Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

’’کفن‘‘ میں بے کفنی کا مسئلہ

اشہد کریم الفت

’’کفن‘‘ میں بے کفنی کا مسئلہ

اشہد کریم الفت

MORE BYاشہد کریم الفت

    میرے خیال سے اس بات پرتمام دانشور متفق ہیں کہ کفن اردو فکشن کی شاہکار تخلیق ہے۔ خود اس تخلیقی کارنامہ کو انجام دینے والے مصنف منشی پریم چند (جنھوں نے تین سو سے زیادہ افسانے لکھے بارہ ناول، تین ڈرامے اور سینکڑوں مضامین و انشائیے تحریر کیے ) کی کوئی بھی تخلیق یا تحریر اس مرتبے اور مقام تک نہیں پہنچتی ہوئی دکھائی دیتی ہے جو کہ ’’کفن‘‘ کی معنویت کا مینارۂ نور اور فن کی آفاقیت کا عرش معلی ہے۔

    یہ افسانہ جبر یہ حالات کے ایسے بطن سے پیدا ہوا ہے جس میں بیسویں صدی کے ہندوستان کی غربت اور زمیندارانہ وجاگیر دارانہ نظام کی سفّاکی اور دلتوں کی پسپائی کی کالی تصویر کو اجلے کفن میں لپیٹ کر صاف صاف دیکھا جاسکتا ہے۔ جہاں تک افسانے کی فنی گرفت کا سوال ہے تواس افسانہ کا پلاٹ ، کردار،نقطہ ٔ نظر ، ماحول، اسلوب ، آغاز واختتام ، وحدت تاثر سے لے کر ٹریٹمنٹ تک تمام کے تمام اجزائے ترکیبی اپنی مثال آپ ہیں۔

    اس میں ان کا مشاہدہ ، فکر، تخیل، زبان، وبیان اور فنی صلاحیتیں معراج کمال پر پہنچی ہوئی ہیں سارے واقعات از اوّل تا آخر ڈرامائی انداز میں بتدریج رونما ہوتے ہیں افسانہ کے تمام ضروری اجزاء انتہائی سلیقہ سے گتھے ہوئے ہیں ۔

    جب تک افسانوی دنیا آباد رہے گی’’کفن‘‘ پر بحث و مباحثے کی گنجائش موجودہے ۔ وہ اس لئے کہ اس کے اندر فکر و فن کی اتنی جہتیں ستاروں کی طرح چھپی ہیں کہ ایک کے بعد ایک روشن ہوتی جاتی ہیں اور تلاش وجستجو کے ساتھ تفہیم و تعبیر کے نت نئے دروازے بھی کھلتے جاتے ہیں۔ بقلم پروفیسر صغیر افراہیم کہانی کا مرکزی خیال وہ استحصال ہے جو برسہا برس طبقہ وارانہ تقسیم اور جاگیر دارانہ نظام میں کمزور طبقے کے ساتھ روا رکھا گیا۔ بدتر ین حالات کے شکار یہ مجبور لوگ غلاموں کی سی زندگی بسر کرتے اور اچھوت یا شود ر کہلاتے‘ جن کے سائے سے بھی لوگ پرہیز کرتے ،انھیں مقدس کتابوں کو چھونا اور مندروں میں جانا بھی منع تھا۔ تعلیم کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا بستی کے باہر ایک کنواں ان کے لئے مخصوص ہوتا ۔ انھیں زندگی کی تمام نعمتوں سے کوسوں دور رکھا جاتا تھا۔ گھر کے سارے افراد کی اٹوٹ محنت کے باجود انھیں نہ تو پیٹ بھر نے کے لئے روٹی ملتی نہ تن ڈھانکنے کے لئے کپڑے میسر ہوتے اتارن اور جھوٹن پر ان کی زندگی کے شب وروز کا دارومدار تھا نسلاً بعد نسلاً انھیں شودروں میں ایسے افراد ابھر کر سامنے آئے جن کو پریم چند نے اپنے افسانہ کفن میں مادھو، گھیسو اور بدھیا کے ساتھ ایک گاؤں کے دیہاتی سماج کی کالی پرچھائیوں میں برتا ہے۔ کہانی کا اختصار کچھ اس طرح ہے۔ ’’تین حصوں پر مشتمل افسانہ ’’کفن‘‘ کا محور ہندوستان کا ایک روائیتی گاؤں ہے۔ اس گاؤں کی بیشتر آبادی مزدوروں اور کسانوں کی ہے افسانہ رات کے حصے سے شروع ہوتا ہے جس میں ایک جھونپڑے کے اندر سے دردِزہ میں مبتلا بدھیا کی دل خراش چیخیں گونج رہی ہیں لیکن فضا خاموش ہے۔ باہر دروازہ پر گھیسوؔ اور مادھوؔ بجھتے ہوئے الاؤ کے گرد بیٹھے ہوئے ہیں یہ ذات کے چمار ہیں ان لوگوں کی زندگی غربت و افلاس کی انتہا پر ہے گھیسو،مادھو کا باپ اور بدھیا مادھو کی جوان بیوی ہے باپ بیٹے انتہائی کام چور اور کاہل ہیں ۔ اپنا پیٹ بھرنے کے لئے آلو، مٹر یا گنّے وغیرہ چرالاتے یاپھر کسی درخت سے لکڑی کاٹ کر اسے بیچ آتے اور اپنا کام چلاتے، محنت ومزدوری سے کتراتے ۔ بہو کے آنے کے بعد ان کی کاہلی نے اور زور پکڑلیا۔ بدھیاؔ ان دونوں سے مختلف اور بالکل برعکس ہے اس کے اندر جفاکشی اور خلوص ومحبت کااٹوٹ جذبہ ہے محنت مزدوری کرکے اپنااور اپنے شوہر وسسر دونوں کام چوروں کا بھی پیٹ بھرنے کی سعی کرتی ہے۔ اب جب سال بھر بعد وہ دردِزہ میں تڑپ رہی ہے تو ان حرام خوروں پر کوئی اثر نہیں ہوتا ہے۔ وہ اندر جاکر دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے ہیں الاؤ کے نزدیک بیٹھے بھنے ہوئے گرم گرم آلو نکال نکال کر کھاتے ، پانی پیتے اور وہیں پڑ کر سوجاتے ہیں۔ افسانہ کے دوسرے حصہ میں رات صبح میں تبدیل ہوکر زندگی موت سے گلے مل کر بدھیا کی پریشانیوں سے نجات کا باعث بن جاتی ہے مادھو اندر جاتا ہے تو بدھیا کو مراپاتا ہے۔ وہ بھاگ کر گھیسو کو خبر کرتا ہے دونوں مل کر ایسی آہ و زاری کرتے ہیں کہ پڑوسی سن کر دوڑے آتے ہیں اور’’ رسم قدیم کے مطابق‘‘ ان کی تشفی کرتے ہیں لیکن کریا کرم کی فکر انھیں زیادہ رونے دھونے سے باز رکھتی ہے۔ دونوں پہلے زمیندار کے پاس پہنچتے ہیں ۔ اپنی بیتی جھوٹ کے سہارے بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں موقع کی نزاکت دیکھ کر زمیندار ان کو دو روپے دے دیتا ہے۔ پھر دونوں زمیندار کا حوالہ دے کر ، دیگر آبادی سے بھی تھوڑا تھوڑا وصول کرتے ہیں۔ اس طرح بدھیا کی موت کے بعد یہ کاہل حرکت کرتے ہوئے ایک گھنٹے میں پانچ روپیے کی معقول رقم جمع کرلیتے ہیں۔ افسانہ کے تیسرے حصے میں دونوں کفن خریدنے بازار جاتے ہیں ۔ گھومتے پھرتے شراب خانہ میں وہ داخل ہوجاتے ہیں وہاں وہ خوب پیتے ہیں اور لذیذکھانوں سے اپنا پیٹ بھرتے ہیں سارا روپیہ اڑا دیتے ہیں بدمست ہو کر ناچتے گاتے ہیں اور مدہوش ہوجاتے ہیں۔ اس کہانی میں جو منظرنامے اور مکالمے پیش کیے گئے ہیں اس کے اندر غضب کی طنزیہ صورتیں ابھرتی دکھائی دیتی ہیں اس کا احساس کفن کے ناقدین کو بھی ہے۔ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ تو اسے IRONY قرار دیتے ہیں ۔

    اس افسانہ کے چند طنزیہ اقتباسات دیکھئے اس میں کتنا شدید درد اور لہجے کی تیزی ہے۔

    (1) ’’ مادھو نے درد ناک لہجے میں کہا’’مرنا ہے تو جلدی مر کیوں نہیں جاتی۔ دیکھ کر کیا کروں ‘‘ ’’تو بڑا بے درد ہے ! بھر جس کے ساتھ جندگانی کا سکھ بھوگا ااسی کے ساتھ اتنی بے وپھائی‘

    ‘(2) گھیسو نے اسی زاہد انہ انداز سے ساٹھ سال کی عمر کاٹ دی اور مادھو بھی سعادت مند بیٹے کی طرح باپ کے نقش قدم پر چل رہا تھا بلکہ اس نام بھی روشن کررہا تھا۔

    (3) میں سوچتاہوں کہ کوئی بال بچہ ہوگیا تو کیا ہوگا؟ سونٹھ گڑتیل کچھ بھی تو نہیں ہے گھر میں ۔

    (4) صبح کو مادھو نے کوٹھری میں جاکر دیکھا تو اس کی بیوی ٹھنڈی ہوگئی تھی اس کے منھ پر مکھیاں بھنک رہی تھیں۔ پتھرائی ہوئی آنکھیں اوپر لٹکی ہوئی تھیں سارا جسم خاک میں لت پت ہو رہا تھا۔ اس کے پیٹ میں بچہ مرگیا تھا؟

    (5) گاؤں کی رقیق القلب عورتیں لاش آکر دیکھتیں اور اس کی بے بسی پر دوبوند آنسو گراکر چلی جاتی تھیں۔

    (6) کیسا برارواج ہے کہ جسے جیتے جی تن ڈھانکنے کو چیتھڑابھی نہ ملے اسے مرنے پر نیا کپھن چاہیے۔

    (7) کفن لگانے سے کیا ملتا۔ آخر جل ہی تو جائے گا کچھ بہو کے ساتھ تو نہ جاتا۔

    (8) دونوں اس وقت اس شان سے بیٹھے پوریاں کھا رہے تھے جیسے جنگل میں کوئی شیر اپنا شکار اڑارہا ہو۔

    (9) کھانے سے فارغ ہو کر مادھو نے بچی ہوئی پور یوں کاپتّل اٹھاکر ایک بھکاری کو دے دیا۔ جو کھڑا ان کیطرف گرسنہ نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔ اور اپنے دینے کے غرورولولہ اور مسرت کا اپنی زندگی میں پہلی بار احساس کیا۔

    (10) ہاں بیٹا بیکنٹھ میں جائے گی۔ کسی کو ستایا نہیں ،کسی کو دبایا نہیں،مرتے وقت ہماری جندگی کی سب سے بڑی لالسا پوری کرگئی۔ وہ نہ بیکنٹھ میں جائے گی تو کیا موٹے موٹے لوگ جائیں گے۔ جو گریبوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے ہیں اور اپنے پاپ کو دھونے کے لئے گنگا نہاتے ہیں اور مندر میں جل چڑھاتے ہیں ۔

    پورا افسانہ اس طرح کے طنز یہ جملوں اور استفہامیہ بیان سے بھرا ہوا ہے۔ ماحول IRONY ہے ہی ساتھ ہی ساتھ انتہائی غربت نے دکھ درد کو مزید گہرا کردیا ہے گوپی چند نارنگ کا یہ کہنا زیادہ درست معلوم ہوتا ہے۔ ’’کہانی کا سارا ڈھانچہ ہی دراصل طنز یہ ہے اور اسی طرح کے معکوس جملوں سے پریم چند انسانیت کے اس گھناؤنے پہلو کو بے نقاب کرتے چلے گئے ہیں جس کو براہ راست سیدھے سادے طورپر بیان کردیتے تو اس میں یہ تاثیر ہر گز نہ ہوتی‘‘ حامدی کاشمیری اس طنز کو پائے حقارت کا نام دیتے ہیں۔ ’’ کفن میں بھوک اور ناداری کی انتہا انسان کو حیوانیت اور سفاکیت کی سطح پر لے آتی ہے اور وہ رشتوں کو پائے حقارت سے ٹھکراتا ہے‘‘ جہاں تک کردار نگاری کا سوال ہے تو اس افسانے میں تمام کردار بڑے چست اور درست نظر آتے ہیں یہاں تک کہ بدھیا کی کوکھ کا وہ بچہ بھی جس نے بدھیا کو دردِزہ میں مبتلا کررکھا ہے۔ کیوں کہ اس کی تڑپ اور دھمک ایک دنیا سے دوسری دنیا میں آنے کی ہے اس خبر نے پورے افسانے میں ہلچل اور حرکت پیدا کردی ہے مگر وہ ننھی سی جان ابھی جس دنیا میں ہے وہاں وہ تنگ تاریک گھر ہے اوروہاں اس کی خیر وعافیت کے سامان بھی ہیں لیکن اب اس سامان کے خاتمے کا وقت آپہنچا ہے۔ اس کے آگے کا سفر دوسری دنیا میں اجالوں کا ہے مگر حالات کی ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ جس دنیا میں آنے والا ہے وہ اس سے بھی تاریک اور سیاہ ہو چکی ہے۔ اس لئے اس ننھے فرشتے کو آنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔ بہرحال اس افسانہ میں گھیسو اور مادھو ایک ہی سکّے کے دورخ ہیں باپ ہی کے نقش قدم پر بیٹا بھی چل رہا تھا اور باپ اپنے فطری عمل سے مجبور ہے: ’’زمیندار صاحب رحم دل آدمی تھے مگر گھیسو پر رحم کرنا کالے کمبل پر رنگ چڑھانا تھا‘‘اور زمیندارصاحب کے مشاہدہ میں جو بات تھی و ہ بالکل برحق تھی مگر اس بات کا جواز بھی موجود ہے جو اس حقیقت سے الگ اک حقیقت ہے : ’’ جس سماج میں رات دن کام کرنے والوں کی حالت ان کی حالت سے کچھ بہت اچھی نہ تھی اور کسانوں کے مقابلے میں وہ لوگ جو کسانوں کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانا جانتے تھے کہیں زیادہ فارغ البال تھے وہاں اس قسم کی ذہنیت کا پیدا ہوجانا کوئی تعجب کی بات نہ تھی ہم تو کہیں گے کہ گھیسو کسانوں کے مقابلے میں زیادہ باریک بین تھا اور کسانوں کی تہی دماغ جمعیت میں شامل ہونے کے بدلے شاطروں کی فتنہ پرواز جماعت میں شامل ہوگیا تھا۔‘‘ اس عمل میں بھلے ہی پورا گاؤں اس کے خلاف تھا لیکن اس کا بیٹا مادھو پوری سعادت مندی اور وفاداری کے ساتھ اپنے باپ کی راہ چلتے ہوئے اس کا نام روشن کررہا تھا ۔ ایک سے بھلے دو اس بات کا اشارہ ہے کہ آنے والا وقت اس کے عمل کی قدروقیمت جانے گا۔ ظالم کو ظالمانہ رویے سے ہی شکست دی جاسکتی ہے۔ گھیسوا اور مادھو کی کاہلی اپنی گھور تاریکی کے باوجود وقت کے بدلاؤ کا اشاریہ ہے اور امید کی ایک ننھی سی کرن ، بچا ہوا کھانے کا پتل بھکاریوں کو دینا مساوات کا درس بھی ہے اور دولت کی صحیح تقسیم بھی ۔ بدھیا کے کردار میں عورت کی فطری ترجمانی ملتی ہے جذبۂ ایثار اور وفاداری اسے محبت کی دیوی کا روپ عطاکرتے ہیں ۔ دنیا میں تہذیب وتمدن کی خوبو بھی عورت ہی کے دم سے قائم ہے جیسا کہ بدھیا کے کردار سے آندھیوں میں چراغ جلتا ہوا دکھائی دیتاہے : ’’گھیسو کی بیوی کا تو مدت ہوی انتقال ہوگیا تھا۔ مادھو کی شادی پچھلے سال ہوئی تھی۔ جب سے یہ عورت آئی تھی اس نے خاندان میں تمدن کی بنیاد ڈالی تھی۔‘‘ پروفیسر علی احمد فاطمی لکھتے ہیں : ’’پہلے ہمارے گھر اس کے بعد سماج کے تمدن وتہذیب کی بنیاد عورت ہوا کرتی ہے۔گھیسو اور مادھو کے کردار میں جو وحشی رنگ ہے اس کا ایک بنیادی سبب ان کی زندگی میں اور گھر میں عورت کا خلاء بھی ہے جیسا کہ اس اقتباس سے ظاہر ہے یعنی بدھیا کو صرف ایک سال ہوئے بیاہ کر آئے اور گھیسو کی بیوی کو مرے ہوئے مدت ہوگئی تھی گویا ان دونوں کی زندگی کے بیشتر اوقات یونہی صرف ہوئے تھے۔ پروفیسر صغیر افرا ہیم کہتے ہیں کہ ’’بدھیا افسانہ کا اہم ترین کردار ہے اس کی موت کے بعد بھی اس کا تعلق بدستور افسانہ سے قائم رہتا ہے اور اس تعلق سے تمام تشکیلی عناصر سرگرم رہتے ہیں ۔ بدھیا کی موت نے دونوں کرداروں کو متحرک کردیاہے‘‘عہد جدید کے مشہور ناقد ڈاکٹر گوپی چند نارنگ بھی’’بدھیا کی موت کو کہانی کا مرکز ی نقطہ مانتے ہیں‘‘ اس کی موت کا تاریک سایہ پورے افسانے کو اپنی گرفت میں لے کر رشتوں کے تقدس کو دھندلا کیے ہوئے ہے۔ باقی ضمنی کردروں میں صرف دوطرح کی صورتیں ابھرتی ہیں ایک گاؤں کے بھولے بھالے کسانوں مزدوروں اور دلتوں کی ہے جن کی آبادی زیادہ اور وہ محنت کش لوگ تقدیر کے سہارے جی توڑ محنت کرنے پر خاموشی کے ساتھ آمادہ ہیں ان کے اندر گہرا سکوت ہے دوسرے وہ لوگ ہیں جو سرمایہ دار اور زمیندار ہیں ان کی تعداد بہت کم ہے زندگی کے سارے عیش و آسائش انھیں حاصل ہیں وہ بہت کم محنت کرکے سیدھے سادے لوگوں کو غلام بنائے ہوئے ہیں۔دیکھا جائے تو محنت تو دونوں طبقہ کرتے ہیں مگر زیادہ محنت کرنے والے لوگ زندگی کی نعمتوں سے محروم ہیں اور کم محنت والے لوگ عیش و آسائش میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ یہ افسانہ انسان کی انسانیت یا آدمی کی آدمیت پر ایک اہم سوال ہے جب ہم اس کا جواب ڈھونڈتے ہیں تو بے شمار تعلیمی ، سماجی، معاشرتی ، اقتصادی، سیاسی ، تہذیبی ، ثقافتی اور تاریخی سوالات اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور یہی سوالات افسانوی زندگی کی دھڑکن ہیں کیوں کہ یہ سارے سوالات زندگی کی بقاء کے ہیں ۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ’’کفن ‘‘ ایک زندہ افسانہ ہے جس طرح ایک توانا اور تندرست جسم کے تمام اعضا اپنے اعمال وافعال کے ساتھ اپنی روح سے مل کر زندگی کی توانائیوں کا ثبوت دیتے ہیں اسی طرح افسانے کے تمام فنی اجسام معنویت کی روح سے مل کر فکر و فن کی تازگی کا ثبوت دیتے ہیں ’’کفن‘‘ کے اندر مردہ حالات اپنی بے کفنی کا ماتم کررہے ہیں ۔ ’’کفن‘‘ اردو کا ایک ایسا لفظ ہے جس کا متبادل ہندی کے پاس نہیں ہے جب کہ کہانی کی ساخت ہندی بھاشا اور ہندو دھرم سے تعلق رکھتی ہے۔ ہندو سنا تن دھرم کا دعویٰ کرتے ہیں جن کی زبان سنسکرت تھی جسے دنیا کی سب سے قدیم تہذیب کا شرف بھی حاصل ہے۔ اس افسانہ میں ذات پات رسم ورواج سب ہندو دھرم کے مطابق ہیں مگر چند الفاظ غور طلب ہیں- مندرجہ ذیل جملوں میں خط کشیدہ الفاظ دیکھیں۔

    (1) ’’گھیسو نے زاہدانہ انداز سے ساٹھ سال کی عمر کا ٹ دی‘‘

    (2) اب آپ کے سوا اس کی مٹی کون پارلگائے گا۔

    (3) مادھو آسمان کی طرف دیکھ کر بولا گویا فرشتوں کو اپنی مصیبت کا یقین دلارہا ہے۔

    (4) بھگوان ! تم انترجامی (علیم) ہو۔

    (5) وہ زندہ ہیں یا مردہ یا زندہ درگور

    ان الفاظ پر غور کریں ۔ پریم چند کا تعلق اردو زبان وتہذیب اور راجہ رام موہن رائے کی برہمو سماج تحریک سے جو بعد میں آر یہ سماجی تحریک بنی ،اس سے گہرا رہا ہے اور انھوں نے ایک بیوہ عورت سے شادی رچا کر اس کا عملی ثبوت بھی فراہم کیا۔ اس لئے ایسا لگتا ہے کہ ’’کفن‘‘ میں قدیم تہذیب کی بے کفنی کا مسئلہ ہے وہ انھیں جدید تہذیب وتمدن کی روشنی میں حل کرنے کے لئے بے چین اور مضطرب کئے ہوئے ہے اور یہ بے چینی صرف منشی پریم چند کی ذات سے وابستہ نہیں ہے تخلیقی سطح پر یہی اضطرابی کیفیت اردو کے عظیم شاعر غالب ؔ کی بھی نظر آتی ہے اور جب کوئی سنجیدہ قاری منشی جی کے شاہکار افسانہ ’’کفن‘‘ کا گہرا مطالعہ کرنے کے بعد وہ اس تخلیقی اضطراب کو محسوس کررہا ہوجو اس تخلیق کی وجہہ ہے تو اس کے سامنے غالب کے تخلیقی ذہن کی شدید بحرانی کیفیت اور ایک مشکل ترین شعر کی شرح آسان ہو جاتی ہے۔

    ڈھانپا کفن نے داغِ عیوب برہنگی

    میں ورنہ ہر لباس میں ننگ وجود تھا

    غالب

    ایسا لگتا ہے کہ غالب اور منشی پریم چند کا مسئلہ ایک ہی تھا انسان کے ننگ وجود ہونے کا مسئلہ ؟ اس کے علاوہ ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ جسم مردہ ہوجائے تو اسے کپڑے کا کفن دے کر نجات حاصل کرلیتے ہیں مگر روح مردہ ہوجائے تو ؟ تعلیم اور تہذیب کا فنا ہوجانا کسی فرد یا قوم سے اس کی روح کی موت کا اعلان ہی تو ہے؟ اور روح کی بے کفنی پرایک سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا مردہ روح کو شراب کا کفن دے کر برسوں بے حسی کی نیند سلادیا جا سکتا ہے؟ ٭٭٭

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta 10th Edition | 5-6-7 December Get Tickets Here

    بولیے