Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ما بعد جدیدیت، عالمی تناظر میں

گوپی چند نارنگ

ما بعد جدیدیت، عالمی تناظر میں

گوپی چند نارنگ

MORE BYگوپی چند نارنگ

     

    .EVERY THING IS POLITICAL. EVEN PHILOSOPHY AND PHILOSOPHIES IN THE REALM OF CULTURE AND OF THOUGHT EACH PRODUCTION EXISTS NOT ONLY TO EARN AN PLACE FOR ITSELF BUT TO DISPLACE, WIN OUT OVER. OTHERS

     (ANTONIO GRAMSCI)


    ما بعد جدیدیت کا تصور اب اردو میں عام ہونے لگا ہے، لیکن اس میں اور پس ساختیات میں جو رشتہ ہے، اس کے بارے میں ابھی معلومات عام نہیں۔ اکثر دونوں اصطلاحیں ساتھ ساتھ اور ایک دوسرے کے بدل کے طور پر استعمال کی جاتی ہیں۔ البتہ اتنی بات صاف ہے کہ پس ساختیات تھیوری ہے جو فلسفیانہ قضایا سے بحث کرتی ہے جب کہ مابعد جدیدیت تھیوری سے زیادہ صورت حال ہے، یعنی جدید معاشرے کی تیزی سے تبدیل ہوتی ہوئی حالت، نئے معاشرے کا مزاج، مسائل، ذہنی رویے یا معاشرتی و ثقافتی فضا یا کلچر کی تبدیلی جو کرائسس کا درجہ رکھتی ہے۔

    مثال کے طور پر کہہ سکتے ہیں، POST-MODERN CONDITION ’’ما بعد جدید حالت‘‘ لیکن ’’پس ساختیاتی حالت‘‘ نہیں کہہ سکتے، لہٰذا پس ساختیات کا زیادہ تعلق تھیوری سے ہے اور مابعد جدیدیت کا معاشرے کے مزاج اور کلچر کی صورت حال سے ہے۔ تاہم ایسا نہیں ہے کہ مابعد جدیدیت کو تھیوری دینے یا نظریانے کی کوشش نہ کی گئی ہو۔ ایسی کچھ کوششیں ہوئی ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ بعض مفکرین نے مابعد جدید صورت حال اور تھیوری دونوں سے بحث کی ہے، لیکن غور سے دیکھا جائے تو تھیوری کا بڑا حصہ وہی ہے جو پس ساختیات کا ہے یعنی مابعد جدیدیت کے فلسفیانہ مقدمات وہی ہیں جو پس ساختیات کے ہیں۔

    یہ معلوم ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد جو نئی ذہنی فضا بننا شروع ہوئی تھی، اس کا بھرپور اظہار لاکاں، آلتھیو سے، فوکو، بارتھ، دریدا، دے لیوز اور گواتری، بادریلار، ہبرماس اور لیوتار جیسے مفکرین کے یہاں ملتا ہے۔ گلبرٹ ادیر کا کہنا ہے کہ پس ساختیاتی مفکرین اس تبدیلی کے پہلے نقیب ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پس ساختیات میں اور مابعد جدیدیت میں حد فاصل قائم نہیں کی جاسکتی۔ چنانچہ اکثر وبیشتر پس ساختیاتی مفکرین کو مابعدجدید مفکرین کہہ دیا جاتا ہے اور یہ دونوں اصطلاحیں ایک دوسرے کے بدل کے طور پر استعمال کی جاتی ہیں۔

    جس طرح پس ساختیات تاریخی طور پر ساختیات کے بعد ہے اور اس سے گریز بھی ہے، اسی طرح مابعد جدیدیت بھی تاریخی طور پر جدیدیت کے بعد ہے اور اس سے گریز بھی ہے۔ ان دونوں کو ایک دوسرے کے تناظر میں پرکھا اور جانا جا سکتا ہے۔ ہمارے یہاں جدیدیت کا معاملہ ذرا الگ ہے۔ ہمارے یہاں جدیدیت بہت کچھ ’’ترقی پسندی‘‘ کے رد عمل کے طور پر آئی جب کہ مغرب میں جدیدیت ENLIGHTENMENT PROJECT ’’روشن خیالی پروجیکٹ‘‘ کا حصہ تھی اور مارکسیت اور ہیومنزم سے الگ نہیں تھی۔ مغرب میں جدیدیت کا زمانہ پہلی جنگ عظیم سے دوسری جنگ عظیم تک کا ہے جبکہ ہمارے یہاں اس کا زمانہ ۱۹۶۰ء کے بعد کی دو ڈھائی دہائیوں کا ہے۔

    مغرب کا ’’روشن خیالی پروجیکٹ‘‘ انسان کی تاریخی اور سائنسی ترقی کے خواب سے عبارت تھا۔ لیکن دوسری جنگ عظیم کے بعد یہ خواب پاش پاش ہو گیا۔ انسان نے تاریخی اور سائنسی ڈسکورس سے جو توقعات وابستہ کی تھیں، اس نے اتنے مسائل حل نہیں کیے، جتنے پیدا کر دیے۔ چنانچہ بعد کے دور کو ’’گمشدگی‘‘ یا ’’بدعقیدگی‘‘ کا دور کہا جاتا ہے۔ سب سے اہم مسئلہ تو وہی تھا جس کا ذکر پہلے کیا جا چکا ہے کہ صدیوں سے چلا آ رہا شعور انسانی کا تصور بے دخل ہو گیا۔ دوسرے لفظوں میں جو تصور عقلیت پسند تحریکوں اور ہر طرح کی آئیڈیولوجی کی جان تھا، اس کی بنیادیں ہل گئیں۔

    مظہریاتی وجودیت نے اتنی گنجائش تو بہرحال رکھی تھی کہ انسان اگر خود آگہی سے متصف ہے اور اپنے فیصلے کے حق کا استعمال کرتا ہے تو اپنے تشخص کو پا لینے پر قادر ہے، لیکن بعد کے فلسفیوں نے یہ ڈوری بھی کاٹ دی۔ ان کی رو سے شعور انسانی ایک مفروضۂ محض ہے جسے بوجوہ صحیح مان لیا گیا ہے۔ اسی کے ساتھ نہ صرف یہ کہ سائنسی ترقی سے انسانی مسرت کا خواب پورا نہیں ہوا، بلکہ برقیاتی اور تکنیکی تبدیلیوں سے معاشرہ دیکھتے ہی دیکھتے میڈیا سوسائٹی یا ’’تماشا سوسائٹی‘‘ SPECTACLE SOCIETY میں بدل گیا اور نئے تجارتی طور طریقوں نے صارفیت (CONSUMERISM) کی ایسی شکلوں کو پیدا کر دیا جن کا تصور بھی پہلے نہیں کیا جا سکتا تھا۔

    اسی طرح کمپیوٹر ذہن نے علم کی نوعیت اور ضرورت کو بدل کر رکھ دیا اور علم کی ذخیرہ اندوزی اور بازیافت کے یکسر نئے مسائل پیدا کر دیے۔ ان جملہ تبدیلیوں اور نئی کلچرل فضا کا اگر کوئی اصطلاح احاطہ کر سکتی ہے تو وہ ’’مابعد جدیدیت‘‘ ہی ہے۔ جہاں تک ’’مابعد جدیدیت‘‘ بطور اصطلاح کے آغاز کا تعلق ہے، چارلس جینکس نے اپنی کتاب،

     
    .CHARLESJENCKS
    WHAT IS POST MODERNISM? (LONDON 1989)

     

    میں لکھا ہے کہ غالباً POST MODERNISM کو سب سے پہلے مشہور مؤرخ آرنلڈ ٹائن بی نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’اے سٹڈی آف ہسٹری‘‘ میں تاریخی ادوار کے معنی میں استعمال کیا۔ یہ کتاب ۱۹۴۷ء میں شائع ہوئی لیکن نو برس پہلے ۱۹۳۸ء میں لکھی جا چکی تھی۔ فنون لطیفہ میں ’’مابعد جدیدیت‘‘ کی اصطلاح سب سے پہلے آرٹ تھیوری میں رائج ہوئی، عمرانیات اور ادبیات میں اس کا چلن بعد کو ہوا۔ لیزلی فیڈلر کے یہاں مابعد جدیدیت کا ذکر ۱۹۶۵ء سے ملتا ہے جب کہ ادبیات کا مشہور حوالہ احب حسن کی کتاب ہے،

     
    IHAB HASSAN
    ,THE DISMEMBERMENT OF ORPHEUS 
    TOWARDS A POST - MODERN LITERATURE (1976)


    تقریباً اسی زمانے میں فرانس میں اس اصطلاح کا زیادہ چلن ہوا اور ڈینیل بل، بودیلار اور لیوتار نے ’’مابعد جدیدیت‘‘ سے بطور تھیوری بحث کرنا شروع کیا۔ لیو تار کی کتاب،

     
    ,JEAN-FRANCOIS LYOTARD
    THE POST MODERN CONDITION، A REPORT ON KNOWLEDGE
     (MANCHESTER 1984)

     
    ما بعد جدیدیت پر بنیادی حوالے کا درجہ رکھتی ہے۔ گی آنی وٹی مو کی LA SOCIETA TRANSPARENTE عمرانیاتی جہت سے بحث کرتی ہے۔ لیوتار کا زیادہ تر مکالمہ جید جدلیاتی فلسفی جرگن ہابر ماس سے رہا ہے۔

     
    J.HABERMAS;MODERNITY VERSUS POST MODERNITY
    NEW GERMAN CRITIQUE 22,1981
    R.RORTY,HABERMAS AND LYOTARD ON POST MODERNITY
    PRAXIS INTERNATIONAL,4,1,1984


    ہابر ماس اور لیو تار کے علاوہ فرانسیسی نظریہ ساز دے لیوز اور اور گواتری نیز امریکی مفکر فریڈرک جیمی سن نے بھی ما بعد جدید صورت حال سے اپنی اپنی تھیوری میں بالوضاحت بحث کی ہے، جس کا ذکر آگے آئےگا۔ مزید یہ کہ مدن سروپ نے اپنی کتاب،

     
    ,MADAN SARUP
    AN INTRODUCTORY GUIDE TO POST STRUCTURALISM AND POST MODERNISM (ATHENS,GEORGIA,1989)


    میں آخری باب ما بعد جدیدیت پر وقف کیا ہے۔ اگر چہ مدن سروپ کا بنیادی مسئلہ مارکسزم کا دفاع ہے تاہم فرانسیسی مفکرین کے افکار کا اس نے بالتفصیل جائزہ لیا ہے۔ ادھر اس موضوع پر لیوتار کی ایک کتاب بھی آئی ہے،

     
    JEAN-FRANCOIS LYOTARD
    THE POST MODERN EXPLAINED TO CHILDREN trn, by DON BARRY et al (TURNAROUND 1992)

     
    اس میں لیوتار نے اپنی تھیوری کو سادہ زبان میں خطوط کی صورت میں لکھا ہے۔ گلبرٹ ادیر نے مابعد جدید کلچر سے بحث کی ہے۔ ادھر ما بعد جدیدیت کی بحث CULTURAL STUDIES کے طور پر بھی جاری ہے۔ ٹیری ایگلٹن نے ایک حالیہ مضمون میں اس موضوع سے بحث کی ہے۔ ہندوستان میں شائع ہونے والی تحریروں میں نوئلی سلی ون دوسروں سے بہتر ہے۔ اختصار کی خاطر ہم نے یہاں زیادہ لیوتار، ہابر ماس، دے لیوز اور گواتری فریڈرک جیمی سن، سروپ اور نوئلی سلی ون سے سروکار رکھا ہے،

     
    ,HUTCHEON LINDA
    POETICS OF POST MODERNISM (ROUTLEDGE 1985)

    ,GILBERT ADAIR
    THE POST-MODERNIST ALWAYS RINGS TWICE
     (FOURTH E ESTATE1992)

    BEN AGGER, CULTURAL STUDIES AS CRITICAL THEORY
     (FALMER 1992)

    STEVEN CONNOR,THEORY AND CULTURAL VALUE
     (BLACKWELL 1992)

    NOELO SULLIVAN, THE PHILOSOPHY OF POST MODERN
     (LLC QUARTERY 1992)

    برقیاتی ذہن، علم کا نیا طور


    DATA BANKS ARE THE ENCYCLOPAEDIA OF TOMORRW;THEY ARE‘‘NATURE’’ FOR POST MODERN MEN AND WOMEN. (LYOTARD)

    دوسری جنگ عظیم کے بعد بنیادی تبدیلیاں اس تیزی سے رونما ہوئی ہیں کہ دیکھتے ہی دیکھتے معاشرے کیا سے کیا ہو گئے ہیں۔ تکنا لوجی اور ٹیلی مواصلات کا انقلاب اس نوعیت کا ہے کہ آج پوری دنیا ’’میڈیا سوسائٹی‘‘ میں بدل گئی ہے۔ دور دراز کے معاشرے جہاں پہلے تبدیلیاں دیر میں پہنچا کرتی تھیں یا نہیں پہنچتی تھیں، یا جو معاشرے ’’محفوظ‘‘ سمجھے جاتے تھے، اب وہ بھی ’’غیرمحفوظ‘‘ ہیں اور اس انقلاب کی زد میں آ چکے ہیں۔ لیوتار نے اپنی کتاب THE POSTMODERN COCONDITION میں ان تمام تبدیلیوں اور ان کے اثرات سے بحث کی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ سب سے بڑی تبدیلی علم کی نوعیت میں آئی ہے۔ کمپیوٹر معاشرے میں علم (KNOWLEDGE) کی نوعیت یکسر بدل گئی ہے۔ مابعد جدید سماج کے خصائص سے بحث کرتے ہوئے لیوتار تین امور پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہے۔

    (۱) پچھلے چالیس پچاس برسوں میں سائنس اور تکنالوجی میں سب سے زیادہ عمل دخل زبان اور زبان کے نظریوں کا ہے۔ کمپیوٹر، برقیاتی ذہن کے لیے زبان وضع کرنا، اس زبان کے ذریعے معلومات کو جمع کرنے اور پانے کا طور، مختلف کاموں کے لیے الگ الگ پروگرام وضع کرنا اور ان کی صنعتی پیداوار، مصنوعی مشینی زبان اور مشینی ترجمہ، معلومات کی ذخیرہ اندوزی اور برقیاتی معلوماتی بنکوں کا قیام اور تمام دوسری سرگرمیوں میں زبان کا کردار مرکزی ہے۔

    (۲) برقیاتی تکنالوجی کے اس انقلاب سے علم کی نوعیت میں جو تبدیلی آئی ہے اس سے علم اب اپنا جواز آپ نہیں رہا، بلکہ علم پوری طرح کمرشیل قوتوں کے زیر سایہ آ گیا ہے۔ علم اب شخصیت کا جزو نہیں بلکہ منڈی کا مال ہے جسے خریدا اور بیچا جا سکتا ہے۔ پہلے علم کو حاصل کرنے کے لیے زندگیاں کھپائی جاتی تھیں۔ اب علم منڈی کے مال کے ساتھ MASS SCALE پر پیدا ہو رہا ہے اور صابون اور ٹوتھ پیسٹ کی طرح بکاؤ موجود ہے۔ جب چاہیں اسے خرید سکتے ہیں۔ علم اب حاکم نہیں محکوم ہے۔ علم کی تصغیریت (MINIATURISATION) کے بعد اس کا کمرشیل استحصال روز مرہ زندگی کا معمول بن گیا ہے۔

    (۳) جیسے جیسے معاشرے ما بعد جدید دور میں داخل ہوتے جائیں گے، علم کا وہ حصہ جو برقیاتی ذہن کو ہضم نہیں کرایا جا سکےگا یا جس کی برقیاتی تحلیل نہ ہو سکےگی، وہ پچھڑ جائےگا اور ماضی کے طاق پر دھرا رہ جائےگا۔ علم جو پہلے ذہنِ انسانی کو جِلا دینے یا شخصیت کو سنوارنے نکھارنے کے لیے حاصل کیا جاتا تھا، اب فقط اس لیے پیدا کیا جائےگا کہ منڈی کی معیشت میں اس سے منافع اندوزی کی جاسکے یا اس کو طاقت کے ہتھیار کے طور پر برتا جا سکے۔

    علم بطور پیداواری طاقت


    .KNOWLEDGE IS NOT NEUTRAL OR OBJECTIVE KNOWLEDGE IS A PRODUCT OF POWER RELATIONS
     (FOUCAULT)

    پچھلی کچھ دہائیوں سے کمپیوٹر زائیدہ علم ایک پیداواری طاقت (FORCE OF PRODUCTION) کی حیثیت اختیار کرنے لگا ہے۔ اس کا ایک واضح اثر کام کرنے والے طبقے پر پڑ رہا ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں میں فیکٹری اور کارخانہ مزدوروں کی تعداد کم ہونے لگی ہے اور سفید کالر کارکنوں اور پیشہ ور تکنیکی کارکنوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ لیوتار کا کہنا ہے کہ آئندہ بین ملکی طاقت کے کھیل میں کمپیوٹر زائیدہ علم کا بڑا حصہ ہوگا اور ممکن ہے کہ قوموں اور ملکوں کی آئندہ رقابتیں اور دشمنیاں برقیاتی علم کے ذخیروں پر قادر ہونے کے لیے ہوں گی، یعنی علم گیری، ملک گیری کی طرح عالمی سطح پر ہوس کا درجہ اختیار کر لےگی۔ لیوتار یہ بھی پیشین گوئی کرتا ہے کہ ہرشے کا مدار چونکہ تکنالوجی پر ہوگا اس لیے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر معاشروں کے درمیان فاصلہ گھٹےگا نہیں بلکہ اور بڑھےگا۔ زیادہ اہم یہ ہے کہ طاقت اور علم ایک ہی حصے کے دو رخ ہوں گے۔

    لیوتار وٹگنسٹائن کی ’’لسانی چالوں‘‘ (LINGUISTIC GAMES) کے حوالے سے کہتا ہے کہ علم کی ہر چال طاقت کی ایک وضع کی حامل ہوگی۔ ویسے دیکھا جائے تو ہم پہلے ہی عام گفتگو میں جنگ کی اصطلاحوں کا استعمال کرتے ہیں، مثلاً (دلیل سے) حملہ کیا جاتا ہے، دھاوا بولا جاتا ہے، غنیم کو پسپا کیا جاتا ہے، منہ کی کھانا، چت کرنا، دانت کھٹے کرنا، چھکے چھڑا دینا، منہ دکھانے کے قابل نہ رکھنا وغیرہ روزمرہ کے اظہاریے ہیں۔ بقول لیوتار کمپیوٹر معاشرے میں TO SPEAK IS TO FIGHT یعنی ’’بولنا لڑائی لڑنا ہے‘‘ عام اصول ہوگا۔ آئندہ لڑائیاں کمپیوٹر زبان کی چالوں سے لڑی جائیں گی۔ کس منزل پر کون سی چال کارگر ہوگی، اس کا فیصلہ ذہن انسانی نہیں، کمپیوٹر کرےگا۔

    سائنسی علم اور بیانیہ
    لیوتار اسی پر اکتفا نہیں کرتا، وہ علم کی دو قسمیں بیان کرتا ہے۔ ایک کو وہ سائنسی علم کہتا ہے اور دوسرے کو ’’بیانیہ‘‘ (NARRATIVE) اس کا کہنا ہے کہ سائنسی علم اور ’’بیانیہ‘‘ میں تضاد وکش مکش کا رشتہ ہے اور یہ کش مکش ہمیشہ سے رہی ہے۔ ’’بیانیہ‘‘ سے لیوتار کی مراد ثقافتی روایت کا وہ تسلسل ہے جو متھ، دیو مالا، اساطیر اور قصے کہانیوں میں ملتا ہے۔ اسی میں وہ فلسفے کی روایتوں کو بھی شامل کرتا ہے۔ لیوتار کا کہنا ہے کہ ’’بیانیہ‘‘ ہی سے معاشرتی کوائف وروابط، نیک و بد، صحیح وغلط کی پہچان اور ثقافتی رویوں کے معیار طے ہوتے ہیں۔ ’’بیانیہ‘‘ نہ صرف کسی بھی معاشرے میں انسانی رشتوں کے نظم وربط کی نشان دہی کرتا ہے بلکہ فطرت اور ماحول سے انسان کے روابط کا بھی مظہر ہوتا ہے۔ کسی بھی معاشرے میں حسن، حق اور خیر کے معیار اسی سے طے ہوتے ہیں اور عوامی دانش وحکمت بھی اسی سرچشمے کی دین ہیں۔ مختصر یہ کہ کسی بھی ثقافت میں معاشرتی کوائف وضوابط اور معاشرتی رویوں کی تشکیل وتہذیب جس سرچشمۂ فیضان سے ہوتی ہے، وہ ’’بیانیہ‘‘ ہی ہے۔

    لیوتار اس بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتا ہے کہ باوجود سائنس اور تکنالوجی کی یلغار کے ’’بیانیہ‘‘ کا وجود ضروری ہے۔ یہ دونوں متوازی حقیقتیں ہیں۔ دونوں کے علم کے اپنے اپنے طور اور وٹگنسٹائین کی اصطلاح میں اپنی اپنی ’’لسانی چالیں‘‘ ہیں۔ سائنسی علوم میں جہاں ثبوت ضروری ہے، ’’بیانیہ‘‘ میں ثبوت یا دلیل ضروری نہیں۔ سائنسی روایت، بیانیہ پر ہمیشہ معترض رہتی ہے، وہ ’’بیانیہ‘‘ کو نیم وحشی، نیم مہذب، قدامت پسند، پس ماندہ، توہم پرست، ظلمت شعار، جہالت شکار، مملوکیت پسند وغیرہ کہہ کر اس پر طنز بھی کر سکتی ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ خود سائنسی روایت کو اپنے استناد کی توثیق کے لیے ’’بیانیہ‘‘ کے وجود کی ضرورت ہے۔ کیا صحیح ہے اور کیا غلط ہے، اس کی تصدیق کے لیے ’’بیانیہ‘‘ کا تناظر اور حوالہ ضروری ہے۔

    دوسرے لفظوں میں ’’بیانیہ‘‘ ہی وہ کسوٹی ہے جس پر سائنسی روایت کی صحت اور عدم صحت پرکھی جاتی ہے، حالانکہ سائنسی علم کی رو سے بیانیہ سرے سے علم ہی نہیں۔ یوں گویا سائنسی علم میں ’’بیانیہ‘‘ کا وجود خود بخود شامل ہو جاتا ہے۔ عالمی فکری روایتوں کو لیوتار META-NARRATIVE یعنی ’’مہابیانیہ‘‘ کہتا ہے۔

    روشن خیالی پروجیکٹ، خواب اور شکستِ خواب


    THE CONTROVERSY ABOUT MODERNISM AND POSTMODERNISM COULD BE SEEN IN THE CONTEXT OF IDEOLOGICAL STRUGGLE. THE PROJECT OF MODERNITY IS ONE WITH THAT OF THE ENLIGHTENMENT, AND MARXISM IS A CHILD OF ENLIGHTENMENT BUT THE POSTMODERNISTS DECLARE THAT PROGRESS IS MYTH
     (MADAN SARUP)

    مابعد جدیدیت کا سب سے بڑا سوال یہ ہے،

     
    ?HAS THE ENLIGHTENMENT PROJECT FAILED

    ’’کیا روشن خیالی کا پروجیکٹ ناکام ہو گیا ہے؟‘‘ اکثر مفکرین یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا روشن خیالی کا پروجیکٹ جو ’’کلچرل مورڈن ازم‘‘ کا حصہ تھا، ہمیشہ کے لیے دم توڑ چکا یا اس میں کچھ جان باقی ہے؟ یہ پروجیکٹ اٹھارہویں صدی کے فلاسفہ کی امید پرور اور حوصلہ مندانہ فکر سے یادگار چلا آتا تھا جنھوں نے انسان کی ترقی کا خواب دیکھا تھا اور یہ عبارت تھا سائنس کی معروضی پیش رفت سے، آفاقی اخلاقیات اور قانون کی بالادستی سے اور ادب وآرٹ کی خود مختاری سے۔ توقع تھی کہ فطری اور مادی وسائل پر قدرت حاصل ہو جانے سے ذات اور کائنات کا عرفان بڑھےگا، عدل وانصاف اور اخلاق کا بول بالا ہوگا، امن وامان کا دور دورہ ہوگا اور انسان مسلسل ترقی کرتا جائےگا۔

    لیکن روشن خیالی پروجیکٹ کے خوابوں کی تعبیر جو سامنے آئی ہے وہ نہ صرف حوصلہ افزا نہیں بلکہ مایوس کن ہے، عملاً سائنسی تکنیکی ترقی اور جدید کاری کے ساتھ دنیا کا جو نقشہ ابھراہے وہ اس کا الٹ ہے جو سوچا گیا تھا۔ بظاہر آسائشوں اور سازوسامان سے بھرپور زندگی اندر سے کھوکھلی اور بے تہہ ہو چکی ہے۔ فوری نتائج، کامیابی، منافع خوری، اقتدار کی ہوس، حاوی محرکات ہیں۔ خوشی اور مسرت منڈی کا مال ہیں اور ہر شے کمرشیل رنگ میں رنگ کر اپنی اصلیت سے محروم ہو گئی ہے۔ چنانچہ پس ساختیاتی مفکرین ہوں یا نئے فلسفی، سب تاریخی ترقی کے سابقہ تصور کو چیلنج کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بیشک انسان ترقی کر رہا ہے لیکن فقط کمیتی اعتبار سے، کیفیتی اعتبار سے نہیں۔ کیفیتی اعتبار سے انسان کی یا علم کی ترقی کی جو ضمانت دی گئی تھی، افسوس کہ وہ پوری نہیں ہوئی اور روشن خیالی پروجیکٹ اپنی شکست سے دوچار ہو چکا ہے۔

    لیوتار کی تھیوری کی سیاسی جہت وہی ہے جو پس ساختیاتی مفکرین کی ہے۔ لیوتار کے نزدیک تاریخ کے بڑے رزمیے یا متھ دو ہیں۔ اول انسان کی آزادی وحریت کا خواب اور دوسرے علوم انسانی کی کلی وحدت کا خواب۔ ان کو وہ ’’مہابیانیہ‘‘ بھی کہتا ہے۔ پہلے مہابیانیہ نوعیت کے اعتبار سے عملی سیاسی ہے جس کا آغاز انقلاب فرانس سے ہوا۔ اس کو وہ NARRATIVE OF EMANCIPATION کہتا ہے۔ دوسرا مہابیانیہ نوعیت کے اعتبار سے فکری ہے اور اس کا آغاز ہیگل کی جرمن روایت سے ہوا۔ اس کا کہنا ہے کہ اصلاً یہ دونوں مہابیانیہ آمرانہ ہیں اور انسان کی آزادی چھیننے کے لیے کوشاں رہے ہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ انسان ان فریب خوردگیوں کے خلاف نبرد آزما رہا ہے۔ سٹالن ازم کی متھ یا مہابیانیہ یہی تھا کہ انسان سوشلزم کی طرف گامزن ہے۔

    لیوتار تنبیہ کرتا ہے کہ مابعد جدیدیت میں کسی نوع کے مہابیانیہ کی کوئی گنجائش نہیں۔ مہابیانیہ خواہ فکری ہو یا سیاسی، ’’مہابیانیہ‘‘ کا اعتبار جاتا رہا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ موجودہ دور میں سائنس اور ہائی تکنالوجی کی ساری توجہ ایسی ایجادات پر ہے جن کی نوعیت مقصود (END) کی نہیں بلکہ ذرائع (MEANS) کی ہے۔ مستقبل کی فریب خوردگیوں کے لیے آج کے انسان کے پاس وقت نہیں۔

    جیساکہ وضاحت کی گئی جدید (ماڈرن) کی پہچان انسانی ترقی کے مہابیانیہ سے جڑی ہوئی تھی۔ یہ طلسم اب شکست ہو چکا۔ ما بعد جدیدیت کسی بھی مہابیانیہ میں یقین نہیں رکھتی، ہیگل ہو کہ مارکس، مابعد جدید ذہن سب کو شک وشبہ کی نظر سے دیکھتا ہے۔ مہابیانیہ یعنی بڑی فلسفیانہ روایتوں کا اعتبار جاتا رہا۔ فوکو جیسے مفکرین کلیت پسند فکر کے اس لیے بھی مخالف ہیں کہ یہ استعماریت اور امپیرئیلزم کی بدترین شکلوں کے لیے راہ ہموار کرتی ہے۔

    ان کا اصرار ہے کہ جدید کاری کے تمام مہابیانیہ (GRANDS RECITS) مثلاً صداقتِ مطلق کی جدلیات، انسان کی آزادی وحریت، غیرطبقاتی سماج، ترقی وخوشحالی اور امن ومسرت کا خوش کن خواب، سب پر سوالیہ نشان لگ چکا ہے۔ مارکسی مہابیانیہ متعدد مہابیانیوں میں سے ایک تھا اور غالباً سب سے اہم اور سب سے زیادہ خوش کن، قطع نظر اس سے کہ مابعد جدیدیت میں مارکس کی کشادہ تعبیروں پر زور ہے اور کشادہ مارکسیت وتاریخیت کی بعض شکلوں سے مکالمہ جاری ہے، لیکن اس بات کی مخالفت ہے کہ مارکسیت ایک یک رنگ وحدانی سماج چاہتی ہے اور ایسا فقط جبر وتشدد سے ممکن ہے۔ نئے مفکرین کا اصرار ہے کہ مابعد جدید سماج یک رنگ اور وحدانی سماج نہیں ہو سکتا۔ آج کا سماج بوقلموں، غیروحدانی، رنگا رنگ، تکثیری اور مختلف الاوضاع (HETEROGENEOUS) سماج ہے۔ یہ وجود میں آ چکا ہے اور باقی رہےگا۔

    لیکن کلیت پسند جدلیاتی مفکر جرگن ہبر ماس اس خیال سے اختلاف کرتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ زندگی چونکہ انتشار کی زد میں آ چکی ہے، اس لیے ضروری ہے کہ علمی، اخلاقی اور سیاسی ڈسکورس ایک دوسرے کے قریب آئیں اور ان میں اشتراک عمل پیدا ہو۔ ہبرماس تفرق زدہ معاشرے کے مقابلے میں ہم خیال معاشرے (CONSENSUS COMMUNITY) کی تجویز پیش کرتا ہے۔ وہ فوکو جیسے مفکرین کو نوقدامت پسند کہتا ہے اور ان کے مقابلے پر ’’کلچرل جدید کاری‘‘ پروجیکٹ کا ہم نوا ہے۔

    لیکن لیوتار اور نئے مفکرین ہبرماس سے اختلاف کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پہلے کے مہابیانیہ ختم ہو چکے ہیں اور ان کی جگہ لینے والا کوئی نہیں۔ سائنس، آرٹ، اخلاقیات سب کی زبانیں الگ الگ ہیں۔ سماج میں کیا ہو رہا ہے، اس کا کوئی کلی ادراک ممکن نہیں، اس لیے کہ کوئی ’’وحدانی مہالسان‘‘ باقی نہیں جو آج کے انتشار آشنا، بوقلموں اور کثیر المرکز سماج کی سمت ورفتار کا احاطہ کر سکے۔ غرضیکہ نئے مفکرین یہ تاثر دیتے ہیں کہ بڑے بیانیہ نہیں رہے، جو کچھ ہیں چھوٹی چھوٹی کہانیاں ہیں۔ یہ ’’چھوٹے بیانیہ‘‘ اجتماعی کے مقابلے پر شخصی، عالمی کے مقابلے پر مقامی اور کلیت کے مقابلے پر خصوصیت کے حامل ہیں۔ نئے مفکرین کا خیال ہے کہ ’’چھوٹے بیانیہ‘‘ ادب اور آرٹ کی آزادی اور تخلیقیت کے بہتر ضامن ہیں۔

    مہابیانیہ کی گم شدگی اور اجتماعی لاشعور


    THE WORLD COMES TO US IN THE SHAPE OF STORIES IT IS HARD TO THINK OF THE WORLD AS IT WOULD EXIST OUTSIDE NARRATIVE ANYTHING WE TRY TO SUBSTITUTE FOR A STORY IS ON CLOSER EXAMINATION. LIKELY TO BE ANOTHER SORT OF STORY, IT IS A FORM OUR PERCEPTION IMPOSES ON THE RAW FLUX OF REALITY
     (FREDRIC JAMESON)


    فریڈرک جیمی سن کو اس بات سے اتفاق نہیں کہ مہابیانیہ ختم ہو گیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ مہابیانیہ ختم نہیں ہو سکتا، مہابیانیہ کی گمشدگی کا مطلب ہے کہ مہابیانیہ زیر زمین چلا گیا ہے اور جب بھی کوئی ایسی چیز جو ہمارے وجود کا حصہ رہ چکی ہو، زیر زمین چلی جاتی ہے تو وہ ہمارے اجتماعی لاشعور کا حصہ بن جاتی ہے اور فکروعمل کو برابر متاثر کرتی رہتی ہے۔ جیمی سن اس دبے ہوئے مہابیانیہ کو ’’سیاسی لاشعور‘‘ کا نام دیتا ہے۔ اس کی مشہور کتاب کا نام بھی یہی ہے،

     
    ,THE POLITICAL UNCONSCIOUS 
    NARRATIVE AS A SOCIALLY SYMBOLIC ACT
     (LONDON 1981)

    جیمی سن کا خیال ہے کہ بیانیہ اتنا ادبی فارم نہیں جتنا یہ ایک علمیاتی زمرہ یا ساخت ہے۔ زندگی کی حقیقت ہم تک اسی زمرے میں ڈھل کر پہنچی ہے یعنی ہم دنیا کو بیانیہ ہی کے ذریعے جانتے ہیں۔ یہ سوچنا بھی محال ہے کہ دنیا کا کوئی تصور بیانیہ سے ہٹ کر بھی ممکن ہے۔ کہانی کو کسی چیز سے بدل کر دیکھیے، غور کرنے پر معلوم ہوگا کہ وہ بھی ایک طرح کی کہانی ہے۔ دوسرے یہ کہ بیانیہ میں سامنے کے معنی اور دبے ہوئے معنی میں فرق کرنا ضروری ہے، اس لیے کہ بیانیہ بیک وقت حقیقت کو پیش بھی کرتا ہے اور حقیقت کو گوارا بھی بناتا ہے یعنی بیانیہ حقیقت کو ظاہر بھی کرتا ہے اور حقیقت کو دباتا بھی ہے۔ بیانیہ ہمارے تاریخی تضادات کو دباکر انھیں ہمارے لیے گورارا بنا دیتا ہے۔ یہ POLITICAL UNCONSCIOUS کا تفاعل ہے۔

     جیمی سن کہتا ہے ستم ظریفی یہ ہے کہ سیاسی لاشعور بھی فرائیڈ ہی کی اصطلاح ہے، لیکن فرائیڈ انفرادی سائیکی کے آئیڈیولوجیکل واہمے میں اس قدر گھرا ہوا تھا کہ اس کو ’’سیاسی لاشعور‘‘ کی اپنی دریافت پر غور کرنے کا موقع نہیں ملا۔ جیمی سن کہتا ہے کہ اجتماعی لاشعور کا تفاعل اس بات سے بھی ثابت ہے کہ انفرادی شعور بے ربط وبے آہنگ ہوتا ہے اور اس میں ارتباط اور ہم آہنگی اجتماعی سطح پر ہی ممکن ہے۔

    جیمی سن مشہور ماہر اقتصادیات ارنسٹ مینڈل کے ماڈل کی بنا پر حقیقت پسندی، جدیدیت اور مابعد جدیدیت کی درجہ بندی اقتصادیات کے حوالے سے بھی کرتا ہے۔ ۱۸۴۸ء میں بھاپ انجن، ۱۸۹۰ء میں آتش افروز انجن اور ۱۹۴۰ء کے بعد برقیاتی اور ایٹمی توانائی کا استعمال، مینڈل ان تین صنعتی منزلوں کو مارکیٹ سرمایہ داری، اجارہ دار سرمایہ داری اور کثیر قومی سرمایہ داری کے تین ادوار کا پیش خیمہ قرار دیتا ہے۔ جیمی سن کا کہنا ہے کہ مابعد جدیدیت گویا سائنسی سطح پر برقیاتی اور ایٹمی انقلاب سے اور اقتصادی سطح پر کثیر قومی سرمایہ داری سے جڑی ہوئی ہے۔

    کثیر قومی کارپوریشنوں نے اقتصادی رشتوں کی نوعیت اور حرکیت کو بدل دیا ہے۔ اس سے پہلے جن مقامات پر سرمایہ داری کی پرچھائیں بھی نہ پڑی تھی، آج وہ بھی کثیر قومی سرمایہ داری کی زد میں ہیں، مثلاً خلا، سمندر، فطرت ہر جگہ کثیر قومی سرمایہ داری کا مہیب سایہ پھیل چکا ہے، یوں ’’کالونیل ازم‘‘ کی ایک نئی صورت کا آغاز ہو گیا ہے اور اب اجتماعی لاشعور بھی اس کی زد میں ہے۔ کثیر قومی سرمایہ داری اور صارفیت کا کلچر، برقیاتی میڈیا اور اشتہار انڈسٹری کے ذریعے اجتماعی لاشعور میں پنجے گاڑ رہا ہے اور انسان لامرکز ٹیلی مواصلات کے جس نٹ ورک میں گھر گیا ہے، اس کے طول وعرض کو ناپنے کی سکت بھی اس میں نہیں۔

    مابعد جدید ذہن کی پہچان دو خصوصیات سے ہے۔ ایک کوجیمی سن PASTICHE کہتا ہے اور دوسری کو SCHIZOPHRENIA۔ پہلی خصوصیت سے اس کی مراد ہے ما سبق کے اسالیب کی بازیافت۔ اس کا کہنا ہے کہ موجودہ دور میں سوائے اس کے چارہ نہیں کہ پہلے کے اسالیب کی بازیافت کریں۔ دوسری اصطلاح SCHIZOPHRENIA لاکاں سے مستعار ہے جس سے مراد ہے زبان کے نظام میں داخل ہونے سے پہلے کی انسان کی حالت یعنی جب وہ آوازیں تو پیدا کر سکتا ہے لیکن مربوط کلام نہیں کر سکتا۔ یہ تکلمی نہیں نشانیاتی منزل ہے، وقت کا احساس زبان کے نظام کے ساتھ درآتا ہے، سو قبل لسانی حالت میں دائمی حال کا احساس ہے جس میں نطق ہے لیکن بے ربط، پارہ پارہ، تسلسل سے عاری۔ سیموئل بیکٹ اس کی بہترین مثال ہے۔

    خواہش کافور


    ‘‘THE SELF IS ALL FLUX AND FRAGMENTATION, COLLECTION OF MACHINE PARTS IN HUMAN RELATIONSHIPS ONE WHOLE PERSON NEVER RELATES TO ANOTHER WHOLE PERSON THERE ARE ONLY CONNECTIONS BETWEEN DESIRING MACHINES’’. FRAGMENTATION IS A UNIVERSAL OF HUMAN CONDITION
     (DELEUZE & GUATTARI)


    SCHIZOPHRENIA کی اصطلاح فرانس کے دو جید مفکرین دے لیوز اور گواتری کی فکر کا بھی حصہ ہے۔ (گواتری کا انتقال اگست ۱۹۹۲ء میں ہوا) زندگی بھر ان دونوں مفکرین نے مل کر کام کیا۔ ان کی بنیادی کتاب،

     
    ,GILLES DELEUZE & FELIX GUATTARI
    ANTI-OEDIPUS، CAPTIALISM & SCHIZOPHRENIA
    (NEW YORK 1977)

     
    دراصل دو کتابوں کا مجموعہ ہے جن کا ذیلی عنوان تو ایک ہے لیکن اصل عنوان الگ الگ ہیں۔ ان میں سے پہلی کتاب ANTI-OEDIPUS ہے اور دوسری کتاب A THOUSAND PLATEAUX ہے۔ دے لیوز اور گواتری کی اہمیت اس میں ہے کہ ان کی ابتدائی فکر نے جن لوگوں کو متاثر کیا، ان میں بارتھ، آلتھیو سے، بودیلار، کرسٹیوا اور دریدا تک شامل ہیں، حالانکہ ان سب کے برعکس دے لیوز اور گواتری تشریحیاتی روایت سے تعلق نہیں رکھتے اور کائنات کو بطور متن دیکھنے کے رویے سے متفق نہیں۔ دے لیوز اور گواتری، مارکس اور فرائیڈ کی اصطلاحوں میں بات کرتے ہیں لیکن ان کی معنویت کو پلٹ دیتے ہیں۔ ان کے یہاں مرکزی اصطلاحیں دو ہیں LIBIDO خواہش اور PRODUCTION پیداوار یعنی مشین۔ ان کے خیال کی تہ نشیں رو کا اندازہ ان کے اس قول سے کیا جا سکتا ہے، ’’انسان مشین کی خواہش میں گرفتار ہے۔‘‘

    یہ شخصی کو سیاسی کے معنی میں اور انفرادی کو اجتماعی کے معنی میں استعمال کرتے ہیں، اس لیے کہ LIBIDO کاتفاعل شخصی بھی ہے (شہوت) اور سیاسی بھی (طبقاتی کش مکش۔) ان کا کہنا ہے کہ نفس امارہ اور سیاسی قوت ایک دوسرے میں ضم ہو جاتے ہیں، ور مل کر عمل آرا ہوتے ہیں۔ مارکسزم کو یہ دونوں ’’ماسٹر کوڈ‘‘ کہتے ہیں جو تاریخ کو نجات دہندہ کے روپ میں پیش کرتا ہے۔ ان کے بقول مارکسزم حقیقت سے جڑا ہوا نہیں بلکہ ایک نوع کی مابعد الطبیعیات ہے یا اعتقاد جو دکھیا مخلوق کو یقین دلاتا ہے کہ ایک دن نجات ضرور ہوگی۔ دے لیوز اور گواتری مزید کہتے ہیں کہ زندگی میں تشویق اور تعقل دونوں میں کشاکش ہے۔ تعقل تشویق کو پنپنے نہیں دیتا، اس کا گلا گھونٹ دیتا ہے۔

    لاکاں نے شعور انسانی کے بارے میں کہا تھا کہ شعور انسانی خود کار یا خود نظم نہیں، یہ بے مرکز ہے۔ دے لیوز اور گواتری اس نکتے کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ شعور انسانی تفرق آشنا ہے، مشین کے پرزوں کی طرح، کوئی ایک شخص کسی دوسرے شخص سے مکمل مطابقت نہیں رکھتا۔ انسانی حالت کی اصلیت بے ارتباطی اور بے آہنگی ہے۔ زندگی میں کچھ بھی ممکن ہے کیونکہ یہ ہماری خواہش ہی ہے جو حقیقت کو مطلوبہ شکل دے دیتی ہے۔ دے لیوز اور گواتری، فرائیڈ اور مارکس کی زبان بولتے ہیں لیکن دراصل ان کا فلسفیانہ موقف نطشے کی جھلک رکھتا ہے۔

    نطشے کا اثر


    ’’.EMPIRICAL FACTS DO NOT SEEM TO WARRANT THE BELIEF THAT HISTORY IS A STORY OF PROGRESS‘‘
    NIETZSCHE

    غرضیکہ ساختیاتی مفکر ہوں یا ما بعد جدید مفکر، ان سب کی فکر میں جو عنصر قدر مشترک کا درجہ رکھتا ہے، یہ ہے کہ بہت سی باتوں میں یہ نطشے کہ ہم نوا ہیں۔ مثلاً نطشے کے بارے میں معلوم ہے کہ وہ تاریخ کو لازماً ترقی کا سفر نہیں کہتا۔ انسانیت کا منتہا زماں کے آخری سرے پر واقع ہو یہ ضروری نہیں، بلکہ نطشے اصرار کرتا ہے کہ تاریخ کی بلندیوں کا اندازہ انسانیت کے اعلیٰ ترین نمونوں سے کرنا پڑتا ہے جن کا تعلق مختلف زمانوں سے ہو سکتا ہے۔ یعنی یہ ضروری نہیں کہ جدید سماج قدیم زمانے کے سماج سے بہتر ہو (THOUGHTS OUT OF SEASON) صداقت کے بارے میں نطشے کہتا ہے کہ صداقت پر کسی کی اجارہ داری نہیں ہے۔ نطشے ہمیشہ قائم رہنے والے تصور کابھی قائل نہیں۔ وہ سیاسی نظام کو بھی اچھی نظر سے نہیں دیکھتا، اس لیے کہ اس سے فکر کی پرواز میں کوتاہی آتی ہے۔

    نطشے کے ان خیالات کی گونج اکثر نئے فلسفیوں کے یہاں ملتی ہے، نیز مابعد جدید صورت حال پر اس طرز فکر کے اطلاق کی مختلف شکلیں بھی نظر آتی ہیں۔ فوکو تاریخیت کا سخت سے سخت احتساب کرتا ہے۔ تاریخ کا سفر تاریکی سے روشنی کی طرف ہو، اس کی کوئی گارنٹی نہیں ہے۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ انھوں نے تاریخ کا راز پالیا ہے، بقول فوکو وہ واہمے میں مبتلا ہیں کیونکہ تاریخ غیرمسلسل اور غیرہموار ہے، اسی لیے فوکو مارکسزم کا قائل نہیں۔ وہ کہتا ہے سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا ہے، اس کو ہمیشہ مقتدر طبقہ طے کرتا ہے اور صداقت دراصل طاقت کا کھیل ہے۔ فوکو کا مشہور قول ہے کہ فقط سچ بولنا کافی نہیں ہے سچائی کے اندر واقع ہونا ضروری ہے‘‘۔

    ’’دیوانگی اور تہذیب‘‘ نامی کتاب میں فوکو بحث کرتا ہے کہ کس طرح عقل معاشرے میں استبدادی کردار ادا کرتی ہے۔ بعد کے مفکرین نے فوکو کی اس سوچ سے خاصا اثر قبول کیا ہے۔ دریدا کے معنی کی طرفیں کھولنے اور صداقت کو بے مرکز ثابت کرنے میں بھی نطشے کے خیالات کی جھلک ملتی ہے۔

    لیوتار بھی جو کسی زمانے میں غالی مارکسی تھا، بعد میں علی الاعلان نطشے کا ہم نوا ہو گیا۔ یہی حال دے لیوز اور گواتری کے خیالات کاہے۔ نئے مفکرین آمریت اور پولیس اسٹیٹ کے مآخذ کو مارکس سے قبل ہیگل کی جدلیات میں دیکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہیگل کے جو ہر مطلق (ABSOLUTE SPIRIT) کے تصور سے راستہ سیدھا ’’گلاگ‘‘ کو جاتا ہے۔ بیشک مارکس نے تاریخیت کو مادی بنیادوں پر استوار کیا اور ’’جوہر مطلق‘‘ کی جگہ اقتصادی قدر کو مامور کر دیا، لیکن تضادات بالآخر ایک بالاتر قوت پر منتج ہوتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں دروازے پر پولیس کی دستک ’’قادر مطلق‘‘ ہی کی شکل ہے جسے تاریخی ترقی کے نام پر روا رکھا گیا۔

    تخلیقیت کا جشن جاریہ


    ’’.SUSTAINED CELEBRATION OF CREATIVIT‘‘


    وضاحت کی جا چکی ہے کہ مابعد جدیدیت ہر طرح کی کلیت پسندی کے خلاف ہے، اس لیے کہ کلیت پسندی، آمریت، یکسانیت اور ہم نظمی کا دوسرا نام ہے اور یکسانیت اور ہم نظمی تخلیقیت کے دشمن ہیں۔ تخلیقیت غیریکساں، غیرمنظم اور بے محابا ہوتی ہے۔ یہ LIBIDO ’’خواہش نفسانی‘‘ کا نشاط انگیز اظہار ہے۔ تخلیقیت کا تعلق کھلی ڈلی آزادانہ فضا سے ہے، یہ عبارت ہے خود روی اور طبعی آمد (SPONTANEITY) سے۔ تخلیقیت کو میکانکی کلیت کا اسیر کرنا اس کی فطرت کا خون کرنا ہے۔ کلیت پسندی کے مقابلے پر مابعد جدید فکر تفرق آشنائی کو موجودہ عہد کا مزاج قرار دیتی ہے۔ مرکزیت کا تصور اسی لیے پسندیدہ ہے کہ کلیت کا پیدا کردہ ہے۔ تخلیقیت مائل بہ مرکز نہیں، مرکز گریز قوت رکھتی ہے۔ تخلیقیت آزادی کی زبان بولتی ہے جبکہ کلیت محکومیت پیدا کرتی ہے، لیک پر چلاتی ہے، فکر پر پہرہ بٹھاتی ہے اور معنی کو راہ بند کرتی ہے۔

    پس ساختیاتی فکر کی رو سے آرٹ کی خود مختاری مشکوک اسی لیے ہے کہ جب معنی کا مرکز نہیں تو کثیر المعنویت پر پہرہ کیوں کر بٹھایا جا سکتا ہے، نیز معنی کے تفاعل میں جونہی قاری (یا سامع یا ناظر) داخل ہو جاتا ہے، آرٹ کی خود مختاری ساقط ہو جاتی ہے، اس لیے کہ فقط قاری متن کو نہیں پڑھتا بلکہ متن بھی قاری کو پڑھتا ہے۔ مصنف معنی کا حکم یا آمر نہیں کیونکہ معنی قرأت کی سرگرمی اور قاری کے تفاعل کا نتیجہ ہے اور ہرمتن بدلتی ہوئی ثقافتی توقعات کے محور پر پڑھا جاتا ہے۔ معنی خیزی کا لامتناہی ہونا تخلیقیت ہی کی شکل ہے، لہٰذا تکثیریت، بے مرکزیت، بھرپور تخلیقیت، رنگا رنگی، بوقلمونی، غیریکسانیت اور مقامیت بمقابلہ کلیت پسندی وآمریت ما بعد جدیدیت کے نمایاں خصائص ہیں۔

    ادورنونے اس بات کو بہت پہلے محسوس کر لیا تھا کہ آواں گارد ہی موجودہ مزاج کی صحیح ترجمانی کرتا ہے کیونکہ وہ معنی وحدانی کے خلاف ہے۔ حالات کی منطق نے ثابت کر دیا ہے کہ ہیگل کا ارتقائے وحدانی کا نظریہ دور تک ذہن انسانی کا ساتھ نہیں دیتا، اسی لیے نئے مفکرین نطشے سے زیادہ قریب ہیں۔ نطشے ہر سطح پر تخلیقیت کے ’’جشن جاریہ‘‘ کا قائل ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ہر سچی تخلیق پرانے نظم کو بدلتی ہے اسی لیے نئے کی نقیب ہوتی ہے۔ نطشے ذہن کی اس نڈر اور بےباک کشادگی پر زور دیتا ہے جو نئے کو لبیک کہتی ہے، بدلنے سے بھڑکتی نہیں اور اگر ضروری ہو تو سابقہ موقف سے ہاتھ اٹھا لینے میں بھی عار نہیں سمجھتی۔ تخلیقیت کسی ایک مقام پر رکتی نہیں۔ یہ ہر لحظہ جواں، ہر لحظہ جرأت آزما، ہر لحظہ تازہ کار اور ہر لحظہ تغیر آشنا ہے۔ مابعد جدیدیت کی اس بحث سے جو نتائج اخذ کیے جا سکتے ہیں وہ یوں ہیں، 

    (۱) مابعد جدیدیت کسی بھی نظریے کو حتمی اور مطلق نہیں مانتی۔ یہ سرے سے نظریہ دینے کے خلاف ہے۔ ہر نظریہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے استبدادی ہوتا ہے، اس لیے تخلیقیت اور آزادی کے منافی ہے۔

    (۲) نئی فکر ہیگل کے ارتقائے تاریخ کے نظریے کے خلاف ہے۔ حقائق سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ تاریخ کا سفر لازماً ترقی کی راہ میں ہے۔

    (۳) انسانی معاشرہ بالقوۃ جابر اور استبدادی ہے اور استحصال فقط طبقاتی نوعیت کا حامل نہیں۔

    (۴) ریاست سماجی اور سیاسی جبر کا سب سے بڑا اور مرکزی ادارہ ہے۔

    (۵) سماجی، سیاسی، ادبی ہر معاملے میں غیرمقلدیت مرجح ہے۔

    (۶) کسی بھی نظام کی کسوٹی حقوق انسانی اور شخصی آزادی ہیں۔ یہ نہیں تو سیاسی آزادی فریب نظر ہے۔

    (۷) ’’مہابیانیہ‘‘ کا زمانہ نہیں رہا۔ ’’مہابیانیہ‘‘ ختم ہو گئے ہیں یا زیر زمین چلے گئے ہیں۔ یہ دور ’’چھوٹے بیانیہ‘‘ کا ہے ’’ چھوٹے بیانیہ‘‘ غیراہم نہیں ہیں، یہ توجہ کا استحقاق رکھتے ہیں۔

    (۸) مابعد جدیدیت ہر طرح کی کلیت پسندی اور فارمولاسازی اور ضابطہ بندی کے خلاف ہے اور اس کے مقابلے پر مخصوص اور مقامی پر، نیز کھلے ڈلے، فطری، بے محابا اور آزادانہ SPONTANEOUS اظہار وعمل پر اصرار کرتی ہے۔

    (۹) مابعد جدید عالمی مفکرین کا رویہ بالعموم یہ ہے،

     
    ‘‘IF MARX ISNT TRUE THEN NOTHING IS’’

    ان کا کلیت پسندی، مرکزیت، یا نظریہ بندی کے خلاف ہونا، نیز تکثیریت، کثیر الوضعیت، مقامیت، بوقلمونی یا سب بڑھ کر تخلیقیت پر اصرار کرنا اسی راہ سے ہے۔

     

    مأخذ:

    جدیدیت کے بعد (Pg. 15)

    • مصنف: گوپی چند نارنگ
      • ناشر: ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 2005

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے