دارومدار صرف ایک گروہ تک محدود رکھا ہے۔ اقتباس دیکھئے کہ، 

    ”ڈاکٹر کنیز فاطمہ نے فرزند اقبال کے حوالے سے جن چھ قسم کے اقبال مخالف گروہوں کا ذکر کیا ہے ان میں فرقوں کی طرح اضافہ ہو چکا ہو گا لیکن ڈاکٹر صاحبہ نے اپنی علمی جنگ کو صرف ایک گروہ یعنی علماء کی راسخ العقیدیت تک محدود رکھنے کا اعلان کیا ہے۔“ 26

    یہ کتاب بارہ ابواب پر مشتمل ہے جس کا طویل ترین اور اہم باب عصری مسائل سے متعلق ہے جس میں مختلف قسم کے حکومتی، عالمی اور تہذیبی مسائل پر تفصیلی گفتگو کی گئی ہے۔ 

    حنیف رامے اس کتاب کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں کہ، 

    ”ڈاکٹر یوسف صاحبہ کی یہ کتاب اقبال سے زیادہ پاکستان کے بارے میں ہے۔“ 27

    شفیق عجمی نے ڈاکٹر کنیز صاحبہ کے اس بیان سے اختلاف کیا ہے کہ انھوں نے صرف اس لیے مذکورہ کتاب اردو میں تحریر کی کیونکہ انگریزی پڑھنے والے عموماً اقبال سے لگاؤ نہیں رکھتے۔ شفیق عجمی اس بات کا جواب یوں دیتے ہیں کہ ، 

    ”عالمی سطح کی دوسری زبانوں کی طرح انگریزی زبان میں بھی افکار اقبال پر بہت کام ہوا ہے جو حیات و افکار اقبال کے ساتھ مصنفین کے لگاؤ کی دلیل ہے۔“ 28 جبکہ انھوں نے ڈاکٹر صاحبہ کی اس کوشش کو سراہا ہے کہ وہ اردو زبان میں تحقیقی کام کرتے ہوئے اسے باثروت بنانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ 

    اس مضمون میں مزکورہ کتاب میں موجود املائی اغلاط پر کھل کر بحث کی گئی ہے اور ان مقامات کی نشاہدہی بھی کی گئی ہے جہاں پروف کی درستی کے مسائل ہیں۔ کتاب میں استعمال کیے گئے مخففات کے حوالے سے شفیق عجمی نے یوں رائے دی ہے کہ ”کتاب کے ہر باب کا آغاز اقبال کے اردو یا فارسی اشعار سے ہوتا ہے جن کے ساتھ حوالے کے طور پر ”ک، ا“ اور ”ک، ف“ یعنی ”کلیاتِ اردو“ اور ”کلیاتِ فارسی“ کے مخففات درج کر دیے گئے ہیں۔ البتہ ان کے بجائے اگر شعری مجموعوں کے مخففات درج کر دیے جاتے تو اس میں زیادہ سہولت کا امکان تھا۔“ 29

    مجموعی طور پر اس مضمون کو یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ شفیق عجمی نے توصیفی تنقید کا رویہ اختیار کرنے کے بجائے، تعمیری تنقید کرتے ہوئے کتاب کی خصوصیات اور انفرادیت کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ کتاب کے کمزور حصوں کی بھی نشاہدہی کی ہے اور ان اغلاط کی طرف بھی اشارے کیے ہیں جن کو درست کیا جانا چاہیے۔ اس سارے عمل کے دوران وہ نہ ہی کہیں تعصب کا شکار نظر آتے ہیں اور نہ ہی مداح کا روپ اختیار کرتے ہیں اور یہی اس مضمون کی خاصیت ہے۔ 

    دوسرا مضمون ناصر حفیظ کا بعنوان ”مولانا رومی اقبال کی نظر“ میں ہے جو کہ محض ایک صفحے پر مبنی اور چند اشعار کا مجموعہ ہے۔ اس مضمون میں ناصر حفیظ نے یہ موقف پیش کیا ہے کہ اقبال مولانا جلال الدین رومی کو اپنا روحانی مرشد تسلیم کرتے تھے اور ان کو اپنی زندگی میں رہنما کا مقام دیتے تھے۔ 

    پیر رومی مرشد و روشن ضمیر
    کاروان عشق و مستی را امیر 30

    (ترجمہ: پیر رومی ایک روشن ضمیر مرشد ہیں اور قافلہء عشق و مستی کے سپہ سالار ہے۔)

    جس طرح مولانا روم نے تیرہویں صدی عیسوی میں یونانی فلسفے سے پیدا ہونے والی مفروضہ روایات کو اسلام سے باہر پھینکا اور تصوف کی حدود و قیود مقرر کرتے ہوئے، اس میں پیدا ہونے والی افراط و تفریط کو ختم کیا، یہی کردار اقبال نے بیسویں صدی میں نبھایا۔ آخر میں مولانا رومی کے متعلق علامہ اقبال کے ایک بیان کو شامل کرتے ہوئے مضمون کا اختتام کیا گیا ہے۔ علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ، 

    ”دراصل عصرِ حاضر کو ایک رومی کی ضرورت ہے جو دلوں کو زندگی، امید اور ذوق و شوق کے جذبات سے معمور کرے۔“ 31

    یہ مضمون کسی نئی جہت کو سامنے نہیں لاتا بلکہ صرف اقبال کے زبان زدِ عام بیانات کو پیش کرنے کی ایک سعی ہے۔ 

    مجلہ راوی کے ۲۰۰۷ء کے شمارے میں اقبال پر صرف ایک مضمون بعنوان ”اقبال، مذہب اور مصوری“ سنبل نسیم کے قلم سے تراشا گیا ہے۔ چار صفحات پر مبنی یہ مضمون بیک وقت فنونِ لطیفہ کی روایت، اسلام اور فنونِ لطیفہ کے باہمی رشتے اور اقبال کے ہاں مصوری کے متعلق نظریات کا احاطہ کرتا ہے۔ مضمون کے آغاز میں انسان کو پیدائشی فنکار قرار دیتے ہوئے قدیم یونانی تہذیب، مصری تہذیب، مغربی ایشیا کی قدیم ترین تہذیب Mesopotamia، روم، اجنتا اور ایلورا کی تہذیب، بدھ، جین، ہندو دھرم اور اسلام میں فنونِ لطیفہ اور اس کے متعلق نظریات کو بیان کیا گیا ہے۔ اور بتایا گیا ہے کہ ہر دور میں فنونِ لطیفہ کسی نہ کسی صورت چاہے وہ سنگ تراشی ہو یا شاعری، مصوری ہو یا خطاطی، فنِ تعمیر ہو یا موسیقی نہ صرف زندہ رہے بلکہ ہر تہذیب میں خاص فنون کو معراج بھی حاصل ہوا کرتی تھی۔ مثلاً مصری تہذیب میں فن تعمیر اور ہندوستان میں سنگ تراشی کو عروج حاصل ہوا۔ 

    اسلام میں فنونِ لطیفہ کے متعلق تصورات کے حوالے سے سنبل نسیم لکھتی ہیں کہ ”جہاں تک اسلام کا تعلق ہے تو زاہدان خشک اور فقہائے سخت نے اسلام کے عقائد کو کچھ اس انداز سے پیش کیا کہ لوگوں کے لیے اعتراض کی گنجائش پیدا ہو گئی کہ اسلام میں تمام فنونِ لطیفہ حرام ہے۔“ 32

    یہاں یہ نکتہ بیان کرنا لازم ہے کہ سنبل نسیم نے کہا ہے کہ اسلام میں سنگ تراشی اور مصوری اس وجہ سے خاص اہمیت حاصل نہ کر سکی کیونکہ دورِ جہالت کے مشرکین کے بت یونانیوں کے بتوں کی طرح حسین و جمیل نہ تھے بلکہ وہ مشرکانہ عقائد کا مظہر تھے۔ یعنی یہاں فنونِ لطیفہ اور جمالیات کے باہمی رشتوں پر بات ہوئی ہے اور یہ نکتہ اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ اگر فنونِ لطیفہ میں جمالیاتی پن موجود نہ ہو گا تو اس کا ایک خاص تہذیب میں توجہ حاصل کرنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ 

    اس کے بعد علامہ اقبال کے ہاں مصوری کے متعلق نظریات کو ان کی شاعری کے ذریعے سے اجاگر کیا گیا ہے۔ بقول سنبل نسیم ”اقبال کا زاویہ نگاہ مذہبی ہے اس لیے وہ ضروری سمجھتے ہیں کہ وہ دین اور فنونِ لطیفہ کے باہمی ربط کو واضح کریں۔“ 33

    ضربِ کلیم میں ایک جگہ اقبال یوں لکھتے ہیں کہ

    سرود و شعر و سیاست کتاب و دین و ہنر
    گہر ہیں ان کی گرہ میں تمام یک دانہ

    اگر خودی کی حفاظت کریں تو عین حیات
    نہ کر سکیں تو سراپا فسون و افسانہ 34

    یعنی اقبال کا مطمح نظر یہ ہے کہ فنونِ لطیفہ اگر انسانی داخلی صلاحیتوں کو نکھارتے ہوئے اس کو خود شناسی سے خدا شناسی تک لے جائیں تو وہ اصل زندگی ہیں، بصورت دیگر وہ انسان کو تباہی کی طرف لے جائیں گے۔ 

    اسی طرح کچھ اور اشعار کے ذریعے علامہ کے نظریات کو سامنے لایا گیا ہے۔ آخر میں مضمون کو یوں ایک جملہ میں سمیٹنا گیا ہے کہ ”کسی بھی قوم کی زوال پذیری کی علامت آرٹ کی زوال پذیری کے ذریعے ظاہر ہوتی ہے۔ ایسے زوال پذیر اور غیر صحت مند آرٹ سے، جو موت کی طرف رہنمائی کرے، علامہ سخت متنفر ہیں۔“ 35

    مجموعی طور پر دیکھا جائے تو مضمون نہایت مربوط ہے جس میں فنونِ لطیفہ کی روایت، مذاہب اور فنونِ لطیفہ کے باہمی رشتوں پر بات کرتے ہوئے علامہ اقبال کے نظریات کو بڑی عمدگی سے بیان کیا گیا ہے اور اقبال کے تمام نظریات کا کلیدی نکتہ یوں پیش کیا گیا ہے کہ اقبال کی تمام شاعری اس میں سمٹ آتی ہے یعنی اگر فنونِ لطیفہ خودی کی تعمیر میں معاون ہوں تو عین حیات ہیں۔ 

    سلیم حسنی کی ادارت میں شائع ہونے والے ۲۰۱۱ء کے مجلہ راوی میں اقبال پر دو مضامین ہیں۔ ایک کی نوعیت تحقیقی جبکہ دوسرا تعارفی و تنقیدی ہے۔ پہلا مضمون بعنوان ”علامہ اقبال کا اسلامیہ کالج کو عطیہ کتب (ایک غلط فہمی کا ازالہ)“ ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی نے لکھا ہے۔ دراصل یہ مضمون اس غلط فہمی کا ازالہ کرتا ہے جو اسلامیہ کالج سول لائنز کے مجلہ فاران (شمارہ ۱۹۹۲ء) میں شائع ہونے والے ایک مضمون سے پیدا ہوئی تھی۔ فاران میں شائع مضمون میں پروفیسر سیف اللہ خالد نے یہ نکتہ اٹھایا تھا کہ علامہ اقبال کی طرف سے اسلامیہ کالج ریلوے روڈ کی لائبریری کو ۶۳۵ کتب عطیہ کی گئیں مگر دو ہفتے بعد انتظامیہ کی طرف سے رپورٹ سامنے آئی کہ کتب ۵۷۶ ہیں۔ یوں ۵۹ کتب دو ہفتوں کے اندر ایسی غائب ہوئیں کہ سراغ تک نہ مل سکا۔ البتہ ان میں سے ایک کتاب بعنوان ”یورپ میں دکھنی مخطوطات“ پنجاب یونی ورسٹی کے زخیرۂ شیرانی میں موجود ہے۔ اس کتاب کے ٹائٹل پر مؤلف کی تحریر سے کھلتا ہے کہ اسے سر محمد اقبال کی خدمت میں ۵ مئی ۱۹۳۲ء کو ہدیہ کیا گیا۔“ 36 اس بنا پر انھوں نے یہ کہا کہ حافظ محمود شیرانی نے یہ کتاب smuggling کے ذریعے حاصل کی کیونکہ اس کی اشاعت حافظ محمود شیرانی کے لیے پیام بہار تھی۔ 

    ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی نے پہلا نکتہ یہ اٹھایا ہے کہ اقبال اور حافظ محمود شیرانی کا آپسی رشتہ کیسا تھا اور اس کو حوالوں سے ثابت کیا ہے کہ اقبال اور حافظ محمود شیرانی اچھے دوست تھے۔“سب سے حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ایک ایسی کتاب جو ان (حافظ محمود شیرانی) کے لیے بقول پروفیسر صاحب ”پیام بہار“ تھی اور جسے انھوں نے مبینہ طور پر beg, borrow or steal کے ہتھکنڈوں سے حاصل کیا تھا اس کے باوجود وہ اس پر کوئی مضمون لکھنے یا تبصرہ کرنے کے روادار نہ ہوئے۔ حد یہ ہے کہ ان کے مقالات کی دس ضخیم جلدوں میں اس کبریتِ احمر کا نام صرف ایک غیر سنجیدہ مضمون میں آیا ہے۔“ 37 یوں یہ بات ممکن ہے کہ علامہ اقبال نے ”یورپ میں دکھنی مخطوطات“ کا نسخہ حافظ محمود شیرانی کو دے دیا ہو اور دونوں نے اس جملہ کو حذف کرنے کی طرف دھیان ہی نہ دیا ہو جو کتاب کے سرورق پر درج تھا۔ اور اگر حافظ محمود شیرانی نے یہ کتاب ناجائز ذرائع سے حاصل کی ہوتی تو وہ کم از کم اس عبارت کو ضرور حذف کرتے۔ 

    پروفیسر سیف اللہ خالد نے مضمون میں اپنے بیان کے ثبوت میں جو دلیل دی ہے وہ یہ ہے کہ اس کتاب کی پنجاب یونیورسٹی لائبریری میں رجسٹر ہونے کی تاریخ ۱۸ ستمبر ۱۹۴۲ء ہے جو کہ اسلامیہ کالج کو اقبال کی کتب عطیہ کیے جانے کے بعد کی تاریخ ہے۔ اس کا جواب ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی نے یہ دیا ہے کہ دراصل حافظ محمود شیرانی نے اپنی کتابیں ۱۹۴۰ء میں پنجاب یونیورسٹی کو عطیہ کر دی تھیں جبکہ یونی ورسٹی انتظامیہ کی سستی کے سبب کتب کے رجسٹرڈ داخلے میں بہت زیادہ وقت لگا۔“۱۹۴۰ء میں اپنا مجموعہ یونیورسٹی لائبریری کو دیتے وقت انھوں نے کتابوں کی درست گنتی کی خاطر ہر کتاب پر سرخ یا نیلی موٹی پینسل سے اس کا نمبر شمار لکھ کر دائرہ لگا دیا تھا۔ صرف یہ ایک نشانی ہے جو انھوں نے اپنی مملوکہ کتابوں پر چھوڑی ہے۔ اگر یونیورسٹی لائبریری میں زیر بحث کتاب کا متنازعہ نسخہ دیکھا جائے تو اس پر شیرانی صاحب کا دائرہ میں سرخ پینسل سے درج کردہ نمبر ۸۹۵ موجود ہے۔ گویا مخطوطات سے قطع نظر ۱۹۴۰ء میں انھوں نے جو ۱۷۰۰ مطبوعات لائبریری کی تحویل میں دیں ان میں ”یورپ میں دکھنی مخطوطات“ کا نمبر ۸۹۵ تھا۔“ 38

    یوں اس الزام کا ازالہ کر دیا گیا کہ حافظ محمود شیرانی نے یہ کتاب ناجائز ذرائع سے حاصل نہیں کی بلکہ یہ کتاب اقبال کی طرف سے ہی انھیں دی گئی تھی۔ 

    آخر میں اس نکتہ کو بیان کیا گیا ہے کہ اسلامیہ کالج کو عطیہ کی گئیں اقبال کی کتب چوری نہیں ہوئیں بلکہ ان کی تعداد ہی ۵۷۶ تھی۔ کیونکہ اگر چودھری محمد حسین کے اطلاعی خط کو دیکھا جائے تو اس میں کتب کی تعداد کو ”فیصلہ کن توثیق کی محتاج“ سے مشروط کیا گیا ہے۔“علامہ نے اپنی وصیت میں خصوصیت کے ساتھ محض انگریزی مطبوعہ کتابیں اسلامیہ کالج لائبریری کو دینے کا عندیہ ظاہر کیا تھا، اس لیے دوسری زبانوں کی کتابیں وصیت کی متعلقہ شق سے مستثنیٰ سمجھی گئی ہوں گی۔ ان تینوں قسم کی کتابوں (فارسی، اردو اور عربی) کو ۶۳۵ کی تعداد سے منہا کر کے بقیہ تعداد ۵۷۶ بچی ہو گی۔“ 39

    مختصراً یوں کہا جا سکتا ہے کہ یہ مضمون تحقیقی نوعیت کا حامل ہے جس میں نہ صرف حافظ محمود شیرانی پر علامہ اقبال کی کتاب کو خوردبرد کرنے کے الزام کا مدلل جواب دیا گیا ہے اور اس الزام کو رد کیا گیا ہے بلکہ ساتھ ہی اسلامیہ کالج لائبریری کو عطیہ کی گئی کتب کی حتمی تعداد کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے اور اس غلط فہمی کا ازالہ کیا گیا ہے کہ اسلامیہ کالج لائبریری کو عطیہ کی گئیں کتب میں سے ۵۹ کتب غائب ہو گئی تھیں۔ 

    ۲۰۱۱ء کے مجلہ راوی میں پروفیسر ڈاکٹر سعادت سعید کا علامہ اقبال پر مضمون ”اقبال شناسی کا ایک مختلف زاویہ“ کے عنوان سے شائع ہوا۔ اس میں انھوں نے شفیق عجمی کی اقبال شناسی پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے، شفیق عجمی کی ان کوشش کو سراہا ہے جو انھوں نے اقبالیات کی مین سٹریم سے دور رہنے والے ماہر اقبالیات کو منظر عام پر لانے کے سلسلے میں کی ہیں۔ ساتھ ساتھ علامہ اقبال کے افکار اور مشرقی فلسفی و شاعر ہونے کی وجہ سے ان سے روا رکھنے جانے والے تعصب کا ذکر بھی کیا ہے۔ 

    اس حوالے سے انھوں نے شفیق عجمی کے مضمون سے ایک اقتباس نقل کیا ہے کہ ”اہل مغرب نے افکارِ اقبال کے غائر اور سنجیدہ مطالعے کے بعد اپنے خیالات کو قلمبند کرتے ہوئے غیر متعصبانہ رویہ اختیار کیا اور اقبال کو مشرق کے باوقار اور قابلِ ذکر شعرا اور مفکرین میں ایک ممتاز مقام پر فائز کیا، لہذا ہم مغرب میں اقبال شناسی کی روایت کو شاندار قرار دے سکتے ہیں البتہ یہ ناقابلِ فہم ہے کہ بیسویں صدی کے اختتام اور اکیسویں صدی کے استقبال کو مغربی دنیا میں جو خاص اہمیت دی گئی اور ذرائع ابلاغ نے بیسویں صدی کی achievements کے حوالے سے جو خصوصی تحقیقی سلسلے مرتب کیے ان میں اقبال اور افکارِ اقبال کو یکسر کیوں نظر انداز کیا گیا۔۔۔ اس کے محرکات پر بحث ہمارا موضوع نہیں لیکن یہ سوال ضرور ذہنوں میں پیدا ہوتا ہے کہ ایک صدی پر پھیلی ہوئی اقبال شناسی کی روایت، جس میں مغرب کا بھی قابلِ قدر حصہ ہے کہیں آج بڑھتے ہوئے عالمی تعصبات اور بدلتی ہوئی ترجیحات کا شکار تو نہیں ہو رہی؟“ 40

    اس کا جواب پروفیسر ڈاکٹر سعادت سعید نے یوں دیا ہے کہ اس تعصب کی دو وجوہات ہیں ایک یہ کہ اقبال مسلم ہیں اور دوسرا انھوں نے مغرب پر جو تنقید کی ہے وہ اس تعصبانہ رویہ کی ایک وجہ ہے۔ 

    اس بحث کے بعد شفیق عجمی کی کتاب علامہ اقبال اور ڈاکٹر رفیع الدین(علمی و فکری تقابل) کو موضوع بنایا گیا ہے اور اس نکتہ کو سامنے لایا گیا ہے کہ یہ کتاب اس لحاظ سے خاصیت رکھتی ہے کہ اس کتاب کی بدولت ان تمام قارئین کا بھلا کیا گیا ہے جو علامہ اقبال کو ٹکڑوں میں سمجھنے کے عادی تھے۔ علامہ اقبال اور ڈاکٹر رفیع الدین کے علمی و فکری نظریات میں مماثلت کے متعلق پروفیسر ڈاکٹر سعادت سعید یوں لکھتے ہیں کہ ”علامہ اقبال پر ڈاکٹر رفیع الدین کا اتنا اعتقاد ہے کہ اس کتاب میں علمی و فکری تقابل کے الفاظ کے بجائے علمی اور فکری تماثل کے الفاظ زیادہ معنی خیز ہو سکتے ہیں۔“ 41

    مضمون کے آخر میں شفیق عجمی کے حوالے سے اقبال کے خطبات کو موضوع بحث بنایا گیا ہے اور یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ جب تک خودی کی تعمیر میں معاون نہ ہوں تب تک تمام فنونِ لطیفہ حقیقت کی تلاش میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ 

    شفیق عجمی کی تحقیق کو ڈاکٹر سعادت سعید نے یوں خراجِ تحسین پیش کیا ہے کہ ”ان کی تحقیقی بصیرت قابلِ صد ستائش ہے کہ انھوں نے خودی، قومیت، ملت، مشرق و مغرب، تہذیب و تمدن اور انسانی و گروہی تقسیموں کے پس منظر میں اقبال پر مزکورہ محققوں (مغربی محقیقن، جن کے نام مضمون میں ڈاکٹر سعادت سعید نے فرداً فرداً گنوائے ہیں) اور عالموں کے نظریات کا معروضی جائزہ لیا ہے۔“ 42

    مختصراً اس مضمون میں جہاں شفیق عجمی کی اقبال شناسی کی روایت میں انفرادیت کو موضوع بحث بنایا گیا ہے وہاں اقبال کے حوالے سے روا رکھے جانے والے تعصب اور اس کے محرکات پر بھی گفتگو کی گئی ہے۔ ساتھ ساتھ اقبال کے نظریات کا احاطہ بھی کیا گیا ہے اور عصرِ حاضر میں ان کی معنویت کو تلاشنے پر زور دیا گیا ہے۔ 

    مجلہ راوی کے ۲۰۱۴ء کے شمارے میں گوشئہ اقبال کے عنوان کے تحت اقبال شناسی کی مختلف جہات پر مبنی مضامین شائع کیے گئے جس میں پہلا مضمون بعنوان ”علامہ اقبال کا ایک گرامی نامہ“ صوفی غلام مصطفیٰ تبسم کے قلم سے تراشا گیا ہے۔ یہ نکتہ قابلِ غور ہے کہ یہ مضمون مجلہ راوی کے مئی جون ۱۹۳۸ء کے شمارے میں پہلی بار شائع ہوا تھا۔ اس مضمون میں صوفی غلام مصطفیٰ تبسم ایک ایسے خط کا تذکرہ کرتے ہیں جو علامہ اقبال نے ان کے نام ۱۹۲۵ء میں لکھا تھا۔ مضمون میں خط پیش کرنے سے قبل انھوں نے بتایا ہے کہ علامہ اقبال اور مولانا احمد الدین امرتسری ایک دوسرے کے مضامین پڑھا کرتے تھے مگر ملاقات نہ ہو پائی۔ ملاقات کا جب موقع نکلا تو دونوں طرف سے عاجزی و انکساری کا مظاہرہ کیا گیا۔“مولانا احمد الدین لاہور تشریف لائے اور ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ مسلسل چار گھنٹے تک گفتگو کا سلسلہ جاری رہا۔ مابعد الطبیعیات اور الہیات کا شاید ہی کوئی اہم پہلو ایسا ہو جو زیر بحث نہ آیا ہو۔“ 43

    اس کے بعد، علامہ اقبال کا صوفی غلام مصطفیٰ تبسم کے نام خط پیش کیا گیا ہے جس میں علامہ اقبال کا موقف یہ ہے کہ وہ اجتہاد کے مسلے پر ایک کتاب لکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں، جس وہ یہ بتا سکیں کہ اسلام کو انھوں نے کس طرح سمجھا۔ پھر مولانا احمد الدین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انھیں ایک ایسی کتاب لکھنی چائیے جو تمام معاملات کو صرف قرآن مجید کی روشنی میں پرکھتے ہوئے قرآنی تعلیمات پیش کرے۔ خط کے آخر میں کہتے ہیں کہ اب وہ وقت آ گیا ہے کہ اسلام کو زمانے کی کسوٹی پر پرکھا جا رہا ہے اور اسلام کے حقائق کو مغربی فلسفے کے تناظر میں رکھ کر مطالعہ کیا جا رہا ہے جو کہ پہلے کبھی نہیں ہوا۔ مولوی احمد الدین امرتسری کے متعلق اقبال یوں لکھتے ہیں کہ ”مجھے یقین ہے کہ مولوی صاحب موصوف کو میرے ساتھ تبادلہ خیالات کرنے سے کچھ فائدہ نہ ہوگا۔ ہاں مجھ کو ان سے فائدہ پہنچنا غالباً یقینی ہے۔ اس واسطے وہ اگر مجھ کو مستفیض کرنے کے ارادے سے امرت سر سے لاہور آنے کی زحمت گوارا فرمائیں تو ان کی بہت مہربانی ہے جس کے لیے میں ان کا نہایت شکر گزار ہوں۔“ 44 اس بیان سے اقبال کے علمی قد کھاٹ کی اصلیت کھل کر سامنے آتی ہے اور یہ معلوم پڑتا ہے کہ اقبال کے علمی مرتبے کے پیچھے اصل محرک ان کی عاجزی ہے۔ 

    المختصر اس مضمون میں صوفی غلام مصطفیٰ تبسم نے دو علمی شخصیات کے نظریات اور ان کی ایک دوسرے کے لیے عقیدت کو موضوع بنایا ہے اور یہ بتایا ہے کہ بڑی شخصیت وہ ہوتی ہے جو عاجزی و انکساری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہمیشہ نئے حقائق کی کھوج میں مصروف رہے۔ 

    ۲۰۱۴ء کے شمارے میں بعنوان ”اقبال“ شیر محمد حمید کا لکھا ہوا مختصر مضمون شامل ہے جو پہلی مرتبہ راوی کے مئی ۱۹۲۸ء کے شمارے میں شائع ہوا تھا۔ اس مضمون کا لب لباب یہ ہے کہ جب جب ظلمت کی فضا معاشرے کو بوجھل اور جبریت کے اندھیرے، رستوں کو تاریک کر دیتے ہیں تب تب صالحین کا ظہور ہوتا ہے۔ کبھی صالحین نبیوں کے روپ میں آتے ہیں تو کبھی تخلیق کاروں کے روپ میں۔ ایسا ہی معاملہ اقبال کے ساتھ بھی ہے اور وہ اپنے کلام کے ذریعے معاشرے کو ان ظلمت کے اندھیروں سے نکال کر نور کی روشنی میں لانے کی سعی کرتے ہیں۔“اس اقلیم سخن کے بادشاہ نے جو ملک بے نیازی کا بھی تاجور ہے دنیا کی کایا پلٹ دی، ظلمت کو نور سے، حق کو باطل سے، نیند کو بیداری سے اور موت کو زندگی سے بدل دیا۔“ 45

    محمد دین تاثیر کے قلم سے لکھا جانے والا مضمون ”اقبال کا نظریہ شاعری“ ۲۰۱۴ء کے شمارے میں موجود ہے جبکہ یہ مضمون پہلی مرتبہ راوی کے مئی جون ۱۹۳۸ء کے شمارے میں شائع ہوا تھا۔ مضمون کے آغاز میں اٹھارویں اور انیسویں صدی میں اردو شاعری کے مزاج پر گفتگو کی گئی ہے اور یہ نکتہ اٹھایا گیا ہے کہ ”ہماری اردو غزل کا سارا نقشہ درباری ہے۔“ 46 اور کہا گیا ہے کہ ابتدائی شاعری بڑی حد تک مصنوعی شاعری تھی اور اس کا جواز یہ پیش کیا گیا ہے کہ وہ ملی اور روزمرہ کے مسائل کو زیر بحث نہیں لاتی۔ ان کے نزدیک اصل شاعری وہ ہے جو ”ادب برائے زندگی“ کے نظریہ پر پورا اترتی ہو۔ اقبال کے متعلق یہ بیان کیا گیا ہے کہ انھوں نے بھی ابتداء ایسی ہی شاعری سے کی جو محسوسات و جذبات کو تیز کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی مگر بہت جلد اقبال اس رنگ سے اکتا گئے اور ادب کے اصل مقصد کو پہنچاننے میں لگ گئے۔“حقیقت کی ترجمانی، ماحول کا احساس، صداقت کا اظہار!۔۔۔ یہ ہے ادب کا مقصد۔ یہ وہ مقصد ادب ہے جس کا اقبال کو بہت جلد احساس ہو گیا اور ہر چند اقبال کے فلسفہ اور نظام فکر میں بہت سے انقلابات آتے رہے مگر اس کا نظریہ شاعری ہمیشہ کے لیے یہی رہا۔“ 47

    المختصر اس مضمون میں، انجمن پنجاب میں اردو کلاسیکی شاعری پر اٹھائے گئے سوالات و نظریات کی بازگشت سنائی دیتی ہے اور ترقی پسند تحریک کا نظریاتی اثر نمایاں ہے۔ اقبال کی شاعری کو ادب برائے زندگی کے خانے میں بند کرتے ہوئے انھیں محض حقیقت کا ترجمان ثابت کیا گیا ہے۔ 

    راوی کے ۲۰۱۴ء کے شمارے میں سید الطاف حسین کا مضمون بعنوان ”ترجمانِ حقیقت“ شائع ہوا۔ یہ مضمون دراصل راوی کے مئی جون ۱۹۳۸ء کے شمارے میں شائع ہوا تھا جسے دوبارہ ۲۰۱۴ء کے شمارے میں شامل کیا گیا ہے۔ 

    اس مضمون میں یہ نکتہ اٹھایا گیا ہے کہ عام انسان مظاہرِ فطرت کے رموز سے آشنا ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتا بلکہ چنیدہ لوگ، عالمِ محسوسات کی غیر مرئی حقیقتوں کا مشاہدہ کرتے ہوئے ان اسرار و رموز تک رسائی حاصل کرتے ہیں اور پھر اسے عام لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ اقبال ان مخصوص دیدہ ور اصحاب میں سے ایک ہیں۔ 

    اقبال نے مظاہرِ فطرت کو ایسی نظر سے دیکھا کہ انھیں سکوتِ شب، صبح کی روشنی، آسمان میں جھلملاتے ستاروں، شفق کی رنگینی، کوہساروں کی خامشی اور چلتی نہروں میں اس حقیقت کا نظارہ ہوا جو خود سے خدا تک کا رستہ ہموار کرتا ہے۔ 

    آ میں تجھے دکھاؤں رخسارِ روشن اس کا
    نہروں کے آئینے میں شبنم کی آرسی میں 48

    سید الطاف حسین اقبال کے نظریہِ نظارہ فطرت اور اس کے حقیقی سچائی سے تعلق کو یوں بیان کرتے ہیں کہ ”اقبال کی نگاہ میں خودی اور ایمان ایک ہی چیز کے دو نام ہیں۔ وہ صحیح مومن کی زندگی کو نظارہ حقیقت اور مادیت کی بے پناہ طاقتوں کو تابع فرمان کرنے کا واحد اور قطعی ذریعہ سمجھتا ہے۔“ 49

    کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زورِ بازو کا
    نگاہ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں 

    مضمون میں یہ سوال اٹھایا گیا ہے کہ کیا صرف سائنس دان ہی ایسے علوم سے وابستگی رکھتے ہیں جو حقیقت کے بھیدوں کو کھول سکیں یا دیگر لوگوں میں بھی یہ صلاحیت ہے۔ سوال کے جواب میں شعرا کو پیش کیا گیا ہے کہ یہ لوگ ان حقیقتوں تک بھی رسائی حاصل کر لیتے ہیں جو مشاہدے سے پرے وجدان سے تعلق رکھتی ہیں۔ علامہ اقبال کے نزدیک انسان اس وقت تک فطرت کے رموز تک رسائی حاصل نہیں کر سکتا جب تک اس کی خودی تربیت یافتہ نہ ہو اور انسان خود کو نہ پہچانتا ہو۔ 

    خودی ہے زندہ تو ہے موت ایک مقام حیات
    کہ عشق موت سے کرتا ہے امتحان اثبات

    ”یہی ایک حقیقت ہے جو انسان کو اپنے آپ سے اور خدا سے آگاہ کرتی ہے اور انسان کو لازمانی و لامکانی کی تعلیم دے کر اس کے دل و دماغ کو توسیع بخشتی ہے جس کی بدولت وہ اس قابل ہو جاتا ہے کہ حیات سے حقیقی طور پر لطف اندوز ہو سکے اور اس کے ساتھ ساتھ اس طریق پر ہی گامزن رہے جس کا اتباع عین ہدایت کا موجب اور جس سے انحراف ضلالت کی دلیل ہے۔“ 50

    اس مضمون میں علامہ اقبال کے ہاں مظاہر فطرت سے حقیقت کی تلاش تک کے سفر کے تصور کو بیان کیا گیا ہے اور اس نکتہ پر زور دیا گیا ہے کہ علامہ اقبال کا یہ نظریہ ہے کہ اگر انسان فطرت کے رموز سے آشنا ہونے کی تمنا رکھتا ہے تو اس کی خودی کو مضبوط اور تربیت یافتہ ہونا چاہیے۔ 

    مجلہ راوی کے ۱۹۵۱ء کے شمارے میں سید کرامت حسین جعفری کا مضمون ”اقبال کا فلسفہء مذہب“ شائع ہوا تھا، اس مضمون کو ۲۰۱۴ء کے شمارے میں دربارہ شائع کیا گیا۔ 

    اس مضمون میں سید کرامت حسین جعفری نے یہ موقف اپنایا ہے کہ ”اقبال کے نزدیک تجربہ ہی کی صحیح تشریح و تعریف کا نام مذہب ہے۔“ 51 یہاں تجربہ سے مراد وہ انفرادی تجربہ ہے جس کا تعلق مذہب کے آخری دور سے ہے۔ مضمون کا مرکز، جس کے گرد تمام بحث گردش کرتی ہے یہ ہے کہ ”اقبال کے نزدیک مذہبی زندگی کے تین دور ہیں، اعتقادی، اجتہادی اور استشہادی۔“ 52

    یعنی ابتدائی زندگی میں مذہب عقیدے کا روپ اختیار کرتا ہے جس میں مذہب کی اصلیت و مقصدیت کی پہچان شامل نہیں ہوتی۔ اجتہادی دور کی بنیاد مابعدالطبیعیات پر ہوتی ہے جس میں مذہب کو صرف تسلیم ہی نہیں کیا جاتا بلکہ عقلی بنیادوں پر اس کی حقانیت کو بھی پہچانا جاتا ہے اور آخری دور انسانی آزاد شخصیت کے انفرادی تجربہ پر موقوف ہے جس کی تشریح و تعریف ممکن نہیں کیونکہ یہ انفرادی تجربہ عقلی تجربہ نہیں ہوتا۔ اس کے ساتھ ساتھ سائنس، خصوصیاً نفسیات اور مذہب میں حدِ تفاوق کھینچا گیا ہے کہ نفسیات مذہب کے روحانی تجربات کو جنون کا نام دے کر بیماری قرار دیتی ہے جبکہ مذہب میں روحانی تجربات حقیقت تک رسائی کے لیے کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔ اقبال کا موقف ہے کہ مذہب اور سائنس دونوں کا مقصد ایک ہی ہے یعنی حقیقت کی تلاش جبکہ دونوں کا دیکھنے کا نظریہ جدا ہے۔ تصوف اور مذہب کے باہمی تعلق پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے اور بیان کیا گیا ہے کہ ”تصوف کی غلط روایات نے عام انسان کی اندرونی قوتوں کی شیرازہ بندی کرنے اور اسے تاریخ عالم کی دوڑ میں شمولیت کے قابل بنانے کے بجائے اس میں غلط قسم کی رواقیت اور زندگی سے نفرت پیدا کر دی ہے۔“ 53

    مضمون میں اس نکتے کو بھی اٹھایا گیا ہے کہ مذہب سے دوری کے سبب انسان اپنی نجات کبھی سوشلزم میں تلاشتا ہے تو کبھی نیشنلزم میں۔ مگر ”اقبال کا خیال ہے کہ انسان کے موجودہ ابتلا کا علاج نہ تصوف نہ سوشلزم اور نہ نیشنلزم میں ہے۔ اس کا علاج مذہب میں ہے۔ مذہب ہی انسان کو اس کی موجودہ زمانے کی بڑھتی ہوئی ذمہ داریوں کے لیے تیار کر سکتا ہے اور اس دنیا میں اسے اپنی خودی حاصل کرنے اور آخرت میں اسے برقرار رکھنے کے قابل بنا سکتا ہے۔“ 54

    المختصر مضمون میں مذہب، سائنس اور تصوف کے موضوعات پر بحث کی گئی ہے۔ زیر بحث مضمون، اقبال کے تصور مذہب پر لکھا گیا ہے مگر کہیں بھی اقبال کی شاعری کا حوالہ ہے نہ ہی خطبات سے اقتباسات شامل کیے گئے ہیں۔ اس سبب مضمون کی معنویت مجروح ہوتی ہے اور حوالوں کی عدم موجودگی کی بدولت سید کرامت حسین جعفری کے مؤقف کی تائید مشکل معلوم پڑتی ہے۔ 

    مظفر علی سید کے قلم سے لکھا گیا مضمون بعنوان ”اقبال کی سوالیہ شاعری“ مجلہ راوی ۲۰۱۴ء کے شمارے میں شامل ہے۔ یہ مضمون پہلی مرتبہ مجلہ راوی ۱۹۵۲ء کے شمارے میں شائع ہوا تھا۔ مضمون کی ابتدا میں سوال اور ذہنی عمر کے باہمی رشتوں پر بات کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ بعض سوال پوچھنے اور پھر ان کے جواب سمجھنے کے لیے ایک خاص ذہنی عمر کی ضرورت ہوتی ہے۔ 

    مضمون میں فلسفی اور شاعر میں بنیادی فرق بھی کیا گیا ہے کہ فلسفی حقیقت کی تلاش کا سفر فلسفے سے شروع کرتا ہے جبکہ شاعر وجدان سے۔ اس لیے شاعر ان رستوں پر پہنچ جاتا ہے جہاں فلسفی کو پہنچنے کے لیے خاص ریاضت کی ضرورت ہوتی ہے۔“صاحب وجدان ہونا شاعر کی ایک ایسی خصوصیت ہے جو بڑے سے بڑا سوال ذہن میں ابھارتی ہے اور اس کے بعد اس کے جواب کی تہ تک پہنچنے کے لیے ذہنی تیاری بھی فراہم کرتی ہے۔“ 55

    اس تمام بحث کے بعد علامہ اقبال کے ہاں سوالیہ شاعری کو موضوع بنایا گیا ہے اور ان کی اردو شاعری کے ساتھ ساتھ فارسی شاعری سے بھی امثال پیش کی گئی ہیں بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ زیادہ توجہ فارسی شاعری پر ہی مرکوز کی گئی ہے۔ سوالات کی نوعیت پر بھی گفتگو موجود ہے کہ جواب کو سامنے رکھ کر سوالات کس طرح گھڑے جاتے ہیں اور جواب کی تلاش کرنے کے لیے سوالات کی نوعیت کیا ہوتی ہے۔ 

    میں کہاں ہوں تو کہاں ہے؟ یہ مکاں کہ لامکاں ہے؟/یہ جہاں مرا جہاں ہے کہ تری کرشمہ سازی؟

    عالم آب و باد و خاک! سر عیاں ہے تو کہ میں /وہ جو نظر سے نہاں اس کا جہاں ہے تو کہ میں؟ 56

    غالب اور اقبال کی سوالیہ شاعری کا موازنہ بھی کہا گیا ہے اور یہ رمز وا کیا گیا ہے کہ غالب زندگی کی حقیقتوں پر سے پردے اٹھانے والے سوال نہیں کرتا بلکہ زیادہ تر اس قسم کے سوالات ہوتے ہیں کہ ”لالہ و گل کہاں سے آئے؟ ابر کیا چیز ہے ہوا کیا ہے؟“ 57 جبکہ ”اقبال زیادہ تر بیانات کی شاعری کرتے رہے اور قسم قسم کے خبریہ جملے ان کی شاعری میں باافراط ملتے ہیں مگر اقبال کی ذہنیت محض اسی منزل پر جم کر نہیں رہ گئی بلکہ ان کی شاعری ان تمام ادوار سے گزری ہے جو ایک پر پیچ شاعرانہ شخصیت کا ثبوت ہوتے ہیں۔“ 58

    مجموعی طور پر یوں کہا جا سکتا ہے کہ مضمون مختصر ہونے کے باجود جامع ہے مگر اردو شاعری پر توجہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ یوں یہ مضمون اقبال کی فارسی سوالیہ شاعری پر معلوم پڑتا ہے۔ مضمون کی خاصیت یہ ہے کہ فلسفی و شاعر میں حد تفاوق کھینچتے ہوئے غالب و اقبال کا موازنہ بھی کیا گیا ہے۔ 

    مجلہ راوی ۱۹۵۵ء کے شمارے میں صدیق کلیم کا ایک مضمون ”تسخیر کائنات“ کے عنوان سے شائع ہوا جو کہ دراصل علامہ اقبال کی فارسی نظم ”تسخیر کائنات“ کا تنقیدی جائزہ ہے۔ اس مضمون کو دوبارہ، ۲۰۱۴ء کے شمارے میں شائع کیا گیا۔ صدیق کلیم نے نظم کا تجزیہ کرتے ہوئے علامہ اقبال کے تصور مذہب، تصور ابلیس، تصور خودی اور تصور انسان پر علمی بحث کی ہے اور بتایا ہے کہ ”ابلیس، اقبال کے فلسفے میں ایک اور بنیادی حقیقت ہے۔ ابلیس وہ پیکر زندگی ہے جس میں کمال تڑپ اور خود داری ہے۔ اس کی انا، اس کا تجسس، اس کی قوت عمل، اس کا کیف، اس کی تب و تاب، اسے آگے سر جھکانے سے باز رکھتی ہے۔“ 59

    ابلیس ہی کی بدولت انسان نے بے عملی سے عمل کا رستہ اختیار کیا اور کائنات کو اپنی صلاحیتوں سے مسخر کیا۔ یعنی ابلیس، انسان کا رہنما بن کر ابھرتا ہے اور انسان کو اپنی صلاحیتیں برتنے پر اکساتا ہے۔ اس نظم میں علامہ اقبال نے مذہبی قصے کو شاعری کا رنگ دیا ہے لہذا کہیں نہ کہیں وہ نظم کو وہی موڑ دینے کی شعوری کوشش کرتے ہیں جو مذہبی قصہ میں طے شدہ ہے۔ اس کا ثبوت نظم کا آخری حصہ ہے جس میں لہجے میں دھیما پن در آتا ہے، عفو طلبی اور نیاز مندی کا رنگ بھی موجود ہے۔ شاہین کی علامت اور ابلیس کے کردار کو خودی کی علامت قرار دینے پر صدیق کلیم کہتے ہیں کہ ”اقبال نے اپنے فلسفہ حیات میں فسطائیت کو بھی اپنانے کی کوشش کی ہے۔“ 60

    مجموعی طور پر یوں کہا جا سکتا ہے کہ نظم کا تجزیہ کرتے ہوئے نہ صرف اقبال کے فلسفہ زندگی پر گفتگو کی گئی ہے بلکہ نظم کی باریکیوں کو بھی کھولا گیا ہے اور موضوع کے لحاظ سے بدلتی بحروں کے رمز کو بھی سامنے لایا گیا ہے۔ 

    مجلہ راوی کے ۲۰۱۴ء کے شمارے میں فاروق احمد کا مضمون ”اقبال اور نوجواں مسلم“ شامل ہے۔ اس شمارے میں علامہ اقبال پر یہ وہ واحد مضمون ہے جو پہلی مرتبہ شائع ہوا باقی تمام مضمون گزشتہ شماروں سے اٹھائے گئے ہیں۔ مضمون میں نوجوانوں سے متعلق علامہ اقبال کی شاعری کو موضوع بنایا گیا ہے۔ مضمون کو بہ نظر غائر دیکھا جائے تو یہ دو حصوں میں تقسیم نظر آتا ہے۔ پہلا حصہ تمام ہندوستانی نوجوانوں کے متعلق ہے اور دوسرے حصے میں مسلم نوجوانوں سے خطاب والی شاعری کاتجزیہ کیا گیا ہے۔ مضمون کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ ”اقبال کو یقین تھا کہ نوجوان ہی ان کی آرزؤں کے چراغ اور امیدوں کے آفتاب و مہتاب ہیں۔ ان کی روشنی آج مدھم سہی، کل تیز ہوگی اور مستقبل کی شاہراہ اسی روشنی سے جگمگا اٹھے گی۔“ 61

    مضمون کی خاصیت یہ ہے کہ مختلف نقادوں کی علامہ اقبال کے اس موضوع کے متعلق آرا کو حوالوں کے ساتھ مضمون کا حصہ بنایا گیا ہے جس سبب مضمون کی معنویت مضبوط ہوتی معلوم پڑتی ہے۔ جابجا علامہ کی شاعری سے اشعار بطورِ مثال پیش کیے گئے ہیں جیسے کہ 

    دیارِ عشق میں اپنا مقام پیدا کر
    نیا زمانہ نئے صبح و شام پیدا کر

    خدا اگر دلِ فطرت شناس دے تجھ کو
    سکوتِ لالہ و گل سے کلام پیدا کر 62

    کبھی اے نوجوان مسلم! تدبر بھی کیا تو نے؟
    وہ کیا گردوں تھا، تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا؟ 63

    (پہلی مثال میں بلا تخصیص ہندوستان کے تمام نوجوانوں سے خطاب ہے جبکہ دوسری مثال میں صرف مسلم نوجوانوں سے)

    اسامہ ضوریز کی ادارت میں شائع ہونے والے مجلہ راوی ۲۰۱۷ء-۲۰۱۸ء کے شمارے میں ڈاکٹر جاوید اقبال کے قلم سے لکھا گیا مضمون بعنوان ”اقبال اور سیکولرزم“ شامل ہے۔ یہ مضمون پہلی مرتبہ مجلہ اقبالیات کے ۲۰۰۶ء کے شمارے میں شائع ہوا تھا۔ اس مضمون میں ڈاکٹر جاوید اقبال نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ علامہ اقبال مذہب میں اجتہاد کے حامی تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ”اقبال اس تفریق کو تسلیم کرتے ہیں کہ شریعت کے ان قوانین کی تعبیریں، جن کا تعلق ”معاملات“ سے ہے، اصولِ تغیر کے تحت، بذریعہ اجتہادی عمل، وقت کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے تبدیل کی جا سکتی ہیں۔ 64 ڈاکٹر جاوید اقبال نے یہ نکتہ اٹھایا ہے کہ سیکولرازم کا معنی لادینیت نہیں بلکہ ”آج کی سیکولر ریاست سے مراد ایسی نظریاتی ریاست ہے جو مذہب کے معاملے میں غیر جانبدار ہو، ”عبادات“ کے ضمن میں ہر شہری کو مذہبی آزادی فراہم کرے اور تمام شہریوں میں کسی امتیاز کے بغیر برابری کے اصول کو رائج کرے۔“ 65

    مختصراً اگر اس مضمون کا اجمالی جائزہ پیش کیا جائے تو یوں کہا جا سکتا ہے کہ یہ مضمون علامہ اقبال کے ان نظریات کے گرد گھومتا ہے جو انھوں نے اپنے خطبے تشکیلِ جدید میں پیش کیے۔ 

    مجلہ راوی کے ۲۰۰۰ء سے ۲۰۲۰ء تک کے شماروں میں علامہ اقبال کی شاعری کے مختلف موضوعات پر مضامین شائع ہوئے، جن میں اقبال کے ذہنی و فکری ارتقاء سے لے کر ان کی اردو و فارسی شاعری، تصور شاعری، تصور مذہب، تصور فنونِ لطیفہ، معاشی افکار، اقبال اور سیکولرزم، اور نوجوانوں سے خطاب پر مبنی شاعری کا تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی ان کا گورنمنٹ کالج لاہور سے تعلق اور اسلامیہ کالج کو عطیہ کی گئی کتب کو بھی علیحدہ علیحدہ مضامین کا موضوع بنایا گیا ہے۔ ان مضامین میں صرف اقبال کی شاعری کو ہی موضوع نہیں بنایا گیا بلکہ ان کے خطبات پر گفتگو کرتے ہوئے ان کی عصری معنویت کو بھی اجاگر کیا گیا ہے۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ مجلہ راوی اقبال شناسی کی روایت میں اہم مقام رکھتا ہے۔ 



    حوالہ جات
    (1) ظہیر صدیقی: ”اقبال اور دانشگاہ گورنمنٹ کالج لاہور“، مشمولہ ”راوی“، (لاہور، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، ۲۰۰۳ء)، ص ۵
    (2) محمد حنیف رامے: ”علامہ اقبال اور فارسی“، مشمولہ ”راوی“، (لاہور، گورنمنٹ کالج یونی ورسٹی، ۲۰۰۳ء)، ص ۸۷
    (3) علامہ محمد اقبال: بانگِ درا، (لاہور، شیخ غلام علی اینڈ سنز، 1976ء)، ص 17
    (4) محمد حنیف رامے: ”علامہ اقبال اور فارسی“، مشمولہ ”راوی“، (لاہور، گورنمنٹ کالج یونی ورسٹی، 2002ء)، ص 88
    (5) ڈاکٹر محمد خان اشرف: ”اقبال اور رومانویت“، مشمولہ ”راوی“، (لاہور، جی سی یونی ورسٹی، 2002ء)، ص 90
    (6) علامہ محمد اقبال: بالِ جبریل، (علی گڑھ، ایجوکیشنل بک ہاؤس، 1975ء)، ص 28
    (7) شفیق عجمی: ”خطبات اقبال کی عصری اہمیت“، مشمولہ ”راوی“، (لاہور، جی سی یونی ورسٹی، 2002ء)، ص 92
    (8) شفیق عجمی: ”خطبات اقبال کی عصری اہمیت“، مشمولہ ”راوی“، (لاہور، جی سی یونی ورسٹی، 2002ء)، ص 93
    (9) شفیق عجمی: ”خطبات اقبال کی عصری اہمیت“، مشمولہ ”راوی“، (لاہور، جی سی یونی ورسٹی، 2002ء)، ص 93
    (10) شفیق عجمی: ”خطبات اقبال کی عصری اہمیت“، مشمولہ ”راوی“، (لاہور، جی سی یونی ورسٹی، 2002ء)، ص 94
    (11) شفیق عجمی: ”خطبات اقبال کی عصری اہمیت“، مشمولہ ”راوی“، (لاہور، جی سی یونی ورسٹی، 2002ء)، ص 94
    (12) ظہیر صدیقی، ”اقبال اور دانشگاہ گورنمنٹ کالج لاہور“، مشمولہ ”راوی“، (لاہور، گورنمنٹ کالج یونی ورسٹی، ۲۰۰۳ء)، ص 1
    (13) ظہیر صدیقی، ”اقبال اور دانشگاہ گورنمنٹ کالج لاہور“، مشمولہ ”راوی“، (لاہور، گورنمنٹ کالج یونی ورسٹی، ۲۰۰۳ء)، ص 2
    (14) ظہیر صدیقی، ”اقبال اور دانشگاہ گورنمنٹ کالج لاہور“، مشمولہ ”راوی“، (لاہور، گورنمنٹ کالج یونی ورسٹی، ۲۰۰۳ء)، ص 4
    (15) ظہیر صدیقی، ”اقبال اور دانشگاہ گورنمنٹ کالج لاہور“، مشمولہ ”راوی“، (لاہور، گورنمنٹ کالج یونی ورسٹی، ۲۰۰۳ء)، ص 6-7
    (16) ظہیر صدیقی، ”اقبال اور دانشگاہ گورنمنٹ کالج لاہور“، مشمولہ ”راوی“، (لاہور، گورنمنٹ کالج یونی ورسٹی، ۲۰۰۳ء)، ص 7
    (17) شیخ محمد اقبال: علم الاقتصاد، (لاہور، اقبال اکادمی پاکستان، ۲۰۱۸ء)، ص25
    (18) ڈاکٹر لیاقت علی خان: ”علامہ اقبال کے معاشی افکار“، مشمولہ ”راوی“، (لاہور، جی سی یونی ورسٹی، ۲۰۰۳ء)، ص14
    (19) ڈاکٹر لیاقت علی خان: ”علامہ اقبال کے معاشی افکار“، مشمولہ ”راوی“، (لاہور، جی سی یونی ورسٹی، ۲۰۰۳ء)، ص 15
    (20) ڈاکٹر لیاقت علی خان: ”علامہ اقبال کے معاشی افکار“، مشمولہ ”راوی“، (لاہور، جی سی یونی ورسٹی، ۲۰۰۳ء)، ص 15
    (21) علامہ محمد اقبال: کلیاتِ اقبال اردو، (لاہور، اقبال اکادمی پاکستان، اشاعت دوم، 1994ء)، ص 50
    (22) جسٹس(ر) ڈاکٹر جاوید اقبال: اپنا گریباں چاک، (لاہور، سنگ میل پبلی کیشنز، ۲۰۰۳ء)، ص 194
    (23) شفیق عجمی، ”اقبال اور فرزند اقبال (اپنا گریباں چاک، کی روشنی میں)“، مشمولہ ”راوی“، (لاہور، جی سی یونی ورسٹی، ۲۰۰۳ء)، ص 22
    (24) شفیق عجمی، ”اقبال اور فرزند اقبال (اپنا گریباں چاک، کی روشنی میں)“، مشمولہ ”راوی“، (لاہور، جی سی یونی ورسٹی، ۲۰۰۳ء)، ص 22
    (25) شفیق عجمی: ”اقبال اور عصری مسائل“، مشمولہ ”راوی“، (لاہور، جی سی یونی ورسٹی، ۲۰۰۶ء)، ص 40
    (26) شفیق عجمی: ”اقبال اور عصری مسائل“، مشمولہ ”راوی“، (لاہور، جی سی یونی ورسٹی، ۲۰۰۶ء)، ص 41
    (27) ڈاکٹر کنیز فاطمہ یوسف: ”اقبال اور عصری مسائل“، (لاہور، سنگ میل پبلی کیشنز، 2005ء)، پیش لفظ ص ے 
    (28) شفیق عجمی: ”اقبال اور عصری مسائل“، مشمولہ ”راوی“، (لاہور، جی سی یونی ورسٹی، ۲۰۰۶ء)، ص 42
    (29) شفیق عجمی: ”اقبال اور عصری مسائل“، مشمولہ ”راوی“، (لاہور، جی سی یونی ورسٹی، ۲۰۰۶ء)، ص 42
    (30) ناصر حفیظ: ”مولانا رومی اقبال کی نظر میں “، مشمولہ ”راوی“، (لاہور ، جی سی یونی ورسٹی، ۲۰۰۶ء)، ص 50
    (31) ناصر حفیظ: ”مولانا رومی اقبال کی نظر میں “، مشمولہ ”راوی“، (لاہور ، جی سی یونی ورسٹی، ۲۰۰۶ء)، ص 51
    (32) سنبل نسیم: ”اقبال، مذہب اور مصوری“، مشمولہ ”راوی“، (لاہور، جی سی یونی ورسٹی، ۲۰۰۷ء)، ص 53
    (33) سنبل نسیم: ”اقبال، مذہب اور مصوری“، مشمولہ ”راوی“، (لاہور، جی سی یونی ورسٹی، ۲۰۰۷ء)، ص 54
    (34) سنبل نسیم: ”اقبال، مذہب اور مصوری“، مشمولہ ”راوی“، (لاہور، جی سی یونی ورسٹی، ۲۰۰۷ء)، ص 53
    (35) سنبل نسیم: ”اقبال، مذہب اور مصوری“، مشمولہ ”راوی“، (لاہور، جی سی یونی ورسٹی، ۲۰۰۷ء)، ص 54
    (36) ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی: ”علامہ اقبال کا اسلامیہ کالج کو عطیہ کتب“، مشمولہ ”راوی“، (لاہور، جی سی یونی ورسٹی، 2011ء)، ص 71
    (37) ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی: ”علامہ اقبال کا اسلامیہ کالج کو عطیہ کتب“، مشمولہ ”راوی“، (لاہور، جی سی یونی ورسٹی، 2011ء)، ص 73
    (38) ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی: ”علامہ اقبال کا اسلامیہ کالج کو عطیہ کتب“، مشمولہ ”راوی“، (لاہور، جی سی یونی ورسٹی، 2011ء)، ص 75
    (39) ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی: ”علامہ اقبال کا اسلامیہ کالج کو عطیہ کتب“، مشمولہ ”راوی“، (لاہور، جی سی یونی ورسٹی، 2011ء)، ص 79
    (40) پروفیسر ڈاکٹر سعادت سعید: ”اقبال شناسی کا ایک مختلف زاویہ“، مشمولہ ”راوی“، (لاہور، جی سی یونی ورسٹی، 2011ء)، ص 116
    (41) پروفیسر ڈاکٹر سعادت سعید: ”اقبال شناسی کا ایک مختلف زاویہ“، مشمولہ ”راوی“، (لاہور، جی سی یونی ورسٹی، 2011ء)، ص 116
    (42) پروفیسر ڈاکٹر سعادت سعید: ”اقبال شناسی کا ایک مختلف زاویہ“، مشمولہ ”راوی“، (لاہور، جی سی یونی ورسٹی، 2011ء)، ص 116
    (43) صوفی غلام مصطفیٰ تبسم: ”علامہ اقبال کا ایک گرامی نامہ“، مشمولہ ”راوی“، (لاہور، جی سی یونی ورسٹی، ۲۰۱۴ء)، ص 9
    (44) صوفی غلام مصطفیٰ تبسم: ”علامہ اقبال کا ایک گرامی نامہ“، مشمولہ ”راوی“، (لاہور، جی سی یونی ورسٹی، ۲۰۱۴ء)، ص 10
    (45) شیر محمد حمید: ”اقبال“، مشمولہ ”راوی“، (لاہور، جی سی یونی ورسٹی، ۲۰۱۴ء)، ص 11
    (46) محمد دین تاثیر: ”اقبال کا نظریہ شاعری“، مشمولہ ”راوی“، (لاہور، جی سی یونی ورسٹی، ۲۰۱۴ء)، ص 12
    (47) محمد دین تاثیر: ”اقبال کا نظریہ شاعری“، مشمولہ ”راوی“، (لاہور، جی سی یونی ورسٹی، ۲۰۱۴ء)، ص 13
    (48) سید الطاف حسین: ”ترجمانِ حقیقت “، مشمولہ ”راوی“، (لاہور، جی سی یونی ورسٹی، ۲۰۱۴ء)، ص 14
    (49) سید الطاف حسین: ”ترجمانِ حقیقت “، مشمولہ ”راوی“، (لاہور، جی سی یونی ورسٹی، ۲۰۱۴ء)، ص 15
    (50) سید الطاف حسین: ”ترجمانِ حقیقت “، مشمولہ ”راوی“، (لاہور، جی سی یونی ورسٹی، ۲۰۱۴ء)، ص 17
    (51) سید کرامت حسین جعفری: ”اقبال کا فلسفہء مذہب“، مشمولہ ”راوی“، (لاہور، جی سی یونی ورسٹی، ۲۰۱۴ء)، ص 19
    (52) سید کرامت حسین جعفری: ”اقبال کا فلسفہء مذہب“، مشمولہ ”راوی“، (لاہور، جی سی یونی ورسٹی، ۲۰۱۴ء)، ص 19
    (53) سید کرامت حسین جعفری: ”اقبال کا فلسفہء مذہب“، مشمولہ ”راوی“، (لاہور، جی سی یونی ورسٹی، ۲۰۱۴ء)، ص 20-21
    (54) سید کرامت حسین جعفری: ”اقبال کا فلسفہء مذہب“، مشمولہ ”راوی“، (لاہور، جی سی یونی ورسٹی، ۲۰۱۴ء)، ص 21
    (55) مظفر علی سید: ”اقبال کی سوالیہ شاعری“، مشمولہ ”راوی“، (لاہور، جی سی یونی ورسٹی، ۲۰۱۴ء)، ص23
    (56) مظفر علی سید: ”اقبال کی سوالیہ شاعری“، مشمولہ ”راوی“، (لاہور، جی سی یونی ورسٹی، ۲۰۱۴ء)، ص 24
    (57) مظفر علی سید: ”اقبال کی سوالیہ شاعری“، مشمولہ ”راوی“، (لاہور، جی سی یونی ورسٹی، ۲۰۱۴ء)، ص 25
    (58) مظفر علی سید: ”اقبال کی سوالیہ شاعری“، مشمولہ ”راوی“، (لاہور، جی سی یونی ورسٹی، ۲۰۱۴ء)، ص 25
    (59) صدیق کلیم: ”تسخیر کائنات“، مشمولہ ”راوی“، (لاہور، جی سی یونیورسٹی، ۲۰۱۴ء)، ص 30
    (60) صدیق کلیم: ”تسخیر کائنات“، مشمولہ ”راوی“، (لاہور، جی سی یونیورسٹی، ۲۰۱۴ء)، ص 32
    (61) فاروق احمد: ”اقبال اور نوجواں مسلم“، مشمولہ ”راوی“، (لاہور، جی سی یونی ورسٹی، ۲۰۱۴ء)، ص 35
    (62) فاروق احمد: ”اقبال اور نوجواں مسلم“، مشمولہ ”راوی“، (لاہور، جی سی یونی ورسٹی، ۲۰۱۴ء)، ص 36
    (63) فاروق احمد: ”اقبال اور نوجواں مسلم“، مشمولہ ”راوی“، (لاہور، جی سی یونی ورسٹی، ۲۰۱۴ء)، ص 36
    (64) ڈاکٹر جاوید اقبال: ”اقبال اور سیکولرزم“، مشمولہ ”راوی“، (لاہور، جی سی یونی ورسٹی، 2017-18ء)، ص 44
    (65) ڈاکٹر جاوید اقبال: ”اقبال اور سیکولرزم“، مشمولہ ”راوی“، (لاہور، جی سی یونی ورسٹی، 2017-18ء)، ص 45

     

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta 10th Edition | 5-6-7 December Get Tickets Here

    بولیے