aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اقبال اور ان کے نکتہ چیں

آل احمد سرور

اقبال اور ان کے نکتہ چیں

آل احمد سرور

MORE BYآل احمد سرور

     

    اقبال کو اپنی زندگی میں جو مقبولیت حاصل ہوئی، وہ آج تک کسی شاعر کو نصیب نہ ہوئی۔ قبول عام کلام کی خوبی کا ضامن نہیں سمجھا جاتا مگرغور سے دیکھا جائے تو جمہور جس کے سر پر تاج رکھ دیتے ہیں، اس کی بادشاہت کی بنیاد بہت دیر پا عناصر پر ہوتی ہے۔ ڈاکٹر جانسن کا قول ہے کہ ’’ادب کی خوبی کا آخری معیار عوام کے قبول کی سند ہے۔‘‘ اس قول میں صداقت ضرور پائی جاتی ہے۔ عوام یوں ہی کسی کو سر پر نہیں بٹھاتے۔ وہ کبھی کبھی سطحی چیزوں سے بھی متاثر ہوتے ہیں مگر تھوڑی دیر کے لئے۔ بہت سے لوگ بہت کافی عرصہ تک اسی چیز کی تعریف کرتے ہیں جو تعریف کے قابل ہو۔ 

    غرض اقبال اس بارے میں کافی خوش نصیب رہے، وہ جو کہنا چاہتے تھے کہہ چکے تھے۔ ان کا مشن پورا ہو گیا تھا اور اگرچہ یہ یقین ہے کہ وہ زندہ رہتے تو ان کے مرکزی خیالات کی اور وضاحت ہو جاتی۔ مگر پھر بھی جو کچھ انہوں نے چھوڑا ہے وہ ہر حیثیت سے مکمل ہے۔ ان کے مرنے کے بعد ملک کے اس سرے سے اس سرے تک صف ماتم بچھی۔ رنج و الم کا اظہار ساری دنیا نے کیا۔ جلسے ہوئے، تقریریں کی گئیں، قراردادیں پاس ہوئیں، بڑے بڑے لوگوں نے ہمدردی کے پیغام بھیجے، ہم لوگ اس سے زیادہ کرتے ہی کیا ہیں، جو کچھ ہوتا آیا ہے، سب ہی ہو گیا۔ 

    مگر ان سب باتوں کے باوجود ہم جانتے ہیں کہ اقبال پر اعتراضات بھی کئے گئے تھے۔ ان اعتراضات کی نوعیت مختلف قسم کی تھی۔ اول اول اشعار کو عروض کے کانٹے پر تولنے اور شخصی اور صنفی معیار رکھنے والے اقبال کی غلطیوں پر ہنستے تھے۔ ’’بھری بزم میں اپنے عاشق کو تاڑا‘‘ آج تک بزرگوں کے لبوں پر تبسم پیدا کرنے کو کافی ہے۔ اقبال نے بہت سی انوکھی ترکیبیں وضع کی تھیں۔ بہت سے نئے استعارے اور تشبیہات پیش کئے تھے، جو کانوں کو اجنبی معلوم ہوتے۔ ان کا حسن بعض نگاہوں میں نہ جچا۔ سورج نکلنے والا ہوتا ہے تو بعض ستارے کچھ دیر تک آنے والی روشنی کا مقابلہ کرتے ہیں مگر کب تک، تھوڑی دیر کے بعد وہ رخصت ہو جاتے ہیں اور سارا عالم مطلع انوار ہو جاتا ہے۔ 

    بہت دنوں تک اقبال پر جو اعتراضات کئے گئے تھے وہ زبان سے متعلق تھے۔ وقت گزرتا گیا۔ شاعر کا کلام مقبول ہوا۔ اس کی شاعری کا سونا زندگی کی بھٹی میں تیار ہوا تھا۔ اس لئے اس میں صداقت بھی تھی اور حسن بھی، اب وہ وقت آیا کہ اقبال اپنے دور پر اثرانداز ہوئے۔ ان کا رنگ مقبول ہوا اور دوسرے شعراء غیرشعوری طورپر ان کا اتباع کرنے لگے۔ اردو شاعری میں فلسفیانہ بلند آہنگی پیدا ہوئی۔ زندگی کے مسائل سے قربت حاصل ہوئی۔ پیامیہ رنگ آیا، زندگی کا امید افزا پہلو سامنے رہنے لگا، ملک و قوم میں بیداری شروع ہوئی۔ ذہن وفکر میں انقلاب ہوا۔ اقبال نے اپنی چیزوں سے محبت سکھائی۔ غیروں سے بے نیازی کا سبق دیا۔ فرد کی صلاحیتوں کو بیدار کرنے کی کوشش کی اور ان صلاحیتوں سے جماعت کے مفاد کا کام کیا۔ غرض ایک نئی نسل تیار کی جو ان کی دماغی پیداوار کہی جا سکتی ہے۔ 

    اب اس نئی نسل نے دیکھا تو اقبال کے کلام میں کئی خرابیاں نظر آئیں۔ ایک نے کہا اقبال کا کلام محدود اور مقامی (Parochial) ہے۔ دوسرے نے اعلان کیا کہ چونکہ اقبال کی زندگی اور شاعری میں تضاد ملتا ہے، اس لئے ان کی شاعری قابل اعتنا نہیں ہے۔ تیسرے نے اور آگے بڑھ کر آواز دی کہ اقبال کی شاعری بے جان ہے۔ زندگی سے اسے کوئی علاقہ نہیں۔ اقبال ایسے ماضی کی یاد میں محو ہے جو کبھی واپس نہیں آسکتا۔ چوتھے کو اقبال کے کلام میں مزدوروں اور جمہوریت کے خلاف وعظ نظر آیا۔ وہ فرمانے لگے کہ اقبال اسلامی فاشسٹ ہے۔ شاعروں نے کہا وہ تو فلسفی ہے۔ اسے شاعری سے کیا غرض۔ فلسفی بولے کہ وہ شاعر ہیں، فلسفہ کی گہرائیاں ان کے بس کی نہیں۔ صلح پسند حضرات ان سے اس وجہ سے ناراض ہوئے کہ وہ قتل و خون کی دعوت دیتے ہیں اور چنگیز و تیمور کو دوست رکھتے ہیں۔ سیاست دانوں کی سمجھ میں ان کی سیاست نہ آئی۔ مولویوں کو یہ گوارا نہ ہوا کہ ان کے بجائے ایک ’’خراباتی‘‘ دین کی حمایت کا جھنڈا بلند کرے۔ یہ شاعری نہیں۔ شواہد ملاحظہ ہوں۔ 

    رسالہ شاعر آگرہ (بابت ستمبر ۱۹۳۵ء میں جناب سیمابؔ اکبرآبادی نے ’بال جبریل‘ کی زبان پر بعض اعتراضات کئے ہیں۔ انہیں صدمہ یہ ہے کہ اقبال نے پرہیز کو مؤنث کیوں استعمال کیا ہے جس کی مثالیں کہیں ڈھونڈنے سے قدما کے یہاں نہیں مل سکتی۔ 

    اشارہ پاتے ہی صوفی نے توڑ دی پرہیز

    ایک اور جگہ اس شعر پر اعتراض ہے،

    مرا سبوچہ غنیمت ہے اس زمانے میں
    کہ خانقاہ میں خالی ہیں صوفیوں کے کدو

    یہاں کدو کا لفظ سیماب کے نزدیک بازاری ہے۔ پھر پوچھتے ہیں،

    اسے صبح ازل انکار کی جرأت ہوئی کیونکر
    تجھے معلوم کیا؟ وہ رازداں تیرا ہے یا میرا

    اس شعر میں ابلیس کا نام کیوں نہیں آیا۔ حالانکہ اتنا سیماب صاحب واقعی سمجھتے ہیں کہ اشارہ اسی طرف ہے۔ بھلا اس کا کوئی کیا جواب دے۔ ایک اور اعتراض ہے،

    وہی اصل مکاں و لامکاں ہے! 
    مکاں کیا شے ہے انداز بیاں ہے

    خضر کیونکر بتائے کیا بتائے؟ 
    اگر ماہی کہے، دریا کہاں ہے؟ 

    دوسرا مصرعہ سیماب صاحب کے نزدیک معما ہے۔ اس طرح یہ شعر بھی،

    مدت سے ہے آوارۂ افلاک مرا فکر
    کردے اسے تو چاند کے غاروں میں نظر بند

    رسالہ کلیم دہلی کی پہلی اشاعت میں نواب جعفر علی خاں اثر لکھنوی نے ’بال جبریل‘ پر ایک تبصرہ لکھا تھا اور اس سلسلہ میں سیماب صاحب کے ان اعتراضات پر اچھی رائے زنی کی تھی۔ لکھنوی شعرا اور اقبال کی زندگی کی گواہی کیا کم ہے۔ بہر حال ان اعتراضات میں سے کوئی اتنا وقیع نہیں ہے جس کے جواب کی کوشش کی جائے۔ مقصد صرف یہ دکھلانا ہے کہ اب بھی ایسے اشخاص موجود ہیں جو علانیہ نہیں تو چھپے دبے ضرور اقبال کی زبان پر اعتراضات کرتے ہیں۔ وہ ترکیب غلط ہے۔ اس محاورے کو صحت کے ساتھ نظم نہیں کیا۔ یہ مؤنث نہیں مذکر ہے۔ یہاں تعقید معنوی پائی جاتی ہے۔ یہاں شعر معما ہوگیا۔ آخر ان سب باتوں کی وجہ کیا ہے؟ 

    شاعری کے دو اسکول ہیں۔ ایک تشبیہات و استعارات سے اپنے کلام کو مرصع کرتا ہے۔ دوسرے محاورات پر جان دیتا ہے۔ دونوں کی اہمیت بڑی ہے مگر یکساں نہیں۔ ایک زمانہ تھا جب محاورے کو شعر کی جان سمجھا جاتا تھا اور جب تصوف، فلسفہ اخلاقیات، سوز و گداز، لطافت، نزاکت اور اس قسم کے دوسرے رسمی عنوانات کے تحت میں کسی پر تنقید ہوتی تھی تو محاورے کو خاص اہمیت دی جاتی تھی۔ ذوق کی شاعری محاورات و امثال سے بھری ہے۔ مگر ذوق کے اچھے شعر صرف اپنی محاورے کی وجہ سے مشہور نہیں۔ داغ کی شاعری زندہ رہنے والی ہے وہ اس وقت سے پہلے کی ہے جب انہیں ہر محاورے کو نظم کرنے کا خیال پیدا ہوا۔ محاورے کی وجہ سے شعر بلند نہیں ہوتا، ہاں اگر اس میں کوئی صداقت موجود ہے تو وہ محاورہ اسے چمکا دیتا ہے۔ 

    در اصل محاورہ بندی شاعری میں اتنی مفید نہیں جتنی تشبیہات استعارات کی فراوانی۔ تشبیہات استعارات اسی لئے شعر میں استعمال ہوتے ہیں کہ ان کے ذریعہ سے معنی آفرینی، حسن آفرینی اور اختصار تینوں کا حق ادا ہو جاتا ہے۔ نئی زبان استعارات سے بنتی ہے۔ کم از کم اس کے سانچے اسی طرح تیار ہوتے ہیں۔ خیال کو نئی راہیں ملتی ہیں۔ ذہنی فضا وسیع ہوتی ہے۔ زبان آگے قدم بڑھاتی ہے۔ اس طرح دیکھئے تو ہمارے تمام اچھے شاعر دو گروہوں میں منقسم ہو جاتے ہیں۔ میرؔ، داغؔ، ذوقؔ زبان کو محفوظ کرنے والے ہیں۔ غالبؔ، اقبالؔ، انیسؔ زبان کو آگے بڑھانے والے ہیں۔ غالبؔ اور اقبالؔ کی ترکیبیں ادب و انشا کے چمن ہیں۔ ان کی حیثیت دیاسلائی کی سی ہے جس سے پڑھنے والوں کو آتش بازی چھوٹتی ہے۔ جب کوئی استعارے اور تشبیہات استعمال کرتا ہے تو کہیں اس کے انداز میں ایک اجنبیت آجاتی ہے۔ ان کے خیال کے سانچوں اور علامتی مترادفات سے لوگ پوری طرح واقف نہیں ہوتے۔ اسی وجہ سے قواعد کی رو سے اعتراضات پیش کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اقبالؔ اور غالبؔ کا کام قواعد کی پابندی نہیں۔ گریمر کا کام ہے کہ ان اشخاص کی مقرر کردہ شاہراہوں پر چلے اور ان کے طرز کو دیکھ کر اپنے قوانین مرتب کرے۔ 

    حضرت شاہ محدث دہلوی کے متعلق مشہور ہے کہ وہ ایک دفعہ کسی آیہ کریمہ کے معجزات بیان کرتے ہوئے یہ بھی فرما گئے تھے کہ اس کی تلاوت سے سبکساران ساحل دام موج و حلقہ ہائے نہنگ، دونوں سے اچھی طرح عہد ہ برآ ہو سکتے ہیں۔ راوی ناقل ہے کہ کسی یتیم یسیر راہ رو کو یہ نسخہ ایسا ہاتھ آگیا تھا کہ روز اپنی ضروریات کے سلسلے میں اسی اسم اعظم کے زور سے جمناپار آ جایا کرتا تھا۔ کچھ عرصہ کے بعد اس نے اظہار عقیدت کے لئے شاہ صاحب موصوف کو مدعو کیا اور اس وقت یہ معلوم ہوا کہ ’’مسیحا‘‘ بھی کبھی بیمار ہو جایا کرتے ہیں۔ 

    قریب قریب ایسا ہی خیال ایک طبقے کا اقبالؔ کے متعلق ہے۔ ’رسالہ جامعہ‘ دہلی میں چند سال ہوئے یحییٰ اعظم گڑھی کی ایک نظم شائع ہوئی تھی۔ اس کا ’انجام‘ کچھ ایسا ہی تھا۔ اخبار ’مدینہ‘ نے اکثر اپنے شذرات میں اس پر افسوس کیا کہ ملک کی بدقسمتی سے ’مجلس آئین و اصلاح و رعایات و حقوق‘ کی تمام سحرکاریوں سے آشنا کلیم، سرمایہ داروں کی فرعونیت سے مسحور ہو جاتا ہے اور ’قفس‘ کو ’آشیاں‘ سمجھنے لگتا ہے۔ یہ لوگ شاعر کے اس قول کو بڑے فخر سے بیان کرتے ہیں۔ 

    اقبال بڑا اپدیشک ہے من باتوں میں موہ لیتا ہے
    گفتار کا یہ غازی تو بنا، کردار کا غازی بن نہ سکا

    مگر اس شعر کو اپنے جواز میں پیش کرنا ایسا ہی ہے جیسا رسالہ ’اردو‘ کے ریویو نگار نے ایک دفعہ کیا تھا۔ سال نامہ ’کارواں‘ کی پہلی اشاعت میں پروفیسر تاثیرؔ نے اقبال کا ایک لطیفہ نقل کیا۔ 

    تاثیرؔ نے جب اقبالؔ سے ’کارواں‘ کے لئے اشعار کی فرمائش کی تو انہوں نے کہا کہ ’’اردو میں شعر نازل ہی نہیں ہوتے‘‘ یہی جملہ ’’اردو‘‘ کے ریویو نگار کی ناراضگی کا باعث ہوا۔ حالانکہ سیکڑوں باتیں تفریح طبع کے طور پر کہی جاتی ہیں۔ ان کو لفظ بہ لفظ صحیح سمجھنا ان کی شعریت کا خون کرنا ہے۔ پھولوں کی خوشبو کو ترازو میں تولنے والے ہی اس شعر سے یہ نتیجہ نکالیں گے کہ ’’یہ اقبال جرم‘‘ ہے۔ 

    مگر اس سے قطع نظر یہ بحث بڑی دلچسپ ہے کہ اقبالؔ کی زندگی اور شاعری میں تضاد ملتا ہے یا نہیں اور یہ تضاد کہاں تک ان کی شاعری کی صداقت میں خلل انداز ہوتا ہے۔ جو لوگ ایسا کہتے ہیں وہ زیادہ تر ۱۹۲۴ء سے ۱۹۳۲ء تک کے دور پر نظر رکھتے ہیں۔ ۱۹۲۴ء میں اقبالؔ کو ’سر‘ کا خطاب ملا۔ سالکؔ صاحب نے ایک نظم لکھی جس کا ماحصل تھا،

    سرکار کی دہلیز پہ، سر ہوگئے اقبالؔ

    پھر وہ پنجاب کونسل کے ممبر منتخب ہوگئے۔ ۱۹۲۸ء میں انہوں نے سر محمد شفیع کے ساتھ مل کر سائمن کمیشن سے تعاون کیا اور ۱۹۳۲ء میں راؤنڈ ٹیبل کانفرنس میں شرکت کے لئے سرکاری نمائندے کی حیثیت سے انگلستان تشریف لے گئے۔ اقبال کی ۶۱ سالہ زندگی میں صرف ۸ سال ایسے نکلتے ہیں جن کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ وہ ان کی شاعری کے عام رجحان سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔ اسی کی بنا پر یہ کہنا صحیح ہوگا کہ عام طور پر اقبال کی زندگی اور ان کی شاعری میں حیرت انگیز یگانگت پائی جاتی ہے اور تھوڑے سے عرصے کو چھوڑ کر جب ان کے قدم ذرا متزلزل ہوگئے تھے، ساری عمر وہ اسی راستے پر گامزن رہے جو ان کی شاعری کا تھا۔ پکارنے والے پکارتے تو ہیں کہ زندگی اور شاعری میں وحدت ضروری ہے۔ مگر یہ ملتی کہاں ہے۔ 

    غالبؔ کا وہ شعر دیکھئے،
    بندگی میں بھی وہ آزادہ و خود بیں ہیں کہ ہم
    الٹے پھر آئے در کعبہ اگر وا نہ ہوا

    اور مکاتیب غالبؔ پڑھئے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ آزادی تو در کنار غالبؔ ضرورت کے وقت طرح طرح سے روپے مانگتے تھے اور جب نواب کلب علی خاں صاحب سے ’آشیاں چیدن‘ والے مسئلے پر اختلاف ہوا تھا تو کس کس طرح سے انہیں خوش کرنے کے لئے جتن کرتے تھے۔ دنیا کے اور بڑے بڑے شعرا کو لیجئے۔ ایک رنگی کم ملے گی، رنگارنگی زیادہ۔ اردو میں داغؔ جیسے لوگ کم ہیں امیرؔ جیسے زیادہ۔ مگر میرا تو خیال یہ ہے کہ ہم آہنگی ضرور سہی مگر لازمی طور پر پائی نہیں جاتی۔ 

    شاعری ایک باطنی تجربے کا روشن تخیل ہے۔ تجربے کا جوہر جتنا قیمتی ہوگا، اسی قدر قیمتی اس کی شاعری ہوگی۔ اس تجربے کا اظہار اشعار میں ہوتا ہے اور اظہار خیال (Expression) کے ذریعے سے ابلاغ خیال (Communication) ہو جاتا ہے۔ چنانچہ شاعر کا مقصد وہیں پورا ہو گیا جہاں اس کے اشعار مکمل ہو گئے۔ شاعر صحیح معنوں میں اپنے اشعار میں جلوہ گر ہوتا ہے۔ جو شخصیت اشعار کے ذریعے سے ظاہر ہوتی ہے اس سے ہمیں سروکار رکھنا چاہئے۔ باقی سب کہانیاں ہیں۔ 

    یوں دیکھیں تو ہمیں اقبالؔ کے کلام میں حیرت انگیز یکسانیت و یگانگت ملتی ہے۔ ان کے کلام اور ان کی زندگی کا راستہ ایک ہے۔ جو شخصیت اشعار میں جھلکتی ہے، وہی لاہور کے ایک گوشے میں نظر آتی تھی۔ ان کی فطانت، ذہانت، ہمہ دانی، ہمہ گیری کو لوگ کتنا ہی روئیں، زندہ رہنے والی چیز وہی ہے جو وہ اپنے اشعار میں چھوڑ گئے ہیں۔ وقت کا اثر اس پر پڑ سکتا ہے۔ اس پر نہیں۔ یہ زمان و مکان سے ماورا ہے۔ اس میں جو تخلیقی قوت ہے وہ ہمیشہ پڑھنے والوں کی تخلیقی قوتوں کو بیدار کرے گی۔ اس چنگاری سے ہمیشہ چراغ روشن ہوتے رہیں گے۔ 

    کچھ اشخاص ایسے بھی ہیں جو اقبال کو مقامی و محدود (Parochial) کہتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اقبال صرف مسلمانوں کے شاعر ہیں۔ دوسروں کو ان سے اور انہیں دوسروں سے کیا سروکار۔ اس خیال کو ذرا آگے بڑھایئے تو ٹیگورؔ کا فلسفہ زندگی صرف ہندوؤں کے لئے۔ گوئٹے کا پیغام سوا المانیوں کے سب کے لئے بے معنی، ملٹن کی تعلیم صرف مسیحی تعلیم کا عکس ہے اور کچھ نہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ خیال کس قدر مضحکہ خیز ہے۔ اقبالؔ عالمگیر انسانیت کا خواب دیکھتے ہیں۔ اس لئے جو راستہ ان کے خیال میں موزوں ہے، اس کی طرف اشارہ کرتے ہیں وہ خالص رومانی اور جمالیاتی شاعری کے خلاف ہیں۔ حدیث بادہ و مینا انہیں گوارا نہیں۔ شیشہ گری سے انہیں نفرت اور خارا شگافی عزیز ہے۔ وہ پہلے وطن کو قدر اعلیٰ اور خاک وطن کے ہر ذرہ کو دیوتا سمجھتے تھے۔ جب ذرا نظر میں وسعت آئی تو دیکھا کہ یہ تصور بہت محدود ہے۔ اس میں صرف آریائی یا صرف المانوی یا صرف اطالوی کی ہی گنجائش ہے۔ جب ان کا ترانہ شائع ہوا۔ 

    چین و عرب ہمارا ہندوستاں ہمارا
    مسلم ہیں ہم، وطن ہے سارا جہاں ہمارا

    تو ان کے بہت سے ہندو دوستوں نے کہا کہ اقبالؔ اب ہمارے شاعر نہیں رہے بلکہ ایک فرقے کے شاعر ہوگئے۔ یہ کہنا صحیح نہیں، ان کی شاعری میں سب کے لئے ’’جنس حیات‘‘ موجود ہے۔ انہوں نے فارسی میں اس وجہ سے شعر کہنے شروع کئے کہ وہ ہندوستان سے باہر تمام عالم اسلامی تک اپنی آواز پہنچانا چاہتے تھے۔ انہوں نے جہاں کہیں وطن کے خلاف کچھ لکھا ہے وہاں اس محدود سیاسی تصور پر اعتراض کیا ہے جس میں اور کچھ نہیں سما سکتا۔ وہ پست اور محدود ذہنیت جس کی بنا پر سفید سرمایہ داروں کی جگہ سیاہ سرمایہ دار اور سفید غاصبوں کی جگہ سیاہ غاصب بدلے جاتے ہیں، اقبال کو پسند نہیں۔ اور وہ وطن پرستی جس کی خاطر قومیں آپس میں لڑتی ہیں، جس کی وجہ سے ایک کی جنت دوسرے کے خون سے بنتی ہے اور ایک کی آبادی اور دوسرے کی ویرانی کا باعث ہوتی ہے۔ جو قوموں کو حلقوں میں بانٹتی ہے اورانسانیت کے پیروں میں زنجیر پہناتی ہے، ان کے نزدیک مضر ہے۔ 

    وہ وطن پرستی کے نہیں وطن دوستی کے علمبردار ہیں۔ وہ وطن کی اصلاح و فلاح کے دل سے خواہاں اور اس کے تمام دکھ درد میں شریک ہونے کو تیار ہیں۔ ’ضرب کلیم‘ میں ایک نظم ہے جو اپنی گوناگوں خوبیوں کی وجہ سے ان کی بہترین نظموں میں شمار کئے جانے کے قابل ہے۔ اس کا عنوان ہے ’’شعاع امید‘‘ چند اشعار ملاحظہ ہوں،

    اک شوخ کرن، شوخ مثالی نگہ حور
    آرام سے فارغ، صفت جوہر سیماب

    بولی کہ مجھے رخصت تنویر عطا ہو
    جب تک نہ ہو مشرق کا ہر اک ذرہ جہاں تاب

    چھوڑوں گی نہ میں ہند کی تاریک فضا کو
    جب تک نہ اٹھیں خواب سے مردان گراں خواب

    خاور کی امیدوں کا یہی خاک ہے مرکز
    اقبال کے اشکوں سے یہی خاک ہے سیراب

    چشم مہ و پرویں اسی خاک سے روشن
    یہ خاک کہ ہے جس کا خزف ریزہ در ناب

    اس خاک سے اٹھے ہیں وہ غواص معافی
    جن کے لئے ہر بحر پر آشوب ہے پایاب

    جس ساز کے نغموں سے حرارت تھی دلوں میں
    محفل کا وہی راز ہے بے گانہ مضراب

    بت خانہ کے دروازے پہ سوتا ہے برہمن
    تقدیر کو روتا ہے مسلماں تہہ محراب

    کیا وطن کی عظمت کا احساس، اس کے بنیادی مسائل کا اظہار، اس کے حال زار پر افسوس اس سے بہتر کہیں ملتا ہے؟ 

    وطنیت کا وہ تصور جس میں اپنے ملک کے سوا کسی کی گنجائش نہیں، اب ختم ہوگیا۔ اسے زندہ کرنے کی جتنی کوششیں ہیں، بے وقت کی راگنیاں ہیں۔ اب تو ساری جماعتوں کو ایک عالمگیر نظام میں منسلک کرنے کا وقت ہے۔ ہر تحریک کا نصب العین یہی ہے، ہر جنگ اپنے ساتھ ایک ایسے نظام کا خواب لاتی ہے جو زخمی دلوں اور تھکے ہوئے دماغوں کے لئے مرہم کا کام کرتا ہے۔ سوشلزم کی طرح اسلام بھی ایک عالمگیر تحریک ہے۔ اس لئے اقبالؔ پر یہ اعتراض کہاں تک جائز ہے کہ وہ ایک فرقے کا شاعر ہے۔ 

    اب بعض ایسے اعتراضات ملاحظہ ہوں جو اس نئی پود کے ہیں۔ جو اپنے زعم میں اقبالؔ سے آگے بڑھ گئی ہے۔ اردو شاعری کو سب سے پہلے اقبالؔ نے زندگی کے مسائل سے آشنا کرایا۔ حالیؔ، اکبرؔ اور چکبستؔ کا کلام نقش اول ہے۔ اقبال کے یہاں ’’گریہ ابر بہار‘‘ اور ’’خندہ تیغ اصیل‘‘ دونوں ملتے ہیں۔ انہوں نے مسائل مہمہ پر رائے زنی بھی کی ہے۔ کبھی خضر کی زباں سے زندگی، سلطنت، سرمایہ داری، مزدور اور دنیائے اسلام کے عقدوں کو حل کیا ہے۔ کبھی شمع کی زبان سے زندگی، گرمی اور سوز و گداز کا پیغام سنایا ہے۔ کبھی نقاب اٹھاکر خود سامنے آتے ہیں۔ 

    بانگ درا اور بال جبریل کی اشاعت میں بارہ تیرہ سال کا فصل ہے۔ اس عرصے میں اقبالؔ کی کئی فارسی کتابیں شائع ہوئیں۔ پیام مشرقؔ، زبور عجمؔ، جاوید نامہؔ، مسافرؔ وغیرہ۔ ان میں حالاتِ حاضرہ پر تبصرے ہیں۔ کتاب دل کی تفسیریں اور خواب جوانی کی تعبیریں ہیں۔ جیتی جاگتی، جانی پہچانی زندگی کے مرقعے ہیں۔ اقبالؔ کی کوششوں سے جدید اردو شاعری میں ایک نیا رنگ و آہنگ پیدا ہوا۔ شاعر شباب، شاعر انقلاب ہوگئے۔ اگر اقبالؔ نہ ہوتے تو آپ ’’ناسزاخوانی‘‘ اور ’’جنگل کی شہزادی‘ والے جوشؔ کا کلا م سنتے رہتے۔ ’’نعرہ شباب‘‘، ’’بغاوت‘‘، ’’کسان‘‘ والے جوشؔ کا وجود ہی نہ ہوتا۔ ’جامن والیاں‘ آپ کو ملتیں۔ لیکن ’ضعیفہ‘ اور مزدور دوشیزہ نہ ہوتیں۔ اسی طرح دوسرے تمام نوجوان شاعر، روش صدیقیؔ، احسان دانشؔ، ساغرؔ، امین حزیںؔ، اثر صہبائی، مجازؔ، حفیظؔ، جمالیاتی احساس کے طلسم میں گرفتار ہوتے۔ ان کے یہاں جو کچھ ہے وہ اس شاعر کی انقلابی آفریں نظموں کی آواز بازگشت ہے۔ 

    جس نے سب سے پہلے سرمایہ دار اور مزدور کی آویزش کو دیکھ کر مزدور کا ساتھ دیا، جس نے آزادی معنی صرف ہوم رول کے نہ لئے، جس نے مذہب کے بنیادی اور عالم گیر اصولوں پر نظر رکھی اور مذہب کے رواجی اور کاروباری نقطہ نظر کے خلاف احتجاج کیا، جس کی حریت فکر نے قدیم سانچوں کو چھوڑ کر خیال کے نئے سانچے بنائے اور آنے والی نسلوں کے لئے سیکڑوں نشان راہ اپنے پیچھے چھوڑے، اس کے خلاف ایک نام نہاد ترقی پسند آرٹ کے ترقی پسند نظریے میں فرماتے ہیں،

    ’’اقبال کی شاعری حالانکہ وہ اس سے کہیں زیادہ زوردار ہے، زیادہ خیالی ہے۔ اس ماضی کے عشق میں جو اپنے مردے کبھی کا دفن کر چکا ہے۔ اقبالؔ اسلام کے رنج و محن کے ترانے گاتے ہیں۔ ایک ناممکن اور بے معنی پین اسلامزم کی دعوت دیتے ہیں اور چیختے، چلاتے، روتے، دھمکاتے، قدیم گل و بلبل کے گیت گاتے (اکثر بڑی خوش الحانی کے ساتھ) اس مرکز پر آجاتے ہیں، جو بڑی حد تک اس قسم کی شاعری کے وجود اور الہام کا بانی مبانی ہے، یعنی ’’اسرار خودی‘‘ لیکن باوجود سیکڑوں شکوؤں اور جوابات شکوؤں کے، باوجود آہ و بکا اور آنسوؤں اور التجاؤں کے وہ جو تھا کبھی واپس نہیں آسکتا۔ (اقبالؔ تو اس میں کامیاب ہوئے نہیں اور جو حقیقت ہے وہ رہے گی)

    ٹیگور اور اقبال کی شاعری بیماروں کی طرح زندگی سے گریز کرتی ہے اور حقیقت کو بھلانے کی خواہش سے پیدا ہوئی ہے۔ اور باوجود اپنی خوبصورتی کے محض خواب و خیال ہے۔ بجائے اس کے کہ یہ ہماری قوت تنقید کو ’جگائے‘ بجائے اس کے کہ وہ ترقی کی ان قوتوں کو مدد دے جو سوسائٹی میں کام کر رہی ہیں۔ یہ ہم کو صرف غیر عملی اور بے حرکتی کی طرف کھینچتی ہے اوراس سے زیادہ رجعت پسندانہ ہے۔ اس شاعری سے متاثر ہوکر، خاص طورپر ٹیگور کی شاعری سے ہمارے دیس کا بیشتر حصہ ایک بے جان ادب سے بھر گیا ہے۔ ایک ایسا ادب جو زندگی سے کوئی تعلق نہیں رکھتا اور بالکل تنگ نظر ہے اور آرٹ میں بھی یہی مذہبی اورمعرفتی رجحان دکھائی دیتا ہے، وہی اپنی زندگی کے اصلی اور اہم مسئلوں سے دور بھاگتا۔‘‘ (رسالہ اردو)

    میں نے اقبالؔ کے متعلق پورا اقتباس اس وجہ سے دے دیا ہے کہ تحریف کا شبہ نہ رہے۔ اسے غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ آدمی اپنی دلیل کو منوانے کے لئے بعض اوقات کس قدر ناانصافی پر اتر آتا ہے۔ احمد علی صاحب کو اقبال سے یہ شکایت ہے کہ،

    (ا) اقبالؔ کی شاعری خیالی ہے۔ 

    (۲) وہ ایک ناممکن اور بے معنی پین اسلامزم کی دعوت دیتی ہے۔ 

    (۳) بیماروں کی طرح زندگی سے گریز کرتی ہے، اور حقیقت کو بھلانے کی خواہش سے پیدا ہوئی ہے۔ 

    (۴) وہ ہم کو بے عملی کی طرف کھینچتی ہے۔ 

    (۵) رجعت پسندانہ ہے۔ 

    اس فرد جرم کو دیکھئے، کوئی بھی اسے تسلیم کر سکتا ہے۔ اقبالؔ اور ٹیگورؔ کا فسلفۂ زندگی بہت مختلف ہے۔ مگر دونوں اپنے دور کی تمام خصوصیات کے آئینہ دار، اپنی نئی نسلوں کے قائد ذہنی ہیں۔ ٹیگورؔ کی شاعری میں مذہبی، رومانی اور صوفیانہ، تینوں پہلو ملتے ہیں۔ کسی رتھ کے آنے کا وہ ہمیشہ منتظر ہے مگر اس کا دل درد سے لبریز اور آنکھیں آنسوؤں سے نمناک ہیں۔ اپنے گرد و پیش سے، ماحول کے تقاضوں سے وہ متاثر ہوتا ہے، اس کی شاعری میں باوجود رومانی اثرات کے واقعیت ملتی ہے۔ من کی دیوی کا یہ پجاری دنیا کے کرب و تکلیف کا علاج ایک روحانی شانتی میں دیکھتا ہے۔ اہل نظر جانتے ہیں کہ اس میں گرمی اور حرارت موجود ہے۔ ظاہر میں یہ کہتے ہیں کہ ٹیگورؔ الفاظ کے تانے بانے میں خیالی دنیا کے خواب بنتا ہے۔ خود شاعر ایسے لوگوں سے یہ کہہ کر خاموش ہو جاتا ہے۔ ’’ ہتھوڑے کی ضربیں نہیں بلکہ آب رواں کا رقص اپنے نغموں سے سنگ ریزوں کو سڈول بناتا ہے۔ ٹھوکر زمین سے گرد پیدا کر سکتی ہے، اناج نہیں۔‘‘ 

    مگر اقبالؔ پر تو یہ اعتراض وارد ہو ہی نہیں سکتا۔ جس نے شاعری کو خیالی فضاؤں سے نکال کر عمل کی دنیا میں سیرکرائی۔ جس نے زندگی کے مسائل، جہالت، غربت، غلامی کی طرف اپنے سامعین کو متوجہ کیا۔ جس کے تخیل کی رنگ آمیزی سے زندگی کی تصویر اور بھی شوخ ہوگئی ہے۔ اس کی شاعری کو خیالی کہنا ہرگز صحیح نہیں۔ یہاں صرف اس قدر اشارہ کافی ہے، اس کی تشریح میں یہ داستان بہت طویل ہو جائے گی۔ دوسری چیز چونکہ ایسی ہے جس کے متعلق موافق یا مخالف رائے دی جا سکتی ہے۔ اس لئے اس پر زیادہ اصرار مناسب نہیں۔ پین اسلامزم ناممکن اور بے معنی ہے۔ یا فطری اور قرین قیاس اس کا جواب سوائے وقت کے اور کوئی نہیں دے سکتا۔ لیکن جس طرح ساری دنیا کے مزدوروں کو ایک شیرازے میں منسلک کرنے کی صدا بے معنی نہیں کہی جاسکتی۔ (Workers of the world unity) اسی طرح ایک خدا اور رسولؐ کا کلمہ پڑھنے والوں کو یکجا کرنے کی کوشش بے معنی کیسے ہو سکتی ہے؟ 

    اسلام کی حقیقی تعلیم پر عرب و عجم، روم و تاتار، زنگی و خوارزمی کا پردہ پڑ گیا تھا، وہ اٹھ جائے تو یہ حقیقت پھر سامنے آ جائے گی کہ تمام مسلمانوں کے دل الگ الگ ہوتے ہوئے اور اپنی مخصوص حالت میں گرفتار ہونے کے باوجود بھی ایک ہی طرح دھڑکتے ہیں۔ شام و فلسطین میں جو زیادتی ہو رہی ہے اس پر نہ صرف آزاد ترکی مضطرب ہے بلکہ غلام ہندوستان اور نیم آزاد عراق و مصر بھی بے چین ہیں۔ اس چنگاری کو شعلہ بنتے کتنی دیر لگتی ہے؟ 

    آگے چل کر ہمارے یہ ترقی پسند مصنف دعویٰ کرتے ہیں کہ اقبال کی شاعری بیماروں کی طرح زندگی سے گریز کرتی ہے اورحقیقت کو بھلانے کی خواہش سے پیدا ہوئی ہے۔ اس سے زیادہ ناانصافی کسی کے ساتھ نہیں ہوسکتی کہ وہ ایک طرف سے لڑے اور دوسری طرف اس کا نام لکھا جائے۔ حقیقت کو بھلانے کی خواہش کا نتیجہ کیا ہوتا ہے۔ انسان یا تو تصوف کی یا فلسفہ کی پناہ لیتا ہے اور نہیں تو جذبات نگاری کے سیلاب میں غرق ہو جاتا ہے۔ اقبالؔ ان تینوں گمراہیوں سے واقف ہیں۔ وہ انہیں بے راہ وادیاں کہتے ہیں۔ ان کا فلسفہ وہ ہے جو ’’خون جگر سے لکھا جائے‘‘ جس میں ’’مستی کردار‘‘ نمایاں ہو۔ ان کا تصوف ’’مسکینی و محکومی و نومیدی جاوید‘‘ والا تصوف نہیں۔ ان کی ’’ شرح محبت میں عشرت منزل حرام ہے‘‘ انہیں یقین ہے کہ ’’رسم ورہ خانقہی‘‘ غلط ہے اور اس شعلہ نم خوردہ سے چنگاریاں نہیں نکل سکتیں، وہ پیر حرم سے کہتے ہیں کہ وہ نوجوانوں کو خارا شگافی سکھائے۔ اس لئے ان کے کلام کے متعلق یہ کہنا کہ زندگی سے گریز کرتا ہے (Escapist) ہرگز صحیح نہیں ہوسکتا۔ 

    اقبالؔ زندگی کو بھلانے کے لئے نہیں، زندگی کی تلخیوں سے سب کو آشنا کرانے کے لئے اور ہو سکے تو ان کو گوارا بنانے کے لئے آیا تھا۔ برسوں سے اردو کے شاعر، ساری دنیا سے الگ اپنی دنیا آباد کئے بیٹھے تھے۔ زندگی کا تقاضا کچھ تھا اور شعراء کا کچھ۔ یہ خیالی فضاؤں میں پرواز، پر پیچ انداز بیان، استعارہ کے اندر استعارہ اور تشبیہ کے اندر تشبیہ، یہ بہت سے شعرا کا سرمایہ کمال تھا۔ اقبالؔ نے اس بت کو توڑا۔ جمالیاتی نقطہ نظر کے خلاف جہاد کیا۔ (Best for arts sake) کے فریب کی قلعی کھولی، پھر بھی انہیں زندگی سے گریزاں کہا جائے تو اس کا کیا علاج۔ 

    کیا اقبالؔ کی شاعری بے عملی کی طرف لے جاتی ہے۔ کیا ان کی تعلیم سے قوائے عمل شل ہو جاتے ہیں۔ کیا وہ اپنی بانسری کے نغموں سے راستہ چلتے لوگوں کو اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں یا ان کی تانوں سے بجھے ہوئے دل جوش میں آجاتے ہیں اور قلب میں گرمی پیدا ہوجاتی ہے؟ ان اشعار کو پڑھئے ان سے مترشح ہوتا ہے۔ 

    یہی آئین قدرت ہے یہی اسلوب فطرت ہے
    جو ہے راہ عمل میں گامزن محبوب فطرت ہے

    کیوں گرفتار طلسم ہیچ مقداری ہے تو
    دیکھ تو پوشیدہ تجھ میں شوکت طوفاں بھی ہے

    شعلہ بن کر پھونک دے خاشاک غیر اللہ کو
    خوف باطل کیا کہ ہے غارت گر باطل بھی تو

    تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا
    ورنہ گلشن میں علاج تنگی داماں بھی ہے

    ہر مسلماں رگ باطل کے لئے نشتر تھا
    اس کے آئینہ ہستی میں عمل جوہر تھا

    جو بھروسا تھا اسے قوت بازو پر تھا
    ہے تمہیں موت کا ڈر، اس کو خدا کا ڈر تھا

    ہر کوئی مست مے ذوق تن آسانی ہے
    تم مسلماں ہو، یہ انداز مسلمانی ہے

    تم ہو گفتار سراپا وہ سراپا کردار
    تم ترستے ہو کلی کو، وہ گلستاں بہ کنار

    آج بھی ہو جو براہیم کا ایماں پیدا
    آگ کر سکتی ہے انداز گلستاں پیدا

    اسی کشاکش پیہم سے زندہ ہیں اقوام
    یہی ہے راز تب و تاب ملت عربی

    پختہ تر ہے گردش پیہم سے جام زندگی
    ہے یہی اے بے خبر راز دوام زندگی

    اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے
    سر آدم ہے ضمیر کن فکاں ہے زندگی

    زندگانی کی حقیقت کوہ کن کے دل سے پوچھ
    جوئے شیر و تیشہ و سنگ گراں ہے زندگی

    آشکارا ہے یہ اپنی قوت تسخیر سے
    گرچہ اک مٹی کے پیکر میں نہاں ہے زندگی

    ہو صداقت کے لئے جس دل میں مرنے کی تڑپ
    پہلے اپنے پیکر خاکی میں جاں پیدا کرے

    زندگی کی قوت پنہاں کو کر دے آشکار
    تایہ چنگاری فروغ جاوداں پیدا کرے

    یہ گھڑی محشر کی ہے تو عرصہ محشر میں ہے
    پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے

    کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زور بازو کا
    نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں

    یقیں محکم، عمل پیہم، محبت فاتح عالم
    جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں

    عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
    یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے

    خورشید جہاں تاب کی ضو ترے شرر میں
    آباد ہے اک تازہ جہاں تیرے ہنر میں
    جچتے نہیں بخشے ہوئے فردوس نظر میں
    جنت تری پنہاں ہے ترے خون جگر میں
    اے پیکر گل کوشش پیہم کی جزا دیکھ

    ’ضرب کلیم‘ کے ناظرین سے خطاب دیکھئے،

    جب تک نہ زندگی کے حقائق پہ ہو نظر
    تیر از جاج ہو نہ سکے گا حریف سنگ

    یہ زور دست و ضربت کاری کا ہے مقام
    میدان جنگ میں نہ طلب کر نوائے چنگ

    خون دل و جگر سے ہے سرمایہ حیات
    فطرت لہو ترنگ ہے غافل نہ جل ترنگ

    صرف ایک فارسی قطعہ اور ملاحظہ ہو،

    میا را بزم بر ساحل کہ آنجا
    نوائے زندگانی نرم خیز است

    بدریا غلط و با موجش در آویز
    حیات جاوداں اندر تیز است

    حرکت عمل و پیکار کا فلسفہ سکھانے والے کے متعلق یہ کہا جائے کہ وہ بے عملی کی تعلیم دیتا ہے۔ ’انتہا‘ ہے۔ ماضی کے گڑے مردوں کو اکھاڑنے والے کا یہ پیغام بھی دیکھئے،

    نغمہ بیداری جمہور ہے سامان عیش
    قصہ خواب آور اسکندر و جم کب تلک

    آفتاب تازہ پیدا بطن گیتی سے ہوا
    آسماں ڈوبے ہوئے تاروں کا ماتم کب تلک

    کیفیت باقی پرانے کوہ و صحرا میں نہیں
    ہے جنوں تیرا نیا، پیدا نیا ویرانہ کر

    ہاں یہ سچ ہے چشم بر عہد کہن رکھتا ہوں میں
    اہل محفل سے پرانی داستاں کہتا ہوں میں

    یاد عہد رفتہ میری خاک کو اکسیر ہے
    میرا ماضی میرے استقبال کی تفسیر ہے

    سامنے رکھتا ہوں اس دور نشاط افزا کو میں
    دیکھتا ہوں دوش کے آئینہ میں فردا کو میں

    کھول کر آنکھیں مرے آئینہ گفتار میں
    آنے والے دور کی دھندلی سی اک تصویر دیکھ

    آب رواں کبیر تیرے کنارے کوئی
    دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب! 

    پردہ اٹھادوں اگر میں عالم افکار سے
    لانہ سکے گا فرنگ میری نواؤں کی تاب

    اعتراض کرنے والے یہ دیکھ لیتے ہیں کہ اقبالؔ ماضی کے شاعر ہیں۔ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ اقبال جتنے ماضی کے شاعر ہیں اتنے ہی حال و مستقبل کے شاعر بھی ہیں۔ اقبال نے زمانے کو خانوں میں تقسیم نہیں کیا، وہ زمان و مکان کو ایک عارف کی نظر سے دیکھتے ہیں، وہ اپنے سامعین کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں، یہ دیکھئے کہ ان پر رجعت پسندی کا الزام کہاں تک عائد ہو سکتا ہے۔ 

    رجعت پسندی کسے کہتے ہیں؟ اسمتھ نے ’’ہندوستان میں جدید اسلام‘‘ میں لکھا ہے کہ رجعت پسند وہ ہے جو یہ جان کر کہ اس کی سوسائٹی کا نظام بدل رہا ہے اس کے خلاف رد عمل ظاہر کرے۔ رجعت پسند نہ صرف اجتماعی ترقی کی مخالفت کرتا ہے بلکہ کسی پچھلے نظام کو واپس لانے کی یا دوبارہ قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ قدامت پسند محض ہر تبدیلی کی مخالفت کرتا ہے اور موجودہ حالات کوایسے ہی رہنے دینا چاہتا ہے۔ گویا رجعت پسندی، قدامت پسندی کے بھی آگے اور اس کی آخری خندق ہے۔ اقبالؔ کے اوپر ان میں سے کوئی اصطلاح یوں نہیں صادق آتی کہ وہ ایک پرانے نظام کے اصولوں کو ضرور ملحوظ رکھتے ہیں مگر وہ نئے تجربات اور نئے حالات کے خلاف نہیں ہیں۔ وہ خود اپنے الفاظ میں ’’نہ ابلہ مسجد‘‘ ہیں ’’نہ تہذیب کے فرزند‘‘ ان کا اصول وہی ہے جو مولوی عبد الحق صاحب نے انجمن ترقی پسند مصنفین کے سالانہ جلسے میں بیان کیا تھا کہ ’’کوئی چیز نہ محض اس وجہ سے اچھی ہے کہ وہ نئی ہے اورنہ اس وجہ سے بری ہے کہ وہ پرانی ہے۔‘‘ افسوس ہے کہ اس انجمن کے اکثر ارکان اسے فراموش کر چکے ہیں۔ 

    اقبالؔ کے دل میں آزادی کی سچی تڑپ موجود ہے۔ حریت فکر پر وہ جان دیتے ہیں۔ سرمایہ دار کے دشمن اور مزدور کے حامی ہیں۔ مولوی اور ملا سے نفرت کرتے ہیں، صوفیوں کی بدمذاقیوں سے نالاں ہیں اور خانقاہوں کے خلاف، ان کا مذہب رسم و رواج نہیں، اسلام ہے، غلامی کی ذلت کا خیال کر کے انہیں شرم آتی ہے۔ خدا سے شکوہ کرتے ہیں کہ تو نے مجھے اس دیس میں کیوں پیدا کیا جہاں کے بندے غلامی پر رضامندہیں۔ پھر بھی انہیں رجعت پسند کہنا کیسے صحیح ہو سکتا ہے۔ شاید وہ چیزیں جس میں اشتراکیت، مذہب سے بغاوت اور مادہ پرستی کی تلقین موجود نہ ہو، رجعت پسندانہ ہے۔ ہمارے نام نہاد نقاد خود اسلام کو رجعت پسند کہتے ہیں اس لئے انہیں اقبالؔ بھی ویسے ہی نظر آئے۔ بہرحال میں چند متفرق عنوانات پر کچھ شعر پیش کرکے آگے بڑھنا چاہتا ہوں۔ دیکھئے ان سے قدامت ٹپکتی ہے یا جدیدیت، رجعت پسندی یا آزاد خیالی؟ آزادی کی تڑپ دیکھئے،

    بندگی میں گھٹ کے رہ جاتی ہے اک جوئے کم آب
    اور آزادی میں بحر بیکراں ہے زندگی

    غلامی کیا ہے ذوق حسن و زیبائی سے محرومی
    جسے زیبا کہیں آزاد بندے ہے وہی زیبا

    بھروسہ کر نہیں سکتے غلاموں کی بصیرت پر
    کہ دنیا میں فقط مردان حر کی آنکھ ہے بینا

    وہی ہے صاحب امروز جس نے اپنی کوشش سے
    زمانے کے سمندر سے نکالا گوہر فردا

    اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
    جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی

    ’’رہبانیت ملا‘‘ صوفی اور زاہد کے خلاف اشعار ملاحظہ ہوں،

    قوم کیا چیز ہے، قوموں کی امامت کیا ہے
    اس کو کیا جانیں یہ بے چارے دو رکعت کے امام

    ملا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت
    ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد

    اے پیر حرم! رسم و رہ خانقہی چھوڑ
    مقصود سمجھ میری نوائے سحری کا

    اللہ رکھے تیرے جوانوں کو سلامت
    دے ان کو سبق خود شکنی خود نگری کا

    اے مرد خدا تجھ کو وہ قوت نہیں حاصل
    جا بیٹھ، کسی غار میں اللہ کو کر یاد

    مسکینی و محکومی و نومیدی جاوید
    جس کا یہ تصور ہے وہ اسلام کر ایجاد

    ممکن نہیں تخلیق خودی خانقہوں سے
    اک شعلہ نم خو ردہ سے ٹوٹے گا شرر کیا

    رہا نہ حلقہ صوفی میں سوز مشتاقی
    فسانہ ہائے کرامات رہ گئے ہیں

    کرے گی داور محشر کو شرمسار اک روز
    کتاب صوفی و ملا کی سادہ اوراقی

    صوفی کی طریقت میں فقط مستی احوال
    ملا کی شریعت میں فقط مستی گفتار

    شاعر کی نو امردہ و افسردہ و بے ذوق
    افکار نہ سرمست نہ خوابیدہ نہ بیدار

    وہ مرد مجاہد نظر آتا نہیں مجھ کو
    ہو جس کی رگ و پے میں فقط مستی کردار

    ایک اورجگہ لکھتے ہیں،
    کریں گے اہل نظر تازہ بستیاں آباد
    مری نگاہ نہیں سوئے کوفہ و بغداد

    نہ فلسفی سے نہ ملا سے ہے غرض مجھ کو
    یہ دل کی موت وہ اندیشہ و نظر کا فساد

    میں جانتا ہوں انجام اس کا
    جس معرکے میں ملا ہوں غازی

    ایک ترقی پسند مصنف کی گہر افشانیاں آپ نے دیکھیں۔ انہیں کے ایک ہم خیال نے علی گڑھ کے ایک جلسے میں اقبالؔ کے کلام پر ایک اور اعتراض کیا تھا۔ ان کا خیال یہ تھا کہ اقبالؔ جنگ کی حمایت کرتے ہیں۔ خون ریزی کے مرید ہیں۔ جہاد کو ایک اسلامی فریضہ سمجھتے ہیں اور چیتے کا جگر اور شاہین کی نظر پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ یہ واقعہ ہے کہ شاہین کی حیثیت اقبالؔ کے یہاں وہی ہے جو کیٹسؔ کی ’بلبل‘ اور شیلےؔ کی Sky Lark کی ہے۔ شاہین اقبالؔ کا محبوب پرندہ ہے۔ شاہین میں بعض ایسی صفات جمع ہو گئی ہیں جو اقبالؔ کی مرکزی تعلیم سے ہم آہنگ ہیں۔ خود اقبالؔ کے الفاظ ہیں،

    پرندوں کی دنیا کا درویش ہے یہ
    کہ شاہیں بناتا نہیں آشیانہ

    علاوہ اس کے خوددار و غیرت مند ہے کہ اور کے ہاتھ مارا ہوا شکار نہیں کھاتا۔ بے تعلق ہے کہ آشیانہ نہیں بناتا۔ بلند پرواز ہے، خلوت پسند ہے، تیز نگاہ ہے، گویا شاہین میں اسلامی فقر کے تمام خصوصیات پائے جاتے ہیں۔ دیکھئے اس کا ذکر کس طرح آیا ہے،

    نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
    تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں

    عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
    نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں

    بچہ شاہیں سے کہتا تھا عقاب سال خورد
    اے ترے شہپر بہ آساں رفعت چرخ بریں

    ہے شباب اپنے لہو کی آگ میں جلنے کا نام
    سخت کوشی سے ہے تلخ زندگانی انگبیں

    جو کبوتر پر جھپٹنے میں مزا ہے اے پسر
    وہ مزا شاید کبوتر کے لہو میں بھی نہیں

    نوا پیدا کراے بلبل کہ ہو تیرے ترنم سے
    کبوتر کے تن نازک میں شاہیں کا جگر پیدا

    کیا میں نے اس خاکداں سے کنارا
    جہاں رزق کا نام ہے آب ودانہ

    بیاباں کی صحبت خوش آتی ہے مجھ کو
    ازل سے ہے فطرت مری راہبانہ

    جھپٹنا، پلٹنا، پلٹ کر جھپٹنا
    لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ

    آخری شعر ملاحظہ ہو۔ جس قوم کے دل و دماغ پر بے حسی طاری ہو چکی ہو، جس کی رگوں کا خون منجمد ہو چکا ہو، جو جمالیاتی قدروں کے پیچھے اپنی ساری گرمی اور حرارت کھو چکی ہو، اس کے لئے روح میں قوت پیدا کرنا، اسے حرکت عمل اور پیکار کا فلسفہ سکھانا، اسے خود اعتمادی کا سبق پڑھانا، اسے مغرب کی پے در پے برق سامانیوں کے آگے مستحکم رکھنا، کیوں جرم قرار دیا جائے۔ اقبالؔ جہاد کے قائل ہیں، مگر ہر جگہ نہیں۔ صرف دو صورتوں میں اقبالؔ جہاد کو جائز سمجھتے ہیں۔ محافظانہ اور مصلحانہ۔ اس کے سوا جہاد کو وہ جائز نہیں کہتے۔ 

    وہ جنگ کے حامی نہیں، مسلمانوں میں قوت کا احساس پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ خود کہتے ہیں کہ جو مزہ کبوتر پر جھپٹنے میں ہے، وہ کبوتر کے لہو میں نہیں۔ گویا مقصود بالذات خوں ریزی نہیں۔ اپنے آپ کو تندرست رکھنا ہے اور موجودہ حالات میں جب کہ تن آسانی تمام قوموں میں عام ہو گئی ہے اور امن پسندی (Pacifism) کے منفی اثرات نے مسلمانوں کو مغلوب کرنا شروع کر دیا ہے، وہ جاندار فلسفہ جو خون جگر سے لکھا جائے اور جس میں مستی کردار، لہو ترنگ اور خارا شگافی کی شان ہو، لائق تحسین و تقلید ہے۔ اقبالؔ صرف رزم کے نہیں بزم کے بھی مرد میدان ہیں۔ وہ صرف سپاہی پیدا کرنا نہیں چاہتے، وہ انسان پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا نصب العین ان اشعار سے واضح ہوگا۔ 

    گزر جا بن کے سیل تند رو کوہ و بیاباں سے
    گلستاں راہ میں آئے تو جوئے نغمہ خواں ہوجا

    مصاف زندگی میں سیرت فولاد پیدا کر
    شبستان محبت میں حریر و پرنیاں ہو جا

    ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
    رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن

    جس سے جگر لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم
    دریاؤں کے دل جس سے دہل حائیں وہ طوفاں

    وہی جواں ہے قبیلہ کی آنکھ کا تارا
    نگاہ جس کی ہے بے لاگ، ضرب ہے کاری

    اگر ہو جنگ تو شیران غاب سے بڑھ کر
    اگر ہو صلح تو رعنا غزال تاتاری

    یہ تعلیم عین اسلام کی تعلیم ہے جو صلح و آشتی کا پیغام لے کر دنیا میں آیا۔ جس کے نام میں امن کا لفظ موجود ہے۔ مگر جس نے بوقت ضرورت یا بوجہ مجبوری ’مرد غازی‘ کی جگر تابی دکھائی۔ 

    جنگ کو بے وقت کی راگنی کہنے والے آج بہت سے موجود ہیں۔ اقبالؔ جنگ کے ہرگز حامی نہیں نہ ان کے الفاظ میں کوئی مسلمان شریعت کے حدود معینہ کے ہوتے ہوئے اس کا حامی ہو سکتا ہے۔ اپنے خط میں لکھتے ہیں کہ ’’دین اسلام نفس انسانی اور اس کی مرکزی قوتوں کو فنا نہیں کرتا بلکہ ان کے لیے حدود عمل متعین کرتا ہے۔ ان حدود کے معین کرنے کا نام اصطلاح اسلام میں شریعت یا قانون الٰہی ہے۔ خودی خواہ مسولینیؔ کی ہو خواہ ہٹلرؔ کی، قانون الٰہی کی پابند ہو جائے تو مسلمان ہو جاتی ہے۔ مسولینیؔ نے حبشہ کو رجوع الارض کی تسکین کے لئے پامال کیا۔ مسلمانوں نے اپنے عروج کے زمانے میں حبشہ کی آزادی کو محفوظ رکھا۔ فرق اس قدر ہے کہ پہلی صورت میں خودی کسی قانون کی پابند نہیں، دوسری صورت میں قانون الٰہی اور اخلاق کی پابند ہے۔‘‘ 

    ابھی اقبالؔ کے خلاف اعتراضات ختم نہیں ہوتے۔ اختر حسین رائے پوری اپنے مضمون ’’ادب اور زندگی‘‘ (مطبوعہ رسالہ اردو جولائی ۳۵ء) میں فرماتے ہیں۔ 

    ’’اقبال فاشسطینت کا ترجمان ہے اور یہ در حقیقت زمانہ حال کی جدید سرمایہ داری کے سوائے کچھ نہیں۔ تاریخ اسلام کا ماضی اقبالؔ کو بہت شاندار معلوم ہوتا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ مسلمانوں کا دور فتوحات اسلام کے عروج کی دلیل ہے اوران کا زوال یہ بتلاتا ہے کہ مسلمان اسلام سے منحرف ہو رہے ہیں۔ حالانکہ یہ ثابت کرنا مشکل ہے کہ اسلام کی ابتدائی فتوحات عرب ملوکیت کی فتوحات نہیں تھیں اور تاریخ کے کسی دور میں بھی اسلامی تصور زندگی پر عمل بھی ہوا تھا۔ بہرحال وطنیت کا مخالف ہوتے ہوئے بھی اقبالؔ قومیت کا اس طرح قائل ہے جس طرح مسولینی۔ اگر فرق ہے تو اتنا ہے کہ ایک کے نزدیک قوم کا مفہوم نسلی ہے اور دوسرے کے نزدیک مذہبی فاشسٹوں کی طرح۔ وہ بھی جمہور کو حقیر سمجھتا ہے۔ فاشزم کا ہمنوا ہو کر وہ اشتراکیت اور ملوکیت دونوں کی مخالفت کرتا ہے۔ ملوکیت و سرمایہ داری کا وہ اس حد تک دشمن ہے جس حد تک متوسط طبقہ کا ایک آدمی ہو سکتا ہے۔ اقبال مزدوروں کی حکومت کو چنداں پسند نہیں کرتا۔ وہ اسلامی فاشسٹ ہے۔‘‘ 

    اس رائے کا خلاصہ یہ ہوسکتا ہے،

    (۱) اقبالؔ فاشسطینت کا ترجمان ہے۔ 
    (۲) ملوکیت وسرمایہ داری کا یونہی سا دشمن ہے۔ 
    (۳) جمہور کو حقیر سمجھتا ہے۔ 
    (۴) مزدوروں کی حکومت کوچنداں پسند نہیں کرتا۔ 

    اقبالؔ کو فاشسٹ کیوں کہا جاتا ہے۔ کچھ لوگ تو اس وجہ سے یہ دھوکا کھاتے ہیں کہ ’’بال جبریل‘‘ میں اقبالؔ نے مسولینی کے متعلق ایک نظم لکھی ہے جس میں مسولینی کی تعریف کی ہے اور روما کی مردہ سرزمین میں زندگی کی حرارت پیدا کرنے پر اسے مبارک باد دی ہے۔ نظم کے دو شعر ملاحظہ ہوں،

    رومہ الکبریٰ دگرگوں ہو گیا تیرا ضمیر
    ایں کہ می بینم بہ بیداری است یا رب یا بخواب

    چشم پیران کہن میں زندگانی کا فروغ
    نوجواں تیرے ہیں سوز آرزو سے سینہ تاب

    حالانکہ وہ ’’ضرب کلیم‘‘ کی وہ نظم بھول جاتے ہیں جس میں مسولینی اپنے مشرقی اور مغربی حریفوں سے خطاب کرتا ہے۔ نظم کا آخری شعر ہے،

    پردہ تہذیب میں غارت گری آدم کشی
    کل روا رکھی تھی تم نے میں روا رکھتا ہوں آج

    اس کے علاوہ چونکہ اقبالؔ نے کہیں کہیں اشتراکیت کے بعض اصولوں پر اعتراض کیا ہے اس لئے بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ فاشسٹ ہیں۔ حالانکہ وہ ان تمام چیزوں سے بلند ہیں۔ میں نے ان سے ایک خط میں دریافت کیا تھا کہ فاشزم اور کمیونزم کے متعلق کیا رائے رکھتے ہیں؟ اس کے جواب میں انہوں نے لکھا کہ ’’میرے نزدیک فاشزم اور کمیونزم یا زمانہ حال کے اور ’ازم‘ کوئی حقیقت نہیں رکھتے۔ میرے عقیدے کی روسے صرف ’اسلام‘ ہی ایک حقیقت ہے جو بنی نوع انسان کے لئے ہر نقطہ نگاہ سے موجب نجات ہوسکتی ہے۔‘‘ اب اس کے بعد معترضین کی تشفی ہو جانی چاہئے۔ مگر مزید اطمینان کے لئے میں فاشزم تجزیہ کرکے یہ دکھلانا چاہتا ہوں کہ اقبالؔ کو کیوں فاشسٹ کہا گیا اور در حقیقت وہ اس سے کتنے دور ہیں۔ 

    فاشزم در حقیقت سرمایہ داری کی ایک مخصوص شکل ہے۔ جب ہر طرف سے سرمایہ داروں پر غوغہ ہونے لگا تو اس نے اپنے بچاؤ کے لئے فاشزم کی شکل اختیار کی۔ اس کا کوئی خاص نصب العین (Ideology) نہیں۔ سوشلزم کی مخالفت اس کے تخیل کی اساس ہے۔ اس کا مقصد جمہور کی فلاح و بہبود نہیں۔ جمہور کو اپنے پنجہ اقتدار میں رکھنا ہے۔ اس اقتدار کو حاصل کرنے کے لئے وہ مزدوروں کا ہمدرد بن کر سامنے آیا ہے۔ تشدد کے ماحول میں یہ پھلتا پھولتا ہے۔ بغیر تشدد کے فاشزم کا وجود ہی ممکن نہیں۔ جبر و استبداد اس کا حربہ ہے اور موقع بموقع یہ اپنی طاقت کے استعمال سے نہیں چوکتا۔ اختلاف آراء اسے گوارا نہیں۔ آزادی کا یہ قائل نہیں۔ حریت فکر کا گلا گھونٹنا چاہتا ہے۔ عوام کو ورغلانے کے لئے وطن یا رنگ یا نسل کا کوئی ڈھونگ کھڑا کرتا ہے۔ مقصد اس سے اپنے طبقے کے اقتدار کو مستحکم کرنا ہوتا ہے۔ 

    فاشزم نے ایک چیز سوشلزم سے بھی لی ہے۔ یہ ہے پیداوار کے ذرائع پر سرکار کا قبضہ، مگر اس کا مقصد مناسب اور موزوں تقسیم نہیں۔ ایک خاص طبقے کے نفع کے لئے تقسیم ہے۔ اقبالؔ کو ان میں سے کسی اصول سے ہمدردی نہیں۔ ہاں صرف ایک چیز ایسی ہے جو فاشزم میں پائی جاتی ہے اور اقبالؔ بھی اس کے حامی معلوم ہوتے ہیں۔ یہ ہے ’’آمریت‘‘ (Dictatorship)۔ اقبال نے اپنا فلسفہ زندگی نطشےؔ سے اخذ کیا ہے۔ وہ مرد منتظر کے قائل ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ نطشےؔ کا ’’فوق البشر‘‘ اقبال کے یہاں آکر ’’خیرالبشر‘‘ ہوگیا ہے۔ اب جہاں کہیں وہ یہ دیکھتے ہیں کہ ایک زبردست شخصیت نے لاکھوں بے جان روحوں کو دوبارہ زندگی بخشی ہے اور انہیں سوز آرزو سے مالامال کر دیا ہے، تو وہ اس کی تعریف کرتے ہیں۔ اس کے یہ معنی نہیں کہ وہ ویسا ہی ہونا چاہتے ہیں۔ میں نے انہیں لکھا تھا کہ،

    ’’مسولینی‘‘ کے متعلق جو کچھ آپ نے لکھا ہے اس میں مجھے تناقض نظرآتا ہے۔‘‘ جواب میں ارشاد ہوا کہ ’’اگر اس بندۂ خدا میں (Saint and Devil) دونوں کی خصوصیات جمع ہیں تو اس کا میں کیا علاج کروں؟‘‘ 

    یہاں در اصل اقبالؔ کی نظرنے دھوکہ دیا۔ وہ مسولینیؔ کی شخصیت سے متاثر ہوگئے۔ انہوں نے یہ معلوم کرنے کی کوشش نہ کی کہ مسولینیؔ کس طرح اٹلی پر حکومت کر رہا ہے۔ اس نے اپنے مخالفوں کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے۔ اس کا نصب العین کیا ہے۔ اس کی حکومت کس طرح چلتی ہے۔ شاعر یہاں ایک غیر معمولی ہستی کے نظارے میں محو رہا۔ اس نے یہ نہ دیکھا کہ اس نے کس فلسفۂ زندگی کی ترجمانی کی ہے۔ ’’ضرب کلیم‘‘ کی نظموں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اقبالؔ اپنی اسی غلطی سے واقف ہو گئے تھے۔ یہاں تک کہ ’’ارمغان حجاز‘‘ میں وہ فاشزم کو ابلیس کے ہاتھوں میں ایک آلہ کہتے ہیں۔ یہ نظم چونکہ ان کی آخری بڑی نظم ہے۔ اس لئے اس کی اہمیت ظاہر ہے۔ ’’اقبالؔ ملوکیت اور سرمایہ داری کے دشمن ہیں مگر یونہی سے۔‘‘ یہ ایک عجیب اعتراض ہے۔ مضمون طویل ہوتا جا رہا ہے، بہت سی مثالیں دی جا چکی ہیں، اور یہ اچھی طرح واضح ہو چکا ہے کہ اقبالؔ نے ہمارے یہاں سب سے پہلے ملوکیت و استعماریت اور سرمایہ داری کے خلاف آواز بلند کی اور مزور کی تحریک سے ہمدردی ظاہر کی ہے۔ 

    مزید تفصیلات کی ضرورت نہیں معلوم ہوتی۔ ’بال جبریل‘ کی صرف ایک نظم اور یہاں درج کی جاتی ہے۔ جس جوش و خروش، جس جذبہ صادق، جس خلوص کی یہ آئینہ دار ہے، اس کا اندازہ اہل نظر ہی کر سکتے ہیں۔ 

    فرمان خدا فرشتوں کے نام
    اٹھو! مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
    کاخ امراء کے در و دیوار ہلا دو! 

    گرماؤ غلاموں کا لہو سوز یقیں سے
    کنجشک فرومایہ کو شاہیں سے لڑا دو

    جس کھیت سے دہقاں کو مسیر نہ ہو روزی
    اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلادو

    سلطانی جمہور کا آتا ہے زمانہ! 
    جو نقش کہن تم کو نظر آئے مٹا دو

    کیوں خالق و مخلوق میں حائل رہیں پردے
    پیران کلیسا کو کلیسا سے اٹھا دو

    حق را بسجودے، صنماں را بہ طوانے
    بہتر ہے چراغ حرم و دیر بجھا دو

    میں ناخوش و بیزار ہوں مرمر کی سلوں سے
    میرے لئے مٹی کا حرم اور بنا دو

    اب اگر کہیں انہوں نے یہ لکھا ہے کہ ’’از مغز دو صد خر فکر انسانے نمی آید‘‘ تو کیا۔ اختر صاحب کا یہ دعویٰ ہے کہ یہ ممکن ہے؟ یا کہیں انہوں نے مزدوروں کی حکومت کے متعلق فرمایا ہے کہ ’’اگر خسرو نباشد کوہ کن ہست‘‘ تو اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ وہ ضرور ان کے خلاف ہیں بالکل غلط ہے۔ مزدوروں کی حکومت میں بھی زیادتیاں ہو سکتی ہیں اور ہوتی ہیں۔ وہاں بھی اختلاف رائے کی گنجائش نہیں، وہاں بھی احتساب ہے اور ایسا احتساب ہے جس پر سرمایہ دار حکومتیں شرماتیں۔ وہاں بھی آمریت ہے، وہی آمریت جس کی بنا پر مسولینیؔ گردن زدنی ہے، وہاں بھی دور عبوری کو اتنا طول دیا گیا ہے کہ منزل مقصود وہی معلوم ہوتا ہے۔ اگر کوئی شاعر اس افراط و تفریط کی طرف اشارہ تو اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ وہ اس نظام حکومت کے خلاف ہے۔ ہرگز صحیح نہیں۔ 

    اختر صاحب مسولینیؔ والی نظم پڑھتے ہیں، لینن والی نظم نہیں پڑھتے ہیں۔ وہ ’’قیصر ولیم‘‘ کے ارشادات سے برافروختہ ہو جاتے ہیں۔ ’’فرمان خدا فرشتوں کے نام‘‘ ان کے ذہن سے اتر جاتا ہے۔ اقبالؔ جمہوریت کے خلاف نہیں، لیکن جب آپ جمہوریت کے نام پر ہر ممکن زیادتی کرنے کو تیار ہوں اور اس کا جواز یہ پیش کریں کہ کثرت رائے سے جو بات منظور ہو وہ آخری بات ہے تو ایک حکیم شاعر کا فرض ہے کہ نرمی سے یہ کہے کہ ’’از مغز دو صد خر، فکر انسانے نمی آید۔‘‘  

    واقعہ یہ ہے کہ اقبالؔ نے مزدوروں کی حکومت کے ابتدائی دور کو دیکھ کر جو رائے قائم کی تھی وہ بہت اچھی نہیں تھی۔ جاویدنامہ میں جمال الدین افغانی کی زبان سے انہوں نے اشتراکیت کے متعلق جو کچھ کہا ہے وہ اس سوء ظن کی بنا پر ہے۔ لیکن پہلی اور دوسری پنج سالہ مہم کے نتائج سامنے آئے تو اشتراکیت کی برکات بھی نظروں کے سامنے آئیں۔ ۱۹۳۶ء میں اقبالؔ نے جب ’’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘‘ لکھی تو وہ اشتراکیت کی طرف اچھے خاصے مائل تھے۔ 

    حال میں ایک کتاب ’’ہندوستان میں جدید اسلام‘‘ شائع ہوئی ہے۔ اس کے مؤلف ڈبلیو سی اسمتھ نے اقبالؔ کا بڑی گہری نظر سے مطالعہ کیا ہے۔ وہ اقبال کے بہت بڑے مداح ہیں مگر انہیں اقبالؔ کی بعض خامیاں بھی کھٹکتی ہیں۔ اقبالؔ کے کلام میں انہیں ترقی پسندی اور رجعت پسندی دونوں کی دھوپ چھاؤں دکھائی دیتی ہے۔ اقبال کو وہ زندگی، عمل اور بیداری کا علم بردار کہتے ہیں۔ ان کے نزدیک اقبالؔ کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے مذہب کو زندگی بنا دیا اور خدا کو عرش سے اتار کر انسان کے دل میں بٹھا دیا۔ اور ’’یہ ساری زمین ایک مسجد ہے‘‘ اس حدیث پر عمل کیا۔ 

    اقبالؔ ارتقا کو مانتے ہیں اور انسانیت کے ارتقا کے خواہاں ہیں۔ انسانیت کا نصب العین اطاعت کو نہیں بلکہ اقتدار کو قرار دیتے ہیں۔ ایک نئے اخلاقی معیار کو ضروری سمجھتے ہیں۔ سرمایہ داروں کی تباہ کاریوں سے واقف ہیں۔ ملوکیت کو گناہ سمجھتے ہیں۔ اشتراکیت کی بہت سی چیزوں کے حامی ہیں۔ مگر اسمتھ کا خیال یہ ہے کہ اقبال فرد کے متعلق تو اچھی طرح سوچ لیتے ہیں لیکن اجتماعی مسائل کے سمجھنے میں ان سے لغزش ہوئی ہے اور وہ اقتصادیات اور عمرانیات سے اچھی طرح واقف نہیں۔ ان کے یہاں جابجا ایسی چیزیں ملتی ہیں جن سے فسطائیت کی طرف میلان ٹپکتا ہے، گو وہ فاشسٹ نہیں ہیں۔ ان کی نصب العینیت انہیں زندگی کے حقائق سمجھنے نہیں دیتی۔ ان کا فلسفہ نطشےؔ اور برگساںؔ کا اسلامی ایڈیشن ہے۔ 

    وہ پھر کہتا ہے کہ اقبالؔ خیال سے خیال مستعار لیتے ہیں، واقعات سے نہیں۔ ان کے خیالات صحیح ہوتے ہیں، مگر وہ یہ اندازہ نہیں کر سکتے کہ وہ ٹھوس حقائق اور واقعات کیا ہیں، جوان خیالات کی صحت کے ضامن ہیں۔ اقبالؔ جدید فلسفہ جانتے ہیں۔ جدید سائنس اور جدید سوسائٹی سے واقف نہیں۔ وہ مسلمانوں میں سب سے زیادہ ترقی پسند ہیں مگر اشتراکیت اوراسلام کی قربت کو اس وجہ سے نہیں سمجھ پاتے کہ بعض اشتراکی کچھ اور کہتے ہیں۔ (اشتراکی اس وجہ سے نہیں سمجھ سکتے کہ بعض مذہبی آدمی کچھ اور کہتے ہیں) وہ اجتہاد کے حامی ہیں مگر اکثر جدید حلقوں پر ان کا عتاب نازل ہوا۔ 

    ان کا مذہب جتنا انہیں بلندی پر لے جاتا ہے، اتنا ہی ان کی سیاست انہیں تباہی ہی کی طرف۔ وہ دوسرے مذہب کے پیروؤں کے اسلامی عمل کو نہیں دیکھتے اور ان مسلمانوں سے زیادہ ہمدردی رکھتے ہیں جن کا عمل غیر اسلامی ہے۔ وہ مذہب کے دنیوی پہلو پر زور دیتے ہیں۔ مگر دنیا کے بدلنے کے بجائے مذہب کے ایک خاص تصور میں محو رہتے ہیں۔ انسانیت کے لئے ان کا جو خاص پیغام ہے اس میں عورتیں شریک نہیں ہو سکتیں۔ وہ آزادی نسواں کو زمرد کے گلوبند کے مقابلہ میں کمتر سمجھتے ہیں۔ یعنی ان کے یہاں ترقی پسندی کے باوجود رجعت پسندی بھی ہے اور دونوں قسموں کے لوگ ان کے کلام سے اپنی اپنی سہولت کے مطابق اشعار لے سکتے ہیں۔ 

    اقبالؔ پر یہ جو اعتراضات ہیں وہ پچھلے اعتراضات کے مقابلے میں زیادہ وقیع ہیں۔ اس وجہ سے اور بھی کہ معترض کی نگاہ صرف اقبالؔ کی خامیوں پر ہی نہیں ہے اس نے اس شاعر اعظم کی خوبیاں بھی بڑی تفصیل گنائی ہیں۔ ان میں سے ہر اعتراض کا جواب علیحدہ علیحدہ دینے کے لئے ایک دفتر چاہئے۔ لیکن مجھے یہ اعتراف کرنے میں ذرا پس و پیش نہیں کہ ان میں سے بعض اعتراض صحیح ہیں۔ اقبالؔ واقعی جتنا جدید فلسفے سے واقف تھے اتنا جدید سائنس اور جدید سوسائٹی سے واقف نہیں تھے گو وہ ہمارے ہندوستان کے بسم اللہ کے گنبد میں بیٹھنے والوں میں سب سے بیدار ذہن رکھتے تھے۔ مگر اپنی بڑھی ہوئی مذہبیت کی وجہ سے بعض اوقات سطحی مذہبیت کی حمایت میں وہ مذہب کی انقلابی روح کو نظر انداز کر دیتے تھے۔ وہ شخص پر ضرورت سے زیادہ زور دیتے تھے۔ شخص جس ادارے یا خیال کا ترجمان ہے اسے کبھی کبھی نظرانداز کر دیتے تھے۔ 

    وہ خوابوں کی دنیا میں رہتے تھے اور بعض اوقات صبح کاذب کو صبح صادق سمجھ لیتے تھے۔ اشتراکیت کا انہوں نے شروع میں اچھی طرح مطالعہ کئے بغیر اس کی مذمت کی تھی مگر آخر عمر میں وہ اشتراکیت کی طرف بہت مائل تھے۔ بہت سی باتوں میں وہ گفتار کے غازی تھے اور کردار کے غازی نہ تھے۔ گفتار میں بھی سب پہلوؤں پر ان کی نظر نہ ہوتی تھی۔ وہ پہلے شاعر تھے پھر فلسفی، اور ان کا کمال یہ تھا کہ آخری عمر تک ان کی ذہنی نشوونما جاری رہی اور وہ آگے بڑھتے رہے۔ اردو کے کسی شاعر کے یہاں یہ ذہنی ارتقا نہیں ملتا۔ 

    ’بال جبریل‘ میں اقبالؔ نے ایک جگہ اپنے مزاج اور طبیعت کی افتاد کا ذکر کیا ہے۔ اس سے اگرچہ یہ پتہ نہیں چلتا کہ اقبالؔ کا فلسفہ زندگی کیا ہے، لیکن یہ ضرور معلوم ہو جاتا ہے کہ ’’اقبال خود کیا ہیں؟‘‘ 

    فطرت نے مجھے بخشے ہیں جوہر ملکوتی
    خاکی ہوں مگر خاک سے رکھتا نہیں پیوند

    درویش خدا مست نہ شرقی ہے نہ غربی
    گھر میرا نہ دلی نہ صفا ہاں نہ سمرقند

    کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق
    نے ابلہ مسجد ہوں نہ تہذیب کا فرزند

    اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں بے گانے بھی ناخوش
    میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند

    مشکل ہے کہ اک بندۂ حق بیں و حق اندیش
    خاشاک کے تودے کو کہے کوہ دماوند

    ہیں آتش نمرود کے شعلوں میں بھی خاموش
    میں بندہ مومن ہوں، نہیں دانہ اسپند

    پرسوز نظر بازوں کو بین و کم آزار
    آزاد، گرفتار، تہی کیسہ و خورسند

    ہر حال میں میرا دل بے قید ہے خرم
    کیا چھینے گا غنچے سے کوئی ذوق شکرقند

    چپ رہ نہ سکا حضرت یزداں میں بھی اقبالؔ
    کرتا کوئی اس بندۂ گستاخ کا منہ بند

     

    مأخذ:

    اقبال اور ان کا فلسفہ (Pg. 68)

    • مصنف: آل احمد سرور
      • ناشر: مکتبۂ عالیہ، لاہور
      • سن اشاعت: 1977

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے