Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اقبال کو سمجھنے کے لیے

شمیم حنفی

اقبال کو سمجھنے کے لیے

شمیم حنفی

MORE BYشمیم حنفی

    اقبال کو سمجھنے کے لیے تنقید، تحقیق اور تشریح کے نام پر جو تحریریں سامنے آئی ہیں، ان میں معقولیت کا تناسب افسوسناک حد تک کم ہے۔ تعبیر کی کثرت سے اصل حقیقت کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ بیش تر تحریروں میں اقبال مرکزی موضوع سے زیادہ لکھنے والے کے ذہنی اور جذباتی آسیب یا اس کی معذوریوں کے اظہار کا بس ایک بہانہ بن کر رہ گئے ہیں۔ اقبال پر تنقید میں عصبیت کا، تحقیق میں بدمذاقی کا اور تشریح میں بے سمتی کا جیسا بےتحاشا اظہار ہوا ہے، اس کے پیش نظر اقبال خاصے مظلوم دکھائی دیتے ہیں۔

    جس طرح اقبال کی شاعری، سادہ لوح قارئین کو جذبے اور ادراک کی سطح پر خراب کرنے کی خاصی گنجائش رکھتی ہے، اسی طرح اقبالیات کے بہت سے ماہرین میں بھی اقبال کی تخلیقی شخصیت اور شاعری کو مسخ کرنے کی صلاحیت خاصی نمایاں رہی ہے۔ اقبال پر سلیم احمد کی دلچسپ کتاب ’’اقبال ایک شاعر‘‘ کے پیش لفظ میں پروفیسر کرار حسین نے لکھا تھا کہ ’’ایک بڑا آدمی اپنے معاشرے کے لئے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے، خود فراموشی اس چیلنج سے کنی کاٹنے کے بہت سے حیلے تراش لیتی ہے۔ ایک حیلہ تو یہی ہے کہ اس کو خاتم المفکرین گردان کراللہ کی رحمت کے سپرد کر دیا جائے اور اس کے فکری تجربے کو سو مسئلوں کی صورت میں ڈھال لیا جائے۔‘‘ چنانچہ اقبال بھی انسان کم، مسائل کا مجموعہ زیادہ ہیں اور ان کی شاعری ایک تو انا تخلیقی تجربے، ایک ہمہ گیر حسی، جذباتی واردات کی بجائے صرف تصورات کی پوٹ بن کر سامنے آئی ہے۔

    بےشک اقبال ایک معینہ فکری اساس کے شاعر ہیں اور اس لحاظ سے ان کا معاملہ ہمار ے ساتھ وہ نہیں جو میر اور غالب کا ہے۔ مگر عام تنقیدی رویے نے اقبال کے مطالعے میں ان کی فکری اساس اور ان کے شعری مواد کی مرکزیت کے باوجود اقبال سے زیادہ اپنی سی کہنے کے حیلے تراش لئے ہیں۔ ہر مطالعہ واماندگی شوق کی پناہ گاہ بنا ہوا ہے جہاں سے عافیت کوشی کا ایک مبتذل اور مصنوعی تاثر قائم کرنے والے علما اور شارحین اپنے اختصاص یا اپنی ترجیحات کے مطابق اقبال کو تختہ مشق بناتے رہتے ہیں۔ اس زور آزمائی میں اقبال کی شاعری تو کہیں روپوش ہو جاتی ہے۔ سامنے جو کچھ آتاہے اسے فلسفے، اخلاقیات، علوم کے مختلف شعبوں سے ماخوذ کوئی عنوان دے دیا جاتاہے۔ ہر بڑے شاعر کی طرح اقبال نے بھی اپنے پیچھے کئی قبیلے چھوڑے ہیں۔ ان میں مذہبی، غیرمذہبی، اشتراکی، غیراشتراکی، تخلیقی، غیرتخلیقی، شاعرانہ، غیرشاعرانہ، غرض کہ ہر طرح کے ذہن کی سمائی ہو سکتی ہے۔

    اس صورت حال کی روشنی میں کہ اقبال شاعر تھے مگر اپنی شاعری کو محض شاعری نہیں سمجھتے تھے، فلسفیانہ ذہن رکھنے کے باوجود فلسفہ طرازی کے خلاف تھے، عالم تھے مگر علم کی طاقت سے زیادہ اس کی کم زوریوں کا احساس رکھتے تھے، اقبال کی شاعری کو ایک بھیدوں بھرے، پر پیچ تخلیقی مظہر اور انتہائی قیمتی انسانی عناصر سے مالامال ایک وحدت کے طور پر دیکھا جانا چاہئے تھا۔ اقبال کا تخلیقی اضطراب، اپنے تجزیے میں کسی طرح کی ذہنی تن آسانی کا متحمل ہو ہی نہیں سکتا، مگر وہ جو سپاٹ اور یک رخے ذہن کی ایک پہچان بتائی گئی ہے کہ بڑے سے بڑے گمبھیر مسئلے کو بھی ایسا ذہن ایک طرح کی بازاری شکل دیتے ہوئے بھی نہیں جھجکتا، تو اقبال کے سلسلے میں یہ بازاری پن بہت عام ہے۔ وہ شاعر ی جو انسانی تجربے کی نہایت تاب ناک مثال تھی، اسے صرف خیال کی شاعری سمجھ لینا بہت بڑی بد توفیقی ہے۔ مانا کہ ہر خیال کا ظہور کسی نہ کسی تجربے کی تہ سے ہوتا ہے لیکن اس تجربے سے آنکھیں پھیر کر محض خیال سے زورآزمائی کر دینے کا جواز کم سے کم ادب کی تفہیم و تعبیر سے نہیں نکلتا۔

    کسی بھی بڑ ے انسانی تجربے کی روح تک رسائی اور اس سے بے تکلف شناسائی کا ذریعہ علوم سے حاصل کئے ہوئے تصورات نہیں بنتے۔ انسانی سرگرمیوں سے مالامال اجتماعی اور شخصی واردات اس عمل کا بنیادی حوالہ ہوتی ہے اور یہی واردات دراصل وسیلہ بنتی ہے جذبے، احساس اور خیال کی سطح پر ایک ساتھ اپنے ادراک کا۔ اپنی نوعیت کے اعتبار سے یہ عمل میکانکی نہیں بلکہ معاشرتی ہوتا ہے۔ سو، بندھے ٹکے انداز میں اسے سمجھنا سمجھانا بھی ممکن نہیں کہ معاشرتی حقیقتیں مطالعے کی ایک سطح سے آگے جانے کے بعد، عام منطق سے ماورا بھی ہو جاتی ہیں، قیاس اور فہم کی دسترس سے دور۔ اقبال کی شاعری کا دائرہ محض اپنے تاریخی، تہذیبی، معاشرتی حوالوں کی مدد سے متعین کیا جا سکتا ہے نہ کہ اپنے تخلیقی حسی، جذباتی رمزکی بنا پر، اور یہ تعین بھی بس ایک حد تک ممکن ہے۔ اقبال کی شاعری سے ہرمضمون اور بعض اوقات تو متضاد مضامین کے شعر نکالے جا سکتے ہیں مگر اس طرح صرف ایک سرا ہاتھ آتاہے، پوری اکائی نہیں۔

    اقبال کی شاعری سے وابستہ فکری مسئلوں کی طرح اس شاعری کی بیرونی اور داخلی ہیئت کے عام عناصر بھی ہمارے لئے بہ ظاہر اجنبی نہیں ہیں۔ مانوس تلمیحات، مانوس استعارے اور علامتیں، مانوس لفظیات، مانوس تاریخی، سماجی، تہذیبی حوالے اور مانوس زمانی پس منظر کی وجہ سے اقبال عام مطالعے میں بہ ظاہر پیچیدہ نہیں ٹھہرتے، یا کم سے کم یہ ان کی شاعری بہت پیچیدہ نہیں ٹھہرتی اورمثال کے طور پر غالب کی جیسی قیاس آرائی کی گنجائش نہیں رکھتی۔ لیکن اقبال کی اپنی کشمکش اور ان کی شاعری میں شعر اور فلسفے کی باہمی آویزش بھی ایک ناگزیر سچائی ہے۔ اسی طرح اقبال کا رنگ سخن اردو کی عام روایت سے انحراف و اختلاف کی کچھ فکری، لسانی فنی جہتوں کے باوجود ہمارے لئے بیگانہ یوں نہیں کہ اس کا تعلق ہماری اجتماعی یادداشت اور سائیکی سے ہے۔ بہت سے لفظ اور ردیف قافیے ہم تک اردو کی شعری روایت کے واسطے سے نہ سہی، اردو کے معاشرتی ماحول کے واسطے سے پہنچے تھے۔

    سلیم احمد نے صحیح کہا تھا کہ ان کی شاعری اردو کے شعری سرمائے سے الگ ایک ایسی روایت کی شاعری ہے جو فارسی میں تو موجود ہے لیکن اردو میں ایک دوسری دنیا کی آواز معلوم ہوتی ہے۔ مگریہ دوسری دنیا بھی ہماری اپنی ہی دنیا کا عقبی پردہ رہی ہے۔ چنانچہ اقبال کے شعری آہنگ اور اسالیب میں جو انوکھاپن ملتاہے، اس سے ہم میں استعجاب یا حیرت کی کوئی کیفیت پیدا نہیں ہوتی اورہم اسے چپ چاپ قبول کر لینے کے عادی ہو چکے ہیں۔ یہ قبولیت تو خیر ٹھیک ہے۔ البتہ اس کے نتیجے میں اقبال کی شاعری کے تئیں taken for granted کا جو ایک رویہ رونما ہوا ہے، وہ ٹھیک نہیں ہے۔ ہم اقبال کی شاعری پر ایمان لاتے ہیں، اکثر بغیر سوچے سمجھے۔ سوالوں کے جس ختم نہ ہونے والے ایک سلسلے نے اس شاعر کو جنم دیا تھا اور اپنے بیرونی ضبط کے باوجود یہ شاعری جس باطنی اضطراب کی اور روح کی کی گہرائیوں سے اٹھنے والے جن سوالوں کی آئینہ دار ہے، انہیں سمجھنا اس شاعری کا بنیادی مطالبہ تھا۔ ہم اس شاعری میں صرف جواب ڈھونڈتے ہیں، اپنی اجتماعی زندگی کو درپیش ہر سوال کا۔ صرف حل تلاش کرتے ہیں، اکثر جذبے کی سطح پر عملی معاملات سے منسلک مسئلوں کا۔ چنانچہ اقبال کی شاعر ی ہمارے لئے خودفریبی، خوش فہمی، تشفی اور تسکین کے کچھ کمزور بہانوں کا ذریعہ بھی بن جاتی ہے۔

    تو کیا اقبال پر خود ان کے فراہم کئے ہوئے فکری زاویوں سے ہٹ کر سوچنا غیر ضروری ہے؟ عقل، عشق، عمل، انا، اختیار اور جبر کے وہ تمام تصورات جو اقبال سے منسوب کئے جاتے ہیں اور جن پر جذبوں کا سایہ بہت گہرا ہے، ان سے اتفاق اور اختلاف کی جو تفصیلات سامنے آئی ہیں، ان میں یا تو اقبال کے حضور آنکھیں بند کرکے سر جھکا دیا گیا ہے، یا پھر یہ کہ سرے سے آنکھیں پھیر لی گئی ہیں۔ گویا کہ دونوں صورتوں میں اس تجربے کو نظر انداز کر دیا گیا ہے جسے ہم ان تصورات کے پس منظر کا نام دے سکتے ہیں۔ یہ تحریریں بالعموم تین طرح کی ہیں۔

    (1) ایسی تحریریں جن میں صرف تحسین و آفرین کی فضا ملتی ہے اور صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان سے جھانکتا ہوا ذہن اقبال کے تجربوں کی سطح تک خود کو لے جانے کی طاقت کیا، طلب بھی نہیں رکھتا اور اقبال کے مطالعے میں اس کا رویہ بس خودسپردگی کا ہے۔

    (2) ایسی تحریریں جو اقبال کے تجربوں سے اور خیالوں سے کوئی مناسبت ہی نہیں رکھتیں اور ہمدردی کے اس عنصر سے یکسر خالی ہیں، جس سے دست بردار ہوکر کسی لکھنے والے سے اختلاف کا اور بےتعلقی کا حساب تو چکایا جا سکتا ہے، کم سے کم ادب کی تفہیم و تعبیر ممکن نہیں ہے۔

    (3) ایسی تحریریں جوادب اور غیرادب کے فرق و امتیاز کو خاطر میں نہیں لاتیں اور اقبال کو حیلہ یا حوالہ بناکر ایسے قصے چھیڑ دیتی ہیں جن کے لئے شعر پڑھنا چنداں ضروری نہیں رہ جاتا۔ خیال کے مختلف علاقوں کی سیر تو کر لی جاتی ہے۔ البتہ ان میں ذوق و شوق کے ساتھ پڑھنے کی کوئی شہادت نہیں ملتی۔

    سچی دانشوری پہلے سے طے کئے ہوئے نتیجوں کی پابند نہیں ہوتی اور اقبال چونکہ دانشور شاعر ہیں جنہیں صرف فنی یا لسانی پیمانوں پر پرکھنا ناکافی ہوگا، اس لئے ان کا مطالعہ بھی لکھنے والے سے ایک دانشورانہ رویے کا تقاضا کرتا ہے۔ اس مطالعے کی اولین شرط ادبی اظہار کے طور طریقے اور ترکیب سے واقفیت ہے، مگر اسی کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ لکھنے والا اقبال کے اپنے فکری فریم ورک سے الگ ہوکر بھی سوچنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ خیال کی آزادی کے خوف سے اس کا ذہن بوجھل نہ ہو۔ اقبال کی فکر پر سوالیہ نشان قائم کرنے میں اسے جھجک نہ ہو۔ اسے جوابوں کی تلاش کے علاوہ کچھ ایسے سوالوں سے بھی دلچسپی ہو جن کا دائرہ اقبال کی فکر کے دائرے سے الگ بنتا ہے۔ یہ سمجھ لینا کہ اقبال کی فکر ہمارے شخصی یا اجتماعی وجودکی پوری کلیت کا احاطہ کرتی ہے، اپنے ساتھ بھی زیادتی ہے اور اقبال کے ساتھ بھی۔ شعر کے واسطے سے ایسا کوئی دستور حیات دنیا کی کسی زبان میں شاید لکھاہی نہیں گیا جوانسان کو اپنی ہستی کے تمام سوالوں سے نچنت کردے اور جسے پڑھنے کے بعد اس میں کسی اور سطح پر سوچنے کی ضرورت کا احساس باقی ہی نہ جائے۔

    اس سلسلے میں ایک یہ تضاد عجیب و غریب سامنے آیا ہے کہ ایک طرف تو اقبال کے وژن میں آفاقیت کے پہلو پر زور دیا جاتا ہے، دوسری طرف یہی آفاقی شخصیت ایک محدود اور متعین علاقے کے سیاسی، تہذیبی، فکری مقاصد اور مفادات کی تعیین کا وسیلہ بھی سمجھ لی جاتی ہے۔ سیاسی جماعتیں اور سیاسی ذہن رکھنے والے افراد جب کسی شاعر کے نام یا کلام کا وظیفہ پڑھنے لگیں تو ہمیں اس کے حشر سے ڈرنا چاہئے۔ اس ابتذال نے اقبال کی شاعرانہ حیثیت کو بہت رسوا اور ان کی فکر کو بہت مسخ کیا ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی کے سیاق میں اقبال کی فکر کے مفہوم یا اس کی معنویت کا تعین کس طرح کیا جا سکتا ہے؟ ظاہر ہے کہ اقبال کو سمجھنے کی کوشش میں مصروف تمام لوگ صرف ایک علاقے سے نسبت نہیں رکھتے، نہ ہی ان کا معاشرتی پس منظر ایک ہے۔ ایسی صورت میں اقبال کو ایک قوم کے تمام ذہنی اور جذباتی معاملات کے تشخص اور تفہیم کا وسیلہ بنا لینے کا کیا جواز ہے؟

    اقبال کی وسعت خیالی کا اعتراف برحق، مگر ہستی کے اسرار کا سلسلہ شعور سے آگے بھی جاتا ہے۔ ا س قسم کی تنقیدیں پڑھتے وقت ایسا لگتا ہے کہ ہم نے اقبال کی فکر کے بنیادی محور سے اپنے جذباتی تعلق کی بنیاد پر، انہیں افکار اور اظہار کی تمام ذمہ داریوں سے آزادسمجھ لیا ہے۔ اردو میں اس طرح کی جذباتی منطق کے قہر کا دوسرا شکار انیس کی شاعری ہے کہ ان کے بہت سے مداح ان کی وسعتوں کا احساس تو رکھتے ہیں، حدود کا نہیں۔

    سچ تو یہ ہے کہ اقبال کو معاندانہ اور معترضانہ تنقید نے اتنا نقصان نہیں پہنچایا جتنا کہ خالی خولی توصیفی اور عقیدت مندانہ قسم کی تحریروں نے۔ اقبال اردو کے سب سے بڑے شاعر، یا کم سے کم اردو کے بلندترین شاعروں میں سے ایک کا مرتبہ رکھتے ہیں۔ ایک ہی سانس میں ان کا نام اگر لیا جاتا ہے تو صرف میر اور غالب کے ساتھ۔ ان کی شاعری اپنا سب سے بڑا دفاع خود ہے کہ ایک منفرد اور بڑے شاعر کی حیثیت سے اقبال نے اپنے دفاع کے لئے بھی منفرد اور اعلیٰ امتیازات قائم کئے ہیں۔ ایسی صورت میں اقبال کے شارحین کی اکثریت جن میں یاتو ایسے لوگ ہیں جو شاعری کو ایک شاعری کے پیمانے کے سوا، دوسرے ہر پیمانے پر جانچنا چاہتے ہیں اور اس عمل میں صرف علوم کی کتابوں سے ماخوذ معلومات کا سہارا کافی سمجھتے ہیں، یا پھر ایسے لوگ ہیں جن کا ذہن عامیانہ اور پرواز محدود ہے یا اقبال کے شعور اور بصیرتوں کی اڑان کا ساتھ دینے کی صلاحیت سے محروم۔

    یہاں ایک اورسوال میر ے ذہن میں سر اٹھاتا ہے۔۔۔ یہ کہ اقبال اپنے بعد کے شاعروں میں ایک تخلیقی حوالے کی حیثیت کیوں نہیں حاصل کر سکے؟ اقبال کے روشن کئے ہوئے راستے پر چلنے والوں میں ہم معروف ناموں میں سے ایک راشد کا نام لے سکتے ہیں۔ یا پھر اس لحاظ سے کہ تخلیقی ماحول کی تبدیلی کے باوجو داقبال کی معنویت کو تجدید کے ایک تخلیقی زاویے سے کیوں کر دیکھا جا سکتا ہے، ہم بس دو اور ممتاز شاعروں کا نام لے سکتے ہیں۔۔۔ فیض اور سردار جعفری۔ مگر راشد، فیض اور سردار جعفری کے یہاں بھی اقبال کی شاعری کو بس زیادہ سے زیادہ ایک یاد کئے جانے والے تخلیقی حوالے کا نام دیا جا سکتا ہے۔ اس تخلیقی حوالے کو نہ تو پھر سے پانے کی کوئی مستقل کوشش دکھائی دیتی ہے نہ یہ حوالہ بعد کی شعری روایت پر کوئی پائدار نقش ثبت کرتا ہے۔

    ہمارے عہد کے مسائل سے پیدا ہونے والی افسردگی کے ماحول اور سیاسی، معاشرتی اور تہذیبی سیاق میں میراور غالب کا ذکر بار بار ا ٓتاہے، نئی بصیرتوں اور معنویت کے نئے منطقوں کے ساتھ اور ایسا لگتا ہے کہ بدلتے ہوئے تناظر کے ساتھ نئے معانی کی تلاش کے امکانات بھی ان دونوں کے یہاں موجود ہیں، مگر اقبال کی دنیا کم سے کم فکر کی سطح پر اب پوری طرح روشن اور واضح دکھائی دیتی ہے۔ اس دنیا میں ہم بھاگتے ہوئے سایوں کا تعاقب نہیں کرتے۔ اپنے بے مثال تخلیقی جذب، فکری انہماک اورتخیل کی جست کے باوجود اس شاعری کے اسرار، یوں محسوس ہوتا ہے کہ پوری طرح عیاں ہو چکے ہیں۔ شعری تجربے کی دھوپ چھاؤں سے معنی میں جو ایک متحرک اور سیال کیفیت در آتی ہے، اس کیفیت تک رسائی سے زیادہ فکر، ہمیں اقبال کو کچھ طے شدہ مقاصد اور متعین حوالوں کے مطابق سمجھنے کی ہوتی ہے۔

    کلام اقبال کے عام شارحین یا تو تخلیقی زندگی کے مضمرات سے دلچسپی نہیں رکھتے یا پھریہ کہ سیاسی، سماجی ہنگاموں کے شوربے اماں میں انہیں شاعر اقبال کی گہری، گمبھیر، گھنی سرگوشیاں سنائی نہیں دیتیں۔ فوری مقاصد کے پھیر میں اقبال کی شاعری کے وسیع تر مقاصد گم ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ خود اقبال کوبھی اپنے عہدکے اس آشوب اوراس عہد میں تخلیقیت کے زوال سے پیدا ہونے والی سپاٹ اور بے روح نثریت کا کچھ اندازہ ضرور تھا۔ ورنہ وہ اتنی تاکید اور تواتر کے ساتھ وجدان کی سرگرمی کو باقی رکھنے اور دیرپا اور دور رس نتائج پر توجہ قائم رکھنے کا مشورہ نہ دیتے۔ اقبال کی بصیرت ایک ہمہ گیر انسانی انقلاب کی طالب تھی۔

    عجلت پسندی کے دباؤ نے ہمارے عہد کی اجتماعی زندگی میں جو سستاپن پیدا کیا ہے، اس عہد کے تمام شاعروں میں اقبال اس المیے کوسب سے زیادہ سمجھتے تھے۔ اقبال کی شاعری اس عہد کی روح کے زوال کا سب سے زیادہ بسیط منظر نامہ ہے۔ محض مادی مقاصد انسانی ہستی کے توازن اور تناسب کو کس طرح برباد کرتے ہیں، اقبال کی شاعری باربار اس نکتے کی طرف اپنے پڑھنے والوں کو متوجہ کرتی ہے۔ مگر اقبال کا عہد اپنے سیاسی اور سماجی قضیوں میں اس بری طرح الجھا ہوا تھا کہ اقبال کی شاعری کوان معاملات سے ہم آہنگ کرنے کے پھیر میں اقبال کے اکثر ناقدین ان کے افکار کی اکہری تعبیروں میں الجھ گئے۔ درد، دہشت اور جلال کی جو تفکر آمیز فضا اس شاعری کے واسطے سے ترتیب پاتی ہے اور اقبال اس کی ترجمانی کے لئے جو ایک نیا تخلیقی محاورہ وضع کرتے ہیں، اقبال سے متعلق تحریروں میں اس کا سراغ کم کم ہی ملتاہے۔

    ورق پر ورق الٹتے جائیے، دور دور تک یہ گمان نہیں گزرتا کہ آپ ایک منفرد اور مفکرانہ ذہن رکھنے والے عظیم المرتبت ’’شاعر‘‘ کے مطالعے سے گزر رہے ہیں۔ شاعر تو کہیں کھو جاتا ہے اور مفکر کو ہم عام قسم کے قومی اور سماجی قائدین کی صف میں ڈال دیتے ہیں۔ سروکاروں (concerns) کی سطحیت اور روزمرہ معاملات میں کلام اقبال سے رہنمائی کی طلب ہمیں اقبال کے آہنگ کی مفکرانہ گونج کا احساس نہیں دلا پاتی۔ اقبال کی خودکلامی کو ہم خطابت سمجھ بیٹھتے ہیں اور ان کی بصیرت کے بلند ترین منطقوں کی طرف سے غافل ہو جاتے ہیں۔

    بے شک، ہر شاعری کی طرح اقبال کی شاعری کو پرکھنے کے معیار بھی ان کی شاعری ہی سے برآمد کئے جانے چاہئیں۔ لیکن اس حقیقت کے باوجود اقبال کی شاعری مسلمانوں کے عام اجتماعی مسئلوں کا احاطہ بھی کرتی ہے اور خا ص طور سے ہندی مسلمانوں کو درپیش بعض سوالات بھی اس کے دائرے میں آجاتے ہیں۔ صرف ہندوستان اور پاکستان کے حوالے سے اقبال کامفہوم اور مرتبہ متعین کرنے کی کوشش کا انجام ظاہر ہے۔ اقبال کو حکیم الامت کہہ کر ہم نے ان کے اصل امتیازات گویا کہ ان سے الگ کر دیے۔ اقبال کی شاعری سے پیدا ہونے والے مسئلوں کو ایک وسیع تاریخی اور تخلیقی تناظر میں، ایک دوسرے کے ساتھ رکھ کر دیکھا جانا چاہئے تھا۔ اقبال کی فکر، اقبال کی شعریات، اقبال کی حسیت کا پورا نظام، اقبال کے جذبوں اور بصیرتوں کی اور ان کے مجموعی شعور کی اصل منطق، اسی تناظر میں ابھرتی ہے۔ اقبال نہ توصرف ہندی ہیں، نہ صرف حجازی، ان کی شخصیت دنیا کی دوجلیل ا لقدر تہذیبوں کی ہم کلامی کا نتیجہ ہے۔ سو، کسی ایک قوم، خطے، علاقے، تہذیبی اور لسانی گروہ سے مخصوص مطالبات کی روشنی میں اقبال کو سمجھنا دراصل شاعر اقبال کی روح کونہ سمجھنے کے مترادف ہے۔

    تہذیبیں جب اجنبی علاقوں کاسفر کرتی ہیں تو ایک ایسے پر پیچ عمل سے بھی گزرتی ہیں جسے دکھائی دینے والی اور دکھائی نہ دینے والی بہت سے تبدیلیوں کا عمل کہنا چاہئے۔ اس حساب سے اقبال کی شاعری بھی ہمہ گیر تبدیلیوں کے ایک کثیرالجہات عمل سے گزری۔ اس سفر میں اسلامی فکر اور معاشرتی تنظیم سے منسلک، اقبال کے استعارے بھی تبدیل ہوئے۔ فتح محمد ملک کا خیال ہے کہ ’’اقبال کو تہذیب حجازی ہی ایک ایسی تہذیب نظر آتی ہے جس میں آفاقی اور عالم گیر اثرات تھے اور جو حجاز سے نکل کر یورپ اور ہندوستان تک پہنچی۔‘‘ میں اسے فکر کی ایک زیریں لہر سے تعبیر کرتا ہوں جس کا ارتعاش تو اقبال کی پوری شاعری میں محسوس کیا جا سکتا ہے مگر اس لہر نے سطح کے اوپر تیرتی ہوئی حقیقتوں کا ایک نیا سلسلہ بھی ترتیب دیا۔

    اس نئے سلسلے کا شناس نامہ اگر پورے مشرق کے واسطے سے ترتیب دیا جائے تو ہم اقبال کی فکر کے بہت سے ایسے زاویوں کو بھی دیکھ سکتے ہیں جو فوری نتائج اور محدود مقاصد کی گرد میں چھپتے جاتے ہیں۔ یوں بھی اقبال اپنے سامعین یا پڑھنے والوں سے ایک ساتھ کئی سطحوں پر خطاب کرتے ہیں اور ان سطحوں میں بلندتر سطح وہی ہے جہاں مفکر اقبال اور شاعر اقبال کی شبیہوں میں کسی طرح کا تصادم نہیں پیدا ہوتا ہے اور دونوں ایک دوسرے کی معنویت کے تعین میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔

    مأخذ:

    اقبال اور عصر حاضر کا خرابہ (Pg. 13)

    • مصنف: شمیم حنفی
      • ناشر: اکیڈمی بازیافت، کراچی
      • سن اشاعت: 2010

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے