Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

جدید شعری جمالیات

شمس الرحمن فاروقی

جدید شعری جمالیات

شمس الرحمن فاروقی

MORE BYشمس الرحمن فاروقی

    خالی میدان میں اگر کتا بھی گذرے تو لوگ اس کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں۔ (والیری)

    اگر قدیم شعری جمالیات منسوخ ہو چکی ہے تو میدان خالی ہے۔ ایسی صورت میں اس کا امکان بڑھ جاتا ہے کہ ہر وہ چیز جو اس کی جگہ بھرنے کے لیے میدان میں آئےگی، جعلی ہوگی اور اگر جعلی نہ بھی ہو تو اس کو اصلی ثابت ہوتے ہوتے طویل عرصہ گذر جائےگا اور اس عرصہ میں شعریات پر اگر نراج نہیں تو انتشار کی حکم رانی ضرور ہوگی۔

    بعض لوگ موجودہ ادبی صورت حال کو طوائف الملوکی سمجھتے ہیں اور اس طرح اس تصور کی تصدیق کرتے ہیں کہ قدیم شعری جمالیات منسوخ ہو چکی ہے اور اب مہدی موعود کا انتظار کرنا چاہیے۔ لیکن ظاہر ہے کہ یہ تصور بھی انھیں قبول نہ ہوگا کہ قدیم منسوخ ہو گیا اور نیا آنے والا ہے۔ اس طرح جدید شعری دنیا میں طوائف الملوکی فرض کرنے والے دراصل خود ہی ایک بنیادی فکری تضاد میں مبتلا ہیں۔ اگر طوائف الملوکی ہے تو قدیم یقیناً رخصت ہو چکا اور میدان خالی ہے۔ اگر قدیم رخصت نہیں ہوا تو میدان خالی نہیں ہے اور طوائف ا لملوکی بھی نہیں ہے۔ اب یہ ان لوگوں کا دل ودماغ جانے کہ ا نھیں کون سا نتیجہ قابل قبول ہوگا۔

    جو لوگ موجودہ صورت حال کو انتشار اور بے راہ روی کا صید زبوں بتاتے ہیں ان میں ترقی پسند حضرات پیش پیش ہیں۔ لطف یہ ہے کہ ترقی پسند نظریۂ ادب نے ہی سب سے پہلے قدیم تصورات حسن کو منسوخ کرنے اور حسن کے معیار بدلنے کا دعویٰ کیا تھا۔ پریم چند کے مشہور خطبۂ صدارت کے جن حصوں کو بہت اہمیت دی گئی (اور جن کا ذکر اس وقت بھی ہندی اردو میں ہوتا رہتا ہے) حسب ذیل ہیں،

    (۱) ’’مجھے یہ کہنے میں تامل نہیں ہے کہ میں اور چیزوں کی طرح آرٹ کو بھی افادیت کی میزان پر تولتا ہوں۔۔۔ ایسی کوئی ذوقی، معنوی یا روحانی مسرت نہیں ہے جو اپنا افادی پہلو نہ رکھتی ہو۔

    (۲) ہمیں حسن کا معیار تبدیل کرنا ہوگا۔ ابھی تک اس کا معیار امیرانہ اور عیش پرورانہ تھا۔۔۔ آرٹ نام تھا محدود صورت پرستی کا، الفاظ کی ترکیبوں کا، خیالات کی بندشوں کا، زندگی کا کوئی آئیڈیل نہیں، زندگی کا کوئی اونچا مقصد نہیں۔

    (۳) یہ کیفیت اس وقت پیدا ہوگی جب ہماری نگاہ حسن عام ہو جائےگی۔۔۔ اس کی پرواز کے لیے مخصوص باغ کی چاردیواری نہ ہوگی۔۔۔ ادیب کا عشق محض نشاط اور محفل آرائی اور تفریح نہیں ہے۔۔۔ وہ وطنیت اور سیاست کے پیچھے چلنے والی حقیقت نہیں ہے بلکہ ان کے آگے مشعل دکھاتی ہوئی چلنے والی حقیقت ہے۔

    (۴) ہماری کسوٹی پر وہ ادب پورا اترےگا جس میں تفکر ہو، آزادی کا جذبہ ہو، حسن کا جوہر ہو، تعمیر کی روح ہو، زندگی کی حقیقتوں کی روشنی ہو۔۔۔‘‘

    لیکن ان اقتباسات سے صاف ظاہر ہے کہ پریم چند نے نہ تو کوئی نئی بات کہی ہے اور نہ حسن کا کوئی نیا نظریہ خلق کیا ہے بلکہ انسانی حسن کے بارے میں ہے یعنی وہ داستانوں اور قصوں کی طرح ادب کے محل اور خانہ باغ کو صرف متمول اور نام نہاد مہذب اونچے طبقے کے کرداروں کا اجارہ نہیں بنانا چاہتے۔ وہ چاہتے ہیں کہ کہانیوں کے ہیرو ہیروئن صرف بادشاہ، نواب، رئیس زادے اور رئیس زادیاں نہ ہوں بلکہ نچلے طبقے کے لوگ بھی ہوں۔ ادب کی سماجی افادیت پر اصرار اور اسے حرکت وعمل کی تبلیغ پر مائل کرنے کی کوشش اپنی اپنی جگہ پر اہم یا مستحسن سہی لیکن اس کو کسی نئی جمالیات کا سنگ بنیاد نہیں کہا جا سکتا۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان خیالات کی روشنی میں (جو تقریباً سب کے سب حالی یا سامنے کے مغربی مصنفوں سے مستعار تھے) ترقی پسند نظریہ سازوں کے لیے ممکن تھا کہ وہ نئی جمالیات کی تعمیر کے لیے کوشاں ہوتے، لیکن ایسا نہیں ہوا۔

    ہوا صرف یہ کہ ایک طرف تو ڈاکٹر عبد العلیم اور سجاد ظہیر وغیرہ جو نسبتاً متوازن ذہن کے لوگ تھے اور جو ہماری قدیم ادبی روایت سے پوری طرح آگاہ تھے، انھوں نے ترقی پسند شعرا کو ان سرگرمیوں سے روکا جو ان کے خیال میں محض تخریبی تھیں اور انھیں روایت سے وابستہ رہ کر شاعری میں تجربے کرنے کا مشورہ دیا۔ دوسری طرف اختر حسین رائے پوری نے تنقیدی اور فلسفیانہ فکر کے بجائے جوش جہاد سے کام لیتے ہوئے ’’قبل از بلوغ جذباتیت‘‘ کا مظاہرہ کیا اور ’’جذباتیت اور ناقص فکر کی وجہ سے‘‘ ان کی تنقید کا ایک حصہ ’’مضحکہ خیز حد تک دہشت پسندی کا شکار ہو گیا۔‘‘

    اختر حسین رائے پوری نے ادب کو انسان کا ’’ایک اہم معاشی فریضہ‘‘ تو قرار دیا لیکن اس نظریے کی رو سے ادب کی خوب صورتی کے بارے میں تصورات میں کیا تبدیلیاں عمل میں آئیں گی، اس سلسلے میں وہ خاموش ہیں۔ سردار جعفری کی فکر اور اسلوب میں وضاحت اور پختگی نسبتاً زیادہ تھی۔ (وہ ’’نیا ادب‘‘ کے شریک مدیر تھے اور اس کے پہلے شمارے کا اداریہ اس تنبیہ کے لیے اہم ہے کہ ’’مانا کہ ہر پرانی عمارت کو ڈھائے بغیر نئی تعمیر نہیں بنائی جا سکتی لیکن ایسی تخریب بھی کس کام کی جس کے بعد تعمیر کے لیے مسالہ ہی نہ مل سکے۔‘‘ ) لیکن انھوں نے بھی اعلیٰ شاعری کو فرد نہیں بلکہ پوری جماعت کا ترجمان بنانے کے علاوہ یہ واضح نہیں کیا کہ جو ادب پوری جماعت کا ترجمان نہیں ہے، وہ خوب صورت کیوں نہیں ہے۔

    یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ یہ عقدہ تمام ترقی پسند شعری نظریات کے پس منظر میں ایک Disturbing Element کی طرح موجود رہا ہے کہ وہ شاعری جو ترقی پسند سیاسی یا سماجی نظریات کی ترجمان نہ ہوتے ہوئے بھی خوب صورت ہے، اس کو کس خانے میں رکھا جائے؟ سردار جعفری نے اپنے ایک انگریزی مضمون میں اس عقدے کی طرف اشارہ بھی کیا ہے۔

    ڈاکٹر عبد العلیم نے اپنی بعض تحریروں میں تبدیلی کی حقیقت اور اہمیت پر زور ضرور دیا اور یہ کہا کہ زمانے کے ساتھ ساتھ اسلوب بیان بدلتا رہتا ہے اور بسااوقات زبان وادب کا معیار اس تیزی سے بدلتا ہے کہ لوگ اس تغیر کا ساتھ نہیں دے پاتے۔ لیکن اقداری حیثیت سے وہ تبدیلیاں کیا تھیں، اس سوال کے جواب میں ان کی بھی تحریریں خاموش ہیں۔ خلیل الرحمن اعظمی نے اپنی کتاب ’’اردو میں ترقی پسند ادبی تحریک‘‘ کا ایک اہم حصہ اس بات کی وضاحت میں صرف کیا ہے کہ ترقی پسند نظریہ سازوں نے تبدیلی اور توازن دونوں کی تائید کی مگر یہ بات کہیں سے صاف نہیں ہوتی کہ شعر کی بدلی ہوئی خوب صورتی کے بارے میں کوئی ترقی پسند نظریہ تھا کیا؟ دراصل ترقی پسند نظریہ شعری جمالیات سے زیادہ شعری تفاعل میں الجھا ہوا تھا، لہٰذا حسن کا معیار بدلنے کا دعویٰ رکھنے کے باوجود معیار بدلنے کی نظریاتی کوشش ترقی پسندوں سے نہ ہو سکی۔

    جو کام وہ کر گئے وہ بہ ذات خود بہت اہم تھا یعنی انھوں نے ادب کو ایک سماجی کارگزاری اور انقلاب کا آلۂ کار بناکر دکھایا۔ اگرچہ اس کے نتیجے میں ان کا بہت سارا ادب افراط وتفریط اور سطحیت کا شکار ہو گیا، لیکن ادبی حقیقت کے ایک اہم پہلو پر لوگوں کی نگاہیں ضرور مرتکز ہو گئیں۔ ترقی پسند تحریک اس حدتک یقیناً ایک اصلاحی تحریک تھی، لیکن شعری جمالیات کی دنیا میں اسے انقلابی تحریک نہیں کہا جا سکتا۔ بعض جدید لوگوں نے بھی ترقی پسندوں کی دیکھا دیکھی اشارۃ یا صراحتاً یہ کہا کہ جدید شاعری کی خوب صورتی قدیم شاعری کی خوب صورتی سے مختلف ہے، یعنی جن معیاروں کی رو سے جدید شاعری خوب صورت ثابت ہوتی ہے ان کا اطلاق قدیم شاعری پر نہیں ہو سکتا۔ اس نظریے کا تجزیہ کیجئے تو مندرجہ ذیل باتیں سامنے آتی ہیں،

    (۱) کیا جدید شاعری کو خوب صورت ثابت کرنے والے معیار وقتی اور محدود سچائی کے حامل ہیں؟ اگر ایسا ہے تو جدید شاعری بھی کل کلاں کسی ایسے معیار سے دوچار ہو سکتی ہے جس کی روشنی میں وہ بدصورت ثابت ہو۔ کیا یہ صورت حال کسی بھی ایسے نقاد یا شاعر کے لیے قابل قبول ہوگی جو شاعری کو حسن کا اظہار مانتا ہے؟ (ظاہر ہے کہ ترقی پسند بھی شاعری کو حسن کا اظہار مانتے ہیں۔)

    (۲) وہ معیار جن کے اعتبار سے قدیم شاعری خوب صورت ہے، صرف قدیم شاعری پر ہی کیوں جاری کیے جائیں؟ وہ کون سے منطقی حقائق ہیں جن کی بنا پر وہ معیار اب غلط ثابت ہو گئے؟

    (۳) جن معیاروں کے اعتبار سے قدیم شاعری کو خوب صورت ثابت کیا جاتا تھا اور جن کو اب غلط کہا جا رہا ہے، ان کا اطلاق اب جدید شاعری پر ہو اور نتیجے کے طور پر جدید شاعری بدصورت ثابت ہو تو یہ قصور ان معیاروں کا ہی کیوں ٹھہرایا جائے؟ جدید شاعری مورد الزام کیوں نہ ہو؟

    (۴) کیا معیار سے کوئی طریق کار مراد ہے یا کوئی ایسا فکری نظام بھی معیار کی پشت پناہی کرتا ہے جو بجائے خود مکمل ہو؟ اگر کوئی فکری نظام معیار کی پشت پناہی کے لیے موجود ہے تو کیا اس نظام کے ذریعہ صرف ایک ہی طریق کار کو استحکام مل سکتا ہے؟

    (۵) اگر میں جدید شاعری کے لیے کچھ مخصوص معیاروں کے وجود کا دعویٰ رکھتا ہوں تو کیا شے مجھے یہ کہنے سے مانع ہو سکتی ہے کہ چونکہ ان معیاروں کا اطلاق قدیم شاعری پر نہیں ہو سکتا، لہٰذا قدیم شاعری بدصورت ہے۔ اگر میں یہ کہوں تو کیا آپ اس نقطۂ نظر کو قبول کریں گے؟ (ظاہر ہے کہ نہیں)

    مندرجہ بالاخیالات کی روشنی میں یہ نتیجہ نکالنا آسان ہے کہ جدید جمالیاتی معیاروں کی تلاش یا ان کی تخلیق کا دعویٰ ادب کی تاریخی حقیقت کو نظرانداز کرتا ہے اور اس کی منطقی وحدت سے بھی روگرداں ہے۔ اگر ہر زمانے کے ادب کے لیے جمالیاتی تصورات بدلتے جائیں تو اس بات کے تعین میں دشواری تو ہوگی ہی کہ کس زمانے کو کب شروع اور کب ختم، کس معیار کو کب ساقط اور کب معتبر سمجھا جائے۔ اس کے علاوہ ایک بہت بڑی مشکل یہ ہوگی کہ کسی عہد کے تمام معیارات و نظریات کو کالعدم قرار دیا جانا تاریخی حیثیت سے ممکن نہ ہونے کی وجہ سے بار بار یہ جھگڑا اٹھےگا کہ فلاں فلاں معیار فلاں فلاس زمانوں میں مشترک تھے اور فلاں فلاں معیار فلاں فلاں وقتوں میں ساقط ہو گئے۔ لیکن یہ بھی ممکن ہوگا کہ جو معیار ایک بار مسترد ہوچکے تھے وہ سب یا ان میں سے کچھ معیار وتصورات دوبارہ رائج ہو گئے۔

    ظاہر ہے کہ اس طرح کی پیچیدگی محض مکتبی اہمیت نہیں رکھتیں، بلکہ اگر ان کو قبول کیا گیا تو پورے ادب کی حیثیت مشتبہ اور مشکوک ہو جائےگی۔ ترقی پسند نظریہ سازوں کے ذہنوں میں یہ باتیں صاف نہیں تھیں، لیکن چونکہ انھوں نے ایک طرح کے Auto Suggestion کی بنا پر جمالیاتی معیار کی تغیر پذیری کا نظریہ قبول کر لیا تھا، اس لیے اس نظریے کے متذکرہ بالا مضمرات انھیں پریشان کرتے رہے۔

    کبھی انہوں نے ٹیگور اور اقبال کو ٹاٹ باہر کیا، لیکن بعد میں دونوں کو مسند عالیہ پر متمکن کرنے کی کوشش کی اور اس سلسلے میں ان کے کلام میں (علی الخصوص اقبال کے یہاں) وہ عناصر دریافت یا ایجاد کیے جن کی بنا پر انھیں ترقی پسند انقلاب کا مبلغ ثابت کرنے میں دشواری نہ ہو۔ کبھی انھوں نے غزل کو گردن زدنی قرار دیا لیکن پھر اس بےگھر کی لڑکی کو بڑے تزک واحتشام سے حبالہ عقد میں لاکر گھر کی رونق اور شمع محفل بنایا، کبھی انھوں نے آزاد نظم کو رجعت پرست ذہنیت کا آئینہ دار بنایا لیکن آہستہ آہستہ اس کافری میں انھیں اسلام کی جھلک دکھائی دینے لگی۔ کبھی انھوں نے محسوس کیا کہ صوفیانہ شاعری تو دراصل ایک طرح کی سماجی خدمت ہے۔

    یہ سب پاپڑ اسی لیے بیلے گئے کہ وہ قدیم جمالیاتی تصورات کے جس پہلو کو دریا برد کرتے، اس کا بھوت جلد یا بدیر ان کے دروازے پر حاضر ہو جاتا۔ اس تمام درد سری سے نجات اسی وقت ممکن ہے جب ادب میں خوب صورتی کی قدروں کو قائم ودائم مان لیا جائے۔ لیکن جمالیاتی معیار اور جمالیاتی طریق کار میں امتیاز بھی تنقید فکر کی ایک لازمی کارگزاری ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جمالیاتی معیاروں میں توسیع اور پہلے سے موجود تصورات کی تعبیر نو کے ذریعہ نئے نئے طریقہ ہائے کار کی دریافت ایک تاریخی عمل ہے۔ جمالیاتی طریق کار سے میری مراد یہ ہے کہ خوب صورتی کی متعین اور موجود تعریف میں کوئی خلل نہ پڑے، لیکن خوب صورتی کو خلق کرنے کے لیے جو طریق کار کسی مخصوص زمانے تک یا زمانے میں رائج ہوں، ان کے علاوہ بھی بعض طریق کار دریافت، ایجاد یا دوبارہ متعارف کیے جائیں۔

    جمالیاتی معیاروں کی توسیع سے میری مراد یہ ے کہ خوب صورتی کی مروجہ تعریف کی روشنی میں مثلاً دس چیزیں خوب صورت ٹھہرتی ہوں تو ہم یہ دکھائیں کہ اسی تعریف کی روشنی میں ان دس کے علاوہ بھی کچھ چیزیں خوب صورت ٹھہرتی ہیں۔ جمالیاتی معیاروں میں اس توسیعی سرگرمی سے خوف زدہ نہ ہونا چاہیے اور نہ اس خوش فہمی میں مبتلا ہونا چاہیے کہ نئے معیار وضع ہورہے ہیں۔ خوف زدہ ہونے والے کہتے ہیں کہ صاحب اگر اس طرح ہر نسل یا ہر زمانے کے ادیب اور نقاد خوب صورت چیزوں کی فہرست میں اضافے کرتے رہے تو ایک وقت وہ آئےگا جب تمام چیزیں خوب صورت ٹھہریں گی۔

    اس سوال کے کم از کم دو جواب ممکن ہیں۔ اول تو یہ کہ اگر خوب صورتی کے قائم ودائم معیاروں کی روشنی میں تمام دنیا کی تمام چیزیں خوب صورت ثابت ہو سکتی ہیں تو آپ کر بھی کیا لیں گے؟ نئے معیار آپ بنا نہیں سکتے۔ (اس کی مختصر وجوہ اوپر گذر چکیں، بعض منطقی استدلال میں آئندہ پیش کروں گا۔) لہٰذا آپ کے پاس چارہ ہی کیا ہے؟ اگر تمام دنیا خوب صورت ثابت ہو جائے تو ہونے دیجئے، آپ ناراض کیوں ہوتے ہیں؟ آخر آپ کے پیش روؤں نے تسلیم کر ہی لیا کہ آزاد نظم بھی خوب صورت ہے اور پابند نظم بھی اور دونوں کی خوب صورتی کے ثبوت بھی مشترک ہیں۔ اسی طرح آپ بھی کچھ اور چیزوں کی خوب صورتی کے لیے معتبر اور مناسب ثبوت ملنے پر انھیں حسین مان لیجئے۔

    اس کے جواب میں کہا جا سکتا ہے کہ ممکن ہے منطق میری گردن دبا کر کوئی بات مجھ سے منوالے لیکن میری روح اور دل بھی اسے قبول کر لیں، یہ منطق کے بس کا روگ نہیں ہے، لیکن اس دلیل میں ایک نہیں بلکہ کئی قباحتیں ہیں۔ سب سے پہلی بات تو یہ کہ تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ اگر منطق یا مشاہدے نے کسی بات کو ثابت کر دیا تو لوگوں کے روح ودل نے بھی اسے قبول کر لیا۔ یہ اس وجہ سے بھی کہ اکثر اشیا کی فہم بھی اسی وقت حاصل ہوتی ہے جب انھیں قبول کر لیا جائے یا کم سے کم انھیں رد نہیں کیا جائے۔ سینٹ آگسٹائن (St. Augustine) نے بڑے پتے کی بات کہی ہے کہ ’’میں اعتقاد کرتا ہوں تاکہ سمجھ سکوں۔‘‘

    پاسکل (Pascal) نے خدا کے وجود سے بحث کرتے ہوئے بھی یہی نقطۂ نظر اختیار کیا ہے کہ وجود خدا وندی کے ثبوت میں جن معجزات وغیرہ کو پیش کیا جاتا ہے ان کے موافق دلائل نہ اتنے مضبوط ہیں کہ انھیں قبول کر لیا جائے اور نہ اتنے کمزور ہیں کہ انھیں رد کر دیا جائے، لہٰذا ان دلائل کا اقبال یا انکار عقل کی روشنی میں نہیں ہو سکتا۔ مراد یہ ہے کہ منطق کی رو سے ثابت ہو جانے پر بھی آپ کا دل کسی حقیقت کو قبول نہ کرے، لیکن اسے رد بھی نہیں کر سکتا اور جب رد بھی نہیں کر سکتا تو پھر اس کا اقبال بھی بس ذرا ہی فاصلے پر ہے۔ یہ بات ظاہر ہے کہ آزاد نظم اور ترقی پسند بوطیقا کے ساتھ یہی معاملہ ہوا۔

    دوسری بات یہ ہے کہ خوب صورت چیز کو خوب صورت مان لینے کی صلاحیت ہماری ایک بنیادی صلاحیت بلکہ جبلت ہے۔ اگر کانٹ کے نظریات کو تسلیم نہ بھی کیا جائے (میں تسلیم نہیں کرتا) پھر بھی یہ بات تاریخی اعتبار سے ثابت ہے کہ تمام خوب صورت چیزوں میں ایک طرح کا گہرا ربط ہوتا ہے، چاہے وہ مضمر ربط ہو یا واضح دکھائی دے۔ چینی اور یورپی شاعری سے مختلف اشیا کا تصور مشکل ہو سکتا ہے لیکن جب ازرا پاؤنڈ نے ایڈورڈ فنولسا (Edward Fenollosa) کے مسودات پر مبنی اپنے تراجم شائع کیے اور آرتھر ویلی (Arthur Waley) نے چینی نظموں کے ترجموں کا سلسلہ شروع کیا تو تھوڑے ہی دنوں میں ان کی خوب صورتی کا غلغلہ مچ گیا۔

    یہ بات قابل لحاظ ہے کہ ازرا پاؤنڈ تا حیات کوشش کے باوجود ان جمالیاتی نظریات کو قبولیت کی سند نہ دلوا سکا جو اس نے بزعم خود فنولسا کے انھیں مسودات سے برآمد کیے تھے۔ لیکن چینی شاعری کو جدید مغربی شعری روایات کا جز بننے میں کوئی دیر نہ لگی۔ تیسری بات یہ ہے کہ اگر کسی چیز کی خوب صورتی ثابت ہو جائے تو پھر آپ کے ماننے نہ ماننے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

    بہرحال یہ تو خوف زدہ لوگوں کے اس اعتراض کا، کہ اگر ہر زمانے میں خوب صورت چیزوں کی فہرست میں اضافہ ہوتا رہا تو ایک وقت وہ آئےگا جب تمام دنیا کی تمام چیزیں خوب صورت ٹھہریں گی، پہلا جواب ہوا۔ دوسرا جواب یہ کہ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ خوب صورت چیزوں کی فہرست میں اضافہ آسانی سے نہیں ہوتا بلکہ اکثر تو صدیاں گذر جاتی ہیں تب کہیں ایک آدھ اضافہ ہوتا ہے۔ اردو کی مثال لیجئے کہ ہمارے یہاں مرثیے کی ہیئت کے لیے مسدس کو قبول کیا گیا۔ نظم کی ہیئت کے لیے معریٰ نظم اور ایک طرح کی آزاد نظم شاعری کے حلقے میں داخل ہوئی۔ غزل کی بحر میں میر نے ہندی سے مستعار لے کر ایک بحر کو مروج کیا۔ اس سے زیادہ ہماری فہرست میں کچھ نہیں۔ شاعری کے محاسن کی تعداد اتنی ہی اتنی ہے۔ بس یہ ہوا کہ بعض محاسن کو بعض شعرا نے زیادہ نمایاں کیا اور بعض کو کم۔

    دوسری بات یہ ہے کہ بہت سی خوب صورت چیزیں عملی دنیا میں بے کار یا تقریباً بے کار ہوتی ہیں، ان کو خوب صورت ماننے سے کوئی انتشار نہیں برپا ہوتا، مثلاً غروب آفتاب کے منظر کو خوب صورت مان لینے سے عملی دنیامیں کوئی چھوٹا سا بھی ہنگامہ پیدا نہیں ہوا۔ خوب صورت چیزوں میں اصلاً کوئی فتنہ انگیزی یا انتشار پردازی نہیں ہوتی، لہٰذا ان کی فہرست میں توسیع واضافہ خطرناک نہیں ہو سکتا۔ (یہ خیال رہے کہ خوب صورت اشیا اور خوب صورت اعمال الگ الگ چیزیں ہیں۔ عمل درحقیقت اشیا کا تفاعل ہے۔ یہ ممکن ہے کہ کوئی چیز خوب صورت ہو لیکن اس کا تفاعل خطرناک ہو، یا کوئی چیز بد صورت ہو لیکن اس کا تفاعل خوب صورت ہو یا فائدہ مند ہو، خوب صورتی کی قدر عام اخلاقی حیثیت سے بے معنی ہے کیونکہ وہ اپنا ہی نظام اخلاق رکھتی اور اس کی تابع ہوتی ہے۔)

    تیسری بات یہ ہے کہ بہت سی خوب صورت چیزیں اپنی خوب صورتی برقرار رکھتے ہوئے اپنی کارآمدگی کھو دیتی ہیں۔ مرثیے کے لیے مسدس کی ہیئت یا قصیدے کی شاعری اس کی مثالیں ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مرثیے کے لیے مسدس نہایت خوب صورت چیز ہے اور اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ عربی فارسی اردو شعریات کے لیے قصیدہ خوب صورت شاعری ہے لیکن آج مسدس تقریباً اور قصیدہ کلیتاً متروک ہے۔ اس ترک کے باوجود ان کی خوب صورتی مسلم ہے، لہٰذا خوب صورت اشیا کی فہرست میں اضافے کا یہ نتیجہ لازمی نہیں کہ یہ فہرست ناممکن حد تک طویل ہو جائےگی اور عملی دشواریاں پیدا کرےگی۔ دراصل یہ ہوگا کہ بعض خوب صورت چیزیں خوب صورت لیکن متروک ہو جائیں گی اور بعض دوسری چیزیں فہرست میں داخل ہو جائیں گی۔

    یہاں یہ سوال اٹھ سکتا ہے کہ اگر خوب صورت اشیا کی فہرست میں اضافہ ممکن ہے تو اس فہرست سے بعض چیزوں کا اخراج بھی ممکن ہونا چاہیے۔ اگر ایسا ہے تو پھر اس اخراج کو توسیع کا نام نہیں دے سکتے۔ یہ ایک طرح کی تنسیخ ہی ہوئی اور اگر تنسیخ ہوئی تو پھر یہ دعویٰ صحیح ہو جاتا ہے کہ خوب صورتی کے معیار بدل سکتے ہیں۔ یہ بات بہ ظاہر دل کو لگتی ہوئی ہے لیکن اس میں بھی کئی گھپلے ہیں۔ سب سے پہلے تو اس نکتے پر غور کیجئے کہ اضافہ اور اخراج، عمل اور رد عمل کی حیثیت نہیں رکھتے۔ یعنی ایسا نہیں ہے کہ فہرست کے مشمولات کی تعداد متعین ہے، لہٰذا اگر اس میں چار اضافے ہوں تو چار اخراج بھی ہوں، تاکہ تعداد برابر رہے۔

    خوب صورت اشیا کی فہرست راجیہ سبھا کے ممبران کی فہرست نہیں ہے جس میں سے ہر سال ایک تہائی نام خارج ہوتے ہیں اور کل تعداد کے ایک تہائی نام اضافہ کیے جاتے ہیں۔ اگر یہ مان لیا جائے تو اس بنیادی نظریے سے ہاتھ دھونا پڑےگا جس کی رو سے خوب صورت اشیا کی فہرست لامتناہی ہو سکتی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ خوب صورت اشیا کی فہرست سے اخراج واقع نہیں ہوتا، ہوتا ہے۔ لیکن یہ ایک خودکار عمل نہیں بلکہ ایک طرح کی زبردستی ہوتی ہے۔

    مثال کے طور پر حالی یا حسرت موہانی نے رعایت لفظی کو خوب صورت چیزوں کی فہرست سے نکال دیا۔ کچھ دن بعد لوگوں کو خود ہی محسوس ہونے لگا کہ رعایت لفظی کو برادری باہر کر دینے کی وجہ سے شعر میں تزئینی پہلو کم ہو گیا۔ پھر یہ بھی دیکھا گیا کہ غالب اور میر اور انیس کیا، اقبال تک کے یہاں رعایت لفظی کے اتنے پہلو موجود ہیں کہ اگر ان کو خوب صورت نہ مانا جائے تو شاعری کے بنیادی تفاعل اور اچھی شاعری کی ایک داخلی صفت سے دست بردار ہونا پڑےگا، یا پھر یہ کہنا پڑےگا کہ رعایت لفظی کو منہا کرکے بھی غالب یا انیس وغیرہ کا کوئی مقررہ شعر پہلے ہی اتنا خوب صورت رہےگا۔ ظاہر ہے کہ کون مائی کا لال کہہ سکتا ہے کہ،

    غالب،

    حسن و فروغ شمع سخن دور ہے اسد

    پہلے دل گداختہ پیدا کرے کوئی

    انیس،

    پیہم چلے پہ زور گھٹا کچھ نہ کس گیا

    جب چمکے مینھ سروں کا سراسر برس گیا

    ان اشعار کا حسن رعایت لفظی یعنی فروغ، شمع، گداختہ، دل، حسن، سخن، دل (غالب) اور زور، گھٹا، چمکے، برس، مینھ، پیہم،، سروں، سراسر، زور، کس (انیس) کی مناسبتوں کو منہا کر دینے کے بعد بھی باقی رہےگا؟ خوب صورتی کی فہرست کوئی صحیفۂ خداوندی نہیں جس کی تنسیخ یا جس میں سے ایک آدھ چیزوں کا حذف کفر ہو، لیکن چونکہ خوب صورت اشیا کو انسان اپنی فطری مناسبت کی بنا پر پہچانتا ہے، اس لیے جو چیز ایک بار خوب صورت مان لی جائے پھر اسے بدصورت کہنا ممکن نہیں ہوتا۔ ترک واختیار کا تعلق فیشن، ذوق اور طبعی ترجیحات سے ہے، لہٰذا ترک واختیار کی دلیل اس بات کو ثابت نہ کر سکےگی کہ خوب صورتی کے معیار یا اس کی فہرست میں تنسیخ ممکن ہے۔

    اب یہاں یہ بات بھی صاف کر لی جائے کہ جمالیاتی معیار کو تغیر پذیر کیوں نہیں کہا جا سکتا اور فیشن یا ذوق عام کو جمالیاتی معیار کا درجہ کیوں نہ دیا جائے؟ دوسرے سوال کا ادعائی جواب تو یہی ممکن ہے کہ جب میں جمالیاتی معیار کو غیرتغیر پذیر کہتا ہوں تو فیشن یا ذوق کی تبدیلی کو جمالیاتی معیار کا درجہ لامحالہ نہ دوں گا، لیکن ظاہر ہے کہ یہ محض عقلی گدا ہے۔ اس کی مثال یوں ہوگی کہ میں دعویٰ کروں کہ تمام بلیوں کے چار کان ہوتے ہیں۔ اب جس بلی کو آپ دو کان والی ثابت کر دیں گے میں فوراً کہہ دوں گا کہ یہ بلی ہی نہیں ہے۔

    کارل پاپر (Karl Popper) نے اس استدلال کو غیرسائنسی کہاہے، اس لیے نہیں کہ یہ طریق کار غلط ہے، بلکہ اس لیے کہ اس کی تکذیب نہیں ہو سکتی۔ سائنسی استدلال وہ استدلال ہے جو اس وقت تک صحیح ہے جب تک اس کی تکذیب نہ ہو۔ جب اس کی تکذیب ہو جائےگی تو اگلا یعنی تکذیبی استدلال سائنسی مانا جائےگا۔ اب یہ اس نظریے سے نبرد آزما ہونے والوں کا کام ہے کہ اس کی تکذیب میں استدلال لائیں۔

    میرا کہنا یہ ہے کہ فیشن یا ذوق عام کو جمالیاتی معیار کا اعتبار اس لیے نہیں مل سکتا کہ جمالیاتی معیار میں کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی طرح، ایک لازمیت ہوتی ہے۔ یہ لازمیت پہلی سطح پر اس زبان کا فاصلہ ہوتی ہے جس کے ادب میں وہ جمالیاتی معیار جاری وساری ہے اور دوسری سطح پر تمام ادب کا (یعنی اس تمام ادب کا جسے اعلیٰ ادب کہا جاتا ہے) خاصہ ہوتی ہے۔ زبان کی ماہیئت پر جدید غوروفکر نے یہ بات بڑی حد تک ثابت کر دی ہے کہ زبان کی اصل اور اس کے سرچشمے انسانی لاشعور اور اس کی حیاتیاتی حقیقت ہی میں کہیں پوشیدہ ہیں۔ زبان کے وجود کا بیوہاری نظریہ اب تقریباً مسترد ہو چکا ہے۔ اس استرداد کا بیشتر اعزاز چامسکی کو ہے جس نے زبان کے مختلف مظاہر کے بارے میں ثابت کیا ہے کہ انسان انھیں اپنے ماحول سے نہیں بلکہ اپنے بطون سے حاصل کر سکتا ہے۔

    اس تصور کا آغاز برٹرنڈ رسل اور وٹگنش ٹائن (Wittgenstien) کے علاوہ ماسکو اسکول کے ماہرین لسانیات کے یہاں بھی ڈھونڈا جا سکتا ہے، لیکن اس کو مشرح اور منضبط شکل میں پیش کرنے کا سہرا نوم چامسکی (Noam Chomsky) کے سر ہے۔ چامسکی کا عظیم ترین کارنامہ یا اس کی عمیق ترین بصیرت یہ ہے کہ اس نے اس بات پر اصرار کیا کہ انسان کے لسانی بیوہار کی توضیح وتفصیل میں اس نکتے پر پورا دھیان دینا ضروری ہے کہ ہم سیکڑوں الفاظ کے گروہوں، جوڑوں اور فقروں یعنی Combination and sets کو بےتکان اور بے معنی استعمال کرتے چلے جاتے ہیں لیکن ان فقروں یا گروہوں کو ہم نے کسی سے سیکھا نہیں ہوتا اور نہ ہی ہمارے ماحول میں کسی ایسے مہیج کی نشان دہی کی جا سکتی ہے جن کو ان استعمالات کا سرچشمہ قرار دیا جا سکے۔ جارج اسٹائنر (Goerge Steiner) نے چامسکی پر جو مفصل مضمون لکھا ہے، اس پر اظہار خیال کرتے ہوئے چامسکی ایک جگہ کہتا ہے،

    ’’(میرے خیالات کی) صحیح تر ترجمانی اس مفروضے سے ہوگی کہ قواعد کے بنیادی اصول انسانوں کے ذہنوں میں زیر سطح واقع ہونے والے یا موجود رہنے والے اسٹرکچروں کو پیدا کرتے ہیں اور درجہ بہ درجہ ان زیر سطح اسٹرکچروں کو سطح پر نمایاں شکل میں متبدل کر دیتے ہیں اور سطح پر نمایاں اسٹرکچر پھر صوتیاتی اصطلاحوں (یعنی الفاظ) کے ذریعہ راست اظہار حاصل کر سکتے ہیں۔‘‘

    جب یہ بات مان لی گئی کہ زبان اور اس کا عمل دونوں انسان کی حیاتیاتی حقیقت سے زیادہ متعلق اور ماحول یا بیوہار کا اثر ان پر کم تر پڑتا ہے، تو پھر یہ تسلیم کر لینا بھی مشکل نہ ہوگا کہ زبان کے بہترین اظہار، یعنی ادب میں جو جمالیاتی اصول کار فرما ہوں گے، ان میں ایک طرح کی لازمیت اور اصلیت ہوگی۔ ان کا تعلق فیشن، زمانے کی ہوا، ماحول کے دباؤ اور مذاق عام سے نہ ہوگا۔ مذاق عام اور فیشن وغیرہ انسان کے تخلیق کردہ مدرکات ہیں لیکن زبان عمیق ترین سطح پر جس طرح انسان کو اظہار پر مجبور کرتی ہے، ان اصولوں پر انسان کا حکم نہیں چلتا۔

    غالب کا مشہور واقعہ آپ کو معلوم ہوگا کہ انھوں نے لڑکپن میں ایک غزل کی ردیف کہ چہ بمعنی ’’یعنی چہ‘‘ رکھی تو ان کے مولوی صاحب بہت خفا ہوئے کہ کیا مہمل ترکیبیں اور فقرے گڑھتے رہے ہو۔ کچھ دن بعد غالب کو یہی ’’کہ چہ‘‘ بمعنی ’’یعنی چہ‘‘ ظہوری کے یہاں مل گیا اور استاد کو قائل ہونا پڑا۔ واقعہ غلط ہو یا صحیح، لیکن اس سے انسانی زبان کے سرچشموں پر روشنی ضرور پڑتی ہے کہ انسان کو اگر اظہار سے مناسبت ہو تو لاشعور یا حیاتی عمل کے ذریعہ وہ ایسے الفاظ اور فقرے دریافت یا اختراع کر لیتا ہے جن کا اس کے علم یا ماحول سے کوئی تعلق ثابت نہیں ہو سکتا۔ آخر لوگوں نے ہزاروں تراکیب، استعارے، فقرے اور کہاوتیں کس طرح بنا لیں؟

    اگر بیوہاری (Behaviorist) نظریہ لسان بالکل درست نہیں ہے تب بھی یہ کہنا پڑےگا کہ فارسی اردو اہل زبان نے جو نئی ترکیبیں زبان میں داخل کی ہیں ان کا وجود ہی نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ مثلاً ’’خامۂ زریں‘‘ اور ’’شاخ آفتابی‘‘ بہ معنی ’’شعاع آفتاب‘‘ اور ’’شاخ ناشکستہ‘‘ بہ معنی ’’جوان مغرور گردن کش‘‘ قسم کی ہزاروں استعاراتی ترکیبیں جو لوگوں نے پہلی بار استعمال کی ہوں گی، انھوں نے ان کو مدرسوں میں تو پڑھا نہ ہوگا اور اگر مدرسے میں پڑھا ہوگا تو وہاں تو آخر کسی نے انھیں پہلی بار اپنی جودت طبع سے اختراع کیا ہوگا۔

    حاصل کلام یہ کہ جب زبان کا وجود حیاتیاتی زیادہ ہے، منطقی اور خارجی کم، تو لسانی اظہار کی خوب صورتی کے طریقے وقتاً فوقتاً جبریہ دباؤ کے تحت کچھ ٹس سے مس تو نہیں ہو سکتے ہیں لیکن فیشن اور مذاق عام کے تغیر سے متعلق نہیں ہو سکتے۔ شاعری میں لسانی توڑ پھوڑ کی کوئی ایسی مثال نہیں ہے جو کلیۃً نئی ہو۔ تمام توڑ پھوڑ کے امکانات زبان کے ساتھ ساتھ وجود میں آتے رہتے ہیں۔ آخر اس کی کیا وجہ ہے کہ ایرانیوں نے عربی، ترکی، فرانسیسی الفاظ تو مستعار لیے اور ان پر کسرۂ اضافت کا عمل جائز قرار دیا لیکن عربی الف لام اور فرانسیسی Dela یا Du کو قبول نہیں کیا؟

    ظاہر ہے کہ الفاظ کا مستعار لینا ایک خارجی عمل ہے لیکن قواعد ایک داخلی اور لازمی صفت ہے، لہٰذا ایرانیوں نے ’’شعاع آفتاب‘‘ اور ’’گل بدن‘‘ اور ’’ماشین چی‘‘ تو بنا لیے لیکن فرانسیسی یا عربی قواعد مستعار نہیں لی۔ اردو کے ملاؤں یعنی زبان دانوں نے یہی غلطی کی کہ انھوں نے فارسی سے الفاظ کے علاوہ قواعد بھی مستعار لینا چاہی، اس لیے انھوں نے دیسی اور بدیسی الفاظ کے درمیان کسرۂ اضافت کو غلط سمجھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ زبان ارتقا کی ایک بڑی جہت سے محروم کر دی گئی۔

    دوسرا نکتہ یہ ہے کہ اگر فنی خوب صورتی کے معیار بدلتے رہتے ہیں تو گذشتہ خوب صورتیوں کی فہم اور ان سے لطف اندوزی کی راہیں مسدود ہونا چاہئیں۔ ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ اجنبی زبان کا سد سکندری عبور نہ کر سکنے کے باوجود ترجمے کے ذریعہ ہم غیرملکوں، دور افتادہ تہذیبوں اور زمانوں کے ادب سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ خود اپنے ہی تہذیبی پس منظر کے وہ مظہرات جو اس تہذیبی آب وہوا کے مٹ جانے کی وجہ سے ہم سے دور ہو گئے ہیں، ہمارے لیے اب بھی زندہ ہیں۔ غالب اور میر تو پھر بھی نزدیک ہیں۔ وہ کیا چیز ہے جو ہمیں محمد قلی قطب شاہ کو سمجھنے اور اس سے لطف اندوز ہونے میں معاون ہوتی ہے؟

    اگر جمالیاتی معیار بدلنے والے ہوتے تو اس زمانے سے زیادہ مختلف اور منقطع زمانہ کون سا ہوگا جس میں دس دس پندرہ پندرہ برس کے عرصے میں شہروں کی شکلیں بدل جاتی ہیں۔ اخلاقی اصول بدل جاتے ہیں اور تہذیب کے ظاہری مظاہر اتنی قلابازیاں کھا لیتے ہیں کہ الٹے سیدھے کا پتا نہیں چلتا۔ ہم لوگوں نے تقسیم ہند جیسا زلزلہ آگیں واقعہ دیکھا ہے اور جانتے ہیں کہ ۱۹۴۷ء کے بعد کوئی چیز ویسی نہیں جیسی کہ وہ ۱۹۴۷ء کے پہلے تھی۔ لیکن اس کے باوجود گذشتہ دنوں کا ادب ہمارے لیے بند کتاب نہیں ہے۔ صرف اس وجہ سے کہ فنی حسن کے معیار اپنی اصلیت اور داخلیت میں وہی ہیں جو تھے۔

    میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ فنی خوب صورتی کا معیار نہیں بدلتا لیکن یہ ممکن بلکہ مستحسن ہے کہ فنی خوب صورتی یا شعری جمالیات کے اس معیار کو حاصل کرنے کے لیے نئے نئے طریق کار کو نئے معیار کا اظہار سمجھ لیتے ہیں۔ لیکن اس نکتے کی وضاحت کے پہلے گذشتہ سے متعلق ایک نکتہ اور ہے اور جس پر تبصرہ ضروری معلوم ہوتا ہے۔ ہمارے یہاں شعری جمالیات کا ذکر عام طورپر اس نہج سے ہوتا ہے کہ یہ جمالیات صرف شعر ہی پر منطبق ہو سکتی ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ شعری جمالیات کی تفکیری اساس اتنی عمومی ہوتی ہے یا اتنی عمومی ہونی چاہیے کہ وہ کم سے کم لسانی تخلیقی اظہار کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کر سکے۔ یعنی جن شعری جمالیاتی نظریات کا اطلاق شعر پر کیا جاتا ہے انھیں کا کم وبیش اطلاق دوسرے اصناف سخن، علی الخصوص افسانہ یعنی فکشن اور ڈراما پر ہو سکے۔

    شعریات کی اس وحدت کا احساس مغربی مفکروں اور خاص کر ان جرمن مفکروں کو شدت سے رہا ہے، جنھوں نے ناول کی نظریہ سازی میں کارہائے نمایاں انجام دیے۔ ناول کا ایک جدید جرمن مفکر فرانز استانسل (Franz Stanzel) کہتا ہے، ’’جب کہ غنائیہ اور ڈرامائی اصناف اپنے بارے میں ایک مضبوط نظریاتی نظام کے وجود کا دعویٰ کر سکتی ہیں، ناول خود کو ذرا تنگ صورت حال میں پاتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ دوسری ادبی اصناف اور ہیئتوں کے مقابلے میں ناول کی روایت یہ رہی ہے کہ اس کو کمتر درجے کی صنف مانا گیا۔۔۔

    ادب پارے کی تجسیم کے دوران انفردی الفاظ اور جملوں کا منتشر مفہوم ہی قاری کے تخیل تک نہیں پہنچتا بلکہ آواز اور پیکر کی سطح پر اظہار کی قوت بھی بروئے کار آتی اور افسانوی دنیا کو متاثر کرتی ہے۔ یہ بات درست ہے کہ ناول میں ادب پارے کی یہ دو سطحیں (آہنگ اور پیکر واستعارہ) مشکل ہی سے اس شدت کو چھو پاتی ہیں جو کلام موزوں میں مضمر ہوتی ہے۔ لیکن ناول کی نسبتاً زیادہ ضخامت کی بنا پر اس کا مجموعی اثر زیادہ پر قوت ہوتا ہے اور نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔۔۔

    بہرحال، ان سب سے زیادہ جس بات کا خیال ناول کے مفسرین وشراح کو رکھنا چاہیے، وہ طریقہ اور نہج ہے جس سے بیانیہ کا دھاگا بہ تدریج کھلتے جانے کے ذریعہ قاری کے تخیل میں ایک دنیا خلق ہوتی ہے۔‘‘

    مندرجہ بالا اقتباس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ ناول کی تعبیر وتعیین قدر میں وہی اصول کسی نہ کسی طرح کارفرما ہوں گے جو شاعری میں بروئے کار آتے ہیں۔ ڈرامے کا معاملہ تو اور بھی صاف ہے کیونکہ وہ تو نظم میں بھی لکھا جا سکتا ہے، لہٰذا شعری نظریہ ساز حضرات یا تو یہ ثابت کریں کہ شعری خوب صورتی کے معیاروں میں جو تبدیلیاں ہوتی یا ہو رہی ہیں وہ ناول اور ڈرامے کے نظریے پر بھی کارگر ہیں یا پھر یہ کہیں کہ مبینہ جدید شعری جمالیات ناول اور ڈراما کو نظرانداز کرتی ہے۔ ماورا تخلیقی فن کی نوعیت ایک ہوتی ہے۔ استائنسل کا مندرجہ بالا بیان تو اس کا شاہد ہے ہی لیکن اس کے علاوہ ناول کی تمام علمی شعریات اس نظریے کی توثیق کرتی ہے۔

    چنانچہ ناول کے پہلے انگریز نظریہ ساز فیلڈنگ (Henry Fielding) نے اسے ’’نثر میں مزاحیہ انداز کا رزمیہ‘‘ کہا تھا اور ناول کا رزمیہ پن جدید فرانسیسی نظریہ سازوں مثلاً مشل بتور (Michel Butor) اور رولاں بارت (Roland Barthes) نے بھی تسلیم کیا ہے۔ رولاں بارت نے تو اپنی بعض تحریروں میں ناول کے مقابلے میں المیہ کی شدید مخالفت کا دعویٰ کیا ہے۔ ہرچند کہ اس کے خیالکات کی نہج دوسری ہے۔ (یعنی وہ ناول کو نام نہاد المیاتی معنویت سے آزاد کرانا چاہتا ہے) لیکن بنیادی بات یہ ہے کہ وہ بھی ناول کو ایک طرح کا رزمیہ سمجھتا ہے۔ اس کا بیان ہے کہ المیہ محض انسانی بدنصیبی کو جمع کرنے اور پھر اسے ضروری قرار دینے کا طریقہ ہے۔ یہ بات الگ ہے، لیکن ناول کی شعریات شاعری سے مختلف نہیں ہوتی، اس کا اسے پورا احساس ہے۔ ناول بھی حقیقت کو خلق کرتا ہے، اس لیے اس کا تفاعل وہی ہے جو شاعری کا ہے۔ ملاحظہ ہو،

    ’’لہٰذا ماضی مطلق آخر صورت حال میں نظم وضبط اور اس کے نتیجے میں ایک طرح کے سکوت اور بے حرکتی کا اظہار ہے۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ حقیقت نہ پراسرار اور نہ لایعنی معلوم ہوتی ہے، بلکہ واضح اور تقریباً مانوس ہو جاتی ہے اور ہر لمحہ دوبارہ خلق ہوتی ہوئی اور تخلیقی فن کار کے ہاتھوں میں استمرار پاتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔‘‘

    روب گرئیے (Robbe۔ Grillet) ضرور ناول کے لیے نئی شعریات بنانے کا دعویٰ رکھتا ہے لیکن اس کا بھی دعویٰ درحقیقت طریق کار کو محدود ہے، اس پر آئندہ گفتگو ہوگی۔ جہاں تک ڈراما کا سوال ہے، ارسطو کا قول فیصل موجود ہی ہے کہ المیہ میں رزمیہ کے اور طربیہ میں ہجویہ کے (یعنی ڈراما میں شاعری کے) تمام عناصر موجود ہیں۔ ان باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے جدید معیاروں کی تلاش میں ناول اور ڈراما کے تقاضوں کو پیش نہ رکھنا ممکن نہیں ہے۔

    مجھے جدید ناول اور ڈراما کی شعریات میں کوئی ایسی تبدیلی نظر نہیں آتی جو نئے معیاروں کے بغیر نہ سمجھی جا سکے۔ اس لیے میں بار بار کہتا ہوں کہ بعض حلقوں میں جو یہ خیال (غالباً ترقی پسند حلقوں کے زیر اثر یا ان کے علی الرغم) پیدا ہو گیا ہے کہ جدید شاعری کسی جدید قسم کی جمالیات کی متقاضی ہے، یہ محض ایک غلط فہمی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ غالب اور میر ہمارے عہد میں ہوتے تو ہماری طرح کی شاعری کرتے اور اگر ہم لوگ ان کے زمانے میں ہوتے تو ان کی طرح کی شاعری کرتے۔ یہ نتیجہ اس حقیقت کی روشنی میں ناگزیر ہے کہ غالب اور میر سے ہم آج بھی لطف اندوز ہوتے ہیں اور ان کی بصیرتیں آج بھی ہمارے لیے صحیح اور کارآمد ہیں۔

    جس جمالیات یا جس جمالیاتی معیار کے پس منظر میں ہم سب کام کر رہے ہیں اور ہمارے پیش رو بھی گرم کار رہے ہیں، اسے چند لفظوں میں بیان کیا جا سکتا ہے۔ اول تو یہ کہ تخلیقی فن حقیقت کو دوبارہ خلق کرنے کا ذریعہ ہے۔ چنانچہ سردار جعفری نے بھی کہا ہے کہ اس زمانے میں خلاق صرف دو ہیں۔ ایک تو مزدور اور دوسرا شاعر۔ یہ اور بات ہے کہ مزدور اور شاعر کو شانہ بہ شانہ رکھ دینے سے شاعری محض ایک کرافٹ اور دست کاری قسم کی چیز رہ جاتی ہے۔ لیکن بنیادی بات یہ ہے کہ شاعر خلاق ہوتا ہے۔ حقیقت کو دوبارہ خلق کرنے کا ذریعہ یا تو یہ ہو سکتا ہے کہ شاعر اپنے ماحول سے اسے دوبارہ دریافت کرے اور پھر الفاظ میں ڈھالے، یا وہ خود کو غیرجانب دار تصور کرکے حقیقت کو اس طرح قبول کرلے جیسی کہ اسے بتائی گئی ہے کہ وہ ہے۔

    یہ بھی ممکن ہے کہ دونوں طریق کار بہ یک وقت یا باری باری کام میں لائے جائیں، مثلاً غزل میں پہلا طریق کار اور قصیدے میں دوسرا طریق کار اور مرثیے میں دونوں کا امتزاج نظر آتا ہے۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ فن پارہ اپنی خوب صورتی میں قائم بالذات ہوتا ہے یعنی اس کی اپنی خوب صورتیاں ہوتی ہیں جو اس مشاہداتی یا تعقلاتی یا تاثراتی مظروف کے علاوہ ہوتی ہیں جو فن پارے میں بند یا حل کیا جائے۔

    ترقی پسند نظریہ سازوں نے بھی اس حقیقت کا دبے یا کھلے لفظوں میں اعتراف کیا ہے۔ چنانچہ مجنوں گورکھ پوری نے ایک جگہ لکھا ہے کہ شاعر جو کچھ سوچتا اور محسوس کرتا ہے وہ قائم بالذات اور مقصود بالذات ہوتا ہے۔ ممتاز حسین کہتے ہیں، ’’تخلیقی آرٹ کی ایک مخصوص تکنیک ہوتی ہے جو آرٹ کے قوانین حسن کو پیہم برتنے کی صورت میں ابھرتی ہے۔‘‘ تیسرا نکتہ یہ ہے کہ فنکارانہ اظہار کی سطح پر لفظ اور معنی یعنی موضوع اور ہیئت میں کوئی فرق نہیں۔ یہ بات بھی ترقی پسند نقادوں نے کسی نہ کسی طرح مانی ہے۔ مجنوں گورکھ پوری کہتے ہیں ٖ، ’’کامیاب ادب میں لفظ اور معنی کے درمیان کوئی دوئی نہیں رہتی۔ لفظ ہی معنی اور معنی ہی لفظ ہوتا ہے۔ شاعر کا کام نہ صرف یہ ہے کہ معنی کے لیے لفظ تلاش کرے بلکہ اس کا سب سے بڑا کمال یہ ہے لفظ کی معنوی کیفیت کو بڑھا دے۔‘‘ (نکات مجنوں صفحہ ۱۵۴)

    ڈاکٹر عبدالعلیم، سجاد ظہیر اور ممتاز حسین نے بھی کم وبیش ان ہی خیالات کا اظہار کیا ہے۔ صرف احتشام صاحب بار بار زور دیتے رہے ہیں کہ زوال پذیر ادب میں ہیئت کو موضوع پر تقدم حاصل ہوتا ہے، ورنہ انقلابی یا ترقی پسند ادب میں مواد یا موضوع ہمیشہ ہیئت پر مقدم رہتا ہے۔ ہندوستان کے علاوہ مغرب کے بھی نظریہ سازوں میں احتشام صاحب اس مقام پر تنہا ہیں۔ بعض کمیونسٹ حضرات ارنسٹ فشر (Ernest Fischer) کو تسلیم نہ کریں گے۔ (لیکن وہ لوگ تو لوکاچ کو بھی قبول نہیں کرتے، اس کا کیا علاج) لیکن عمومی طور پر لوگ ارنسٹ فشر کو اشتراکی ادبی مفکروں میں ممتاز سمجھتے ہیں۔ فشر اشتراکی حقیقت نگاری اور اشتراکی فن میں فرق کرتا ہے۔

    وہ کہتا ہے کہ اشتراکی حقیقت نگاری کی اصطلاح کا بدقسمتی سے اکثر غلط استعمال ہوتا ہے اور ان چیزوں کو اکثر اشتراکی حقیقت نگاری کا آئینہ دار بتایا گیا ہے جو درحقیقت محض پروپیگنڈائی خیالات کو آدرشی زور شور سے پیش کرتی ہیں۔ وہ اس طرح کے ’’اشتراکی فن‘‘ کو اشتراکی حقیقت نگاری اور اس کے مشمولات کو موضوع یعنی Content کا درجہ نہیں دیتا۔ اس کا خیال ہے کہ فن پارے کا مرکزی خیال Subect اور موضوع Content الگ الگ چیزیں ہیں،

    ’’مرکزی خیال کو موضوع کا درجہ فن کار کے رویے ہی کے ذریعے مل سکتا ہے، کیونکہ موضوع صرف یہ نہیں ہے کہ کیا پیش کیا گیا ہے، بلکہ یہ بھی وہ کس طرح پیش کیا گیا ہے، کس سیاق وسباق میں اور انفرادی اور سماجی شعور کے کس درجے سے پیش کیا گیا ہے۔۔۔ ہر چیز کا انحصار فن کے نقطۂ نظر پر ہوتا ہے۔‘‘ لہٰذا فشر کو مرکزی خیال یعنی Subject کی اہمیت سے انکار نہیں ہے لیکن وہ صاف کہتا ہے کہ فن پارے کے موضوع اور معنی، اس کے مرکزی خیال کی حدود سے آگے نکل جاتے ہیں۔

    فنی تخلیق، حقیقت کی تخلیق نو ہے، فن پارہ قائم بالذات ہوتا ہے اور اس میں لفظ، معنی کی وحدت ہوتی ہے۔ ان تین تصورات کی تکمیل شعری جمالیات کے چوتھے اصول سے ہوتی ہے کہ یہ تین باتیں اسی وقت قائم ہوتی ہیں جب فن کار اپنی بصیرت کے اظہار کے لیے علامت، استعارہ، پیکر اور دوسرے جدلیاتی نوعیت کے الفاظ کا استعمال کرتا ہے۔ مجنوں صاحب نے کبھی کبھی گھبرا کر استعارے کی اہمیت سے انکار کیا ہے لیکن ان کی تنقید اکثر تضاد بیانی کا شکار رہی ہے۔ چنانچہ وہ جگہ جگہ استعارے کی توثیق بھی کرتے نظر آتے ہیں، لیکن ممتاز حسین کے مضمون ’’رسالہ درمعرفت استعارہ‘‘ کے ہوتے ہوئے کوئی ترقی پسند نظریۂ شعر استعارے کا منکر نہیں ہو سکتا۔ سردار جعفری کی حالیہ تنقیدیں بھی استعارے اور دوسرے جدلیاتی الفاظ (خاص کر پیکر) کے تذکرے سے مملو ہیں۔

    ایسا نہیں ہے کہ نقد شعر کے تمام مسائل انھیں چار نکات سے وابستہ ہیں، لیکن بہ حیثیت مجموعی ان نکات کو نقد شعر کی اساس بنایا جا سکتا ہے۔ بعض مسائل ایسے ہیں جن کا تعلق شعریات کی فکری اساس کے ساتھ ساتھ شعری طریق کار سے بھی ہے۔ چنانچہ یہ سوال لائق توجہ ہے کہ شاعری کو کائنات کی تخلیق نو کہا جائے یا اسے کائنات نو کی تخلیق تصور کیا جائے؟ فرانسیسی علامت نگاروں علی الخصوص بودلیئر، ریں بو اور ملارمے کی بیش تر توجہ اس نظریے کی بنیاد مضبوط کرنے پر صرف ہوئی ہے کہ شاعری کائنات نو کی تخلیق ہے، لیکن اپنی انتہا کی منزل پر پہنچ کر کائنات کی تخلیق نو بھی ایک طرح کی نئی دنیا خلق کرتی ہے اور اسی لیے شعر کو قائم بالذات کہا جاتا ہے۔

    اسی طرح یہ مسئلہ بھی دل چسپ ہے کہ خوب صورت اشیا کی تعریف اور خوب صورتی کی تعریف دراصل ایک ہی شے ہے یا یہ الگ الگ حیثیت رکھتی ہیں؟ ایک طرف تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہم خوب صورت اشیا ہی کو دیکھ کر خوب صورتی کی تعریف متعین کرتے ہیں۔ لیکن جواب میں یہ کہنا بھی ممکن ہے کہ اگر دنیا میں کوئی بھی خوب صورت شے باقی نہ رہی تو بھی خوب صورتی کا تصور باقی رہنا چاہیے، بہ شرطے کہ آپ خوب صورتی کو کائناتی حقیقت کا ایک حصہ مانیں، یعنی یہ فرض کریں کہ خوب صورتی اضافی نہیں بلکہ ایک مطلق قدر ہے۔ اگر اس نظریے سے انکار کیا جائے تو شعری جمالیات کی بنیادیں منہدم ہوتی نظر آتی ہیں کیونکہ خوب صورت شاعری کا وصف یہ ہونا چاہیے کہ وہ فی نفسہ خوب صورت ہو، چاہے اس کو پڑھنے والا کوئی بھی شخص موجود نہ ہو۔ وہ خوب صورتی جو تمام وکمال دیکھنے یا پڑھنے والے کی محتاج ہو، اصلاً خوب صورتی نہیں بلکہ مذاق عام یا فیشن کا اظہار ہے۔

    یہاں پر یہ سوال اٹھ سکتا ہے کہ پھر اس تنقیدی نظریے کی واقعیت کیا ہے کہ ہر شخص کے لیے شعر اپنا الگ حسن اور اپنی الگ معنویت رکھتا ہے۔ اس مسئلے کو سلجھانے میں مشکل یہ آ پڑتی ہے کہ ہم اکثر معنویت اور حسن کو ایک ہی چیز سمجھ بیٹھتے ہیں، اور ذاتی تجربے، ماحول، تربیت یا افتاد مزاج کی روشنی میں شعر کے جو معنی دریافت کرتے ہیں، اسے شعر کے حسن سے تعبیر کرتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ شعر کی معنویت اور حسن میں ایک باریک سا فرق ہے۔ چونکہ خوب صورت شعر تقریباً ہمیشہ معنی خیز یا معنویت سے بھرپور بھی ہوتا ہے، اس لیے اس فرق کا نظرانداز ہو جانا کوئی حیرت انگیز بات نہیں ہے۔ ورنہ واقعہ یہ ہے کہ معنی کی کثرت شعر کی خوب صورتی میں حارج نہیں ہوتی۔ لیکن کثیر المعنویت کے بغیر بھی شعر خوب صورت ہو سکتا ہے۔

    چینی شاعری میں معنی کی وہ کثرت نہیں جو غالب یا شیکسپیئر کے یہاں ہے لیکن چینی شاعری کی خوب صورتی میں کسے کلام ہو سکتا ہے؟ (اس تحسین میں ماؤسی تنگ کی شاعری بھی شامل ہے۔) شعر کی معنویت اس کی خوب صورتی کا محض ایک حصہ ہے، انتہائی سطح پر ممکن ہے کہ شعر بے معنی ہو لیکن پھر بھی خوب صورت ہو (ملارے کی بعض نظمیں مثال میں پیش کی جا سکتی ہیں۔) نکتہ دراصل یہ ہے کہ شعر کی معنویت یا شعر کے معنی محض وہ معنی نہیں ہوتے جنھیں الفاظ میں بیان کیا جا سکے۔ بہت سی شاعری میں معنی کا وہ مظروف بہت کم ہوتا ہے جسے الگ کرکے دکھایا جا سکے کہ لیجئے صاحب اس شعر کے یہ معنی ہیں، مصحفی کا یہ شعر لے لیجئے،

    چلے بھی جا جرس غنچہ کی صدا پہ نسیم

    کہیں تو قافلۂ نو بہار ٹھہرےگا

    اس شعر میں ایسے کوئی معنی نہیں جن کو الفاظ کے ذریعہ ظاہر کیا جا سکے۔ خیر یہاں تو پورا شعر ہی محض ایک مبہم کیفیت یا خواب آمیز منظر کا اظہار کرتا ہے۔ حافظ کے مندرجہ ذیل اشعار میں لفظی مفہوم بالکل واضح ہے، لیکن معنی بالکل سمجھ میں نہیں آتے، یا ناپید ہیں،

    گیسوے چنگ ببرید بہ مرگ مئے ناب

    تا ہمہ مغ بچگاں زلف دوتا بکشایند

    نامۂ تعزیت دختررز بنویسید

    تا حریفاں ہمہ خوں از مژہ ہا بکشایند

    مرگ مئے ناب اور دختر رز کی موت پر تعزیت نامے، یہ محض کیفیات ہیں جن کی تفصیل وتوضیح ناممکن ہے۔ زلف دوتا کھولیں (یا کاٹیں) اور گیسوئے چنگ کاٹے جائیں (مراد غالباً یہ ہے کہ چنگ کے تار توڑ جائیں) ان میں کیا رشتہ ہے اور دوستوں کو تعزیت نامۂ دختر رز کے بعد ہی کیوں رونا آئے، اس کے مرنے پر کیوں نہ آئے اور دختر رزیا مئے ناب کی موت ہی کیوں ہوئی؟ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے ابہام کا سہارا نہیں لیا جا سکتا۔ اگر ابہام فرض کرتے ہوئے ان سوالوں کے جواب تلاش کیے جائیں گے تو مایوسی ہوگی، بلکہ یہ اشعار مہمل ٹھہریں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ باتیں جواب طلب ہیں ہی نہیں۔ مجھے ان دونوں اشعار میں سخت ماتمی اور تلخ مایوسی کی کیفیت محسوس ہوتی ہے اور بس۔

    کہنے کا مطلب یہ ہے کہ شعر کی خوب صورتی کو اس لیے قائم بذاتہ قرار دینا چاہیے کہ وہ اپنی اصل حیثیت میں کسی قاری یا سامع کی محتاج نہیں ہوتی۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ قاری یا سامع جس قسم کا مفہوم شعر سے عموماً برآمد کرتا ہے، ایسا مفہوم اگر نہ موجود ہو تب بھی شعر خوب صورت ہو سکتا ہے، لہٰذا یہ نظریہ کہ ہم شعر کی بہت سی معنویت خود خلق کرتے ہیں، شعر کے حسن کو مطلق ٹھہرانے میں مانع نہیں ہوتا۔ شعر کی معنویت کا مسئلہ دراصل علم معنی کا مسئلہ ہے۔ شعر میں ایک تو بنیادی معنی ہوتے ہیں جن پر سب کا اتفاق ہوتا ہے اور دوسرے معنی یا معانی وہ ہوتے ہیں جو اپنی رفتار، مزاج، ماحول، تربیت، ذاتی تجربے اور تہذیبی پس منظر کی روشنی میں اس سے برآمد کرتے ہیں۔

    شعر جتنے ہی زیادہ معانی کا متحمل ہوگا اتنا ہی اچھا ہوگا لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ جس شعر میں معنویت کم ہوگی یا جس کے معنی کو ہم روز مرہ کے الفاظ میں نہ بیان کر سکیں گے، وہ لامحالہ بدصورت ہوگا۔ شعر کی خوب صورتی اور معنویت ایک دوسرے کی تکذیب نہیں کرتے، یہ الگ الگ وجود رکھتے ہیں۔ بہترین شعر ظاہر ہے کہ وہی ہوگا جس میں خوب صورتی اور معنویت دونوں موجود ہوں اور ایک دوسرے کی پشت پناہی کرتے ہوں۔ رعایت لفظی کا یہی سب سے بڑا جواز ہے۔

    دوسرا نکتہ یہ ہے کہ مانا شعر کی بہت ساری معنویت نقاد یا قاری کی حیثیت سے ہم خلق کرتے ہیں، لیکن اس معنویت کی دلیل اس کا وجود ہی ہے، یعنی اگر وہ معنویت شعر میں نہ ہوتی تو ہم اسے کہاں سے تلاش کر لاتے؟ چنانچہ نقاد یا قاری کی خلق کردہ معنویت بھی دراصل شعر میں مضمر ہوتی ہے، لہٰذا وہ اپنے وجود کے لیے نقاد یا قاری کی محتاج نہیں ہوتی۔ مثال کے طور پر کسی بالکل ہی نئے رنگ کا پھول اگر کہیں جنگل میں کھلے اور کوئی اسے نہ دیکھے تو اس کا مطلب یہ تو نہیں ہو سکتاکہ وہ پھول اور رنگ بنے ہی نہیں۔

    زیادہ سے زیادہ آپ کہہ سکتے ہیں کہ ہم ایسی اشیا کا وجود ثابت نہیں کر سکتے جنھیں کسی نے نہ دیکھا ہو یا جنھیں کوئی نہ دیکھ سکے (دیکھنا بہ معنی ادراک کرنا) یہ علم وجود کا ایک مسئلہ ہے جسے یہاں چھیڑنا فضول ہوگا۔ لیکن بنیادی بات یہ ہے کہ مفروضے کی حد تک ایسا پھول تصور کیا جا سکتا ہے جو بالکل ہی نئے رنگ کا ہو اور یہ کہا جا سکتا ہے کہ چاہے اس پھول کو کسی نے بھی نہ دیکھا ہو لیکن اگر اس کا وجود ہے تو پھر ہے۔ اسی طرح اگر شعر میں حسن یا معنویت ہے تو پھر ہے، چاہے اس کو سامع یا قاری میسر ہو یا نہ ہو۔

    خوب صورتی اشیا کا اپنا وصف ہوتی ہے۔ اس کی تعریفیں جتنی بھی اور جیسی بھی بنائی جائیں، وہ سب کسی نہ کسی طرح اس قائم بالذات وصف کی تباع ہوں گی۔ خوب صورتی کی تعریف اور خوب صورت اشیا کی تعریف میں یہی فرق ہے۔ ایرک نیوٹن (Eric Newton) نے بڑے پتے کی بات کہی ہے کہ خوب صورتی کے تمام قوانین کو وضع کرنا اور بیان کرنا ضروری نہیں ہے۔ بس یہ یقین کافی ہے کہ ایسے قوانین موجود ہیں۔ کائنات کے مقابلے میں انسانی تجربہ بہرحال موجود ہے۔ لیکن تجربے کی روشنی میں ایسے قوانین نہیں وضع ہو سکتے جو تمام کائناتی مظاہر کا احاطہ کر سکیں۔ یہی ایک دلیل اس دعوے کے لیے کافی ہے کہ خوب صورتی کے معیار بدلے نہیں جا سکتے۔ خوب صورتی کی تعریفیں اس لیے بدل سکتی ہیں کہ طریق کار یا نقطۂ نظر کسی چیز میں کوئی شخص نیا پہلو دکھا سکتا ہے، یا کسی پرانے پہلو کو نئے ڈھنگ سے پیش کر سکتا ہے۔ لیکن یہ تعریفیں بھی اسی حد تک درست ہوں گی جس حد تک ان کا اطلاق خوب صورت اشیا پر ممکن ہوگا۔

    شعری جمالیات کی تاریخ میں کبھی کبھی ایسے مقام آئے ہیں جب خوب صورتی کی تعریف متعین کرنے کی کوششیں ازسر نو ہوئی ہیں لیکن تقریباً ہمیشہ یا تو معیاروں کو نئے ڈھنگ سے بیان کر دیا گیا ہے یا خوب صورت اشیا کی فہرست میں ایک آدھ اضافہ ہو گیا ہے۔ عہد جدید میں شعری خوب صورتی کو اخلاقیات یا معنویت سے الگ کرنے کی پہلی سنجیدہ کوشش اڈگر ایلن پو (Edgar Allen Poe) کے یہاں ملتی ہے۔ چنانچہ وہ کہتا ہے،

    (۱) میری رائے میں نظم کسی سائنسی تحریر یا کارنامے سے اس لیے مختلف ہے کہ نظم کافوری مدعا لطف ہے، سچائی نہیں۔ (ایک خط کا اقتباس ۱۸۲۶ء)

    (۲) نظم اس حد تک نظم کہلانے کی مستحق ہوتی ہے جس حد تک وہ روح کو برانگیخت اور مرتفع کرتی ہے۔۔۔ میں کہتا ہوں کہ وہ لطف جو بہ یک وقت خالص ترین سب سے زیادہ مرتفع کرنے والا اور شدید ترین ہوتا ہے، خوب صورتی کو دیکھنے اور اس کا تصور کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔

    (۳) ہم لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ محض نظم کی خاطر نظم کہنا اور یہ اعتراف کرنا کہ ہم نے نظم کی خاطر نظم کہی ہے، اس بات کا اعتراف کرنے کے برابر ہے کہ ہم میں حقیقی شاعرانہ وقار اور قوت کا فقدان ہے، حالانکہ ہم اگر اپنی روح میں جھانک کر دیکھیں تو فوراً دریافت کرلیں گے کہ آسمان وزمین میں کسی ایسی چیز کا وجود نہیں ہے اور نہ ہو سکتا ہے جو اس محض نظم برائے نظم سے، جو صرف نظم ہے اور کچھ نہیں اور جو محض شاعری کی خاطر لکھی گئی ہے، اس سے زیادہ باوقار اور شرافت کے بہترین درجے پر فائز ہو۔‘‘

    آخری دو اقتباسات پو کے مشہور مضمون ’’اصول شعر‘‘ (۱۸۴۴ء) سے لیے گئے ہیں۔ اسی مضمون میں وہ آگے چل کر کہتا ہے کہ شاعری اور سچائی تیل اور پانی کی طرح ہیں۔ ان کو ملانے کی کوشش کرنے والا نظریے کے جنون کا شکار ہوگا۔ ظاہر ہے کہ پو صرف ایک بنیادی حقیقت کو بہ زور بیان کر رہا ہے کہ شاعری اگر خوب صورت نہیں ہے تو وہ اپنے مقصد میں ناکام ہے۔ شاعرانہ سچائی اور سائنسی یا اخلاقی سچائی میں فرق یہی ہے کہ شاعرانہ سچائی کی خوب صورتی اس کا جواز ہوتی ہے۔ اس طرح پو کے نظریات سے خوف زدہ یا اس پر چیں بہ جبیں ہونے والے حضرات غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ ان خیالات میں کوئی انتشار یا تخریبی پروگرام مضمر ہے۔ شاعری کے اخلاقی اور تعلیماتی پہلو کو خوب صورتی کے مسئلے سے خارج کرکے پو (Poe) نے فرانسیسی علامت نگاروں کو بلکہ سرریلسٹ نظریہ کے بانیوں کے لیے مشعل راہ کا کام کیا۔

    بودلیئر نے شاعری کو کائنات نو کی تخلیق اسی لیے کہا ہے کہ وہ حسن کا اظہار کرتی ہے۔ حسن کی تعریف اس نے یوں کی ہے، ’’اس میں شدید، پرجوش احساس اور رنجیدگی کا شائبہ ہوتا ہے۔ حسن کچھ مبہم سا ہوتا ہے اور اس میں تھوڑی بہت ظن وتخمین (Conjecture) کی گنجائش ہوتی ہے۔۔۔ اسراریت اور محزونی بھی حسن کے خواص ہیں۔‘‘ اس تعریف کو مکمل نہیں کہا جا سکتا لیکن اسے غلط بھی نہیں کہہ سکتے کیونکہ بود لیئر سے بہت مختلف شاعر ورڈز ورتھ نے بھی فطرت کی سرگوشیوں میں ’’انسانیت کی رنجیدگی آمیز اور خاموش موسیقی‘‘ سن سکنے کا دعویٰ کیا تھا۔

    سرریلزم کے نظریہ ساز آندرے بریتوں (Andre Breton) نے دعویٰ کیا کہ، ’’عجوبہ اور حیرت انگیز ہمیشہ خوب صورت ہوتا ہے۔ کوئی بھی چیز جو عجوبہ اور حیرت انگیز ہو خوب صورت ہوتی ہے، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ صرف عجوبہ اور حیرت انگیز ہی حسین ہوتا ہے۔‘‘ اس تصور کی اصل بھی نہ صرف بیسویں صدی کے شروع میں پھلنے والے اپولینئر (Guillaume Apolloniare) کے خیالات میں، بلکہ کیٹس کے یہاں بھی مل سکتی ہے، جب وہ کہتا ہے کہ، ’’شاعری کو لازم ہے کہ وہ ہمیں ایک عمدہ بےقاعدگی اور کثرت کے ذریعہ متحیر کر دے۔‘‘

    دوسری طرف چسٹرٹن (G. K. Chesterton) نے ڈکنس (Charles Dickens) کے بھونڈے اور بھیانک کرداروں کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہزار پایہ یا گینڈا اس لیے خوب صورت ہے کہ اس کے اپنے طرز حیات کے لیے اس سے بہتر کوئی شکل ممکن نہ تھی تو ڈکنس کے یہ کردار بھی خوب صورت ہیں۔ ایرک نیوٹن (Eric Newton) نے اسی نکتے کو اپناتے ہوئے کہا ہے کہ،

    ’’یہ کہنا فضول ہے کہ فلاں چیز کے مقابلے میں فلاں چیز زیادہ متناسب یا بناوٹ میں زیادہ ہم آہنگ یا بہتر رنگوں والی ہے۔ تناسب، بناوٹ اور رنگ کے معیارات آخر ہم نے کہاں سے حاصل کیے ہیں؟ اور اگر کسی ایسے معیار کا حوالہ ناممکن ہو تو ہم یہ کہنے کا کیا حق رکھتے ہیں کہ خنزیر کی ٹانگیں بہت چھوٹی ہوتی ہیں؟ کس چیز کے لیے بہت چھوٹی؟ خنزیر کے لیے ظاہر ہے کہ نہیں، ورنہ اس نے ارتقا کے طویل سفر میں اپنی ٹانگیں لمبی کرلی ہوتیں، خوب صورتی کے لیے؟ لیکن الماریوں کے پائے تو اور بھی چھوٹے ہوتے ہیں لیکن کوئی نہیں کہتا کہ الماریوں کے چھوٹے پائے اصلاً خوب صورت ہوتے ہیں۔‘‘

    اس بحث کا نتیجہ یہ نکلا کہ شعری جمالیات کی مملکت میں اضافے ممکن ہیں لیکن خوب صورت اشیا کی تعریف اور خوب صورتی کی تعریف الگ الگ چیزیں ہیں۔ شعری جمالیات یا کسی بھی جمالیات میں جو بھی اضافے ہوں گے وہ خوب صورت اشیا کی تعریف کے تحت ہوں گے، خوب صورتی کی تعریف (یا یوں کہیے کہ خوب صورتی کا تصور) ایک مطلق حقیقت ہے اور خوب صورت اشیا کی کوئی تعریف ایسی نہیں ہو سکتی جو اس مطلق حقیقت سے متبائن ہو۔ جب یہ بات مان لی گئی تو شعری جمالیات کے فروعی مسائل، جن کا ذکر اوپر ہوا، خود بہ خود راہ پر آ جاتے ہیں۔

    شعری جمالیات کے چار اصولوں کی روشنی میں یہ سوال اٹھ سکتا ہے کہ کیا شاعری میں ان جذبات کا کوئی جمالیاتی مقام نہیں جن سے شعر عبارت ہوتا ہے؟ یعنی رنجیدگی، غصہ، مسرت، تلخی، مایوسی، رجائیت وغیرہ کی جمالیاتی حیثیت کیا ہے؟ یہ سوال وہی لوگ اٹھائیں گے جو شعر میں اخلاقی اور تعلیماتی اقدار کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ شعر سے فلسفیانہ اور نظریاتی صحت یا صحت مندی کا تقاضا غلط اور نامناسب ہے۔ لیکن ان کے دل میں یہ چور بھی رہتا ہے کہ شاعری کو جزویست از پیغمبری بالکل نہ کہا جائے تو سماجی اور سیاسی ذمہ داری کے نام پر شاعری کی گردن کیوں کر پکڑی جا سکےگی؟ ایسے نقادوں اور مفکروں کی مشکل یہ ہے کہ ایک طرف تو وہ شاعر کو سماجی کاموں میں مصروف دیکھنا چاہتے ہیں اور دوسری طرف وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ شاعر کو شاعر سمجھا جائے، سماجی کارکن نہیں۔

    لہٰذا وہ فلسفیانہ اور نظریاتی سچائی یا صحت مندی کا براہ راست ذکر نہیں کرتے بلکہ اس کو جذبات کی نقاب اڑھا کر پیش کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ شاعری میں ایسے جذبات کا اظہار ہونا چاہیے جو رجائیت اور نشاط انگیزی سے بھرپور ہوں۔ رجائیت اور نشاط انگیزی کی جمالیاتی حقیقت ہے کہ نہیں، اس سوال سے وہ آنکھیں چراتے ہیں لیکن فرضی تاریخی حوالوں کے ذریعہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اعلیٰ شاعری میں نشاط انگیزی ضروری ہوتی ہے۔ چنانچہ مجنوں صاحب کہتے ہیں،

    ’’کسی ملک کی ادبی تاریخ اٹھا کر دیکھیے تو معلوم ہوتا کہ جن شاعروں میں تلخی، طنز، یاس، تشکیک یا بغاوت کی فراوانی رہی ہے، وہ ان شاعروں کے مقابلے میں کم مرتبہ سمجھے گئے ہیں جو نشاط وانبساط کا پیغام رکھتے ہیں اور جس دور میں ادبیات کا عام لہجہ حزن وملال رہا ہے اس کو ادبی انحطاط کا دور قرار دیا گیا ہے اور پھر عوام تو یاس انگیز شاعری کے متحمل ہی نہیں ہو سکتے۔ اگر شاعر نے اپنے لب ولہجہ، اپنے تیور، اپنے انداز بیان سے یاس وحرمان کو نشاط وابتہاج سے بہتر نہیں بنایا۔۔۔ تو عوام الناس نہ اس کی تاب لا سکتے ہیں اور نہ اس سے موانست پیدا کر سکتے ہیں۔‘‘

    اس بات سے قطع نظر کہ کسی بڑے (بلکہ بڑے کیا، اچھے) شاعر کے بارے میں یہ حکم لگانا ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ محض یک طرفہ شاعر ہے اور اس بات سے بھی قطع نظر کہ اردو فارسی عربی کے بیش تر قصیدے ’’تلخی، طنز، یاس، تشکیک یا بغاوت‘‘ سے عاری ہیں اور انھیں قصائد کے مصنفوں نے تلخی وغیرہ سے بھرپور غزل بھی لکھی ہے، سب سے بڑی دھاندلی اس بیان میں یہ ہے کہ تمام دنیا کی ادبی تاریخ کو اس طرح بیان کر دیا گیا ہے گویا وہ کسی گلی کے جغرافیے کی طرح یک رنگ اور مختصر ہو۔ بڑے شاعر کے یہاں ہر طرح کا رنگ ملتا ہے اور بڑے ادب میں ہر رنگ کی تحریر بہ یک وقت موجود رہتی ہے۔ یہ فیصلہ کہ تمام ملکوں کے ادب میں ایسے شاعروں کو کم مرتبہ ملا جونشاط انگیز نہیں تھے، کئی وجہوں سے غلط ہے۔

    اول تو کوئی بڑا شاعر ایسا ہوا ہی نہیں جس کا رنگ سراسر یاس و الم یا نشاط وابتہاج سے عبارت ہو۔ دوسرے یہ کہ بڑی شاعری کے بارے میں اس طرح کا سفید وسیاہ قسم کا حکم لگانا ممکن نہیں ہے۔ نظم یا شعر بہ یک وقت نشاطیہ اور المیہ ہو سکتا ہے۔ تیسرے یہ کہ شاعرانہ خوبی اور خرابی کا تعلق ان جذبات سے نہیں ہے جو شعر میں بیان کیے گئے ہیں۔ اگر ایسا ہو تو پھر بعض جذبات کو شاعرانہ، بعض کو غیرشاعرانہ، بعض کو خوب صورت اور بعض کو بدصورت کہنا پڑےگا۔ ظاہر ہے کہ صرف وہی شخص اس کام کا بیڑا اٹھا سکتا ہے جو مجنوں صاحب کی طرح جذبات کے بارے میں مبتدیانہ معلومات بھی نہ رکھتا ہو۔ ورنہ کون یہ فیصلہ کر سکتا ہے کہ غصہ یا غم یا مایوسی یا خوشی یا محبت کے جذبات اصلاً خوبصورت ہیں یا بدصورت؟

    جذبات کی اگر کوئی شاعرانہ حیثیت ہے تو وہی جو معنی کی ہے۔ معنی کی خوبی یا خرابی اس کے اخلاقی یا افادی پہلو کے تابع نہیں ہوتی۔ اگر ایسا ہوتا تو بہت ساری عشقیہ اور رثائی شاعری من حیث الاصل خراب قرار دی جاتی۔ پھر جذبات کی شاعرانہ خوبی یا خرابی کو طے کرکے چلنے میں وہی قباحت ہے جو نظریات کی شاعرانہ خوبی یا خرابی کو طے کرکے چلنے میں ہے۔ بعض جذبات کو ہم خراب سمجھتے ہیں لیکن جب انھیں جذبات کو ہم ایسی شاعری میں دیکھتے ہیں جو ہمیں اچھی معلوم ہوتی ہے تو پھر اس شاعری کی تاویلیں یا جذبات کی تعبیریں شروع کردیتے ہیں۔

    لہٰذا جب مجنوں صاحب کو میر کی شاعری کے حسن کا اعتراف کرنا ہوا تو انھوں نے یہ مفروضہ گڑھ لیا کہ میر کی المناکی، قائم چاند پوری کی المناکی سے اس لیے مختلف ہے کہ میر کے غم میں نشاط انگیزی اور امید افزائی ہے۔ ان کی مندرجہ ذیل رائے میں کسی نوخیز قاری کی سی معصومیت قابل دید وداد ہے، ’’زندگی میں جن باتوں سے ہم مایوس ہو جاتے ہیں، میر انھیں باتوں کے نئے حوصلہ خیز اور نشاط انگیز امکانات ہم پر منکشف کر دیتے ہیں، اور ہم کو ان کے کلام سے ڈھارس بندھ جاتی ہے۔ ہم اپنے دل کو یہ سمجھانے لگتے ہیں کہ جب تک میر اور ان کی شاعری دنیا میں موجود ہے ہم کو بہت ہارنے کی ضرورت نہیں۔۔۔ اسی کا نام رومانیت ہے۔‘‘

    مجنوں گورکھ پوری جیسے پڑھے لکھے اور تجربہ کار نقاد کے قلم سے ایسے الفاظ اسی وقت نکل سکتے ہیں جب وہ اس کش مکش میں بری طرح گرفتار ہوں کہ ایک طرف میر کا جواز پیدا کرنا ہے تو دوسری طرف المیہ بصیرت کا بطلان بھی کرنا ہے۔ اگر وہ اس کش مکش کی جراحت اور ضیق کے نتیجے میں یہ بات سمجھ لیتے کہ شاعری کا اچھا برا ہونا ایک جمالیاتی معاملہ ہے اور شاعری کو اس بات سے کوئی لینا دینا نہیں کہ وہ نشاط انگیز ہے یا الم ناک، بلکہ اس کا معاملہ صرف یہ ہے کہ وہ شاعری ہے کہ نہیں، تو انھیں میر کے جواز کے لیے اتنے پا پڑ نہ بیلنے پڑتے۔ برٹرنڈ رسل نے اسی لیے کہا ہے کہ کسی نتیجے کو محض اس لیے قبول کر لینا کہ وہ ہمیں جذباتی طور پر پسند آتا ہے، سب سے بڑی بددیانتی ہے۔

    ہمارے یہاں بیش تر تنقیدنگار ایسی ہی بددیانتی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ لیکن جہاں جہاں جذباتی پسندیدگی کو بالائے طاق رکھ کر ٹھنڈی فکر سے کام کام لیا گیا ہے، وہاں سچی فلسفیانہ شان بھی ان تنقیدنگاروں میں نظر آتی ہے، لہٰذا مجنوں صاحب نے ہی یہ بھی کہا ہے کہ ’’جب تک انسان انسان ہے، اس کے اندر انفرادیت باقی رہے گی۔‘‘ ظاہر ہے کہ جب آپ ادیب کو انفرادیت کا حق دیتے ہیں تو پھر ان جذبات پر پابندی لگانے یا انھیں مطعون کرنے کا حق آپ کو نہیں ہے جنھیں آپ محبوب نہیں رکھتے یا جنھیں آپ اپنی جذباتی پسند کی بنا پر غلط سمجھتے ہیں۔

    جذباتی طور پر پسندیدہ ہونے کی بنا پر کسی نتیجے کو قبول کر لینے کی مثال احتشام صاحب کے یہاں بھی دیکھیے، جب وہ یہ کہتے ہیں کہ آزادی اور اشتراکیت کی جد وجہد کو آگے بڑھانے والی شاعری جن لوگوں کے خلاف پڑتی ہے وہ اسے پروپیگنڈا کہتے ہیں، لیکن ایسی شاعری جن لوگوں کے ہاتھوں میں جہد وعمل کے حربے کا کام کرتی ہے، انھیں اسی پروپیگنڈائی شاعری میں توانائی اور حسن نظر آتا ہے۔

    احتشام صاحب کا یہ نظریہ شعری جمالیات یا شعر کی خوبصورتی کے بارے میں دلچسپ سوال ضرور اٹھاتا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی شاعری کے بارے میں دعویٰ کرے کہ وہ خوب صورت ہے اور دلیل یہ دے کہ اس کا انفرادی فیصلہ ہے، تو اس کا جواب کیا ہوگا؟ یہ سوال اس وقت اور بھی ٹیڑھا ہو جاتا ہے جب وہ شخص یہ کہے کہ چونکہ فلاں شاعری اس کے جذباتی اور فکری رجحانات سے ہم آہنگ ہے، لہٰذا وہ اسے پسند کرنے اور اچھا کہنے میں حق بجانب ہے۔

    ایک طرح سے دیکھئے تو یہ دعویٰ اور دلیل، دونوں ہی انفرادی فیصلے اور پسند کی پشت پناہی کرتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ لیکن جن لوگوں کی طرف سے یہ دعویٰ اور دلیل پیش کیے جارہے ہیں وہ انفرادی فیصلے اور پسند کے منکر بھی ہیں۔ ایسی صورت میں دعویٰ اور دلیل خود بخود پادر ہوا ثابت ہو جاتے ہیں۔ اس الزامی جواب سے قطع نظر، بنیادی بات یہ ہے کہ جن افکار یا جذبات کو ہم محبوب یا مذموم سمجھتے ہیں، ہمیں ان کی تبلیغ یا تردید کا پورا حق ہے، لیکن جب تک ہم یہ نہ ثابت کردیں کہ ان جذبات و افکار میں کوئی ذاتی حسن یا بدصورتی ہے، ہم انھیں شاعری کے حسن وقبح کا معیار نہیں قرار دے سکتے۔ دوسری مشکل یہ ہے کہ بہت سے جذبات وافکار ایسے ہیں جن پر کسی قسم کا لیبل یا عنوان نہیں لگ سکتا، ہم انھیں رجعت پسندانہ، ترقی پسندانہ، صحت مند، غیرصحت مند، تخریبی، تعمیری، کچھ نہیں کہہ سکتے، یہ کچھ بالکل سامنے کے شعر ہیں،

    غالب،

    نہیں ذریعۂ راحت جراحت پیکاں

    وہ زخم تیغ ہے جس کو کہ دل کشا کہیے

    اقبال،

    وہ نمود اختر سیماب پا ہنگام صبح

    یا نمایاں بام گردوں پر جبین جبرئیل

    آتش،

    ناگفتنی ہے عشق بتاں کا معاملہ

    ہر حال میں ہے شکر خدا کچھ نہ پوچھیے

    میر،

    جب جنوں سے ہمیں توسل تھا

    اپنی زنجیر پا ہی کا غل تھا

    فیض،

    کسی کا درد ہو کرتے ہیں تیرے نام رقم

    گلہ ہے جو بھی کسی سے ترے سبب سے ہے

    ظاہر ہے کہ یہ اشعار محض اشعار ہیں۔ ان کی خوبی کا سہرا کسی فکری یا جذباتی نظام کے سر نہیں بندھ سکتا۔ جب یہ بات مان لی گئی کہ بعض اچھے اشعار ایسے بھی ہوتے ہیں جن میں بیان کردہ جذبات، افکار یا تجربات ومحسوسات کو ہم محمود یا مذموم کچھ نہیں کہہ سکتے، تو یہ بھی ثابت ہو گیا کہ جذبات وافکار یا تجربات ومحسوسات کا خوب یا ناخوب ہونا شعرکی خوب صورتی کے لیے قدر واجب نہیں ہے، جو چیز شعر کے حسن کے لیے واجب نہ ہو، اسے کسی جمالیاتی نظام کی اساس نہیں قرار دیا جا سکتا۔ وہ چیز اپنی جگہ پر کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہو، لیکن اس سے معیار سازی میں مدد نہیں مل سکتی۔

    اب آخری مسئلہ یہ رہ جاتا ہے کہ اگر شعری حسن کے معیار تغیر پذیر نہیں ہیں تو پھر اس کی کیا وجہ ہے کہ بعض شاعری بعض سے بہت مختلف نظر آتی ہے؟ مصوری کی دنیا سے مثال دی جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر خوب صورتی ہر جگہ یکساں ہے تو پکاسو (Pablo Picasso) یا پال کلے (Paul Klee) اور ریبمرانت (Rembrandt) یا کانسٹیبل (John Constable) کی تصویروں میں اتنا فرق کیوں ہے؟ اس سوال کے کئی جواب ممکن ہیں۔ سب سے پہلے تو یہ دیکھیے کہ ایک زمانے میں ریمبرانت یا کانسٹیبل کو بھی حد درجہ بد صورت کہنے والے لوگ موجود تھے۔ آہستہ آہستہ نقادوں اور مصوری پسندوں کو محسوس ہواکہ ان میں بھی ایک طرح کی خوب صورتی ہے اور شاید یہ خوب صورتی بھی اسی طرح کی ہے جیسی تشن (Tiziano Titian) کی Portraits جارجیونی (Giorgio Giorgione) کے Landscapes میں تھی۔

    فرق صرف مصور کے اور ہمارے نقطۂ نگاہ کا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ پکاسو اور پالی کلے دونوں نے قدیم افریقی آرٹ سے استفادہ کیا ہے۔ یہ قدیم آرٹ جب پہلے پہلے یورپ میں پہچانا گیا تو خاص وعام سب حلقوں نے محسوس کیا کہ حسن کو پیش کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے۔ تشن (Titian)، ریمبرانت (Rembrandt)، وین گوگ (Van Gogh)، گوگیں (Gauguin) اور پکاسو سب ایک باریک مگر مضبوط رشتے میں پروئے ہوئے ہیں۔ ممکن ہے تنہا پکاسو کی تصویروں کو دیکھنے پر آپ کو دھچکا سا لگے، لیکن اگر مشرق ومغرب کی مصوری کے اعلیٰ نمونوں کے تناظر میں رکھیے تو آپ کو پکاسو (یا کوئی بھی جدید تر مصور مثلاً مارک شاگال (Marc Chagall) آپ کو بیزارکن نہ معلوم ہوگا۔ ظاہری اختلافات کے باوجود شاگال کی بعض زنانہ تصویروں میں وہی لطیف حرکت اور نازک نسائیت ہے جو سولہویں صدی کے اطالوی مصور بوتی چلی (Boticelli) کی بعض تصویروں میں نظر آتی ہے۔

    شعر کی دنیا میں معاملہ اتنا سادہ اس وجہ سے نہیں ہے کہ مختلف تصویروں میں خطوط اور رنگوں کا ٹکراؤ بہ یک وقت اور فوراً نظر آ جاتا ہے جبکہ شعر کو سننے اور پڑھتے رہنے کے باوجود آپ ایک وقت میں ایک ہی شعر پڑھ یا سن سکتے ہیں، تقابلی مطالعے کے لیے آپ کو حافظہ کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ رنگ اور موسیقی کی سب سے بڑی قوت یہ ہے کہ انھیں ترجمے کی ضرورت نہیں پڑتی، جب کہ اپنی بھی زبان کا شعر سمجھنے کے لیے ہمیں اپنے الفاظ میں ذہنی ترجمہ کرنا پڑتا ہے۔ ایسا بہت کم ہوتاہے کہ ذہنی Paraphrase کے عمل سے گذرے بغیر شعر آپ کی سمجھ میں آ جائے۔

    گذشتہ زمانے کی شاعری کے دل دادہ قاری Paraphrase کا وہی مخصوص طریقہ استعمال کرتے ہیں جو انھیں اس شاعری کو سمجھنے میں معاون ہوتا ہے۔ کوئی ضروری نہیں کہ وہی طریقہ معاصر شاعری یا کسی بھی مقررہ زمانے کی شاعری پر بھی یکساں کارآمد ثابت ہو۔ یہ معاملہ زبان فہمی کا نہیں بلکہ زبان کو اپنے اندر جذب کرنے کا ہے اور زبان فہمی سے پہلے ہی پیش آ جاتا ہے، مثال کے طور پر یہ تین شعر ہیں،

    غالب،

    آئے ہے بے کسی عشق پہ رونا غالب

    کس کے گھر جائےگا سیلاب بلا میرے بعد

    مومن،

    تو کہاں جائےگی کچھ اپنا ٹھکانا کرلے

    ہم تو کل خواب عدم میں شب ہجراں ہوں گے

    ناصر کاظمی،

    اس شہر بے چراغ میں جائےگی تو کہاں

    آ اے شب فراق تجھے گھر ہی لے چلیں

    ان اشعار میں زبان فہمی کی کوئی شکل نہیں ہے۔ (مومن کے دوسرے مصرعے میں ’’شب ہجراں‘‘ کے پہلے ’’اے‘‘ مقدر ہے، لیکن فوری طور پر کوئی جھٹکا نہیں محسوس ہوتا۔) ان اشعار کی معنویت اور تینوں شعرا کے مختلف رویے کا احساس اسی وقت ممکن ہے جن Parapharse کا خود کار عمل ’’بے کسی عشق‘‘ ، ’’شب ہجراں‘‘ اور ’’شہر بے چراغ‘‘ کو ذہن کے پردے پر متشکل کر دے۔ یہ ممکن بلکہ اغلب ہے کہ ’’بے کسی عشق‘‘ اور ’’شب ہجراں‘‘ سے مانوس ذہن ’’شہر بے چراغ‘‘ کو قبول کرنے سے انکاری ہو جائے۔ یہ ایک سادہ صورت حال تھی۔ اب ذرا پیچیدہ مثال دیکھیے،

    میر،

    چشم ہو تو آئینہ خانہ ہے دہر

    منھ نظر آتے ہیں دیواروں کے بیچ

    غالب،

    گرم فریاد رکھا شکل نہالی نے مجھے

    تب اماں ہجر میں دی برد لیالی نے مجھے

    عادل منصوری،

    جو چپ چاپ رہتی تھی دیوار پر

    وہ تصویر باتیں بنانے لگی

    عادل منصوری کا تو ذکر کیا، اس زمانے میں ایسے لوگ موجود ہیں جو غالب کے شعر کا مذاق اڑاتے ہیں کہ ان صاحب کو فرش پر بنی ہوئی تصویریں دیکھ کر رونا آتا ہے۔ میر کے شعر میں صوفیانہ اور اسراری معنویتیں ہیں۔ عادل منصوری کے یہاں منقسم شخصیت Schizophrenia کی کیفیت ہے۔ ان باتوں سے بحث نہیں۔ نکتہ یہ ہے کہ ’’آئینہ خانہ‘‘ اور ’’دیواروں‘‘ کا ذہنی ترجمہ آسان ہے لیکن ’’شکل نہالی‘‘ کو ’’گرم فریاد‘‘ اور ’’برد لیالی‘‘ سے متعلق کرنا اور بولتی ہوئی تصویر کو پہلے غائب، پھر موجود، پھر بولتی ہوئی فرض کرنامخصوص قسم کی ذہنی جست کا تقاضا کرتا ہے، لہٰذا یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہر اچھا شعر یا اچھی نظم اپنے مخصوص ذہنی ترجمے کی طلبگار ہوتی ہے۔

    اوپر کی مختصر بحث سے اندازہ ہو گیا کہ نئی طرح کی خوب صورتیاں دراصل اتنی نئی نہیں ہوتیں جتنا ان کو بنانے کا طریقہ نیا ہوتا ہے۔ تمام خوب صورت چیزوں میں ایک تاریخی تسلسل اور ایک داخلی ربط ہوتا ہے۔ میں شروع میں کہہ چکا ہوں کہ حسن کے نئے معیار نہیں بنتے بلکہ حسن خلق کرنے کا طریق کار بدلتا رہتا ہے اور خوب صورت اشیا کی فہرست میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ طریق کار کی تبدیلی اور اس کی ضرورت کی طرف سب سے پہلے متوجہ کرنے والا مشہور موسیقار واگنر (Wagner) تھا جس کے تصورات نے جدید جمالیاتی فکر کو نئی راہیں دکھائیں۔ واگنر نے اپنے طورپر شعر اور موسیقی کی وحدت کے تصور کو عام کیا اور فرانسیسی علامت نگاروں پر اثر انداز ہوکر شعر بہ حیثیت موسیقی اور براہ راست علم، شاعر بہ حیثیت خلاق نو اور شاعر بہ حیثیت ایک آزاد سرگرمی کے نظریات کو استحکام بخشا۔

    واگنر نے کہا کہ شاعر کو چاہیے کہ وہ زبان کو براہ راست محسوسات کی تخلیق وتذکرہ کے لیے استعمال کرے۔ اس نظریے نے ملارمے کے افکار کو کس درجہ متاثر کیا، اس کی وضاحت شاید چنداں ضروری نہ ہو۔ واگنر نے سب سے پہلے اس نکتے کو بیان کیا کہ شاعری زبان کا اظہار ہونے کی وجہ سے ترجمے کی پابند ہوتی ہے جب کہ موسیقی ہم پر براہ راست اثرانداز، اور ترجمے سے بے نیاز ہوتی ہے، لہٰذا شاعری اور موسیقی کا ادغام بہترین جمالیاتی ہیئت خلق کر سکتا ہے۔ وہ کہتا ہے،

    (۱) ایسی ہیئت کی پیمائش ناپذیر غیرمعمولی اہمیت یقینا اس بات میں ہوگی کہ تنگ قومی اثرات سے بیگانہ ہونے کی وجہ سے یہ آفاقی طور پر سمجھ میں آنے والی اور ہر نسل وقوم کے لیے کھلی ہوئی ہوگی۔

    (۲) اگر یورپی زبانوں کے اختلاف ادب کے دائرے میں اس ہیئت کی تشکیل کے لیے سد راہ ہیں تو یقیناً موسیقی میں ہی وہ عظیم مساوات ساز قوت پائی جا سکےگی جو افکار کی زبان کو محسوس کی زبان میں منقلب کرتے ہوئے فنکارانہ تصور کے عمیق ترین اسرار کو عام فہم بنا سکےگی۔۔۔

    (۳) میں نے دیکھا کہ شاعر کی فطری خواہش یہ ہے کہ تصورات اور ہیئت دونوں میں زبان یعنی مجرد خیالات کی مادی تجسیم کو اس طرح استعمال کرے کہ وہ خود محسوسات پر فوری طور پر اثر انداز ہو۔ یہ رجحان چونکہ شعری موضوع کی ایجاد میں بھی مادی حیثیت رکھتا ہے اور انسانیت کی وہی تصویر حیات شاعرانہ کہی جا سکتی ہے جس میں تجریدی فکر کے تمام مقصودات غائب ہوکر خالص انسانی محسوسات کی نمائندگی کو راہ دیں، اس شعری بیان کے اظہار اور ہیئت کا یہی ایک معیار اور پیمانہ ہے۔ شاعر اپنی (یعنی شعری) زبان میں الفاظ کے تجریدی، رسومیاتی معانی کو ان کے اصلی اور معنی خیز معانی کا تابع کر دیتا ہے اور ان کی پر آہنگ ترتیب بلکہ انھیں موزوں کرنے کے عمل میں ان پر موسیقی کا پردہ ڈال کر اپنی لسانی ترتیب میں ایسی اثریت پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے جو محسوسات کو نہ صرف متاثر کرے بلکہ ان پر اس طرح مستولی بھی ہو جائے گویا وہ افسوں گری ہو۔

    (۴) شاعرانہ عمل کے اس سفر کے دوران (جو اس کی اپنی فطرت کے لیے اس قدر واجب ہے۔) ہم شاعر کو اپنے فن کی آخری حدود تک پہنچتے ہوئے دیکھتے ہیں، جہاں وہ موسیقی کو چھوتا ہوا محسوس ہوتا ہے، لہٰدا ہمارے لیے کامیاب ترین شعری فن پارہ وہی ہوگا جو اپنی تکمیلیت میں پوری طرح موسیقانہ ہو۔۔۔

    (۵) ایسا لگتا ہے کہ خالص انسانی محسوسات جور سومیاتی تہذیب کے میدان میں دب جانے کی وجہ سے مضبوط تر ہو گئے ہیں، انھوں نے زبان کے بعض ایسے قوانین بروئے کار لانے کی کوشش کی ہے جو صرف محسوسات کے ساتھ مختص ہیں اور جن کے ذریعہ وہ خود کو قابل فہم طور پر اور منطقی فکر کی بندشوں سے آزاد ہوکر ظاہر کر سکتے ہیں۔۔۔

    (۶) اس ناگزیر اعتراف کی روشنی میں شاعری کے ارتقا کے لیے بس دو راستے رہ جاتے ہیں۔ یا تو محض خالص تجرید کے میدان میں داخل ہوکر معانی کی تراکیب اور فکر کے منطقی قوانین کے ذریعہ اشیا کی نمائندگی کرے (اور اپنی فلسفیانہ شکل میں یہ ایسا کرتی ہی ہے) یا پھر یہ موسیقی سے منسلک ہو جائے، ایسی موسیقی سے جس کی بے حد ونہایت قوت بیتوون (Beethoven) کی سمفنی میں ہم پر منکشف ہوتی ہے۔

    (۷) لیکن اس مہم میں وہی شاعر کامیاب ہو سکتاہے جو موسیقی کے میلان اور اس کی غیرمختتم قوت اظہار کو بہ خوبی سمجھتا ہے اور اس لیے اپنی نظم کو اس طرح ترتیب دیتا ہے کہ وہ موسیقیاتی بافت کے باریک ترین تاروں میں پیوست ہو جائے اور بولے ہوئے افکار کو محسوسات کی شکل میں پوری طرح متشکل کردے۔‘‘

    یہ کہنے کی چنداں ضرورت نہیں کہ واگنر نے افکاری شاعری اور محسوساتی شاعری کی جو دو قسمیں بیان کی ہیں اور محسوساتی شاعری کو براہ راست متاثر کرنے والی موسیقی سے مشابہ کرنے کی جو دعوت شعرا کو دی ہے، اس کا اثر قریب ودور کے تمام شعرا پر کسی نہ کسی نہج سے اب تک دیکھا جا سکتا ہے۔ رلکے، یے ٹس، ملارمے، الیٹ، مایا کانسکی ان سب کے لیے شاعری اور موسیقی کے نئے رشتوں کی تلاش اور شاعری میں منضبط معنی کے بجائے اشیا کی اس طرح نمائندگی کی کوشش کہ بجائے اشیا کے ان کا تاثر سامنے آ جائے، زندگی کا مقصد بن گیا۔ خود اقبال کے یہاں واگنر کی بازگشت ملتی ہے۔

    شاعری کو موسیقی بنا دینے کی کوشش ایک نئے طریق کار کی دریافت کا تقاضا کرتی ہے۔ دوسری طرف یہ کوشش شاعری کی ماہئیت پر نئی تفکیری سرگرمی کی بھی دعوت دیتی ہے، کیونکہ اگر شاعری زبان سے ماورا ہو سکتی ہے تو اس میں براہ راست علم، افسوں یا شاعر بہ حیثیت کا ہن وعارف کا تصور بھی مضمر ہوگا۔ یہ تصور بودلیئر (Charles Baudelaire) اور ریں بو (Arthur Rimbaud) سے ہوتا ہوا ملارمے (Stephane Mallarme)، والیری (Paul Valery)، الیٹ (T. S. Eliot)، یے ٹس (W. B. Yeats) اور والیس اسٹیونز (Wallace Stevens) تک دیکھا جا سکتا ہے۔ شاعری خوب صورتی کی تخلیق ہے۔ اس نظریے کو بیان کرنے کے لیے میں نے اڈگر ایلن پو کاحوالہ دیا ہے۔ اب دیکھیے بودلیئر اپنے الفاظ میں پو کا تقریباً ترجمہ کرتے ہوئے کہتا ہے،

    ’’اکثر لوگ فرض کرتے ہیں کہ شاعری کا مقصد کسی قسم کی تعلیم ہے اور یہ کہ شاعری کو ضرور ہے کہ وہ کبھی ضمیر کو مستحکم کرے، کبھی مختصراً کسی کارآمد بات کو ظاہر کرے، لیکن اگر کوئی اپنے اندر ذرا سا بھی اتر جائے، اپنی روح سے پوچھے، اپنے پرجوش لمحات کو دوبارہ خلق کرے تو شاعری اپنا مقصد آپ ہونے کے سوا کچھ بھی نہیں۔۔۔ میں یہ نہیں کہتا کہ شاعری انسانی بیوہار کو شریف تر نہیں بناتی یا اس کا آخری نتیجہ یہ نہ ہوگا کہ وہ انسانوں کو عام خود غرضیوں کی سطح سے اونچا اٹھا دے۔ یہ تو کھلی ہوئی بے معنی بات ہوگی۔ میں صرف یہ کہتا ہوں کہ اگر شاعر نے جان بوجھ کر کسی اخلاقی مقصد کے حصول کی کوشش کی ہے تو اس نے اپنی شاعرانہ قوتوں کا خسران کیا ہے۔۔۔ شاعری کے ذریعہ اور شاعری کے آرپار موسیقی کے ذریعہ اور موسیقی کے آرپار انسانی روح اور فیع الشان نظاروں کی ایک جھلک دیکھنی ہے جو قبر کے اس پار واقع ہیں۔۔۔‘‘

    شاعر بہ حیثیت عارف اور شاعری بہ حیثیت موسیقیاتی عرفان کے اس تصور کو پرزور طریقے سے بیان کرنے کی وجہ سے جدید شاعری کا ظاہری نقشہ روایتی سے مختلف اور ایک نئی جمالیات کا التباس پیدا کرتا ہے، ورنہ ظاہر ہے کہ واگنر یا فرانسیسی علامت پرستوں یا سرریلسٹوں کے یہ نظریات قدیم شعر ہی کے بطن سے اخذ کیے گئے تھے۔ ایک طرف بودلیئر تمام کائنات کو شاعر کی میراث مان کر کہتا ہے کہ،

    ’’دور نزدیک کی تمام اشیا محض اشارے ہیں جو اسے فکر کی دنیا میں داخل ہونے کے لیے برانگیخت کرتے ہیں اور تمام اشیا کو پہلے سے بھی زیادہ شوخ رنگوں والی، واضح اور لطیف معنی سے بھرپور بناکر افسونی رنگ میں ملبوس کرکے پیش کرتے ہیں۔ وہ خود سے کہتا ہے کہ یہ عظیم الشان شہر جن کی بارونق عمدہ عمارت اس طرح کھڑی ہیں گویا کوئی اسٹیج سجا ہوا ہو، وطن کی یاد سے بھری ہوئی بے حرکت بے خودی میں بندرگاہ کے پانیوں پر لہراتے ہوئے جہاز مجھے اس خیال کا ہی اظہار کرتے معلوم ہوتے ہیں کہ ہم حصول مسرت کے سفر پر کب روانہ ہوں گے؟

    یہ عجائب گھر جن میں بولتی تصویریں اور نشہ آور رنگ ٹھساٹھس بھرے ہوئے ہیں، یہ کتب خانے جن میں سائنس کے کارنامے اور فن کی دیویوں کے خواب اکٹھا ہیں، یہ سب مختلف ساز وآہنگ جو آواز میں متحد ہیں، یہ دل کو موہ لینے والی عورتیں جو اپنی نگاہ عشوہ طراز اور طرز آرائش کے فن کی بنا پر اور بھی دل کش معلوم ہوتی ہیں، یہ تمام چیزیں میرے لیے بنی ہیں، میرے لیے، میرے لیے۔‘‘

    اور دوسری طرف سرریلزم کا بانی آندرے بریتوں (Andre Breton) کہتا ہے کہ آنے والا شاعر عمل اور خواب کے درمیان واقع مرمت ناپذیر افتراق کے تصور پر فتح پا لےگا۔ اس نے سرریلیسٹ منشور میں کہا، ’’میں اس بات میں یقین رکھتا ہوں کہ مستقبل میں یہ دو بہ ظاہر متضاد حالتیں یعنی خواب اور عمل ایک طرح کی مطلق حقیقت یا یوں کہیے کہ ماورا حقیقت (Surreality) میں بدل جائیں گی۔‘‘

    لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ جدید شاعری دراصل اس فوق واقعیت (Superrealism) کی تلاش میں ہے جس کا خواب واگنر اور بودلیئر نے دیکھا تھا۔ یہ بہ ظاہر دنیا سے بے تعلق یا انتشار آمیز معلوم ہوتی ہے لیکن اس کی جڑیں انھیں حقائق میں پوشیدہ ہیں جہاں سے تمام شاعری جنم لیتی ہے۔ یہ ضرور ہوا کہ سرریلزم کا خواب وہ آخری خواب تھا جو جدید شاعر نے دیکھا کہ وہ انسانی حسن اور قوت کا وارث ہے۔ شاعر کی ساحرانہ یا عارفانہ حیثیت پراصرار نے شعر کی دنیا میں ایک نئی لہر یا نئی تھرتھراہٹ (ہیوگو Victor Hugo نے یہ لفظ بودلیئر سے کہے تھے کہ تم نے شعر کی دنیا ایک نئی تھرتھراہٹ اور لہر Frission پیدا کر دی ہے۔) تو ڈال دی، لیکن مادہ پرست دنیا جو شاعر کی قوت کو زبانی خراج پیش کرتی ہے مگر دراصل اسے سماجی کارکن بنانا چاہتی ہے، شاعر کو کاہن اور عارف ماننے پر تیار نہ ہوئی، لہٰذا جدید شاعری میں فریب شکستگی اور انتشار کی کیفیت پیدا ہو گئی۔ اس کا احساس نطشہ (Nietzche) کو بہت پہلے ہو چکا تھا، چنانچہ وہ کہتا ہے،

    ’’حالانکہ موجودہ رجائی فکر کی رو سے کائنات دانستنی اور شناختی ہے۔ لیکن کانٹ (Emmanue Kant) نے دکھادیا ہے کہ ابدی سچائیوں، مکاں، زماں اور علت کے بارے میں یہ مفروضہ کہ یہ مطلق اور آفاقی درستی رکھنے والے قوانین ہیں، محض ظواہر یعنی مایا کو سچی حقیقت کے درجہ پر بٹھا دیا جاتا ہے اور اس طرح اس حقیقت کی اصل فہم کو ناممکن بناتے ہوئے شوپن ہار (Schopenhauer) کے الفاظ کے خواب دیکھنے والے کو اور گہری نیند میں باندھ دیتا ہے۔ اس ادراک نے ایک ایسی تہذیب کا افتتاح کیا ہے جسے المیاتی کہنے کی جرأت کرتا ہوں۔۔۔

    ہمارا فن اس کائناتی کرب کی واضح مثال ہے۔ ہم بے فائدہ عظیم تخلیقی ادوار اور اساتذہ کی نقل کرتے ہیں۔ بےفائدہ سارے جدید انسان کو عالمی ادب سے گھیر دیتے ہیں اور توقع کرتے ہیں کہ وہ اس کے مختلف ادوار اور اسالیب کو اس طرح نام دےگا جس طرح حضرت آدم نے حیوانات کو نام دیے تھے۔ وہ ہمیشہ ہمیشہ بھوکا رہتا ہے۔ ایک نقاد جس میں نہ قوت ہے نہ مسرت، ایک اسکندریائی انسان جو دراصل محض لائبریرین اور شرح نویس ہے اور جو بےچارگی کے ساتھ گرد آلود کتابوں اور کتاب کی غلطیوں میں خود کو اندھا کرتا رہتا ہے۔‘‘

    واگنر اور بودلیئر سے نطشہ تک زمانی فصل بہت نمایاں ہے۔ یہی اس بات کا ثبوت ہے کہ جدید ادب کی کشاکش اور اس کی جدت دونوں بہ یک وقت ایک حقیقت کے دو پہلو ہیں۔ نئی جمالیات نے شاعر کے کردار کو خالص شاعرانہ حیثیت میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن مادی دنیا کچھ اور چاہتی ہے۔ یہ کشاکش تمام جدید ادب میں جاری و ساری ہے۔ اس نکتے کو سمجھے بغیر اور اس بات کا احساس کئے بغیر کہ جدید شعری جمالیات صرف ان چیزوں کا استحکام کرتی ہے جو خوبصورتی کی مطلق قدر کا انعکاس ہیں اور ہمیں نئی شاعری اس لیے انوکھی یا کم خوب صورت معلوم ہوتی ہے کہ ہم نے حسن کے تاریخی تصور پر مادیت کے پردے ڈال دیے ہیں، جدید ادب بلکہ کسی بھی ادب کا مطالعہ ممکن نہیں۔

    شعری خوب صورتی کے معیار صحیفۂ آسمانی کی طرح نہیں ہیں کہ انھیں کسی کتاب یا شرح میں بیان کیا جا سکے لیکن خوبصورت شاعری کے لیے انسان ایک جبلی پہچان کا رجحان رکھتا ہے۔ خوب صورتی کے بعض مظاہر کو بعض زمانوں میں زیادہ اہمیت ملتی ہے اور بعض میں کم۔ جدید شعریات نے خوبصورتی کو پرکھنے اور خلق کرنے کے نئے طریقے ضرور دریافت کیے ہیں۔ لیکن یہاں بھی زیادہ تر درجے کا نہیں، نوع کا نہیں۔ نئی جمالیات بنانے کا دعویٰ اپنا تضاد اپنے ہی اندر رکھتاہے۔ جدید شاعری تو بس یہ کر رہی ہے کہ آپ میں پرانی خوب صورتی کی فہم دوبارہ پیدا کرے اور اس طرح اپنی خوب صورتیوں کو اجاگر کرے۔

    مأخذ:

    تنقیدی افکار (Pg. 51)

    • مصنف: شمس الرحمن فاروقی
      • ناشر: ڈائرکٹر قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 2004

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے