Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

جدید آرٹ کی ایک سرحد : کافکا

قمر جمیل

جدید آرٹ کی ایک سرحد : کافکا

قمر جمیل

MORE BYقمر جمیل

    یہاں سے ہم آپ کو کا فکا کے ایک ناول کے ایک منظر کی طرف لئے چلتے ہیں ۔

    سامنے ایک باب قانون ہے

    اور یہاں ایک در بان ایستادہ ہے

    کہیں سے ایک گنوار اس در بان کے پاس آتا ہے اور قانون کے دروازےسے داخل ہونے کی اجازت مانگتا ہے۔ دربان اسے یہ اجازت نہیں دیتا

    وہ پوچھتاہے

    کیا کچھ دیر بعد میں اندر جاسکوں گا۔

    ہاں مگر ابھی نہیں ۔۔۔۔۔

    قانون کا دروازہ کھلا رہتا ہے گنوار اس دروازے میں سے اندر جھانکتا ہے۔دربان ہنستاہے۔

    اگر تمہیں اندر جانے کی اتنی ہی شدید خواہش ہے تو تم میری اجازت کے بغیر اندر کیوں نہیں چلے جاتے ہاں مگریاد رہے کہ میں بہت طاقتور ہوں ہر چند کہ یہاں کا سب سے چھوٹا در بان ہوں ایک ایوان سے دوسرے ایوان تک ہردروازے پر دربان ہیں ان میں سے ہر ایک دوسرے سےزیادہ طاقتور ہے تیسرے در بان کا چہرا تو اتنا دہشت ناک ہے کہ میں بھی اسے دیکھنے کی ہمت نہیں رکھتا۔

    گنوار اس لانبے لبادے مں لمبی ناک اور تاتاری داڑھی والے دربان کودیکھتا ہے تو یہ فصلہ کر لتا ہے کہ وہ اس در بان کی اجازت کے بغرر اندر نہں جائے گا۔ یہ گنوار جو بہت تاکریاں کر کے گھر سے نکلا تھا ایک ایک کر کے اپنی ہر چزھ در بان کو رشوت مںے دے دیتا ہے دربان اسے یہ بتاتا رہتا ہے کہ وہ یہ چزئیں اس لےد قبول کر رہا ہے کہ اسے یہ احساس نہ ہو کہ اس نے کوئی کام نامکمل چھوڑ دیا ہے آہستہ آہستہ وہ سارے در بانوں کو بھول جاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ بس یید ایک دربان اس کے اور باب قانون کے درمارن حائل ہے۔

    وقت گزرتا جاتا ہے گنوار کا بوڑھاپا بڑھنے لگتا ہے یہاں تک کہ اس کی آنکھںد دھندلا جاتی ہں اور وہ یہ نہںش طے کر پاتاکہ واقعی اس کی آنکھں دھندلا

    رہی ہںد یا اس کے اطراف کی دناو ہی وھندلی ہوتی جارہی ہے لکنر اس اندھرہےمں بھی اسے وہ روشنی ضرور نظر آئی ہے جو قانون کے دروازے سے نکل رہی ہے۔ اب اس کی زندگی اپنی آخری منزلوں مںن آ گئی ہے۔ اس کی زندگی مں جتنے بھی تجربات ہوئے ہںر وہ اس کے ذہن مںر ایک سوال کی صورت مںس ابھر رہے ہںو ایک ایسے سوال کی صورت مںس جو اس نے دربان سے اب تک نہں کان۔ چونکہ اب وہ اپنے سخت ہوتے ہوئے جسم کو حرکت بھی نہں دےسکتا دربان کو اشارہ کر دیتا ہے دربان جھک کر اس کی بات سنتا ہے پھر اس سےکہتا ہے آخر تم کای جاننے کے لےس بتارب ہو تمھارے تجسس کی پاںس بجھتی ہی نہںا۔ دیہاتی کہتا ہے کہ آخر یہ کان بات ہے کہ مرکے علاوہ کوئی اور شخص اسباب قانون کے پاس نظر نہںت آتا جب کہ مں یہ جانتا ہوں کہ ہر شخص قانون کے دروازے مں داخل ہونا چاہتا ہے۔

    تمھارے علاوہ کسی اور شخص کو اس دروازے سے داخل ہونے کی اجازت نہںن تھی کونں کہ یہ دروازہ صرف تمہارے لےی بنوایا گان تھا اب مںھ اس دروازے کو ہمشہس کے لےو بند کر رہا ہوں ۔

    اب ہم آپ کو کافکاکےفکشن کے ایک دوسرے باب کی طرف لیے چلتےہںی۔ باکن کرنے والوں نے با ن کال ہے کہ شہنشاہ نے ہمںے ایک پغاجم بھیجا ہے ہمیں جو ہم اس کی حقیر رعایا ہں ۔ ہم ایک غرے اہم سا سایہ ہںت جو اس آفتاب شہنشاہتص کے آخری فصلے پر دبک کے بٹھں گئے ہںل شہنشاہ نے بستر مرگ سے یہ پغارم ہمارے نام بھجاو ہے۔ شہنشاہ نے قاصد کو حکم دیا ہے کہ قاصد شہنشاہ کے پاس سے جھک کر اس کا پغاام سنے۔

    شہنشاہ نے سرگوشی کے لہجہ مںا قاصد کو اپنا پغاام سنایا اور اس پغابم کواتنا اہم جانا کہ قاصد سے کہا کہ وہ اس پغاہم کو حرف بہ حرف اس کے کان مںا سنائے۔ تب شہنشاہ نے اسے سن کر سر ہلایا اور کہا ہاں پغا م صحیح ہے۔

    شہنشاہ کی موت کے ان تمام دیکھنے والوں کے لے جو شہنشاہ کے بسترمرگ پر جمع تھے راستہ روکنے والی تمام دیواروں کو توڑ دیا گاا تھا اور اس کے اطراف مملکت کے سارے شہزادے ایک دائرے کی صورت مںے جمع تھے ان کے سامنےشہنشاہ نے قاصد کو یہ پغاام دیا تھا اور وہ قاصد پغاےم لے کر فوراً اپنے سفر پر روانہ

    ہوا تھا لکن سفر طویل تھا راستے میںہجوم کو ہٹانا مشکل تھا۔ انسان لا تعداد تھے اگرراستہ صاف ہوتا تو وہ ہوا مںھ اڑگر جاتا اور ہمارے دروازوں پر دستک دیتا لکنا اب وہ لوگوں کے درماغن اپنا راستہ بناتے بناتے تھک گیاہے وہ اب تک اندرونی محل کے کمروں سے باہر نہںر نکل سکا ہے اگر وہ باہر نکل گاا تب بھی ایک محل اورآجائے گا۔ ہزاروں برس کے بعد قاصد اگر اس دروازے سے مجمع کو کاٹ کر آگےنکل بھی گاا تو یہ ایک خواب ہو گا جو کبھی شرمندہ تعبرا نہں ہو سکتا کو۔ں کہ آخر تک کوئی پہنچ ہی نہںو سکتاخاص طور پر وہ قاصد کسےر پہنچے گا جو ایک مردے کاپغاگم لے کر جارہا ہو۔

    کافکا کو بعض لوگوں نے مذہبی مصنف قرار دیا ہے اور بعض نے یہ کہاہے کہ وہ مذہب سے مایوس ہو چکا تھا یہاں تک کہ ایمان کو ناممکن سمجھتا تھا اورزندگی کو مہمل اس کے باوجود اس کی تحریروں مںا بنا دی سچائاذں موجود ہںس اورییا نہںک اس کی تحریروں کی ہزاروں تعبرایں ممکن ہںم۔ اس کی حد سے بڑھی ہوئی انفرادیت نے اسے معاشرے مںی اجنبی بنادیا تھا۔

    کافکا کی نظر مںم بدباری سے زیادہ خواب حققتز کا انکشاف کرتے ہںذ۔کافکا کے لےو خواب ہی سب سے بڑی حققتی تھے چنانچہ ایک دن جب مکسب براڈ کا باپ سو رہا تھا تو وہ کافکا کے قدموں کی چاپ سے جاگ پڑا۔ کانکا نے اس سے کہا جناب آپ مجھے بھی اپنے خواب ہی کا ایک حصہ سمجھیے یہ کافکا کی سریلزم

    تھی وہ سمجھتا تھا کہ خواب بھی انسان کے وجدان کا اظہار کر تے ہںا۔ یہ خواب فرائڈ کے خوابوں کی طرح حققت کو چھپاتے نہںد بلکہ حققتا کا اظہار کرتے ہںی۔

    کافکا کے نزدیک سچائادں دو قسم کی ہوتی ہںڑ ایک شجرعلم کی طرح دوسری شجر حارت کی مانند ۔ شجر علم کا پھل کھانے سے انسان پر خری و شر کی تمیز کےدروازے کھل جاتے ہںا لکن شجرحاتت سرا پا خیرہے،شجر علم معاشرے سے ملتاہے شجرحاات و جدان سے حاصل کر نا پڑتا ہے خرر وشر کی تمزکلمحاتی ہوتی ہے اور

    زندگی ابدی۔ اس لے شجرحا ت کے سامنے شجر علم کی روشنی ماند پڑ جاتی ہے۔

    کافکا کا تخلد تحللہ نفسی کے ماہروں کی طرح نفساستی جزئیات مںم چلا جاتاہے اس لےج نہںک کہ کافکا نے فرائڈ کامطالعہ کا تھا بلکہ اس لےح کہ وہ وجدانی طورپر جانتا تھا اس تقسمں کو جو اس کی ذات کے غرم مسلمہ حصہ اور اس کی ذات کےپبلک حصےکے درماین موجود ہے اس کہانی مںر یعنی’ فصلہ مںی جو ایک باپ

    کے فصلے کی کہانی ہے صرف لسانی باتںر ہی نہںک کہی گئی ہںا بلکہ اس کہانی مںب گہری حقیقتیں بھی چھپی ہوئی ہںو۔ سوال یہ ہے کہ اس کہانی مںگ صرف ایک باپ ہے یا کوئی ایی شخصتی ہے جو خدا کی علامت ہے یینت جو بٹےی کوزندگی بھی دے سکتا ہے اور اس سے زندگی چھین بھی سکتا ہے۔

    یہ کافکا کی پیلن اہم کہانی ہے اس کہانی کی کئی تعبرعیں ممکن ہںا۔مذہبی اور مابعد الطبیعاتی تصورات بھی ضروری ہںی اور اس کہانی کے کئی اجزاءمضحکہ خز اور مہمل بھی ہیں کافکا کا کا خایل ہے کہ اس کی ہر کہانی مںی ایک ایی سچائی موجود ہے جسے پڑھنے والا خود دریافت کرتا ہے ۔ اس کہانی مں باپ اور بٹےاکے درما ن جو تعلق ہے وہ محبت اور نفرت مںخ لپٹا ہوا ہے۔ اظہاریت پسند ادیب معاشرے کے تجارتی اور مادی رویے کے خلاف احتجاج کررہے تھے اور یہ بتانا چاہتے تھے کہ ادیبوں کی نئی نسل ایک نئی روحا نتک مںت

    ینے رکھتی ہے ۔

    کہانی کا آغاز اس طرح ہوتا ہے کہ ایک نوجوان تاجر جولرج Georgeاپنے دوست کو اپنی نسبت طےہونے کے بارے مںچ اطلاع دیتا ہے۔ جوترج کاباپ اس سے ناراض ہے اور اس کی ہر بات مںی برے معنی پہنا دیتا ہے کوبں کہ اسے یہ شک ہے کہ اس کا بٹاا George اس کا جانشنا بننا چاہتا ہے۔ وہ غصہ مں پلنگ پر کھڑا ہو جاتا ہے اور اپنا ایک ہاتھ چھت سے لگا دیتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے سب کچھ معلوم ہے مںک یہ شادی پسند نہںا کرتا وہ کہتا ہے کہ بٹےہ دریامںا ڈوب کر مر جانا چاہیے۔

    یہ سن کر جوٹرج سڑرھوبں سے تزنی سے دوڑ کر نچےے اترتا ہے پہلے دریاکے پل پر دوڑنے لگتا ہے اور پھر دریا مں چھلانگ لگادیتا ہے یہ چلاتے ہوئے کہ وہ ہمشہر اپنے والدین سے محبت کرتا رہا ہے۔

    اس کہانی مںج بھی کافکا کا آرٹ اپنے بھر پور انداز مںو نظر آتا ہے پہلی بات تو یہ کہ اس کا آرٹ اس نوعت کا ہے کہ اس مں۔ سچائی ادب پر حاوی ہوتی ہوئی دکھائی دیین ہے اس کے علاوہ دوسری بات یہ ہے کہ کافکا کے یہاں زبان شعور اور وجود کے درما ن یینب سوچ اور حققت کے درما ن ایک پل بن جاتی ہے

    یہ محسوس ہوتا ہے جسےں معانی اپنی آخری انتہا تک پہنچنا چاہتے ہںک۔

    کافکا کا خا ل ہے کہ ہم زوال آدم کا ماتم اس لےی نہں کر تےکہ ہم اس زوال کی وجہ سے جنت سے نکالے گئے ہںت بلکہ اس لےس ماتم کرتے ہںل کہ ہم جنت سے اس لےا نکالے گئے ہں کہ ہم کہں جنت مںت شجرحاہت نہ چکھ لیں۔

    اس کہانی کا ہیرو George اس لے گنہگار ہے کہ وہ زندہ رہنے سے انکارکر دیتا ہے اسی خاول کا اظہار کافکانے ایک اور جگہ بھی کاا ہے کہ ہم اس لےتگنہگارنہںس ہںو کہ ہم نے شجر علم کا پھل چکھ لاہ ہے بلکہ اس لےا کہ گنہگار ہںل کہ شجر حاچت کا پھل ہم نے نہںک چکھا کافکاکی طرح کاموا اور سارتر بھی عزلت گزییہ اور زندگی کی مہملیت کے احساس سے دو چار تھے۔

    ہمارے عہد کے اور دوسرے عظمگ فنکاروں کی طرح اس کی تلاش کا رخ بھی اپنے باطن ہی کی طرف تھا وہ پراگ مںل رہتے ہوئے اپنے عہد کے تمام سااسی واقعات سے بظاہر بے خبر معلوم ہوتا ہے ہنگری تباہ ہوا چکوت سلواکہے کی نئی ملکت سامنے آئی لکنپ بظاہر اس نے ان واقعات پر کوئی توجہ نہںا دی۔اب ذرا کافکا کا ماحول اور اس کی ذہنی فضا بھی ملاحظہ کیجیے۔نطشے کی انفرادیت پسندی نے اسے بہت متاثر کاہ تھا لکنئ وہ نطشےکی Will to power بہت کم رکھتا تھا اسے اپنی ناکاموہں کا احساس بہت زیادہ بڑھ گاش تھا وہ نطشے کی طرح بورژواقدروں اور عقلتی پرستی کا دشمن تھا یہ وہ زمانہ ہے جب پراگ مں فن برائے فن اور نورومانویت کا بڑا چرپا تھا رومانی تخلے کا بڑا جوش و خروش تھا اسی کے ساتھے اظہایت Expressionism کا آغاز بھی ہو چکا تھا اور ر لکے کی شاعری پروان چڑھ رہی تھی۔ کافکاکو ایسے مصنف پسند تھے جن کے یہاں نوجوانی اور معصومتp دونوں ملتے ہے مثلا وہ ہرمن ہیس کو بہت پسند کرتا تھا۔وہ ایسے اور ادیبوں اور فنکاروں مں دلچسپی رکھتا تھا جو اسی کی طرح معاشرے سےکٹے ہوئے ہوں اور زندگی کے دکھ سہہ رہے ہوں، اس کا خاال تھا کہ دکھ ہی انسانی وجود کی بنا د ہں اور یہ کہ دانشمندی کے حصول کا واحد راستہ بھی ہی دار ہں ۔

    Metamorphosis اس کی مشہور کہانی ہے اس کہانی کے مرکزی کردار گریگر سمسا کی ایک روز آنکھ کھلتی ہے تو وہ دیکھتا ہے کہ وہ اپنے بستر پر ایک بہت بڑا کاکروچ بن چکا ہے۔کافکاکے پہلےجملے ہی سے پتہ چل جاتا ہے کہ بچاارے گر یرر سمسا کی موت واقع ہو جائے گی چنانچہ یہ ساری کہانی موت کے آہستہ

    آہستہ وقوع پذیر ہونے کی داستان ہے اس نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو یہ کہانی طالسطائے کی کہانی ایون ابلیچ کی موت کی کہانی سے بہت ملتی جلتی ہے۔طالسطائے کی کہانی موت کے بارے مںس ہے اورکافکا کی کہانی کا تعلق زندگی مںئ موت سے ہے۔

    کافکا کے اس مرکزی کردار گریگر سمسا کا یہ حال ہے کہ وہ اپنی زندگی اورموت کے خلاف لڑتا ہے لکنن اس کی زندگی ہی اس کی موت ہے۔ جب وہ موت کے قریب ہوتا ہے اور اپنی بہن کو وائلن بجاتے ہوئے سنتا ہے تو وہ یہ محسوس کرتا ہے جسےت وہ کسی روحانی غذا کی طرف بڑھ رہا ہے۔ گریگرسمسا موسیکے کےذریعے ایین دناہ مںھ پہنچنا چاہتا ہے جہاں اس کی روح اور دنام ایک ہو جائے لکن وہ اس منزل تک پہنچے کسےس ؟ کویں کہ کو کا ایک جگہ کہتا ہے کہ مقصد تو ہوتا ہےراستہ نہں ہوتا راستہ تو بس پاؤں کے ڈگمگانے کا نام ہے۔

    کافکا ایک پااسا اور بھو کا فنکار ہے ایک سچابھو کا فنکار کو ں کہ دنا اس کی روحانتن کی تسکنا نہںے کر سکتی۔ اس بھو کے فنکار سے سرکس کے ایک اوور سرف Over Seer کا مکالمہ سنے ۔

    ’’ اوور سیرنے کہا تم کمال کرتے ہوفنکار سرکس کے اوور سراکے کانوں کا بوسہ لتےا ہوئے بولا: مں اس لےس فاقے کر رہاہوں کہ جو غذا مجھے چاہیے وہ مجھے نہں ملی اگر مجھے وہ غذا مل جاتی تو مںے بھی آپ لوگوں کی طرح کھا نا ضرور کھاتا۔

    RECITATIONS

    ظفر جمیل

    ظفر جمیل,

    ظفر جمیل

    جدید آرٹ کی ایک سرحد : کافکا ظفر جمیل

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے