Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

خالدہ حسین

شمیم حنفی

خالدہ حسین

شمیم حنفی

MORE BYشمیم حنفی

    (ہیں خواب میں ہنوز جو جاگے ہیں خواب میں)

    مجھے خالدہ حسین کی کہانیاں بہت پسند ہیں۔ یہ کہانیاں کئی سطحوں پر اردو کے افسانوی ادب میں اپنی ایک خاص پہچان رکھتی ہیں۔ نئے افسانے کی تعمیر میں قرۃ العین حیدر کے ساتھ، دو اور خواتین کے نام سب سے پہلے ذہن میں آتے ہیں۔ ایک تو مرحومہ ممتاز شیریں جنہوں نے فکشن کی تنقید کو ایک نئی جہت دی اور پہلے سے کہیں زیادہ وسیع تناظر کے ساتھ افسانے کی صنف کے مختلف پہلوؤں اور رمزوں کا جائزہ لیا۔ وہ ایک ہنر مند قصہ گو بھی تھیں، لیکن اتنا طے ہے کہ انہیں افسانے لکھنے سے زیادہ افسانے کے اسرار کو سمجھنے کا فن آتا تھا۔ وہ اس فن کے بہترین نقادوں میں شمار کی جاسکتی ہیں۔ خالدہ حسین نے افسانے کے مضمرات پر بحث بہت کم کی ہے، وہ بھی غیررسمی انداز میں، لیکن اپنی گنتی کی ابتدائی کہانیوں کے ساتھ ہی انہوں نے یہ خاموش اعلان کردیا تھا کہ نئے افسانے کے افق پر ایک منفرد، مختلف، غیرمعمولی، غیررسمی اور نئے بھیدوں سے بھری ہوئی حسیت کاظہور ہوا ہے۔ خالدہ حسین کی حسیت کے عناصر ان کے بیشتر ہم عصروں سے مختلف یوں تھے کہ انہوں نے فکشن کی مقامی روایتوں اور اردو فکشن کے اسالیب سے زیادہ مطالعہ مغرب کے افسانوی ادب کا کیا تھا۔ نئے افسانے کے ساتھ فکشن کی جس روایت کو ہمارے یہاں ترقی ملی، وہ اردو، ہندی یا ہماری علاقائی زبانوں کے فکشن کی روایت نہیں ہے۔ یہ تو صرف انتظار حسین کا کارنامہ ہے کہ انہی کے واسطے سے اردو کے نئے فکشن پر گفتگو میں داستان، قصص، ملفوظات، وچن مالا اور کتھا کے حوالے عام ہوئے۔ نئے فکشن کے مضمرات پر ان سے پہلے الف لیلہ اور جاتک، اور کتھاسرت ساگر اور پنچ تنتر کے سیاق میں سوچ بچار کا چلن نہ ہونے کے برابر تھا۔

    پریم چند سے لے کر منٹو اور بیدی تک، ہمارے یہاں افسانے کی بحث میں فکشن سے وابستہ جو نام لیے جاتے تھے ان کا تعلق بالعموم انگریزی، فرانسیسی، روسی اور جرمن، اطالوی، ہسپانوی یا چینی زبان کے فکشن سے تھا۔ سب سے زیادہ ذکر اوہنری، موپساں، گوگول، چیخوف، گورکی، ٹالسٹائی، لوہسون کا ہوتا تھا۔ یلدرم کے وسیلے سے ترکی افسانوں کا اور اس طرح بالواسطہ طور پر یورپی اسالیب کے زیر اثر پنپنے والے کچھ اسالیب اور عربی فکشن کے کچھ ترجموں کا تذکرہ جن میں اکثریت خلیل جبران اور منفلوطی کے تراجم کی تھی، گاہے ماہے سنائی دیتا تھا، مگر ممتاز شیریں سے پہلے، فرانسیسی، روسی یا انگریزی افسانے اسرار اور رموز پر ہمارے یہاں کسی نے کم ہی نظر ڈالی تھی۔ اسی طرح فکشن میں ترقی پسند تحریک او رحلقۂ ارباب ذوق کے زیر اثر پنپنے والے میلانات کے واسطے سے اکا دکا مغربی فکشن کے نمائندوں کا یا فرائڈ اور تحلیل نفسی کا تذکرہ تو چل نکلا تھا لیکن قرۃ العین حیدر اور خالدہ اصغر (حسین) سے پہلے فکشن کی مغربی روایات اور اسالیب کا شعور زیادہ عام نہیں تھا، خالدہ حسین نے اردو کی نئی کہانی کو ایک نئی سطح پر سوچنا سکھایا۔

    (۲)

    یہ فکشن کی ایک نئی، ملائم اور موہنی آواز تھی، پچھلی تمام آوازوں سے الگ، منفرد اور ذہین بصیرتوں سے معمور۔ خالدہ حسین کے یہاں نئے فکشن کے شعور نے ایک عجیب و غریب شخصی اور اسی کے ساتھ ساتھ ہمہ گیر حسی اور فکری کائنات سے اپنا رشتہ قائم کرلیا تھا۔ بیسویں صدی کی ساتویں دہائی کے دوران خالدہ اصغر (حسین) کی چند کہانیاں رسالوں میں چھپیں اور اشاعت کے ساتھ ہی نئے ادب کے سنجیدہ قارئین کے لیے یہ نام توجہ کا مرکز بن گیا۔ الطاف فاطمہ، نکہت حسن، رضیہ فصیح احمد کے نام بھی اسی دور میں ابھرے، مگر خالدہ اصغر کی کہانیوں کا تاثر نسبتاً زیادہ گہرا، روشن اور دیرپا تھا۔ قرۃ العین حیدر کی طرح، خالدہ اصغر کے اسلوب میں بھی تازہ کاری اور کشش بہت تھی۔ سنجیدہ پڑھنے والوں کے ساتھ ساتھ ان کے ہم عصر لکھنے و الے بھی ان سے متاثر ہوئے، اس حد تک کہ ان کی باقاعدہ نقل کی جانے لگی۔ خالدہ اصغر کی کہانی ’’سواری‘‘ تو اس حد تک مشہور ہوئی کہ قرۃ العین حیدر نے انگریزی میں اس کا ترجمہ شائع کیا (The Wagon کے عنوان سے السٹریٹڈویکلی آف انڈیا میں) اور کچھ عرصہ بعد غیاث احمد گدی نے اپنی معروف کہانی ’’پرندہ پکڑنے والی گاڑی‘‘ اس انداز سے لکھی کہ ان کی کہانی پڑھتے وقت ان سے پہلے خالدہ اصغر اور ’’سواری‘‘ کا خیال لازماً آتا ہے۔

    اردو کی ادبی روایت میں بیسویں صدی کی ساتویں دہائی کا دور مارکس، اینگلز، فرائڈ کے خیالات سے آگے، ایک نئے شعور، ایک نئی حسیت کی تشکیل و تعمیر کا دور تھا۔ سماجی حقیقت نگاری اور تحلیل نفسی، دونوں کا دائرہ اقتدار بتدریج سمٹنے لگا تھا۔ شاعری میں راشد، فیض اور میراجی سے آگے، فکشن میں منٹو، بیدی، غلام عباس، ممتاز مفتی سے آگے، تخلیقی احساس اور تجربے کی نئی، نایافت دنیا کا سراغ پانے اور نئی انسانی صورت حال کو سمجھنے سمجھانے کی روش چل نکلی تھی۔ انتظار حسین کے علاوہ، نئے افسانے کی محفل میں، اب جو نئے نام سب سے آگے اور روشن دکھائی دیے، وہ خالدہ اصغر، انور سجاد، سریندر پرکاش، بلراج مین را کے نام ہیں۔ اس دوران میں کچھ بہت اچھی کہانیاں ضمیرالدین احمد، عبداللہ حسین اور ہندوستان پاکستان کے کچھ اور نئے افسانے نگاروں (مثلاً مسعود اشعر، محمد منشایاد، حسن منظر، اسد محمد خاں، اکرام اللہ، رشید امجد، مظہر الاسلام، محمدسلیم الرحمن اور قدرے دیر سے مرزا حامد بیگ اور نیرمسعود) نے بھی لکھیں، لیکن ان کا تاثر بعد میں مرتب ہوا۔

    یہی زمانہ تھا جب علامتی اور تجریدی کہانی، ’’اَکہانی‘‘یا anti-story کے جو انکھوے منٹو کی کہانی ’پھندنے‘ کی تہہ سے نمودار ہوئے تھے، دیکھتے دیکھتے پودوں کی شکل میں لہلہانے لگے۔ نئے افسانے کی شعریات مرتب کرنے والوں میں اکا دکا آوازیں یہ بھی سنائی دیں کہ اب شاعری اور افسانے کا فرق مٹ چکا ہے۔ بے شک، کوئی واضح اور متعین حد پہلے بھی نثر و نظم کی ان صنفوں میں امتیاز قائم نہیں کرسکی تھی۔ اس سلسلے میں کسی قطعی ضابطے پر اصرار کا جواز مشکل ہے۔ لیکن اس سے یہ سمجھ لینا کہ نظم اور افسانے کا فرق مٹادینا چاہیے، ایک طرح کی غیرذمے داری کو راہ دینا تھا۔ اس رویے کا انجام نئے افسانے کی قبولیت کے سمٹتے ہوے دائرے کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔ ٹھوس اور concrete ایمیج خلق نہ کرسکنے کی معذوری کا صرف تجریدی یا abstract ایمیجز (images) کے طورپر سامنے آنا ہمیشہ بار آور یا بامعنی نہیں ہوسکتا تھا۔ علامتی افسانے اس دور میں انتظار حسین سے لے کر سریندر پرکاش، انور سجاد اور بلراج مین را تک، تقریباً سبھی قابل ذکر افسانہ نگاروں نے لکھے۔ منٹو کی ’’پھندنے‘’فکشن کے بیانیہ کی بہت مرموز، بہت معنی خیز اور بہت تخلیقی توسیع تھی۔ اس سے براہ راست یا بالواسطہ استفادہ بعد کے کئی افسانہ نگاروں نے کیا۔ ان میں انور سجاد، بلراج مین را سے لے کر سمیع آہوجہ تک بہتوں کے نام لیے جاسکتے ہیں۔ لیکن نہ تو سب کی کوششیں یکساں طور پر کامیاب ہوئیں، نہ ان میں سے ہر ایک کا اعتبار ایک سی سطح پر قائم ہوسکا۔

    (۳)

    خالدہ اصغر (حسین) اس سارے قضیے سے بے نیاز، اپنی کہانی لکھتی رہیں۔ نئے افسانے سے متعلق کسی فقہی بحث میں انہوں نے حصہ نہیں لیا۔ نئے افسانے کے کینوس پر اپنا واضح نقش ثبت کرنے کے باوجود، وہ ایک مانوس اجنبی کی طرح نئی کہانی لکھنے والوں کی بزم میں شامل بھی رہیں اور اس سے الگ بھی رہیں۔ لیکن مشکل سے درجن بھر کہانیاں لکھ کر، اردو کے نئے افسانے کی بنیادیں مستحکم کرنے والوں میں ان کا شمار کیا جانا، ایک بہت بڑی تخلیقی واردات تھی۔ جس غیر معمولی لیکن خاموش طاقت کے ساتھ خالدہ اصغر کا نام نئے افسانے کے افق پر نمودا رہوا تھا، اسی انہونے طریقے سے اچانک وہ غائب بھی ہوگئیں۔ ان کا تذکرہ نئے افسانے کے حال کے بجائے اس کے ماضی کے حوالے سے کیا جانے لگا۔ لیکن ان کا تخلیقی سحر مستحکم تھا اور اس کے اثر سے اردو کا نیا افسانہ نکل نہیں سکتا تھا۔ لہٰذا، خالدہ اصغر، اس کا ایک مستقل مگر گم شدہ حوالہ بن گئیں۔

    بلراج مین را نے ’شعور‘ سے پہلے (شاہد ماہلی کے اشتراک سے) ’معیار‘ کی اشاعت کاڈول ڈالا تو انہیں اپنے عہد کی تخلیقی تعبیر کرنے والوں میں سب سے پہلے جو نام یاد آئے ان میں ایک نام خالدہ اصغر کابھی تھا۔ ’سویرا‘ اور بعض دوسرے رسالوں کی گرد آلود فائل سے انہوں نے خالدہ اصغر کی کہانیوں کے تراشے یکجا کیے۔ ان میں سے زیادہ تر کہانیا ں میں نے پڑھ رکھی تھیں۔ اب جو بلراج مین را کی تحریک پر انہیں ایک بار پھر سے اور ایک ساتھ پڑھنے کا موقعہ ملا تو دماغ کے کسی گوشے میں یہ احساس بھی جاگا کہ خالدہ اصغر کی غیرمتوقع خاموشی نے نئے اردو افسانے کے کتنے بڑے اور روشن امکان کا دروازہ اچانک بند کردیا ہے۔ یہ تو ایسا ہی ہے جیسے ہوا کا ایک سبک اور ناصبور جھونکا بغیر کسی معلوم سبب کے دفعتاً ٹھہر جائے۔ اس واقعے کے کچھ عرصہ بعد خالدہ اصغر نے خالدہ حسین کے نام سے دوبارہ سرحد اظہار میں قدم رکھا، اور ان سے دلی میں ملاقات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ اب وہ ایک طویل (اور اسرار آمیز) خاموشی کے بعد پھر سے لکھنے لگی ہیں۔ تو کیا وہ اپنے ادراک کا سرا کھوبیٹھی تھیں اور اب اسے انہوں نے دوبارہ دریافت کرلیا تھا؟ معلوم نہیں۔ مگر اتنا طے ہے کہ خالدہ حسین کی تخلیقی حسیت کے رابطے ان کے زمان و مکاں سے ان کی خاموشی اور اظہار کے منطقوں میں یکساں طور پر استوار رہے۔ اپنے وقت سے یہ ایک مستحکم رشتے کی نشاندہی ہے۔

    خالدہ حسین کی ابتدائی (پرانی) کہانیوں کے حوالے سے موجودہ انسانی صورت حال اور انسانی مقدرات کے جو تماشے سامنے آئے تھے، اس کے ایک امتیازی پہلو کی طرف اشارہ ضروری ہے۔ ہمارے بیشتر لکھنے والے ان دنوں ’’نئے معاشرے کے تنہا آدمی‘‘ کا تذکرہ مسلسل کیے جارہے تھے۔ نئی حسیت کی ایک بندھی ٹکی زبان، کچھ متین علامتیں، اظہار کے کچھ خاص سانچے، طے شدہ مضامین اور تجربوں کی ایک تکرار آیز دنیا، ہمارے سامنے تھی۔ ترقی پسند افسانے کے مقابلے میں اپنا الگ تشخص قائم کرنے کی ایک مصنوعی جدوجہد کا نتیجہ یہ ہوا تھا کہ اب نیا افسانہ نگار اجتماعی زندگی میں صرف De-Humanization اور Fragmentation کے ادراک تک محدود ہوکر رہ گیا تھا۔ نیاپن اور جدت پسندی بہت جلد روایت اور رسم بن گئی۔ نئی شاعری اور نئے فکشن، دونوں میں ایک طرح کی یکسانیت زدہ تخلیقی نقالی کا دور شروع ہوگیا۔ پھر معدودے چند لکھنے والوں کے سوا، جن کی انفرادیت اپنا نقش و نشان مرتسم کرنے میں کامیاب ہوئی، اکثریت بے چہرہ ہوتی گئی۔ قرۃ العین حیدر، انتظار حسین، مین را، انور سجاد، سریندر پرکاش، خالدہ حسین سے نیر مسعود تک بس گنتی کے کچھ لکھنے والے ہیں جن کے حوالے سے اردو کے نئے افسانے پر بات چیت کی جاسکتی ہے۔ اس چھوٹی سی فہرست میں سب سے نمایاں نام اسد محمد خاں، مسعود اشعر اور حسن منظر کے ہوں گے۔

    یہاں خالدہ حسین کے دو امتیازی پہلوؤں کا تذکرہ ضروری ہے۔ ایک تویہ کہ انہوں نے نئے افسانہ نگاروں میں شاید سب سے زیادہ فطری، آورد کے خفیف ترین عناصر سے آزاد اور بے تصنع (effortless) زبان لکھی ہے۔ وہ کشش اور ارادہ کرکے آسان زبان نہیں لکھتیں۔ آسان زبان بجائے خود ان کی حسیت کا طواف کرتی ہے۔ بہ قول غالب شعر خود خواہش آں کرد کہ گرد دفن ما۔ اسی لیے، ان کی کوئی بھی کہانی کسی انہونی، غیرمعمولی اور انوکھی واردات کا تاثر مرتب نہیں کرتی۔ ان کی کہانی میں وہی کچھ ہوتا ہے جو ہمیشہ سے ہوتا چلا آیا ہے، اس فرق کے ساتھ کہ وقت نے اس کے مکانی حوالے تبدیل کردیے ہیں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ خالدہ حسین کے کردار ’’نئے معاشرے‘‘ کے روایتی ’’تنہا آدمی‘‘ کی جگہ اس آدمی کا چہرہ سامنے لاتے ہیں جو اپنے آپ میں تنہا ہے۔ معاشرہ اور ماحول بکھرا ہوا، ٹوٹا ہوا، fragmented ہو تو ہو، وہ خود بھی اپنے آپ میں اکیلا ہے۔

    (۴)

    خالدہ حسین کی جو کتابیں، تاحال سامنے آئی ہیں ان میں سے ہمارے پریشاں ساماں زمانے کے ایک انتہائی منظم اور حساس لکھنے والے کی تصویر ابھرتی ہے۔ ان کی دنیا خواب اور حقیقت کے ملے جلے عناصر کی دنیا ہے اور اس کا تانابانا صرف گردوپیش کے ماحول کی خارجی پرت کا پابند نہیں ہے۔ تاریخ سے تو کوئی بھی اپنے آپ کو الگ نہیں کرسکتا اور دور پاس رونما ہونے والے واقعات ہم سب کے احساسات کا تعاقب کرتے ہیں۔ لیکن مشاہدے اور تجربے میں آنے والی واردات کو تاریخ کے جبر سے رہا کرنے کی ذمہ داری بھی تخلیقی کام کرنے والوں پر ہی عاید ہوتی ہے۔ خالدہ حسین کے افسانوں کی دوسری کتاب ’دروازہ‘ کے ابتدائیے میں ڈاکٹر محمد اجمل نے لکھا ہے کہ خالدہ حسین کے افسانے ’’سحر‘‘ کی ایک دائم و قائم کیفیت سے مشروط ہوتے ہیں۔۔۔

    یہ فضا طلسمی بھی ہے اور دل آویز بھی۔ اس فضا میں انسان کی ذات کا طلسم ایسا جالا بنتا ہے کہ اس میں سے نکلنا مشکل ہوجاتا ہے۔

    انہوں نے ہمارے ہاں داخلی خارجیت کے اسلوب کی طرح ڈالی ہے۔ ان کے ہر افسانے میں علامتیں پھیلی ہوئی ہیں۔ انہی علامتوں کی بدولت ان کے افسانوں پر ایک مستقل جذبۂ حیرت طاری رہتا ہے، اور یہی جذبۂ حیرت ان کے لیے تحریک کا موجب بنتا ہے۔ اس جذبۂ حیرت کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ زندگی کی معمولی باتوں پر پیدا ہوتا ہے اور معمولی باتوں سے اس کا تعلق اس کی شدت کو کم نہیں کرتا۔ زندگی کی معمولی باتوں سے دلچسپی زندگی کی اساس ہے۔

    خالدہ حسین کے افسانوں میں اس بلیغ نکتے کی دریافت ان کے تخلیقی مزاج کی ایک بنیادی خوبی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ زندگی کے معمول اور معمولی چیزوں کے ادراک سے ایک بھرے پرے علامتی نظام کو وضع کرنے کی کوشش، ایک پیچیدہ اور بالواسطہ تخلیقی سرگرمی کی نشاندہی کرتی ہے۔ خالدہ حسین کی کہانیاں، اسی لیے، بہ ظاہر جتنی سادہ اور سہل دکھائی دیتی ہیں، اتنی سادہ اور سہل نہیں ہیں۔ وہ چھوٹے بڑے بے ساختہ جملوں، سامنے کی باتوں اور مانوس اشیاء اور اشخاص سے متعلق تفصیلات کے سہارے ایک عجیب و غریب نقشہ ترتیب دیتی ہیں، ایک ساتھ ہماری کئی حسوں کو متوجہ کرتی ہیں اور معنی کے معنی کی بہت رمز آمیز سطحوں تک رسائی میں ہماری مدد کرتی ہیں۔ کمال کی بات یہ ہے کہ دھندلکے کا تاثر منتشر کیے بغیر وہ ہمارے گردوپیش کی دنیا اور ہماری باطنی دنیا کے نقوش اور نشانات میں کسی طرح کا الجھاؤ پیدانہیں ہونے دیتیں۔ اسی وجہ سے ان کی خلق کی ہوئی علامتیں کبھی بھی اس حقیقت کا حجاب نہیں بنتیں جس کی نقاب کشائی ان کا مقصود ہوتی ہے۔ ان کی کہانیوں سے، بہ طور مثال، یہ اقتباسات دیکھتے ہیں۔

    اچانک میری نظر سامنے آنے والی ایک عجیب وغریب سواری پر جارکی۔ وہ ایک بہت بڑا گڈھا تھا جسے دو سفید بیل کھینچ رہے تھے۔ بیلوں کی آنکھوں پر سیاہ کھوپے چڑھے تھے اور ناکوں میں موٹے موٹے رسے۔ اور سفید جلد تلے ان کی پسلیاں اور کولھوں کی ہڈیاں سانس لیتی تھیں اور رسوں جڑے نتھنوں سے سانس کی گرم بھاپ اٹھتی تھی۔ گڈھے کے چاروں طرف لکڑی کا جنگلا سا بنا تھا اور اس کے اندر سیاہ پردے تنے تھے۔ دراصل وہ پردے بھی نہ تھے۔ جیسے ہلتی لہریں کھاتی اندھیرے کی دیواریں۔ سامنے سے تھوڑی سی خالی تھی اور سیاہ پردے سے باہر دوگاڑی بان بیٹھے ہڈیوں بھرے اندھے بیلوں کو ہانکتے تھے۔ ان گاڑی بانوں کی شکلیں اندھیرے کی وجہ سے میں نہ دیکھ سکا۔ اور پھر سیاہ کپڑوں پر انہوں نے ملگجی چادروں کی بکلیں بھی مار رکھی تھیں کہ ان کے آدھے آدھے چہرے چھپ گئے تھے۔ ان کے سر جھکے تھے جیسے لمبی مسافت کے بعد نیند کا غلبہ ہو۔۔۔ (سواری)

    تب اس کو خیا ل آتا۔۔۔ چیزیں، بے شمار چیزیں، اس کا گھر اور شہر اور تمام دنیا بے شمار چیزوں سے اٹی پڑی ہے۔ چیزیں جو انسان نے خود بنائیں۔ چیزیں جو وقت کا پیمانہ بنتی ہیں بلکہ وقت ان میں منجمد ہوتا ہے۔ دراصل چیزیں دنیا کو، آدمی کو، اور وجود کو ٹھوس بناتی ہیں ورنہ تو وجود محض ایک تصور ہے۔ (طلسم ہوش ربا)

    یہ بیان خواب کا ہے کہ حقیقت کا اور یہ دریافت مشاہدے کی ہے کہ حواس کی، اس سوال کا جواب نہ تو خالدہ حسین دے سکتی ہیں نہ ان کا قاری۔ یہ ایک انوکھا وصف ہے خالدہ حسین کی کہانی کا، جولکھی تو گئی حقیقتوں کے سیاق میں، لیکن اپنے طور پر بھی اپنا ایک الگ سیاق ڈھونڈ نکالتی ہے اور گردوپیش کی دنیا کے حال کو ایک فرد کے حال سے جوڑدیتی ہے۔ اس طرح خالدہ حسین کی تقریباً تمام کہانیاں ایک سلسلے سے بندھی ہوتی ہیں، کسی ایک معین اور معلوم واقعے سے نہیں۔ قمر جمیل (مرحوم) نے ان کی ایک کہانی ’گوالن‘ کے حوالے سے ایک خط میں انہیں لکھا تھا:

    کہانی خوب ہے۔ کچھ فنٹسی کچھ حقیقت، کچھ سنجیدگی، کچھ طنز، عجیب دھوپ چھاؤں کا عالم ہے۔ Make believe اور Disbelieve کا بھی سنگم ہے۔ مختصر سی کہانی میں آپ نے کچھ داستان کا رنگ اور کچھ حکایت کا انداز پس منظر کے طور پر استعمال کیا ہے۔ بھئی یہ آپ ہی کا حق ہے۔ یہ ایسا راستہ ہے کہ لکھنے والے کے ہوش گم ہوجائیں۔ ان سب باتوں سے الگ مجھے گوالن کی پیتل کی گگری بڑی اچھی لگی۔ بہرحال یہ سب کچھ ایسا لگتا ہے کہ میں آئینے کے اندر دیکھ رہا ہوں کہ سچ بھی ہے اور جھوٹ بھی۔

    (’دنیا زاد‘، کراچی، شمارہ۱۴)

    خواب اور حقیقت کے یکساں ادراک پر مبنی اس پہلو سے قطع نظر، ایک اور جہت جو خالدہ حسین کی کہانیوں کے واسطے سے پڑھنے والے کو فوراً متوجہ کرتی ہے، انفرادی وجود سے ان کا کمٹ منٹ ہے۔ ہزار دوہزار لوگوں کی بھیڑ ان کے لیے ہزار دوہزار افراد یا منفرد ہستیوں کی یکجائی سے عبارت ہے۔ اسی لیے ان کی ’’نگاہ تیز‘‘ ہجوم سے گزرتی ہوئی، بالآخر افراد کے باطن تک جاپہنچتی ہے اور کبھی بھی تعمیمات کے پھیر میں نہیں پڑتی۔ شاید اسی لیے، خالدہ حسین کے تخلیقی رویے میں ایک رچے ہوئے فلسفیانہ مذاق، ایک طرح کی خواص پسندی اور اشرافیت کااحساس بھی ہوتا ہے۔ ان کی کچھ کہانیوں میں یہ آہنگ کچھ زیادہ اونچا ہوگیا ہے۔ لیکن، بالعموم، وہ کسی طرح کا پوز اختیار کرنے سے، مضمون آفرینی کی تصنع آمیز کوشش سے، اپنی کہانیوں کو بچائے رکھتی ہیں۔ اپنے ایک حالیہ مضمون(’دنیازاد‘، کراچی، شمارہ۱۵) میں انہوں نے ’’بدلتی دنیا میں ادب کے کردار‘‘ سے بحث کرتے ہوئے، بہت دوٹوک انداز میں یہ کہا تھا کہ:

    ادیب نہ تو واعظ ہے نہ سوشل ورکر، نہ ہی سیاسی کارکن، وہ صحافت اور صحافتی ادب سے بھی ممتاز ہے۔ مگر اس کا اثر سب سے زیادہ وسیع اور دیرپا ہے کہ وہ براہِ راست لوگوں کے دلوں سے مخاطب ہوتا ہے۔ ان کی چھوٹی بڑی خوشیوں او رغموں، امیدوں اور آرزوؤں کا ہم راز اور موسموں، پرندوں اور ہواؤں اور خوشبوؤں کا اداشناس ہوتا ہے اور جانتا ہے کہ صرف خارجی دنیا کی تسخیر انسان کا واحد نصب العین نہیں، اسے تو اپنے باطن کے لامحدود صحراؤں کو عبور کرنا ہے۔ پس فن کا بنیادی منصب اس تاریکی کو منور کرنا اور باطن کے اس وسیع جنگل میں راستے بنانا ہے تاکہ زندگی کے جھمیلوں میں ہم کہیں یہ نہ بھول بیٹھیں کہ ہمارا اصل مقصد اس دنیا کو ایک بہتر انسانی مسکن بنانا ہے۔

    (۵)

    خالدہ حسین کی حسیت کا ایک نمایاں پہلو، جو ان کے افسانوں اور ان کے ناول پر براہِ راست طریقے سے اثرانداز ہوا ہے، زبان و بیان کی سطح کے ساتھ ساتھ کہانی اور ناول کی ہیئت کا بہت واضح شعور ہے۔ اس شعور کی اہم ترین جہت ان کی کہانی یا ناول میں محصور ہونے والے شخصی یا اجتماعی تجربے کی بنت اور بناوٹ سے متعلق ہے۔ خالدہ حسین کے یہاں کرداروں کے باطن اور ان کے عمل کی بیرونی سطح کا قصہ ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ وہ کبھی غیرضروری تفصیلات کے بیان میں نہیں الجھتیں۔ کم سے کم لفظوں میں اپنی بات کہتی ہیں، اس حقیقت کے باوجود کہ انہیں استعارے کے جا وبے جا استعمال سے کوئی دل چسپی نہیں ہے۔ تاہم، ان کی کہانی اپنا ایک خاص استعاراتی نظام رکھتی ہے۔ اسی لیے، ان کی ہرکہانی کے واسطے سے ہم ایک وسیع تر اور اجتماعی انسانی صورت حال کی سطح تک پہنچتے ہیں۔ اپنے ایک مضمون میں خالدہ حسین نے کہانی کا قصہ بیان کرتے ہوئے کچھ بنیادی سوال اٹھائے ہیں اور بہت معنی خیز معاملات کی نشاندہی کی ہے۔ مثال کے طو رپر وہ لکھتی ہیں کہ:

    اب سے پہلے میرے ذہن میں کہانی، افسانے، فکشن کے بارے میں کوئی ابہام، اور زیادہ صحیح لفظوں میں تذبذب نہ تھا۔ اس کو آپ میری کم علمی یا کم فہمی سمجھ لیں۔ کہانی مجھے اپنے آپ اور اس دنیا سے علاحدہ چیز نظر ہی نہیں آئی جس میں ہم سانس لیتے ہیں۔

    *

    ذرا دم بھرکو آنکھیں بند کرکے محسوس کریں تو وجود، ہست یا موجودگی ہے کیا؟ بس کچھ مکالمہ، کچھ گفتگو، آوازیں اور پھر عمل یاحرکات، دن بھر ہمارا اسی طرح گزرتا ہے۔ ہم بات کرتے ہیں، کچھ عمل اور حرکت اور کچھ آوازیں۔ اور ہاں، یہ سب کچھ ایک وقت میں وقوع پذیر ہوتا ہے۔ یعنی ان کے ساتھ وقت کٹتا گزرتا چلا جاتا ہے۔ مگر یہ سب کچھ لخت لخت ہے۔ ان کو ایک جا یا ایک تسلسل میں کون پروتا ہے؟ یہ ہمارے اندر سدا جاری رہنے والا بیانیہ جو خارجی مظاہر کو ایک مربوط صورت میں دیکھتا اور رکھتا ہے۔

    *

    ہم تو قصہ کہانی کے حصار سے باہر نکل ہی نہیں سکتے۔ میری کمزوری یہ ہے کہ اگر کوئی محض اتنا ہی بیان کردے کہ اس کے ارد گرد کیا ہو رہا ہے تو مجھے یہ بھی کہانی لگتا ہے، کیونکہ یہ کسی دوسرے کی دید ہے اس لیے اس میں وہی طلسماتی کیفیت نظر آتی ہے جو ایک نئی دنیا کے دروازے کھول دیتی ہے۔

    *

    کہانی کا آغاز تو سامع کی سنگت میں ہوا۔ یعنی ایک سنانے والا اور دوسرا سننے والا موجود تھا۔ مگر یہ کیا کہ جناب شمس الرحمن فاروقی نے زبانی قصہ اور کہانی یعنی داستان کو فکشن کے دائرے ہی سے نکال باہر کیا۔ ہر قسم کی زبانی قصہ طرازی خواہ وہ بعد میں ضبطِ رتحریر ہی میں کیوں نہ آگئی ہو، فکشن کے دربار عالیہ میں بار نہیں پاسکتی۔ یہی نہیں، تمام قصے، تمثیلیں، پیرابل الیگری، فوک لور اور خدا بھلاکرے روایتیں فکشن نہیں ہیں تو یہ تو بڑی پریشانی کی بات ہے۔ پورا داستانی لٹریچر اور وہ بے حد وحساب قصے جو ہم نے اپنے بڑوں سے سنے اور پھر اپنے چھوٹوں کو سنائے، اگر فکشن نہیں ہیں تو یہ صنف کیسی تہی دامن رہ جاتی ہے۔

    *

    میرا اپنا احساس یہ کہتا ہے کہ سننا تو کیا، کہانی تو پانچوں حواس کی داستان ہے۔ اور جتنے زیادہ حواس اس میں شامل ہوں، اتنی ہی بڑی وہ کہانی ہوگی۔ یعنی لکھی ہوئی کہانی بھی ہم دیکھتے ہیں، سنتے ہیں، سونگھتے ہیں، چکھتے اور چھوتے ہیں۔

    *

    ’’ہاتھورن‘‘ کہی گئی کہانیوں کو دوبارہ لکھتا ہے تو وہ آج کی کہانیاں بن جاتی ہیں۔ میلان کنڈیرا کہتا ہے کہ معاشرے کی فلاح فوک لور میں تلاش کرو۔ تو پھر فردا و دی کا تفرقہ یک بار مٹ گیا۔

    کہانی تو ایک مسلسل بہاؤ ہے جس میں لاتعداد چھوٹے چھوٹے جزیرے بکھرے پڑے ہیں۔ بہتے بہاتے کوئی کہیں جاکر پناہ پکڑتا ہے، کسی کو کوئی سرزمین بھاتی ہے، کسی کو کوئی۔

    *

    منٹو ایسے کہانی نگار کی ساری عظمت اس کے موضوعات پرمحمول کردی گئی اور اس کا چرچا ہی نہ ہوا کہ وہ کیسا کمال کا نثرنگار تھا۔ اسی طرح ہمارے اور بڑے بڑے لکھنے والے ہیں۔ کیا ’’گڈریا‘‘ کی ساری قدروقیمت اور بڑائی اور تخلیقی انفرادیت محض اس بے مثل کردار داؤجی میں ہے۔ دیکھا جائے تو داؤجی کو حیات جاوید اس بیان اور زبان نے بخشی ہے جس میں اس نے اظہار پایا ہے۔ اس کے عجیب و غریب مکالمے اور لفظیات۔

    *

    تجربہ چھوٹا اور بڑا نہیں ہوتا، اس کا بیان اور وہ سچائی بڑی اور چھوٹی ہوتی ہے جو اس کے اظہار کا پیرایہ دیتی ہے۔ ہاں اگر کوئی بڑا لکھنے والا ہو تو وہ موجودہ لمحے سے بھی بڑی کہانی کشید کرسکتا ہے کیونکہ موجودہ لمحے کی جو اہمیت ہے ہم اس کی قدر نہیں پہچان پائے۔ ہم بہت سے موجود لمحوں سے مل کر بنے ہیں بلکہ ہر موجودہ لمحے میں نئے سرے سے بنتے ہیں اور بیانیہ ہمیں جوڑتا ہے۔

    *

    یولیسیز کا زیادہ تر کمال اس کے زبان کے ساتھ نہایت جسارت آمیز تجربے میں ہے اور اس سے جس طرح اس زبان کے لوگ لطف اندوز ہوسکتے ہیں اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ یہی مسرت اور حیرت ہمیں اپنی نئی کہانی میں درکار ہے۔

    (قصہ کہانی کا: زبانی روایت سے کمالِ تحریر تک)

    کہانی کی ماہیت اور ہیئت پر اس طرح کے گہرے سوچ بچار کی روایت ہمارے فکشن لکھنے والوں میں بہت عام نہیں ہے۔ خالدہ حسین نے نہ صرف فکشن کی مشرقی اور مغربی روایت کا مطالعہ خاصی گہرائی کے ساتھ کیا ہے، فکشن کے آرٹ پر بھی وہ گہری نظر رکھتی ہیں۔ یہ اقتباسات ان کے جس مضمون سے نقل کیے گئے ہیں، مارچ ۲۰۰۵ء کے دوران اسلام آباد میں منعقد کی جانے والی بین الاقوامی اردو کانفرنس میں پڑھا گیا تھا۔ لیکن اس مضمون میں انہوں نے کہانی کے جس پہلو پر سب سے زیادہ زور دیا ہے، اس کے اولین نشانات ہمیں ا ن کے افسانوں کی پہلی کتاب ’پہچان‘ (اشاعت ۱۹۸۱ء) کے ابتدائیے میں بھی نظر آتے ہیں۔ ’’نئی کہانی‘‘ کے عنوان سے اس کتاب میں جو مختصر عبارت ملتی ہے، اس میں خالدہ حسین کے یہ مقدمات بھی شامل ہیں کہ،

    (۱) ہر احساس اور فکر کا سوتا خود انسان کی اپنی ذات سے اور زیادہ صحیح الفاظ میں تحت الذات سے پھوٹتا ہے۔ آپ اس کو انسان کا سایہ کہہ لیجیے۔

    (۲) انسان کو اپنی ذات کے سائے کا احساس ہی نہ ہو اور وہ بہ طور فیشن تاریکی باہر سے مول لے۔ اس صورت میں اس کی کہانی یا تخلیق اقلیدس کا مسئلہ بن کر پڑھنے والوں کو پریشان اور حیران ہونے کا موقعہ ضرور فراہم کرے گی۔

    (۳) اس کو اپنے سائے کا احساس ہو اور وہ اس سے مفرور ہو، اس صورت میں وہ لفظوں کے چکر میں الجھ کر نیم رومانی، نیم شکست خوردہ ادب پیدا کرے گا۔

    (۴) ایک چوتھی قسم اپنے سائے کی پہچان کی یہ ہے کہ انسان اس سائے کو خود اپنی ذات کی اصل جان کر اس کو قبول کرکے، اس کی تاریکیوں میں اتر کے، مصلحت پسندیوں سے بغاوت کرکے، اپنے اور اس سائے کے رشتے کا تعین کرے۔ اس کا تعلق زندگی کے خارجی عوامل سے پختہ کرے۔ اس کو اپنے ’’سب کونشس‘‘ کی پہچان کہہ لیجیے۔ اس کی امیجز کبھی غلط نہیں ہوتیں۔ لکھنے والے کا نام ان امیجزکو سمجھنا اور ان کا اپنی جیتی جاگتی زندگی اور عملی زندگی کے ساتھ رشتہ جوڑنا ہے۔

    (۵) اچھی کہانی سے کہانی کبھی رخصت ہی نہیں ہوئی۔ جہاں کہانی نہیں، وہ کہانی کہلانے کی مستحق نہیں۔

    (۶) کہانی لکھنے والے سے تجربے کا خلوص اور جاں کا ہی مانگتی ہے۔ محض انٹلکچوئل اور ناقابل فہم بننے کے لیے یا صرف چند قارئین کو ذہن میں رکھ کر لکھنا بے کار اور تضیع اوقات ہے۔

    خالدہ حسین کے دوسرے مجموعے ’’دروازہ‘‘ (اشاعت ۱۹۸۴ء) میں بھی کتاب ان کے اس ’’اعتراف‘‘ سے شروع ہوئی ہے کہ،

    جب میں اپنے آپ کو محسوس کرنا چاہتی ہوں تو لکھتی ہوں۔ کہانی لکھنے کا عمل میرے لیے اپنے وجود کا رشتہ قائم رکھنے کی کوشش ہے، ان دونوں دنیاؤں کے مابین جو میرے اندر اور باہر بہتی ہیں۔

    ان کا یہ موقف قرۃ العین حیدر کے اس قول کی یاد دلاتا ہے کہ لکھنا بھی ایک مابعد الطبیعاتی عمل ہے، جیسے صفحے پر بارش ہو رہی ہو۔ کہانی کا جو مزاج خالدہ حسین کی پہلی کتاب ’’پہچان‘‘سے متعین ہوا تھا، اسی کی گونج ہمیں ’’دروازہ‘‘، ’’ہیں خواب میں ہنوز‘‘‘ (اشاعت ۱۹۹۵ء) اور ان کے ناول، ’’کاغذی گھاٹ‘‘ میں بھی سنائی دیتی ہے۔ افسانوں کا چوتھا مجموعہ بھی ’’میں یہاں ہوں‘‘ غالباً شائع ہوچکا ہے۔ ابھی اس تک میری رسائی نہیں ہوئی لیکن خالدہ حسین کی جو کہانیاں، رسالوں میں نظر سے گزریں، ان سے اسی تاثر کی تصدیق ہوتی ہے کہ ان کے یہاں خارجی دنیا اور انسان کے باطنی منظر نامے کا نقشہ کہانی میں ساتھ ساتھ مرتب ہوتا ہے۔ اسی لیے، ان کی کہانیاں اپنی نوعیت کے اعتبار سے، ایک گہرا وجودی آہنگ رکھتی ہیں اور معنی کی کئی سطحوں پر ایک ساتھ متحرک دکھائی دیتی ہیں۔ اس کے باوجود، خالدہ حسین کی کوئی کہانی کبھی گنجلک نہیں ہوتی۔ ہم پر واقعے سے زیادہ ایک صورت حال، ایک تاثر اور احساس کی صورت میں وارد ہونے کے باوجود اپنا ایک منفرد چہرہ، ایک مخصوص شناس نامہ رکھتی ہے۔ اس کا مجموعی رنگ افسردگی، ملال اور اندوہ کا ہے۔ لیکن خالدہ حسین کی کہانی عورت کے باطنی آشوب کی عکاسی میں بھی کبھی پرشور، ہیجان خیز اور رقت آمیز نہیں ہونے پاتی۔ ان کا ادراک اظہار کی ایک حدسے کبھی تجاوز نہیں کرتا۔ کہانی جتنا کچھ کہتی ہے، اس سے زیادہ ان کہی چھوڑ دیتی ہے۔ ان کے ہم عصروں نے، اس رمز سے کہ کہانی کو تھمنا کہاں چاہیے، ان کی جیسی باخبری کا ثبوت بہت کم دیا ہے۔

    (۷)

    اس پوری گفتگو سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ خالدہ حسین نے اپنی تخلیقات کے ذریعے اردو کے نئے افسانے کی قدروقیمت میں بہت منفرد اضافہ کرنے کے علاوہ، نئے افسانے کا مزاج متعین کرنے میں بھی ایک اہم رول ادا کیا ہے۔ اپنے ہم عصروں میں، اردو سے قطع نظر، بین اللسانی اور عالمی پیمانے پر بھی، وہ اس صنف کے ارتقاء اور اس پر اثر انداز ہونے والے عناصر کا گہرا شعور رکھتی ہیں۔ ان کے ادراک کی جاذبیت، اظہار کی شائستگی اور تجربوں کی ہمہ گیری، انہیں اپنے معاصرین اور پیش روؤں میں ایک علاحدہ پہچان دیتی ہے۔

    بیسویں صدی کی تیسری دہائی کے دوران، مغربی دنیا میں تخلیقی نظم و نثر کے جو میلانات رونما ہوئے تھے اور جدیدیت سے وابستہ جذباتی رویوں کے شور شرابے میں جن باتوں سے ہمارے بہت سے نئے لکھنے والے دور جاپڑے تھے، ان سب کی بازیافت کا عمل خالدہ حسین کے یہاں صاف دکھائی دیتا ہے۔ اسی لیے، خالدہ حسین نے اپنے افسانے کی ہیئت کے ساتھ کسی طرح کی چھیڑ چھاڑ روا نہیں رکھی۔ ان کے پاس سوچنے اور کہنے کے لیے جو کچھ بھی تھا، گردوپیش کی اجتماعی صورت حال اور اس صورت حال سے دوچار، اپنی زمین (space) کی تلاش میں مصروف نہتے اور اکیلے افراد کے تجربوں سے براہِ راست مربوط تھا۔ خالدہ حسین نے نہ تو کوئی اسطور وضع کرنے سے غرض رکھی، نہ کسی طے شدہ نظریے اور مکتب خیال کی رہبری قبول کی۔ وہ کسی اجتماعی روایت، اجتماعی ماضی کے بجائے محض اپنے اور اپنے کرداروں کے شخصی سروکار کی مدد سے اپنی حسیت کے چراغ جلاتی ہیں۔ اور جیسا کہ اس جائزے میں پہلے بھی اشارہ کیا جاچکا ہے، ہر انسانی معاشرہ ہجوم، گروہ، خالدہ حسین کے لیے ایک ساتھ بہت سے افراد کی یکجائی کا مظہر ہے۔ یہ ایک طرح کی انفرادی انسان دوستانہ وجودیت کے آشوب کا اظہار ہے اور اظہار کے اس دائرے میں خالدہ حسین اپنے دور کے عام لکھنے والوں سے آگے ہیں۔

    اب رہی خالدہ حسین کے بعد کی صف کے زیادہ تر لکھنے والوں کی بات، تو ان کا سب سے بڑا المیہ افسانے کی مشرقی اور مغربی روایت کے کماحقہ شعور، افسانے کے اسلوب، زبان و بیان اور اسٹرکچر سے ان کی عام بے خبری ہے۔ ان میں سے بعض تو اس حدتک خودکفیل ہیں کہ اپنے بارے میں خود اپنی رائے کو معیار سمجھ لیتے ہیں اور دنیا کرے نہ کرے، کم سے کم وہ خود اپنی تحریروں میں اپنا تذکرہ کرکے مطمئن ہوجاتے ہیں۔ خالدہ حسین نے اپنے ممتاز معاصرین کی طرح، کہانیوں میں دنیا جہان کی باتیں تو کیں، کبھی اپنے ہنر کی تفصیل بیان کرنے کے پھیر میں نہیں پڑیں۔ تخلیقی اظہار میں طاقت اور توانائی اپنے کمال سے اسی لاتعلقی، اور اس وقت جب زاغ و زغن نے کہرام مچا رکھاہو، اسی تخلیقی متانت اور وضع سکوت کے واسطے سے آتی ہے۔ بھول چوک میں غزل کے دوچار اچھے شعریا اکا دکا نظم تو لکھی جاسکتی ہے، لیکن اچھی کہانی لکھنے سے پہلے نثر کے ایک استوار اور منظم اسلوب کے شعور تک رسائی ضروری ہے۔ ظاہر ہے کہ نثر کے زوال کا یہ دور ہرکس و ناکس کے معاملے میں اس طرح کی کوئی ضمانت نہیں دے سکتا۔ اچھی کہانی وہی لکھ سکتا ہے جو اچھی نثر کے اوصاف سے آگاہ اور متصف ہو۔

    (ستمبر ۲۰۰۵ء)

    مأخذ:

    ہم نفسوں کی بزم میں (Pg. 252)

    • مصنف: شمیم حنفی
      • ناشر: مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 2006

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے