Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

لال قلعہ

محمد مجیب

لال قلعہ

محمد مجیب

MORE BYمحمد مجیب

    کسی چیز پر اتنی اداسی نہیں برستی جتنی کسی ایسے مکان پر جس میں رہتا تو کوئی نہیں لیکن لوگ اسے دیکھنے چلے آتے ہیں۔ کسی ایسے محلے کی اداسی جو یادگار بن کر رہ گیا ہو، چاہے قومی یادگار سہی، اتنی ہی زیادہ یا کم ہوتی ہے جتنی کہ کسی زمانے میں اس کی شان وشوکت رہی ہو۔ پھر بھی ہم محلوں کی تعریف کرتے ہیں کیونکہ قدیم عمارتیں ہوتے ہوئے بھی ان کا ہمارے دل پراثر ہوتا ہے اور ہم میں سے کچھ کو وہ اس لائق بنا دیتی ہیں کہ تخیل سے کام لے کر وہ ان کو ویسا ہی دیکھنے لگیں جیسی کہ وہ کسی زمانے میں رہی ہوں گی۔

    لیکن لال قلعہ ایک چیلنج، ایک چنوتی ہے جسے اعلیٰ سے اعلیٰ صاحبان تخیل بھی قبول نہیں کریں گے۔ اس کے چاروں طرف ایک کھائی ہے اور اونچی فصیل، لیکن یہ بالکل یقین نہیں آتا کہ یہ قلعہ ہے۔ (اس کے اندر) وہ عمارتیں ہیں جنہیں ہم فرض کر لیتے ہیں کہ کبھی آباد رہی ہوں گی۔ ان پر بھی ہمیں تعجب ہوتا ہے کہ بادشاہ اور بیگمات ان میں کیسے رہتی ہوں گی۔ ہمیں یا تو اپنے آپ کو یہ یقین دلانا پڑتا ہے کہ یہ سب جھوٹ ہے یا مغلوں پر یہ اتہام لگانا پڑےگا کہ وہ آرام سے رہنے کو سخت اور نمائشی زندگی پر قربان کر دیتے تھے۔

    سچ تو یہ ہے کہ اگر برطانوی سرکار کے سول اور فوجی افسران بھوت پریت سے ڈرنے والے نہ ہوتے تو ہمارے پریشان ہونے کی کوئی وجہ نہ ہوتی۔ ۱۸۵۸ء میں مغل سلطنت ختم ہو گئی تھی اور آخری مغل تاجدار قیدی بنایا جا چکا تھا۔ اب کوئی بھی ایسا نہیں بچ سکا تھا کہ لال قلعے میں (بھوت پریت کی طرح) اپنا گھر بنا لیتا۔ پھر بھی یہ ضروری سمجھا گیا کہ اسے فوجی چھاؤنی میں تبدیل کر دیا جائے۔ یہ فیصلہ تو خاصی مدت کے بعد کیا گیا کہ قلعے کو ایک یادگار عمارت کا درجہ دیا جائے، لیکن پھر بھی پورے قلعے کو نہیں بلکہ صرف اس کے چھوٹے سے حصے کو اور وہ حصہ بھی بدنما فوجی بارکوں سے گھرا رہے اور دوسری عمارتیں گرا دی گئیں، باغ باغیچے ختم کر دیے گئے تاکہ یہ جگہ واقعی فوجی چھاؤنی معلوم ہو۔

    ہماری پریشانی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم ہندوستانیوں کا رہن سہن بھی بدل گیا ہے۔ ہم یوروپ والوں کی طرح یہ سوچنے لگے ہیں کہ گھر وہ ہوتا ہے جس میں کمرے ہوں اور (ظاہر ہے کہ) کمرہ تو وہی ہوتا ہے جس کی چاردیواری ہو۔ برآمدے کا رواج بھی جو اب تک احاطہ بند جگہوں کے رہن سہن میں ایک قسم کی (کشادگی) یا سکون کا ذریعہ ہوتا تھا، وہ بھی ختم ہوتا جا رہا ہے۔ اب ہم یہ چاہنے لگے ہیں کہ چیزیں اپنی اپنی جگہ مستقل لگی رہیں، ہم علیحدہ علیحدہ رہیں اور خلوت ہو۔ گزشتہ صدیوں کے بھوت پریت شاید اپنے قیدخانوں کو اپنا گھر بنانا زیادہ پسند کریں گے بہ نسبت ہمارے آج کے مکانوں کے۔

    لال قلعہ تعمیر کرانے والے شاہ جہاں بادشاہ کا دور نفاست کا دور تھا، جس میں ان فنون سے جنہیں ذرا کم درجے کا کہا جاتا ہے، اپنی انتہائی بلندی کو چھو لیا تھا۔ مغل شہنشاہوں میں شاہ جہاں سب سے زیادہ دولت مند تھا اور وہ جتنی بھی شاندار عمارت بنوانی چاہتا بنوا سکتا تھا۔ اسے اصل میں محل کی ضرورت تو نہیں تھی، آگرے کا قلعہ کافی وسیع تھا۔ لیکن معلوم ہوتا ہے فن تعمیر سے اسے دلی لگاؤ تھا اور اسے اسی میں سب سے زیادہ خوشی تھی۔ اسی لیے اس نے دلی میں اپنے نام پر ایک شہر شاہ جہان آباد، ایک نیامحل اور ایک نئی مسجد بنوانے کا منصوبہ بنایا۔ لیکن اس میں بھی صورت یہ تھی کہ جیسے شاہی لشکرگاہ میں شاہی محل کی حیثیت محض قلب کی سی ہو۔ اس میں وہ چیزیں ختم نہیں ہوئیں جنہیں وقت کے وقت زیر آسماں کھلی ہوا میں بنا لیتے ہیں (جیسے) خانہ بدوشوں کا خیمہ جس میں قالین فرش پربچھے ہوئے اور اندر ادھر ادھر لٹکے ہوئے، بہتا ہو اپانی، رنگوں کی آتشیں بہار اور باہر کھلے ہوئے پھول۔ شاہی محل حکومت کا مرکز بھی ہوتا تھا۔ اس کی خلوت کسی گرہست آدمی کی خلوت نہیں ہوتی تھی، جو لوگوں کے جھانکنے تانکنے سے محفوظ رہنا چاہتا ہو، بلکہ وہاں تو چکاچوند کر دینے والی نمائش یا پبلسٹی ہوتی تھی اور سیاسی طاقت کی چکرا دینے والی پراسرار باتیں۔

    شاہ جہاں کو یہ (خدا کی) دین تھی کہ وہ ٹھوس (چیز) کو ایسا بنا دیتا تھا کہ وہ غیرمادی (ہلکی اورسبک) معلوم ہونے لگتی تھی، مضبوط (چیز) نازک معلوم ہونے لگتی تھی۔ میں نے ابھی کہا ہے لال قلعے کو دیکھ کر بالکل یقین نہیں آتا کہ یہ قلعہ ہے۔ کیونکہ اس میں کچھ بھی ہیبت ناک اور بدنما نہیں ہے۔ اونچی فصیل اور کھائی تو واقعی حفاظت کر سکتی تھیں لیکن قلعے کا دروازہ دیکھو تو معلوم ہوتا ہے جیسے وفادار رعایا کو دعوت دے رہا ہے آؤ اور اپنے بادشاہ کے سامنے ادب آداب، بجا لاؤ، بجائے اس کے کہ یہ معلوم ہوکہ جیسے وہ اصلی دشمنوں کو یا ان لوگوں کو جو دشمن بن سکتے ہوں ایک خطرہ معلوم ہو۔

    لوگ دروازے میں داخل ہوکر حاجبوں کی جانچ پڑتال کے بعد غلام گردشوں میں سے ہوتے ہوئے نوبت خانے کی طرف جاتے تھے۔ وہاں دن یا رات کا وقت بتانے کے لیے نوبت بجائی جاتی تھی۔ اگر دربار عام ہو رہا ہوتا تو ان کو سپاہیوں کی قطاروں کے درمیان سے گزار کر دیوان عام میں لے جایا جاتا تھا۔ دیوان عام ایک وسیع ہال ہے جس میں بہت سے ستون ہیں اور اس کی چھت خوبصورت چوڑی چوڑی محرابوں پر قائم ہے، جن میں غضب کی مناسبت ہے۔ دیوان عام میں شہنشاہ بالکنی (شہ نشین) میں بیٹھتا تھا جس میں جانے کا راستہ پیچھے کے رخ محل سرا میں سے تھا۔ شہ نشین کے نیچے وزیر اتنے اونچے پایے پر کھڑا ہوتا تھا کہ ہاتھ بڑھاکر شہنشاہ سے دستاویزات لے دے سکے۔ شہ نشین کے نیچے دونوں طرف بالکل اپنے اپنے رتبے کے مطابق ہاتھ باندھے ہوئے امراء کھڑے ہوتے تھے۔ دربار کے ختم ہونے تک وہ چپ چاپ اکڑ کر بغیر کوئی حرکت کیے کھڑے رہتے تھے۔

    یہ دربار دن کا دوسرا دربار ہوتا تھا۔ پہلایا بے تکلف دربار جسے درشن (دیدار) کہتے تھے، وہ طلوع آفتاب کے وقت ہوتا تھا۔ شہنشاہ محل کے پیچھے کی طرف جدھر دریا بہتا تھا، بالکنی میں جلوہ افروز ہوتے۔ جو کوئی بھی انہیں دیکھنا چاہتا وہاں جاکر دیکھ سکتا تھا اور دلی کے کچھ خاندان ایسے تھے جنہوں نے اپنی یہ روایت بنالی تھی کہ شہنشاہ کو دیکھے بغیر ناشتہ نہیں کرتے تھے۔ اگر کسی کو کوئی شکایت ہوتی یا کوئی درخواست لگانی ہوتی تووہ بھی اس وقت حاضر ہو سکتا تھا اور براہ راست اپنے کاغذات پیش کر سکتا تھا۔ اس کے بعد کسی دن وہ کاغذات دربار عام میں برائے کارروائی افسر متعلقہ کو سونپ دیے جاتے تھے۔ یہ بات بہت ہولناک ہوتی تھی کہ شہنشاہ کسی دن درشن نہ دیں، لوگ عام طور پر ڈرتے، دعائیں مانگتے کہ خیر ہو اور شہنشاہ کی عمردراز۔

    دربار عام کے بعد عام طور پر ایک اور جلسہ ہوتا تھا۔ یہ سب سے اہم ہوتا تھا اور شہنشاہ کے تازہ دم ہونے کے بعد شاہی حمام میں کیا جاتا تھا۔ شاہی حمام اس وقت باہر سے بہت سادہ ہے لیکن ان دنوں اندر نہر جاری تھی، چھوٹے چھوٹے فوارے چھوٹتے تھے جن میں سے خوشبودار پانی کی پھواریں پڑتی رہتی تھیں۔ اس اعتبار سے صاحب فکر آدمی کے لیے یہ مثالی جگہ تھی۔ حمام میں کشادہ pool (حوض) سے پانی آتا تھا۔ پانی کس طرح کم یا زیادہ گرم ہو جاتا تھا، اس کے بارے میں بعدکی نسلوں نے بہت سی پراسرار باتیں بیان کی ہیں، لیکن یہ بات پراسرار نہ بھی ہوتب بھی رشک آتا ہے اس عیش پرکہ شہنشاہ اپنے لیے اتنا پانی استعمال کرتے تھے۔

    محل کا وہ حصہ جس کی شاہانہ شان سے دیکھنے والے پر رعب پڑے، وہ دیوان خاص تھا۔ وہاں شام کوجلسے ہوتے تھے، شمعیں روشن کی جاتی تھیں اور شہنشاہ اور اہل دربار اپنے پورے درباری لباس میں شریک ہوتے تھے۔ یہ ہال سنگ مرمر کا بنا ہوا ہے۔ اس کی چھت میں بہت دیدہ ریزی سے نقاشی کی ہوئی ہے اور اس میں تعلی کے انداز میں یہ لکھا ہوا ہے: اگر فردوس برروئے زمیں است، ہمیں است وہمیں است وہمیں است۔ یعنی اگر دنیا میں کہیں جنت ہے تو وہ یہیں ہے۔ لیکن فن تعمیر کے اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ ہال دیوان عام کی سادہ لطافت کے مقابلے میں نمائشی مصنوعی معلوم ہوتا ہے۔ اسی ہال میں تخت طاؤس بچھا رہتا تھا جو جوہریوں کی کاریگری کا حیرت انگیز نمونہ تھا۔ اسے نادرشاہ ۱۷۳۹ء میں مال غنیمت میں لے گیا۔ وہ اتنا بیش قیمت تھا کہ اس کا صحیح سالم رہنا مشکل تھا۔ لیکن اس کے بارے میں جو کچھ بیان کیا جاتا ہے اور اس کی جو تصویریں ملتی ہیں ان کے پیش نظر ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ صنعت کارانہ اسراف کا ایک نمونہ تھا۔

    دیوان خاص کے جنوب میں کمرے ہیں اور ایک چھوٹا ہال ہے۔ ایک کمرے میں اب بھی سجاوٹ کی چیزیں دیکھی جا سکتی ہیں اور وہ سامان بھی جو شہنشاہ کے استعمال میں تھا۔ شہنشاہ کے اپنے لیے کیا صرف یہی قالین، گدے اور تکیے اور بستر تھے؟ ہمارا خیال ہے کہ ایسا نہیں ہوگا۔ لیکن اگر اس کمرے (کی چیزوں) سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ فراوانی میں محتاجی تھی، تب بھی زنان خانے میں سے جو کچھ بچا ہے اس کا مقابلہ فراوانی اور محرومی سے کریں تو ہمیں تکلیف ہوتی ہے۔ محل میں (بہرحال) شہنشاہ کی بہت سی بیگمات تھیں جن کے پاس اپنا کچھ نہیں ہوتا تھا سوائے ان چیزوں کے جواز روئے لطف ومہر شہنشاہ انہیں بخش دیتا تھا۔

    رنگ محل میں تو بہت لوگ ہوتے ہوں گے اور وہاں دیہاتی میلے کا سا شورغل بھی رہتا ہوگا اور ایسی فضا میں اگر کسی کی پرورش نہیں ہوئی ہوتی ہوگی تو اسے ناگوار بھی محسوس ہوتا ہوگا۔ جس جگہ اب محل کے زنانہ حصے کی دو عمارتیں ہیں وہاں تواقعی عورتوں کا ایک پورا کا پورا شہر آبادرہتا ہوگا۔ اصل میں صورت حال اس سے بہت زیادہ خراب تھی جتنی پہلی نظر میں معلوم ہوتی ہے اور (جس کے مقابلے میں) سادہ ایمان دار شہری کی گرہستی قناعت اور آسودگی وآرام کی پناہ گاہ معلوم ہوتی ہے۔

    ہر جگہ جہاں کہیں عمارتوں کا مجموعہ ہوتا ہے، وہاں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کچھ نرالی تعمیرات بھی ہو جاتی ہیں۔ لال قلعے کے عین دنیوی شان وشوکت میں اورنگ زیب نے ایک واقعی موتی کی سی مسجد بنوا دی۔ گویا یہ جتانے کے لیے کہ جب اس کے چاروں طرف لوگ دنیوی شان وشوکت اور طاقت کی پوجا کر رہے ہوں تو وہ خدا سے لو لگا سکتا تھا۔ دو خوشنما بنگلے یعنی پویلین۔۔۔ ساون اور بھادوں۔۔۔ نہر اور (لمبوترے) تالاب کے بیچ کا پویلین دراصل ایک بڑے باغ کے حصے تھے۔ وہ باغ معدوم ہو گیا اور اس کی جگہ اب فوجی بارکیں ہیں۔ ہم اپنے تخیل کی آزادانہ کارفرمائی سے لا ل قلعے کی تشکیل جدید کر سکتے ہیں لیکن بارکیں تو بہرحال وہیں رہیں گی جہاں ہیں۔

    مأخذ:

    ہندوستانی سماج پر اسلامی اثر اور دوسرے مضامین (Pg. 86)

    • مصنف: محمد مجیب
      • ناشر: دہلی کتاب گھر، دہلی
      • سن اشاعت: 2011

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے