Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

جنگ، فلسفہ اور محبت

نریندر ناتھ سیٹھ

جنگ، فلسفہ اور محبت

نریندر ناتھ سیٹھ

MORE BYنریندر ناتھ سیٹھ

    میرے دوست جناب باری پر کئی بار وجد کی سی کیفیت طاری ہوجاتی ہے اور انہیں لمحات میں وہ ان خیالات کا اظہار کرتے ہیں جن کی عالم گیر سچائی پر کوئی بھی اعتراض نہیں کرسکتا۔ اسی کیفیت میں ایک بار آپ فرمانے لگے کہ ’’پنجابیت‘‘ کا نمایاں پہلو یہ ہے کہ ہر ایک پنجابی خریدا جاسکتا ہے۔ مثلاً پنجاب کی سیاسی، ادبی اور سماجی زندگی میں کسی بھی بڑے آدمی کانام نہیں لیا جاسکتا جو اس الزام سے بری ہو۔ پھر کچھ سوچ کر باری صاحب نے خود ہی فرمایا۔ ’’میں بھی ایک پنجابی ہوں اور ممکن ہے کہ بہت جلد خریدا جاؤں۔‘‘ چنانچہ چند دن بعد میں نے ایک بک اسٹال پر اخبار ’’پنچایت‘‘ کا ایک پرچہ دیکھا جس پر لکھا تھا۔ ’’مدیر۔ غلام باری‘‘

    موجودہ جنگ کے ایام میں آپ کو بہت سے ایسے واقعات ملیں گے جن سے باری صاحب کے اس مقولے کی صداقت میں کوئی شبہ نہیں رہ جاتا۔ چند مثالیں عرض ہیں،

    میرے ایک دوست شاعر ہیں۔ جو کچھ عرصہ سے ناشر بننے کی کوشش میں تھے۔ چنانچہ جنگ سے پہلے آپ نے اپنا کلام چھاپنے کے لیے کچھ کاغذ خریدا۔ آپ کا خیال تھا کہ آرٹ پیپر پر کلام چھاپ کر وہ سب شاعروں سے سبقت لے جائیں گے۔ آرٹ پیپر خریدا گیا۔ اور پھر سال بھر آپ اپنے کلام کے لیے موزوں عنوان کی تلاش میں رہے۔ اس اثنا میں کاغذ کی قیمت دوگنی ہوچکی تھی۔ چنانچہ آپ نے اپنا کلام چھاپنے کا ارادہ ملتوی کردیا اور کاغذ بیچ کر کونین خریدلی کیونکہ ماہرین کا خیال تھا کہ ملایا میں اتحادیوں کی شکست کے بعد کونین کی قیمت بہت بڑھ جائے گی۔

    ایک اور صاحب تھے جو اپنے آپ کو بہت بڑا اشتراکی کہا کرتے تھے۔ آپ ادیب بھی تھے اور ترقی پسند ادیبوں میں آپ کا نام صفِ اول میں شمار ہوتا تھا۔ حکومت اور سرمایہ داری کے آپ سخت مخالف تھے۔ ان کی لمبی لمبی اور عالمانہ تقریریں آج تک لاہور کے ایوانوں میں گونجتی ہیں۔ چند دن ہوئے کہ آپ نے حکومت ہند کے جنگی محکمے میں ایک اعلیٰ ملازمت کے لیے عرضی دی اور جب ملاقات کے دوران میں آپ سے پوچھا گیا،

    ’’سنا گیا ہے کہ تم اشتراکی قسم کے لوگوں سے بہت میل جول رکھتے ہو‘‘ تو آپ فرمانے لگے۔

    ’’اشتراکی کسے کہتے ہیں حضور! میں تو اس لفظ کے معنی بھی نہیں سمجھتا۔‘‘

    ایک اور اشتراکی تھے۔ جن کے والد بزرگوار بہت بڑے زمیندار ہیں۔ آپ موجودہ جنگ کو سامراجی جنگ سمجھتے ہوئے جنگ کے خلاف محاذ بنانے میں مصروف تھے۔ جب حکومت نے آپ کے والد بزرگوار کی وساطت سے آپ کو فوج میں کپتان کے عہدے کی پیشکش کی تو آپ نے فوراً اسے قبول فرمایا۔ چند دنوں بعد جب اشتراکی دوستوں نے اس کے متعلق سوال کیا تو آپ فرمانے لگے۔

    ’’تم آج تک نہیں سمجھ سکے کہ یہ جنگ جنتا کی جنگ ہے اور ہر ہندوستانی کا فرض ہے کہ وہ اس میں حصہ لے۔‘‘

    اسی طرح اس جنگ کو جنتا کی جنگ سمجھتے ہوئے میرے ایک دوست نے سرکاری ملازمت سے استعفیٰ دے دیا۔ کیونکہ ان کا خیال تھا کہ جنتا کی جنگ جنتا ہی میں رہ کر لڑی جاسکتی ہے۔ سب دوستوں میں اس کا چرچا ہوا اور احباب میں آپ کی اس بہادری پر واہ واہ ہونے لگی۔ لیکن بعد میں سنا کیا کہ استعفیٰ کے دنوں میں آپ چھٹی پر تھے۔ استعفیٰ ختم ہونے پر یا دوسرے لفظوں میں چھٹی کے ایام ختم ہونے پر آپ اپنی ملازمت پر برقرار رہے۔ فرق صرف اتنا تھا کہ اب آپ کی ترقی ہوگئی تھی۔‘‘

    ایک صاحب جنہیں ریڈیو اور ریڈیو والوں سے سخت نفرت تھی۔ ہر وقت ریڈیو کے پروگرام اور ان کے مرتب کرنے والوں کو کوستے رہتے تھے۔ لیکن کوسنے سے پہلے اپنے مخاطب سے اس کی امر کی تصدیق کر لیتے تھے کہ اس کے گھر میں ریڈیو سیٹ تونہیں ہے؟ اب یہ ایک امر واقعہ ہے کہ میں نے ابھی تک پروفیسر کپور کی طرح ریڈیو نہیں خریدا لیکن ایک دن بقول پروفیسر صاحب میں شامتِ اعمال سے ان کے گھر دہلی سے منٹو کا ڈرامہ سننے کے لیے جاپہنچا۔ وہاں ایک اور صاحب لاہور کا پروگرام سننے پر بضد تھے۔ خیرلاہور کا پروگرام ہی سنا گیا اور میں یہ سن کر حیران رہ گیا کہ میرے دوست جن کو ریڈیو سے سخت نفرت تھی۔ ریڈیو گھر سے ایک تقریر نشر کر رہے تھے اور اس کے چند دنوں بعد آپ دہلی تشریف لے گئے ریڈیو گھر میں ملازم ہوکر۔

    ریڈیو میں میرے ایک اور دوست بھی ہیں، اس سے پہلے وہ ایک دفتر میں کلرک تھے اور جب انہوں نے کلرکی سے استعفیٰ دیا تو دوستوں کے استفسار پر آپ فرمانے لگے۔ ’’میں اب ادب کی خدمت کرنا چاہتا ہوں۔ اور میرا خیال ہے کہ میں دور کسی گاؤں میں چلا جاؤں، وہاں میں ہوں اور ایک موٹی سی بھینس، جس کا میں دودھ پیوں اور ادب کی خدمت کرتا رہوں۔ یہی میری زندگی کا مقصد ہے۔‘‘

    اس کے چند دنوں بعد کسی گاؤں جانے کی بجائے آپ دہلی تشریف لے گئے اور جب دہلی سے واپس آئے تو آپ ریڈیو گھر میں ادب کی خدمت پر مامور کردیے گئے۔

    مندرجہ بالا مثالوں کے پیش نظر میں جوں جوں باری صاحب کے اس مقولے پر غور کرتا ہوں۔ باری صاحب کی عظمت میرے دل میں بڑھتی جاتی ہے۔ باری صاحب میں ایک وصف ہے کہ وہ کسی عالمگیر سچائی کا اظہار کرتے وقت کسی کو بھی معاف نہیں کرتے اور اپنی کمزوری کااعتراف نہایت سادہ الفاظ میں کرلیتے ہیں۔

    لیکن عام رجحان اس کے بالکل برعکس ہے۔ عام رجحان کچھ اس قسم کی شکل اختیار کرتا ہے کہ اول ذہن میں عمل و قول کو یکساں رکھنے کے لیے جنگ ہوتی ہے، ضمیر کہتا ہے کہ بھائی کچھ تو اپنے اصول کا پاس کرو۔ لیکن دوسری طرف زندگی کا ارشاد ہوتا ہے۔ ’’اگر جینا ہے تو اچھی طرح جیو، خوبصورت عورت رکھو۔ اس کی نمائش کے لیے موٹر رکھو اور دوسروں کی عورتوں کے حسن سے بصیرت افروز ہونے کے لیے کوٹھی رکھو۔‘‘

    زندگی سے محبت کی اس آرزو کی تکمیل کے لیے دماغ پھر مصروفِ کار ہوتا ہے اور عمل و قول کو یکساں دکھانے کے لیے کوئی نیا فلسفہ ڈھونڈ لیتا ہے۔ اور اسی طرح سے یہ دور جاری رہتا ہے۔ زندگی اور اصول کی جنگ زندگی سے محبت اور دونوں کے امتزاج کے لیے ایک نیا فلسفہ۔

    بہت سے ایسے بھی ہیں جن کو پرلطف زندگی کے حصول کی تکمیل کے لیے ابھی تک کوئی موقع ہی میسر نہیں آیا۔ یہ لوگ اپنے آپ کو نقاد کہتے ہیں اور اگر آپ ان سے ملناچاہیں تو آپ اکثر انہیں فٹ پاتھ یا کافی ہاؤس میں پائیں گے۔‘‘

    آپ ان سے پوچھتے ہیں۔

    ’’کہو بھئی کیا حال ہے۔ آج کل کیا شغل ہے؟‘‘ تو آپ کو کچھ اس قسم کاجواب ملے گا۔

    ’’بھئی جنگ نے سب کام چوپٹ کردیا۔ کاغذ کی گرانی اس قدر ہے کہ کچھ کرنے نہیں پاتا، ذرا یہ جنگ تھم جائے تو ہمارے ہاتھ دیکھنا؟ اگر موجودہ ’’ماہناموں‘‘ کا کوئی نام بھی لے جائے۔‘‘

    اور اگر آپ کو ایک ہی دن میں دوچار ایسے نقاد مل جائیں تو آپ خطرہ محسوس کریں گے کہ کہیں انارکلی کے ہرمکان کا ہر کمرہ کسی ادبی ماہنامے کا دفتر نہ بن جائے اور پھر آپ حیران ہوں گے کہ جنگ سے پہلے بھی تو یہ لوگ اسی طرح تھے ناکام! باتونی! پہلے تو کاغذ اتنا گراں نہ تھا۔

    لیکن حیران ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔ یہ حضرات تو آپ کو صرف اپنی ناکامی کا بہانہ بتارہے ہیں۔ زندگی کی کشمکش میں ناکامی کو فلسفہ سے سلجھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ آپ نے لوگوں کو بک جانے پر فلسفہ سے کام لیتے دیکھا ہے۔ زندگی میں دراصل وہ کامیاب لوگ ہیں اور پھر اسی طرح کئی ناکام ہستیاں بھی ہیں۔ وہ بھی اپنی ناکامی کو چھپانے کے لیے فلسفہ سے کام لیتی ہیں۔‘‘

    اور دونوں حالات میں یہ جنگ، یہ زندگی سے محبت، اور اس کشمکش کو سلجھانے کے لیے فلسفہ اسی طرح کام دیتا ہے۔

    یہ جنگ! یہ فلسفہ! یہ محبت!

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے