Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

استعارے کا خوف

محمد حسن عسکری

استعارے کا خوف

محمد حسن عسکری

MORE BYمحمد حسن عسکری

    انیسویں صدی میں جن لوگوں نے ہمارے ادب میں پیروی مغربی کی تحریک شروع کی انہوں نے خود کبھی مغربی ادب نہ پڑھا تھا۔ دوسروں سے ترجمہ کرا کے سنا تو ادب سے نہیں، چند خیالات سے آگاہی حاصل ہوئی۔ چونکہ فاتح قوم کا رعب دل پر جما ہوا تھا اور ان کی ہر بات کو رشک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، لہٰذا یہ خیالات اپنے خیالات سے وزنی اور وقیع معلوم ہوئے۔ چاہے زبان سے نہ کہا گیا ہو، لیکن فی الجملہ ادب کے متعلق یہ رائے قائم ہوئی کہ ادب وہ چیز ہے جس میں بڑے اچھے اچھے اور کارآمد خیالات ملیں۔

    اسالیب بیان کو تو یہ سمجھا گیا کہ ان کی کوئی حیثیت ہی نہیں۔ یا بہت سے بہت ثانوی حیثیت ہے۔ سب سے اچھا اسلوب وہ قرار پایا، جس میں زبان آسان، جملے چھوٹے چھوٹے، عبارت صاف، رواں اور سلجھی ہوئی ہو۔ اوپر سے یہ بھی تصور کر لیا گیا کہ یہ خوبیاں ارادے یا مشق یا خلوص یا قوم کے درد سے پیدا ہو سکتی ہیں۔ وہ جو فرائڈے نے کہا ہے کہ اسلوب لکھنے والے کی سوانح عمری ہوتا ہے، تو ایسی بات ہمارے مصلحین کے ذہن میں بھی نہیں آسکتی تھی۔ بلکہ اگر انہیں بتائی بھی جاتی تو ان کی سمجھ میں نہ آتی، اور نہ ان کے لئے قابل قبول ہوتی۔ پھر ان دنوں افادیت پرستی اور عقلیت کا بھی بڑا چرچا تھا۔ سر سید اور ان کے ساتھی اپنا پورا زور اس بات پر صرف کر رہے تھے کہ اسلام کے ’’احکام‘‘ مبنی بر عقل اور دنیاوی زندگی کے لئے بڑے کارآمد ہیں۔ انسان کی فطرت میں جو ’’بے عقلی‘‘ ہے وہ کدھر جائے گی۔ اس کی انہیں ذرا بھی فکر نہ تھی۔

    جب لوگوں نے قرآن شریف کو ڈیل کارینگی کا ہدایت نامہ بنا کے رکھ دیا تو ادب تو بیچارا پھر بھی رانڈ کا جنوائی ہے، اس کی تو جو چاہے گت بنائیے۔ چنانچہ ادب میں بھی ایک نئی شریعت نافذ ہوئی اور ادب سے تین خاص مطالبے کئے گئے۔(۱) ادب اثرانگیز ہو۔ یعنی جذبات کو بدیہی طور پر اور فی الفور حرکت میں لائے۔(۲) اصلیت پر مبنی اورعقل کے دائرے میں بند ہو۔(۳) مفید اور کارآمد خیالات پیش کرے۔ ان اصولوں کی چھلنی میں فارسی اور اردو کا پرانا ادب چھانا گیا تو بڑا کرکرا نکلا اور تو اور بیچارے سادہ دل مولانا حالی جو اپنے منہ سے کہہ گئے ہیں۔

    سخت مشکل ہے شیوہ تسلیم

    ہم بھی آخر کو جی چرانے لگے

    ان تک کویہ شکایت پیدا ہوئی کہ ہمارے ادب کا بہت بڑا حصہ جذبات سے خالی ہے۔ اگر یہ ادب جذبات سے خالی ہے تو کیوں؟ اس میں جذبات کی جگہ اور کیا ہے؟ جذبات کی کمی کے باوجود یہ ادب واقعی ادب ہے یا نہیں؟ ان سوالوں پر حالی کی نسل نے کبھی غور نہیں کیا۔ جو سوال مسٹر مکالے کے ذہن میں پیدا نہیں ہو سکا وہ ان بیچاروں کے ذہن میں کہاں سے آتا۔ حالی نے اپنی حدوں کے اندر بڑے غضب کی شاعری کی ہے۔ لیکن ان کی شخصیت اتنی ٹھٹھری ہوئی تھی کہ وہ کئی طرح کی شاعری سے قطعاً بے نیاز تھے۔ جذبات کے تو وہ ضرور قائل تھے، لیکن جذب سے بیچارے مولانا حالی اتنے ڈرتے تھے کہ اپنی عقل کو بھی تھوڑی سی ڈھیل دینے کی ہمت نہ کرسکتے تھے۔ روکھے پن کی مثال میں انہوں نے شاہ نصیر کا یہ شعر پیش کیا ہے۔

    چرائی چادر مہتاب شب میکش نے جیحوں پر

    کٹورا صبح دوڑانے لگا خورشید گردوں پر

    ان کے نزدیک یہ شعر نہیں چیستاں ہے۔ گویا چیستاں میں شعریت نہیں ہو سکتی۔ آخر ذہن کو جذبات سے الگ کر کے محض کھیل کی خاطر اشیا اور خیالات سے کھیلنے میں بھی تو ایک لطف ہے۔ لیکن چونکہ اس میں نہ تو جذباتی آسودگی ملتی ہے، نہ یہ حرکت قوم کی فلاح و بہبود کا سامان مہیا کرتی ہے۔ اس لئے مولانا ایسے لطف سے بارہ پتھر الگ رہتے تھے۔ قوم کے انحطاط کے احساس اور اصلاح کی فکر نے انہیں اور ان جیسے لوگوں کو اور بھی مار رکھا۔ قصہ مختصر، پرانی نظم و نثر میں انہیں جو خرابیاں نظر آئی تھیں اس کی اور کوئی وجہ تو سمجھ میں نہ آئی، بس ایک بات سوجھی کہ ہمارے ادب میں صنائع بدائع کی بھرمار ہے۔ دوراز کار تشبیہوں اور استعاروں کی ریل پیل ہے۔ اس لئے ہمارا ادب مغربی ادب سے کمتر درجے کا ہے۔ ایک طرف تو حالی نے ایسا شعر کہا ہے۔

    اک عمر چاہئے کہ گوارا ہو نیش عشق

    رکھی ہے آج لذت زخم جگر کہاں

    دوسری طرف تنقید بازی کے چکرمیں آکے استعارے کی تعریف ایسے الفاظ میں کی ہے کہ آدمی خواہ مخواہ بھڑک جائے۔ ان کے نزدیک استعارے کے تین فائدے ہیں۔(۱) اس کے ذریعے لمبی چوڑی بات مختصر الفاظ میں ہو سکتی ہے۔(۲) روکھا پھیکا مضمون آب و تاب کے ساتھ بیان ہو سکتا ہے۔ بعض جذبات و خیالات کے اظہار میں ’’اصل زبان کا قافیہ تنگ ہو جاتا ہے‘‘ اور ’’معمولی زبان‘‘ رو دیتی ہے۔ ایسی جگہ استعارہ شعر میں لطف اور اثرپیدا کر دیتا ہے۔ اوپر سے حالی نے تنبیہ کی ہے کہ اگر استعارہ بعید از فہم ہوا تو شعریت زائل ہو جاتی ہے۔

    حالی کی اس ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ ’’اصل زبان‘‘ الگ چیز ہے۔ استعارہ الگ چیز۔ یوں کام تو بغیر استعارے کے بھی چل سکتا ہے۔ لیکن یہ ہے کارآمد، کیونکہ اس سے روکھی پھیکی بات مزیدار بن جاتی ہے۔ بس شرط یہ ہے کہ آدمی عقل کے دائرے سے نہ نکلے کیونکہ صاحب اگر ہم کوئی ایسا تجربہ بیان کرنا چاہیں جو ماورائے عقل یا انسانی ہستی کے حیاتیاتی عمل سے متعلق ہو تو پھرکیا کریں؟ مثلاً بیدل کا پٹا پٹایا مصرع ہے۔

    چہ قیامتی کہ نمی رسی زکنار ما بہ کنار ما

    پتہ نہیں اس میں استعارہ ہے بھی یا نہیں۔ بہرحال جو چیز بھی ہے کیا وہ عقل و فہم سے نزدیک ہے؟ کیا فہم سے بعید ہو کر یہ شعرچیستان بن گیا ہے؟ اگر حالی کو ادب میں ایک علی گڑھ کھولنے کی اتنی فکر نہ ہوتی تو خود اپنے ادب میں انہیں ایسی چیزیں مل جاتیں جن پر غور کرنے سے وہ استعارے کی ماہیت سمجھ سکتے تھے۔ بہرحال ان جیسے نقادوں کی تنگ نظرانہ عقل پرستی اور احتیاط پسندی نے اردو والوں کے دل میں استعارے کا خوف پیدا کر دیا۔ اس قسم کی پیروی مغربی کی پگڈنڈی پر چلتے چلتے آخر ایک دن ایسا بھی آیا کہ ہمارے ایک نقاد نے مثلاً اس شعر کو مہمل قرار دیا۔

    گئے وہ دن کہ تھا شور عنادل صحن گلشن میں

    خزاں کا وقت ہے بیٹھے ہوئے کوے اڑاتے ہیں

    حالی خود کتنے ہی اچھے شاعرکیوں نہ ہوں اور ایک خاص طرح کے شعروں کی کتنی ہی اچھی تمیز کیوں نہ رکھتے ہوں، لیکن اس کور ذوقی کا آغاز انہیں سے ہوا۔ یہ خالی خولی ادب کا مسئلہ بھی نہیں۔ جو شخص یا جو جماعت استعارے سے ڈرتی ہے۔ وہ در اصل زندگی کے مظاہرے اور زندگی کی قوتوں سے ڈرتی ہے، جینے سے گھبراتی ہے۔ حالی میں تو پھر بھی اتنی ہمت تھی کہ یہ اعتراف کر گئے۔

    ہم کو بہار میں بھی سرگلستاں نہ تھا

    یعنی خزاں سے پہلے دل شادماں نہ تھا

    ان کے بعد آنے والے تو زندگی کا نام لے لے کر زندگی سے بھاگتے رہے۔

    جیسا کہ میں نے اوپر کہا، حالی کی بنیادی غلطی یہ تھی کہ انہوں نے استعارے کو ’’اصل زبان‘‘ سے الگ سمجھا۔ غالباً ’’اصل زبان‘‘ کی اصطلاح سے ان کی مراد یہ تھی کہ زبان بنفسہ ان جذبات اور خیالات کے اظہار کے لئے وجود میں آئی ہے جن پر ہمارے شعوری ذہن کو پوری قدرت حاصل ہو۔ لیکن نہ تو شعوری ذہن انسانی وجود کا سب سے بنیادی اور ابتدائی جز ہے نہ اس کے ذرائع اظہار محض زبان تک محدود ہیں۔ انسان نہ تو خالی روح ہے نہ خالی ذہن، ان سب سے پہلے وہ حیاتیاتی نظام ہے۔ پھر ذریعہ اظہار کی حیثیت سے زبان ہماری اجتماعی اور انفرادی ارتقا میں ایک ثانوی درجہ رکھتی ہے اور نشوونما کی کئی منزلیں طے کرنے کے بعد حاصل ہوتی ہے۔ بچہ اپنے تجربات کا اظہار سب سے پہلے جسمانی حرکتوں کے ذریعہ کرتا ہے اور جب بولنا سیکھتا ہے، اس وقت بھی اس کے تجربات عقلی یا ذہنی نہیں ہوتے بلکہ جبلی۔ چنانچہ انسان کی اجتماعی اور انفرادی زندگی میں زبان کو سب سے پہلے جن تجربات سے سلٹنا پڑتا ہے وہ قوموں کے عروج اور زوال کے فلسفے نہیں ہوتے بلکہ جسمانی حقیقتیں اور جبلتوں کی آویزش، مؤرخ، مصلح قوم، فلسفی بننے کے بعد اور فلسفیانہ سے فلسفیانہ بات کرتے ہوئے بھی آدمی انہیں جبلی قوتوں سے کشمکش میں گرفتار رہتا ہے۔ چاہے اسے شعوری طور پر یہ بات معلوم ہو یا نہ ہو۔

    اپنے ذہن کے ذریعے آدمی جبلتوں سے بھاگنا چاہتا ہے۔ لیکن ذہن کی کمین گاہ میں خود جبلت چھپی ہوئی بیٹھی رہتی ہے۔ غرض ہم زبان سے جو فقرہ بھی کہیں اس میں بھولا ہوا یا زبردستی بھلایا ہوا تجربہ اور پوری عمر کا تجربہ پوشیدہ ہوتا ہے۔ یعنی ہمارا ایک ایک فقرہ استعارہ ہوتا ہے۔ استعارے سے الگ ’’اصل زبان‘‘ کوئی چیز نہیں۔ کیونکہ زبان خود استعارہ ہے۔ چونکہ زبان اندرونی تجربے اور خارجی اشیاء کے درمیان مناسبت اور مطابقت ڈھونڈنے یا خارجی اشیاء کو اندرونی تجربے کا قائم مقام بنانے کی کوشش سے پیدا ہوتی ہے۔ اس لئے تقریبا ہرلفظ ہی ایک مردہ استعارہ ہے۔ اصل زبان یہی ہے۔

    یہاں آپ اعتراض کریں گے کہ اگر ہر لفظ استعارہ ہے تو پھر الگ سے استعارے کی بحث ہی بے کار ہے یا یہ کہیں گے کہ جن استعاروں کا مطلب صرف ماہر نفسیات سمجھ سکیں، ان سے ادب کے طالب علموں کو کیا سروکار۔ ہمیں تو ان استعاروں سے غرض ہے جنہیں ہم بھی استعارہ سمجھیں۔ یعنی وہ استعارہ جنہیں شاعر یا نثر نگار انفرادی طور سے تخلیق کرتا ہے۔ چلئے عام الفاظ سے امتیاز کرنے کے لئے انہیں زندہ استعارہ کہہ لیجئے۔ لیکن زندہ اور مردہ دونوں قسم کے استعارے آخر ایک ہی عمل کے ذریعے اورایک ہی اصول کے مطابق تخلیق ہوتے ہیں۔ استعارے کی پیدائش کاعمل وہی ہے جو خواب کی پیدائش کا۔ آدمی اپنے تجربات کو قبول بھی کرنا چاہتا ہے اور رد بھی۔ ان دو رجحانات میں سمجھوتہ سے صورت نکلتی ہے کہ تجربہ براہ راست تو ظاہر نہیں ہوتا۔ ہو بھی نہیں سکتا۔ اس کے بجائے کوئی خارجی چیز تجربے کی قائم مقام بن جاتی ہے۔ اس عمل کے ذریعہ چاہے خواب وجود میں آئے، چاہے استعارہ، اس میں ہمارے شعور، ذاتی لاشعور، اجتماعی لاشعور، احساس، جذبے اور خیال کے ساتھ ساتھ ہمارے گرد و پیش کا وہ حصہ بھی شامل ہوگا جو ہم نے اپنے اندر جذب کر لیا ہے۔

    لہذا استعارے کے تخلیق کے لئے آدمی میں دو طرح کی ہمت ہونی چاہے۔ ایک تو اپنے لاشعور سے آنکھیں چارکرنے کی، دوسرے اپنی خودی کی کوٹھری سے نکل کر گرد و پیش سے ربط قائم کرنے کی۔ استعارے میں سوال یہ نہیں ہوتا کہ وہ منطق کی حد میں یا قرین قیاس ہے یا نہیں۔ دیکھنے کی بات یہ ہوتی ہے کہ استعارے کا خالق ان مختلف عناصر سے کتنا ربط قائم کرسکا ہے اور انہیں آپس میں حل کر کے ایک نئی اور معنی خیز وحدت کی تشکیل کر سکا ہے یا نہیں۔ یہ روکھے پھیکے مضمون کو مزیدار بنانے کا معاملہ نہیں بلکہ اصل اظہار یہ ہے میرے خیال میں۔ یہاں نظم اور نثر کی تفریق بھی جائز نہیں۔

    فلوبیر اور جوئس کے بعد تنقید ان دونوں چیزوں کو الگ الگ نہیں رکھ سکتی۔ آدمی چاہے نظم لکھ رہا ہو، چاہے نثر، لیکن اگر وہ تخلیق کرنا چاہتا ہے تو اندرونی دنیا اور بیرونی دنیا دونوں کو قبول کئے بغیر اوران دونوں کوآپس میں سموئے بغیرچارہ نہیں اور اس کا نتیجہ ہوتاہے استعارے کی پیدائش۔ استعارہ تو انسانی تجربے کی نسلوں میں سے رستا ہے۔ یہ عقل وقل کی بات نہیں جس طرح صحت مند آدمی یا صحت کا متلاشی خواب دیکھے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اسی طرح استعارے کی تخلیق ادب کا لازمی عمل ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ آدمی اس عمل کو رد کر کے یا اس پر بند باندھ کر کے اپنی تخلیقی صلاحیت کو محدود کر لے۔

    ڈاکٹر جانسن نے سوئفٹ کے متعلق کہا تھا کہ یہ سالا استعارے کا خطرہ کبھی مول نہیں لیتا۔ جانسن کا مطلب تو خیر ایک خاص طرز تحریر سے تھا لیکن اس فقرے میں انہوں نے ایک نفسیاتی حقیقت بیان کردی ہے۔ بعض لوگوں کے لئے استعارہ واقعی ایک زبردست خطرے کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ جبلت کی حیات افروز اور ہلاکت خیز قوتوں سے گھبرا کے اپنے لئے ایک تنگ ساعقلی نظام بنا لیتے ہیں یا عقل کے اندرقلعہ بند ہو کے بیٹھ جاتے ہیں۔ استعارہ چونکہ عقل اور منطق سے ماورا ہے۔ اسی لئے استعارہ ان کے ذہن میں ابھرا اور ان کی زندگی کا نظام خطرے میں پڑا۔ ایسے لوگ خاص شرطوں کے ساتھ زندہ رہ سکتے ہیں۔ یہ شرطیں ختم ہوئیں اور ان کی زندگی درہم برہم ہوئی۔ لہٰذا استعارہ کا خوف اصل میں غیرعقلی تجربات کا خوف ہے۔ استعارے سے انحراف زندگی سے انحراف ہے۔

    جیسا میں نے کہا استعارہ اپنے اندرونی تجربات اور خارجی دنیا کو بلا جھجک قبول کرنے سے پیدا ہوتا ہے۔ اگر آدمی اس کے اندر الجھ کے رہ گیا یا اپنی محبت میں ایسا گرفتار ہوا کہ خارجی دنیا سے علاقہ باقی نہ رہا، اس نے اپنے تجربات کو قبول کرنے کی صلاحیت کھو دی تو استعارے کی تخلیق در کنار، وہ کوئی تخلیقی کام کر ہی نہیں سکتا۔ بلکہ شاید اپنی روزی بھی نہیں کما سکتا۔

    اگر لکھنے والا استعارے بالکل ہی نہیں استعمال کرتا یا بہت ہی کم استعارے استعمال کرتا ہے تواس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے تجربات کا بس تھوڑا سا حصہ قبول کر سکا ہے اور نئے تجربات حاصل کرنے کی صلاحیت تو اس میں بالکل نہیں رہی۔ ایسی حالت میں وہ کچھ نہ کچھ لکھ تو لے گا لیکن بس حالی بن کے رہ جائے گا۔ یا پھر بڑا ادیب بننے کے لئے ایسے آدمی کی شخصیت میں اتنی قوت ہونی چاہئے کہ اسے نئے تجربات تو حاصل ہوں، لیکن وہ اس کے نفسیاتی نظام کودرہم برہم کر کے رکھ دینے کے بجائے بھینچ بھنچا کر خود اس نظام کا حصہ بن جائیں۔ ایسا شخص سوئفٹ کی طرح بڑا ادیب تو بن سکتا ہے لیکن اس کی تخلیقی صلاحیتوں کی پوری طرح نشوونما نہیں ہونے پاتی، اور ساتھ میں اپنا عقلی نظام قائم رکھنے کی قیمت بڑی زبردست ادا کرنی پڑتی ہے، جیسے سوئفٹ خود آخر میں جا کے پاگل ہو گیا۔ پھر ایک بات اور یاد رکھنی چاہئے۔ اتنا بڑا ادیب چاہے شعوری طور پر استعاروں سے بچتا ہو، اور ہمیں اس کی تحریر میں بظاہر استعارے نہ ملیں مگر اس کی پوری نظم یا پوری کہانی بذات خود ایک ہمہ گیر استعارہ ہوگی۔ سوئفٹ نے گلیور کا جو قصہ لکھا ہے وہ استعارہ چھوڑ ایک زبردست MYTH ہے۔ آدمی کو اپنے باطن اور خارج پر سوئفٹ جیسی گرفت حاصل ہو اور وہ کسی نہ کسی شکل میں استعارے کی تخلیق نہ کرے، یہ بالکل ناممکن ہے۔

    ان صورتوں کے برخلاف ایک صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ آدمی اپنی تحریر میں استعاروں کی بھرمار کر دے۔ اس کے یہ معنی ہوں گے کہ ایسا شخص نئے سے نیا تجربہ حاصل کرنے کو تو بے قرار ہے، لیکن ان کی تنظیم نہیں کر سکتا اور تجربے اس کے قابو سے باہر نکل گئے ہیں۔ یا اگر استعارے خواہ مخواہ اور التزاماً استعمال ہو رہے ہیں تو اس کا سبب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آدمی کا دماغ اور جذبات ایک دوسرے سے الگ ہوگئے ہیں اور اس کا ذہن خیالات اور اشیا سے تفنن کے طور پر کھیل رہا ہے، یا ایک طرح کے استلذاذ بالنفس میں مشغول ہے۔ پھرآخری صورت اور سب سے قابل قدر صورت یہ ہوگی کہ استعارہ صرف تجربات کے اظہار کے لئے ہی نہیں بلکہ ان کے انضباط اور تنظیم کے لئے بھی استعمال ہو۔ بہرحال استعارے کی موجودگی اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ لکھنے والے میں اپنے تجربات کو قبول کرنے، نئے تجربات کو حاصل کرنے اور اگر ضرورت پڑے تو اپنے پرانے ذہنی نظام کو توڑ کر ایک نیا نظام مرتب کرنے کی صلاحیت کسی نہ کسی حد تک موجود ہے۔

    اب یہ دیکھئے کہ استعارے سے کیا حاصل ہوتا ہے۔ سب سے پہلی چیز تو یہی ہے کہ اس کے ذریعے اپنا بھولا ہوا تجربہ زندہ ہوتا ہے۔ اپنے اندر جو قوت کے سر چشمے عقل و خرد کی مٹی کے نیچے دبے پڑے ہیں ان تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔ لیکن اس سے بھی بڑی بات یہ ہے کہ استعارہ جذبے اور فکر کی علیحدگی ختم کر کے انہیں ایک دوسرے میں جذب کر دیتا ہے۔ شعور اور لاشعور، جسم اور دماغ، فرد اور جماعت، انسان اور کائنات کا وصال اسی کے وسیلے سے ہوتا ہے۔ اس کا اثر دیرپا ہو یا نہ ہو۔ بہرحال جو شخصیت کئی ٹکڑوں میں بٹ گئی ہو اس کا علاج وقتی طور پر ہی سہی، استعارہ کرتا ہے۔ انسانی وجود اگر کہیں وحدت کی شکل میں نظر آتا ہے تو استعارے میں۔

    مولانا روم نے کہا ہے کہ جب عشق دل میں داخل ہوتا ہے تو خود پرستی بھاگ جاتی ہے۔ یہی حال استعارے کا ہے۔ خود پرستی اور استعارہ دونو ں ایک دوسرے کی ضد ہیں کیونکہ استعارہ اپنے ذاتی تجربے اور خارجی اشیا کے درمیان مناسبت ڈھونڈنے کا نام ہے۔ استعارے سے وہی آدمی گھبراتا ہے جو اپنے آپ سے چپکا پڑا رہے اور خارجی کائنات کے احساس اور ادرا ک کومصیبت سمجھتا ہو، استعارے کے استعمال کا مطلب ہی یہ ہے کہ آدمی میں خودپرستی کی کال کوٹھری سے نکل کر کائنات کی طرف بڑھنے کی ہمت پیدا ہوئی۔ اسی لئے میں تو کہوں گا کہ استعارہ صرف وہی استعمال کر سکتا ہے جو سچا عشق کر سکتا ہے۔ اگر آپ کو ثبوت چاہئے تو شیکسپئر کا ’’رومیو اینڈ جولیٹ‘‘ پڑھئے۔

    رومیو کے جولیٹ پرعاشق ہوتے ہی دنیا کی ہر بھونڈی سے بھونڈی چیز اس کے لیے محبت کا استعارہ بن جاتی ہے۔ رومیو کی محبت کوئی روکھا پھیکا مضمون نہیں تھا، جسے دو استعاروں کی مدد سے پر لطف بنا رہا ہو۔ اس محبت کی اصل زبان یہی تھی۔ عشق ہوتے ہی اس کی خود پرستی اس طرح ختم ہوئی کہ وہ حقیر سے حقیر چیز کو گلے لگانے لگا۔ رومیو کے دل و دماغ میں کائنات کی محبت اور استعارے دونوں ایک ساتھ سیلاب کی طرح آئے ہیں، کیونکہ خارجی کائنات کی محبت کے بغیر استعارے کا استعمال، ہمیں کائنات کی محبت پر مجبور کرتا ہے۔ استعارے کی شرط ہی یہ ہے کہ کائنات کی بدصورت چیز کو بھی اپنے اندر جذب کریں اور خود ان میں جذب ہو جائیں۔ استعارہ انسان اور کائنات کو ایک دوسرے میں معدوم کرنے کا وسیلہ ہے۔ اسی عمل کے ذریعہ چیزوں کی قلب ماہیت ہوتی ہے اور اپنی بھی اور انسان اور کائنات ایک عظیم وحدت کے اجزا بن جاتے ہیں۔ نظیری نے یہی حقیقت ایک استعارے ہی میں بیان کی ہے۔

    کہ جلا یافتہ از خار مغیلاں گشتم

    ظاہر ہے کہ کائنات سے ایسا شدید رابطہ قائم کرنے میں نشاط ہی نہیں، درد و غم سے بھی دوچار ہونا پڑتا ہے۔ کائنات ہمیں چمکار کر اپنے پاس بلاتی ہے، اور ڈرا کے بھگاتی بھی ہے۔ نشاط و غم کا یہی امتزاج استعارے کی جان ہے۔ یہ غم و نشاط بعید از فہم ہے،عقل سے ماورا ہے ہے۔ اسی لئے استعارہ بھی بعید ز فہم ہو کر ہی استعارہ بنتا ہے۔۔۔ چاہے مولانا حالی اسے نہ سہار سکیں۔

    عشق کے علاوہ استعارہ کے لیے آدمی میں دوسری صلاحیت انکسار کی ہونی چاہئے۔ یعنی وہ اپنی ہستی کے اصول کو زندگی کا واحد اصول نہ سمجھے۔ استعارہ کا مطلب ہی یہ ہے کہ کائنات میں بیک وقت وجود کے کئی اصول کار فرما ہیں، جن کے درمیان اختلاف بھی ہے اور مماثلت بھی۔ اور جو بدیہی تضاد کے باوجود ایک دوسرے میں جذب ہو کر ایک بزرگ تر وحدت کی تشکیل کر سکتے ہیں۔ مثلاً بالزاک نے پیرس کی بنی ہوئی عمارتوں کو روس کے گھاس کے میدانوں سے تشبیہ دی ہے، اور سڑک کے کرپکوں کو سفید سفید بپھری ہوئی لہروں کے سمندر سے۔ یہ دونوں باتیں بعید از فہم اور مہمل ہیں، مگر بالزاک نے استعارہ کے ذریعہ وجود کے دو اصولوں کا مقابلہ کیا ہے۔ ایک طرف تو فطرت ہے، دوسری طرف شہر کی مصنوعی زندگی، پھر ان دونوں منظروں میں مشابہت کی طرف اشارہ کر کے بالزاک نے بتایا ہے کہ شہر والوں نے اپنی زندگی کو فطرت سے الگ تو کر لیا ہے لیکن ان کی شدت حیات نے مصنوعی چیزوں کوبھی ایسی قوت اور ہیئت عطا کی ہے کہ وہ فطرت سے مقابلہ کرتی ہیں۔

    ایک اور معنی اس میں یہ نکلتے ہیں کہ چاہے انسان اپنے لئے ایک غیر فطری ماحول ہی کیو ں نہ تیار کرلے مگر انسانی روح اس کی تفسیر بھی فطرت کی اصطلاح میں کر کے اس غیر فطری ماحول کو بھی پھر فطرت میں غرق کردے گی۔ اب مولانا حالی بتائیں کہ یہ ساری باتیں ’’اصل زبان‘‘ میں کس طرح کہی جا سکتی ہیں، چلتے چلاتے ایک اور مثال دیکھئے۔

    پروست نے ہوٹل کے میزپوشوں کو قربان گاہ کے غلافوں سے تشبیہ دی ہے جن پر ڈوبتے ہوئے سورج کی روشنی پڑ رہی ہو۔ حالی کے اصولوں کے مطابق یہ تشبیہ بھی غیرمناسب، دور از کار اور بعید از فہم ہے۔ کیونکہ ہوٹل میں قربان گاہ کا سا تقدس نہیں ہوتا۔ لیکن پروست کا یہ کہنا ہے کہ بعض لوگوں کے لئے دنیاوی زندگی بھی ایک مذہب کا درجہ حاصل کر لیتی ہے۔۔۔ اور نہایت معصوم طریقے سے۔ مذہب کی طرح یہ بھی ایک اصول حیات ہے اور اس لئے قابل احترام۔ پھر جس طرح مذہب قربانیاں چاہتا ہے، اسی طرح دنیاوی شائستگی بھی بڑی بڑی قربانیاں وصول کر لیتی ہے۔ ایسے واقعات سے پروست کا ناول بھرا پڑا ہے۔ چنانچہ یہ استعارہ ایک طرف توطربیہ ہے، دوسری طرف حزنیہ۔ اس ایک استعارے میں پروست نے اپنا پورا ناول بھر دیا ہے۔ وجود کے اتنے متضاد اصولوں اور قوتوں کو یکجا کر کے ان کی نوعیت بدل دینا صرف استعارے کا کام ہے۔

    پھر میں نے کیا برا کہا جو لوگ استعارے سے جھجکتے ہیں وہ در اصل زندگی کی قوتوں سے ڈرتے ہیں۔ چونکہ ان میں تجربے کی نئی نئی حقیقتوں کو اپنے اندر جذب کرنے کی ہمت نہیں ہوتی، اس لئے وہ ہر قسم کی غیرمنطقی باتوں کی طرف سے خطرہ محسوس کرتے ہیں اور استعارہ تو لازمی طور پر اپنے ساتھ غیر منطقی اور بعید از فہم تجربات کھینچ کے لاتا ہے۔ لہٰذا استعارہ واقعی ڈرنے کی چیز ہے۔

    خیر ایک آدھ لکھنے والا استعارے سے ڈرتا ہے تو ڈرا کرے لیکن اگر سو سال تک ادیبوں کی نسلیں کی نسلیں استعارے سے لرزتی رہیں تو اس سے کیا نتیجہ برآمد ہوتا ہے؟ اب ہر بات مجھ ہی سے نہ کہلوائیے۔

    مأخذ:

    مجموعہ محمد حسن عسکری (Pg. 187)

    • مصنف: محمد حسن عسکری
      • ناشر: سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور
      • سن اشاعت: 2008

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے