Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

جدید اور بعد کی غزل میں واحد متکلم کی آواز

عقیل احمد صدیقی

جدید اور بعد کی غزل میں واحد متکلم کی آواز

عقیل احمد صدیقی

MORE BYعقیل احمد صدیقی

    ۱۹۴۷ء کے بعد کی شاعری میں ’’نجی تجربے‘‘ کے اظہار کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہوئی۔ ہر وہ شاعر جو تقسیم کے ہولناک المیے سے گزرا تھا، اس نے ضروری گردانا کہ وہ اپنے تجربے کو ’’ذاتی غم‘‘ بنا کر پیش کرئے اس مقصد تک رسائی کے لیے سب سے بہتر طریقہ یہ تھا کہ شاعر واحد متکلم ’’میں‘‘ کو بظور فنی وسیلہ استعمال کرئے، اس ’’فنی وسیلہ‘‘ سے نظم و غزل دونوں میں کام لیا گیا، لیکن جدیدیت کے آغاز سے ’’تصور شعر‘‘ میں ایک انقلابی تبدیلی آئی۔ ایک ایسی شاعری جسکی بنیاد رومانی جذباتیت اور شخصیت پرستی (personalism) ہو، کسی عظمت کی حق دار نہیں بن سکتی۔ اس تصور کے پس منظر میں ایلیٹ کا یہ مشہور قول ہے کہ،

    Poetry is not turning loose of emotion , but an escape from emotion; it is not the expression of personality, but an escape from personality. But, only those who have personality and emotion know what it means to want to escape from these things.

    ایلیٹ کا یہ قول زیادہ دور تک ساتھ نہیں دیتا اور ایلیٹ کے بہت سے شارحین نے تاریخی شواہد کی روشنی میں دعویٰ کیا ہے کہ ایلیٹ کی ڈرامائی نظموں میں اس کی شخصیت موجود ہے، لیکن مغرب میں بھی اور اردو کی مودرنسٹ شاعری اور تنقید میں ایلیٹ کے اس تصور کو شعری اصول کے طور پر قبول کیا گیا۔ بلراج کومل نے خیال ظاہر کیا ہے،

    ’’میں ذاتی نظمیں لکھنے کا عادی نہیں ہوں۔ میں، تم، وہ، ملاقات، فراق، وصال میرے ہاں خالص ذاتی الفاظ بن کر ہرگز نہیں آتے۔ ایک عرصہ سے میں نے اپنی ذات کا مرثیہ کہنا بند کر دیا۔

    اگر میری نظمیں کسی شخص کا نغمہ، نوحہ، مرثیہ یاقصیدہ ہیں تو وہ ایک ایسا فرد ہے جو جدید تہذیب کی پیداوار ہے۔‘‘ (رفتار۔ ہماری زبان، دسمبر ۱۹۵۶ء)

    اس کا مطلب یہ ہے کہ شعر میں واحد متکلم ’’میں‘‘ کی آواز شاعر کی نہیں بلکہ اس شعری پر سونا کی ہے جو شاعر کی ذات سے الگ سماج کا کوئی فرد ہے یا فرد کی علامت ہے۔ اردو کے موڈرنسٹ نقادوں نے ہمیشہ شاعر کی سماجی شخصیت اور شاعرانہ شخصیت یعنی شعری پرسونا میں فرق کیا ہے۔ اب درج ذیل اشعار دیکھیں،

    وہ مری روح کی الجھن کا سبب جانتا ہے

    جسم کی پیاس بجھانے یہ بھی راضی نکلا

    بجھے لبوں پہ ہے بوسوں کی راکھ بکھری ہوئی

    میں اس بہار میں یہ راکھ بھی اڑادوں گا

    ناموں کا اک ہجوم سہی میرے آس پاس

    دل سن کے ایک نام دھڑکتا ضر ور ہے

    (ساقی فاروقی)

    ترے خیال کے پہلو سے اٹھ کے آیا ہوں

    بھرا ہوا ہے مرا دل ترے بدن کی طرح

    اے کاش! ترے سایۂ گیسو میں کٹے عمر

    آرام ترے سر کی قسم یوں تو بہت ہے

    (مظہرامام)

    ان اشعار کو پڑھ یا سن کر کوئی بھی شخص اس نتیجے تک پہنچ سکتا ہے کہ شاعر نے اپنا ذاتی تجربہ پیش کیا ہے۔ رومانیت میں شاعری کو شاعر کی اپنی شخصیت کا اظہار قرار دیا گیا ہے۔ اس تعریف میں ورڈس ورتھ نے جذبہ (feeling) اور بے ساختگی (Spontaneity) کا مزید اضافہ کیا۔ مذکورہ اشعار میں اظہار کا نجی پن اور ’’شعور کی تعمیر‘‘ دونوں باتیں پائی جاتی ہیں۔ یہ سب کچھ مل کر قاری کے لیے کشش کا سامان و افر مقدار میں موجود ہے لیکن جدیدیت نے ایلیٹ کے تصور کے زیر اثر کسی ایسی شاعری سے اجتناب کیا جس کی بنیاد شاعر کے ’’نجی جذبہ‘‘ پر قائم ہو۔ اس کا واضح اثر اردو کی موڈرنسٹ نظمیہ شاعری میں دیکھا جاسکتا ہے۔ موڈرنسٹ نظمیں اکثر واحد متکلم کی تکنیک سے گریز کرتی اور امیجز، استعارہ اور علامت کے لسانی وسیلہ سے معروضی ساخت تشکیل دیتی ہیں۔

    لیکن جدید غزل میں واحد متکلم ’’میں یا ہم‘‘ کا استعمال کسی بھی صورت واحد غائب ’’وہ‘‘ اور واحد حاضر ’’تم‘‘ سے کم نہیں ہے۔ جبکہ واحد متکلم کے استعمال میں ہمہ وقت اس الزام کا خطرہ موجود ہے کہ شاعر نے شعر میں اپنی ذاتی زندگی کا کوئی شدید لمحہ پیش کیا ہے۔

    جس سے گزرا ہوں مرے شعر ہیں اس آگ کی راکھ

    جس میں لپٹا ہوں وہ چادر مری تنہائی ہے

    (احمد مشتاق)

    اس پیش کش کی دو وجہیں ممکن ہیں۔ ایک یہ کہ شاعر محسوس کرئے کہ وہ کب تک دوسروں کے بارے میں لکھتا رہے گا، عام زندگی روز بروز پیچیدہ ہوتی جارہی ہے۔ ہمارا واسطہ اس بھیڑ سے ہے جس میں ’’کلچر‘‘ اور ’’حسیت‘‘ نے اپنا اجتماعی مقصد گم کردیا ہے۔ ایسی صورت میں شاعر کے لیے تہذیب کا حساس فرد ہونے کے ناطے صرف یہی راستہ بچا ہے کہ وہ اپنی حسیت کو قاری کے سامنے نمایاں کرئے۔ دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ ہر وہ تجربہ جسے واحد متکلم میں پیش کیا جائے گا۔ ایک تجریدی بیان یا محض اطلاع (information (نہیں ہے بلکہ ’’میں‘‘ کے ساتھ جو شعر کا مرکزی کردار ہے، پیش آیا ہوا واقعہ ہے۔ اس طریقِ کار سے خواہ شعر کے معنی میں اضافہ نہ ہو، شعر کی تاثیر ضرور بڑھ جاتی ہے۔ اردو ادب کے موڈرنسٹ غزل گو، شاعر وں نے ایلیٹ کے اعتراض کا جواب اس طرح دیا کہ انہوں نے جذبہ و احساس کو نظمیہ شاعری کی طرح امیجز، استعاروں اور علامتوں کے استعمال سے تجربہ کی ٹھوس شکل (objectification) عطا کی اور اس طرح رومانیت پسندوں کی جذباتیت سے خودکوبچالیا۔

    جانا ہے جب سے دل کو ہے دھڑکا لگاہوا

    میں چھوڑ جاؤں گا یہ تماشا لگا ہوا

    دل نے کچھ بستیاں بسائی ہیں

    کاش انہی بستیوں میں رہ جاؤں

    موسم گل ہوکہ پت جھڑ ہو بلا سے اپنی

    ہم کہ شامل ہیں نہ کھلنے میں نہ مرجھانے میں

    موسوں کا کوئی محرم ہو تو اس سے پوچھوں

    کتنے پت جھڑ ابھی باقی ہیں بہار آنے میں

    کوئی کمرہ ہے جس کے طاق میں اک شمع جلتی ہے

    اندھیری رات ہے اور سانس لیتے ڈر رہا ہوں میں

    (احمد مشتاق)

    اس سے بچھڑتے وقت میں رویا تھا خوب سا

    یہ بات یاد آئی تو پہروں ہنسا کیا

    اندھیرے میں خط تیرا کیسے پڑھوں

    لفافے میں کچھ روشنی بھیج دے

    وہ کون ہے جو مرے سامنے نہیں آتا

    میں اپنے آپ میں کس کو تلاش کرتا ہوں

    یہاں تو آئینے ہی آئینے ہیں

    مجھے ڈھونڈو کہاں پر کھو گیا میں

    (محمد علوی)

    یہ دیکھو آگئی میرے زوال کی منزل

    میں رک گیا مری پرچھائیں چلتی جاتی ہے

    کاغذ کی کشتی میں دریا پار کیا

    دیکھو ہم کو کیا کیا کرتب آتے ہیں

    عجیب سانحہ مجھ پر گزر گیا یارو

    میں اپنے سایے سے کل رات ڈر گیا یارو

    اے خدا میں تیرے ہونے سے بہت محفوظ تھا

    تجھ کو مجھ سے منحرف تو ہی بتا کس نے کیا

    (شہریار)

    ملی ہے تمکنتِ شعلہء خیال مجھے

    ہوا سہار سکے تو چراغ راہ میں رکھ

    تو ماہِ پسِ ابر کے مانند ہے مجھ میں

    مستور بھی رہ اور دکھائی بھی مجھے دے

    وہ منتقم ہوں کہ شعلوں کا کھیل کھیلتا ہوں

    مری کمینگی دیتی ہے داستان مجھے

    (ساقی فاروقی)

    مذکورہ اشعار لغوی مفہوم میں ’’شعر شور انگیز‘‘ نہیں ہیں بلکہ دھیمے لہجے میں خو دکلامی (soliluqouy) ہیں جن میں واحد متکلم ’’میں‘‘ یا ’’ہم‘‘ کا استعمال ’’تمجید ذات‘‘ کے لیے نہیں بلکہ ’’اظہارذات‘‘ اور ’’تلاش ذات‘‘ کے لیے ہوا ہے۔ شاعر منتشر اور زوال آمادہ معاشرہ میں، جہاں تہذیبی قدریں ایک ایک کرکے دم توڑ رہی ہیں یا دم توڑ چکی ہیں، خود سے ایک وجودی مکا لمہ) Existentail dialogue (قائم کرتا ہے۔ اپنے آپ سے فاصلہ بنا کر خود کو ایک معروض (object) قرار دیتا ہے، یہ معروض اپنے اظہار کے لیے دوسری اشیا (objects) کا سہارا لیتا ہے اور اس طرح شاعر تجربہ کو معروضی وجود دینے کی سعی انجام دیتا ہے۔ کلاسیکی شاعر ی کے منتہی اور جدید شاعری کے موجد غالب نے اپنا ایک ’’میں‘‘ تخلیق کیا تھا،

    نے گل نغمہ ہوں نہ پردۂ شاز

    میں ہوں اپنی شکست کی آواز

    اس ’’میں‘‘ نے موڈرنسٹ شاعروں کو اپنے اثر میں لیا اور اس طرح ایک ایسی شاعری وجود میں آئی جسے غنائی شاعری کی معراج قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ موڈرنسٹ شعرا میں شہریار کے رہاں ’’واحد متکلم‘‘ کا استعمال احمد مشتاق، ساقی فاروقی اور محمد علوی کے مقابلے میں کم ہے۔ اس کی وجہ یہ احتیاط ہے کہ مبادا ان کے قاری ان کے اشعار کو ان کی ذاتی سوانح نہ قرار دیں۔

    موڈرنسٹ شاعروں کے بعد ۷۰ء کے دہائی کے آخری چند سالوں اور ۸۰ ء کی دہائی میں شاعروں کی ایک نئی کھیپ سامنے آئی۔ اس عہد کے نئے شاعروں نے جدیدیت کے تصور فن سے کسی واضح بغاوت کا اعلان نہیں کیا جس طرح ان کے مد مقابل افسانہ نگار انتہائی شدت کے ساتھ فکشن کی موڈرنسٹ شعریات سے منحرف ہوئے تھے۔ ایسا لگتا ہے کہ نئے شعرا اپنی شناخت اور اپنے استناد کے لیے موڈرنسٹ شاعروں اور ادیبوں پر بھروسہ رکھتے تھے۔ اس لیے ان کے ہی زیر سایہ اپنا تخلیقی سفر شروع کیا اور اب اس نئی شاعری پر تین دہائیوں کا عرصہ بیت چکا ہے۔ اس دوران نظم کے مقابلے غزل کو زیادہ رواج ملا۔ ان نئے شاعروں کی غزلیہ شاعری میں واحد متکلم ’’میں‘‘ یا ’’ہم‘‘ نے ایک نئی صورت اختیار کی ہے۔ یہ شعرا ’’میں‘‘ کا استعمال تلاش ذات کے لیے نہیں کرتے، بیش تر جگہ ان کا ’’میں‘‘ بلند آہنگ یعنی مفہوم میں، شعر شور انگیز اور assertive ہے۔ چند مثالیں دیکھیے،

    اب ٹوٹ رہا ہے مری ہستی کا تصور

    اس وقت مجھے تجھ سے سروکار بہت ہے

    مٹی کی یہ دیوار کہیں ٹوٹ نہ جائے

    روکو کہ مرے خون کی رفتار بہت ہے

    میں رونا چاہتا ہوں خوب رونا چاہتا ہوں میں

    پھر اس کے بعد گہری نیند سونا چاہتا ہوں

    اے خدا میری رگوں میں دوڑ جا

    شاخ دل پر اک ہری پتی نکال

    تیرا چہرا چاند اس کے آگے پیچھے رات ہے

    رات میری داشتہ ہے تو چلا جائے تو کیا

    مٹیوں پر کھینچتا رہتا ہوں تیرے خدوخال

    یہ نہیں تودوسرا ہے تو چلا جائے تو کیا

    (فرحت احساس)

    تو مرے بازوئے بریدہ کا کنایہ بھی سمجھ

    دیکھ تجھ کو مری بیعت نہیں ملنے والی

    لہو میں غرق ہمارے بدن کو سہل نہ جان

    یہ آفتاب ہے اور ڈوب کر نکلتا ہے

    کوئی شے طشت میں ہم سر سے کم قیمت نہیں رکھتے

    سو اکثر ہم سے نذرانہ طلب ہوتا ہی رہتا ہے

    (عرفان صدیقی)

    میرے ہونے کا تجھے احساس بھی ہوجائے گا

    تیری چوکھٹ کی جبیں سائی سے جن دن بھی پھرے

    اپنے احباب کی باتیں سبھی سچ ہیں لیکن

    بزم میں میں نے بنائی ہے جناب اپنی جگہ

    دنیا کے طریقے ہمیں اچھے نہیں لگتے

    نادان اگر ہم ہیں تو نادان رہیں گے

    (مہتاب حیدر نقوی)

    غریبی جھانکتی ہے تہ بہ تہ پیوند سے باہر

    مگر ہم جیب پر احسان کا بخیہ نہیں رکھتے

    ہماری یہ عبادت حاکم اعلی کو ڈستی ہے

    کہ ہم خود سر جبیں سے باندھ کر سجدہ نہیں رکھتے

    ہماری فاقہ مستی آسماں کے پیٹ بھرتی ہے

    ہم اپنے پاؤں کے نیچے خزانہ چھوڑ دیتے ہیں

    (خورشید اکبر)

    ہم آزاد پرندے ساری دنیا اپنی ہے

    خطے کا باشندہ رہنا ہم کو نہیں منظور

    دست و گریباں حال سے ہیں ہم فردا روشن ہو

    ماضی میں رخشندہ رہنا ہم کو نہیں منظور

    زمانے کے تغیر نے مزاج اپنا بدلا

    حویلی سے سڑک پر آگئے ہم کج کلاہی میں

    (عالم خورشید)

    خوف سے اب تک کانپ رہے ہیں صنم کدوں کے بت

    اک دن میں نے باتیں کی تھیں اپنے خدا کے ساتھ

    پھر کس کے کام آئے گی میری شناوری

    دریا میں کچھ نہ ہوگا جو گرداب کے سوا

    (عبید صدیقی)

    مری انا مرے دشمن کو تازیانہ ہے

    اسی چراغ سے روشن غریب خانہ ہے

    مری غزل میں رجز کی ہے گھن گرج تو کیا

    سخنوری بھی تو کار سپاہیانہ ہے

    فضائے یاد میں تبدیلیاں نہیں ہوتیں

    جدید شخص پرانی گلی میں دیکھ مجھے

    (اسعد بدایونی)

    ان اشعار میں ایک نئی رومانیت ملتی ہے، ایک خاص نوع کی نرگسیت۔ یہ فیصلہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ ان اشعار کا واحد متکلم ’’شعری پر سونا‘‘ نہیں بلکہ اپنی ذات میں گم شاعر کی اپنی ’’عریاں انا‘‘ (maked ego) ہے جسے شعری پر سونا کی شکل میں جمالیاتی وجود عطا کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ اس ’’میں‘‘ کا استعمال موڈرنسٹ شاعروں کی طرح انکشاف ذات یا تلاش ذات کے لیے نہیں بلکہ اس کا مقصد دنیا کے روبرو اپنی ذات کا اثبات ہے اور یہ شعرا اپنے اس مقصد میں یقیناً کامیاب ہیں۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے