Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

جدید اردو شاعری میں اشاریت

فیض احمد فیض

جدید اردو شاعری میں اشاریت

فیض احمد فیض

MORE BYفیض احمد فیض

    موجودہ اردو شاعری کی ایک علامت تو یہ علامات کا لفظ ہی ہے۔ ذرا غور کیجیے اگر آپ آج سے پہلے کسی سے یہ پوچھتے کہ کیوں جی آپ کی شاعری کی علامات کیا ہیں تو آپ کو کیا جواب ملتا۔ شاعری کی علامات؟ لاحول ولاقوۃ، شاعری نہ ہوئی طاعون ہوا۔ لیکن آج اس اصطلاح سے آپ کو کچھ ایسا اچنبھا نہیں ہوتا۔ تو جس راستہ سے یہ علامات کی نئی اصطلاح آئی ہے اسی راستے سے نئی علامات بھی آئی ہیں۔ میری مراد صرف انگریزی سے نہیں ہے۔ آج کل ہمارے ہاں یہ نیا رواج چلا ہے کہ ہمارے گھریلو ادب میں جو بھی اچھائی برائی ہے سب انگریزی کے سرمنڈھ دی جاتی ہے۔ گویا ہمارے ادیب تو محض کاٹھ کے الو ہیں۔ اِدھر انگریزی میں ایک چیز چھپی ادھر ہمارے ادیبوں نے اندھا دھند نقل کردی۔ اپنے ادیبوں کے متعلق میری رائے اتنی گھٹیا نہیں ہے۔ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ وہ جو کچھ لکھتے ہیں، بیشتر اپنے حالات سے متاثر ہوکر لکھتے ہیں۔

    انگریزی زبان اور انگریزی ادب ہمارے ماحول کا ایک حصہ ضرور ہے پورا ماحول نہیں ہے۔ چنانچہ ادب کی کایا پلٹ اس وجہ سے نہیں ہوئی کہ ہمارے اسکولوں میں ا نگریزی رائج ہوگئی ہے بلکہ اس وجہ سے کہ ہماری روز مرہ زندگی کے طور طریقے بدل گئے ہیں۔

    یہ الگ بات ہے کہ اس تبدیلی میں بھی انگریزوں ہی کا ہاتھ تھا لیکن انگریز نہ بھی آتے جب بھی ہماری سماجی زندگی کا نقشہ بدلنا ضروری تھا۔ سماج کی ترقی تو ایک داخلی فعل ہے، ایک بیرونی طاقت صرف آگے پیچھے ڈال سکتی ہے او ربس۔ تو جیسے میں کہہ رہا تھا انگریز نہ بھی آتے جب بھی درباروں کا مٹنا اور بازاروں کا کھلنا لازمی تھا البتہ اس عمل کا وقت ممکن ہے کچھ آگے پیچھے ہوجاتا۔ بہرحال اس بحث میں الجھنے کی ضرورت نہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ دربار مٹے اور بازار کھلے۔ جس دُھرے کے گرد سماجی زندگی کا پہیہ گھومتا تھا وہ دُھرے ٹوٹ لیے۔ شاعری میں بھی انقلاب آیا۔ شاعر بچارا تو بساطی ہے، گاہک کا مزاج دیکھتا ہے، جیسے گاہک ہوں ویسا مال پیش کرتا ہے۔ جان بوجھ کر نہیں مجبوراً۔ پرانی منڈی بدلتی ہے تو پرانے مال کا کچا مصالحہ بھی ختم ہوجاتا ہے۔ شاعری کا کچا مصالحہ تو آپ جانتے ہی ہیں۔ یہی تجربات، جذبات، خیالات، جب پرانا مال بنانے کے لیے ضروری مصالحہ ہی نہ ہو تو شاعر کے لیے دو ہی باتیں رہ جاتی ہیں۔ یا یہ کہ جھوٹے مصالحہ سے جھوٹا جاپانی قسم کا مال تیار کرے جو عین مین اصلی پرانے مال کی طرح نظر آئے۔ یا پھر نئے مصالحہ سے نیا اور اصلی مال تیار کرے۔ ہر دور میں عام طور سے اصلی اور جاپانی دونوں طرح کے شاعر موجود ہوتے ہیں۔ جاپانی شاعروں سے تو ہمیں بحث ہے نہیں ہمیں تو صرف یہ دیکھنا ہے کہ اصلی شاعروں نے اپنے تخلیقی نسخوں میں کیا تبدیلیاں کیں۔ ہمیں ان نئے شاعروں کو پورے کلام سے غرض نہیں صرف اس کلام کے ایک حصہ سے واسطہ ہے۔ یعنی علامات۔

    علامات سے ہم ایسے استعارے مراد لیتے ہیں، جنہیں شاعر اپنے بنیادی تصورات کے لیے استعمال کرتا ہے۔ جس طرح ہم کسی ایک لفظ کو اصطلاح قرار دے کر اس کے خاص معنی مقرر کرلیتے ہیں خواہ اس کا لغوی مفہوم کچھ ہی کیوں نہ ہو۔ اس طرح شاعر اپنے تجربات کے اظہار میں بعض الفاظ کو اصطلاحات قرار دے لیتا ہے۔

    شاعر اور اس کے سننے والوں میں ایک مفاہمت سی ہوجاتی ہے کہ جب شاعر سفاک کہے تو اس کی مراد چنگیز خاں سے نہیں اپنے محبوب سے ہے۔ پرانی شاعری کی علامات تو آپ جاتنے ہیں۔ رقیب، دربان، حاجب، قاتل، جلاد، موئے کمر، تیر نظر، گل و بلبل، ساقی و پیمانہ، شمع و پروانہ قیس و لیلیٰ، فرہاد و شیریں وغیرہ وغیرہ۔

    ان میں ایک بات تو یہ تھی کہ عام شاعر انہیں علامات کے بجائے مستقل مضامین سمجھنے لگ گئے تھے۔ مثلاً شمع و پروانہ یا بلبل و صیاد اپنی اپنی جگہ مستقل مضامین تھے۔ ان کا ذکر کرتے وقت یہ ضروری نہیں تھا کہ شاعر کے ذہن میں ان کا کوئی بدل بھی موجود ہو۔ یوں کہہ لیجیے کہ علامات اظہار کا ذریعہ نہیں، اظہار کا مقصود بن چکی تھیں۔ آپ جانتے ہیں ادب ریاضی نہیں ہے۔ اس میں کوئی کلیہ قاعدہ صحیح نہیں ہوا کرتا۔ ہر قاعدے کو مستثنیات مل جاتی ہیں۔ تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ پرانی شاعری کی علامات عام طور سے مقصود بالذات ہوتی تھیں۔ یہ صحیح ہے کہ نادانستہ طور پر ان میں شاعر کے ماحول اور کبھی کبھی اس کے ذاتی تجربات کی جھلک دکھائی دے جاتی۔ لیکن یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ شاعر کے اپنے ذہن میں ان کے اواخرہ مفہوم کے علاوہ کوئی اور مضمون ہوتاتھا یا نہیں۔ موجودہ شاعری میں عام طور سے یہ بات نہیں ہے۔ جب نیا شاعر کوئی علامت پیش کرے خواہ وہ علامت پرانی ہی کیوں نہ ہو تو اس کے ذہن میں ایک کم و بیش واضح بدل موجود ہوتا ہے۔ مثلاً جب اقبال کہتے ہیں کہ،

    خرید سکتے ہیں دنیا میں عشرتِ پرویز

    خدا کی دین ہے سرمایہ غم فرہاد

    یا

    طریق کو ہکن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی

    یا

    بے خطر کود پرا، آتشِ نمرود میں عشق

    عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی

    تو صاف دکھائی دیتا ہے کہ پرویز، فرہاد، کوہکن، آتشِ نمرود بجائے خود مقصود نہیں ہیں۔ شاعر کے چند ذاتی تصورات کی ترجمانی کر رہے ہیں۔ یہ پہلی بات ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ پرانی علامات بہت بندھی ہوئی تھیں۔ شاعر اپنے مخصوص تجربات کے لیے نئی علامات گھڑنے کے بجائے یہی سکہ بند علامات استعمال کرتا تھا۔ اس کا بڑا فائدہ یہ تھا کہ پڑھنے یا سننے والوں کے لیے شعر کا مفہوم سمجھنا آسان ہوتا تھا۔ کسی کو یہ ضرورت محسوس نہیں ہوتی تھی کہ شاعر کادیوان چھونے سے پہلے شاعر کے دماغ کا (Analysis) کرے۔ چنانچہ جب میرزا مظہر جان جانان کہتے ؎

    خدا کے واسطے اس کو نہ ٹوکو

    یہی اک شہر میں قاتل رہا ہے

    تو کسی کو اس خیال سے تشویش نہیں ہوتی تھی کہ شہر میں کوئی جگادری مجرم آن گھسا ہے۔ سب جانتے تھے کہ بات کیا ہو رہی ہے۔ لیکن موجودہ شاعروں کی علامات دن بدن ذاتی اور داخلی ہوتی جارہی ہیں۔ ایک مبالغہ آمیز مثال میراجی صاحب کاایک مصرعہ ہے جو افسوس ہے مجھے ٹھیک یاد نہیں۔ کچھ ایسا ہے۔

    چل بڑا آیا کہیں کا کالا کلوٹا کوا

    قصہ یہ ہے کہ شاعر کی محبوبہ سو رہی ہے۔ سونے میں کاجل رخسار تک بہہ آیا ہے اور اس ڈھلکے ہوئے کاجل کی صورت کچھ کوے کی سی ہوگئی ہے۔ چنانچہ شاعر نے کوے سے یہ کاجل مراد لیا ہے۔ ظاہر ہے اتنی دور کی کوری لانا ہر پڑھنے والے کے بس کا روگ نہیں۔ بہرحال ابھی اس بات کو طول دینے کی ضرورت نہیں۔ پہلے ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ پرانے شعراء کی علامات کیا تھیں اور موجودہ شعراء نے ان میں کیا ترمیم کی ہے۔ پرانے شعراء کی علامات میں گنوا چکا ہوں۔ موجودہ شعراء نے ان میں سے بعض کو ترک کردیا ہے۔ بعض کو نئے معنی پہنادیے ہیں۔ اور بعض بالکل نئی علامات ان پہ اضافہ کی ہیں۔ جن علامات کا خالص دربار ی زندگی سے تعلق تھا لیٹتی جارہی ہیں۔ مثلاً رقیبوں کے جوڑ توڑ، حاسدوں کی ریشہ دوانیاں، حاجبوں اور دربانوں کی فرعونیت، محبوب محبوبہ بن چکی ہے یا بن چکا ہے جو بھی صحیح ہو، اس لیے اس کے اسلحہ خانے بھی ہتھیاروں سے خالی ہوچکے ہیں۔

    سنان و خنجر، شمشیر و سنان، تیر اور کمند، وغیرہ وغیرہ زیادہ دیکھنے میں نہیں آتے۔ عاشقی کی دنیا میں (disarmament) ہوچکی ہے۔ اب خوش اور دوسرے انقلابی شاعروں میں شمشیر و سنان لوٹ آئے ہیں لیکن ان کی شمشیر و سنان کا مفہوم اور ماحول دوسرا ہے۔ واعظ اور محتسب بھی برطرف ہوچکے ہیں۔ صرف جوشؔ ملیح آبادی نے ایک شیخ جی کو تیراندازی کی مشق کے لیے ملازم رکھ چھوڑا ہے۔ اقبالؔ کا ملا بالکل دوسری چیز ہے۔ وہ ایک مزاحیہ کردار نہیں جس کی جھوٹی پرہیزگاری پہ پھبتی کہی جاتی ہے۔ ایک سماجی ادارہ ہے جس سے اقبال کو نہایت سنجیدہ اختلافات ہیں ؎

    قوم کیا چیز ہے قوموں کی امامت کیا ہے؟

    اس کو کیا جانیں یہ بیچارے دو رکعت کے امام

    علامات کے نئے مفہوم اور نئی علامات کاارتقا ہماری گزشتہ چالیس پچاس برس کی سماجی زندگی کے مطابق ہوا ہے۔ اس عرصہ میں جو دور ہمارے سماجی تخیل پر گزرے ہیں انہیں کا رنگ مختلف شعراء کے کلام پر نظر آتا ہے۔ حالیؔ کے زمانے میں قوم کا دکھ سب مضامین پہ بھاری تھا۔ چنانچہ قوم شاعر کی محبوب ٹھہری۔ درد کے معنی دردِدل کے بجائے قوم کا درد سمجھا جانے لگا۔ صاحب دل سے صوفی یا ولی اللہ کے بجائے دل کھول کر چندہ دینے والے مراد لیے جانے لگے۔ ذلت توقیر کے معنی محبوب کے دربارمیں رسائی یا نارسائی کے بجائے اقتصادی خوشحالی یا بدحالی مقرر ہوئے۔ حالیؔ کو قوم کی عزت سے زیادہ دلچسپی تھی۔ اکبر کو قوم کی معاشرت سے۔ چنانچہ اکبر نے مغرب کے معاشرتی اداروں کے لیے علامات وضع کیں۔ مس، صاحب، ہوٹل وغیرہ وغیرہ۔ ان میں کسی کے معنی ہیں بے دینی اور بے حیائی۔ کسی سے بے مروتی اور نخوت مراد ہے۔ کسی کے معنی گھریلو زندگی سے رکھائی اور بے تعلقی کے ہیں۔

    قومی دور کے فوراً بعد ملک اور شاعری پر وطنی دور آیا۔ بلبل، صیاد، قفس، گلستاں، بہار، خزاں، ان سب استعاروں میں نئے معانی پیدا ہوگئے۔ قاتل اور سرفروش زندان اور دار و رسن ان سب میں نئے سرے سے جان آگئی۔ صوفیانہ اور عاشقانہ علامات یکسر سیاسی ہو گئیں۔ اس دور میں اقبال کی شاعری پروان چڑھی۔ اقبال کا میدان وسیع بھی تھا اور اس کا بہت سا حصہ مشرقی شاعری کے لیے اجنبی بھی۔ لیکن انہوں نے نئی علامات وضع کرنے کے بجائے پرانی علامات میں نئی روح پھونکنا زیادہ مناسب تصور کیا۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں ا ن کی مرکزی علامت عشق ہے جس سے جنسیاتی کشش نہیں، ایک ایسا خداداد اور اضطراری جذبہ مراد لیتے ہیں جو انسان کو سماجی اور اخلاقی ارتقا کے لیے بے قرار رکھتا ہے۔ اپنی باقی اخلاقی اور سماجی تصورات کی وضاحت کے لیے وہ ایک ہی لفظ کو مختلف جگہ مختلف مفہوم میں ادا کرتے ہیں۔ مثلاً پرویز اور فرہاد سیاسی میدان میں سرمایہ دار اور مزدور کے مترادف ہیں اور اخلاقی میدان میں ریت پرستی اور بے لوث اصول پرستی یعنی (Idealism) کے ترجمان، مئے خانہ سیاسی معنوں میں دولت والوں کی محفل کے اور اخلاقی معنوں میں صاحب دل لوگوں کی مجلس، بلبل عام طور سے شاعر ہے اور پروانہ اقبالیاتی عشق کا نمائندہ۔ بہرحال اقبالؔ کو کسی تحریک کی چاردیواری میں بند نہیں کیاجاسکتا۔ ان کا ایک قدم پرانے وطن پرستوں میں ہے اور دوسرا موجودہ ترقی پسندوں میں۔ قوم اور وطن کے بعد انقلاب اور مزدورسرمایہ کا جو دور آیا اس کی پہلی جھلک بھی انہی کے ہاں دکھائی دیتی ہے۔ لیکن اقبال کے کلام میں انقلاب اور مزدور سرمایہ کی حیثیت ضمنی اور ثانوی ہے۔ جوش اور بعض ترقی پسند شعراء کے کلام میں بنیادی۔

    اب ہم بالکل آجکل کے دور میں پہنچ گئے ہیں۔ قومیت اور وطنیت پرستی کے اور ہماری شاعری میں دو نئی شاخیں پھوٹیں، ایک نئی قسم کی غنائی شاعری پیدا ہوئی۔ سب سے پہلے حسرتؔ اور اس کے بعد اختر شیرانی، حفیظ جالندھری، جوش، جگر اور کئی ایک دوسرے شعراء نے حسن و عشق کو محض مضمون شعر کے طور سے نہیں ذاتی تجربہ کے رنگ میں بیان کرنا شروع کیا۔ کئی ایک پرانے استعاروں میں نئے سرے سے جان آگئی۔ کئی ایک نئی علامات پیدا ہوئیں۔ پسِ پردہ، لبِ بام، شب ماہ، حسن کتابی رسمی معنوں میں نہیں لغوی معنوں میں استعمال ہونے لگے۔ معشوق ہزار شیوہ، حسن پاکباز ہوگیا۔ موئے کمر اور تیرِنظر کے موہوم تصورات کی جگہ ہجوم ریشم و کم خواب اور پیراہن اس کا سادہ رنگین قسم کے محسوسات یا عکس مے سے شیشہ گلابی نے لے لی۔ عاشقی میں وہ غمی، درد و کرب کے بجائے جسمانی لطف و لذت کا ذکر ہونے لگا۔ اختر شیرانی نے سلمیٰ کوموضوعِ شعر ٹھہرایا اور دیکھتے ہی دیکھتے نہ صرف بیسیوں سلمائیں پیدا ہوگئیں بلکہ عذرا، زہرہ، ریحانہ، شیریں اور اس نوع کے کئی نام رسالوں میں جگمگانے لگے۔ شراب و شعر، سرور و کیف، زرتار زرکار مختلف کیفیتوں اور مختلف چیزوں کے لیے اس طرح کی بہت سی رومانی علامات مروج ہوئیں۔

    ایک طرف یہ میٹھی لوریاں ہو رہی تھیں دوسری طرف انقلاب کی جنگھاڑیں بلند ہوئیں۔ جوش ملیح آبادی اور کئی ایک نوجوان شعراء نے موجودہ دور کے خلاف غم و غصہ کااظہار اور انقلاب کی آمد آمد کا اعلان شروع کیا۔ بادل، برق ورعد، آندھی، زلزلہ، خون یہ انقلاب کی علامات ٹھہریں۔ شمشیر وسنان، تیغ و تفنگ حسینوں کے ناز و ادا کے بجائے انقلاب کی بڑھتی ہوئی طاقتوں کے آلہ کار قرار پائے۔ ان دونوں تحریکوں میں ایک کمزوری تھی۔ وہ یہ کہ ایک نے عاشقی اور دوسری نے سیاسیات کے مسائل کو بہت ہی مفرد اور سلیس بنادیا تھا۔ جب آج کل کا نوجوان اپنے دل پہ یا اپنے ماحول پہ نظر ڈالتا ہے تو اسے دونوں جگہ طرح طرح کی الجھنیں طرح طرح کی گتھیاں نظر پڑتی ہیں، جن کے اظہار کے لیے محض تراجم اک ہجوم ریشم و کم خواب ہے۔ سلمیٰ یا انقلاب زندہ باد کہہ دینا کافی نہیں۔ اگر وہ عاشقی کرتا ہے تو اسے صرف محبوبہ کے حسن اور اپنی بے قراری کااحساس نہیں ہوتا۔ غم روزگار، گناہ کا خوف جسم کی تشنگی، روح کی تنہائی، اپنی بے بضاعتی کا احساس اور اس کی کئی طرح کی باتیں اس میں شامل ہوتی ہیں۔ سماج اور انقلاب پر غور کرتاہے تو یہ بھی کچھ ایسی سیدھی بات معلوم نہیں ہوتی۔ اس کے اپنے طبقے کا مستقبل مختلف سماجی قوتوں کے باہمی داؤپیچ، بین الاقوامی مہرہ بازی اور کئی ایک ایسے الجھاؤ دکھائی دیتے ہیں۔

    چنانچہ شعراء کی نئی پود ان پیچ در پیچ الجھنوں کو شعرمیں ڈھالنے کے لیے بالکل نئی علامات کی فکر میں ہے۔ ان میں سے بعض کی علامات اتنی داخلی ہوگئی ہیں کہ سوائے ان کے دوسروں کی سمجھ ہی میں نہیں آتیں۔ اس کی ایک مثال میں نے شروع میں عرض کی تھی۔ لیکن لکھنے والے اور پڑھنے والے کے تجربات میں کوئی بات ضرور مشترک ہونی چاہیے۔ ورنہ ظاہر ہے کہ شعر کا پہلا مقصد یعنی ترجمانی (Communication) فوت ہوجائے گا۔ یہ جبھی ہوسکتا ہے کہ شاعر کی علامات ایسی دوراز کار نہ ہوں کہ پڑھنے والا انہیں کسی تجربہ یا تصور سے متعلق ہی نہ کرسکے۔

    چنانچہ بعض شعراء نے ایک درمیانی راستہ اختیار کیا ہے۔ یعنی ان کی علامات داخلی اور تمثیلی ضرور ہیں لیکن بعید ازقیاس بھی نہیں۔ ان میں راشدؔ غالباً سب سے زیادہ کامیاب ہے۔ تیسرے گروہ میں وہ شعراء ہیں جو اپنے کو ترقی پسند کہتے ہیں۔ ان میں مجاز، مخدوم، جعفری وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔ یہ لوگ شاعری کو عام فہم اور سلیس بنانا چاہتے۔ اس لیے اول تو ان کے ہاں علامات کی زیادہ بھرمار نہیں اور جو علامات ہیں روز مرہ کے قریب ہیں۔

    اخیر میں موجودہ دور کی اس نئی شاعری کا میں صرف ایک نمونہ پیش کرناچاہتا ہوں۔ ن۔ م۔ راشد کی نظم ہے جس میں مسجد کے مینار کو عالی ہمتی اور بلند خیالی کی علامت قرار دیا گیا ہے۔

    جاگ اے شمع شبستان وصال

    محفل خواب کے اس فرش طرب ناک سے جاگ!

    لذتِ شب سے تراجسم ابھی چور سہی

    آمری جان مرے پاس دریچے کے قریب

    دیکھ کس پیار سے انوارِ سحر چومتے ہیں

    مسجد شہر کے میناروں کو

    جن کی رفعت سے مجھے

    اپنی برسوں کی تمنا کاخیال آتا ہے

    مأخذ:

    Saqi,Jild-26,Number-4,Ocr-1942 (Pg. 39)

      • ناشر: شاہد احمد دہلوی
      • سن اشاعت: 1942

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے