Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کئی چاند تھے سر آسماں: ایک تجزیاتی مطالعہ

رشید اشرف خان

کئی چاند تھے سر آسماں: ایک تجزیاتی مطالعہ

رشید اشرف خان

MORE BYرشید اشرف خان

    ناول کا خلاصہ
    ’’کئی چاند تھے سرِ آسماں‘‘ شمس الرحمٰن فاروقی کا تخلیق کردہ ایک ایسا کوزہ ہے جس میں ناول نگار نے ہزاروں دریا سمودیے ہیں۔ اس شاہکار ادب پارے کو پڑھ کر اردو کے مشہور و معروف ادیب انتظار حسین نے فاروقی سے کہا تھا کہ ’’آپ آدمی ہیں کہ جن؟‘‘ 

    یقیناً مؤکل، شمس الرحمٰن فاروقی کے تابع ہیں جن سے وہ جب چاہیں، جیسا چاہیں کام لے لیتے ہیں۔ ویسے تو اس ناول کی کہانی کو دراز تر کرنے میں درجنوں کردار، مقامات، واقعات اور حادثات سبھی شریک ہیں لیکن سب سے زیادہ نمایاں رول، جگت استاد، فصیح الملک نواب میرزا خاں داغ دہلوی کی والدۂ گرامی، وزیر خانم عرف چھوٹی بیگم زہرہ دہلوی کا ہے۔ وزیر خانم کا نام زبان پر آتے ہی اردو کے معروف استاد شاعر ثمربلوری کا یہ شعر یاد آجاتا ہے، 

    ازل سے تا ابد، نامحرمِ انجام ہے شاید
    محبت، اک مسلسل ابتدا کا نام ہے شاید

    ناول کی کہانی مخصوص اللہ نامی ایک شخص سے شروع ہوتی ہے جو ایک ماہر مصور اور شبیہ ساز(۱) تھا۔ آگے چل کر وہ نقاش (۲) اور قالین باف (۳) بھی بن گیا۔ اس کا قیام آج سے برسوں پہلے کشن گڑھ (راجپوتانہ۔ موجودہ راجستھان) کے ایک گاؤں ’’ہندل پروا‘‘ میں تھا۔ ایک دن بیٹھے بیٹھے مخصوص اللہ نے ایک لڑکی کی خیالی تصویر بنائی۔ اس تصویر میں حسن و جمال کا کوئی پہلو ایسا نہ تھا جو مخصوص اللہ نے باقی رکھا ہو۔ تصویر تھی گویا ابھی بول پڑے گی۔ گاؤں اور آس پاس کے علاقوں کے لوگ اسے دیکھنے کے لیے آئے۔ تصویر مخصوص اللہ کے حجرے کے باہری طاق میں رکھی تھی۔ جس نے بھی دیکھا وہ اس کی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکا۔ کسی نے کہا کہ ارے یہ ’’بنی ٹھنی‘‘ ہے۔ دوسرے نے کہا کہ یہ ’’رادھا دیوی‘‘ ہیں۔ تیسرا بولا ارے یہ تو ’’اصلی‘‘ ہے۔ مگر حد تو تب ہوئی جب ایک شرابی نے کہا کہ یہ والا جاہ کی بیٹی ’’من موہنی‘‘ ہے۔ 

    اس زمانے کا معاشرہ ایسا تھا کہ ہر مذہب میں پردے کا اہتمام لازم تھا۔ جیسے ہی گجندرپتی مرزا کو خبر ملی کہ اس کی بیٹی من موہنی کی شبیہ بنائی گئی ہے تو وہ آپے سے باہر ہوگیا۔ بیٹی اور کچھ گھوڑسواروں کے ساتھ مخصوص اللہ کے گھر پہنچا۔ وہ وہاں موجود نہ تھا۔ سارے گاؤں والوں کے سامنے اپنی بیٹی کو قتل کرڈالا، نیزے کی نوک سے طاق پر رکھی شبیہ پھاڑ ڈالی اور چیخ کر کہا کل تک سارا گاؤں خالی کردیا جائے ورنہ میں کسی کی بھی جان و مال کا ذمہ دار نہیں رہوں گا۔ اس حکم سے گاؤں والے لرز اٹھے اور دوسری صبح جس کے جدھر سینگ سمائے اُدھر جان بچاکر بھاگ نکلا۔ مہاجرین کے قافلے میں مخصوص اللہ بھی شامل ہوگیا۔ اس نے بارہ مولہ (کشمیر) میں سکونت اختیار کی۔ 

    کچھ دنوں بعد ایک کشمیری لڑکی سے مخصوص اللہ نے شادی کرلی۔ اس سے ایک سیاہ فام لڑکا پیدا ہوا۔ اپنے بیٹے کو دیکھ کر مخصوص اللہ بہت خوش ہوا اور اس کا نام محمد یحیٰ رکھا۔ ایک دن پھر اسے جانے کیا سوجھی، اپنے بچے کو اس کے ماموں کے حوالے کیا اور کسی کو بتائے بغیر کہیں چلا گیا۔ کافی تلاش کے بعد جنگل میں برف سے ڈھکی اس کی لاش ملی۔ کشمیر کے سرد موسم میں تیزی سے گرتی ہوئی برف میں مخصوص اللہ اکڑ کر مرگیا۔ اس کے دائیں ہاتھ میں ہاتھی دانت جیسا ایک پتلا مڑا تڑا کاغذ تھا جسے بہ احتیاط نکالا گیا تو پتہ چلا کہ اس پر ایک بے حد خوبصورت لڑکی کی شبیہ تھی۔ وہ دراصل بنی ٹھنی تھی۔ کشمیری اس حقیقت کو نہ سمجھ پائے اور انہوں نے تصویر کو مصور کی قبر کے پاس ہی برف میں دبا دیا۔ 

    سلیمہ کو یہ غم تھا کہ آخر وہ اپنے شوہر کی افتاد طبع کو سمجھ کیوں نہ سکی؟ وہ بارہ مولہ چھوڑ کر اپنے مائکے بڈگام میں جاکر آباد ہوگئی۔ چار برس چار ماہ کی عمر میں محمد یحییٰ کی رسم بسم اللہ ہوئی۔ سلیمہ قصہ کہانی کی شکل میں اپنے بیٹے کو اس کے مرحوم باپ کی زندگی کے حالات سناتی رہتی۔ اس نے بیٹے سے کئی بار کہا کہ تیرے باپ تو یہاں کے نہیں تھے۔ کیا تیرا جی نہیں چاہتا کہ اپنے ماں باپ کے اصلی وطن کو دیکھے؟ بہرحال محمد یحییٰ بڈگام سے کہیں اور جانے پر راضی نہ ہوا۔ 

    محمد یحییٰ جب اٹھارہ برس کا ہوا تو اس کی شادی ایک کشمیری لڑکی بشیر النسا سے کردی گئی جس سے شادی کے دوسرے سال جڑواں لڑکے پیدا ہوئے، بڑے کا نام محمد داؤد اور چھوٹے کا نام محمد یعقوب رکھا گیا۔ دونوں ریشم، زعفران اور شہد کی تجارت کرنے لگے۔ لوگ انہیں داؤد بڈگامی اور یعقوب بڈگامی کہنے لگے۔ ان دونوں بھائیوں نے اپنے باپ کی طرح نہ تو تعلیم نویسی سیکھی، نہ نقاشی، نہ چوب تراشی(۴) اور نہ قالین بافی۔ البتہ ان کے گلے اچھے تھے۔ دونوں مل کر طرح طرح کے اردو، فارسی اور کشمیری کلام سناتے۔ دنیا والوں سے داد بھی پاتے اور انعام و اکرام بھی۔ 

    یحییٰ بڈگامی کی موت کے تین مہینے بعد بشیرالنسا بھی اس دنیا سے چل بسی۔ اب داؤد اور یعقوب کا جی کشمیر سے اچاٹ ہوگیا۔ دونوں نے یہ طے کیا کہ اب اپنے ددھیال کشن گڑھ کی طرف چلیں۔ کافی مسافت طے کرکے دونوں بھائی جے پور پہنچے۔ وہاں سے آگے بڑھے تو دھوپ بہت تیز ہوچکی تھی ان کا اور ان کے گھوڑوں کا بھوک پیاس سے برا حال تھا۔ خدا خدا کرکے شام ہوئی ایک چھوٹے سے گاؤں کے پاس پہنچ گئے۔ تھوڑی دور پر کنواں تھا۔ پانی بھرنے والی زیادہ تر عورتیں تھیں۔ انہیں میں حبیبہ اور جمیلہ نام کی دو لڑکیاں تھیں۔ سوتیلے باپ کے ظلم سے یہ دونوں داؤد اور یعقوب کے ساتھ بھاگ کر نکاح کرنے پر راضی ہوگئیں۔ یہاں سے یہ لوگ ’’باندی کوئی‘‘ نامی علاقے میں پہنچے جہاں داؤد نے حبیبہ سے اور یعقوب نے جمیلہ سے نکاح کرلیا اور دو دن قیام کے بعد فرخ آباد کوچ کر گئے۔ 
    اس واقعے کے گیارہ مہینے بعد یعقوب بڈگامی اور بی بی جمیلہ کے یہاں ۱۷۹۳ء میں یوسف بڈگامی کی ولادت ہوئی۔ چھوٹے بھائی داؤد بڈگامی لاولد تھے مگر دونوں بھائی ایک دوسرے پر قربان تھے۔ 
    فرخ آباد کا قیام دونوں بھائیوں کو بہت پسند تھا۔ ان دونوں بھائیوں نے پرانے پیشے کو ترک کرکے نیا پیشہ سادہ کاری (۵) اختیار کرلیا۔ اس فن میں وہ طاق ہوگئے۔ مقامی خواتین اور فرنگی عورتیں کپڑے پر قلم کاری کروانے کے لیے انہیں پیشگی کلدار اشرفیاں (۶) یا شاہ عالمی اشرفیاں (۷) دے دیا کرتی تھیں۔ لیکن گردش ایام نے پھر اپنا رنگ دکھایا۔ کمپنی کا عمل دخل کوئی دس سال ہوئے ہرطرف نظر آنے لگا۔ 

    یوسف بڈگامی کا واقعہ بھی اپنی جگہ پر بڑا دلچسپ لیکن لرزہ خیز تھا۔ حقیقت حال یہ تھی کہ ابھی یوسف کی عمر کم ہی تھی جب انگریزوں اور مرہٹوں میں جم کر لڑائی ہوئی۔ انگریزوں کے عملے میں یوسف اور اس کے خاندان کے ساتھ فرخ آباد کی مشہور ڈیرے دارنی، اکبری بائی کا سازوسامان اور عملہ تھا جس سے یوسف اور اس کے اہل خاندان کی گاڑھی چھننے لگی۔ یہ خاندان شہری تھا اور اس کا جنگ سے کچھ لینا دینا نہیں تھا۔ انگریزوں اور مراٹھوں کی اس رستاخیز میں مراٹھا فوج کی طرف سے پھینکے گئے گولوں کے نتیجے میں یوسف کے والدین، چچا، خالہ، شاگرد پیشہ (۸) سب ہلاک ہوگئے۔ صرف یوسف بچ گیا۔ اکبری بائی کا اپنا خیمہ بھی محفوظ رہا۔ اکبری بائی اور ان کی ننھی بیٹی اصغری ایک دو اصیلیں (۹) ماما (۱۰) چھوچھو (۱۱) جو ابھی کچھ دور بیل گاڑی میں تھیں۔ اس وقت یوسف کی عمر مشکل سے دس برس کی تھی لیکن وہ کافی عقل مند تھا۔ دشمن کے لوگوں سے بچنے کے لیے وہ بے تحاشہ ہنڈن ندی کی طرف دوڑنے لگا تاکہ اس میں کود پڑے، لیکن اکبری بائی کی اصیل نے اسے دوڑ کر پکڑ لیا۔ ہزار چیخنے پیٹنے کے باوجود اس وقت تک اپنے سینے سے لپٹائے رہی جب تک وہ نیم بے ہوش ہوکر سونہ گیا۔ جب اس کی آنکھ کھلی تو شام ہو رہی تھی اور وہ اکبری بائی کے ساتھ بیل گاڑی میں تھا۔ 

    خدا خدا کرکے یہ لٹا ہوا قافلہ دلی پہنچا۔ اکبری بائی نے چاوڑی بازار میں اپنی ایک رشتے کی بہن کے یہاں قیام کیا۔ کچھ دنوں کے بعد ان کی بہن نے کوچۂ پنڈت کے نکڑ پر اکبری بائی کو رہنے کے لیے مکان کا بندوبست کردیا۔ 

    یوسف، زندگی بھر اکبری بائی کا شرمندۂ احسان رہا کیونکہ انہوں نے اسے اپنے سگے بیٹے کی طرح پالا۔ اجمیری دروازے پر مدرسۂ غازی الدین خاں میں عربی وفارسی پڑھوانے کے علاوہ انہوں نے اسے سازوسنگیت کی بھی تعلیم دلوائی۔ وہ بہت جلد میاں نورالعین واقف، میاں ناصر علی، رائے آنند رام مخلص اور مرزا عبدالقادر بیدل کے ساتھ ساتھ جگت استاد شاہ حاتم، میرزا محمد رفیع سودا، میرتقی میر، خواجہ میردرد اور ان کے بھائی میراثر کے کمالِ فن سے بڑی حدتک متعارف ہوگیا۔ جب محمد یوسف کی عمر پندرہ برس اور اصغری کی عمر تیرہ برس کی تھی تو اکبری بائی نے دونوں کا نکاح کرادیا اور کوچۂ رائے مان میں ایک مکان بھی خرید کر دے دیا۔ 

    شادی کے دوبرس بعد یوسف اور اصغری کے پہلی بیٹی پیدا ہوئی اس کا نام انوری خانم عرف بڑی بیگم رکھا اس کے بعد بہت کم وقفہ میں یکے بعد دیگرے دوبیٹیاں پیدا ہوئیں۔ ایک کا نام عمدہ خانم عرف منجھلی بیگم اور دوسری کا وزیر خانم عرف چھوٹی بیگم۔ یہی وزیر خانم مذکورہ ناول ’’کئی چاند تھے سرِ آسماں‘‘ کی مرکزی کردار بنی۔ یوسف سادہ کار کی تین بیٹیاں، تین رنگ کی تھیں۔ پہلی دو بیٹیوں میں سانولا پن اور خوش شکلی کی صفت مشترکہ تھی البتہ وزیر خانم عرف چھوٹی بیگم رنگ کے سوا ہر بات میں کشمیرن لگتی تھی۔ بڑی بیگم کو اللہ رسول سے بے حد لگاؤتھا، یوسف نے بارہ برس کی عمر میں اس کی شادی میاں مولوی شیخ محمد نظیر صاحب سے کردی۔ منجھلی بیگم کو ماں باپ کی رضامندی کے بغیر اکبری بائی نے نواب سید یوسف علی خاں ابن نواب سید محمد سعید خاں والی رام پور کے متوسلین میں شامل کردیا۔ 

    چھوٹی بیگم یعنی وزیر خانم کے مزاج میں بچپن ہی سے ڈومنی پن (۱۲) نکلتا تھا۔ نانی کے یہاں اس کی اصل تعلیم ان امور میں ہوئی جن کو سیکھ سمجھ کر عورت ذات مردوں پر راج کرتی ہے۔ وہ شعر بھی کہتی تھی اور میاں شاہ نصیر کی شاگردہ تھی۔ استاد نے اسے زہرہ تخلص عطا کیا تھا۔ وزیر خانم ابھی پندرھویں سال میں تھی کہ یوسف کی بیوی اصغری اچانک بیمار پڑی اور چار دن بیمار رہ کر چل بسی۔ 

    ماں کے مرنے کے بعد محمد یوسف اور اس کی بڑی اور منجھلی بیٹی نے اپنے تئیں بھرپور کوشش کی، کہ چھوٹی بیگم (وزیر خانم) کو شادی کے لیے راضی کرلیں لیکن وہ اپنی ضد پر اڑی رہی۔ وزیر خانم کو شادی نہیں کرنی تھی اور نہ کی۔ 

    وزیر خانم عرف چھوٹی بیگم کا ابتدائی حال ہمیں اس حاضر راوی کے بیان سے معلوم ہوتا ہے جسے ناول میں ڈاکٹر خلیل اصغر فاروقی، ماہر امراض چشم کے نام سے پیش کیا گیا ہے۔ ناول میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ڈاکٹر خلیل مستقل تاریخی اور تہذیبی یادداشتیں لکھا کرتے تھے۔ ناول میں وہ خود لکھتے ہیں، 

    ’’گزشتہ سال ایک شادی کے سلسلے میں مجھے لندن جانے کا موقع ملا۔ اپنے بارے میں کچھ زیادہ کہنے میں مجھے تکلف ہے اور جو داستان اگلے صفحات پر مرتسم ہے اس کا مجھ سے کوئی تعلق بھی نہیں۔ لہٰذا اتنا کہنا کافی ہوگا کہ میں پیشے کے لحاظ سے ماہر امراض چشم ہوں۔ شعر و شاعری کا شوق بھی رکھتا ہوں لیکن اگر میں زمانۂ قدیم میں ہوتا تو مجھے ’’نساب‘‘ کہا جاتا۔ اس معنی میں مجھے خاندانوں کے حالات معلوم کرنے، ان کے شجرے بنانے اور دور دور کے گھرانوں کی کڑیوں سے کڑیاں ملانے کا بے حد شوق ہے اور اب اگر میری عمر بہت زیادہ نہیں ہے، میں نے طب کا مشغلہ ترک کردیا ہے۔ میرا زیادہ تر وقت شجرے بنانے اور بنائے ہوئے شجروں کو مزید وسیع اور پے چیدہ بنانے میں گزرتا ہے۔‘‘ 1

    وزیر خانم عرف چھوٹی بیگم کی پیداش غالباً ۱۸۱۱ء میں ہوچکی تھی۔ اس کی زندگی میں پہلا مرد ایڈورڈ مارسٹن بلیک (Edward Marston Blake) تھا۔ ان دونوں کی ملاقات بھی بڑے ڈرامائی انداز میں ہوئی تھی۔ اس سلسلہ میں اگرچہ کوئی دستاویزی ثبوت موجود نہیں، لیکن خاندانی روایات سے پتہ چلتا ہے کہ ایک مرتبہ وزیر خانم اپنے باپ محمد یوسف سادہ کار کے ساتھ مہرولی شریف خواجہ قطب شاہ کی درگاہ سے بذریعہ بہلی(۱۳) واپس آرہی تھی۔ رات کا وقت تھا۔ سب مسافروں کو واپسی کی جلدی تھی کیوں کہ حوض شمسی کے کھنڈر میں ان دنوں بعض پنڈاروں (۱۴) نے چپکے چپکے اپنے اڈے بنالیے تھے جہاں چھپ کر وہ مسافروں کو لوٹ لیا کرتے تھے۔ وزیر خانم کی بہلی کا ایک دھرا گھستے گھستے کمزور پڑگیا تھا۔ ڈر تھا کہ اگر بیلوں کو ذرا بھی تیز دوڑایا گیا تو دھرا ٹوٹ سکتا ہے لہٰذا ان کی بہلی چیونٹی کی چال چل کر آہستہ آہستہ رینگ رہی تھی۔ اچانک بہلی اڑتی ہوئی لال مٹی اور ریت کے بڑے بڑے ذروں سے بھر گئی۔ بیلوں کی بڑی بڑی آنکھیں دہشت اور چبھن کے باعث بند ہوگئیں۔ 

    آندھی کے جھکڑ اورتیز ہوا کے جھونکوں سے بہلی کے سبھی پردے اڑگئے اور دھرا ٹوٹ جانے سے دھماکہ ہوا۔ بہلی پر سوار سبھی لوگ گر پڑے۔ خدا کا کرنا یوں ہوا کہ دہلی کی طرف سے کچھ انگریز اور دیسی سوار آتے دکھائی دیے جن کا سردار ایک انگریز مارسٹن بلیک تھا جو اپنی معشوقہ کے ساتھ رات گزارنے عرب سرائے (۱۵) جارہا تھا۔ وزیر خانم کے سرکی چادر ہوا سے اڑگئی۔ مارسٹن بلیک اور وزیرخانم کی آنکھیں دفعتاً چار ہوئیں اور کیوپڈ (Cupid) (۱۶) اپنا کام کرگیا۔ 

    وزیر خانم بخیریت تمام دہلی پہنچ گئی۔ مارسٹن بلیک تحفے تحائف لے کے ہر دوسرے تیسرے دن یوسف کے گھر آنے لگا۔ چند مہینوں کے بعد مارسٹن بلیک نے آکر خبر دی کہ میں اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ کی اسامی پر متعین ہوکر جے پور جارہا ہوں۔ تقریباً سوا مہینے کے بعد مارسٹین بلیک جے پور سے دہلی آیا۔ محمد یوسف سے اکیلے میں کچھ سرگوشیاں کیں۔ چھوٹی بیگم کو معنی خیز نظروں سے دیکھا۔ اس واقعہ کے کوئی ایک ہفتہ کے بعد مارسٹن بلیک کے قافلہ میں، جو عازم جے پور تھا، پھولوں اور گجروں سے سجایا ہوا ایک رتھ بھی تھا۔ وزیر خانم عرف چھوٹی بیگم زرق برق پوشاک میں سجی بنی اس میں سوار تھیں۔ 

    جے پور پہنچ کر وزیرخانم کی دنیا ہی بدل گئی۔ نوکروں کی ریل پیل ہوئی۔ مارسٹین بلیک اس کی شمع زندگی کا پروانہ تھا۔ وہ اس سے کہتا تھا تم وزیر نہیں بلکہ اس گھر کی ملکہ ہو۔ وقت گزرتا رہا۔ وزیر خانم کے دو اولادیں ہوئیں۔ لڑکے کا مارٹن بلیک اور لڑکی کا نام سوفیہ رکھا۔ لیکن وزیر خانم نے لڑلڑاکر دونوں کے ہندوستانی نام امیر میرزا اور بادشاہ بیگم رکھے۔ مارسٹن بلیک کا پھوپھی زاد بھائی ولیم کاٹرل ٹنڈل (William Cotterill Tyndale) اور اس کی بہن ایبگیل ٹنڈل (Abigail Tyndale) جو پہلے میسور میں رہتے تھے، جے پور آگئے۔ دسمبر۔ جنوری ۱۸۳۰ء کرنل ایلویس جو پولیٹیکل ایجنٹ برائے راجپوتانہ تھے چھ ہفتے کی رخصت پر کلکتہ چلے گئے اور مارسٹن بلیک کو جے پور کی ریزیڈنسی کا مختار بناگئے۔ راجپوتانے میں سازشیں بڑھ گئیں۔ دیسی لوگوں نے مارسٹن بلیک پر حملہ کرکے اسے مندر کے اندر مارڈالا۔ مارسٹن بلیک کے پھوپھی زاد بھائی نے مارسٹن بلیک کی جائداد پر غاصبانہ قبضہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے دونوں بچوں کو بھی چھین لیا اور چھوٹی بیگم جے پور سے دہلی واپس لوٹ آئی۔ 

    چھوٹی بیگم چونکہ باپ کو ناراض کرکے مارسٹن بلیک کے ساتھ بغیر نکاح کے چلی گئی تھی اس لیے محمد یوسف نے سرسری سی رسمی تعزیت کی اور بیٹی کو اپنے ساتھ رکھنے پر راضی نہ ہوا۔ منجھلی بیگم سے کہہ کر چھوٹی بیگم نے ایک مکان سرکی والان میں لے لیا اور اس میں رہنے لگی۔ یہ مارچ ۱۸۳۰ء کی بات ہے۔ وزیر خانم نے اپنی بہن عمدہ خانم (منجھلی بیگم) کے توسط سے نواب یوسف علی خاں کے گھر میں رسائی حاصل کی، لیکن گھریلو انداز میں۔ ایک دن نواب صاحب نے چھوٹی بیگم کے احوال پوچھتے ہوئے اسے اطلاع دی کہ میرے ملاقاتی کچھ عمائد شہر اور شرفا تک تمہاری شہرت پہنچ چکی ہے۔ وہ لوگ تم سے تمنائے ملاقات رکھتے ہیں۔ وزیر خانم نے نواب کے حکم کی تعمیل کی اور تین سلام کرکے الٹے پاؤں دیوان خانے سے حویلی کے اندر داخل ہوگئی۔ 

    نواب یوسف علی خاں سے ملاقات کے آٹھویں یا دسویں دن بعد ایک سونٹا بردار نواب یوسف علی خاں کا رقعہ اور روپیوں کے دس توڑے لے کر وزیر خانم کے دروازے پر حاضر ہوا۔ نواب صاحب نے رقعہ فارسی میں تحریر کیا تھا جس کا اردو ترجمہ یہ ہے، 

    ’’بعد دعائے افزونی دولتِ حسن و دوام اقبال، وزیر خانم سلمہا۔ ملاحظہ فرمائیں کہ اگلے پنجشنبہ کی شام کو بعد مغرب، نواب ولیم فریزر صاحب ریزیڈنٹ دولت کمپنی بہادر کی ڈیوڑھی عالیہ واقع پہاڑی (موجودہ علاقہ RIDGE) شہر دہلی میں ایک محفل شعر سخن قرار دی گئی ہے۔ نواب مرزا اسداللہ خاں صاحب المتخلص بہ غالب والملقب بہ میرزانوشہ تازہ کلام سے سرفراز فرمائیں گے۔ حضرت دہلی کے چنیدہ عمائد و اساطین بھی رونق افروز بزم ہوں گے۔ آں عزیزہ اگر اپنے قدوم میمنت لزوم کو زحمت نہضت عطا کریں تو عین باعث لطف ہوگا۔‘‘ 2

    روز موعودہ یعنی پنجشنبہ کو ولیم فریز کے گھر پر وزیرخانم، دلاور الملک نواب شمس الدین احمد خاں، مرزا غالب، فینی پارکس اور دہلی کی کئی مشہور ہستیاں جمع ہوئیں۔ ولیم فریزر نے سب کا تہہ دل سے خیر مقدم کیا۔ غالب کو دیکھ کر فریزر نے کہا، 

    ’’مرزا نوشہ ہم نے آپ کے لیے فرنچ لیکور (French Liquor) کا انتظام کر رکھا ہے لیکن شرط نئی غزل کی ہے۔‘‘ 3

    رات گئے محفل شعر و سخن چلتی رہی۔ محفل کے بعد جب سواریاں ولیم فریزر کی کوٹھی سے نکلیں۔ نواب شمس الدین احمد خاں اپنی رہائش گاہ کی طرف چلے گئے اور وزیر خانم رتھ میں بیٹھ کر سر کی والان کی طرف مڑ گئی۔ نواب شمس الدین احمد خاں کا ایک سوار گھوڑے سے اتر کر وزیر کے پیچھے پیچھے آیا اور دروازے پر دستک دی۔ وزیرخانم سے دروازے پر کھڑے کھڑے سلام کیا اور کہا کہ سرکار نواب دلاور الملک کسی مناسب وقت پر ملاقات کے خواہاں ہیں۔ وزیر خانم نے جواب دیا کہ کل شام کو تشریف لاسکتے ہیں۔ میں منتظر رہوں گی۔ 

    دوسرے دن وزیرخانم اور اس کے ملازمین گھر کی صفائی اور سجاوٹ میں مشغول ہوگئے۔ بعد نماز عصر نواب شمس الدین احمد خاں بڑے تزک و احتشام سے وزیر خانم کے گھر پہنچے۔ وزیر خانم نے بڑے پرجوش انداز میں ان کا استقبال کیا۔ رات گئے تک وزیر خانم اور نواب شمس الدین احمد خاں کے درمیان راز و نیاز کی باتیں ہوتی رہیں۔ اشعار اور گیت بھی سنائے گئے۔ کھانا کھا کر نواب صاحب اپنے گھر کی طرف مراجعت کرگئے۔ 

    نواب شمس الدین احمد خاں کی تفصیلی بے تکلف گفتگو اور ان کے جھکاؤ کو دیکھ کر وزیرخانم بہت متاثر ہوئی اور یہ خواب دیکھنے لگی کہ اگر نواب صاحب اس سے نکاح کرلیں تو کتنا اچھا ہے۔ دوسرے دن نواب صاحب کے یہاں سے نہایت عمدہ اور قیمتی تحفہ آیا تو وزیرخانم فرط جذبات سے تڑپ گئی۔ 

    رات بھر سوچنے کے بعد وہ اس نتیجہ پر پہنچی کہ پہلے منجھلی بیگم اور ان کے شوہر نواب یوسف علی خاں سے اس ضمن میں مشورہ کرلینا بہتر ہے۔ چنانچہ اسی شام ماما کو اپنی بہن منجھلی بیگم کے یہاں بھیج کر نواب یوسف علی خاں سے ملاقات کی اجازت مانگی۔ اجازت ملتے ہی دوسرے دن تراہا بیرم خاں پر واقع نواب یوسف علی خاں کے یہاں پہنچ گئی۔ اپنی بہن عمدہ خانم کو تمام باتوں سے باخبر کرکے وزیر خانم نواب صاحب کی خدمت میں باریاب ہوئی، انہیں اپنا پورا ماجرا سناکر مشورے کی طالب ہوئی۔ نواب صاحب نے فرمایا۔ اچھا برا سوچ سمجھ لو اور پھر نواب شمس الدین کو اپنی شرائط سے آگاہ کر دو اسی وقت تمہارا اقدام مناسب ہوگا۔ 

    وزیرخام اپنے بہنوئی کا شکریہ ادا کرکے اپنے گھر واپس آگئی۔ گھر پہنچنے کے بعد وزیر خانم ایک بار پھر شش و پنج میں پڑگئی۔ وہ کبھی سوچتی کہ نواب شمس الدین صاحب مجھ سے نکاح کریں گے بھی یا نہیں؟ ہوسکتا ہے نکاح نہ کریں صرف پابند بناکر رکھیں۔ پھر میرے دونوں بچوں امیر میرزا اور سوفیہ کا کیا ہوگا۔ کیا میں انہیں اپنے ساتھ رکھ سکوں گی۔ بہرحال یہی سب خیالات وزیر خانم کو رہ رہ کر پریشان کر رہے تھے کہ استخارہ دکھلائے یا کسی رمّال سے فال کھلوائے۔ تب اسے پنڈت نندکشور کا خیال آیا جو اس کی نانی اکبری بائی کے گھر کبھی کبھار آیا جایا کرتے تھے۔ 

    اگلے دن صبح صبح چھوٹی بیگم اپنی نانی کے یہاں جاپہنچی۔ نانی نے نوکر کو بھیج کر پنڈت نندکشور کو یہ سندیسہ بھیجا کہ وہ کسی طرح وقت نکال کر چھوٹی بیگم کے مکان پر تشریف لے آئیں۔ بڑا کرم ہوگا۔ لہٰذا دوسرے دن فجر کی نماز کے فوراً بعد پنڈت نندکشور چھوٹی بیگم کے گھر آگئے۔ چھوٹی بیگم نے انتہائی محبت و عقیدت سے ان کا خیر مقدم کیا۔ پنڈت نندکشور ایک سچے اور دھارمک ہندو ہونے کے باوجود ایک وسیع النظر، آزاد خیال اور سیکولر مزاج وضع دار بزرگ تھے۔ سنسکرت اور ہندی کے علاوہ وہ اردو، فارسی اور علم نجوم ورمل کے زبردست عالم بھی تھے۔ انہوں نے نہایت ہم دردی اور سنجیدگی کے ساتھ چھوٹی بیگم کے مسائل کو سنا اور لسان الغیب خواجہ حافظ شیرازی کے دیوان سے فال کھول کر چھوٹی بیگم کے دل کو گویا ہرا کر دیا۔ نذرانے کے طور پر کچھ بھی قبول نہ کیا۔ چھوٹی بیگم کے اصرار پر صرف عطر کی ایک چھوٹی سی شیشی قبول کی اور ہزاروں دعائیں دیتے ہوئے چلے گئے۔ 

    فال میں اشارہ یہ تھا کہ وزیر خانم، نواب شمس الدین احمد خاں سے رشتۂ انسلاک استوار کرے۔ یہ اس کے حق میں مناسب و مفید ہے۔ حافظ شیرازی کا شعر یوں تھا، 

    اے پیک راستاں، خبرِ سروما بگو
    احوال گل، بہ بلبل دستاں سرابگو

    پنڈت نندکشور کے جانے کے بعد، چھوٹی بیگم پر عجب کیفیت طاری تھی۔ وہ نواب شمس الدین احمد خاں کو خط لکھنا چاہتی تھی مگر رہ رہ کر سوچتی تھی کیا لکھے اور کیسے لکھے۔ اتفاق سے میر حسن کے ایک شعر نے اس کی ہمت افزائی کی۔ وہ شعر اس طرف تھا، 

    ذوق تنہائی میں خلل ڈالا
    آکے مجھ پاس دو گھڑی تو نیں 

    درج بالا شعر پر وزیر خانم نے تین مصرعے بطور تضمین لگاکر ایک بامعنی مخمس کی شکل دی۔ اس کے بعد مینابازار سے نئے نیزے منگا کر اسے تراشا۔ محلے کے مولوی صاحب کے پاس دو روپے نذرانے سے نئے نیزے منگا کر اسے تراشا۔ محلے کے مولوی صاحب کے پاس دو روپے نذرانے کے ساتھ بھیج کر ان قلموں پر شگاف اور قط لگوائے، پھر اس مخمس کو افشانی کاغذ پر خوش خط لکھ کر خریطہ میں بند کیا اور لیچی کے نایاب شہد کے ساتھ نواب شمس الدین خاں کی خدمت میں بھیجا۔ نواب شمس الدین احمد خاں نے خط پڑھا اور بہت سے تحائف کے ساتھ خط کا جواب بھی دیا جس میں میر اثر کی غزل بھی نقل کی تھی۔ جس کا مطلع اس طرح تھا، 

    تجھ سوا کوئی جلوہ گر ہی نہیں 
    پر ہمیں آہ کچھ خبر ہی نہیں 

    نواب صاحب نے خط کے آخر میں یہ بھی لکھا تھا کہ ’’کل شام کفش خانے پر ماحضر تناول فرمائیں۔‘‘ 

    دوسرے دن نواب یوسف علی خاں کی بگھی میں بیٹھ کر وزیر خانم نواب شمس الدین احمد خاں کے مکان واقع دریاگنج جاپہنچی۔ نواب صاحب کی کوٹھی انگریزی وضع کی تھی۔ برآمدے میں نواب صاحب استقبال کے لیے موجود تھے۔ کوٹھی پر ایک طرح کا سناٹا چھایا ہوا تھا کہ اب کیا ظہور میں آتاہے۔ 

    استقبال کے بعد بہت دیر تک وزیر خانم اور نواب شمس الدین خاں آپس میں التیام ہوتے رہے۔ وزیر کا اشارہ یہ تھا کہ نکاح ہوجائے لیکن نواب صاحب بات کو ٹال رہے تھے۔ آخر کار بات کا رخ بدلنے کے لیے انہوں نے کہا ’’آئیے کھانا کھائیں‘‘ کھانے کے دوران ہی وزیر خانم نے نواب شمس الدین احمد خاں کا عندیہ سمجھ لیا تھا اس لیے اس نے اس تصور سے اپنے دل کو ڈھارس دی کہ نواب کے لگاؤ کی سنہری لیکن عارضی چھاؤں بہرحال تنہا عمر رسیدگی اور بے یاری کی لمبی پرچھائیوں سے بہتر ہے۔ نواب صاحب سے رخصت ہوکر وزیر ان کی کوٹھی سے ملحق مہمان خانے میں جاپہنچی۔ وہاں کی خادمہ حبیب النسا عرف حبیبہ اور ان کی بیٹی راحت افزا وزیر کے لیے پیش پیش تھیں۔ 

    نواب صاحب سے رخصت ہوکر وزیر ان کی کوٹھی سے ملحق مہمان خانے میں جاپہنچی۔ وہاں کی خادمہ حبیب النسا عرف حبیبہ اور ان کی بیٹی راحت افزا وزیر کے لیے پیش پیش تھیں۔ نواب صاحب، بغیر وزیر سے ملے اندھیرے منھ اپنے علاقہ پہاسو چلے گئے چونکہ وہاں ڈاکوؤں نے مال و اسباب کے ساتھ ایک لڑکی کا بھی اغوا کرلیا تھا۔ راحت افزا نے اخروٹ کا بناہوا ایک خوبصورت سا صندوقچہ وزیرخانم کو دیا اور کہا کہ نواب صاحب نے آپ کو یہ تحفہ دیا ہے۔ وزیر خانم نے صندوقچہ کو کھولا تو اس میں ایک نہایت قیمتی انگوٹھی تھی اور آبی رنگ کے کاغذ پر سنہری زعفرانی روشنائی میں صرف ایک شعر لکھا تھا، 

    شب کہ عریاں بہ برآں شوخ قدح نوشم بود
    یک بغل نور چو فانوس درآغوشم بود

    نواب سیف علی خاں آف رام پور اس بات پر خوش تھے کہ چھوٹی بیگم نواب شمس الدین احمد خاں کے متوسلین میں شامل ہو رہی ہے اب اس کی زندگی قدرے محفوظ اور پرسکون ہوگی لیکن ولیم فریزر کی چھاتی پر سانپ لوٹ رہا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ اور بہت سی دیسی عورتوں کی طرح وزیر خانم بھی اس کی رکھیل بن جائے لہٰذا ولیم فریزر نے ایک نہایت گندی اور خطرناک چال چلی۔ 

    وزیر خانم اور نواب شمس الدین احمد کی ملاقات کے تیسرے دن ولیم فریزر کو پتہ چلا کہ پرگنہ پہاسو کے ڈاکو پکڑے گئے لوٹ کی رقم اور قاضی کی دختر برآمد ہوئی نیز دو ڈاکو سرداروں کو سرعام پھانسی دے کر نواب شمس الدین نے اپنی مستعدی اور با تدبیری کا ثبوت دیا۔ اس کے باوجود بھی ولیم فریزر نواب شمس الدین سے کینہ رکھتا تھا۔ اس نے سب سے پہلے نواب گورنر جنرل بہادر کلکتہ کو لکھا کہ شمس الدین خاں ایک کمزور اور نکمے والیِ سلطنت ہیں لہٰذا لوہارو کا علاقہ ان سے چھین کر ان کے سوتیلے بھائیوں امین الدین احمد اور ضیاء الدین احمد کو دے دیا جائے تاکہ وہ اپنی والدہ اور بہنوں کی پرورش کرسکیں۔ اس کے بعد فریزر نے ایک ترکیب اور سوچی۔ اس نے حکم دیا کہ حکیم احسن اللہ خاں کو ریزیڈنسی میں طلب کیا جائے۔ حکیم احسن اللہ خاں ایک خاندانی حکیم تھے ان کا شمار دہلی کے شرفا و عمائدین میں ہوتا تھا۔ انہیں اکبر شاہ ثانی کے دربار سے عمدۃ الملک، حاذق الزماں کے خطابات ملے تھے۔ وہ بہادر شاہ ثانی کے معالجِ خاص تھے اور بادشاہ نے احترام الدولہ، عمدۃ الحکما، معتمد الملک ثابت جنگ کے خطابات سے نوازا تھا۔ وہ حکیم مومن خاں مومن کے ماموں زاد بھائی تھے۔ 

    حکیم احسن اللہ خاں بعد نماز ظہر ریزیڈنسی میں حاضر ہوئے۔ فریزر نے حکیم صاحب سے کہا کہ آپ شمس الدین احمد کو یہ خبر کر دیں کہ وزیر خانم کسی اور کی نظر چڑھ چکی ہے اور اپنے دل سے اس کا خیال نکال د یں۔ فریزر کی بات سنتے ہی حکیم صاحب نے دوٹوک جواب دیا کہ شمس الدین پر نہ کوئی میرا رعب و دبدبہ ہے اور نہ یہ میرا فرض ہے کہ میں آپ کا پیغام نواب تک پہنچاؤں؟ بغیر اجازت حکیم صاحب نے فریزر سے آداب کیا اور رخصت ہوگئے۔ فریزر کی اس ذلیل حرکت سے بہادرشاہ ظفر اور نواب شمس الدین کو آگاہ بھی کردیا۔ 

    حکیم احسن اللہ خاں کے اس رویے پر فریزر آپے سے باہر ہوگیا اور اس نے یہ طے کیا کہ وہ بذات خود وزیر خانم سے مل کر سارے معاملات طے کرے گا۔ دماغ میں خناس لیے حسب معمول وہ ہاتھی پر سوار ہوکر سیر کے لیے نکلا اور جان بوجھ کر اپنی سواری سرکی والان کے پھاٹک پر لے گیا۔ وزیر کے گھر پر اطلاع دی کہ ریزڈنٹ بہادر وزیر سے شرف ملاقات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ فریزر کا اچانک اس طرح آنا وزیر کو برا تو ضرور لگا لیکن وقت کا تقاضہ تھا کہ فریزر کے خلاف کوئی بات نہ کی جائے۔ لہٰذا وزیر نے فریزر کو نہایت عزت و احترام کے ساتھ بٹھایا اور چائے پیش کی۔ ادھر اُدھر کی باتیں کرنے کے بعد فریزر نے کہا ’’میں ارادے اور نتیجہ کی وحدت کا قائل ہوں‘‘ یہ سنتے ہی وزیر نے تھوڑا پیچھے ہٹ کر کہا کہ ’’آپ وحدت کے اس قدر قائل ہیں تو آئینہ میں منھ نہ دیکھتے ہوں گے۔ دیکھ لیتے تو بہتر تھا‘‘ وزیر کی اس بات پر فریزر اکڑ کر کھڑا ہوگیا اور بولا چھوٹی بیگم! یہ سودا تمہیں مہنگا پڑے گا۔ 

    ولیم فریزر اب نواب شمس الدین کو ذلیل و خوار کرنے کے لیے نت نئی سازشیں کرنے لگا۔ وہ بار بار کلکتہ میں بیٹھے ہوئے گورنر جنرل کو اکساتا کہ وہ شمس الدین کو ان کی موروثی جائداد سے بے دخل کردے۔ دوسری طرف فریزر نے شہر میں یہ افواہ پھیلادی کہ اگر نواب شمس الدین کی بہن جہانگیرہ بیگم سے ہمارا نکاح ہوجائے تو کمپنی بہادر مقدمۂ وراثت میں نواب شمس الدین احمد کے دعوے پر ہمدردی کرسکتی ہے۔ 

    کچھ دنوں بعد نواب شمس الدین اپنے علاقہ فیروزپور جھرکہ لوٹ جاتے ہیں۔ ۲۵/مئی ۱۸۳۱ء کو بروز چہار شنبہ بوقت دوبجے دن وزیر خانم کے یہاں بیٹا پیدا ہوا۔ جس کا نام نواب مرزا رکھا گیا۔ یہی بجہ آگے چل کر فصیح الملک نواب مرزا خاں داغؔ دہلوی کے نام سے جگت استاد بنا۔ 

    نواب شمس الدین خاں اور وزیر بیگم کی قسمت میں ابھی بہت سے اتار چڑھاؤ لکھے تھے۔ خوشیاں تیزی سے غموں میں بدلتی جارہی تھیں۔ حوادث کے سیاہ بادل بڑھے چلے آرہے تھے۔ 

    یہ جولائی ۱۸۳۴ء کی بات ہے۔ بارش خوب ہوئی تھی موسم بڑا سہانا تھا۔ ولیم فریزر ہوا خوری کے لیے جان بوجھ کر حویلی حسام الدین حیدر کے پھاٹک تک پہنچا۔ اس وقت نواب شمس الدین اپنے دوست مظفرالدولہ ناصر الملک میرزا سیف الدین حیدر خاں سیف جنگ کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے حویلی کے پھاٹک سے نکل رہے تھے۔ فریزر نے ہاتھی رکوایا اور مصنوعی شگفتگی سے بولا۔ مظفرالدولہ۔ دلاورالملک۔ تسلیمات عرض کرتا ہوں۔ اس کے بعد فریزر نے کہا۔ دلاور الملک! جہانگیرہ بیگم کیسی ہیں؟ سنا ہے نصیب دشمناں ان کا مزاج ناساز ہے۔ جی چاہے تو نور باغ میں جھولے ڈلوادیے جائیں وہاں تشریف لے آئیں۔ دل بہل جائے گا۔ یہ سنتے ہی شمس الدین کی آنکھوں سے شعلے برسنے لگے۔ دراصل ان کی سوتیلی ماں مبارک النسا نے یہ باغ اخترلونی (انگریز) کے ہاتھ بیچ ڈالا تھا اور اب وہ دماغ فریزر کے رشتے کے بھائی سائمن فریزر کی ملکیت تھی۔ سائمن فریزر، ولیم فریزر کی کوششوں سے دلی کا سٹی مجسٹریٹ اور فریزر کا خاص آدمی تھا۔ ان حقائق کی روشنی میں نواب کا غصہ بجا تھا۔ 

    اس کے بعد نواب شمس الدین بلی ماراں سے چاندنی چوک چلے گئے۔ وزیر خانم نے سب باتیں سنیں۔ انہیں سمجھایا بجھایا۔ شربت وغیرہ پلایا لیکن تھوڑی دیر بعد وہ اٹھ کر تیزی سے باہر چلے گئے۔ وزیر خانم پکارتی اور قسمیں دیتی ہی رہ گئی۔ نواب صاحب اپنے کچھ آدمیوں کو لے کر ریزیڈنسی پہنچے۔ وہاں فریزر کے سپاہیوں اور نواب میں خوب ہاتھا پائی ہوئی۔ فریزر کے آدمیوں نے نواب صاحب کو نہتا کرکے کوٹھی کے باہر پھینک دیا۔ ان کے کپڑے پھٹ گئے اور جوتیاں غائب ہوگئیں۔ نواب کے ملازموں نے انہیں بہ ہزار خرابی چاندنی چوک تک پہنچایا۔ وہاں ایک کہرام مچ گیا۔ وزیر خانم اور سبھی ماما اصیلوں نے تیمارداری شروع کردی۔ دوسری طرف وزیر کے دل میں طرح طرح کے اندیشے پیدا ہو رہے تھے کہ سوتیلی ماں نے جادوٹونا نہ کیا ہو، کہیں انگریز ان کی جان کے دشمن نہ بن جائیں۔ 

    دوسرے دن نواب شمس الدین احمد خاں بے دار ہوئے تو کافی تازہ دم تھے۔ وزیر سے باتیں کیں۔ نواب مرزا کو بلا کر خوب پیار کیا۔ نہائے دھوئے اور ناشتہ کیا۔ اپنی بہن جہانگیرہ کی شادی کی غرض سے فیروز پور جھرکہ روانہ ہوگئے۔ تین دن کا سفر طے کرنے کے بعد نواب فیروز پور جھرکہ پہنچے۔ ۱۲/ستمبر ۱۸۳۴ء کو اپنی بہن جہانگیرہ بیگم کا نکاح میرزا اعظم علی اکبر آبادی سے کردیا۔ 

    حسب معمول نواب شمس الدین دوپہر کا کھانا کھانے کے لیے زنانہ حویلی کی طرف جارہے تھے کہ دلی کاایک سانڈنی سوار (۱۷) عالی جاہ کے مختار کار بہادر کا عریضہ لے کر نواب کی خدمت میں حاضر ہوا جس کا نام انیا میواتی تھا جو نواب شمس الدین کا نوکر تھا۔ تیزرفتاری، جفاکشی اور سفر کی صعوبات برداشت کرنے کے لیے اس کے شہرے دور دور تک تھے۔ سات تسلیمیں کرنے کے بعد انیا میواتی نے اپنی پگڑی سے ایک ریشمی تھیلی نکال کر دونوں ہاتھوں پر رکھی اور ایک قدم آگے بڑھ کر سرجھکائے ہوئے اپنے ہاتھ نواب شمس الدین احمد خاں کی طرف بڑھادیے۔ 

    نواب شمس الدین نے خط کو بغور پڑھا انا للہ وانا الیہ راجعون نواب کے منھ سے نکلا۔ خط کا اصل مضمون فارسی میں تھا جس کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے، 

    اعلیٰ حضرت ولیِ نعمت سلامت

    ’’بعد تسلیمات کے معروض ہے۔ خبر ملی ہے کہ نواب گورنر جنرل بہادر کے آستانۂ عالیہ سے درباب مقدمۂ حضور فیصلہ صادر ہوچکا ہے اور نقل اس فیصلے کی آج صبح ریزیڈنسی پہنچ گئی ہے۔ توقع اور اندیشہ ہے کہ اندر دو تین روزوں کے ریزیڈنٹ بہادر برائے عمل درآمد فیصلہ مزید احکامات جاری فرمادیں گے۔ یہ تحریر کرتے ہوئے بندے کو نہایت قلق ہے کہ فیصلہ بندہ پرور سلامت کے حسب منشا نہیں ہے۔ حکم نواب گورنر جنرل بہادر ہے کہ علاقہ لوہارو کا اور اس کے ماتحت پرگنہ جات تحویل سے اعلیٰ حضرت کے لے لیے جاویں اور ولایت اس خطۂ ملک کی امین الدین احمد بہادر کے سپرد کی جاوے۔‘‘ 

    خط کو کئی بار پڑھنے کے بعد نواب شمس الدین کے دل میں بیک وقت غصہ، فکر، مایوسی اور غم کے بادل چھاگئے۔ وہ بالکل سکتے کے عالم میں تھے اور کوئی فیصلہ نہیں کرپارہے تھے انہیں اب کیا کرنا چاہیے۔ ہاں اس تصور کے نتیجہ میں ان کی مٹھیاں ضرور بھنچ گئی تھیں کہ یہ سب کچھ فریزر کا کیا دھرا ہے۔ اسی لمحے ان کا جان نثار اور بچپن کا ساتھی کریم خاں آگیا۔ کریم خاں ایک ماہر نشانہ باز تھا اس لیے لوگ اسے ’’بھرمارو‘‘ کہتے تھے۔ کریم خاں نے نواب کو حوصلہ دلایا اور وہاں سے غائب ہوگیا۔ ۷/اکتوبر ۱۹۳۴ء بروز سہ شنبہ کریم خاں اور انیا میواتی گڑگاؤں ہوتے ہوئے دوسرے دن دہلی پہنچے۔ کریم خاں کے جاسوس فریزر کے نقل و حرکت کی خبریں کریم خاں تک پہنچانا شروع کرنے لگے۔ اسی طرح تین مہینے گزر گئے۔ 

    ایک دن خبر ملی کہ فریزر کرسمس منانے دہلی آرہا ہے۔ ابھی وہ دہلی تک نہیں پہنچا تھا کہ نواب شمس الدین کا ایک رقعہ کریم خاں کو ملا جس میں اسے فوری طور پر قلعۂ فیروز طلب کیا گیا لیکن اس رقعے پر نہ تو نواب کے دستخط تھے اور نہ مہر تھی۔ کاغذ بھی وہ نہ تھا جو دیوان ریاست میں استعمال کیا جاتا تھا لیکن کریم خاں کو اس میں کوئی شک نہ تھا کہ وہ روبکارو (۱۹) خود نواب کی تحریر کردہ نہیں تھی۔ اگلے دن صبح کریم خاں نے فیروز پور کے لیے رخصت سفر باندھا۔ روانہ ہونے سے قبل اسے یہ خیال آیا کہ رقعے کو حویلی میں چھوڑنا ٹھیک نہیں ہے اور اپنے پاس بھی رکھنا اسے خلاف مصلحت سمجھا۔ نواب کی تحریر کو پرزے کرنا یا نذرآتش کرنا کریم خاں کو گوارا نہ ہوا لہٰذا بہت سوچ سمجھ کر وہ رقعہ دریاگنج کی حویلی کے سامنے والے کنویں میں ڈال دیا۔ دوسرے دن عصر کے وقت کریم خاں قلعۂ فیروز پور جھرکہ پر حاضر ہوگیا۔ 

    دوشنبہ کا دن تھا اور تین مارچ کی تاریخ، جب کریم خاں اور انیا میواتی دوبارہ دہلی پہنچے۔ ان دونوں نے فریزر کے روزانہ پروگراموں پر نظر رکھی۔ اپنے جاسوس بھی اس کام پر لگادیے۔ ۲۲/مارچ ۱۸۳۵ء کو رات کا وقت تھا۔ فریزر کی بند بگھی جب کشن گنج سے چلی تو تقریباً گیارہ بجے کا عمل تھا۔ ایک مدت کے بعد ایسا اتفاق ہوا تھا کہ فریزر اتنی رات کو گھر سے باہر وہ بھی نسبتاً کھلی جگہ پر تھا۔ اسی شام وہ کشن گڑھ (ہریانہ) کے راجا کلیان سنگھ کے یہاں کھانے پر مدعو تھا۔ کھانے کے بعد رقص و شراب کی محفل دیر تک چلی اور فریزر نے معمول سے بہت زیادہ پی لی تھی۔ کلیان سنگھ کے ملازموں اور فریزر کے محافظوں نے اسے کسی طرح اٹھا کر بگھی میں ڈال دیا تھا۔ بگھی کے ساتھ ایک مشکی سوار (۱۹) بھی تھا جسے لوگوں نے اندھیرے میں محافظ سمجھا۔ مشکی سوار نے بندوق سے فریزر کے جسم کو چھلنی کردیا اور بھاگ نکلا۔ سارے شہر میں فریزر کی موت سے کہرام مچ گیا۔ 

    دوسرے دن فریزر کی تعزیت کو آنے والوں میں مرزا غالب اور فتح اللہ بیگ خاں بھی تھے۔ کسی زمانے میں فتح اللہ بیگ خاں اور نواب شمس الدین خاں آپس میں رشتے دار اور دوست تھے لیکن آگے چل کر کٹر دشمن بن گئے۔ فتح اللہ بیگ فریزر کی لاش کو د یکھ کر اس پر گر پڑے اور کہا کہ ’’ہائے شمس الدین نے تجھے نہ چھوڑا‘‘ یہ جملہ سنتے ہی انگریزوں کے کان کھڑے ہوگئے اور وہ شمس الدین اور ان کے ملازموں کے پیچھے لگ گئے۔ 

    سائمن فریزر نے دلی کے تمام دروازے بند کرادیے اور ہر طرف جاسوسوں کا جال بچھادیا لیکن انیا میواتی اتنا شاطر تھا کہ انگریزوں کو چکمادے کر ۲۴/مارچ ۱۸۳۵ء کو وہ فیروزپور قلعہ کے صدر دروازے پر تھا۔ نواب شمس الدین کا سامنا ہوتے ہی سلام کیا اور کہا کہ ’’سرکار کے اقبال سے کام ہوگیا۔ دشمن راستے سے ہٹادیا گیا۔‘‘ نواب صاحب انیا میواتی سے خوش ہوکر دس اشرفیاں دلوائیں اور کہا کہ تم فیروز پور میں ہی ٹھہرو۔ انیا میواتی کی چھٹی حس نے اسے ہوشیار کردیا کہ نواب صاحب کا اتنا گہرا راز تمہارے دل میں دفن ہے وہ یقیناً تمہیں مرواڈالیں گے۔ یہی سوچ کر انیا اپنے بھائی سے ملا اور اسے اپنا راز دار بناکر فیروز پور سے رفوچکر ہوگیا۔ دوسری طرف کریم خاں گرفتار ہوکر انگریزوں سے پٹنے لگا۔ 

    بہرحال نواب شمس الدین احمد خاں کو فیروز پور جھرکہ سے دہلی آنے کا حکم دیا گیا۔ یہ خبر سنتے ہی پنجاب کے راجا مہاراج دھیراج کے سفیر اجاگر سنگھ نے نواب کی خدمت میں حاضر ہوکر پرزور درخواست کی کہ آپ بھیس بدل کر پنجاب بھاگ چلیں لیکن نواب صاحب نے اسے بزدلی سے تعبیر کیا۔ دوپہر کے کھانے کے بعد نواب شمس الدین نے فرداً فرداً سب سے ملاقات کی۔ بیویوں کو ان کے مہر کی رقم دی اور دہلی کے لیے رخصت ہوگئے۔ شام تک فیروز پور جھرکہ کے بازار بند ہوگئے ایسا لگتا تھا کہ ساری آبادی نے بن باس لے لیا ہے۔ 

    جیسے ہی خبر ملی نواب شمس الدین قلعۂ پالم تک پہنچ چکے ہیں سائمن فریزر اپنے پچاس مسلح سپاہیوں کے ساتھ قلعہ پالم پہنچ کر انہیں گرفتار کرلیا۔ کافی قانونی کارروائیوں کے بعد (جو سب کی سب یکطرفہ تھیں) ۸/اگست ۱۸۳۵ء بروز سہ شنبہ Alexander John نے یہ فیصلہ کیا کہ نواب شمس الدین اور کریم خاں کو مجمع عام میں پھانسی دے دی جائے۔ 

    ۲۶/اگست ۱۸۳۵ء کی دوپہر کو جامع مسجد فتح پوری چاندنی چوک میں کریم خاں کو پھانسی پر لٹکادیا گیا اور ۸/اکتوبر ۱۸۳۵ء بروز پنچ شنبہ ۸بجے دن نواب شمس الدین خاں کو کشمیری دروازے کے باہر کھلی ہوا میں پھانسی دے دی گئی۔ آٹھ ہزار کے مجمع نے نواب شمس الدین کو قدم شریف میں دفن کردیا۔ 

    وقت گزرتا رہا۔ مرزا داغؔ اپنی خالہ کے ساتھ رام پور چلے گئے اور وزیر خانم کا غم بھی آہستہ آہستہ کم ہوا۔ تقریباً سات سال بعد ۱۱/اگست ۱۸۴۲ء بروز جمعرات، وزیر خانم کا نکاح نواب شمس الدین کی بہن جہانگیرہ بیگم کے جیٹھ آغا مرزا تراب علی سے دو طریقوں سے، پہلے بطریق اہل سنت اور پھر بطریق اثنا عشریہ ہوا۔ وزیر خانم کو مدتوں بعد محسوس ہوا کہ امن و امان اور سلامتی کے چاند اس کے گرد ہالہ کیے ہوئے ہیں اور خارجی دنیا کی کریہہ ظلمت اب اسے اور اس کے بیٹے نواب مرزا کو بھی نہ چھو سکے گی۔ جون ۱۸۴۳ء کو وزیر خانم کو ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام شاہ محمد آغا مرزا رکھا گیا۔ آگے چل کر وہ شائقؔ اور شاغلؔ کے نام سے مشہور ہوا۔ 

    نومبر ۱۸۴۳ء کا آغاز تھا جب آغا مرزا تراب علی نے ہاتھیوں اور گھوڑوں کی خریداری کے لیے سون پور (بہار) جانے کا قصد کیا۔ ہندوستان میں جانوروں کا سب سے بڑا میلہ وہاں ہر سال پُوس کی تیسری تاریخ سے لے کر وسط ماگھ یعنی مکرشنکرانتی کے دن (۱۴/جنوری تک) دریائے گنڈک کے کنارے ایک وسیع میدان میں لگتا تھا۔ ۱۵/اگہن مطابق ۹/دسمبر ۱۸۴۳ء کو مرزا آغا نے اپنے قافلے کے ساتھ سون پور کے لیے کوچ کیا۔ خشکی اور پانی کا سفر کرتے ہوئے بیس دن کے بعد ۲۹/دسمبر کو دن چڑھے ان کا قافلہ بخیروعافیت سون پور پہنچ گیا۔ وہاں مرزا تراب علی کا کاروبار بہت تیز اور منافع بخش رہا۔ 

    سون پور سے واپسی مانک پور روڈ سے ہوئی۔ تراب علی کا ایک تجربہ کار سائیس منیر خاں نے متنبہ کیا کہ یہ راستہ پرخطر ہے یہاں ٹھگ راہ گیروں کو لوٹ کر مار ڈالتے ہیں لیکن آغامرزا تراب علی نے سائیس کی بات یہ ے کہہ کر ٹال دی کہ انگریز اس قوم کا قلع قمع کرچکے ہیں۔ منیر خاں کی بات سچ ثابت ہوئی جب یہ قافلہ فتح پور ہسوہ سے آگے بڑھا تو درجنوں ٹھگوں نے مکاری سے قافلہ لوٹ لیا۔ مرزا آغا اور ان کے ساتھیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور ایک بڑے گڑھے میں مردوں کو دفن کردیا۔ 

    مرزا تراب علی نے اپنے ساتھیوں کا ایک قافلہ بذریعہ کشتی بھی روانہ کیا تھا۔ قافلے کا سردار داروغہ شاہنواز خاں اور منیر خاں نے کاٹھیاواڑے کے حبشی النسل سیدیوں کی مدد سے اس مقام کا پتہ لگایا جہاں ٹھگوں نے لاشوں کو دفن کیا تھا۔ ان لاشوں کو وہاں سے نکال کر قائم گنج میں دوبارہ دفن کیا گیا۔ پانچویں دن کی شام کو سوگواروں کا یہ قافلہ رام پور پہنچا۔ وزیر خانم نے جب یہ بری خبر سنی تو اس پر سکتہ طاری ہوگیا۔ 

    نوٹ: اس موقع پر ’’زخمی سانپ‘‘ اور ’’کسّی‘‘ کی ذیلی سرخیاں قائم کرکے فاروقی نے ٹھگوں کی مختصر مگر کارآمد تاریخ بیان کی ہے خاص طور پر اس قابل نفریں گروہ کی پیشہ وارانہ اصطلاحات کا ذکر کرکے قارئین کے علم میں قابل قدر اضافہ کیا ہے۔ چونکہ مرزا کے قاتل ٹھگ تھے اس لیے ناول کا یہ حصہ قطعاً غیر ضروری محسوس نہیں ہوتا۔ مہاکالی کے حوالے سے جو باتیں کہیں گئی ہیں ان کا ٹھگی سے گہرا رشتہ ہے اس لیے یہ بات افسانہ ہوکر بھی حقیقت معلوم ہوتی ہے۔ اسی لیے ہم غیرضروری سمجھ کر بھی اس سے صَرف نظر نہیں کرسکتے۔ 

    مرزا تراب علی کی بے وقت اور اندوہناک موت کے بعد ایک بار پھر وزیر خانم پر پیغمبری وقت آن پڑا۔ مرزا آغا کے قریبی اعزہ میں ایک بیوہ بہن نور فاطمہ اور بوڑھی بیوہ پھوپھی امیر النسا تھیں۔ وزیر خانم اپنا بچہ لے کر مرحوم آغا کے پرانے مکان میں منتقل ہوگئی اور نواب مرزا کو ان کی منجھلی خالہ کے پاس بھیج دیا۔ حبیبہ اور راحت افزا وزیر خانم کے ساتھ رہیں۔ ایک طرف راحت افزا کی شادی کی فکر وزیر خانم کو ستائے جارہی تھی تو دوسری طرف سسرال کی بیوہ نند اور پھوپھی ساس ہر وقت وزیر کو طعنے مارتیں کی اس نے جس کا بھی ہاتھ پکڑا وہ چل بسا۔ کچھ دنوں کے بعد اب یوسف علی خاں کے والد نواب محمد سعید خاں والیِ رام پور نے وزیر خانم کو اپنے پاس بلالیا اور راحت افزا کی شادی بڑی دھوم دھام سے کرائی۔ 

    دلی میں بہادر شاہ ثانی کا عہد حکومت کافی پرسکون اور پرشکوہ تھا لیکن وزیر خانم کا دل رنج و غم سے بھرا ہوا تھا۔ وہ اپنی بہن منجھلی بیگم پر زیادہ بوجھ ڈالنا نہیں چاہتی تھی لہٰذا رام پور سے شاہ محمد آغا اور نواب مرزا کو لے کر دلی چلی آئی لیکن دلی شہر اور شاہ جہاں آباد اسے کاٹے کھاتا تھا۔ نواب مرزا کی تعلیم البتہ اب رک گئی تھی۔ ملا غیاث رام پوری کی عمدہ تعلیم اور انتھک محنت کی بدولت وہ فارسی اور تاریخ و فلسفہ میں اپنے ہم عمروں میں بڑھ کر تھا۔ اسے یقین تھا کہ ایک دن وہ بہت اچھا شاعر اور استاد بن جائے گا۔ حافظ اتنا اچھا تھا کہ فارسی اور اردو کے ہزاروں اشعار یاد تھے۔ وہ زود گوئی میں بھی کمال رکھتا تھا۔ بہت جلد ہی نواب مرزا کا نام زبانوں پر چڑھ کر سارے شہر میں مشہور ہوچکا تھا خود مرزا غالب جیسے شاعر کو فکر تھی کہ اس ہونہار لڑکے کو بلواکر اس کی ہمت افزائی کریں اور ایسا کیا بھی۔ 

    انہیں دنوں خواجہ حیدر علی آتش کی ایک تازہ غزل لکھنؤ سے دہلی آئی جس کا مطلع تھا، 

    مگر اس کو فریب نرگسِ مستانہ آتا ہے 
    اُلٹتی ہیں صفیں، گردش میں جب پیمانہ آتا ہے 

    مصرع اول کو طرح بناکر بہت سے شعراے دہلی نے غزل کہی۔ جس میں نواب مرزا کے اشعار یوں تھے، 

    رخِ روشن کے آگے شمع رکھ کر وہ یہ کہتے ہیں 
    اُدھر جاتا ہے د یکھیں یا اِدھر پروانہ آتا ہے 

    دغا شوخی شرارت بے حیائی فتنہ پردازی
    تجھے کچھ اور بھی اے نرگس مستانہ آتا ہے 

    ایک دن نواب مرزا قدم شریف میں اپنے والد کی قبر پر فاتحہ پڑھ کر واپس ہو رہا تھا کہ صدر دروازے پر ایک خوبرو اور وجہیہ شخص ہوادار (۲۰) میں بیٹھا تھا۔ وہ شخص مرزا فتح الملک بہادر شاہ ظفر کے تیسرے بیٹے مرزا فخرو اور ہونے والے ولی عہد تھے۔ نواب مرزا نے پاس پہنچ کر کورنش (۲۱) بجالائی اور درگاہ سے نکلنے ہی والا تھا کہ ایک چوبدار (۲۲) نے نواب مرزا سے کہا کہ صاحب عالم و عالیمان یاد فرماتے ہیں۔ نواب مرزا کے سامنے آتے ہی صاحب عالم نے کہا، 

    جیتے رہو، ہمیں تمہاری مؤذب کورنش پسند آئی۔ کیا نام ہے تمہارا۔ کس کے بیٹے ہو؟ س۔۔۔ سرکار م۔۔۔ میں نواب شم۔۔۔ شمس الدین احمد خاں کا بیٹا ہوں، نواب مرزا مجھے کہتے ہیں۔ 

    اچھا۔ شمس الدین احمد والیِ فیروز پور جھرکہ ولوہارو کے فرزند ہو؟

    سرکار نے درست فرمایا۔ 

    بھئی سبحان اللہ رئیسانہ سبھاؤ کے شخص تھے، یہیں مدفون ہیں اور تم لوگ اب۔۔۔؟

    وہ۔۔۔ تمہاری والی۔۔۔ اتنا کہہ کر شہزادے نے توقف کیا۔ اسے شاید خیال آگیا کہ مستوارت کے بارے میں کچھ پوچھنا تہذیب کے خلاف ہے۔ اچھا ہمارا سلام کہنا۔ 

    نواب مرزا کو شہزادے کے بارے میں کچھ زیادہ معلوم نہ تھا۔ اِدھر اُدھر سے پتہ لگایا تو صرف اتنا معلوم ہوا کہ شاعر بھی ہیں۔ رمز تخلص کرتے ہیں اور استاد ذوق کے شاگرد ہیں۔ 

    نواب مرزا نے گھر آکر اپنی ماں کو شہزادے سے ملاقات کا ذکر کیا۔ وزیر چپ چاپ سنتی رہی۔ بعد میں وزیر خانم اپنی خادمہ حبیب النسا سے میرزا فتح الملک کے بارے میں محتلف سوالات پوچھتی رہی۔ حبیبہ نے شہزادے کے بارے میں بڑی امید افزا باتیں بتائیں۔ آخر میں یہ تجویز رکھی کہ چلیے بائی جی سے پوچھ لیں۔ 

    دوسرے دن حبیبہ اور وزیر خانم بائی جی کے یہاں پہنچیں۔ کوڑیاں گن کر بائی جی نے کہا کہ تمہیں نواب شمس الدین کو چھوڑنا ہوگا کیونکہ قلعے کی بیگمات کھلے عام مزاروں پر نہیں جاتی ہیں۔ وہاں پردے کا بڑا اہتمام ہے۔ 

    تو بائی جی کا حکم ہے کہ میں قلعے کا پیغام قبول کرلوں؟

    ہمارا کچھ حکم نہیں بابا۔۔۔ یہ امور ہونے والے ہیں!

    اور اس کے بعد میرے دکھ دور ہوجائیں گے بائی جی صاحب؟

    دکھ، سکھ تو دھوپ چھاؤں کی طرح ہیں۔ ہر چیز تغیر پذیر ہے، قلعے کی بادشاہت کے بھی دن کبھی پورے ہوں گے۔ 

    مولانا امام بخش صہبائی اور حکیم احسن اللہ کی مدد سے ۲۴/جنوری ۱۸۴۵ء کو وزیر خانم کا نکاح بعد نماز مغرب فتح الملک مرزا فخرو کے ساتھ بہت دھوم دھام سے ہوگیا۔ قلعہ معلیٰ میں بہ طور خاص مبارک سلامت کی بارش ہو رہی تھی۔ وزیر خانم کو ’’شوکت محل‘‘ کا خطاب دیا گیا۔ نواب مرزا اور شاہ محمد آغا کی پرورش کا بھی خاطر خواہ انتظام کیا گیا۔ کئی ہفتوں تک دعوتوں اور ضیافتوں کا دور چلتا رہا۔ گویا وزیر خانم کی زندگی میں ایک نیا سورج طلوع ہوا۔ شادی کے بعد اِدھر تو وزیر خانم بادشاہ وقت کی بہو بنیں اور اُدھر نواب مرزا کی شادی فاطمہ رفاعی کے ساتھ ہوگئی۔ وزیر خانم اپنی خوش نصیبی پر نازاں تھی مگر تقدیر دور کھڑی ہنس رہی تھی۔ ہر کمالے را زوال کے مصداق وزیر کے آفتاب مسرت کو بھی گہن لگنے والا تھا۔ وزیر خانم کو مرزا فخرو سے ایک بیٹا (خورشید مرزا) پیدا ہوا۔ دوبارہ محل میں خوشیاں منائی گئیں اور مٹھائیاں تقسیم ہوئیں۔ لیکن افسوس کہ وہ منحوس گھڑی آکر رہی جس سے وزیر ہمیشہ ڈراکرتی تھی۔ 

    ۱۰/جولائی ۱۸۶۵ء کو مرزا فخرو نے بعارضۂ ہیضہ انتقال کیا۔ وزیر خانم نے اپنا منھ پیٹ لیا۔ بجائے اس کے کہ وزیر خانم کی ساس زینت محل اس بیوہ غمزدہ پر رحم کرتیں اسے نہایت بے رحمی سے محل سے نکل جانے کا حکم دے دیا۔ وزیر خانم ان سے خوب لفظی لنگ کی لیکن آخر نتیجہ صرف اتنا رہا کہ،

    ’’شاخوں پہ جلے ہوئے بسیرے۔‘‘ 
    (ناصر کاظمی)

    ’’اگلے دن مغرب کے بعد قلعۂ مبارک کے لاہوری دروازے سے ایک چھوٹا سا قافلہ باہر نکلا۔ ایک پالکی میں وزیر۔ ایک بہل پر اس کا اثاث البیت اور پالکی کے دائیں بائیں گھوڑوں پر نواب مرزا اور خورشید مرزا۔ دونوں کی پشت سیدھی اور گردن تنی ہوئی تھی۔ محافظ خانے والوں نے روکنے کے لیے ہاتھ پھیلائے تو مرزا خورشید عالم نے ایک ایک مٹھی اٹھنیاں چونیاں دونوں طرف لٹائیں اور یوں ہی سراٹھائے ہوئے نکل گئے۔ ان کے چہرے ہر طرح کے تاثر سے عاری تھے لیکن پالکی کے بھاری پردوں کے پیچھے چادر میں لپٹی اور سرجھکائے بیٹھی ہوئی وزیر خانم کو کچھ نظر نہ آتا تھا۔‘‘ 4

    درج بالا اقتباس ناول کا اختتامیہ ہے۔ تقدیر ایک مرتبہ پھر وزیر خانم کو وقت کے بھنور میں ڈھکیل دیتی ہے۔ ناول نگار نے وزیر خانم کے کردار کے حوالے سے انیسویں صدی کے مرد مرکوز معاشرہ میں ایک عورت کے ذریعہ اپنی شناحت قائم کرنے کی جدوجہد کو موثر انداز میں پیش کیا ہے۔ اس جدوجہد کے دوران اس کی زندگی میں جو مختلف موڑ آتے ہیں اور ان مراحل میں وہ جن اشخاص کے رابطے میں آتی ہے وہ اس عہد میں ہندوستان کی سیاسی اور ادبی تاریخ میں قابل ذکر اور اہم مقام کے حامل ہیں۔ ناول نگار نے ناول کے مرکزی کردار کے حوالے سے اس پورے عہد کی تاریخ کو زندہ کردیا ہے۔ 

    آٹھ سو پینتالیس صفحات پر مشتمل اس ضخیم ناول کا خلاصہ چند صفحات میں پیش کرنا سمندر کو کوزے میں بند کرنے جیسا عمل ہے۔ اس مشکل کے باوصف یہ کوشش کی گئی ہے کہ خلاصہ پیش کرتے وقت ان اہم نکات کو بیان کر دیا جائے جو ناول کے تخلیقی منظرنامہ کو نمایاں کردیں۔

     

    حاشیے
    (۱) کئی چاند تھے سرِآسماں، ص ۲۲۔ ۲۳
    (۲) کئی چاند تھے سرِآسماں، ص ۲۲۵
    (۳) ایضاً، ص ۲۳۷
    (۴) کئی چاند تھے سرِ آسماں، ص ۸۴۵ 


    مأخذ:

    کئی چاند تھے سر آسماں (Pg. 83)

    • مصنف: رشید اشرف خان
      • ناشر: رشید اشرف خان
      • سن اشاعت: 2017

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے