Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اقبال کے شعری تصورات

شمیم حنفی

اقبال کے شعری تصورات

شمیم حنفی

MORE BYشمیم حنفی

    فن، سماجی سطح پر افراد کو دو حصوں میں تقسیم کر دیتا ہے۔ ایک وہ جو اسے سمجھتے ہیں، دوسرے وہ جو اسے نہیں سمجھتے۔ یہ صورت حال ہر بڑے شاعر کے ساتھ پیش آتی ہے۔ اقبال کا المیہ بھی یہی ہے۔ وہ ایک کثیرالابعاد شخصیت رکھتے تھے۔ چنانچہ ان کی حیثیت کا تعین بھی انہیں مختلف خانوں میں بانٹنے کے بعد کیا گیا۔ ایک وحدت کے طور پر انہیں برتنے کی کوششیں بہت کم ہوئیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اقبال کی فلسفیانہ، مذہبی، ثقافتی، تعلیمی اور سیاسی حیثیتوں کے مقابلے میں ان کی تخلیقی حیثیت ثانوی ہوکر رہ گئی۔

    اس کشاکش میں یہ بھی ہوا کہ اقبال کی مختلف النوع حیثیتوں کا خاکہ بھی اصل سے دور ہوتا گیا۔ نظریے اور اعتقاد سے غذا حاصل کرنے والی نظر، منظر کو اپنی ذاتی پسنداور مذاق کے سانچوں میں سمونے کا تقاضا بھی کرتی ہے۔ اقبال شاعر کی حیثیت سے کسی قطعی اور معینہ حد میں نہیں سمٹ سکتے لیکن نظریاتی تعبیر و تفسیر کی بات تو الگ رہی۔ ہماری ادبی تنقید بھی بالعموم تخلیق کے تقدم اور اس کی برتری کے اعتراف میں جھجکتی رہی اور اپنے اقتدار کے تسلط کی خاطر اس نے خود پر انصاف و احتساب کی ذمہ داری عائد کرلی۔ نتیجہ ظاہر ہے۔ اقبال کے آئینہ ادراک میں اکثر ان کے مداحوں کے ہی عکس نظر آتے ہیں۔ اقبال کے سلسلے میں یہ زیادتی ہوئی کہ ان کے ارادے کو اکثر ان کے نتائج افکار سے خلط ملط کر دیا گیا۔

    کسی حقیقت آگاہ ساعت میں اقبال نے جس اندیشے کا اظہار کیا تھا کہ آئندہ فن شعر کے نقاد انہیں شاعروں کی فہرست میں سے خارج نہ کر دیں، اسے ثابت کرنے کی کوشش میں سب سے بڑا حصہ خو دان کے مداحوں کا ہے۔ ان میں بیش تر فن شعر کے نقاد تھے بھی نہیں۔ گرچہ فیصلے وہ اقبال کے اشعار کی بنیاد پر ہی کرتے رہے۔ جہاں تک فن شعر کے نقادوں کا تعلق ہے، اقبال کے اس اصرار کے باوجود کہ خدا اس شخص کو نہ بخشے جس نے انہیں شاعر جانا، شاعر اقبال کی نفی ان کے لئے ممکن نہیں، خواہ نقد شعر کے معیا رکتنے ہی بدل جائیں۔ اقبال کی شخصیت کا اظہار ان کے اشعار ہی میں ہواہے۔ نثر میں انہوں نے اپنے افکار و عقائد کا بہت کم حصہ پیش کیا ہے۔ اقبال کی فکر بنیادی طور پر تخلیقی تھی۔ اس لئے نثری استدلال کے پیرائے میں اس کی عکاسی شاید ہو بھی نہیں سکتی تھی۔

    ان کی فکر کا محور، اس کا حصار اور سر چشمہ مذہب ہے، مذہب کا فلسفیانہ مطالعہ تو ہو سکتا ہے لیکن وہ پوری طرح استدلال کے زیرنگیں نہیں آ سکتا۔ شاید اسی لئے اقبال نے شعری اظہار کو ترجیح دی۔ اقبال جب یہ کہتے ہیں کہ اچھا شعر حکمت سے خالی نہیں ہوتا توان کے مبصروں کے سریہ ذمہ داری بھی آتی ہے کہ تجزیے سے پہلے وہ شعر میں حکمت کی نوعیت اور ہیئت کو سمجھ لیں۔ اس میں شک نہیں کہ کم و بیش تمام فنون، حقیقت کی دنیا سے ایک رشتہ رکھتے ہیں۔ لیکن اس امتیاز کو بہر صورت ملحوظ رکھنا چاہئے کہ فن سے جو علم دوسرے تک پہنچتا ہے وہ اشیا اور موجودات کا علم نہیں بلکہ ان کی طرف ذہن کو ایک انوکھے اور دل نشیں طریقے سے متوجہ کرنے کا انداز ہے۔ اقبال کے مفسر جب ان کے فن کو فکر اور اخلاق کی کنیز قرار دیتے ہیں توبہ یک وقت دو متضاد باتیں کہتے ہیں اور اس طرح آپ اپنی تردید کے مرتکب ہوتے ہیں۔

    فن، فلسفیانہ استدلال کے بجائے وجدان کا محاصرہ کرتا ہے، جس کی مملکت سائنس، اخلاقیات اور تعقلات کی دنیاسے آگے شروع ہوتی ہے۔ یہ تو ممکن ہے کہ فنی اظہار کی ہیئت گہرے فلسفیانہ نکات سے بھی منور ہو اور اس میں علمی صحیفوں سے زیادہ آگہی کا سامان بھی موجود ہو لیکن اس آگہی کی صورت اور نوعیت مختلف ہوگی۔ بلا واسطہ ادراک، عقل کی طرح زینہ بہ زینہ بام تک نہیں پہنچتا ہے۔ اس کے لئے تمام حقیقت، موجود حقیقت ہوتی ہے اور ماضی ومستقبل کو ایک نقطے پر یکجا کر سکتی ہے۔ اقبال بھی اسی طرح ایک ساتھ سامنے کھڑ ی ہوئی اور آنے والی فصلوں کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ وجدان ان کے لئے عقل ہی کی ارفع ترصورت ہے۔ یہ ارفع تر صورت وہ اس مقام پر اختیار کرتا ہے جہاں استدلالی عقل جبرئیل کی طرح تھک کر رہ جاتی ہے اور اس ڈر سے کہ اس کے پر نہ جل جائیں، آگے نہیں بڑھتی۔

    اسی لئے اقبال کے نزدیک عقل کی تقدیر میں حضور نہیں۔ اس کے برعکس وجدان اپنی قوت سے فن کو وہ تاثر عطا کرتا ہے جواسے زمان و مکاں اور واقعات سے آگے لے جاتی ہے۔ فن کے خاکے میں یہ قوت بہ قول اقبال اثبات دوام کا رنگ بھرتی ہے۔ اقبال کی مکمل شخصیت کا سراغ اسی حقیقت سے ملتا ہے کہ ان کا مزاج استدلالی عقل سے بہت دور تک ہم آہنگ نہیں ہو سکتا۔ یہی حقیقت ہمیں شاعر اقبال سے متعارف کراتی ہے جس کے سامنے اس کی دوسری حیثیتیں ثانوی ہو جاتی ہیں۔

    ’’علم اور روحانی حال و وجدان‘‘ کے ضمن میں اقبال نے شاعری، فلسفہ اور مذہب کے روابط، ان کے باہمی اشتراک و امتیاز اور ان کے اسرار کی نشان دہی بھی کی ہے۔ وہ ان تینوں کوا س حد تک تو مماثل قرار دیتے ہیں کہ ان میں ہر ایک انسان اور اس کی کائناتِ آب و سراب، کائنات میں اس کی حیثیت اور مظاہر سے اس کے رشتوں کی نوعیت کے مطالعے اور تجزیے کا موضوع بناتا ہے لیکن اقبال یہ بھی سمجھتے ہیں کہ ان کے درمیان امتیازات کی بنیاد ان کے اسالیب فکر و اظہار ہیں۔ اقبال شعری فکر کو منفرد کہتے ہیں اور اسے تشبیہ، تمثیل اور ابہام سے مشروط بھی کرتے ہیں۔ گرچہ خود وہ ان شرائط کی پابندی نہیں کرتے اور ان کی خلاقانہ قوت اپنے ہی معیار فن کی نفی کا حوصلہ بھی رکھتی ہے۔

    ظاہر ہے کہ نثری منطق کے طور طریقے الگ ہیں۔ اسے فن کی بنیادی آزادیاں اور خودمختاری حاصل نہیں۔ اس موقع پر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اقبال کے لئے فن کی یہ خود مختاری بجائے خود نامطبوع تھی، کیونکہ وہ بار بار اپنے شاعر نہ ہونے کا اعلان کرتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ یہ صرف خوداعتمادی کے مہذب اظہار کی ایک صورت ہے۔ وہ اپنی شاعری کی انفرادیت کا احساس بھی رکھتے تھے اور ان تخلیقی توانائیوں کا عرفان بھی جن کے جبرنے انہیں شاعر بنایا تھا۔ ان کا مقصد محض فلسفیانہ خیالات کو نظم کرنا ہوتا، تو نثر کی راہ آسان اور کارآمد ہوتی۔

    محض منظوم خیالات پیش کرنا شاعری کی نقالی سے زیادہ اور کچھ نہیں۔ جو افکار، اقبال سے پہلے نثر کی ملکیت بن چکے تھے انہیں اوزان و بحور کا پابند کر دینا غیر ضروری بھی تھا۔ لیکن بہ قول پاؤنڈ جس طرح کوئی بھی سماجی نظام ہر نقشہ نویس کو پکاسو نہیں بنا سکتا، اسی طرح کوئی بھی فکر ہر عالم کو اقبال نہیں بنا سکتی۔ اقبال کا کارنامہ ان کے افکار سے زیادہ وہ تخلیقی فتوحات ہیں جنہوں نے اشعار کو افکار کا رتبہ دیا۔ اقبال کی شاعری کا ایک بڑا حصہ اس وصف سے عاری ہے، بالخصوص ان کا ابتدائی کلام۔ اس دور کی بیش ترنظموں میں اقبال کا تعقل، ان کا میلان طبع اور تصور حسن کے عناصر ان کی شخصیت میں ایک اکائی نہیں بنتے۔ مذہبی اور تہذیبی اصطلاح کے تصورات اس دور کی شاعری میں پوری طرح جذب نہیں ہوتے، اگرچہ ان کی فکر کا حصہ بن جاتے ہیں۔ اس لئے اس دور کی بیش ترنظموں کا حسن ایسے مقاصد سے گراں بار دکھائی دیتا ہے جوان نظموں سے باہر ہیں۔ یہ نظمیں خیال کے تسلسل اور تجربے کی شدت یا توجہ کے ارتکاز کے باعث فکری وحدت توکہی جا سکتی ہیں لیکن کسی جمالیاتی وحدت کی تعمیر نہیں کرتیں۔

    وہ شاعری کو پیغمبری کا نام دیتے ہیں لیکن پیغام رسانی کی لے اتنی تیز ہوتی ہے کہ شعر کا آہنگ منتشر ہو جاتا ہے۔ اقبال اپنے اس میلان سے ہمیشہ وابستہ رہے کہ شاعری سے ان کا مقصد اپنی قوم تک چند مفید مطلب خیالات پہنچانا یا ایک جدید معاشرے کی تعمیر میں مدد دینا ہے۔ پھر بھی ان کی تخلیقی جسارت بار باران مقاصد پر غالب آتی ہے اور کئی نظموں میں مقصد، نظم کے خارج کے بجائے اس کی تہہ سے نمو پذیر ہوتا ہے۔ ایسی نظموں میں (مثلاً ’’ذوق وشوق‘‘، ’’مسجد قرطبہ‘‘ یا ’’فرمان خدا فرشتوں کے نام‘‘ وغیرہ) مقصد کی نوعیت ایک بیرونی جبر کی نہیں ہوتی۔ یہ نظم کی سالمیت ہی کا حصہ ہوتا ہے۔ ان میں زبان فکر کا ذریعہ نہیں، اس کا جزوبن جاتی ہے۔ اس کا آہنگ ان کی فکر کے آہنگ اور خدوخال کو بھی بدل دیتا ہے۔

    ایک خط میں (تسکین کاظمی کے نام) اقبال بہت واضح طور پر کہتے ہیں کہ وہ ذاتی طور پر شاعری کے ترجمے کے قائل نہیں۔ ایک اور خط میں لکھتے ہیں کہ محض لفظی ترجمہ ادبی اعتبار سے بے سود بلکہ شاید مضر ہے۔ ظاہر ہے اقبال کی نظر شعر کی معنوی وحدت اور ان کیفیتوں پر بھی پڑتی ہے جو الفاظ سے باہر لیکن شعر کے اندر موجود ہوتی ہیں۔ اس لحاظ سے شاعری ہی زبان کی حقیقی محافظ ہوتی ہے۔ اس کی تمام وکمال کیفیتوں کو دوسری زبان میں منتقل نہیں کیا جاسکتا۔ لسانی صیغہ اظہار اور تخلیقی تجربے کی باہمی یگانگت کے اس شعور کی تصدیق اقبال کے اس بیان سے بھی ہوتی ہے کہ بعض فارسی نظمیں انہوں نے پہلے اردو میں شروع کی تھیں مگر تجربے کی مخصوص فضا کو اس سے ہم آہنگ نہ پاکر اپنا ارادہ ترک کر دیا۔

    اقبال ایک انفرادی لسانی تصور ہی نہیں، اس دائرے میں اجتہاد کا حوصلہ بھی رکھتے تھے۔ وہ بہ ظاہر تو یہی کہتے رہے کہ شاعری سے ان کی ’’غرض زبان دانی کا اظہار نہیں اور حقیقت میں فن شاعری اس قدر دقیق اور مشکل ہے کہ ایک عمر میں بھی انسان اس پر حاوی نہیں ہو سکتا۔‘‘ لیکن ایک ماہر فن صانع کی طرح وہ شاعری کے تمام اوزاروں کے استعمال سے واقف تھے اوران کی مدد سے انوکھے اور تازہ کارپیکر تراشنے پر قادر تھے۔ ’’تنقید ہمددر‘‘ کے جوا ب میں اقبال نے ’’اردو زبان پنجاب میں‘‘ کے عنوان سے جو مضمون لکھا تھا ( ’’محزن‘‘ لاہور ۱۰ اکتوبر ۱۹۰۲ء) سے ان کی غیر معمولی لسانی سوجھ بوجھ، اساتذہ کے کلام پر محاکمانہ نظر، لسانی روایت کے عرفان اور زبان کے معاملے میں ان کی مجتہدانہ بصیرت کی واضح تصویر ابھرتی ہے۔

    ظفر اقبال نے ابھی چند برس پہلے ’’گلافتاب‘‘ میں اردو زبان کا خواب نامہ ترتیب دیا اور اس ضرورت کی نشان دہی کی کہ اردو زبان کی رگوں میں پنجابی زبان کے تازہ لہو کی آمیزش اسے سوکھنے، سکڑنے اور مرجھانے سے بچا سکتی ہے۔ اقبال نے اپنے عہد کی ضرورت اور اپنے انفرادی تخلیقی مزاج کے مطابق اس مسئلے کوحل کرنے کی کوشش بہت پہلے کی تھی، ان کے متذکرہ بالامضمون کا ایک اقتباس یوں ہے،

    ’’تعجب ہے میز، کمرہ، کچہری، نیلام وغیرہ اور فارسی اور انگریزی کے محاورات کے لفظی ترجمے کو بلا تکلف استعمال کرو۔ لیکن اگر کوئی شخص اپنی اردو تحریر میں کسی پنجابی محاورے کا لفظی ترجمہ یا کوئی پر معنی لفظ استعمال کردے تو اس کو کفر و شرک کا مرتکب سمجھو۔۔۔ یہ قید ایسی قید ہے کہ جوعلم زبان کے اصول کی صریح مخالف ہے اور جس کاقائم و محفوظ رکھنا فرد و بشر کے امکان میں نہیں ہے۔ جس سے اردو الفاظ و محاورات اخذ کرے تو آپ کا عذربے جا ہوگا۔ اردو ابھی کہاں کی علمی زبان بن چکی ہے جس سے انگریزی نے کئی الفاظ بدمعاش، بازار، لوٹ، چالان وغیرہ لئے ہیں اور روز بہ روز لے رہی ہے۔‘‘

    اقبال یہ بھی کہتے ہیں کہ جن علاقوں میں کسی زبان کا چلن ہوتا ہے وہاں کے لوگوں کا طریق معاشرت، ان کے تمدنی حالات اور ان کا طرز بیان اس پر یقیناً اثر انداز ہوتا ہے اور یہ ایک مسلمہ اصول ہے جس کی صداقت اور صحت تمام زبانوں کی تاریخ سے واضح ہوتی ہے۔ کسی بھی علاقے کا لسانی اسلوب اس کی تاریخ اور اس کے طبیعی و جغرافیائی آب و رنگ سے بھی متاثر ہوتاہے۔ اقبال کے لسانی شعور کی ترتیب و تشکیل کا ایک اور اہم پہلو مروجہ لسانی روایت کی مکمل گرفت سے ان کی آزادی اور لسانی مراکز سے ان کی دوری ہے۔ معاصر عہد کے پس منظر میں اس مسئلے کو یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ نئی شاعری کی روایت نے لسانی اسلوب کی جن نئی ہیئتوں کو فروغ دیا ہے ان میں مغربی پنجاب کے اردو شعرا کی آواز، لہجہ اور تخلیقی آہنگ پر روایتی اسالیب کا عکس نسبتا ًدھندلا ہے۔ کلاسیکی، رومانی اور ترقی پسند اسالیب شعر کی بازگشت اردو علاقوں کے نئے شعرا کے مقابلے میں افتخار جالب، منیر نیازی اور زاہد ڈار کے یہاں تقریبا ًمفقود ہے۔

    اردو کی شعری روایت کا سب سے بڑا عیب یہ ہے کہ ایک لمبی مدت تک، مخصوص تہذیبی اور ثقافتی میلانات کی مقبولیت کے باعث الفاظ کے معانی کی تعیین شاعر کے باطنی محرکات کے بجائے اس کے خارجی ماحول کے ہاتھوں ہوتی رہی۔ تنقید میں شاعر کہتاہے، یا شاعر کا یہ مقصدہے، شاعر اس مقصد کی طرف توجہ دلاتا ہے، اس قسم کے پیرایہ اظہار کی جبریت نے شاعر کو ہمیشہ کچھ نہ کچھ کہتے رہنے کا عادی بنا دیا۔ وہ شعر ’’کہتا‘‘ رہتاہے۔ اپنے تخلیقی عمل کی تربیت سے وہ لاتعلق رہا۔ تنقید صرف آنکھوں سے شعر پڑھتی رہی اور شعر صرف ذہن کی مدد سے گڑھے جاتے ہیں۔ شعرکے مطالعے میں اعصاب و حواس سے کوئی مدد نہیں لی گئی اورشعر گوئی میں طاقت گفتار کے علاوہ اعصاب و حواس کی کسی اور توانائی کو بہ روئےکار لانے کی ضرورت نہیں سمجھی گئی۔

    والیری نے بہت معنی خیز بات کہی ہے کہ ادب میں عام طور پر لوگ جسے ہیئت سمجھتے ہیں، وہی میرے لئے مواد ہے۔ اقبال کے زمانے تک اردوکی شعری روایت میں اسلوب فکر اور طرز اظہار کے لئے دونوں کے باہمی اتصال وانضمام کا تصور عام نہیں ہوا تھا۔ لیکن یہ ایک اعلیٰ درجے کی فن کاری کا فطری عمل ہے۔ چنانچہ اپنے کامران لمحوں میں اقبال تخلیق شعر کے اسی اصول پر کاربند نظر آتے ہیں۔ یہ لمحے انفرادی اور خودمختار تخلیقی لمحوں سے تعبیر کئے جا سکتے ہیں۔ جب کہ شاعر مخاطب کے وجود سے بے نیاز اپنی دنیا میں آزاد ہوتا ہے اور دوسروں تک اپنی بات پہنچانے کے لئے ان کی ذہنی بساط اور فہم و فراست کی سطح کا پابند نہیں ہوتا۔ یہ لمحے باطنی خودکلامی کے لمحے ہوتے ہیں۔ ان میں وہ اپنے تمام حواس کی رفاقت میں اپنے تجربے کو ترتیب دیتا ہے کہ وہ تخلیق کیا ہوا نظر آئے۔ ان لمحوں میں نثری منطق کے تقاضے اس کی راہ نہیں روکتے۔

    شعر ذہن کی اس اولین فعالیت کا نتیجہ ہے جس کی منزل تعقل سے پہلے آتی ہے۔ ان لمحوں میں شاعر اپنے اور بیرونی حقائق، مظاہر اور اشیا کی دنیا کے مابین اس فاصلے کو قائم رکھنے میں کامیاب ہوتا ہے جسے اگاسی نے فنی تخلیق کا ایک بنیادی اصول قرار دیا ہے۔ اقبال کی ایسی ہی نظمیں اور اشعار انہیں ہمہ گیری کی قوت بخشتے ہیں جو ان ذہنوں کو بھی مغلوب کرتی ہے جو اقبال کے فکری سرچشموں یا ان کے عقائد سے کوئی جذباتی یا فکری موانست نہیں رکھتے۔ ایسے اشعار میں سامع یا قاری کو جو آسودگی ملتی ہے، وہ اقبال کے نظریات اور عقائد سے الگ ایک ارفع توانائی اور اظہاریت کہی جا سکتی ہے۔

    اس عہد کے ادبی نظریہ سازوں میں کچھ کا خیال ہے کہ فن نہ صرف یہ کہ کسی مقصد کے حصول کا ذریعہ نہیں ہے، بذاتہ بھی کوئی مقصد نہیں، اس لئے شعر کے معنی اسی وقت سمجھ میں آئیں گے جب ذہن بھی یہ نہ سوچے کہ فن کا عمل حسن کی تخلیق ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ لسانی ہیئت اسی وقت فن بنتی ہے، جب حقیقت سے وہ سارے ناتے توڑ لیتی ہے۔ کچھ لوگ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ فنی اظہار میں خیال یا فکر کا غیاب ناگزیر ہے۔ خود اقبال کے معاصر کروچے نے فن کو ایسی تخلیقی فعالیت سے تعبیر کیا تھا جوبے مقصد ہے۔ افادیت، اخلاق اور تعقل سب سے الگ، یہ فنکار کے جذباتی عمل سے ظہورپذیر ہونے والی خیالی اور موہوم تصویر یا وجدان کا نام ہے جس میں ہیئت اور مافیہ کی دوئی مٹ جاتی ہے۔ اقبال نے اپنے جمالیاتی نظریے یا فنی معیاروں پر کوئی باقاعدہ بحث نہیں کی ہے۔ پھر بھی ان کے اشعار میں جابجا اس مسئلے کی طرف اشارے ملتے ہیں۔ وہ فن کو اخلاق ی پابندیوں سے بالکل آزاد ایک خودمختار عمل نہیں مانتے لیکن فن کو استدلالی منطق سے الگ ایک وجدانی عمل کا نتیجہ سمجھتے ہیں۔

    ان کے نزدیک سینہ شاعر تجلی زارحسن ہے اور اس کی مینائے فکر سے انوار حسن ہویدا ہوئے ہیں۔ اس کی نگاہ خوب کو خوب تر اور اس کا جادو مظاہر کو محبوب تر بناتا ہے۔ اس کے آب وگل میں بحروبر پوشیدہ ہوتے ہیں اوراس کا دل جہان تازہ کا خزینہ ہوتا ہے۔ وہ خضر بھی ہے اور ظلمات میں جرعہ آب حیات بھی۔ انہوں نے شاعر کو دیدہ بینائے قوم اور سینہ ملت کا دل کہا ہے جس کے بغیر کوئی قوم مٹی کے ڈھیر سے زیادہ وقعت نہیں رکھتی۔ لیکن اقبال کی فنی بصیرت کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ انہوں نے شاعر کے جو اوصاف بیان کئے ہیں انہیں پتھر کی طرح بے لوچ نہیں سمجھتے۔ امراء القیس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ ’’وہ تمام شاعروں میں افضل ترین اور دوزخ کی طرف جانے میں ان کا امام ہے۔‘‘ اقبال نے اپنی تحریر و تقریر میں کئی موقعوں پر دہرایا ہے۔

    اس کا حوالہ دیتے ہوئے اقبال لکھتے ہیں کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حکیمانہ تنقید میں فنون لطیفہ کے اس اہم اصول کی توضیح فرمائی ہے کہ صنائع بدائع کے محاسن اور انسانی زندگی کے محاسن، یہ کچھ ضروری نہیں کہ یہ دونوں ایک ہی ہوں۔‘‘ اسی طرح ایک موقع پر ا س سوال کے جواب میں کہ کیا آرٹ قائم بالذات نہیں، اقبال دو ٹوک انداز میں کہتے ہیں کہ ’’آرٹ افادیت ہے اور زندگی کا مظہر ہی نہیں آلہ کار بھی ہے۔‘‘ لیکن اسی گفتگو میں ایک شعر کے حوالے سے انہوں نے یہ بھی کہا کہ گرچہ اس کی لے حزینہ اور یاس آلودہ ہے پھر بھی شعر کامیاب ہے۔ اسی طرح اقبال فن کو پیشہ بنانے کے مخالف ہیں اور کہتے ہیں کہ روح انسانی کی جتنی بلند اقدار ہیں، وہ پیشہ وروں کی بدولت اپنی روح کو کھو بیٹھی ہیں۔ پیشہ وری فن کوبھی جنس بازار بنا دیتی ہے اور عوام کے مذاق طبع کی غلام بن جاتی ہے، جس کا عبرت ناک پہلو ایک مفکر (یاس پرس) کے قول کے مطابق یہ ہے کہ عوام کی بات جتنی فیصلہ کن ہو جائےگی، انسانی وجود کی اعلیٰ صلاحیتوں کی ترجمانی کا خواب اتنا ہی کمزور ہو تا جائےگا۔

    مذاق عامہ کی طاقت سب سے زیادہ خطرناک بھی ہے اور سب سے زیادہ کم رتبہ بھی۔ اس ہجوم کے شور میں حقیقی انسان کی آواز دب جاتی ہے یا اس کو اجتماعی فکر کی اس سطح تک اترنا پڑتا ہے جہاں وہ قبائلی روح کی زندگی سے تو ہم آہنگ ہو جاتی ہے، کسی فرد سے انفرادی تعلق نہیں قائم کر سکتی۔

    اقبال نے فنکار یا صناع کی سرگرمیوں کامنتہی انفرادیت کے حصول کو قرار دیا ہے۔ انفرادیت کو وہ فکر، موضوع یا مظہر سے نہیں بلکہ اس کو برتنے کی ادا سے وابستہ کرتے ہیں، ’’منظر وہی ہے، اسے تازہ کاری فن کار کی اپنی نظر عطا کرتی ہے۔ وہ زمانے کو اپنی نظر سے دیکھے تو اس کی روشنی افلاک کومنور کر دےگی، خورشید اسی کے وجود کے شرارے سے کسب ضیا کرےگا اور سیمائے قمر اسی کی تقدیر کا اظہار کرےگی۔ اسی کی موج گہر سے دریا متلاطم ہوں گے اور اسی کے اعجاز ہنر کے سامنے فطرت شرمندہ ہوگی۔ اغیار کے افکار وتخیل کو وہ اسی صورت میں اپنا مقصود بنائےگا جب اپنی خودی تک اس کی رسائی نہ ہو سکےگی۔‘‘

    اقبال نے کاملان تمثیل کی مذمت بھی اسی لئے کی ہے کہ ’’ان کے فن کی کامرانی ان کی اپنی شخصیت کی ہزیمت ہے۔‘‘ مرقع چغتائی کے دیباچے میں بھی اقبال ’’ہے‘‘ میں ’’چاہئے‘‘ کی جستجو کو فن کا نصب العین کہتے ہیں۔ اس جستجو کا سرچشمہ صاحب ہنر کو اپنے شعور اور اپنے ہی نفس کی گہرائی میں ملتا ہے جو ’’’چاہئے‘‘ (یعنی معیاری نصب العین) کی نمود کی خاطر ’’جوہے‘‘ کا مقابلہ ہی صحت اور قوت کا سرچشمہ ہے، ان الفاظ میں اقبال نے ہنر اور قوت کے ارتباط پر بھی زور دیا ہے۔ اقبال کے تصور حسن میں دراصل یہی ان کا نقطہ ارتکاز ہے۔ اقبال حسن کو قاہری اور توانائی ہی کی ایک شکل کہتے ہیں جس کے بغیر دلیری محض جادوگری رہ جاتی ہے اور جس کی آمیزش سے وہ پیغمبری بن جاتی ہے۔ اقبال نے اس نکتے کی وضاحت جس طرح کی ہے، اس میں اختلاف اور مزید غور و فکر کی گنجائش بھی نکلتی ہے۔ توانائی کو حسن کا معیار قرار دیا جائے تو حزنیہ اشعار کے تاثر کی تعیین قدر کیوں کر ہوگی؟ اقبال کے تصو رحسن کا ایک اور نقص یہ سمجھا جاتا ہے کہ محض توانائی، کریہہ المنظر، ناگوار اور بے ڈھنگی بھی ہو سکتی ہے۔

    میرے خیال میں یہ غلط فہمی اس حقیقت کو نظرانداز کرنے سے پیدا ہوتی ہے کہ اقبال کی کائنات فکر میں قوت کاکوئی بھی تصور خیر کی شرط سے مستثنیٰ نہیں۔ یہی محاسبہ قوت کو حسن بناتاہے اور جلال وجمال کی ضد کے بجائے اس کے ہم رکاب کے طور پرپیش کرتا ہے، اقبال کے نزدیک آرزو اور جستجو کی قوت و حرارت خلاق حسن ہے، چنانچہ جلال و جمال کی باہم یک جائی الوہیت کا استعارہ اور مرد خدا کی دلیل بھی ہے۔ اقبال شاعر کودو حصوں میں بانٹتے ہیں۔ ایک نغمہ جبرئیل جو عقل کا اشاریہ ہے، دوسرا بانگ اسرافیل جس میں جوش اور جذبہ ہے۔ ان اصطلاحوں کے انتخاب سے ایک معنی خیز نقش بھی ابھرتا ہے جس کا تعلق اقبال کے تصورفن سے ہے، یہ کہ اقبال شاعری کی درجہ بندی میں آہنگ کو شاید غیرشعوری طور پر ایک بنیادی حیثیت دے گئے ہیں۔ نغمہ جبرئیل اور بانگ اسرافیل گرچہ عقل اور جذب کی علامت ہیں لیکن آہنگ کی قدر دونوں میں مشترک ہے۔

    زبان ایک اجتماعی صداقت ہے، لہجے یا آہنگ کی نوعیت انفرادی ہے، جسے اقبال کے تصور فن میں ان کے نظریہ خودی ہی کی بازگشت سمجھنا چاہے۔ اقبال نے نغمہ جبرئیل اور بانگ اسرافیل کے خانوں میں شاعری کی تقسیم، ممکن ہے نطشے کی تقلید میں کی ہو۔ نطشے نے اپولو اور ڈائیونیس کے ذریعے کم و بیش اسی تصور کی ترجمانی کی ہے۔ اپولو عقل اور جمال ہے، ڈائیوینس حرکت اور جلال۔ اقبال کی اس تعیین کا عکس خود ان کے لہجے میں بہت واضح ہے۔ اپنی شاعری کے اس حصے پر جہاں ان کی توجہ عملی اور فوری مسائل کی طرف رہی ہے، اقبال کا اسلوب اظہار کسی جمالیاتی وحدت کی تخلیق نہیں کرتا۔ ایسے اشعار میں وعظ و پند، افادہ و مقصد اور رشک و رقابت کی لے بہت اونچی ہے جس کی رسائی کسی فنی پیکر تک نہیں ہوتی۔ بس افکار نظم ہو جاتے ہیں۔ ان میں زیریں رو تفکر کی نہیں، جذباتی ابال کی ہے جس کی نمایاں ترین مثال جوش کی شاعری ہے۔

    یہ اشعار گہرے انفرادی حسی ا رتکاز کا نتیجہ نہیں ہوتے، اجتماعی ضرورتوں کی ترجمانی کرتے ہیں۔ اسی لئے ان میں جلال کی جگہ خطیبانہ بلندہم آہنگی ملتی ہے جو اکثر غصے کے مجبور اور مصلحت کوش اظہار کا نتیجہ ہوتی ہے۔ حرف و صوت کا ہر بلیغ پیکر خاموشی کی تہ سے ابھرتا ہے۔ سطحی خطیبانہ شاعری میں خاموشی کی یہ تہ اتنی چھچھلی ہوتی ہے کہ اس سے ابھرنے والے پیکر کاکوئی نقش انوکھا اور غیر متوقع نہیں ہوتا۔ اقبال کے تخلیقی آہنگ کی نموجس خاموشی سے ہوتی ہے، وہ سمندر کی طرح گہری اور کوہساروں کی طرح پر جلال ہے۔ ا س میں گہرائی کے ساتھ ساتھ وسعت بھی ہے، اسی لئے اس میں فکر کا اکہراپن نہیں۔ اس لہجے کی تشکیل و تعمیر اقبال کی مفکرانہ سر بلندی (اور حواس کی ان تمام قوتوں) کے ذریعے ہوتی ہے، جو حرف وصوت کے پس منظر میں ہمیشہ متحرک دکھائی دیتی ہے اور ان کی آواز کو دو ٹوک، بے حجاب اور قطعیت زدہ کرنے کے بجائے اس میں مسلسل گونج کی کیفیت پیدا کرتی ہے، اسرار سے لبریز اور ماورائی۔

    میرا خیال ہے کہ اقبال کے تفکر اور تخلیقی وجدان کے سرچشموں کو اس پر جلال متانت سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ خطابت کا سب سے بڑا عیب یہ ہوتا ہے کہ وہ بلند آہنگی کے باوجود ہجوم کے شور ہی کا حصہ معلوم ہوتی ہے۔ اقبال کا لہجہ تخاطب اور تکلم کے باوجود مادی اور طبیعی مسائل کی حدود سے نکل کر وسیع تر فضاؤں پر محیط ہو جاتا ہے اور اس کا جلال گردوپیش کی خاموشی کے احساس کو اور گہرا کر دیتا ہے۔ فراق نے میرے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ ’’اقبال کا لب ولہجہ قدیم ہندوستان کی قیمتی سے قیمتی دین سے لڑائی کرتا ہوا نظر آتا ہے، ہندوستانی تہذیب کی سب سے بڑی خصوصیت ہے نرمی اور قوت کی وحدت، نرمی چھوڑ کر جب قوت، پیغام عمل یا ترجمانی حقیقت کی شکل میں ہوگی تو وہ قوت ہندوستانی تہذیب کے لئے قابل قبول نہیں ہوگی۔‘‘ (مطبوعہ ’’فنون‘‘ لاہور)

    قطع نظر اس کے کہ یہاں ترجمانی حقیقت کا مسئلہ بے معنی ہے اور جمالیاتی تجربے کا ادراک بھی عمل ہی کی ایک شکل ہے، فراق اقبال کے لہجے کی تفہیم میں اس لئے بھی غلط روی کے شکارہوئے ہیں کہ انہوں نے ایک طے شدہ جذباتی منطق اور خارجی تصورکی بنیاد پر تخلیقی اظہار کی ماہیت کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ تخلیقی اظہار کسی مخصوص تہذیبی رویے کی شرائط کا پابند نہیں ہوتا۔ اس کے پیش نظر جس تہذیب کے آداب ہوتے ہیں وہ فن کی تہذیب ہے۔ اس طرح کی غلط فہمی کا ایک اور سبب یہ ہے کہ آہنگ کا جلال سامع کے وجود کی پوری وحدت کا محاصرہ کرنے کے باوجود ایک فاصلے کا احساس دلاتا ہے۔ اس فاصلے کو عبور کرنے کے لئے اس جمالیاتی اور ذہنی تجربے میں اشتراک، اس حد تک اشتراک کہ سامع اپنے حو اس کی سطح پر اس تجربے کو دوبارہ خلق کر سکے، ضروری ہے۔

    فکر اور احساس کی کوئی بھی نوعیت جو انسانی تہذیب کے سفر میں شامل رہی ہو، اپنے محض زمانی تعین کے باعث نئی یا پرانی نہیں ہوتی۔ کسی مخصو ص دور میں اس کی تنصیب تغیرپذیر میلان و مزاج کی وجہ سے ہوتی ہے۔ مغرب میں فارسی، سنسکرت ادبیات کے ترجموں کا شور اس وقت ہوا جب مشرق صنعتی، سائنسی اور مشینی کلچر سے ہم آغوش ہونے کے لئے بےقرار تھا اور مغربی علوم و انداز نظر میں اپنی نجات کے راستے دھونڈ رہا تھا۔ ’’پیام مشرق‘‘ کے دیباچے میں اقبال نے مغرب کے ایسے کئی شعرا کا ذکر کیا ہے جو حافظ و خیام کے دل دادہ تھے۔ فارسی کی غزلیہ شاعری اور عجمی روایات و حکایات کے عاشق تھے اور ہمارے بزرگ جب بلینک ورس کی تبلیغ کر رہے تھے، اس وقت ایک جرمن شاعر (پلاٹن) ایرانی عروض کی پابندیوں کے ساتھ غزلیں اور رباعیاں لکھ رہا تھا۔ ہائنے عالم خیال میں خود کو عجمی تصور کرتا تھا اور اپنے وطن میں جلاوطنی کے احساس سے دوچار تھا۔ اس طرح مشرق کی داستان پارینہ مغرب کے لئے صحیفہ تہذیب کا نیا باب تھی۔ یہ سب تخلیقی سطح پر جینے والوں کی باطنی زندگی کے بھید ہیں، جن کے سامنے زمانی، مکانی اور تہذیبی حدبندیاں کبھی کبھی بالکل بے حقیقت ہو جاتی ہیں۔

    تخلیقی تجربے اور ہیئت اظہار کی قدروقیمت کا تعین اس وقت کی بساط پر ہوتا ہے جو زمانی اور جغرافیائی، شخصی اور اجتماعی، مادی اور نظریاتی روابط کے حصار کو ایک چیلنج کی طرح قبول کرتی ہے۔ اقبال صنعتی تہذیب پرضرب بھی لگاتے ہیں اور ایشیا کے ایک ملک کی صنعتی ترقی کو رشک کی نظر سے دیکھنے کے علاوہ اسے راہ نجات بھی سمجھتے ہیں۔ وہ ملتِ بے شاعری کو انبار گل بھی کہتے ہیں۔ بڑھئی کے کھردرے ہاتھوں کو ان نرم و نازک ہاتھوں سے زیادہ خوبصورت بھی قرار دیتے ہیں جنہوں نے صرف قلم کا بوجھ اٹھایا ہے۔ بہ قول خود وہ تشکیک وتفلسف کے ظلمات سے ہوتے ہوئے ایمان و یقین یعنی ذہنی سپردگی کے آب حیات تک پہنچتے ہیں اور اس شخص کو ذہنی لحاظ سے بے جان بھی بتاتے ہیں جو نئے افکار کی صلاحیت کھو بیٹھا ہو۔ وہ عقل کو برطرف کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے لیکن عشق ان کے لئے منکشف ماہیت حیات ہے۔

    وہ لکھتے ہیں کہ ان کی قوت، طلب و جستجو صرف اس بات پر مرکوز رہی ہے کہ جدید معاشرتی نظام تلاش کیا جائے اور اس تلاش میں بار بار قدیم کی طرف مڑتے ہیں اور کھوئے ہوؤں کو ڈھونڈتے ہیں۔ یقین محکم کے باوجود یہ کیسا ذہنی اور جذباتی تزلزل ہے؟ اقبال نے سائنس پر مذہب کو شاید اسی لئے ترجیح دی ہے کہ ان کی انا مذہب سے ایک ذاتی تعلق پیدا کر سکتی تھی اور سائنس میں انفرادیت کا تحفظ ممکن نہ تھا۔ انہوں نے کسی سماجی نظریے کو شاید اس لئے جذباتی سطح پر تسلیم نہیں کیا کہ سماجی نظریے عملی محرومیوں کا جواب دینے سے قاصر تھے۔ انہوں نے مافوق الفطرت قوتوں کے حصول کو شاید اس لئے اپنے انسان کامل کا شعار بنایا کہ وہ عقیدے کے بھاری بوجھ کوسنبھال سکے۔ ان باتوں کامقصد اقبال کے فکری نظام پر طنزیا اس کا دفاع نہیں، شاعری اپنا دفاع آپ کرتی ہے۔

    اقبال کے تخلیقی عمل کی کامرانیاں بھی ان کی پیچیدہ، ارتقا کوش اوربہ ظاہر متضاد وجودی وحدت کا تحفظ کرتی ہیں۔ انہوں نے ایسے مقاصد کے لئے بھی شعر کی زبان کو آلہ کار بنانے پر زور دیا جن پر صحافت، سیاست اور سماجی علوم کی زبان کا حق زیادہ پہنچتا تھا اور شعر کی زبان کو وہ کبھی کبھی اس سطح پر اتار بھی لائے لیکن اعلیٰ فن کی ایک پہچان یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ ہر کلیے کی نفی پر قادر ہوتا ہے۔ اقبال کے فن میں بھی قدرت کمال کے یہ مظاہرے جا بجا بکھرے ہوئے ہیں۔ ان کے تخلیقی وجود کی رفتار اکثر ان کے عام انسانی وجود کی رفتار سے تیزتر ہو گئی ہے۔

    مأخذ:

    اقبال اور عصر حاضر کا خرابہ (Pg. 101)

    • مصنف: شمیم حنفی
      • ناشر: اکیڈمی بازیافت، کراچی
      • سن اشاعت: 2010

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے