aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کرداروں کا تعارف

رشید اشرف خان

کرداروں کا تعارف

رشید اشرف خان

MORE BYرشید اشرف خان

     

    (الف) بنیادی کردار

    (۱) مہاراول گجندر رپتی مرزا 
    قدیم نظام زمینداری کا ایک نمائندہ جو اپنی دولت، نفری طاقت اور اعلیٰ حاکموں سے تعلقات کے نشے میں اپنے دور کا فرعون بنا ہوا تھا۔ غریبوں اور ناداروں پر طرح طرح کے حیوانی مظالم ڈھایا کرتا تھا۔ چونکہ وہ کشن گڑھ، راجپوتانہ (موجودہ راجستان) کا والا جاہ تھا اسی لیے سوفیصد مطلق العنان تھا۔ نہ اس کی کوئی مخالفت کرسکتا تھا اور نہ ہی اس کے حکم کو ٹالنے کی جرأت رکھتا تھا۔ اس کا زمانہ ہندوستان میں اٹھارویں اور انیسویں صدی کا زمانہ تھا۔ 

    (۲) مخصوص اللہ
    ایک عجیب و غریب ماہر فن مصور جو راجستھان کے ایک چھوٹے سے گاؤں ’’ہندل پروا‘‘ میں رہتا تھا۔ ہندوؤں اور مسلمانوں کی اس مخلوط آبادی والے گاؤں کا بیشتر حصہ شبیہ سازوں پر مشتمل تھا۔ نہ جانے مخصوص اللہ کے ستارے گردش میں آگئے تھے یا گاؤں والوں پر عذاب الٰہی نازل ہوگیا تھا کہ انجانے میں مخصوص اللہ نے ایک تصویر بنادی اور اس کا نام لوگوں نے ’بنی ٹھنی‘، ’من موہنی‘ یا ’رادھا‘ رکھ دیا۔ یہ سب تو وقتی چیز تھی لیکن دراصل لاشعوری طور پر مخصوص اللہ نے اپنی ہونے والی پوتی وزیرخانم کی تصویر کھینچ دی تھی۔ بدقسمتی سے تصویر کی شکل مہاراول گجندر پتی مرزا کی جوان بیٹی سے مشابہ تھی جسے گجندر پتی نے سات پردوں میں چھپا کر پالا تھا۔ 

    جب اسے خبر ملی کہ اس کی بیٹی کی شبیہ بنائی گئی ہے تو وہ آپے سے باہر ہوگیا۔ خود گھوڑے پر بیٹھا اور چند سواروں کو ساتھ لیا۔ ایک بے پردہ محافے میں اپنی بیٹی من موہنی کو بیڑی ڈال کر بٹھایا اور مخصوص اللہ کے گھر پہنچا۔ طاق پر من موہنی کی تصویر رکھی ہوئی تھی جسے دیکھ کر مہاراول آپے سے باہر ہوگیا اور اپنی بیٹی کو قتل کردیا پھر نیزے کی اَنی سے اس کی تصویر پھاڑ ڈالی اور چلاکر کہا ’’یہ لوگ صبح کے پہلے پہلے گاؤں خالی کردیں ورنہ میں ان کی جان و مال کا ذمہ دار نہ ہوں گا۔‘‘ 

    (۳) محمد یوسف سادہ کار
    مخصوص اللہ کے پرپوتے محمد یوسف سادہ کار کا تعلق کشمیر سے تھا۔ سادہ کاری اس کا آبائی پیشہ نہ تھا۔ یوسف کی پیدائش ۱۷۹۳ء کی تھی۔ اس کے باپ یعقوب بڈگامی دو بھائی تھے جس میں دوسرے بھائی کا نام داؤد بڈگامی تھا۔ ماں کا نام جمیلہ تھا۔ یہ لوگ کشمیر میں مدت سے رہ رہے تھے لیکن یہ اصلاً کشمیری باشندے نہ تھے۔ دراصل یہ لوگ راجستھان کے ایک گاؤں ہندل پروا کے تھے جہاں کے شبیہ ساز مشہور ہیں۔ یوسف کی شادی اکبری بائی فرخ آبادی کی لڑکی اصغری سے ہوئی اس وقت یوسف کی عمر ۱۵برس اور اصغری تیرہ برس کی تھی۔ 

    (۴) اکبری بائی فرخ آبادی
    اکبری بائی فرخ آباد (یوپی) کی رہنے والی تھیں لیکن جب انگریزوں اور مرہٹوں میں جنگ ہوئی، مرہٹے شکست کھاگئے تو اکبری بائی فرخ آباد کی سکونت ترک کرکے مستقل طور پر دہلی میں آبسیں۔ وہ پہلے اپنی بہن کے یہاں چاوڑی بازار میں قیام پذیر رہیں۔ پھر انہیں چاوڑی بازار ہی کے کوچۂ پنڈت کے نکڑ پر ایک مطلب کا مکان مل گیا جہاں ان کے اور ان کے شائقین کے شب و روز اچھے گزرنے لگے۔ 

    (۵) انوری خانم عرف بڑی بیگم
    محمد یوسف سادہ کار کی شادی اکبری بائی کی لڑکی اصغری سے ہوئی اور اصغری کے یہاں تقریباً دو برس بعد ایک نہایت درجہ خوبصورت لڑکی پیدا ہوئی جس کا نام انوری خانم عرف بڑی بیگم رکھا گیا۔ وہ شروع ہی سے انتہائی سعیدہ اور خداترس تھی۔ سات سال کی عمر ہی سے صوم و صلوۃ کی پابندی کرنے لگی تھی۔ نویں سال میں مکمل روزے رکھنے کے ساتھ ساتھ گیارہ برس کی عمر تک پردے کا بھی بڑا اہتمام کرنے لگی لہٰذا اچھے رشتے آنے لگے۔ شیخ مولوی نظیر صاحب مقیم پھاٹک حبش خاں سے عقد کردیا گیا۔ 

    (۶) عمدہ خانم عرف منجھلی بیگم
    عمدہ خانم محمد یوسف کی دوسری بیٹی تھی۔ ننھیال سے گہری محبت تھی بس چلتا تو زندگی بھر نانی کے ساتھ رہتی۔ شاعری، موسیقی اور فن خطاطی کی دلدادہ تھی۔ ماہ تخلص اختیار کیا۔ تہذیب و تمدن کا سلجھا ہوا شعور رگ و پے میں سرایت کیے ہوئے تھا۔ اکبری بائی نے اسے نواب سید یوسف علی خاں والیِ رام پور کے متوسلین میں شامل کرا دیا۔ 

    (۷) وزیر خانم عرف چھوٹی بیگم
    یہ محمد یوسف سادہ کار کی سب سے چھوٹی بیٹی تھی جس کا سن پیدائش ۱۸۱۱ءہے۔ وزیر خانم بے شک اپنے ماں باپ کی جائز اولاد تھیں۔ ان کے دادا اور پردادا بھی باعزت لوگ تھے البتہ ان کی نانی اکبری بائی فرخ آباد کی ڈیرے دارنی تھیں۔ اس زمانے میں ایسے پیشہ وروں کی بڑی قدر کی جاتی تھی کیونکہ ان کے ڈیرے امرا اور نوابوں کے بچوں کے لیے ترتیب گاہ تھی۔ مخصوص اللہ اس کے جدّ اعلیٰ اور سلیمہ خانم جدۂ ماجدہ تھیں۔ اپنی دو بڑی بہنوں کے برعکس، وزیر خانم سانولے رنگ لیکن غضب کی حسین تھی۔ تھوڑا بہت گانا بجانا بھی سیکھ لیا تھا۔ بے حد موڈی اور اپنی مرضی کی مختار تھی۔ ابھی تیرہواں سال تھا لیکن شادی بیاہ کے نام سے پناہ مانگتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ اس کو ماں کی تنبیہیں، بڑی بہنوں کی مثال اور محبت ذرا بھی اثر نہ کرتی تھی۔ وہ شعر بھی کہتی تھی اور میاں شاہ نصیرالدین نصیر (وفات ۱۸۴۰ء) سے کلام پر اصلاح بھی لینے لگی تھی۔ فارسی کے ہزاروں شعرازبر تھے۔ زہرہ تخلص تھا۔ ماں کے مرنے کے بعد وزیر خانم کے ساتھ کچھ ایسے حادثات پیش آئے کہ اس کی زندگی میں یکے بعد دیگرے مرد داخل ہوئے۔ ان کے نام حسب ذیل تھے، 

    (۱) مارسٹن بلیک (مارڈالا گیا)

    (۲) شمس الدین احمد خاں (پھانسی دی گئی)

    (۳) آغا مرزا تراب علی رفاعی (ٹھگوں نے مارڈالا)

    (۴) مرزا فتح الملک بہادر (عرف مرزا فخرو)، (بیمار ہوکر مرگیا)

    (۸) سوفیہ (Sophia)
    مسیح جان عرف بادشاہ بیگم۔ باپ مارسٹن بلیک اور ماں وزیر خانم۔ مارسٹن بلیک جو ۱۸۳۰ء میں ملازمت کے دوران جے پور کے ایک بلوے میں مارا گیا۔ سوفیہ کی خوبصورتی اس زمانے کی مثال تھی۔ سوفیہ کی شادی اینگلوانڈین فوجی افسر Alexander Skinner المعروف بہ ایلک سے ہوئی۔ سوفیہ کو شعر و ادب سے گہری رغبت تھی۔ ادبی حلقوں میں وہ مس بلیک خفی کے نام سے شہرت رکھتی تھی۔ 

    (۹) مارٹن بلیک (Martin Blake)
    وزیر خانم اور مارسٹن بلیک کا بیٹا عرفیت امیر مرزا۔ 

    (۱۰) بہادر میرزا 
    سوفیہ مارسٹن اور الگزنڈر اسکنر کا بیٹا۔ 

    (۱۱) احمدی بیگم
    سوفیہ مارسٹن اور الگزنڈر اسکنر کی بیٹی۔ ان کا عیسائی نام شارلٹ (Charlotte) تھا لیکن وہ احمدی بیگم کے نام سے جانی جاتی تھیں۔ ان کی اولادیں ۱۹۴۶ء میں جے پور راجستھان میں رہائش پذیر تھیں۔ 

    (۱۲) محمد امیریا امیراللہ
    سوفیہ عرف بادشاہ بیگم کا دوسرا شوہر۔ اس جوڑے سے ایک بیٹا تھا۔ 

    (۱۳) حسیب اللہ قریشی
    سوفیہ امیر اللہ کا پوتا۔ پیدائش تقریباً ۱۸۹۰ء باپ کا نام معلوم نہیں ہوسکا۔ باپ کا نام چھپانے اور قریشی لکھنے کی وجہ کیا تھی یہ ایک ایسا راز تھا جو کبھی وا نہ ہوا۔ غالب گمان ہے کہ امیر اللہ کا سلسلۂ نسب قریشی خاندان سے ملتا ہے۔ انہیں فارسی، ہندی، سنسکرت اور انگریزی زبان پر اچھی دسترس تھی۔ بہرحال یہی حسیب اللہ قریشی نے اردو ادب میں سلیم جعفر کے نام سے ایک نقاد اور ماہر بحر عروض کے شناور کی حیثیت سے ایک نمایاں مقام حاصل کیا۔ 

    (۱۴) شمیم جعفر (اعجاز احمد قریشی)
    اعجاز قریشی، سلیم جعفر کی واحد اولاد نرینہ تھی۔ ادبی ذوق ورثے میں ملا تھا۔ اردو اور فارسی سے خاطر خواہ واقفیت تھی۔ نواب مرزا خاں داغ دہلوی سے قرابت بعید رکھنے کے باوجود ان کے عاشق اور داغ دہلوی کی والدہ یعنی اپنی پردادی وزیر خانم کے قیصدہ خواں تھے۔ مذکورہ دونوں بزرگوں کے حالات خوب جمع کیے۔ ۱۹۵۹ء میں ان کا انتقال ہوا۔ 

    (۱۵) وسیم جعفر
    شمیم جعفر کے بیٹے۔ ماں کا نام پرڈیٹامارٹیمر (Perdita Mortimer) شمیم جعفر کے انتقال کے بعد پرڈیٹا اپنے بیٹے وسیم جعفر اور اس کی بڑی بہن کو اپنے ساتھ لے کر انگلستان چلی گئیں۔ 

    (۱۶) ڈاکٹر خلیل اصغر فاروقی
    ماہر امراض چشم۔ یہ ایک قطعاً فرضی نام ہے جسے مذکورہ ناول میں حاضر راوی کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ شمس الرحمٰن فاروقی کے والد کا نام محمد خلیل الرحمٰن اور دادا کا نام حکیم مولوی محمد اصغر فاروقی تھا۔ مصنف نے دونوں ناموں کو خوبصورتی سے یکجا کرکے ڈاکٹر خلیل اصغر فاروقی کی تخلیق کی۔ 

    (۱۷) نواب مرزا خاں داغ
    نواب مرزا خاں، تخلص داغ اور عرفیت ’’میاں‘‘ کی پیدائش ۲۵/مئی ۱۸۳۱ء چہار شنبہ بوقت دو بجے دن میں وزیر خانم کے یہاں ہوئی۔ ان کے والد نواب شمس الدین نے اپنے اس بچے کا نام اپنے مرحوم بھائی کے نام پر محمد ابراہیم علی خاں رکھا لیکن نواب مرزا کے نام سے پکارنا پسند کیا۔ داغ ابھی مشکل سے پانچ سال کے تھے کہ نواب شمس الدین خاں ایک انگریز افسر ولیم فیریزر کے قتل کے مجرم قرار پائے گئے جس کے الزام میں انہیں ۸/اکتوبر ۱۸۳۵ء بہ وقت ۸بجے دن، دہلی میں سرعام تختۂ دار پر لٹکا دیا گیا اور داغؔ یتیم ہوگئے۔ داغؔ کی والدہ وزیر خانم نے اپنی بہن عمدہ خانم عرف منجھلی بیگم اور نواب شمس الدین خاں کی ہمشیرہ جہانگیرہ بیگم کی مرضی سے ۱۱/اگست ۱۸۴۲ء کو آغا مرزا مولوی تراب علی رفاعی سے اسلامی طریقے سے پہلا نکاح کیا اور دہلی سے رام پور چلی گئیں، ابھی تقریباً ڈیڑھ سال کا ہی عرصہ گزرا تھا کہ مرزا تراب علی کو ٹھگوں نے مار ڈالا۔ ۲۴/جنوری ۱۸۴۵ء کو وزیر خانم دوسری بار بہادر شاہ ظفر کے لڑکے میرزا محمد سلطان غلام فخرالدین عرف مرزا فخرو کے نکاح میں آگئیں۔ داغؔ کی تعلیم و تربیت ذوق کی رہنمائی میں لال قلعہ میں ہوئی۔ دلی کے مشاعروں میں داغؔ مشق سخن کرتے رہے۔ 

    ۱۰/جولائی ۱۸۵۶ء کی صبح مرزا فخر و بہادر چند دنوں کی علالت کے بعد انتقال کرگئے۔ لہٰذا داغؔ کو اپنی ماں کے ساتھ قلعہ کو خیرباد کہنا پڑا۔ ۱۸۷۵ء کی بغاوت میں داغؔ دہلی سے اپنے خالو کے یہاں رام پور پہنچے جو والیِ رام پور تھے۔ خالو نے انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا اور نواب کلب علی خاں اور ولی عہد نواب یوسف علی خاں کے مصاحب خاص بنا دیے گئے ان دونوں کے انتقال کے بعد محبوب علی خاں نظام حیدرآباد کے اتالیق مقرر ہوئے یہیں پر داغؔ کی زبان پر فالج کا شدید حملہ ہوا۔ ۱۴/فروری ۱۹۰۵ء کو انتقال کرگئے۔ درگاہ یوسفین حیدر آباد میں دفن کیے گئے۔ 

    (۱۸) ولیم فریزر (William Fraser)
    ولیم فریزر ایک انگریز افسر تھا جو دہلی میں دولت کمپنی بہادر میں ریزیڈنٹ تھا۔ اس نے اپنے اعلیٰ افسروں کی طرح ہندوستانی زبان بڑے شوق سے سیکھی۔ ہندوستانی تہذیب اور اس کے رکھ رکھاؤ سے بھی اسے خاصی رغبت تھی۔ فارسی، اپنی مادری زبان انگریزی کی طرح بولتا تھا۔ شاعری سے بھی خاطر خواہ دلچسپی تھی۔ نہایت ظالم و جابر طبیعت پائی تھی۔ کاشتکاروں کو اس قدر عاجز کرتا تھا کہ اس کے ظلم و جبر کی وجہ سے دہلی کے قرب و جوار کے کاشتکاروں کو گاؤں چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا۔ فریزر ایک ذہنی عیاش تھا اور مہمان عورتوں کو بھی اپنی ذہنی ہوس کا نشانہ بناتا۔ چھ سات بیبیاں تھیں، عمر پچاس سے تجاوز کر رہی تھی پھر بھی اس کے معشوقوں میں کئی اَمرد بھی تھے۔ ولیم فریزر انگریز ہونے کے باوجود بھی ہندوستانی امیرزادوں کی طرح لباس زیب تن کیا کرتا تھا۔ 

    وزیر خانم جو نواب شمس الدین خاں کی منظور نظر تھی اور ولیم فریزر بھی اسے پسند کرتا تھا جس کی وجہ سے دونوں کے تعلقات میں تضاد پیدا ہونا یقینی تھا۔ اس کے علاوہ ایک موقع پر فریزر نے شمس الدین کے خلاف گواہی بھی دی۔ کئی ایسی باتیں تھیں جس سے نواب شمس الدین خاں والیِ فیروز پور جھرکہ سے ولیم فریزر کی دشمنی میں دن بدن اضافہ ہوتا رہا۔ ۲۲/مارچ ۱۸۳۵ء کی شب میں ولیم فریزر کشن گنج کے راجہ کلیان سنگھ کی دعوت سے اپنی بگھی میں واپس ہو رہا تھا کہ نواب شمس الدین خاں کے اشارے پر کریم خاں نے تقریباً رات کے گیارہ بجے ولیم فریزر کو گولیوں سے بھون د یا۔ 

    (۱۹) نواب شمس الدین احمد خاں 
    نواب شمس الدین احمد خاں دلاور الملک نواب احمد بخش خاں کے بیٹے تھے۔ احمد بخش کی انگریزی حکومت میں بڑی قدرومنزلت تھی۔ زندگی بڑی طمطراق اور ٹھاٹ باٹ سے گزری۔ انگریزی حکومت کے ایک اعلیٰ عہدیدار لارڈلیک نے احمد بخش خاں کو فیروز پور جھرکہ کی ایک وسیع و عریض جائداد عطا کی جو ایک ریاست کے برابر تھی علاوہ ازیں ’’الور‘‘ کے راجہ بختاور سنگھ نے نواب احمد بخش خاں کو نہ صرف ’’لوہارو‘‘ کی ریاست کا مالک بنایا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اپنی معشوقہ ’’موسی‘‘ کی بہن ’’مدی‘‘ کو بھی کو عطا کردیا۔ احمد بخش خاں اور مدی سے نواب شمس الدین کے علاوہ ایک بیٹا اور دو بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ اس کے بعد احمد بخش نے برلاس مغل خاندان کی حسینہ بیگم سے نکاح کرلیا جن سے امین الدین احمد، ضیاء الدین احمد اور پانچ بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ ازراہ دوراندیشی احمد بخش خاں نے شمس الدین خاں کو فیروزپور جھرکہ کا مالک بنادیا اور لوہارومع پہاسو امین الدین احمد اور ضیاء الدین احمد کے نام لکھ دیا اس وصیت نامے کو دونوں فریقین نے ناپسند کیا باوجود اس کے ۱۸۲۵ء میں احمد بخش خاں کے وصیت نامے پر بحیثیت گواہ سرچارلس مٹکاف اور لونی نے دستخط کیے۔ 

    انگریزی قوانین کے مطابق سرچارلس مٹکاف کے بعد تیسرے ریزیڈنٹ فرانسس ہاکنس (Francis Hawkins) نے احمد بخش خاں کے بڑے لڑکے کی حیثیت سے نواب شمس الدین احمد خاں کو متذکرہ بالا دونوں ریاستوں کا مالک و مختار بنادیا لیکن امین الدین اور ان کی والدہ، بیگم جان لوہارو کی جائداد دوبارہ حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کرتے رہے اسی درمیان ریزیڈنٹ کے عہدے پر ولیم فریزر کا تقرر ہوا جو مذکورہ حالات سے بخوبی واقف تھا۔ فریزر نے بیگم جان اور ان کے دونوں بیٹوں کے حق میں اپنی رپورٹ کو ازسرنو ترتیب دے کر کلکتہ کے صدر دفتر میں یہ کہہ کر بھیجی کہ سابقہ فیصلہ یک طرفہ تھا لہٰذا ’’لوہارو‘‘ کی جائداد بیگم جان اور امین الدین کو واپس کی جائے۔ 

    ایک طرف نواب شمس الدین احمد خاں کو اس بات کی طمانیت تھی کہ ولیم فریزر جن کو وہ بچپن سے چچا جان کہا کرتے تھے، وہ ان کے حریفوں کے حق میں فیصلہ نہ دے کر گزشتہ فیصلے کو میرے حق میں برقرار رکھیں گے لیکن فریزر نے مخالفت کی جس کی ایک وجہ نواب شمس الدین خاں کی منظور وزیر خانم بھی تھی، کیونکہ ولیم فریزر، وزیر خانم پر حریصاینہ نگاہ رکھتا تھا۔ وزیر خانم اور لوہارو کی جائیداد کے تنازع کی وجہ سے فریزر نے شمس الدین احمد خاں کی سرِعام بے عزتی کردی، اس پر شمس الدین احمد خاں نے فریزر کو قتل کروادیا۔ انگریزوں نے چھان بین کرکے فریزر کے قاتل کریم خاں کے علاوہ نواب شمس الدین احمد خاں کو بھی ۱۸/اکتوبر ۱۹۳۵ء کو پھانسی دے د ی۔ 

    (۲۰) مارسٹن بلیک (Marston Blake)
    مارسٹن بلیک، ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرف سے پاکستان اور کمپنی کے پولیٹکل ایجنٹ کی حیثیت سے دہلی میں تعینات تھا۔ غالب گمان تھا کہ وہ دہلی میں ریزیڈنٹ اور جنرل کے عہدے پر فائز ہوگا۔ ۲۸سالہ نوجوان، کشیدہ قامت، شگفتہ مزاج، بذلہ سنج اور اچھی خاصی ہندی بولنے والا مارسٹن بلیک، وزیر خانم سے ملا تو وہ اس پر مرمٹی۔ اس کے والد محمد یوسف سادہ کار نے بھی کوئی مداخلت نہیں کی۔ مارسٹن بلیک کا تبادلہ جے پور ہوگیا اور وزیرخانم بھی مارسٹن بلیک کے ساتھ جے پور چلی گئی۔ دورانِ ملازمت ۱۸۳۰ء کے اوائل میں جے پور کے ایک مقامی بلوے میں مارسٹن بلیک مارا گیا۔ 

    (۲۱) آغا مرزا تراب علی رفاعی
    آغا مرزا تراب علی رفاعی ایک ایرانی ذی علم خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ ہندوستان آنے کے باوجود اپنے گھر میں فارسی زبان میں گفتگو کرتے تھے۔ رام پور میں عرصۂ دراز سے قیام تھا۔ تجارت ان کا خاص پیشہ تھا۔ پہلی بیوی کا انتقال ہوگیا جن سے کوئی اولاد نہ تھی۔ آغا مرزا تراب علی رفاعی، نواب شمس الدین احمد کی بہن جہانگیرہ کے جیٹھ تھے۔ جہانگیرہ اور عمدہ خانم کی کوششوں سے ۱۱/اگست ۱۸۴۲ء کو وزیر خانم اور آغا مرزا تراب علی کا نکاح ہوگیا۔ آغا مرزا شیعہ مسلک سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ ایک وسیع النظر اور آزاد خیال انسان تھے۔ جون ۱۸۴۳ء کو وزیرخانم اور آغا مرزا تراب علی کے یہاں ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام شاہ محمد آغا مرزا رکھا جو بڑا ہوکر فارسی ادب میں شائق اور ہندی ادب میں شاغلؔ کے نام سے مشہور ہوا۔ 

    ۱۲/جنوری ۱۸۴۴ء کو آغا مرزا تراب علی رفاعی کا تجارتی قافلہ سون پور (بہار) سے رام پور کے لیے واپس ہو رہا تھا کہ کانپور کے پاس فتح پورہسوہ سے تھوڑا آگے ٹھگوں نے قافلے کو لوٹ لیا جس میں مرزا تراب علی اپنے کئی ساتھیوں سمیت ماردیے گئے۔ 

    (۲۲) میرزا سلطان غلام فخرالدین، عرف مرزا فخرو
    مرزا غلام فخرالدین عرف میرزا فخرو ۱۸۱۲ء میں پیدا ہوئے جو آخری مغل شہنشاہ ابو ظفر محمد سراج الدین بہادر شاہ کے چوتھے بیٹے تھے۔ مغلیہ سلطنت کے رسم و رواج کے مطابق میرزا فخرو نے بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ انگریزی زبان سے خاطر خواہ واقفیت تھی۔ ریختہ کے لیے انہوں نے استاد ذوق کی شاگردی اختیار کی اور رمز تخلص اختیار کیا۔ فارسی زبان سیکھنے کے لیے مولانا صہبائی سے رجوع ہوئے۔ رقص و موسیقی کے فن میں یدطولیٰ رکھنے کے ساتھ ساتھ شہسواری اور تیراندازی میں بھی اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے تھے۔ 

    مرزا فخرو کی پہلی شادی فضیلت النسا بیگم سے ہوئی جن سے ایک ہی اولاد پیدا ہوئی جس کا نام میرزا ابوبکر تھا۔ ۱۸۵۷ء کی بغاوت میں دہلی کی فتح یابی کے بعد میرزا ابوبکر اپنے چچا میرزا خضر سلطان (بہادر شاہ ظفر کے آٹھویں بیٹے) کے ساتھ ایک انگریز افسر ہاسڈن (Hasdon) کے ہاتھوں شہید ہوگئے۔ پہلی بیوی کے انتقال کے بعد میرزا فخرو نے اپنی دوسری شادی مرزا الٰہی بخش کی بیٹی حاتم زمانی بیگم سے کرلی جن سے ایک بیٹی پیدا ہوئی علاوہ ازیں تیسری شادی کا پیغام مولانا صہبائی کے ذریعے انوری خانم عرف بڑی بیگم کے پاس بھیجا۔ طویل گفتگو کے بعد بمشکل وزیر خانم عرف چھوٹی بیگم کو میرزا غلام فخر الدین سے نکاح کے لیے راضی کرلیا گیا اور ۲۴/جنوری ۱۸۴۵ء کو وزیر خانم دلہن بن کر قلعہ معلیٰ میں داخل ہوئیں۔ میرزا فخرو نے انہیں شوکت محل کے خطاب سے نوازا۔ ان کے یہاں اکتوبر ۱۸۴۵ء کو ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام خورشید میرزا رکھا گیا۔ ۱۰/جولائی ۱۸۵۶ء کو میرزا فخرو اچانک ہیضہ جیسی مہلک بیماری میں مبتلا ہوکر انتقال کرگئے۔ 

    (ب) ثانوی کردار

    (۱) مرزا غالب
    نام مرزا اسد اللہ بیگ خاں اور تخلص اسدؔ و غالبؔ تھا۔ وہ ۲۷/دسمبر ۱۷۹۷ء کی رات کو آگرہ (اکبرآباد) میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد کا نام میرزا عبداللہ بیگ خاں اور عرف میرزا دولھا تھا، اسی لیے غالب کی عرفیت میرزا نوشہ ہوگئی۔ غالب کی ایک بڑی بہن بھی تھیں جن کا نام اور عرف چھوٹی خانم تھا۔ والدہ کا نام عزت النسا تھا اور وہ عمر بھر اپنے میکے میں رہیں۔ غالب کے ایک بھائی میرزا یوسف بیگ خاں بھی تھے جو غالب سے دوبرس چھوٹے تھے۔ ۹/اگست ۱۸۱۰ء کو جب غالب ۱۳برس کے تھے تو ان کی شادی نواب احمد بخش خاں کے چھوٹے بھائی الٰہی بخش خاں معروف کی گیارہ سالہ صاحبزادی امراؤبیگم سے ہوگئی۔ 

    یہ واقعہ ۱۸۰۲ء کاہے، جب غالب کے والد راجہ بختاور والیِ الور کے یہاں ملازم تھے۔ راجہ بختاور کی فوج کی طرف سے لڑتے ہوئے غالب کے والد مخالف فوج کی گولیوں سے مارے گئے اس کے بعد غالب کے چچا میرزا نصیراللہ بیگ خاں نے دونوں بھائیوں کی پرورش کی۔ غالب کی وفات ۱۵/فروری ۱۸۶۹ء دوشنبہ کو ہوئی اور بستی نظام الدین میں دفن ہوئے۔ 

    (۲) حکیم احسن اللہ خاں 
    حکیم احسن اللہ خاں بن حکیم عزیز اللہ صدیقی ابن نظام الدولہ عین الملک حکیم محمد احمد خاں دہلوی شیخ زین الدین ہروی کی اولاد سے تھے۔ ان کے بزرگ ہندوستان میں پہلے کشمیر آئے، وہاں سے دہلی پہنچے۔ شیخ زین الدین کا مزار کشمیر میں ڈل جھیل کے کنارے واقع ہے اور بنام زمیندار شاہ موسوم ہے۔ سرسید احمد خاں نے اپنی دستاویزی کتاب ’’آثار الصنادید‘‘ میں لکھا ہے کہ حکیم احسن اللہ خاں کے والد حکیم محمد عزیز اللہ خاں نے اس فن شریف کو حاذق الملک حکیم محمد ذکاء اللہ خاں سے حاصل کیا اور اطبائے نامی شہر شاہجہاں آباد سے اس فن میں سبقت لے گئے۔ سرسید نے انہیں عہد مغلیہ کا آخری عظیم المرتبت طبیب کہا ہے۔ 

    حکیم احسن اللہ خاں ۱۷۹۷ء میں پیدا ہوئے۔ منطق، فلسفہ، ہندسہ اور ہیئت دہلی کے اساتذہ سے اور طب اپنے والد سے پڑھی۔ ابتدا میں نواب احمد بخش خاں، والیِ فیروز پور جھرکہ کی ملازمت میں منصب طبابت پر مامور ہوئے۔ نواب احمد بخش خاں کی وفات کے بعد نواب فیض محمد خاں والی ِ ججّھر کے معالج خاص بنے۔ پھر اکبر شاہ ثانی کے زمانے میں شاہی طبیب کا اعزاز ملا۔ عطاے خلعت کے ساتھ عمدۃ الملک، حاذق الزماں کے خطابات سے بھی نوازے گئے۔ بعد میں بہادر شاہ ظفر کے طبیب خاص مقرر ہوئے۔ بادشاہ کے جملہ امور سلطنت میں دخیل تھے۔ بہت سے اہل علم و دانش کو دربار تک پہنچایا۔ غالب و سرسید ان میں نمایاں تھے۔ غالب کی تالیف ’’مہر نیم روز‘‘ کی ترتیب میں شریک تھے۔ ستمبر ۱۸۷۳ء میں بڑودہ میں انتقال ہوا اور وہیں دفن ہوئے۔ 

    (۳) نواب یوسف علی خاں 
    نواب یوسف علی خاں والیِ رام پور جن کا تخلص استاد میرزا اسداللہ خاں غالبؔ نے، ناظمؔ رکھاتھا۔ نواب یوسف علی خاں کے والد کا نام محمد سعید خاں تھا۔ نوابانِ رام پور سے غالب کے قریبی تعلقات تھے چنانچہ جب نواب یوسف علی خاں تعلیم حاصل کرنے کے لیے دہلی گئے تو فارسی تعلیم کے لیے غالب کو اپنا استاد مقرر کیا۔ اگست ۱۸۴۰ء کو انگریزی حکومت نے نواب محمد سعید خاں کو ڈپٹی کلکٹر کے عہدے سے ترقی دے کر رام پور بھیجا اور وہ والیِ رام پور مقرر کردیے گئے۔ ان کے فرزند نواب یوسف علی خاں ان کے ولی عہد ہوئے لہٰذا دہلی کا قیام ترک کرکے رام پور میں مستقل سکونت اختیار کرنی پڑی۔ وزیر خانم تو دہلی میں اکیلی رہ گئیں لیکن ان کی بڑی بہن عمدہ خانم اپنے بھانجے نواب مرزا خاں داغ کو ساتھ لے کر نواب یوسف علی خاں کے ہمراہ رام پور چلی گئیں۔ ۱۸۸۵ء میں یوسف علی خاں تخت نشین ہوئے۔ 

    نواب یوسف علی خاں اور غالبؔ کے درمیان استاد اور شاگرد کے رشتے کو مولانا فضلِ حق خیرآبادی نے گہری دوستی میں بدل دیا۔ نواب یوسف علی خاں نے غالبؔ کو تاحیات سو روپے ماہوار تنخواہ مقرر کردی۔ ۱۲/اپریل ۱۸۶۵ء کو بعارضۂ سرطانی نواب یوسف چل بسے۔ 

    (۴) پنڈت نندکشور
    پنڈت نندکشور اپنے زمانے کے بڑے مانے ہوئے منجم، رمّال اور شانہ بیں تھے۔ ایک زمانہ ان کی استادی کا معترف تھا۔ وزیر خانم کی نانی اکبری بائی کے ڈیرے پر کبھی کبھی بڑے اصرار کے بعد چلے آتے تھے۔ دہلی میں عرصۂ دراز سے قیام کے بعد اپنے بیٹے کے پاس ہانسی حصار میں مستقل سکونت کا ارادہ رکھتے تھے کیونکہ بیوی کی موت اور ضعیفی نے انہیں سراپا رنج و غم بنادیا اور بڑی حدتک معذور ہوگئے تھے۔ تنہائی کے شب و روز سے انہیں و حشت سی ہونے لگی لہٰذا دہلی میں خانم کے بازار میں واقع اپنے مکان کو بیٹی اور داماد کو بخش دیا اور ہانسی حصار چلے گئے۔ ہانسی حصار میں اپنے بیٹے اور بہو پر ذرہ برابر بوجھ بننا گوارہ نہ کیا۔ ایک کمرہ اپنے لیے مخصوص کرلیا، اپنا کھانا خود بناتے۔ بیٹے نے بارہا اصرار کیا پر پنڈت نندکشور نے کسی کی نہ سنی۔ یہاں تک کہ گھر سے باہر نکلنے کے لیے ذاتی طور الگ زینہ بنوایا۔ شمس الرحمٰن فاروقی نے پنڈت نندکشور کا نقشہ کچھ اس طرح سے کھینچا ہے، 

    ’’پنڈت نندکشور کا قد کشیدہ، ڈیل دبلا اور رنگ گورا تھا۔ ہاتھوں کی انگلیاں لمبی اور مخروطی تھیں جیسی کہ مصوروں اور سنگ تراشوں کی ہوتی ہیں۔ بائیں ہاتھ کی انگلی میں گوریّا کے انڈے کے برابر سبز بھورا لہسنیا چاندنی کی کشتی نما انگوٹھی میں یوں نمایاں تھا گویا فلک زہرہ پر سورج طلوع ہو رہا ہو۔ لہسنیا کی ڈھائی لکیریں نیزۂ خطی کی طرح جگمگارہی تھیں۔ لہسنیا میں عموماً ایک یا حد سے حد ڈیڑھ لکیر ہوتی ہے۔ دولکیروں کا لہسنیا نادر اور ڈھائی لکیروں کا لہسنیا ایک پوری بادشاہی کے خراج سے بڑھ کر گردانا جاتا ہے۔ پنڈت نند کشور سرتاپا سفید لباس تھے۔ حتی کہ ان کا برہمنی طرز کا عمامہ بھی سفید تھا گویا ان کے وجود کا سارا تاثر سفید اور نازک کپاس کے پھول جیسا تھا۔‘‘ 1

    (ج) اضافی کردار

    (۱) بھرمارو
    ’’بھرمارو‘‘ انگریزوں کے زمانے کی ایک بندوق کا نام ہے جس میں بارود کو کاغذ میں گولی کی شکل دے کر نالی کی طرف سے بھرا جاتا ہے۔ نواب شمس الدین خاں والیِ فیروزپور جھرکہ کے وفادار کریم خاں کو بھرمارو اور اس کے تمام اقسام مثلاً قرابین اور بے دھرمی کو چلانے میں بے پناہ صلاحیت تھی اس بنا پر کریم خاں کو ’’بھرمارو‘‘ بھی کہا جاتا تھا۔ کریم خاں فیروزپور کے قلعے میں پیدا ہوا اور وہیں اس کی تربیت بھی ہوئی۔ عمر میں وہ نواب شمس الدین احمد خاں کا ہم عمر تھا اور پرورش بھی انہیں کے ساتھ ہوئی۔ ابتدائی تعلیم میں یہ دونوں ایک ہی استاد کے شاگردرہے۔ جنگی مہارت اور اس کے اسرار رموز سیکھنے میں بھی کریم خاں نواب شمس الدین احمد خاں کے ساتھ ساتھ رہا۔ کریم خاں ایک مہذب اور ظریفانہ مزاج رکھنے والا نوجوان تھا۔ نواب شمس الدین خاں کی ایما پر ولیم فریزر کو قتل کرنے پر کریم خاں (بھرمارو) کو ۲۶/اگست ۱۸۳۵ء کو دوپہر کے وقت دہلی کے مشہور بازار چاندنی چوک میں پھانسی دے دی گئی۔ 

    (۲) ذوقؔ دہلوی
    ذوقؔ کا پورا نام شیخ محمد ابراہیم تھا، ذوقؔ تخلص رکھتے تھے۔ ان کے والد کا نام شیخ محمد رمضان تھا، ۱۷۹۰ء میں دہلی میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم غلام رسول سے حاصل کی۔ غلام رسول ایک اچھے شاعر تھے۔ استاد کی صحبت سے ذوقؔ متاثر ہوئے اور کم عمری سے شعر موزوں کرنے کے ساتھ ساتھ غلام رسول سے اپنے کلام پر اصلاح بھی لینے لگے۔ کچھ دنوں بعد شاہ نصیر کو اپنا کلام دکھانے لگے اور انہیں کے رنگ میں شاعری کرنے لگے۔ ذوق نے اپنی شعری صلاحیت کو ایسی جلا بخشی کہ ان کا شمار استاد فن میں ہونے لگا۔ چار روپے فی مہینہ بہادر شاہ ظفر کے استاد مقرر ہوئے۔ بادشاہ کی مدح میں ایک قصیدہ لکھ کر خاقانیِ ہند کا خطاب پایا۔ بہادر شاہ ظفر کی تخت نشینی کے بعد ان کی تنخواہ میں زبردست اضافہ ہوا، سو روپے ماہوار تنخواہ مقرر ہوئی اور آخری مغل تاجدار کی سلطنت کے ملک الشعرا مقرر ہوئے۔ 

    (۳) امام بخش صہبائی
    شیخ امام بخش صہبائی ۱۸۰۷ء میں تھانیسر میں پیدا ہوئے۔ عربی و فارسی زبان کے ماہر شناور تھے۔ دلی کالج میں کئی برس تک عربی و فارسی کے استاد کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ دہلی کے ادبی حلقوں میں بڑی قدرومنزلت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ غالبؔ اور مولانا فضل حق خیرآبادی کے علاوہ عربی و فارسی زبان و ادب میں مولانا صہبانی کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ معمہ گوئی اور علم عروض میں کمال فن کا درجہ رکھتے تھے۔ مولانا صہبائی کا اردو عروض کے لیے سب سے اہم کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے میرشمس الدین فقیر کی کتاب ’’حدائق البلاغت‘‘ کا اردو میں ترجمہ کیا۔ عربی و فارسی کی مثالوں کے بجائے اردو کی بہترین مثالیں پیش کیں۔ ان کے معمہ گوئی کے ضمن میں رسالہ ’’گنجینۂ رموز‘‘ بہت مشہور ہے۔ ۱۸۵۷ء کی بغاوت میں انگریزوں کی گولی لگنے سے ان کا انتقال ہوگیا۔ 

    (۴) بائی جی
    بائی جی، قدیم دہلی کے باہر ایک چھپر کی کٹیا میں رہتی تھیں اور وہیں اپنی پوری زندگی گزاردی۔ بائی جی کہاں کی رہنے والی تھیں، اصلی نام اور حسب نسب کیا تھا کسی کو کچھ معلوم نہ تھا۔ بائی جی اپنے زمانے کی ایک باکمال بزرگ تھیں۔ سرسید احمد خاں نے ان کے تعلق سے لکھا ہے کہ، 

    ’’یہ ایک عورت تھیں باکمال، جب کوئی اپنے مطلب کے واسطے ان کے پاس گیا تو ستر کوڑیاں اس مال سے جو ان کے پاس لے جاتا، علاحدہ کرکے ستّر دفعہ زمین پر رکھ کر زمین سے اٹھاتیں اور ہر بار اِنّا اعطینا کی آیت پڑھتی جاتیں اور بعد میں جو کچھ دل میں آتا سائل کو کہہ دیتیں لیکن قدرت الٰہی کا تماشا کرنا چاہیے کہ جو اس وقت ان کی زبان سے نکلتا بعینہ وہی امر بے کم و کاست وقوع میں آتا۔‘‘ 2

    (۵) سلیمہ
    سلیمہ، مشہور نقاش مخصوص اللہ کی بیوی تھی جو کشمیر کے بڈگام علاقے کی رہنے والی نہایت حسین و جمیل لڑکی تھی۔ مخصوص اللہ نقاشی کے فن میں ماہر تھا اور وہی اس کا ذریعہ معاش تھا۔ زندگی کے شب و روز گزرتے رہے۔ ایک دن مخصوص اللہ نے نقاشی کا پیشہ بند کرنے کا اچانک اعلان کردیا اور نئی روزی کی تلاش میں بڈگام کی جامع مسجد جاپہنچا۔ بڈگام کے ایک بزرگ شیخ العالم کے ساتھ رہ کر قالین بننے کا ہنر سیکھا۔ تقریباً آٹھ سال گزارنے کے بعد مخصوص اللہ اپنے وطن بارہ مولہ واپس آیا۔ اس کے بعد سلیمہ کو ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام مخصوص اللہ نے محمد یحییٰ رکھا اور اسے خوب لاڈ پیار کرنے کے بعد محمد یحیٰ کو چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے غائب ہوگیا۔ بہت تلاش کے بعد اس کی لاش برف میں ڈھکی ملی اور ساتھ میں ہاتھی دانت پر بنی ’’بنی ٹھنی‘‘ کی تصویر تھی۔ سلیمہ عدت کے دن گزارنے کے بعد ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بارہ مولہ چھوڑ کر بڈگام چلی جاتی ہے۔ 

    (۶) نواب ضیاء الدین احمد خاں 
    نواب ضیاء الدین احمد خاں نواب شمس الدین کے سوتیلے بھائی تھے۔ دلاور الملک نواب احمد بخش خاں نے دوشادیاں کی تھیں۔ ایک الور کے راجہ بختاور سنگھ کی محبوبہ موسی کی بہن مدّی کو بے نکاحی طور سے رکھا، چاراولادیں ہونے کے بعد نکاح میں لیا۔ انہیں چار اولادوں میں نواب شمس الدین احمد خاں سب سے بڑی اولاد تھی جب کہ دوسری شادی برلاس مغل خاندان کی حسینہ بیگم سے کی، جس کے بطن سے امین الدین احمد اور ضیاء الدین احمد پیدا ہوئے۔ 

    (د) ضمنی کردار
    جس طرح ناول میں مرکزی کردار اور اضافی کردار ہوا کرتے ہیں اسی طرح کچھ ضمنی کردار (Additional Characters) بھی ہوتے ہیں۔ ان ضمنی کرداروں کے تفصیلی تذکرہ کے بغیر بھی ناول کی کہانی آگے بڑھتی ہے لیکن بہرحال ہم ایسے کرداروں سے یکسر صرف نظر نہیں کرسکتے۔ مثال کے طور پر، 

    ’’کہنے کو تو اس ناول (کئی چاند تھے سرآسماں) کا مرکزی کردار وزیرخانم عرف چھوٹی بیگم ہے لیکن گوناگوں حالات اور واقعات کی کثرت اور انتشار کے سبب کئی ایسے کردار ابھر کر سامنے آتے ہیں جن کی حیثیت محض ضمنی نہیں رہتی۔ ان کرداروں کا وجود اپنا ایک الگ مقام رکھتا ہے۔ غورطلب بات یہ ہے کہ افسانے بھی اپنی علاحدہ شناخت رکھتے ہیں لیکن ناول میں شامل ہوکر اس کا اٹوٹ حصہ بن جاتے ہیں۔ بادی النظر میں بعض کرداروں کو الگ کیا جاسکتا ہے لیکن تاریخ کے تسلسل کو قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ انہیں مرکزی کردار سے منسلک رکھا جائے۔‘‘ 3

    (۱) شیخ العالم
    شیخ العالم بڈگام (کشمیر) کے رہنے والے ایک عالم دین اور روحانی بزرگ تھے۔ بڈگام کی بڑی مسجد میں مخصوص اللہ کی پہلی ملاقات شیخ العالم سے ہوئی۔ مخصوص اللہ کو مسافر اور بے نوا جان کر بزرگ عالم د ین اپنے گھر کھانا کھلانے لے گئے۔ ان کا مکان بظاہر ایک حویلی کی طرح تھا لیکن وہ بیک وقت خانقاہ اور کارخانے کی حیثیت رکھتاتھا۔ معلوم ہوا کہ شیخ العالم تعلیم نویسی کے استاد ہیں اور اپنے شاگردوں کو قالین بافی بھی سکھاتے ہیں۔ شیخ العالم کا شاگرد رشید بن کر تقریباً آٹھ سال میں مخصوص اللہ خود بھی تعلیم نویسی کا استاد بن گیا۔ 

    (۲) یحییٰ بڈگامی
    یحییٰ بڈگامی مخصوص اللہ کے بیٹے اور وزیر خانم کے پردادا تھے۔ یحییٰ بڈگامی اتنا سیاہ فام تھا کہ فاروقی نے اسے ’’کالا گلاب‘‘ کہا ہے۔ یحییٰ کی پیدائش کے چند دنوں بعد مخصوص اللہ کا انتقال ہوگیا۔ اٹھارہ برس کی عمر میں یحییٰ کی شادی بڈگام کی ایک لڑکی بشیر النسا سے ہوئی۔ بشیرالنسا کے بطن سے دوجڑواں لڑکے داؤد اور یعقوب پیدا ہوئے۔ والدین کے مرنے کے بعد دونوں جڑواں بھائیوں نے کشمیر کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہا اور راجستھان کی طرف کوچ کرگئے۔ راستے میں ان دونوں کی ملاقات حبیبہ اور جمیلہ نامی دوسگی بہنوں سے ہوئی جن کی ماں مرچکی تھی۔ باپ کے ظلم و ستم سے بچنے کے لیے لڑکیوں نے داؤد اور یعقوب کے ساتھ گاؤں سے بھاگ نکلنا بہتر جانا۔ راستے میں دونوں بھائیوں نے نکاح کرلیا اور فرخ آباد (یوپی) میں مستقل سکونت اختیار کی۔ 

    کچھ برس گزرنے کے بعد انگریزوں نے جب مرہٹوں کے خلاف دلی پر حملہ کیا تو فرخ آباد کی ایک آبادی ان کے خیموں کے ساتھ تھی۔ دوران معرکہ طرفین کے بے شمار فوجی مارے گئے۔ فتح انگریزوں کی ہوئی۔ بچ رہنے والوں میں اکبری بائی کا خیمہ بھی تھا۔ یعقوب کے بیٹے یوسف کی عمر اس وقت دس سال کی تھی اور اس کا سارا خاندان تباہ و برباد ہوچکا تھا۔ معرکہ کے گردوغبار میں اکبری بائی کی نظر اچانک یوسف پڑی جسے پکڑ کر وہ اپنے سینے سے اس وقت تک لگائے رہی جب تک یوسف نیم بے ہوش کر سونہ گیا۔ اکبری بائی، یوسف اور اپنی بیٹی اصغری کو لے کر دلی چلی گئی۔ جب یوسف کی عمر پندرہ اور اصغری کی تیرہ برس ہوئی تو دونوں کا نکاح کرادیا۔ اصغری کے بطن سے جو تین لڑکیاں پیدا ہوئیں ان میں وزیر خانم (عرف چھوٹی بیگم) سب سے چھوٹی تھی جو مذکورہ ناول کی مرکزی کردار ہے۔ 

    (۳) فینی پارکس (Fanny Parks)
    فینی پارکس ایک انگریز مگر زندہ دل خاتون تھیں۔ ان کا قیام الہ آباد میں تھا۔ وہ ہندوستان کے جغرافیائی حالات اور معاشرے کے بارے میں خصوصی معلومات یکجا کر رہی تھیں۔ ہندوستان میں انگریزی حکومت اور اس دور کے تاریخی واقعات کو قلم بند کرنا ان کا مشغلہ تھا۔ وزیر خانم سے ان کی پہلی ملاقات ولیم فریزر کے گھر پر ہوئی۔ فریزر کے ایما پر نواب یوسف علی خاں والیِ رام پور نے بطور خاص وزیر خانم کو فریزر کے گھر مدعو کیا۔ وزیر خانم کی شان میں فریزر نے ایک شعری نشست کا اہتمام کیا جس کی صدارت اسد اللہ خاں غالب عرف مرزا نوشہ فرمارہے تھے۔ وزیر خانم کو د یکھ کر فینی پارکس نے اس زمانے کے مشہور انگریزی شاعر لارڈ بائرن (Lord Byron) کے اشعار پڑھے۔ فاروقی نے ان انگریزی اشعار کا بڑا خوبصورت ترجمہ اردو میں یوں کیا ہے، 

    اس کی چال حسنِ مجسم ہے 
    جیسے رات بادلوں سے خالی

    موسموں کی تاروں بھری رات
    سیاہی اور روشنی کے تمام عناصر کا سنگم

    اس کے رنگ و روپ
    اور اس کی آنکھوں میں ہے۔ 

    (۴) حبیب النسا
    نواب شمس الدین احمد خاں والیِ فیروز پور جھرکہ کے گھر میں کام کاج کرنے والی ایک مغلانی تھی جسے نواب صاحب نے اپنی محبوبہ وزیر خانم کی خدمت پر مامور کیا تھا۔ حبیب النسا کا شوہر غلام نبی میرٹھ کا رہنے والا تھا اور نواب شمس الدین کا ایک خاص نوکر تھا۔ 

    (۵) راحت افزا
    یہ غلام نبی اور حبیب النسا کی بیٹی تھی۔ اپنی ماں کی طرح یہ بھی محل سرا میں اوپری کام کاج کے امور انجام دیتی تھی۔ 

    (۶) افضل النسا (جانی بیگم)
    افضل النسا بیگم، نواب شمس الدین احمد خاں کی منکوحہ بیوی تھیں جو مستقل طور پر فیروز پور جھرکہ میں اپنے بچوں کے ساتھ رہتی تھیں۔ شمس الدین خاں کی پھانسی کے بعد اپنی بچیوں کے ساتھ اپنے باپ کی حویلی واقع بلی ماراں چلی گئیں۔ 

    (۷) احمد النسا اور شمس النسا
    احمد النسا اور شمس النسا دونوں افضل النسا کی بیٹاں تھیں۔ احمد النسا تتلا کر بولتی تھی۔ وہ دلاور الملک کو جو نواب کا خطاب تھا ’’بلاول‘‘ کہاکرتی تھی جو اس کی زبان سے بہت اچھا لگتا تھا۔ 

    (۸) حسینی بیگم (امیربہو)
    نواب شمس الدین احمد خاں کی منکوحہ بیوی، ان کا عرف امیر بہو تھا۔ بوٹا سا قد اور چمپئی رنگت کی بی بی تھیں۔ مزاج کی نہایت تیز تھیں۔ ان کو نواب شمس الدین خاں کی بہن جہانگیرہ بیگم نے اپنے پاس اکبرآباد میں بلوا لیا۔ 

    (۹) چمپابی بی
    نواب شمس الدین کی کنیز، رحمت النسا کی ماں۔ شمس الدین کی موت کے بعد وزیر خانم کے ساتھ رہیں۔ 

    (۱۰) رحمت النسا
    رحمت النسا، نواب شمس الدین خاں اور چمپابی کی چھوٹی بچی تھی۔ وہ اپنی توتلی زبان سے نواب صاحب کو ’’ناب شاب‘‘ کہتی تو اسے انعام سے نوازتے۔ 

    (۱۱) ٹامس مٹکاف
    انگریزوں کے عہد میں دہلی کے کلاں بہادر یا نائب ریزیڈنٹ تھے۔ نواب زینت محل ملکۂ بہادر شاہ ظفر کے بڑے حامی تھے۔ فریزر کے قریبی دوست تھے۔ 

    (۱۲) سکندر صاحب
    اصل نام لیفٹیننٹ کرنل جیمس اسکنر تھا۔ ولیم فریزر کا گہرا دوست تھا اس لیے وہ بھی نواب شمس الدین احمد خاں سے بھی منافق کی طرح ملتا جلتا تھا۔ سائمن فریزر اور اسکنر کے مکانات سول لائن میں کشمیری دروازے کے پاس تھے۔ 

    (۱۳) سائمن فریزر
    ولیم فریزر کا چچا زاد بھائی تھا۔ اسے ولیم فریزر نے کوشش کرکے شہر مجسٹریٹ بنوادیا تھا۔ اسی لیے شہروالوں پر اس کا کافی دبدبہ تھا۔ 

    (۱۴) انیا میواتی
    انیا اپنے وقت کا مانا ہوا دوندہ تھا۔ وہ ولیم فریزر کے قاتل کریم خاں بھرمارو کا ساتھی تھا اور فریزر کے قتل کا عینی شاہد بھی تھا۔ واقعہ قتل کے بعد بڑی تیزی سے دہلی سے بھاگ نکلا اور ۲۴/مارچ ۱۸۳۵ء کی صبح قلعہ فیروزپور پہنچ گیا۔ بعدمیں چشم دید وعدہ معاف گواہ بن گیا۔ 

    (۱۵) جان لارنس
    ولیم فریزر کا خاص دوست اور پانی پت کا مجسٹریٹ تھا۔ جب وہ رات بھر کریم خاص سے یہ راز نہ اگلوا سکا کہ ولیم فریزر کے قتل میں نواب شمس الدین خاں کا ہاتھ ہے تو لارنس نے سائمن فریزر سے کہا کہ ’’فریزر تم مطمئن رہو۔ اس دوغلے کتے نواب کو پھانسی کے تخت تک لانا میری ذمہ داری ہے۔‘‘ 

    (۱۶) امتہ الفاطمہ
    نواب میرزا داغؔ کی خالہ (انوری خا نم) کی بیٹی۔ بہت ہی نرم و نازک اور شرمیلی لڑکی تھی۔ نواب میرزا داغؔ نے اپنی پسند کا اظہار اپنی ماں وزیر خانم سے کردیا تھا۔ بالآخر دونوں کا عقد ہوگیا۔ 

    (۱۷) صبح دولت
    نواب شمس الدین احمد خاں کی ایک کنیز جو ابھی نوجوان اور چنچل تھی۔ کریم خاں (بھرمارو) سے بہت بے تکلف تھی۔ 

    (۱۸) زینت محل
    بہادرشاہ ظفر کی ملکہ تھی۔ اسے بادشاہ نے ۱۸۴۰ء میں اپنی ملکہ بنایا تھا۔ اس وقت بادشاہ کی عمر ۶۵سال اور زینت محل کی عمر ۱۹ سال تھی۔

     

    حاشیے
    (۱) کئی چاند تھے سرِ آسماں، ص ۲۸۳۔ ۲۸۴
    (۲) مقالاتِ سرسید جلد ۱۶مرتبہ مولانا اسمٰعیل پانی پتی۔ بحوالہ: کئی چاند تھے سرآسماں 
    (۳) قدیر زماں: کئی چاند تھے سرآسماں کی تلخیص و تبصرہ، ص ۸ بار اول ۲۰۱۰ء

     

    مأخذ:

    کئی چاند تھے سر آسماں (Pg. 111)

    • مصنف: رشید اشرف خان
      • ناشر: رشید اشرف خان
      • سن اشاعت: 2017

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے