خواجہ اجمیری بحیثیت منقبت سرا
ای نام تو بہترین سرآغاز
بی نام تو نامہ کی کنم باز
حمدوثنا اس ربّ جلیل کی جس نے گلشن ایمان ویقین میں وہ گل کھلائے جن کی خوشبوسے اذہان معرفت رہتی دنیا تک معطّر رہیں اورعالم انسانی کی با شعور فکریں تابہ آخرین مرحلۂ حیات دامان عصمت وطہارت سے فیضیاب ہوں۔ بہ فیض ربّانی،ایسی ہی باشعورفکروں کی ایک مضبوط کڑی کا نام نامی خواجہ معین الدین حسنؒ اجمیری ہے جنہوں نے اپنی بے پناہ عقیدتوں کا مظاہرہ، نظم ونثردونوں صورتوں میں، طالبان بقا ء کے سامنے پیش کیا ہے۔سیرت نبیؐ کے ساتھ آل نبیؐ کی پیروی موصوف کے مکارم اخلاق میں بدرجۂ اتم موجود ہے۔ ان کے گہرہائے منظوم برابر اسی اندازکی کیفیات کا مظاہرہ کرتے ہیں۔مگرایسے آبگینوں کی جستجوکے لئے نکتہ سنجی کے ساتھ ساتھ باریک بینی چاہیے۔ حضرت پیغمبرؐاور ان کے اہلبیت اطہار علیہ الصلواۃ والسلام سے ان کی عقیدت،ایک ایسا موضوع ہے جس پر قلم اٹھانا کم از کم میرے حق میںچھوٹا منھ اور بڑی بات سے زیادہ نہ ہوگا۔بہرحال، بربنائے آنکہ’کچھ تو کہئیے کہ لوگ کہتے ہیں‘ کچھ نہ کچھ تو کہنا ہی پڑے گا۔
خواجہ اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کا سلسلۂ نسب بھی ماں اور باپ دونوں جانب سے مولا ئے متقیان حضرت علی علیہ السلام تک پہنچتاہے چنانچہ متعدّد کتابوں میں اس کی تفصیل درج ہے۔1؎ٖ
اس حوالے سے بھی ایک صورتحال نظرآتی ہے جسے یوں بھی کہاجائے توغیرمناسب نہ ہوگا کہ ’’شناخت اپنی کراتاہے رنگ وبوسے لہو‘‘۔2؎
’’دیوان غریب نواز ‘‘یوں توحمدباری تعالیٰ اورنعت پیغمبراکرمؐکاایک شعری مجموعہ ہے مگراکثروبیشترمقامات پرموصوف مولاعلیؑ کے فضائل پرروشنی ڈالتے ہوئے حصول مقصد کی جانب قدم بڑھاتے نظرآتے ہیں۔مثال کے طورپر، مولود کعبہ کاسب سے پہلے چہرۂ رسول کی زیارت فرمانا، معراج کے موقع پرخداوند کریم کااپنے حبیب (سرکاردوعالمؐ) سے حضرت علیؑ کے لہجے میں گفتگو کرنا، ہجرت کی شب خطروں کے درمیان بستررسول پرفاتح خیبرکا بے خوف سوجانا، میثم تمارکابرسردار مولائے کائنات کی مدح سرایی کرنااور حب علی ایمان وبغض علی نفاق وغیرہ وغیرہ۔ایسے نکات ہیں جن کا ذکران کے کلام میں کہیں پر آشکار اور کہیں پراشاروں اور کنایوں میں ہواہے۔مثلاً یہ اشعار:
بہ حق او کہ بہ کونین چشم بکشایم
کہ تا نخست نہ بینم جمال مولیٰ را
آنکہ اندربزم جان ہردم بہ آواز دگر
می نوازدپردۂ صاحبدلان پیداست کیست
رہ مخوف است وشب مظلم ودشمن بر کمین
رہبرم نور توکّلت علیٰ اللّہ بس است
معینی گر ہمی خواہی کہ سرّش برزبان رانی
مقام آن سر دار است بر منبر نمی گنجد
اگر بایار خود باشی ترا دوزخ بہشت آمد
وگر بی یار خود مانی ترا جنّت جہنم شد
اور پھر جس وقت خواجہ صاحب کھل کر مدح علیؑ کرتے ہیں تووہ مدح اس رباعی کی شکل میں نمودار ہوتی ہے:
اوصاف علیؑ بہ گفتگو ممکن نیست
گنجایش بحر درسبو ممکن نیست
من ذات رابہ واجبی کی دانم
ا لّا دانم کہ مثل او ممکن نیست
آگے بڑھنے سے پیشتریہ عرض کرتا چلوں کہ خواجہ اجمیری کی ایک رباعی ’’شاہ است حسین بادشاہ است حسین‘‘ شہرت کے اعتبار سے اپنا ثانی نہیں رکھتی۔اس رباعی کے سلسلے میں اہل ذوق نے مختلف زاویوں سے مالک اصلی کی نشاندہی کی ہے جس پر مقدّمہ لکھنا یہاں میرا منظور نہیں۔۔میں تو صرف اتنا جانتا ہوں کہ خواجہ صاحب کا یہ رجحان فقط اس رباعی پر موقوف نہیں بلکہ ان کے ہرکلام میں’’ بنائے لاالٰہ‘‘ کا اطلاق اسی مفہوم پر ہوتا ہے ،فی المثل:3؎
بگذرمعین زکثرت اندرمقام وحدت
آن شاہ تاج عزت بنہاد بر سرتو
یا
یارب! بہ حق سید کونین مصطفیٰ
کش جسم وجاں خلاصۂ کون ومکان بود
یاران اہلبیتؑ کہ دردار ضرب عشق
برنقد دوستی رقم نام شان بود
یا
بہر فرزند خلیل ار گوسفند آمد فدا
بہر این امت فدا ازنوع انسان ساختہ
ایک اور رباعی جو ان کے دیوان کا حصّہ ہے اس کے بارے میں مجھے نہیں معلوم کہ صاحبان شعروادب کی کیا رائے ہے! اس رباعی کا خالق بہرحال معتقد ہے کہ تمام پیغمبروں سے جوکام نہ ہوسکا اس کو خدا کی قسم امام حسینؑ نے عملاً پورا کر دکھایا۔
کاری کہ حسینؑ اختیاری کردی
در گلشن مصطفیٰ بہاری کردی
از ہیچ پیمبران نیاید این کار
واللہ ای حسینؑ کاری کردی
پروفیسر گوپی چند نارنگ نے اپنی کتاب’سانحہ کربلا بطور شعری استعارہ‘ میں شاعری کے اسلوبیاتی اظہار اور ساختیاتی مضمرات کو اُجاگر کرتے ہوئے ایک نئے شعری رجحان کی نشاندہی کی ہے۔نیز یہ بھی کہ سانحہ کربلا کو فقط اسلامی تاریخ کے پس منظر میں نہیں بلکہ نئے معیناتی تقاضوں کے تحت فہم و ادراک پر اتارنے کے لیے اصرار کیاہے۔ان کی یہ تحقیق قابل توجہ ہے کہ ‘‘انیس نے قصیدے کی روایت سے استفادہ کرکے فن مرثیہ گوئی کو نئے جمالیاتی ذائقہ سے ہم آہنگ کیاہے۔4؎
خواجہ صاحب کے منجملہ کلام سے مجھے اس بات کا احساس ہوا کہ موصوف سادگی زبان وبیان پر بھرپور توجہ دیتے ہیں اور منقبتی شاعری کا تقاضا بھی یہی ہے- اس دور میں بھی مشکل مرکبات اور سخت کلمات کا استعمال عوام سے قربت پیدا نہیں کرسکتا بالخصوص منقبتی اور مذہبی ماحول میں جہاں عقلی شعور سے زیادہ جذباتی امور اہمیت رکھتے ہیں۔
’’وحدت الوجود کے بارے میں مولانا جامی نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف’لوائح جامی‘ میں اسلامی نظریہ وحدت الوجود کو اس طرح بیان فرمایا ہے: ’آپ لکھتے ہیں کی ذات حق کا خلق کے ساتھ تعلق نہ جزو اور نہ کل جیسا ہے(یعنی حق تعالیٰ اجزاء اور اعضاء سے پاک ہے) اور نہ ہی یہ تعلق ظرف و مظروف کا ساہے، جس طرح برتن میں کوئی چیز رکھی جاتی ہے بلکہ ذات جس کا کائنات سے تعلق صفت و موصوف اور لازم و ملزوم کا ہے یعنی کائنات حق تعالیٰ کی صفت تخلیق کا ظہور ہے، اس سے لازماً حق تعالیٰ سے علٰحدہ اس کا وجود قرار نہیں دیا جاسکتا۔ شیخ اکبر محیّ الدین ابن عربی، امام غزالی، شیخ محمود شبستری، مولانا رومی و غیرہ ہم نے ذات حق اور اشیائے کائنات کی مثال یوں دی ہے کہ ذات حق ایک دریائے بیکراں کی مانند ہے اور اشیائے کائنات امواج، برف حباب اور جھاگ کی طرح ہیں جو نہ سمندر کہلائی جا سکتے ہیں اور نہ سمندر کے وجود سے جدا ہیں۔
’ہمہ اوست‘ وحدت الوجود کا مسئلہ اس قدر اہم ہے کہ اسی ایک ہی اصطلاح سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ یہ کلام ایک عارف باللہ و صوفی عظیم المرتبت کا ہے نہ کہ ایک مولوی یا ملّا کا ہے۔ درج ذیل کلام کا مطالعہ فرمائیں‘‘۔5؎
کسی کو عاشق و معشوق خویشتن ہمہ اوست
حریف خلوت و ساقی انجمن ہمہ اوست
اگر بہ دیدہ تحقیق بنگری دانی
کہ ناظر دل و منظور جان و تن ہمہ اوست
چو اندر آئینہ دل فتاد عکس رخش
چنان نمود کہ درجسم و جان من ہمہ اوست
زجام عشق نہ منصور بیخود آمد و بس
کہ دار نیز ہمی گفت با رسن ہمہ اوست
خواجہ اجمیری نے مراتب آئمہ معصومینؑ کی شناخت جس انداز سے اپنے کلام میں رقم فرمائی ہے وہ ان کی بصیرت افروز نگاہوں کا ایک روشن آئینہ ہے۔6؎ وہ انوار الٰہی جن کی سب سے پہلے حضرت آدم نے زیارت کی ان کا محترم ہونا، قرآن ناطق کاتمامتر مخلوق خداوندی پرافضل قرار پانا اورصغرسن میں ہی اولاد رسول کا جوہر اعجاز دکھانا موصوف کے سودائے الفت آلؑ کا بہترین نمونہ ہے:
درجان چوکرد منزل جانان ما محمّد
صد درکشاد دردل ازجان ما محمّد
ما بلبلیم نالان در گلستان احمد
ما لو لوئیم و مرجان عمّان ما محمّد
یا
عیسیٰ کہ چوخورشید زند خیمہ برافلاک
د ر آرزوی سایۂ عالی علم اوست
شادی جہان کرد فدای غم امت
دانست کہ شادی جہانی بہ غم اوست
یا
معین رادر صغر آن کس بہ منبر آن سخن آورد
کہ در گہوارۂ طفلی قرین ابن مریم شد
خواجہ اجمیری اپنی حیات میں مختلف مقامات کا سفر کرتے رہے اور اس درمیان متعدد صوفیائے کرام سے ان کی ملاقات ہوئی۔ ان کے شاگرد رشید خواجہ قطب الدین بختیار کاکی شہر دہلی میں ان کی نمایندگی فرماتے رہے اور وہیں انہوں نے رحلت فرمائی۔داراشکوہ نے سفینۃ الاولیا میں لکھا ہے:
’’ بعد از ورود بہ اجمیر یک کاخ کوچکی برای خود درست کرد و ھمانجا مشغول عبادت شد۔ ابتدا وقتی مردم این فقیر را دیدند خیال کردند یک جوگی یا سادھو است ولی وقتی ملاحظہ کردند کہ عمل و رفتارش و عبادت و بندگی از ھندوہا فرق می کند بہ جستجو افتادند کہ این دیگر کیست؟ روزی چند تا راجپوتہا بہ کاخ وی آمدند آن موقع معین الدین مشغول عبادت و راز ونیاز با خدای خود بود۔ آنہا ہمانجا منتظر ماندند تا عبادتش تمام شود۔وقتی معین الدین از عبادت فارغ شد رو بہ آنھا کرد و پرسید،’’ شما چہ کسانی ھستید و چہ می خواھید؟‘‘ پرسیدندِ ’’ تو کی ھستی و برای چہ اینجا آمدہ ای؟‘‘ گفت، ’’من یک مسلمان ھستم و آمدہ ام تا پیغام خداوند را بہ شما برسانم۔‘‘ با شنیدن اسم مسلمان آنھا بہ تعجب فرورفتند و پرسیدند،’’ پس تو از اقوام محمود غوری ھستی؟‘‘ گفت،’’ بلہ او برادر دینی من بودہ ولی من با سلاح و لشکر نیامدہ ام بلکہ دست خالی و تنہا ھستم۔‘‘7؎
دامن علم و بصیرت میں کچھ ایسے بندے بھی گزرے ہیں جنہوں نے بھرپور اپنی استعداد کا جلوہ بکھیرا ہے مگر کبھی خودستائی کے دام بلا میں گرفتار نہیں ہوئے۔ ایسے عرفا اور ایسے مشائخ بھی سرگرم عمل رہے ہیں جنہوں نے اپنے کرامات کو لب اظہار تمکنت پر آنے نہیں دیا۔اپنے ظاہر و باطن کا مستقل مطالعہ اورتجزیہ کرتے رہے اس لیے کہ دوسروں کو فیض پہنچانا ان کی طریقت میں شامل تھا۔ اسی نکتہ کو مد نظر رکھتے ہوئے مولانا آزاد یوں فرماتے ہیں:
’’لیکن ساتھ ہی ہم دیکھتے ہیں، انانیّت کا یہ شعور کچھ اس نوعیت کا واقع ہوا ہے کہ ہر انفرادی انانیّت اپنے اندرونی آیینہ میں جو عکس ڈالتی ہے، بیرونی آیینوں میں اس سے بالکل الٹا عکس پڑنے لگتا ہے۔ اندر کے آیینہ میں ایک بڑا وجود دکھائی دیتا ہے، باہر کے تمام آیینوں میں ایک چھوٹی سے چھوٹی شکل ابھرنے لگتی ہے، خودی آیینۂ دارد کہ محروم ست اظہارش‘‘۔8
شبلی نعمانی نے’’ موازنہ انیس و دبیر‘‘ میں درحالیکہ مرزا دبیر کی صلاحیتوں کو نظر انداز کیا ہے مگر اعتراف اس بات کا کیا ہے کہ ’’ میر انیس نے واقعہ نگاری اور مصوری کے ساتھ بندش کی اور خواص کی طرز گفتگو کی خصوصیت بھی قائم رکھی اور یہ قادرالکلامی کی انتہا ہے‘‘۔ سچی بات تو یہ ہے کہ مرزا دبیر بھی اپنی قادرالکلامی میں میر انیس سے کسی حال میں کم نہ تھے۔ اس موقع پر یہ کہنے کو جی چاہتا ہے کہ وہ شعراء جنہیں آل رسول کی زبان سمجھ میں آگئی اور ان سے سچی عقیدت رکھنے لگے ان کے سامنے واقعہ نگاری اور مصوری کیا چیز ہے۔ اہلبیت اطہار علیہم السلام سے مودت اور ان کی پیروی خواجہ صاحب کے کلام میں بار بار ابھر کر سامنے آتی ہے۔ وہ کبھی واقعات سے استنباط کرتے ہیں تو کبھی اقوال سے، اور اسی بنا پر ان کی پیغام رسانی میں زور پیدا ہوجا تا ہے۔ اردو والوں نے شاید ان سے متاثر ہوکر یہ اسلوب اختیار کیا۔9؎
عابد سے پھر یہ سبط نبی نے کیا کلام
اے لال تم ہو نانا کی امت کے اب امام
اب ہے تمہارے ہاتھ میں اسلام کا نظام
کہنا وطن میں شیعوں کو میرے مرا سلام
میرا پیام دینا ہراک حق شناس کو
پانی پیو تو یاد کرو میری پیاس کو
مقصد مرا کبھی نہ بھلائیں مرے محب
ظالم کے آگے سر نہ جھکائیں مرے محب
مخلوق کے نہ دل کو دکھائیں مرے محب
ناداروں کو کبھی نہ ستائیں مرے محب
حق عباد و خالق باری ادا کریں
اللہ کے رسول سے ہر دم وفا کریں
مختصر یہ کہ خواجہ اجمیری کے دیوان میں مختلف عنوانات سے سلسلہ وار منقبت اہلبیتؑ ہوئی ہے۔ ’’ہزار نکتۂ باریکتر زمو اینجاست‘‘ ممکن ہے مستقبل قریب میں کسی اہل نظرکی نظراس عنوان کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے میں کامیاب ہوجائے۔ مگر ایسا بھی نہ ہو کہ ’’شعر مرا بہ مدرسہ کہ برد‘‘ والی بات ہوجائی! آیۂ تطہیر کے مصداق کس نوعیت کے لوگ ہیں اس بات کو سمجھنا اور ان کے گلابوں کی خوشبو محسوس کرناہرکس وناکس کے مشام ذوق کی بات نہیں۔ اس کا حق بس اسی کو پہنچتا ہے جسے یہ کہنے کا شعور حاصل ہو:
مگرصبا ز سرکوئے دوست می آید!
کہ اززمین وزمان بوی دوست می آید
مرزا غالبؔ بھی کچھ کم نہ تھے:
غالب! ندیم دوست سے آتی ہے بوے دوست
مشغول حق ہوں بندگی بوتراب میں
یہ منظرنامہ کس کی دین ہے یہ تو صاحب قلم ہی جانے مگر میری نگاہوں میں اس کی حیثیت وہی ہے جسے تایید غیبی کہتے ہیں جو سب کو نصیب نہیں ہوتی۔
خواجہ اجمیری نے ایک ایسے ماحول میں پرورش پائی جہاں شعر و شاعری تختہ مشق رہی۔ ادبی اور ثقافتی انجمنوں اور محفلوں سے لبریز فارسی شاعری برسوں سے ادبی خدمات میں مشغول ہے۔ اس زبان نے ایک سے ایک نامور شاعروں کو جنم دیاہے جن کی فہرست مرتب کرنے کے لئے بھی اچھی خاصی مدت درکار ہے۔ موصوف کی شاعرانہ صلاحیت میں منقبتی، بالخصوص ارادتمندی کا اثر بخوبی دیکھا جا سکتا ہے۔ راقم الحروف کو اس بلند پایہ صوفی کی سطح کا بھرپور اندازہ ہے مگر سب کچھ ایک نشست میں لکھ دینا بھی آسان نہیں۔میں بھی انتظار پر یقین رکھتا ہوں اور آنے والی گھڑیوں کو محسوس کر رہا ہوں یعنی آیندہ قریب میں یہ سلسلہ آگے بڑھے گا اور پھر رفتہ رفتہ زنجیر اعتبار طول پکڑتی جائے گی۔ ان کی بارگاہ میں اس مختصر سی حاضری کی صلہ ضرور ملے گا اور دنیوی اعتبار سے بھی یہ کہہ سکوں گا کہ میں نے کچھ تو حق ادا کرہی دیا۔بارگاہ خداوندی میں دعا بلب ہوں کہ ایسے معتبر اور معنوی بزرگ کی مجھ پر نگاہ کرم ہو اور میرے الفاظ شرف قبولیت حاصل کریں ، آمین یا رب العالمین!
حوالہ جات:
.1 غلام سرور لا ہوری ، حدیقۃ الاولیا ، ج ۱ ، ص256 (ان کی ولادت 14؍ رجب 536 ہجری ایک مذہبی اور ثروتمند گھرانے میں ہوئی تھی۔ ان کی نسل سادات سیستان چلی اور ان کا سلسلۂ نسب بارہ اماموں سے ہوکر حضرت علیؑ تک پہنچتا ہے۔چونکہ وہ قصبہ سجز میں متولّد ہوئے تھے اس واسطے سے انہیں معین الدّین سجزی بھی کہا جاتا ہے)
.2 نور علے نور، خواجہ معین الدین چشتی بتصحیح منشی بھگوان دیال عاقل، مطبع منشی نول کشور، کان پور (ایک اور دیوان موسوم بہ دیوان حضرت خواجہ معین الدین چشتے رحمۃ اللہ،مطبع نامی واقع لکھنٔو میں 1309ھ میں شایع ہوا جس کے مہتمم ابوالحسنات قطب الدین احمدتھے۔ اس دیوان کو معین الدین عاشقی کا دیوان بتایا جاتا ہے)
.3 مسلم احمد نظامی ’دیوان غریب نواز ‘ کتب خانۂ نذیریہ اردو بازار دہلی30 می‘1958عیسوی(یہ دیوان بھی حمد باری سے شروع ہوتا ہے،’’ ربود جان و دلم را جمال نام خدا۔ نواخت تشنہ لبان را زلال نام خدا۔ اس کے دیباچہ میں موصوف لکھتے ہیں ‘‘، عقیدت کیا چیز ہے؟ یہ الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے، بلکہ اگر محال کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ عقیدت میں آدمی کیا کر گزرتا ہے، یہ عقیدتمند ہی جان سکتا ہے۔ مذہب اسلام ہی وہ مذہب ہے جس میں چودہ سو برس گزرجانے کے بعد بھی وہ لوگ پائے جاتے ہیں جن کو صحابۂ کرام کا اخلاق، ان کی عبادت و ریاضت حاصل ہے۔ جن کی زندگیاں آج بھی ایمان کی چلتی پھرتی تصویریں ہیں‘‘، ص 5
.4 ایک اور خصوصیت جو ان کے کلام میں جزو لاینفک کی صورت جلوہ نمائی کرتی ہے وہ ائمہ طاہرین کی بصیرت ہے- احادیث اور اقوال کی روشنی میں مطالب کی جستجو کرتے ہیں گویا حدود سے تجاوز ان کے یہاں ابطال شرعی اور عمل غیر صالح کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس دور کے بہتیرے ایسے شعرا بھی ہیں جو بندے کو خدا دیکھنا چاہتے ہیں، لیکن ایسے مہلک جراثیم سے خواجہ صاحب کی شاعری محفوظ ہے۔
.5 محمد محسن، اعزاز احمد آذر، دیوان حضرت خواجہ معین الدین چشتی علیہ الرحمہ، ادارہ پیغام القرآن ،ص 52
.6 تین نسخہ ہائے خطی بھی مختلف کتب خانوں میں دیکھے جا سکتے ہیں، مثلاً (1)کتب خانۂ آصفیہ حیدرآباد دکن، مخطوطہ 3757 یازدہم رجب المرجب 1214ہجری (2) کتابخانۂ عمومی خدابخش پٹنہ مخطوطہ ایچ ایل351 چہارم رمضان المبارک1256ھ (3) کتابخانۂ عمومی خدابخش پٹنہ مخطوطہ 2994ھ یازدہم محرم الحرام1201ھ)
.7 داراشکوہ، سفینۃ الاولیا، بابری، کانپور1318، ص94
.8 غبار خاطر، ابوالکلام آزاد، مرتّبہ مالک رام، ساہتیہ اکادیمی نئی دلّی،1983، ص181-182
.9 مسعود حسن رضوی، ادیب نے اپنی کتاب’ روح انیس‘ میں صفحہ51 پر رزمیہ شاعری کے باب میں کچھ اس طرح سے اظہار نظر فرمایا ہے،’’انیس کا مرثیہ حقیقت میں ایک خاص طرح کی رزمیہ نظم ہے جس کی ترکیب میں مرثیت کا عنصر لازمی طورپر موجود رہتا ہے۔ اس نظم کا میدان مرثیے سے کہیں زیادہ وسیع ہے بلکہ معنوی حیثیت سے شعر کی جتنی قسمیں کی جا سکتی ہیں، یہ ان سب پر حاوی ہے‘‘۔[الٰہ آباد1931]
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.