Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ما بعد جدیدیت

قمر جمیل

ما بعد جدیدیت

قمر جمیل

MORE BYقمر جمیل

    جو نتھن رابن نے ’’ Softy City‘‘ کے نام سے جو کتاب لکھی ہے، اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ۷۰ء میں لندن میں مابعد جدید رویے کا اظہار ہونے لگا تھا۔ جدیدیت کے تصورات کے خلاف جورد عمل تھا اس رد عمل کی سب سے بڑی نمائندگی دریدا کے رد تشکیل (Deconstruction) کے تصور سے ہوئی۔ سوسیئر کے افکار بنیادی طور پر جدید ہیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ جدید افکار ما بعد جدیدیت تک کیسے پہنچ گئے۔

    یہ ہم سب جانتے ہیں کہ سوسیئر لسانیات کے جدید رویے ہی کا نہیں، لسانیاتی ساختیات کا بانی بھی تھا۔ سوسیئر نے کہا ہے کہ لسانیات میں معنی نما (Signifier) اور تصور معنی (Signified) کو مرکزی اہمیت حاصل ہے اور یہ دونوں بلا جواز ہوتے ہیں مثلاً درخت کے لیے اردو میں ایک لفظ ہے پیڑ۔ عربی اور فارسی میں اسے شجر اور نخل کہتے ہیں۔ فرانسیسی میں دو مختلف الفاظ ایسے ہیں جن کا انگریزی میں کوئی متبادل نہیں ہے۔ اسی طرح انگریزی میں River اور Stream دو ایسے الفاظ ہیں جو فرنچ میں نہیں ہیں انگریزی کا River بڑا ہوتا ہے Stream سے اور فرنچ میں دریاؤں کے لیے جو دو الفاظ ہیں ان میں فرق اس بنیاد پر قائم کیا گیا ہے کہ ایک سمندر میں گرتا ہے اور دوسرا سمندر میں نہیں گرتا۔ اسی طرح رنگوں کے سلسلے میں بھی مختلف زبانوں میں مختلف تصورات ہوتے ہیں مثلاً انگریزی میں ہلکا نیلا اور گہرا نیلا ایک ہی رنگ کے دوالگ الگ Shades ہیں لیکن روسی زبان میں ہلکا نیلا بالکل الگ رنگ ہے اور اپنا آزاد وجود رکھتا ہے، اسی طرح گہرا نیلا رنگ بھی اپنا ایک علیحدہ وجود رکھتاہے۔

    بات یہ ہے کہ زبان باہمی سماجی رد عمل سے پیدا ہوتی ہے یعنی زبان ایک سماجی تخلیق ہے۔ اس لیے ہر زبان کے خود اپنے تصورات ہوتے ہیں جو دوسری زبانوں کے تصورات سے الگ ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جن تصورات سے ہم اپنی زندگی میں کام چلاتے ہیں وہ اسی زبان کی تخلیق ہوتے ہیں جو ہم بولتے اور لکھتے ہیں۔ کوئی تصور زبان سے آزاد پہلے سے موجود نہیں ہوتا۔ اردو میں ہم کتے کو پالتو کہہ سکتے ہیں انگریزی میں اسی طرح کا ایک لفظ Pet موجود ہے لیکن فارسی میں ایسا کوئی لفظ موجود نہیں ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ زبانیں پہلے سے موجود اشیا اور تصورات کو نام نہیں دیتیں بلکہ یہ خود اپنی دنیا کا ابلاغ کرتی ہیں۔ ہر زبان اپنی مرضی کے معنی نما (Signifier) پیدا کرتی ہے اور انھیں اپنی مرضی کے معانی دیتی ہے۔ اسی طرح ہر زبان اپنی مرضی کے معانی کی دنیا تخلیق کرتی ہے۔

    در خیم اور فرائڈ کی طرح ساختیاتی لسانیات کے بانی سوسیئر کا بھی یہی خیال ہے کہ (Signifier) معنی نما کے ساتھ تصور معنی (Signified) بلا جواز ہوتے ہیں اس لیے کہ فرد نہیں معاشرہ بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ زبان روایات کے نظام پر قائم رہتی ہے۔ افراد سماجی نظام کو اپنے اندر شعوری یا لاشعوری طور پر جذب کر لیتے ہیں Lionel Trilling نے درست کہا ہے کہ دراصل یہ فرائڈ تھا جس نے ہم پر یہ واضح کیا ہے کہ ہم کلچر میں ڈوبے ہوئے ہوتے ہیں۔ کلچر ہمارے ذہن کے دور دراز گوشوں میں بھی موجود ہوتا ہے۔ ہم ایک دوسرے کی زبان اس لیے سمجھتے ہیں کہ ہم نے اجتماعی معیارات کو اپنے اندر جذب کر رکھا ہوتا ہے۔

    مثلاً اگر ہم کسی دوسری زبان بولنے والے شخص کو یہ بتانا چاہیں کہ خاکی کے کیا معنی ہوتے ہیں تو ہمیں خاکی اور کالے کا فرق خاکی اور پیلے کا فرق اسی طرح خاکی اور کتھئی کا فرق بتانا پڑے گا جب کوئی شخص خاکی اور دوسرے رنگوں میں فرق کرنے لگے گا تب ہی ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ خاکی رنگ کو پہچاننے لگا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خاکی کا تصور کوئی آزاد تصور نہیں ہے بلکہ خاکی رنگ، رنگوں کے نظاموں میں سے ایک رنگ ہے جسے ہم دوسرے رنگوں سے فرق کے باعث پہچانتے ہیں۔ دوسرے رنگوں سے اس کا تعلق ہی اس کی حد بندی کرتاہے۔ اس سے وہی حقیقت ظاہر ہوتی ہے جو سوسیئر نے بتائی تھی۔

    Their most precise characteristic is

    that they are what the others are not.

    یعنی ان میں سے ہر رنگ وہ ہے جو دوسرا نہیں ہے۔ کسی نظام میں مختلف چیزوں میں جو فرق ہوتا ہے وہی ان چیزوں کی شناخت ہے۔ اس لیے سوسیئر کہتا ہے:

    There are only differences with no

    positive terms.

    سوسیئر نے کہا ہے کہ لسانیات میں اتنی تیزی سے ترقی رونما نہ ہوتی اگر اہل یورپ سنسکرت کے بارے میں دریافتوں سے بے خبر ہوتے۔ انگریزوں نے جب ہندوستان کو اپنی کالونی بنالیا تھا تو انگریز منتظمین کو ہندوستان کی زبانیں سیکھنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ چنانچہ جب یورپ کے محققوں نے لسانیات کا مطالعہ کیا تو انھیں سنسکرت اور یورپ کی قدیم زبانوں یعنی لاطینی اور یونانی میں بڑی مماثلت نظر آئی۔ اس تقابلی مطالعے کی وجہ سے زبانوں کے باہمی رشتے سمجھ میں آئے۔

    سوسیئر لسانی نشانات (Signs) کو اپنے نظام فکر میں مرکزی اہمیت دیتا ہے۔ اس کا یہ قول بے حد اہم ثابت ہوا کہ

    In language there are only

    differences without positive terms.

    یعنی زبانوں میں صرف افتراق ہے کوئی اثبات نہیں ہے۔ یہیں سے ساختیات کے بعد پس ساختیات کا مرحلہ آگیا اور رد تشکیل کے تصور کو دریدا کے پوسٹ اسٹرکچرل نظام میں جگہ مل گئی۔

    اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی چیز کی شناخت کا دارو مدار کسی نظام میں چیزوں کے باہی فرق پر ہوتا ہے۔ کلر کے لفظوں میں :

    Identity is wholly a function of

    differences within a System.

    مثلاً شطرنج کی بساط پر مختلف مہرے مختلف اقدار اور چالوں کے پابند ہوتے ہیں۔ اگر ہم کسی مہرے کی جگہ کوئی اور چیز رکھ دیں تو اس کی قدر اور چال کا انداز وہی سمجھا جائے گا جو اس مہرے کا تھا کیوں کہ مہروں کی شناخت قدر اور چال کے باہمی فرق پر قائم ہوتی ہے۔ نشانات (Signs) ایک دوسرے سے مختلف اور ممتاز ہونے کی صورت میں اپنی شناخت قائم رکھتے ہیں۔ معنی نما (Signifier) کسی خود مختار تصور کا مظہر نہیں ہوتا۔ نطق مرکزیت Logo Centrism) ) زبان کے سلسلے میں یہ سمجھتی ہے کہ آوازیں معانی کی نمائندگی کرتی ہیں اور یہ معانی بولنے والے شخص کے ذہن میں موجود ہوتے ہیں لیکن حقیقت یہ نہیں ہے، کیوں کہ زبان صرف اسماء کی فہرست کا نام نہیں ہے اور دوسری بات یہ کہ انسان کے شعور میں جو کچھ موجود ہوتا ہے اسے ہم افتراق کا جال (A Network of Differences) کہہ سکتے ہیں جیسا کہ سوسیئرنے کہا تھا کہ ہر نشان (Sign) کی سب سے نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ وہ، وہ ہے جودوسرے نہیں ہیں:

    Every sign is to be what others are not.

    اور تصور معنی (Signified) میں ان سب متضاد نوعیت کے تصور معنی(Signified) کے اثرات (Traces) موجود ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے شعور میں کوئی آزاد خود مختار (Signified) موجود نہیں ہوتا۔ مثلاً جب کوئی شخص کسی چیز کو سبز کہتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ چیز نیلی نہیں ہے، سرخ نہیں ہے، پیلی نہیں ہے، کلر کے لفظوں میں:

    The meaning of green is a space in an interpersonal network of differences.

    To give the meaning is not to recover

    something that was present when.

    I utterd the word but to fill up the

    space with other signs.

    سوسیئر کا بار بار یہ کہنا کہ نشانات کا نظام افتراق (Differences) پر قائم ہے، یہ دراصل نطق کی مرکزیت کے خلاف ہے۔ خود دریدا نطق مرکزیت کے سخت خلاف ہے۔ گویا اس طرح سوسیئر کی فکر کا رخ بھی دریدا ہی کی طرف ہے۔

    سوسیئر کی فکر میں لسانی نشانات کے نظام کو مرکزی اہمیت حاصل ہے۔ اْس کی فکر سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ لسانی نشان کی سطح کے نیچے بھی کچھ قوتیں کار فرما رہتی ہیں۔ چنانچہ جب ہم یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ لسانی نشانات کے کچھ نمونوں پر دوسرے نمونوں کو فوقیت حاصل ہے تو دراصل ہم کچھ معانی مسلط کر دیتے ہیں روایتی طور پر تسلیم شدہ نشانات کو تسلیم نہیں کرتے۔

    دریدا نے مغربی فکر کی نطق مرکزیت پر سخت تنقید کی ہے۔ اس نطق مرکزیت میں خیال، سچائی، عقل، منطق، لفظ اور Logos کو بنیاد بنایا گیا ہے جو نشانات Signs اور مظاہر کا محتاج نہیں ہے۔ اس نطق مرکزیت کی بنیاد در اصل صوت مرکزیت (Phonocentrism) پر رکھی گئی ہے اور تحریر کو گفتگویاکلام یا سخن کا ایک مصنوعی نمائندہ قرار دیا گیا ہے اور زبان کا تصور سخن کے تصور کے مطابق کیا گیا ہے۔ گویا زبان کا ماڈل گفتگو کو قرار دیا گیا ہے۔

    تحریر کو طفیلی یا فالتو مشق اور ماخوذ سمجھنے سے زبان کے عمل کے طریقوں اور اس کے مختلف پہلوؤں کو سمجھنے میں دقت پیدا ہو جاتی ہے۔ تحریر میں ایک غیرشخصی رویہ (Impersonality) بعد (Distance) اور تعبیر کی ضرورت پیدا ہو جاتی ہے۔ دریدا سوسیئر کی لسانیات کے مطالعے کے دوران ایسے اصولوں کا ذکر بھی کرتا ہے جو سوسیئر کے اصولوں کے خلاف پڑتے ہیں۔ دریدا بتاتا ہے کہ سوسیئر نے عمومی لسانیات کے نصاب پر مبنی لیکچرز میں تحریر کو سخن یا گفتگو کی ایک مسخ شدہ شکل بتایا ہے۔ دریدا OF Grammatology میں گفتگو اور تحریر کی روایتی درجہ بندی کو رد کر دیتا ہے۔ سوسیئر نے بولے ہوئے لفظ ہی کو اصل حقیقت بتایا تھا لیکن دریدا آواز کو لسانی نظام سے نکال دیتا ہے اور لسانی اکائیوں کی ہستیوں پر زور دیتا ہے۔ اس طرح تحریر ہی لسانی تحقیقات کا اصل مرکز بن جاتی ہے اور گفتار کی حیثیت تحریر کی ایک ہیئت بن کررہ جاتی ہے۔ اس طرح تحریر ہی اصل گفتگو بن جاتی ہے۔

    سوسیئر نے زبان کی اصل بنیاد گفتگو کو بتایا تھا تحریر کو نہیں، دریدا اس خیال کو رد کر کے تحریر کو اصل اہمیت دیتا ہے۔ اب لوگوں میں حتمی تصورات پر بے اعتمادی پیدا ہو رہی ہے۔ عقل اور روشن خیالی کے خلاف رد عمل ہو رہا ہے۔ وہ روشن خیالی جس میں ٹیکنالوجی، سائنس اور عقل کی قوتوں کا ظہور ہوا تھا اب غیر معتبر ہوتی جارہی ہے۔ ۷۰ء سے احساس کی ساخت میں تبدیلی نمایاں ہو رہی ہے۔ چنانچہ مابعد جدید مذہبی حلقوں میں بھی عقل کو ترک کیے بغیر خدا کے اثبات کا رجحان بڑھ گیا ہے۔ فرائڈ اور مارکس کی تحریریں روشن خیالی کی نمائندہ تھیں۔ اب ان پر تنقید کی جارہی ہے۔ اسی لیے دریدا کی رد تشکیل ما بعد جدیدیت کی بھر پور نمائندگی کرتی ہے۔ احب حسن (Hassan) نے جدیدیت اور مابعد جدیدیت کا تقابل کر کے جو فہرست مرتب کی ہے اس میں علامت پر مبنی جدیدیت کی نمائندہ اور تہذیبی نشانیات ما بعد جدیدیت کی نمائندہ ہے۔ Form جدیدیت کی اور Anti Form مابعد جدیدیت کی، نظام مراتب (Hierarchy) کو جدیدیت کا اور عدم نظام کو مابعد جدیدیت کا نمائندہ کہا گیا ہے۔ استعارے کو جدیدیت کا اور مجاز مرسل (Metonymy) کو ما بعد جدیدیت کا، فلسفے کو جدیدیت کا اور طنز کو ما بعد جدیدیت کا، ماورائیت کو جدیدیت کا اور سریان (Immanence) کو مابعد جدیدیت کا، خاکہ (Design) کو جدیدیت کا اور کھیل کو ما بعد جدیدیت کا نمائندہ کہا گیا۔ دریدا نے کہا ہے کہ تکوین (Becoming) کا عمل ابدی طور پر خالی ہے جس سے ہمیشہ حرکت اور کھیل پیدا ہوتے ہیں اور یہ کھیل دائمی افتراق پر قائم رہتا ہے۔

    RECITATIONS

    ظفر جمیل

    ظفر جمیل,

    ظفر جمیل

    volume01 article10 ظفر جمیل

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے