Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

خدائے سخن، میر کہ غالب؟

شمس الرحمن فاروقی

خدائے سخن، میر کہ غالب؟

شمس الرحمن فاروقی

MORE BYشمس الرحمن فاروقی

     

    اس بات کا اعتراف کرنا ضروری ہے کہ ہم نے ابھی میر کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔ آل احمد سرور، مجنوں گورکھپوری، گوپی چند نارنگ اور محمد حسن عسکری کی اکادکا تحریروں اور اثر لکھنوی کی پرزور مدافعت اور وکالت کے سوا میر شناسی کا دامن خالی ہے۔ فراق گورکھ پوری اور سید عبد اللہ اور یوسف حسین جیسے لوگوں کی تعریفوں نے تو میر کو نقصان ہی پہنچایا۔ مجنوں صاحب نے (اور ان کی طرح سردار جعفری نے بھی) میر میں اپنا عکس ڈھونڈنا چاہا۔ 

    عسکری صاحب نے میر کو غالب سے بڑھادیا، لیکن عسکری صاحب نے میر کی برتری کے لیے جو دلائل دیے، وہ خود ایک ایسے مفروضے پر مبنی تھے جو دلیل کا محتاج تھا۔ پھر انھوں نے فراق گورکھ پوری کے لیے تقریباً یہ کہہ دیا کہ وہ میر سے بڑے شاعر تھے، اس لیے میر کے بارے میں عسکری صاحب کی تحسین مشتبہ رہی۔ میرکو غالب سے بڑھانے کی حد تک سلیم احمد نے بھی استاد کی ہاں میں ہاں ملائی۔ عسکری صاحب نے جو کچھ دو چھوٹے چھوٹے مضمونوں میں کہا، اسی کو سلیم احمد نے ایک چھوٹی سی کتاب ’’غالب کون‘‘ میں اپنی بے مثال شگفتہ لیکن غیر تنقیدی رنگ میں مفصل دوہرایا۔ بات وہیں کی وہیں رہی۔ 

    اکثر لوگوں کو اس بات کی فکر تو رہی کہ غالب کو میر سے بڑا شاعر یا میر کو غالب سے بڑا شاعر ثابت کیا جائے، لیکن اس کار گذاری کا طریق کیا ہو، دلائل کیا ہوں، وہ نظریات کیا ہوں، جن کی روشنی میں یہ کشتی فیصل ہوسکے، ان معاملات میں ہم میں سے اکثر کے ذہن صاف نہیں تھے۔ میر کی تنقید گھوم پھر کر ان چند مفروضات کی تابع رہی جو محمد حسین آزاد نے بنائے تھے یا میر کے بہتر نشتروں کے فرضی افسانے پر، پھر اس قسم کی غلط فہمی پر کہ شیفتہ نے میر نے بارے میں لکھا تھا کہ ’’پستش بغایت پست وبلندش بسیار بلند۔‘‘ اول تو شیفتہ کون سے عرش سے ٹوٹے ہوئے تارے تھے کہ ان کی رائے بے کھٹکے تسلیم کرلی جائے، اور دوسری (اور اتنی ہی اہم) بات یہ کہ شیفتہ بے چارے نے تو یہ کہا ہی نہیں تھا۔ انھوں نے کہا دراصل یہ کہ ’’پستش اگرچہ اندک پست است اما بلندش بسیار بلند است۔‘‘ لیکن جو انھوں نے نہیں کہا وہ مفروضہ اتنا مقبول ہوا کہ وہی آج بھی میر شناسی کی مضمر بنیاد ہے۔ 

    اسی طرح، میر کے ایک شعر کی بنیاد پر، جس میں انھوں نے ایک طرح کی کسر نفی سے کام لیا ہے، یہ خیال مشہور ہوگیا اور آج بھی مشہور ومقبول ہے کہ میر کو ایہام اور رعایت لفظی سے سخت نفرت تھی (۱) ۔ نور الحسن ہاشمی نے تو یہاں تک لکھ دیا کہ میر اور سودا نے ایہام کو ’مردود قرار دیا۔‘ سودا کابھی ایک شعر (۲) بظاہر ایہام کے خلاف مل گیا، چلیے ثبوت مکمل۔ اب اگر میر اور سودا کے کلام میں جگہ جگہ ایہام اور رعایت لفظی کی کارفرمائی ہے، تو ہو، ان کا ایک شعر تو بظاہر ایہام کے خلاف موجود ہے، بس اسی کی بنیاد پر تنقید کی عمارت بلند کرتے چلیں۔ 

    جمیل جالبی نے بھی میر پر اپنی تازہ کتاب میں یہی لکھا ہے کہ میر نے ایہام وغیرہ کو ترک کردیا۔ اسی طرح میر کے بارے میں فراق صاحب اور ان کی طرح کے غیرذمہ دار نقادوں نے یہ مفروضہ عام کردیاکہ میر درد وغم کے شاعرہیں اور ان کی شخصیت نہایت محزوں اور شکستہ اور ان کی زندگی نہایت درد بھری ہے۔ ان کو نہ ہنسی آتی ہے، نہ غصہ آتا ہے، نہ بھوک پیاس لگتی ہے۔ وہ سراپا عشق والم ہیں، دنیا ان کی نظر میں تاریک ہے۔ 

    اسی طرح کا ایک مفروضہ میر کا ’’خدائے سخن‘‘ ہونا بھی ہے۔ جو لوگ میر کو غالب پر فوقیت دینا چاہتے ہیں وہ جھوٹ کہہ دیتے ہیں کہ صاحب آخر میر کو ’’خدائے سخن‘‘ کہا جاتاہے تو کیوں کہا جاتاہے؟ جو لوگ بزعم خود غالب کی موافقت کرتے ہیں وہ کہتے ہیں، ’’خدائے سخن‘‘ تو مرزا دبیر کے صاحب زادے مرزا اوج کو بھی کہا جاتا ہے۔ مرزا اوج بہت بڑے عروضی تھے لیکن شاعر معمولی درجے کے تھے۔ لہٰذا ’’خدائے سخن‘‘ کہلانے سے کچھ نہیں ہوتا۔ واقعہ یہ ہے کہ دونوں کے استدلال غلط تھے۔ اگر کچھ لوگوں نے کسی شاعر کو ’’خدائے سخن‘‘ کہہ دیا تو یہ اس بات کا ثبوت نہیں کہ وہ واقعی خدا ئے سخن ہے اور اگر کسی خراب یا معمولی شاعر کو ’’خدائے سخن‘‘ کہہ دیاگیا تو اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اچھا شاعر خدائے سخن نہیں ہوسکتا۔ 

    سب سے پہلی ضرورت تو اس بات کی ہے کہ اس اصطلاح (یعنی ’خدائے سخن‘) کے معنی متعین کیے جائیں۔ کیونکہ غالب کے ہوتے ہوئے میں میر کو خدائے سخن نہیں کہہ سکتا لیکن میر کے ہوتے ہوئے غالب کو بھی خدائے سخن کہنا ممکن نہیں۔ یہ اس وجہ سے نہیں کہ ان میں سے ایک شاعر دوسرے سے برتر نہیں ہے، بلکہ اس وجہ سے کہ ’خدائے سخن‘ کی اصطلاح جس نے بھی وضع کی ہو، اور جس غرض سے بھی وضع کی ہو، اس کے معنی کا تعین ہماری شاعری کی روایت اور تاریخ کی روشنی ہی میں ہوسکتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض معااملات میں غالب کا مرتبہ میر سے بلند تر ہے، لیکن اس کے باوجود غالب کو میں خدائے سخن نہیں کہتا، بعض حالات میں میر کو خدائے سخن کہہ سکتا ہوں۔ اگر اس اصطلاح کے معنی ’’سب اسے اچھا شاعر‘‘ یا ’’سب سے بڑا شاعر‘‘ ہوتے تو لکھنؤ والے ہزار متعصب سہی، بالکل کنوئیں کے مینڈک سہی، لیکن کم سے کم میر انیس کا تو لحاظ کرتے، مرزا اوج کو اس دھڑلے سے خدائے سخن نہ کہہ دیتے۔ 

    میرا خیال ہے کہ اس ’’خدائے سخن‘‘ کے معنی کا تعلق میر کے اس بدنام قول سے ہے کہ اس وقت شاعر صرف ڈھائی ہیں، ایک تو خود میں، ایک مرزا رفیع اور آدھے خواجہ میر درد۔ اور جب کسی نے میر سوز کا نام لیا تو انھوں نے چیں بہ جبیں ہوکر کہا، ’’خیر پونے تین سہی، لیکن شریفوں میں ہم نے ایسے تخلص نہیں سنے۔‘‘ فارسی شاعری کی روایت میں ’’خدائے سخن‘‘ کی اصطلاح نہیں ملتی۔ ہاں بعض شعرا کو پیمبرکا رتبہ ضرور دیاگیا ہے۔ چنانچہ مشہور قطعہ ہے، 

    در سہ شعر کس پیمبر انند
    ہر چند کہ لانبی بعدی

    ابیات و قصیدہ و غزل را
    فردوسی و انوری و سعدی

    ظاہر ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ ان تین شعرا نے ان تین اصناف کو قائم ومستقل کیا اور انھیں وقار بخشا اور ان اصناف میں اپنے پیر و پیدا کیے جس طرح کہ پیغمبر مذہب کی بنا ڈالتا ہے، اس کو قائم ومستقل کرتا ہے اور اپنے پیرو پیدا کرتاہے۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ میر نے جب اپنا پونے تین شاعر والا بدنام زمانہ فقرہ کہا تو ان کی مراد یہ نہ تھی کہ میں اور سودا شاعری میں درجۂ پیغمبر یا درجۂ خدائی رکھتے ہیں۔ فارسی شاعر نے فردوسی یا انوری یا سعدی کو خدائی کا درجہ نہیں دیا تھا، کیونکہ اگر پیغمبر کا تلازمہ برقرار رکھنا تھا تو خدائی کی شرط پورا کرنے والا شاعر وہ ہوتا جو ان تینوں کے پہلے ہوتا اور تینوں اصناف پر قادر ہوتا۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں (لیکن اکثربھول جاتے ہیں) کہ میر، سودا کے علاوہ درد کے بھی قائل تھے۔ چنانچہ ان کا قطعہ ہے (دیوان اول)،

    کیا رہا ہے مشاعرے میں اب
    لوگ کچھ جمع آن ہوتے ہیں 

    میر و مرزا رفیع و خواجہ میر
    کتنے اک یہ جوان ہوتے ہیں 

    لہٰذا انھوں نے درد کو آدھار شاعر اس وجہ سے نہیں کہا کہ ان کے خیال میں درد خراب شاعر تھے یا ان میں شاعرانہ صفات صرف بدرجۂ نصف تھیں۔ میر کی مراد دراصل یہ تھی کہے جہاں خود ان کو اور سودا کو غزل کے علاوہ قصیدہ اور مثنوی میں بھی دخل ہے، درد صرف غزل گو ہیں، لہٰذا وہ آدھے شاعر ہیں اور میر سوز چونکہ ایک معمولی درجے کے غزل گو ہیں اس لیے وہ آدھے شاعر ہیں۔ اس بات کی تصدیق غالب کے اس خط سے ہوتی ہے، جس میں انھوں نے حاتم علی مہر کو لکھا تھا، ’’ناسخ مرحوم جو تمھارے استاد تھے، میرے بھی دوست صادق الوداد تھے، مگر یک فنے تھے۔ صرف غزل کہتے تھے، قصیدے اور مثنوی سے ان کو علاقہ نہ تھا۔‘‘ اس بات سے قطع نظر کہ غالب کو یہ بات معلوم نہ تھی کہ ناسخ نے چار مثنویاں کہی ہیں، نکتے کی بات یہ ہے کہ غالب نے غزل، قصیدہ اور مثنوی کا نام لیا، لہٰذا وہ شاعر جو کم سے کم ان تین اصناف میں طبع آزمائی نہ کرتا ہو، وہ مکمل شاعر کہلانے کا حق دار نہ تھا۔ 

    اب میر کا حال دیکھئے۔ اچھے یا برے، وہ کسی صنف میں بند نہیں ہیں۔ غزل، قصیدہ، مثنوی، مرثیہ، رباعی ان سب میں انھوں نے خاصاکام چھوڑا ہے اور اگر شہر آشوب اور واسوخت اور ہجو کو الگ اصناف مانئے تو آٹھ اصناف میں میر کا کلام خاصی مقدار میں موجود ہے۔ واسوخت کی ایجاد کا سہرا بھی بقول بعض میر کے سر ہے۔ انھوں نے ایک بحر بھی تقریباً ایجاد کی۔ اس کے برخلاف غالب نے اردو میں صرف غزل، قصیدہ اور رباعی کہی۔ غالب نے منھ جھوٹا کرلینے کی حد تک اردو میں مثنوی تو خیر لکھی، لیکن مرثیہ اور دوسری اصناف میں انھوں نے کچھ نہیں کہا، ہاں مرزا دبیر کے رنگ میں مرثیے کے کچھ بند لکھے لیکن مرثیہ مکمل نہ کیا اور خود ہی کہا کہ یہ مرثیے سے زیادہ واسوخت معلوم ہوتاہے۔ واقعہ یہ ہے کہ موجودہ صورت میں ہم اسے ایک نامکمل نظم کہہ سکتے ہیں، مرثیے کا نام نہیں دے سکتے۔ 

    عروض میں غالب کا کوئی تصرف نہیں۔ جہاں تک معیار کا سوال ہے، غالب کا قصیدہ میر کے قصیدے سے یقینا بہتر ہے، لیکن میر کا قصیدہ اتنا کم زور بھی نہیں ہے، جتنا کمزور اسے مشہور کیا جاتاہے۔ میر نے مشاق قصیدہ گویوں کی طرح مسدس اور مثمن دونوں طرح کی بحروں میں قصیدے لکھے ہیں، جب کہ عام طورپر تصور یہ ہے کہ قصیدے کا پرشکوہ انداز مثمن بحروں میں ہی کھلتاہے۔ ان کے یہاں تشبیب میں زیادہ تنوع نہ سہی، لیکن مدح ومبالغہ اور شکوہ و بلندی آہنگ میں وہ بالکل کورے بھی نہیں ہیں۔ 

    مرثیے اور واسوخت وغیرہ کو نظرانداز بھی کردیں تو مثنوی بہرحال ایک مستقل صنف سخن ہے، اور غالب اس میدان میں (اردو کی حد تک) بالکل قابل اعتنا نہیں، جبکہ میر کی مثنویاں، خاص کر وہ مثنویاں جن میں عشقیہ قصے بیان ہوئے ہیں اور وہ مثنویاں جن میں برسات، اپنے گھر کی خراب حالی، تسنگ نامی گاؤں کی بدحالی کاذکر ہے، یہ بعض ہجویات ہمارے ادب کا قیمتی حصہ ہیں۔ اصناف کی کثرت کے اعتبار سے کوئی شاعر میر کا مدمقابل نہیں، حتی کہ سودا بھی نہیں۔ کیونکہ سودا نے کوئی واسوخت نہیں لکھا، اور اگرچہ مثنوی نما نظمیں انھوں نے بہت سی لکھیں، لیکن انھوں نے کوئی عشقیہ مثنوی، یا مثنوی کو فن کے طورپر برتنے والی نظم نہیں لکھی۔ کثرت اصناف میں سودا، میر کے کچھ نزدیک ضرور پہنچتے ہیں، لیکن اس میں تو کوئی شک ہی نہیں ہوسکتا کہ بحیثیت مجموعی میر کا مرتبہ سودا سے بلند ہے یعنی میر، سودا سے بہتر شاعر ہیں۔ 

    لہٰذا ایسے شاعر کو جو اپنے عہد کا ممتاز ترین شاعر ہو اور جس کے کلام سے ہر صنف کا نمونہ خاصی مقدار میں مل جاتا ہو، جس نے ایک صنف اور ایک بحر تقریباًخود ایجاد کی ہو، اس کو ’’خدائے سخن‘‘ کہا جائے تو کیا غلط ہوگا؟ اسی طرح مرزا اوج کو ’’خدائے سخن‘‘ اس لیے کہا گیا کہ اردو زبان میں اس سے بڑا عروضی کوئی پیدا نہ ہوا۔ خدا عام انسانوں پر اپنا قانون نافذ کرتاہے اور عروضی اپنی بساط بھر اصول فن اور شعر گوئی کے قوانین وضع کرتا یا ان قوانین کی تشریح کرتا ہے، لہٰذا سب سے بڑے عروضی کو ’’خدائے سخن‘‘ کہنا کوئی ایسی نامناسب بات نہیں ہے۔ 

    لیکن جو سوال دراصل پوچھنے کا ہے وہ یہ ہے کہ میر نے اتنی بہت سی اصناف کو کیوں برتا؟ یہ تو صحیح ہے کہ خود کو بڑا شاعر یا مکمل شاعر تسلیم کرنے کی خاطر شاعر کو مختلف اصناف میں طبع آزمائی کرنا ہوتی ہے لیکن ہماری روایت کی رو سے شاعری کے بنیادی اصناف تو صرف تین ہیں، غزل، قصیدہ اور مثنوی۔ غالب نے ان ہی تین کا ذکر کیا ہے۔ مرثیہ غالب کے زمانے میں بھی باقاعدہ صنف سخن نہ بنا تھا، سودا اور میر تو تقریباً سو برس پہلے تھے۔ ممکن ہے میراور سودا نے مرثیہ حصول ثواب اور اظہار عقیدت کے طورپر بھی اختیار کیا ہو، لیکن اس عقیدت کا اظہار تو قصیدے میں بھی ممکن تھا، جیساکہ غالب اور ذوق نے کیا، لہٰذا طرح طرح کی اصناف میں طبع آزمائی کی توجیہ صرف ان باتوں سے نہیں ہوسکتی۔ واسوخت، تضمین، شکارنامہ، شہر آشوب، ان سب کی کیا ضرورت تھی؟ 

    میرنے تو اپنے دیوان میں تضمین کا باقاعدہ عنوان قائم کیا ہے، اور شکارناموں میں بھی غزل داخل کی ہے اور مدحیہ، تہنیتی مثنوی بھی لکھی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ انھیں اس بات کی کچھ ہوس سی ہے کہ ہر طرز اور ہرصنف میں خود کو ثابت کریں۔ میرا خیال ہے کہ انصاف سے یہ شغف زندگی کو ظاہر کرتاہے۔ میر نے بڑی بھرپور زندگی گزاری تھی اور یہ تمام زندگی ان کی شاعری میں اتر آئی ہے۔ کیا عجب ہے اگر گوناگوں اصناف سے یہ اور انہماک بھی اسی کااستعارہ ہو۔ 

    ہماری تاریخ میں میر کے علاوہ کوئی بڑا شاعر ایسا نہیں جس نے زمانے کے سرد وگرم اتنے دیکھے ہوں۔ جو جنگوں میں شریک رہاہو، جس نے بار بار ترک وطن کیا ہو، جس نے بادشاہوں اور فقیروں کی صحبتیں اٹھائیں ہوں، جس نے عسرت اور تنگی کے وہ دن دیکھے ہوں، بقول خود اسے ’’کتے اور بلی کی طرح‘‘ زندگی بسر کرنی پڑی ہو، جس نے آرام کے دن بھی دیکھے ہوں، جو صوفیوں میں صوفی، رندوں میں رند اور سپاہیوں میں سپاہی رہاہو۔ زندگی کے ہر رنگ کو قبول کرنے اور برتنے کے ہی جذبے نے انھیں ’’ذکر میر‘‘کے آخر میں فحش لطیفے اور’’فیض میر‘‘ میں درویشوں اور اہل اللہ کے محیر العقول واقعات شامل کرنے پراکسایا اور اسی جذبے نے انھیں عشق کی وہ منزل دکھائی جس کے آگے جنون کی مملکت ہے۔ انھیں اسی بنا پر علم کلام، تصوف اور فقہ کی اصطلاحیں بھی اتنی ہی آسانی سے ہاتھ آجاتی تھیں، جتنی آسانی سے وہ فارسی کے نامانوس اور مشکل فقروں اور محاوروں کو گرفت میں لے لیتے تھے۔ 

    آسی نے اپنے مرتب کردہ ’’کلیات میر‘‘ کے دیباچے میں خیال ظاہر کیاتھاکہ میر نے اتنے بہت سے نامانوس اور مشکل الفاظ اور فقروں پر دسترس خان آرزو کی صحبت میں حاصل کی ہوگی۔ اس سلسلے میں آسی نے خان آرزو کے لغت ’’چراغ ہدایت‘‘ کا حوالہ بھی دیا ہے۔ بعد میں نثار احمد فاروقی نے یہ ثابت کردکھایا کہ میر نے ’’ذکر میر‘‘ میں صفحہ بہ صفحہ ’’چراغ ہدایت‘‘ کے لغات استعمال کیے ہیں۔ یہ بات میر کے خلاف اتنی نہیں جاتی جتنی ان کے حق میں جاتی ہے، کیونکہ اس سے ان کی ہمہ گیر طبیعت کا اندازہ ہوتا ہے اور اس بات کا بھی، کہ وہ اتنی قدرت رکھتے تھے کہ ادھر ادھر کے الفاظ کو بھی اپنی عبارت میں اس طرح کھپادیں کہ ٹھونس ٹھانس نہ معلوم ہو۔ میرکی اس ہمہ گیری کے سامنے غالب کی دلچسپ اور شوخ وسنجیدہ شخصیت کم رنگا رنگ معلوم ہوتی ہے۔ 

    شیلی کی نظم (Epipsychidion) کا مسودہ اس بات کا شاہد ہے کہ وہ پہلے قافیہ لکھ لیتا تھا اور پھر اس پر مصرع بنانے کی سعی کرتاتھا۔ بودلیئر کے بارے میں Peter Quennell نے اپنی کتاب Baudelaire and the Symbolists میں لکھا ہے کہ وہ چھوٹے چھوٹے پرچے پرچیوں پر ان نئے اور دلچسپ الفاظ کو لکھ لیتا تھا جو اسے دوران مطالعہ نظر آتے تھے۔ اس کے پاس لکڑی کا ایک بکس تھا اور وہ ان تمام پرچوں کو اسی بکس میں محفوظ رکھتا تھا۔ جب وہ نظم کہتا تو معنی خیز یا دلچسپ الفاظ کو صفحے پر جگہ جگہ لکھ کر نظم کا ڈھانچہ بناتا، پھر قافیے درج کرتا اور اس طرح ان کے گرد نظم کو مکمل کرتا۔ تو پھر ہمارے میر نے کیا جرم کیا کہ لفظوں کو اسی طرح لغت اور کتاب سے جمع کرکے اپنے کلام میں داخل کیا؟ ڈبلیو بی ییٹس کو شریانوں کی بیماری ہوگئی جسے arteriosclerosis کہتے ہیں۔ اسے اس لفظ کا آہنگ اتنا پسند آیاکہ وہ کہا کرتا تھاکہ مجھے (Lord of Lower Egypt) کہلانے کے مقابلے میں arteriosclerosis کا مریض کہنا زیادہ پسند ہے! معلوم ہواالفاظ سے دلچسپی کے باب میں مشرق ومغرب کے بڑے شعرا کا رویہ ایک ہی جیسا ہے۔ 

    جو لوگ شخصیت کی ہمہ گیری کو شاعر کا بھی معیار سمجھتے ہیں ان کے لیے میر یقینا ً غالب سے بڑے شاعر ہیں۔ ظاہر ہے کہ شخصیت کی ہمہ گیری شاعرانہ مرتبے کا ایک پہلو تو ہوسکتی ہے، لیکن شاعرانہ مرتبے کاتعین محض اس ہمہ گیری کے حوالے سے نہیں ہوسکتا۔ دنیا کے بعض بہت بڑے شاعروں کی شخصیتیں میر کے سامنے ہلکی بلکہ اکہری معلوم ہوتی ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ میر سے کمتر درجے کے شاعر ہیں۔ ہاں اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ میر کو بھی دنیا کے بڑے شاعروں کی صف میں رکھنے میں مجھے کوئی تامل نہیں، اور ان کی اس بڑائی کی تعمیر میں ان کی شخصیت نے حصہ بھی لیاہے بلکہ میں یہ بھی کہہ سکتا ہوں کہ ظاہری چمک دمک میں غالب سے کم تر ہونے کے باوجود میر نے اپنی ہمہ گیری کے باعث کئی ایسے حامی پیدا کیے جو انھیں غالب سے برتر ماننے پر مصر ہیں اور یہ ہمہ گیری ان کی شاعری کے سارے میدان میں موجود ہے، یعنی اس کا تعلق محض الفاظ کی کثرت اور تنوع یا مختلف علوم وتجربات کا براہ راست درک ہونے سے نہیں، بلکہ انسانی زندگی کے تمام مظاہر اور انسانی psyche کے تمام گوشوں سے ہے۔ 

    رلکے نے تو اتنا کہہ کر بس کردیاکہ شاعری وہ ماضی ہے جو ہمارے سینوں سے پھوٹ نکلتاہے۔ میر کے یہاں ماضی اور حال دونوں برابر کی شدت سے موجود رہتے ہیں۔ یہ ملحوظ رہے کہ ’’ہمہ گیری‘‘ سے میری مراد ’’پیچیدگی‘‘ نہیں، اور نہ اکہرے پن سے مراد ’’سادگی‘‘ ہے۔ ’’ہمہ گیری‘‘ اور روحانی طورپر تو فن کار کی شخصیت ہمیشہ گہری اور پیچیدہ ہوتی ہے۔ 

    غالب اور میر کا موازنہ کرنا، یا ان کا بیک وقت مطالعہ اس غرض سے کرنا کہ ایک کے ذریعے دوسرے پر روشنی پڑے، غلط کار گذاری نہیں، بلکہ دراصل دونوں کی تعیین قدر کی پہلی منزل ہے۔ یہ اکثر کہا گیاہے کہ غالب اور میر الگ الگ طرح کے شاعر ہیں۔ میں نے اس بات سے ہمیشہ انکار کیاہے۔ دونوں کے اسلوب مختلف ضرور ہیں، لیکن دونوں ایک ہی طرح کے شاعر ہیں، اس معنی میں کہ دونوں کی شعریات ایک ہے۔ یعنی اس سوال کا جواب کہ ’’شاعری کی خوبیاں کیا ہیں‘‘ دونوں کی بوطیقا میں تقریباً ایک تھا۔ شاعری کے بارے میں دونوں کے مفروضات ایک طرح کے تھے۔ صرف اتنا کہنے سے کام نہیں چلے گا کہ دونوں ایک ہی روایت کے پروردہ تھے، کیونکہ اس ایک روایت کے پروردہ تو درد اور سودا اور آتش وناسخ وغیرہ سب تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان سب شاعروں میں ایک سطحی مماثلت بھی ہے۔ ناسخ تو اپنے کلام میں جگہ جگہ درد کا نام بھی لیتے ہیں۔ 

    میری مراد یہ ہے کہ اس روایت کو تخلیقی اور اجتہادی سطح پر غالب اور میر نے ے تقریباً ایک ہی طرح برتا۔ یہ بات بالکل مہمل ہے کہ غالب نے شروع میں اینڈی بینڈی غزلیں کہیں، لیکن بعد میں انھوں نے میر کے زیر اثر وہ انداز ترک کردیا اور میر کا سادہ اسلوب اپنایا۔ لوگ بھول جاتے ہیں کہ غالب کی بعض بہت مشہور اور نسبتاً آسان غزلیں بھی اسی زمانے کی یادگار ہیں جب وہ اینڈی بینڈی غزلیں کہہ رہے تھے۔ لوگ یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ غالب نے یہ شعر، 

    میرکے شعر کاا حوال کہوں کیا غالب
    جس کادیوان کم از گلشن کشمیر نہیں 

    تقریباً لڑکپن کے دنوں میں کہاتھا۔ غالب اور میر کی شعریات ایک طرح کی ہے، لیکن وہ الگ الگ طرح کے شاعر اس لیے معلوم ہوتے ہیں کہ ان کے تخیل کا مزاج مختلف تھا اور ان کی زبان مختلف تھی۔ غالب کا تخیل آسمانی اور باریک تھا، میر کا تخیل زمینی اور بے لگام۔ غالب نے اپنی شاعری کے لیے اس طرح کی زبان وضع کی جسے ’’ادبی‘‘ زبان کہا جاسکتاہے۔ میر نے روز مرہ کی زبان کو شاعری کی زبان بنادیا۔ اس کارنامے میں ان کے اور بھی شریک ہیں، مثلاً جرأت اور مصحفی اور بعض چھوٹے شعرا لیکن میر کے زمیں گیر اور بے لگام تخیل کے بغیر اور زبان میں روز مرہ کے vigour یعنی حرکت سے مملو توانائی اور فارسی عربی کے بے تکلف مگر محتاط استعمال کے نہ ہونے کی وجہ سے اور اظہار میں میر کی سی تہہ داری اور ابہام اور خیال میں میر کی سی پیچیدگی کے فقدان کے باعث جرأت، مصحفی، احسن اللہ بیان، یقین، تاباں وغیرہ میرکے سامنے طفل مکتب معلوم ہوتے ہیں۔ 

    غالب نے میر کی زبان اور اسلوب کو کبھی اختیار نہ کیا۔ جس طرح کی ’’اشرافیہ‘‘ اور ادبی ’’زبان کے وہ خالق تھے، وہ میرکی سی زبان کو قبول ہی نہ کرسکتی تھی۔ یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ ابن مریم ہوا کرے کوئی اور دل ناداں تجھے ہواکیا ہے وغیرہ غزلیں میر کی سی زبان میں ہیں۔ اس کے ثبوت کے لیے میر کے یہ تین شعر بالکل قلم برداشتہ لکھتاہوں، 

    اب کہیں جنگلوں میں ملتے ہیں 
    حضرت خضر مر گئے شاید

    بے کلی بھی قفس میں ہے دشوار
    کام سے بال و پر گئے شاید

    شور بازار سے نہیں اٹھتا
    رات کو میر گھر گئے شاید
    (دیوان دوم) 

    یہ میر کے بہترین شعر نہیں ہیں، لیکن میرکی ’’سادہ زبان‘‘ والے نمائندہ شعر ہیں۔ ان اشعار میں ’’جنگلوں‘‘، ’’حضرت خضر‘‘، ’’مرگئے شاید‘‘، ’’بے کلی‘‘، ’’کام سے گئے‘‘، ’’شور بازار سے نہیں اٹھتا‘‘، ’’رات کو گھر گئے‘‘ جس لہجے اور ماحول کے فقرے ہیں ان کا غالب کے کلام میں نام ونشان نہیں ملتا۔ ایسا نہیں ہے کہ غالب نے میر سے استفادہ نہیں کیا لیکن یہ استفادہ اسلوب کی سطح پر نہیں بلکہ مضمون کی سطح پرتھا۔ 

    میر کا تخیل اور ان کی زبان غالب سے کس طرح مختلف ہیں، اس کی تفصیل آئندہ بیان ہوگی۔ اس وقت ایک اور بات کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے۔ جس طرح بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ غالب اور میر الگ الگ طرح کے شاعر ہیں اور ایک کا مطالعہ دوسرے کے مطالعے کے لیے سودمند نہیں ہوسکتا، اسی طرح بعض یہ کہتے ہیں کہ غالب کا بہترین کلام اگر سارے کا سارا نہیں تو بیشتر میر سے مستعار ہے۔ یگانہ چنگیزی اور اثر لکھنوی اس نظریے کے مویدین میں پیش پیش ہیں۔ اس نظریے سے یہ نتیجہ نکالا جاسکتاہے کہ غالب کو پڑھنے کی ضرورت ہی کیا ہے، میر کا کلام کافی ہے۔ غالب کا بہت سا کلام میر سے اور دیگر اساتذہ سے مستعار ہے، یہ بات اتنی بار کہی گئی ہے کہ اس کے رد میں تھوڑی بہت تفصیل سے کام لینا بے جا نہ ہوگا۔ 

    پہلی بات تو یہ کہ پرانے اساتذہ کے شعر پر شعر کہنے میں غالب کی کوئی تخصیص نہیں۔ یہ اس زمانے کا رواج تھا اور میر نے بھی ایسا کیا ہے۔ ایں گناہیست کہ درشہر شما نیز کنند۔ بلکہ میر نے تو بعض اوقات پرانے شاعروں کا براہ راست ترجمہ ہی کردیا ہے، غالب نے ایسا شاید کبھی نہیں کیا۔ ترجمہ اگر تخلیقی قوت کا حامل ہو تو بری بات نہیں۔ میری مراد صرف یہ ہے کہ غالب کے یہاں echo یعنی باز گشت کی کیفیت ہے، جب کہ میر کا استفادہ اکثر زیادہ براہ راست اگرچہ تخلیقی ہے۔ مثال کے طورپر حالی نے میر اور سعدی کے مندرجہ ذیل شعروں کاحوالہ دیاہے۔ میر کا شعر سعدی کا صاف ترجمہ ہے، 

    میر،
    پیار کرنے کا جو خوباں ہم پہ رکھتے ہیں گناہ
    ان سے بھی توپو چھتے کیوں اتنے تم پیارے ہوئے 
    (دیوان اول) 

    سعدی،
    دوستاں منع کنندم کہ چرا دل بہ تو دادم
    باید اول بہ تو گفتن کہ چنیں خوب چرائی

    یہ بات صحیح ہے کہ تخلیقی شان کی وجہ سے میر کا شعر بھی اپنی حیثیت رکھتاہے اور بقول حالی ’’پیارے ہوئے‘‘ کا فقرہ ’’خوب چرائی‘‘ سے بہتر ہے۔ لیکن میر کا شعر بہرحال سعدی کا ترجمہ ہے۔ میر کا ایک اور شعر دیکھئے، یہ بیدل کا ترجمہ ہے، 

    میر،
    زیر فلک رکا ہے اب جی بہت ہمارا
    اس بے فضا قفس میں مطلق ہوا نہیں ہے 

    بیدل،
    ہمت چہ قدر زیر فلک بال کشاید
    پست است بحدے کہ دریں خانہ ہوا نیست

    میر کا یہ شعر دیوان دوم میں ہے، اس دیوان کے مرتب ہوتے وقت ان کی عمر پچاس سے متجاوز تھی۔ اتنی مشق کے باوجود وہ بیدل کے مضمون کو آگے نہ لے جاسکے۔ اس کے برخلاف انیس بیس برس کے غالب نے بھی بیدل سے یہی مضمون لیا تو اس میں ایک بات پیدا کردی، 

    برہم ہے بزم غنچہ بہ یک جنبش نشاط
    کاشانہ بس کہ تنگ ہے غافل ہوا نہ مانگ

    میر کا ایک بہت مشہور اور عمدہ شعر بیدل سے مستعار ہے، 

    میر،
    افسردگی سوختہ جاناں ہے قہر میر
    دامن کوٹک ہلا کہ دلوں کی بجھی ہے آگ
    (دیوان دوم) 

    بیدل،
    آتش دل شد بلند از کف خاکسترم
    باز مسیحائے شوق جنبش دامان کیست

    دیوان چہارم میں میر کا ایک بہت عمدہ شعر ہے، 

    خوش زمزمہ طیور ہی ہوتے ہیں میر اسیر
    ہم پر ستم یہ صبح کی فریاد سے ہوا

    یہ مضمون بابا افضل کاشی کاہے اور میر کو اس قدر پسند تھا کہ وہ تا عمر اس کو باندھا کیے۔ میری گنتی کے مطابق دیوان اول سے لے کر دیوان پنجم تک میر نے اس مضمون کو بدل بدل کر آٹھ بار باندھا ہے۔ اس خیال کو نظیری نے بالکل نیا رنگ دے دیا۔ میر نے نظیری کے خیال کو ہاتھ لگانے کی کوشش کہیں نہیں کی، شاید اس لیے کہ وہ نظیری سے آگے جانے سے قاصر تھے۔ نظیری کے شعر میں جو شور انگیزی ہے، اس نے معنی اور مضمون دونوں کی ندرت کو دبالیاہے۔ میر نے اس کاجواب تلاش نہ کیا، اچھاہی کیا، 

    پرند بجائے پر وبالش سر ومنقار
    مرغے کہ بلند از سر ایں شاخ نوا کرد

    لیکن میر نے اکثر جگہ فارسی استادوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیاہے۔ اس کی تفصیل آئندہ صفحات میں جگہ جگہ ملے گی۔ تو ان باتوں سے کیا ثابت ہوتا ہے؟ یہی کہ یہ ہر شاعر کا دستور ہے۔ اس زمانے میں کم وبیش سب لوگ پرانوں کے شعر پر شعر کہتے تھے۔ آتش کا تو یہ عالم ہے کہ وہ میرکے بغیر لقمہ نہیں توڑسکتے اور تقریباً ہمیشہ انھوں نے میر کے مضمون کو پست کردیا ہے۔ تعجب ہے کہ اثر لکھنوی اور ان کے ہم نواؤں نے آتش پر کوئی ایراد نہ کیا۔ 

    دوسری بات یہ ہے کہ غالب نے جہاں جہاں میر سے مضمون یا کسی بات کا کوئی پہلو مستعار لیا ہے تو ہمیشہ اس میں نئی بات پیدا کی ہے یا پھر مزید معنویت داخل کی ہے۔ انھوں نے شعر پر شعر لکھنے کے بجائے چراغ سے چراغ جلایا ہے اور اکثر اوقات ان کا چراغ میر سے روشن تر نکلاہے۔ اولیت کا شرف میر کو ضرور حاصل ہے اور تخیل کا پھیلاؤ جیسا کہ میر کے یہاں اکثر نظر آتا ہے، غالب کے یہاں وہ صورت نہیں لیکن مضمون اور اسلوب اور معنی میں غالب جو کچھ میر سے مستعار لیتے ہیں، اس پر بسااوقات اضافہ ہی کرتے ہیں۔ 

    کولرج نے ایک اورسیاق وسباق میں کیا خوب کہا تھاکہ شاعر کو یہ نازیبا ہے کہ وہ فطرت کی جیب کاٹے، ہاں اسے فطرت سے قرض لینا چاہیے اور اس طرح کہ ادائیگی قرض لینے کے عمل ہی سے ہوجائے۔ میر کے ساتھ غالب کاکچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ غالب نے شعر کہنے کے کئی انداز میر سے سیکھے۔ یہ میر کی عظمت کے ساتھ غالب کی بھی عظمت کی دلیل ہے۔ غالب کے بہت سے اشعار میں میر کی جلوہ گری ہے، لیکن غالب نے میر کی قدر کو گھٹایا نہیں، کیوں کہ انھوں نے میر کے مضامین کے ساتھ انصاف کیا۔ دوسروں (مثلاً آتش اور فراق) میں یہ بات نہیں۔ 

    تیسری بات یہ کہ غالب نے میر کے بہت سے مخصوص مضامین وموضوعات کو ہاتھ نہیں لگایا اور خود غالب کے بہت سے مخصوص موضوعات ومضامین نہ میر سے مستعار ہیں اور نہ کسی اور سے۔ وہ صرف ان کے اپنے ہیں۔ دو مثالوں سے یہ بات صاف ہوجائے گی۔ رونے کا مضمون اور معشوق کے چہرے کا آفتاب کی طرح ہونے کا مضمون غالب، میر اور تمام دنیا میں مشترک ہے۔ لیکن ان دونوں کو ملا کر میر کا زمینی تخیل ایک نئی شکل ایجاد کرتاہے۔ دیوان سوم میں ہے، 

    مژگاں تر کو یار کے چہرے پہ کھول میر
    اس آب خستہ سبزے کو ٹک آفتاب دے 

    غالب کے یہاں اس پیکراور اس بے لگام تخیل کا کوئی نشان نہیں۔ مزید یہ کہ آب خستہ کی ترکیب میر نے اختراع کی ہے، یہ کسی لغت میں نہیں ملتی۔ اسی طرح سر میں شوریدگی اور اس کے باوجود اوپر اورپر سکون کا مضمون غالب اور میر کے یہاں مشترک ہے۔ لیکن اس میں تمام کائنات کو سمو دینا اور روشنی، حدت، چہل پہل اور درد و سوز سب کو یک جاکر دینا صرف غالب کاکام ہے، 

    باوجود یک جہاں ہنگامہ پیدائی نہیں 
    ہیں چراغاں شبستان دل پروانہ ہم

    لہٰذا یہ سمجھنا کہ غالب کا بیش تر بہترین کلام یا تھوڑا بہت بہترین کلام میر سے مستعار ہے، غلط ہے۔ غالب نے جو کچھ میر سے مستعار لیا اس کے بغیر بھی وہ غالب رہتے، اسی طرح جس طرح میر نے ادھر ادھر سے کچھ لیا، لیکن اس کو نہ لیتے تو بھی وہ میر رہتے، بنیادی بات یہ ہے کہ غالب اور میر ایک دوسرے کو منور کرتے ہیں، ایک سے لطف اندوز ہوئے بغیر دوسرے کے رموز آپ پر نہیں کھل سکتے۔ 

    غالب اور میر کے بارے میں یہ مفروضہ بھی مہمل ہے کہ میر کے کلام میں اچھے شعر خال خال ہی ہیں اور اگر انھوں نے غالب کی طرح اپنے کلام کا انتخاب کیا ہوتا تو ان کے حق میں اچھا ہوتا۔ میر کے یہاں بہتر نہیں تو دوتین ہی سو نشتر ہوں گے۔ یہ خیال اس لیے عام ہے کہ لوگوں نے میر کا مطالعہ بغور اور بالاستیعاب نہیں کیا۔ فراق صاحب نے بڑی فیاضی سے کام لیتے ہوئے میر کے یہاں ’’قدر اول‘‘ کے اشعار کی تعداد ’’غالباً ڈھائی تین سو یا اس سے کچھ کم یا زیادہ‘‘ بتائی ہے۔ (اس حساب کی بھی داد دینا چاہیے۔) 

    مجھ سے ایک مرحوم بزرگ نقاد نے بیان کیا کہ میر کے یہاں کئی صفحے الٹنے پر ایک شعر ملتاہے۔ میر کی ضخامت سے زیادہ ہماری کم کوشی نے اس طرح کے خیالات کو عام کیا ہے اور ان خیالات کو استحکام اس مفروضے نے بخشا ہے کہ غالب کا دیوان اس لیے مختصر ہے کہ انھوں نے اپنے کلام کا بہت سخت انتخاب کیا تھا۔ میر بھی ایسا ہی کرتے تو اچھا ہوتا۔ 

    واقعہ یہ ہے کہ غالب نے شروع عمر کے کلام سے انتخاب ضرور کیا، لیکن ان کا دیوان چھوٹا اس لیے ہے کہ انھوں نے ۱۸۲۶ء کے بعد اردو میں بہت کم کہا اور ۱۸۲۶ء سے ۱۸۵۰ء تک تو اردو میں تقریباً کہا ہی نہیں۔ بہرحال پہلی بار انتخاب کرنے کے بعد غالب نے پھر کبھی انتخاب نہیں کیا بلکہ جو کچھ کہا شامل دیوان کیا۔ اگر وہ شروع کا کلام چھانٹ نہ بھی دیتے تو بھی ان کاکلیات میر کے دیوان اول سے زیادہ ضخیم نہ ہوتا، لہٰذا غالب کے کلیات اردو کا اختصار اس بنا پر نہیں ہے کہ انھوں نے سخت انتخاب کرکے کمزور شعر نکال دیے تھے۔ لیکن یہ مفروضہ اس قدم عام ہے کہ میر کا ضخیم کلیات دیکھتے ہی ہم فرض کرلیتے ہیں کہ میر نے غالب کی طرح انتخاب تو کیا نہ تھا، اس لیے اس کلیات میں اچھا برا، رطب ویابس سب جمع ہوگا۔ اگر پورا کلیات بغور پڑھا جاتا تو حقیقت کھل جاتی کہ میرکے یہاں اگرچہ ہر شعر رتبۂ اعلیٰ کو نہیں پہنچا ہوا ہے، لیکن کلام کا اوسط معیار پھر بھی اس قدر بلند ہے کہ خود کلیات ہی انتخاب کا حکم رکھتا ہے۔ اعلیٰ درجے کے اشعار چار ہزار سے یقیناً کم نہیں ہیں اور کلیات کے کم سے کم اسی فی صدی اشعار اچھے شعر کہے جانے کے مستحق ہیں۔ زیر نظر انتخاب کی ضخامت کم رکھنے کے لیے مجھے کتنے پاپڑ بیلنے پڑ ے ہیں، وہ میں ہی جانتا ہوں۔ 

    جیساکہ میں اوپر کہہ چکا ہوں، زبان کے تنوع، تجربۂ حیات کی کثرت اور شخصیت کی ہمہ گیری میں میر کا مرتبہ غالب سے اعلیٰ ہے۔ خالص تعقل اور تجرید اور نازک خیالی میں غالب کا درجہ میر سے بلند ہے۔ دونوں کے تخیل میں فرق ہے، لیکن تخیل کی شدت دونوں کے یہاں برابر ہے یعنی دونوں بے حد مضمون آفریں ہیں۔ غالب کا تخیل آسمانی ہے اور میر کا تخیل زمینی یعنی غالب تجریدی (abstract) زیادہ ہیں اور میر ٹھوس اور مرئی (concrete) زیادہ ہیں۔ معنی آفرینی میں دونوں برابر ہیں۔ ہاں ایک صفت کیفیت کی میر کے یہاں ایسی ہے جو غالب کے یہاں بہت کم ہے۔ میر کا کمال یہ بھی ہے کہ معنی آفرینی کے ساتھ کیفیت پیدا کرلیتے ہیں۔ شور انگیز اشعار دونوں کے یہاں کثرت سے ہیں، رعایت لفظی سے دونوں کو بے شغف ہے۔ 

    اس مجموعی محاکمے کی روشنی میں اور اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ میر نے غالب سے زیادہ اصناف سخن کو برتاہے، ہم کہہ سکتے ہیں کہ ’’خدائے سخن‘‘ کا خطاب میر کو ہی زیب دیتا ہے۔ 


    فٹ نوٹ
    (۱) کیا جانوں دل کو کھینچے ہیں کیوں شعر میر کے
    کچھ طرز ایسی بھی نہیں ایہام بھی نہیں
    (۲) یک رنگ ہوں آتی نہیں خوش مجھ کو دو رنگی
    منکر سخن و شعر میں ایہا م کا ہوں میں
    ان اشعار پر بحث کے لیے ملاحظہ ہو غزل ۲۶۷۔

     

    مأخذ:

    شعر شور انگیز (Pg. 27)

    • مصنف: شمس الرحمن فاروقی
      • ناشر: ڈائرکٹر قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 2006

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے