Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

جنگ اور ادب

MORE BYاختر حسین رائے پوری

    (یہ مقالہ اختر صاحب نے ۲/مئی کو مرادآباد کی ایک ادبی مجلس میں زیرصدارت مولانا عبدالحق صاحب پڑھا۔ جو مسٹر ضیاء الاسلام پی سی ایس کے اہتمام سے منعقد ہوئی تھی)

    میں جو کچھ عرض کروں گا۔ اس کا تعلق اس کشمکش سے ہے جو اس وقت ہماری دنیا کو تہہ و بالا کر رہی ہے۔ اور جس کے فیصلہ پر انسانیت کے ساتھ ادب اور ادیبوں کی بقا یا فنا کاانحصار ہے، اگر یہ کوئی بدعت ہے تو مجھے معاف کیاجائے۔ لیکن جو سوالات اور شبہات مجھے بے چین کر رہے ہیں، ان کی نوعیت انفرادی نہیں، سماجی اور ادبی نقطۂ نظر سے ان کی اہمیت سراسر اجتماعی ہے۔ پھر کوئی وجہ نہیں کہ اس صحبت کو محض دادِسخن اور دادِتحقیق تک محدودرکھا جائے اور ایک ایسے مسئلہ پر غور نہ کیا جائے جس کے حل پر صرف زبان و ادب ہی نہیں بلکہ کلچر کے مستقبل کا دارومدار ہے۔

    موجودہ جنگ نے ادب کو جن مسائل کے سامنے لاکھڑا کیا ہے۔ انہیں سمجھنے کے لیے ہمیں کچھ پیچھے جانا ہوگا۔ جب پہلی جنگِ عظیم ختم ہوچکی۔ اور زخمی سامراجیوں نے اپنی مرہم پٹی کے ساتھ اگلی جنگ کی تیاری شروع کردی تو ادبی دنیا تین حصوں میں بٹ گئی۔

    ایک طرف تو یورپ اور امریکہ کے ادیب تھے۔ جن میں سے اکثر زمانہ جنگ میں ادب کے مقصد اور پیغام کو بھول کر اپنے انپے سامراجی حاکموں کو امن اورآزادی کے دیوتاسمجھ بیٹھے تھے۔ اور ان کے اشارہ پر عوام کو خون آشامی کی ترغیب دیتے رہے تھے۔ لیکن جب لڑائی ختم ہوگئی تو انہوں نے دیکھا کہ دنیا کی حالت پہلے سے بھی زیادہ خستہ و خراب ہوگئی ہے اور مغرب مایوسی و بیزاری و تلخی کے کہاسہ میں منہ لپیٹے پڑا ہے۔ دوسری طرف سویت روس کا ادیب تھا۔ اس کا دیس اس اندھیری دنیا میں تن تنہا ایک نئی جوت جگانے نکلا تھا۔ اس کی منزل نئی تھی اور وہاں تک پہنچنے کا راستہ بھی نیا تھا۔ اس ادبی تجربہ میں اس سے بڑی لغزشیں ہوئیں، لیکن وہ اپنی منزل کی طرف بڑھتا چلا گیا۔ کیونکہ خامیوں کے باوجود اس کا قلب درست تھا۔ یہ قلب دردِانسانی کے نور سے روشن تھا۔ اور دور دور کے گم کردہ راہ ادیب حیت سے اس روشن مینار کو دیکھ رہے تھے۔ تیسری طرف نوآبادیوں کا ادب تھا۔ جو عافیت، خلوت اور تفریح کے رنگ محل سے نکل کر ہندوستان چین اور عرب میں زندگی سے روشناس ہونے کی کوشش کر رہا تھا۔ مشرق کی یہ ادبی بیداری اس کی سیاسی بیداری کا پرتو تھی۔ اقبال کا مرد مومن ہو یا پریم چند کا ستیہ گرھی کسان اور نذرالاسلام کا باغی نوجوان۔ سب کی روح ایک رشتہ میں وابستہ تھی۔ اور یہ وہ رشتہ ہے جو انسان کو قومیت مذہب اور زبان کے اختلاف سے بالاتر کردیتا ہے۔ یہ خیال کی ہم آہنگی کا رشتہ ہے۔ جو تمام مصنوعی قیود کو توڑ کر ایک بہتر دنیا کے خواب دکھلاتا اور اس کے لیے جدوجہد کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔

    تھکے ہوئے سامراجی ملکوں اور جاگی ہوئی نوآبادیوں کے بیچ میں روس ایک نظامِ نو کی تخلیق کر رہا تھا۔ اور اس انقلاب کا اثر سیاست سے زیادہ دنیا کے خیال میں رچتا جاتا تھا۔ ہرذی ہوش دیکھ رہا تھا کہ بیسویں صدی نے لڑائیوں کا جو سلسلہ شروع کیا ہے۔ ابھی اس کی صرف پہلی قسط پوری ہوئی ہے اور دوسری کی تیاری زور شور سے جاری ہے۔ اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا۔ جب تک انسانیت یا تو اس نظام کو یکسر فنا نہ کردے۔ جو سامراج سرمایہ داری، عسکریت اور غلام فروشی پر قائم ہے۔ اور یا اس امر پر آمادہ نہ ہوجائے کہ صدیوں کی تگ و دو اور ارتقاء کے بعد اس نے انسان اور حیوان کے مابین جو تمدنی امتیاز قائم کیا ہے۔ وہ مٹ جائے اور آدمی دوبارہ عہد جہالت کا دوٹنگا جانور بن جائے۔ نئی زندگی اور خودکشی۔ ان دو کے سوا کوئی حل نہ تھا۔

    وجہ یہ تھی کہ سرمایہ داری میں باہمی تضاد کا جو عنصر موجود تھا وہ اپنی جگہ اٹل تھا۔ اور اس کا تقاضہ تھا کہ سرمایہ دار ممالک کی رقابت جاری رہے۔ اب ایک نیا پیچ یہ پڑگیا تھا کہ نوآبادیوں کی تحریک آزادی اور اشتراکی تحریک نے ان کے لیے عالمگیر انقلاب کا خطرہ پیدا کردیا تھا۔ دنیا کاکوئی ایسا حصہ نہ تھا جس میں رجعت کے پاسبان اور انقلاب کے علمبردار قومیت نہیں بلکہ طبقہ بندی کے اصول پر اس بین الاقوامی خانہ جنگی کے لیے کمربستہ نہ ہو رہے ہوں۔ جس کی چنگاریاں فضا میں اڑ رہی تھیں۔

    اپنے مسائل کے حل کا جو طریقہ سرمایہ داری نے ایجاد کیا۔ اس کا نام فاشیزم ہے۔ اطالیہ سے شروع ہوکر یہ خیال جرمنی جاپان اور دنیا کے بہت سے ملکوں میں پھیل گیا۔ اور اس کا اثر بہت دور رس ہوا۔ اس کا مفہوم یہ تھا کہ انقلاب روس اور انقلاب فرانس کے پھیلائے ہوئے خیالات کا نام صفحۂ ہستی سے مٹادینا چاہیے۔ انقلاب فرانس نے سیاسی جمہوریت اور انقلاب روس نے اقتصادی جمہوریت کی بنیاد رکھی تھی۔ فاشیزم اصولاً بین الاقوامیت لبرلزم ’’آزادیِ رائے‘’قومی و انفرادی آزادی۔ غرض کہ ان تمام قدروں کا مخالف ہے۔ جن کے خمیر سے ہمارے کلچر، آرٹ اور ادب کی تخلیق ہوئی ہے۔

    یہ بھی برحق ہے کہ فاسشٹوں نے بے دھڑک جو بات کہہ دی وہ مغربی سرمایہ داروں کے دل میں مدت سے چھپی ہوئی تھی۔ لیکن امریکہ، برطانیہ اور فرانس میں آزادی کا تخیل اتنا رچ چکا تھا کہ وہ اپنے گھروں میں اس اصول کو رائج نہ کرسکتے تھے۔ فاشیزم اس لحاظ سے زیادہ خطرناک تھا کہ وہ سرمایہ داری اور سامراجیت کو ایک فلسفہ اور ایک مذہب کا روپ دے رہا تھا۔

    اس فاسشٹ فلسفہ نے علم اور ادب کے ساتھ جو غضب ڈھایا۔ وہ ہم سب پر ظاہر ہے۔ دنیا کے تقریباً تمام بڑے ادیبوں کی کتابیں جرمنی میں ضبط ہیں۔ وہاں کے سب بڑے ادیب اور مفکر دوسرے ملکوں میں پناہ لے کر جان کی خیر منارہے ہیں۔ جاپانیوں نے چین کے جس علاقہ پر قبضہ کیا اس کی اعلیٰ تعلیم گاہوں کو برباد کردیا۔ اور پیکنگ کے قومی کتب خانہ کو جس میں بیس لاکھ سے زیادہ کتابیں تھیں آگ کے سپرد کردیا۔

    لہٰذا ہر وہ شخص جسے تمدن اور ادب کی حفاظت کا پاس ہے۔ اس تحریک کامخالف ہوگا۔ بہ ایں ہمہ یہ بھی نہ بھولنا چاہیے کہ فاشیزم سامراجیت کی ہی مہیب شکل ہے اور یہ ضروری نہیں کہ ہٹلر یا مسولینی کے ساتھ فنا ہوجائے کوئی وجہ نہیں کہ اسی قسم کے تاریخی حالات میں دوسرے سرمایہ پرست ملک بھی فاسشٹ ہوجائیں۔ جب تک انسانیت کو سرمایہ داری اور سامراجیت کا روگ لگا ہوا ہے۔ فاشیزم کسی نہ کسی شکل میں زندہ رہے گا۔ لبرل جمہوریت غالباً ہمیشہ کے لیے ختم ہوگئی۔

    اس پس منظر میں دیکھنا ہے کہ ادب عالم نے کون سا راستہ اختیار کیا۔ درسانی کے عہد نامہ اور موجودہ جنگ کے آغاز تک کا جو زمانہ ہے۔ اس کے ادبی رجحانات کو سرسری طور پر مقصدی اور نفسیاتی، ان دو اسکولوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ مغرب کے وہ تمام مفکر اور ادیب جو ادب کو زندگی سے الگ نہ کرنا چاہتے تھے۔ گورکی اور رولاں کی قیادت میں رجعت سے لڑتے رہے۔ فاسشٹ ادیب اپنی حکومتوں کے احکام کے باوجود کوئی قابل ذکر ادبی کارنامہ نہ پیش کرسکے۔ لیکن مغرب کے وہ ادیب جنہیں انسانیت کے مستقبل سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ تحلیل نفسی کی سرنگ سے ادب کو راہِ فرار دکھلا رہے تھے۔ اس نفسیاتی اسکول کی سرداری جیمس جوائیس کے ساتھ ہکسلے اور موترلاں وغیرہ کر رہے تھے۔ تاہم یہ حقیقت ہے کہ امریکہ اور یورپ کے اکثر ممتاز ادیب ثابت قدمی کے ساتھ آزادی اور روشنی کا راستہ دکھلاتے رہے۔ اور اس راہ میں انہوں نے بڑے دکھ جھیلے۔ ان میں سے اکثر آج یا تو غریب الوطن ہیں یا فاسشٹوں کے قیدی ہیں۔

    اس دور کا ہندوستانی ادب شروع شروع میں زیادہ سماجی شعور نہ رکھتا تھا۔ وجہ یہ تھی کہ پہلی جنگ عظیم نے یہاں کی زندگی میں کوئی تلاطم پیدا نہ کیا تھا۔ اور ہمارا ادبی ماحول اب تک روایتوں کے بار سے دبا ہوا تھا۔ فاشیزم ہمارے لیے بظاہر ایک بے تعلق چیز تھی۔ اصل مسئلہ قومی آزادی کا تھا۔ لیکن آزادی لے کرہم کریں گے کیا۔ اس بنیادی سوال پر بہت کم لوگ غور کرتے تھے۔ ہماری ادبی کاوش زیادہ تر اسلوب اور بیان کے پرانے سانچوں کو بدلنے میں صرف ہو رہی تھی۔

    آج سے کوئی دس سال پہلے جب اشتراکیت ہماری سیاسی زندگی کو متاثر کرنے لگی تو جدید ادب کی تحریک نے بھی زور پکڑا۔ ایک اردوکو ہی لیجیے۔ اردو کی تاریخ کے کوئی بھی دس سال اتنے اہم نہیں کہے جاسکتے۔ اس قلیل مدت میں ہماری شاعری افسانہ نگاری اور تنقید نویسی کایا پلٹ سی ہوگئی۔

    یہ سچ ہے کہ ان ادبی تجربوں میں سے اکثر کی کوئی مستقل حیثیت نہیں۔ ان میں بہت کم میں ایسا تخلیقی جوہر ہے جو انہیں عمر جاوداں عطا کرے۔ ورنہ زیادہ تر پہلی خالی خولی نقالی اور لاف زنی کے سوا کچھ نہیں۔ لیکن کون سی ایسی تحریک ہے جس سے شروع میں اس قسم جی خطاؤں کاارتکاب نہ ہوا ہو۔ کیا صرف اسی وجہ سے ترقی پسند شاعروں اور ادیبوں کی اس خدمت سے انکار کیا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اردو ادب میں زندگی کے مسائل کو سمجھنے سمجھانے کا سلیقہ پیدا کیا؟ اس میں شک نہیں کہ تخلیقی اعتبار سے ہمارے ادب کی تاریخ کے پچھلے کئی سال ہمیشہ یادگار رہیں گے۔ یہ اجتہاد ہندوستان کی دوسری زبانوں میں بھی عام ہوگیا تھا۔ اور ایسا محسوس ہونے لگا تھا کہ اس قدیم ملک کی خفتہ روح کروٹ بدل رہی ہے۔

    لیکن جنگ چھڑتے ہی اس امید پر اوس پڑگئی۔ ہندوستان میں ہر طرف تمدنی و ادبی بیداری کی جو ضیا جگمگا رہی تھی۔ وہ جنگ کے کالے بادلوں کے سامنے ماند پڑگئی۔ انسانی تاریخ کی سب سے المناک ٹریجیڈی کے آگے ہمارے آرٹ اور اَدب کااحساس گم سم ہوگیا۔ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس جنگ کے اسباب اور اثرات سے ادیب بے خبر ہے۔ یا اسے اس کے انجام کی پرواہ نہیں۔ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ یہ اعتراض تو کیا جاسکتا ہے کہ ہمارا نیا ادب عوام کاجتنا ذکر کرتا ہے اس کی زندگی سے اتنا واقف نہیں۔ لیکن اس سے کسے انکار ہوسکتا ہے کہ عوام کے دکھ کو وہ شدت سے محسوس کرتا ہے۔

    پھر کیا وجہ ہے کہ ہندوستان کاآرٹ اور ادب تاریخِ عالم کے سب سے پرآشوب دور کا خاموش تماشائی ہے۔ ہمارے دروازے پر جنگ دستک دے رہی ہے۔ ہمارے گھر میں آگ لگی ہوئی ہے۔ ہمارے شہروں پر بم برس رہے ہیں۔ لیکن ہمارا ادب ان کا اثر قبول نہیں کرتا۔ ان کی مصوری کے لیے ہمارے آرٹسٹ کے قلم میں رنگ نہیں۔ برما سے لاکھو ں بے سروسامان اور ستم رسیدہ ہندوستانیوں کی مراجعت کی خونیں داستان ہماری تخلیقی قوت کو حرکت میں نہ لاسکی۔ آخر اس بے حسی کی وجہ کیا ہے۔

    سوال یہ ہے کہ اس حالت میں ہندوستان کا ادب کون سی راہ اختیار کرے۔ کیا اعترافِ شکست، اداسی، بے حسی اور کشمکش کا وہ رجحان صحیح ہے جو آج اردو ادب پرطاری ہے۔ کیا یہ اچھا ہے کہ جنسی کج روی، ترقی پسندی اور نفسیاتی مطالعہ کانام لے کر ہمارے ادب پر حاوی ہوجائے۔

    ہر انصاف پسند اقرار کرے گا کہ یہ رجحان ترقی پسندی سے کوئی تعلق نہیں رکھتا بلکہ اس کے لیے سخت مضر ہے۔ ممکن ہے کہ یہ ایک قسم کی جدت ہو۔ لیکن یہ جدت ادیب اور ناظر کو زندگی سے دور بھاگ کر گھونگھے کی طرح اپنے خول میں سمٹ جانے کی تلقین کرتی ہے۔ اور اس لیے صریحاً رجعت پرورانہ ہے۔ اسی طرح وہ رومان پسندی جو نظم معریٰ اور نظم آزاد کے بہروپ میں منظر عام پر آئی ہے۔ ہمارے مسائل کی طرف توجہ کرنے سے جھجکتی ہے۔ ترقی پسندی اور ہر قسم کی جدت پسندی کو ہم معنی سمجھنا صریحاً غلط ہے۔

    نہیں جب صدیوں کے لیے انسانیت کی قسمت کا فیصلہ ہو رہا ہے ادب یہ راہِ فرار اختیار نہیں کر سکتا۔ وہ ماضی کے نوحے نہیں گاسکتا۔ وہ تحت الشعور کی بھول بھلیاں میں نہیں بھٹک سکتا۔ وہ عبارت اور بیان کی ندرتوں میں وقت ضائع نہیں کرسکتا۔ اگر وہ سادگی اور صفائی کے ساتھ خلوص کاحامل ہے تو اسے اپنی معراج مل چکی۔ اسے ہر آن یہ یاد رکھنا ہے کہ اگر اس جنگ کے بعد فاشیزم یا جابر سامراجیت میں سے کوئی بھی بچ رہا تو تمدن آرٹ اور ادب کا خدا ہی حافظ ہے۔ اس فریب میں نہ رہنا چاہیے کہ مغربی سرمایہ داری فاشیزم کو ہراکردنیا کی ترقی پسند تحریکوں کو آزاد چھوڑدے گی۔ کوئی عجب نہیں کہ اس کا اگلا حملہ سوویت روس اور دنیا کی دوسری انقلابی تحریکوں پر ہو۔

    ضمیر زبان اور قلم کی آزادی کے مستقبل کا فیصلہ ہمارے سامنے ہو رہا ہے۔ اور یہ قطعاً ناممکن ہے کہ ہم اس معاملہ میں چپ رہیں۔

    ہمارا راستہ صاف ہے۔ کیونکہ دنیا کو ہم جس روپ میں دیکھنا چاہتے ہیں اس کا تصور ہمارے ذہن میں صاف ہے۔ اس دنیا میں ایک ملک دوسرے ملک پر ایک طبقہ دوسرے طبقہ پر یا ایک فرد دوسرے فرد پر حکومت نہ کرے گا۔ یہ آزادی اور ترقی کی دنیا ہوگی۔ جس میں آرٹ اور ادب کی حیثیت خرید و فروخت کی اشیا کی نہ ہوگی۔ بلکہ وہ روحانیت کا واحد مظہر ہوگا۔ اس جنگ کے پہلے جو اس تصور کے لیے کوشاں تھے۔ ادب انہیں کا ہم نوا تھا۔ جنگ کے دوران میں اور اس کے بعد جو سچ مچ میں اسی نظام کی تعمیر کے لیے کوشاں ہوں گے ادب انہیں کے گیت گائے گا۔ جو لوگ ذہنی یا عملی اعتبار سے اس تصور کے مخالف ہوں گے ادب پہلے بھی ان سے لڑتا رہا ہے آج بھی اسے انہیں دجالوں سے لڑنا ہے۔ اپنے عوام کو ہم کسی کے وعدہ فردا کے سپرد نہیں کرسکتے۔

    فاشیزم جبر اور ظلم کے اصول کی ایک مہیب شکل ہے لیکن ظلم ہزار شکلیں احتیار کرتا ہے ہماری بنیادی لڑائی اس اصول سے ہے، ہم فاشیزم کے خطرہ سے بے خبر نہیں لیکن ہمیں اس خطرہ سے بھی ہوشیار رہنا ہے کہ جمہوری سامراج جنگ کے بعد افریقہ اور ایشیا پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے فکر میں ہے۔ اس کاحکمراں طبقہ دوسری نوآبادیوں کی طرح ہندوستان کو بھی جنگ کے بعد فاشیزم کے ڈنڈے سے ہانکنے کی گھات میں ہے، وہ اس دن کی تاک میں ہے جب فاسشٹ رقیب نہ رہیں گے، روس تھک کربے دم ہوچکا ہوگا۔ یورپ اور امریکہ کے عوام امن و آشتی کے پیاسے ہوں گے، وہ مغربی سامراج کے لیے روزِ عید ہوگا۔ کیونکہ وہ نوآبادیوں کی آزادی کی لگن کو بے کھٹکے کچل سکے گا۔ اندیشہ ہے کہ اس کے ساتھ وہ جمہوری ادارے بھی ختم کردیے جائیں گے جنہوں نے ہمیں نئی زندگی کاتصور بخشا ہے۔ یہ خطرہ قرینِ قیاس ہے اور شاعروں و ادیبوں کو اس کے مقابلہ کے لیے تیار رہنا ہے، جو سامراج یافاشیزم کے حلقہ بگوش ہیں۔ ہمارا روئے سخن ان کی طرف نہیں، لیکن جو زندگی کو آزادی سے عبارت کرتے ہیں وہ یقیناً ان باتوں کو سمجھیں گے وہ کہیں گے کہ ہندوستانی ادب نے حیاتِ نو کا جو پرچم بلند کیا ہے وہ اس وقت تک سرنگوں نہ ہوگا جب تک کسی بھی صورت میں ظلم کا نام و نشان باقی ہے۔ جب تک انسانیت ظلم سے نجات حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کرتی رہے گی۔ ادب اس کڑی منزل میں اس کا ہمدم اور ہمسفر ہوگا۔

    اس مسلسل جنگ میں کوئی وقفۂ راحت نہیں۔ کوئی راہ فرار نہیں۔

    ہر لحظہ نیا طور نئی برقِ تجلی

    اللہ کرے مرحلۂ شوق نہ ہوطے

    مأخذ:

    ادب لطیف،لاہور (Pg. 4)

      • ناشر: چودھری برکت علی
      • سن اشاعت: 1943

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے