Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مارکسیت اور ادبی منصوبہ بندی

محمد حسن عسکری

مارکسیت اور ادبی منصوبہ بندی

محمد حسن عسکری

MORE BYمحمد حسن عسکری

    انسانی تاریخ اور انسانی تفکر کی تاریخ میں مارکسیت کی جو حیثیت اور اہمیت ہے، وہ اتنی مسلم ہے کہ بار بار اس کا ذکر کرنا بھی تضیع اوقات ہے۔ تعصب کی دشواریاں حائل نہ ہوں تو یہ بات مان لینے میں کسی کو عذر نہ ہوگا کہ مارکسیت نے انسانی زندگی کو سمجھنے کی کوشش ایک ایسے طریقے سے کی ہے جو بڑی حد تک قرین قیاس اور مربوط ہے اور جس نے چند قابل قدر رجحانات کو آگے بڑھنے میں مدد دی ہے۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ مارکسیت نے مربوط نظریے پر بہت کچھ قربان کر دیا ہے اور نئے رجحانات کو مدد دیتے ہوئے اپنی نظریاتی سلامتی کے لئے ایسے ایسے عوامل اور حقائق سے چشم پوشی برتی ہے جن کی حیثیت محض عمرانیاتی نہیں بلکہ حیاتیاتی ہے اور اس لئےانہیں نظریاتی تبدیلیوں یا سیاسی انقلابوں کے ساتھ ساتھ بدلا نہیں جا سکتا۔

    ایک طرف تو مارکسیت نے دائمی اقدار کا مذاق اڑایا اور ہر معاملے میں مکمل اضافیت کو رواج دینا چاہا۔ دوسری طرف انسانی فطرت کے غیر عقلی تقاضوں سے مجبور ہو کر اور خود ایک اضافی نظریہ بن جانے سے بچنے کے لئے اسے خود بھی چند دائمی اقدار قائم کرنا پڑیں۔ جن کا واحد وصف یہ ہے کہ وہ نسبتا ًمرئی ہیں۔ چونکہ مارکسیت کے لئے انسانی زندگی کی دوسری تفسیروں کو رد کرنا لازمی تھا۔ اس لئے مارکسیت نے ان سب کو غیرعقلی اور غیر سائنٹیفک ٹھہرانے کی کوشش کی اور اپنے نظریوں میں علوم صحیحہ کی سی درستی پیدا کرنی چاہی، لیکن جہاں تک انسانی زندگی کی تنظیم سے تعلق رکھنے والے علوم کا تعلق ہے، کوئی نظریہ مطلق و مجرد اضافیات پر نہیں چل سکتا۔۔۔ یعنی عملی دنیا میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔

    ریاضیات میں نظریاتی اعتبار سے چاہے دو اور دو چار نہ ہوتے ہوں، مگر انسانی زندگی میں روز مرہ کے کاروبار کے لئے یہ بات فرض کرنی پڑتی ہے، خواہ اسے فریب ہی کیوں نہ کہا جائے لیکن ایسے ہزاروں فریب یا سمجھوتے انسانی زندگی کے لئے ضروری ہیں۔ چنانچہ انسانی زندگی کے متعلق ہر نظریے کو چند دائمی اور مستقل اقدار فرض کرنا پڑتی ہیں۔ یہی مجبوری مارکسیت کو بھی پیش آئی، لیکن چونکہ مارکسیت نے صرف ایک شعبے یعنی معاشیات میں تخصیص حاصل کی تھی اور زندگی کے سارے شعبوں کو اسی ایک شعبے کا تابع سمجھ لیا تھا۔ اس لئے مارکسیت نے اپنی دائمی اقدار بھی معاشی عوامل ہی سے مستعار لیں۔

    خیریہ غلطی تو تمام دوسرے علمی، فلسفیانہ اور مذہبی نظریوں نے بھی کی تھی اور کرتے ہیں کہ زندگی کے ایک مخصوص شعبے کی اقدار کو تمام شعبوں پر حاوی کر دیں۔ مگر ان کے ساتھ کم سے کم اتنی بات ہے کہ ان اقدار کا تعلق انسان کی اندرونی زندگی سے ہوتا ہے۔ لہٰذا یہ نظریے انسان کی صرف خارجی زندگی ہی نہیں بلکہ جذباتی اور روحانی زندگی کے لئے بھی ایک نظام مرتب کر سکتے ہیں۔ اس کے بر خلاف مارکسیت کی اقدار سراسر خارجی دنیا سے متعلق ہیں اور بڑے بڑے جذباتی مسائل کو چھوڑ کر۔۔۔ یہ بھی میں رعایتاً کہہ رہا ہوں۔۔۔ انسان کی جذباتی اور روحانی زندگی کا کوئی تسکین بخش نقشہ ان اقدار کی مدد سے مرتب نہیں ہو سکتا۔

    مارکسیت کا یقین ہے کہ محض معاشی ماحول کو بدلنے سے انسان کو بھی بدلا جا سکتا ہے۔ پرانے اخلاقی اور مذہبی نظام یہ سمجھتے تھے کہ انسان کو بدلنے کے لئے اس کے تصورات اور اعتقادات کو بدلنا لازمی ہے۔ ممکن ہے کہ موخر الذکر نظریہ پوری طرح کافی نہ ہو، لیکن مارکسی نظریے پر یہ فوقیت ضرور رکھتا ہے کہ یہاں انسان کے اندر صرف پیٹ ہی نہیں بلکہ دماغ بھی فرض کیا گیا ہے اور نفسیاتی محرکات کو قابل توجہ سمجھا گیا ہے۔ نفسیاتی محرکات ظاہر میں مبہم اور حقیر سہی لیکن در اصل پورا معاشی مسئلہ انہیں پر منحصر ہے۔ مارکسیت سرمایہ داری کے ارتقاء کی تاریخ تو بیان کر سکتی ہے، لیکن یہ نہیں بتا سکتی کہ آخر سرمایہ دار اتنی دولت کیوں حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اس کا جواب صرف نفسیات دے سکتی ہے۔ لہٰذا بنیادی اعتبار سے معاشی مسئلہ نفسیاتی اور اخلاقی مسئلہ بن جاتا ہے۔

    خود کمیونزم کی ساری جد و جہد چند اخلاقی تصورات پر مبنی ہے، لیکن مارکسیت اپنے آپ کو اس نظر سے دیکھتے ہوئے گھبراتی ہے۔ جب اشتمالیت یہ دعویٰ کرتی ہے کہ محنت کرنے والے کو اپنی محنت کے نتیجے سے مستفید ہونے کا حق ملنا چاہئے تو دراصل وہ چند بالکل مطلق و مجرد اخلاقی تصورات پر اپنے دعوے کی بنیاد رکھتی ہے، ورنہ یہ اصول منطقی اور علمی دلیلوں سے قطعا ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ عدل و انصاف کے چند دائمی اصولوں کے بغیر اشمالیت وجود میں نہیں آسکتی تھی۔ اس اعتبار سے مارکسیت ایک اخلاقی اور جذباتی نظریہ ہے۔ مگر اس جذباتیت کے باوجود مارکسیت کو جذبات سے متعلق ہونے سے انکار ہے اور محض منطقی اور علمی نظریہ ہونے کا دعویٰ!

    خیر، اس میں بھی کوئی ہرج نہیں تھا اگر مارکسیت خارجی زندگی کے معاشی اور سیاسی پہلوؤں کی منصوبہ بندی کر کے مطمئن ہو جاتی اور انسان کی اندرونی زندگی کا نظام مرتب کرنے کا کام کسی اور نظریے کے سپرد کر دیتی۔ لیکن مارکسیت انسانی معاملات میں وحدہ لا شریک رہنا چاہتی ہے اور کسی دوسرے نظریے کا دخل اسے گوارا نہیں۔ اس کے ساتھ ہی اس میں کوئی نظام جذبات فراہم کرنے کی بھی صلاحیت نہیں ہے۔ چنانچہ معاشیات اور سیاسیات کے محدود سے دائرے کے باہر بچارا مارکسی کچھ کھوسا جاتا ہے اور زندگی کے اہم ترین جذباتی مسائل میں اپنا رویہ ٹھیک طرح قائم نہیں کر سکتا۔ اور اگر وہ اپنے معاشی نظریات کی روشنی میں جلدی سے کوئی حل ڈھونڈنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کی کیفیت خاصی مضحکہ خیز ہو جاتی ہے۔ ذرا ذرا سی بے ضرر چیزوں سے وہ اس طرح بھڑکنے لگتا ہے جیسے بھڑوں کے چھتے سے، اور عام تہذیبی مسائل میں جو کچھ چڑا ہوا سا رہنے لگتا ہے، کہ جہاں کوئی بات کی اور لگا بگڑنے۔

    مگر عام آدمی کی زندگی میں معاشی عقیدے اتنی اہمیت نہیں رکھتے جتنا کوئی مقررہ جذباتی نظام۔ کیونکہ اسے ہر ہر لمحے جذباتی صورت حال سے دو چار ہونا پڑتا ہے۔ اگر اس کے لئے جذباتی سانچے موجود نہ ہوں جس میں اس کے اعصاب کی تحریکات غیر شعوری طور پر ڈھلتی چلی جائیں، تو اس کی پوری زندگی بے کیف ہو جاتی ہے اوروہ بہترین اشتراکی نظام کے باوجود پرسکون زندگی نہیں گزار سکتا۔ مارکسیوں کو اپنی راسخ الاعتقادی کی قیمت جذباتی ناآسودگی کی شکل میں ادا کرنی پڑتی ہے۔ مگر عام آدمی کی زندگی اسے مجبور کرتی ہے کہ اپنے اعصابی دباؤ کو ہلکا کرنے کےلئے جو جذباتی سانچے بھی آسانی سے مل جائیں، انہیں قبول کر لیا جائے۔عام طور پر یہ سانچے مروجہ، پرانے اور غیر مارکسی ہوتے ہیں۔ اور اس پر مارکسی لوگ ناک بھوں چڑھاتے ہیں کہ یہ ارتداد کیوں شروع ہوا۔

    جب تک کمیونسٹ نظام خارجی دنیا میں قائم نہیں ہوتا، اس وقت تک تو خیر اس خوش فہمی کی بھی گنجائش رہتی ہے کہ جب یہ نظام مستحکم ہو جائے گا تو اپنی جذباتی روایتیں اور سانچے خود پیدا کرلے گا۔ لیکن کمیونسٹ نظام کو پیدائش کے وقت ہی سے یہ عملی دشواری پیش آتی ہے کہ لوگ اپنی زندگی کی چھوٹی سے چھوٹی باتوں سے لے کر بڑی سے بڑی باتوں تک کے بارے میں کیا محسوس کریں۔ مارکسیت لوگوں کی یہ مشکل خود بھی تشفی بخش طریقے سے حل نہیں کرتی اور انہیں اپنے عقیدوں کے تنگ دائرے سے باہر بھی نہیں نکلنے دینا چاہتی۔ براہ راست تو مارکسیت جذباتی راستے متعین نہیں کرتی، البتہ مارکسی نظریوں سے چند نتیجے اخذ کئے جا سکتے ہیں۔ مگر اس طرح جو اصول اب تک بنائے گئے ہیں ان کی بنیادوں پر کسی عظیم ادب اور آرٹ کی تعمیرنہیں ہو سکتی۔ کیونکہ یہ اصول زندگی کی بڑی حقیقتوں سے آنکھیں چرانے کی کوشش کرتے ہیں اور محض سادہ دلانہ خوش عقیدگی سے اپنی غذا حاصل کرتے ہیں۔

    ممکن تھا کہ مارکسیت نظری اعتبار سے نہ سہی، عملی حیثیت سے آہستہ آہستہ ایسے تصورات پیدا کر لیتی جو کمیونسٹ تہذیب کو معنوی اعتبار سے بھی دنیا کی دوسری بڑی تہذیبوں کا ہم پلہ بنا سکتے۔ مگر اول تو فلسفیانہ اعتبار سے خود مارکسیت ہی میں اور خصوصا مارکسی نظریہ سازوں میں دماغی انکسار کی بڑی کمی رہی ہے اور عملی دنیا میں مارکسیت کے کامیاب ہو جانے سے تو اس غرور میں اور ترقی ہوئی ہے۔ چنانچہ نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ اپنی تمام مادی ترقیوں کے باوجود روس کی روحانی زندگی پر ایک عجیب بے چارگی ٹپکتی ہے۔ خواہ اس پر ملمع کرنے کی کتنی ہی کوشش کیوں نہ کی جائے۔ یوں روسی حکومت کے قول کے مطابق تو جتنی ادبی کتابیں، قدیم و جدید دونوں، روس میں پڑھی جاتی ہیں اتنی دنیا کےکسی اور ملک میں نہیں پڑھی جاتیں۔ مگر تہذیبی معاملات سے عوام کے اتنی دلچسپی لینے کے باوجود روس کسی فن میں بھی کوئی ایسی تخلیق پیش نہیں کر سکا جسے بورژوا تہذیب کی تخلیقات کا ہم پلہ کہا جا سکے۔

    یہ صرف الزام نہیں ہے بلکہ گور کی تک نے اس کا بارہا اعتراف کیا ہے لیکن اس اعتراف کے باوجود گور کی مرض کی صحیح تشخیص نہ کر سکا اور نہ اس سے مناسب نسخہ تجویز ہوا بلکہ وہ تو اپنی دینداری کا شکار ہو کے رہ گیا۔ اس وقت میرے سامنے گورکی کا ایک مضمون ہے جس میں اس نے پورا نقشہ پیش کیا ہے کہ روس کے انقلابی شاعروں کو ادبی روایات میں کیا کیا تبدیلیاں کرنی ہیں اور شاعری کو کن راستوں پر لے جانا ہے۔ اس مضمون میں نظریہ پرستی اور روز مرہ کی زندگی سے بے اعتنائی جو شکلیں اختیار کرتی ہے، وہ نہ صرف المناک ہیں بلکہ مضحکہ خیز بن جاتی ہیں اور حیرت ہوتی ہے کہ گورکی جیسا آدمی۔۔۔ روز مرہ کے مشاہدے میں آنے والی باتوں سے اپنے آپ کو ایسا غافل کیسے بنا سکا۔ اس مضمون کا تجزیہ اس وجہ سے بہت کارآمد ہوگا کہ اس میں ادب اور کلچر کے متعلق مارکسی نقطہ نظر کا پورا نچوڑ آ جاتا ہے۔ اب گورکی کا ہدایت نامہ دیکھتے چلئے۔

    نئے روسی ادب کا مجوزہ حلیہ پیش کرنے سے پہلے گورکی نے ان لوگوں کی تعریف کی ہے جو یہ ادب تخلیق کرنے والے ہیں۔ گورکی کے خیال میں روسی نوجوان نسل ایک ترقی پذیر اور اپنے اوپر اعتماد رکھنے والی قوت ہے (چلئے مان لیا، اور بغیر کسی شرط کے) تاریخ کی منطق چاہتی ہے کہ یہ نسل زندگی کی نئی شکلوں کی تخلیق کرے۔ مارکسی لوگوں کو ضد ہے کہ ان کی تہذیب ہر معاملے میں بالکل نئی ہوگی۔ حالانکہ عملی دشواریوں کا اندازہ کر کے انہیں بعض وقت روایت سے واقفیت کی ضرورت کا اعتراف کرنا پڑتا ہے لیکن وہ اس واقفیت کی اس طرح توجیہہ کرتے ہیں کہ ساری روایت ملیا میٹ ہو جاتی ہے۔ خارجی معاملات میں تو ممکن ہے آسانی سے نئی شکلیں تخلیق کرلی جائیں مگر روحانی زندگی میں نیاپن ایسا منہ کا نوالا نہیں۔ یہاں اگر نیاپن پیدا ہو سکتا ہے تو ایسے اصولوں کے ذریعہ جن کا براہ راست تعلق انسان کی ذہنی اور نفسیاتی زندگی سے ہو۔ مگر فطرت کے خارجی زندگی میں کوئی تسلی بخش اور تمام پہلوؤں پر محیط تبدیلی پیدا نہیں کی جا سکتی۔ یہ محض خود فریبی ہے کہ انسانوں کو بھی مشینوں کی طرح بدلا جا سکتا ہے۔

    آگے چل کر گورکی کہتا ہے کہ روسی نوجوانوں کو ادب میں بھی نئی شکلوں کی تخلیق کرنی چاہئے۔ اس لئے ضروری ہے کہ انہیں ادب کی پرانی شکلوں سے بھی آگاہی ہو۔ پرانے ادب سے ایک تو انہیں تکنیک سیکھنا چاہئے۔ دوسرے انہیں پرانے ادب کے ذریعے متوسط طبقے کی ترقی اور تنزل کے عمل کو سمجھنا چاہئے اور یہ معلوم کرنا چاہئے کہ متوسط طبقہ انحطاط پذیر کیوں ہے۔ ادب اس معاملے میں بہت مفید ثابت ہوگا۔ کیونکہ بورژوا شاعروں نے اس سارے عمل کی تصویر کشی خوب کی ہے اور ناکارہ انسانوں کا ڈرامہ بڑی عمدگی سے پیش کیا ہے۔

    بعض مارکسی مصنفوں میں یہ عام رجحان پایا جاتا ہے کہ کمیونسٹ دور سے پہلے کے آدمیوں کو انسان ہی نہ سمجھا جائے بلکہ انہیں صرف و محض جاگیردار یا بورژوا خیال کیا جائے۔ گورکی کے بیان میں یہی ذہنیت نمایاں ہے۔ متوسط طبقہ واقعی تنزل پذیر ہے اور بورژوا شاعروں نے واقعی اس انحطاط کی تصویر کھینچی ہے اور بعض معنوں میں وہ بھی اس انحطاط میں شریک ہیں۔ لیکن متوسط طبقہ اپنے علیحدہ خصائص کے باوجود انسان ہے، کوئی دوسری جنس نہیں ہے اور اس اعتبار سے بہت سی بنیادی باتوں میں دوسرے طبقوں جیسا ہے۔ جب تک یہ سب طبقے انسان ہیں ان میں ضرور کوئی نہ کوئی قدر مشترک رہے گی۔ معاشی خوش حالی یا بدحالی انسانوں کی بنیادی انسانیت کو نہیں بدل سکتی۔ البتہ گورکی جیسے لوگ اپنے نظریاتی یا جذباتی تعصب سے مجبور ہو کر اس قدر مشترک کو فراموش کر سکتے ہیں۔

    نظریہ سازی کرتے ہوئے گورکی نے متوسط طبقے کی انسانیت کو بھلا دیا ہے اور اپنی کتاب، وہ مخلوق جو پہلے انسان تھی کا نام تجویز کرتے ہوئے اس نے محنت کش طبقے کی بنیادی انسانیت کو نظر انداز کرنا چاہا تھا۔ اگر مارکسیت یا گورکی یا اورکوئی انسانی زندگی کو حقیقی معنوں میں (یعنی نفسیاتی اعتبار سے) بدلنا چاہتا ہے تو اسے سب سے پہلے انسانوں کی انسانیت کو نظر میں رکھنا پڑے گا، جو ظاہری لباسوں کی تبدیلی کے باوجود مستقل حیثیت رکھتی ہے۔ انسانوں کی بنیادی انسانیت کا احساس مارکسیوں کو مذہب یا آرٹ سے حاصل ہو سکتا تھا۔ مگر ان کی نظروں میں دونوں چیزیں مشتبہ ہیں۔ انیسویں صدی کا شاعر گورکی کے لئے انسان نہیں ہے بلکہ بورژوا شاعر ہے۔ یہ ایسی کورفہمی ہے کہ میرے نزدیک تو گورکی کی افسانے تک مشکوک بن جاتے ہیں اور مجھے شبہ ہونے لگتا ہے کہ اس ذہنیت کے آدمی کے افسانوں میں رحم، ہمدردی اور جذبات پرستی کے باوجود کوئی حقیقی انسانی معنویت مل بھی سکتی ہے یا نہیں۔

    انسان کو انسان نہ سمجھنے سے بڑھ کے اور کیا انسانی جرم ہو سکتا ہے؟ مانا کہ بودیلیر جیسے شاعر متوسط طبقے کی شکست خوردگی کے ترجمان ہیں، لیکن وہ اس سے بھی زیادہ انسانی روح کے نمائندے ہیں۔ بودیلیر واقعی متوسط طبقے کی موت کا اعلان کرتا ہے۔ لیکن مارکسی تہذیب کو بھی یہ دھمکی دیتا ہے کہ اگر نیکی اور بدی کا کوئی انسانی معیار قائم نہ ہوا تو اپنی خارجی نئی شکلوں کے باوجود اس تہذیب کا نظام بھی کچھ بہتر نہ ہوگا۔ جو شاعر یہ کہہ سکتا ہے کہ ’’میرے ریاکار قاری، میرے ہم شکل، میرے بھائی‘‘ وہ صرف متوسط طبقے کا شاعر نہیں ہے، بلکہ ازلی اور ابدی انسانیت کا شاعر ہے۔

    گورکی جیسے نودولت لوگ یہ بات آسانی سے نہیں سمجھ سکتے کہ شاعر ذہنی اعتبار سے اپنی تہذیب سے بلند ہوکر زندگی پرغور کر سکتا ہے۔ متوسط طبقے کی تہذیب میں دنیا بھر کی بے ایمانیاں سہی، مگر اس تہذیب نے بہت سے ایسے لوگ بھی پیدا کئے ہیں جن کا کسی طبقے سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ اور وہ صرف و محض انسان تھے۔ اور صرف و محض انسانی زندگی کے متعلق ازلی و ابدی حقائق پیش کر رہے تھے۔ مگر گورکی کے لئے انیسویں صدی کی شاعری میں نہ تو کوئی جمالیاتی قدر و قیمت ہے، نہ انسانی معونیت، اور محض اس وجہ سے کہ یہ شاعری ایک خاص وقت اور خاص آدمیوں کے درمیان پیدا ہوئی تھی لہٰذا بنفسہ مردود ہو گئی۔

    شاعری میں وہ نئی شکلیں کیا ہوں گی جنہیں روس کی نوجوان نسل تخلیق کرے گی؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے گورکی کہتا ہے کہ نئی شاعری دلاورانہ شاعری ہوگی۔ کیونکہ روس کی نئی زندگی کا تقاضا یہی ہے۔ ایک حد تک یہ بات ماننے کے قابل ہے۔ واقعی انیسویں صدی کی شاعری میں یاس پرستی اور شکستگی اپنی انتہا کو پہنچ گئی تھی، بلکہ غم آلود جذبات کے اظہار ہی کو شاعری سمجھ لیا گیا تھا۔ واقعی نئی شاعری کو اس نسوانیت سے پیچھا چھڑاناچاہئے اور اسے ایک نئے عزم اور نئی امنگ سے بھرپور ہوناچاہئے۔ لیکن دلاورانہ شاعری کے فقرے کوبغیر پوری طرح سمجھے ہوئے قبول کر لینے میں بڑا خطرہ ہے۔ اس کے معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ شاعری صرف انسان کی فتوحات اور سر بلندیوں کے راگ گائے اور انسانی زندگی کے کمزور پہلوؤں سے جان بوجھ کر آنکھیں بند کر لے، اور شاعری محض ڈینگ اور بڑبولاپن ہو کے رہ جائے۔ گویا شاعری کا فرض قصیدہ گوئی بن جاتا ہے۔۔۔ اور بہت ہی ٹھیٹ معنوں میں۔

    انسان کی صلاحیتوں اور قوتوں کی جتنی نغمہ سرائی کی جائے کم ہے۔ مگر جب تک توازن پیدا کرنے کے لئے کوئی دوسرا اصول موجود نہ ہو، یہ نغمہ سرائی چھچھوراپن اور مشیخت مابی ہوگی۔ یوں ہونے کو تو ہومر کی شاعری بھی دلاورانہ شاعری ہے، مگر کائنات میں انسان کے علاوہ جو دوسری قوتیں کام کر رہی ہیں ان سے غافل نہیں ہے۔ بلکہ کائنات میں انسان کا مقام حقیقت پرستانہ نقطہ نظر سے متعین کئے بغیر ہومر کی شاعری اتنی بڑی ہو ہی نہیں سکتی تھی۔ زندگی کے المناک پہلوؤں کو نظر میں رکھے بغیر شاعری تو شاعری، ایسی تہذیب تک اندر سے کھوکھلی ہوگی۔ اس ضمن میں دوسرا سوال یہ ہے کہ دلاورانہ شاعری کیا صرف فتوحات پر خوشیاں منانے کا نام ہے؟ کیا روحانی جنگ کی شاعری دلاورانہ نہیں ہو سکتی؟ کیا بودیلیر کی شاعری دلاورانہ شاعری نہیں ہے؟ کیا دلاوری محض خارجی مظاہر کو مغلوب کر لینے پر مشتمل ہے اور اخلاقی جدوجہد جس کے نتائج فوری طور پر مرئی نہیں بن سکتے، دلاوری کے دائرے سے خارج ہے؟

    گورکی نے شاعری کی نئی شکلوں کی کچھ اور توضیح بھی کی ہے۔ اس نے پرانی شاعری کے تین بڑے موضوع فطرت، محبت اور موت کے لئے ہیں اور بتایا ہے کہ ان چیزوں کے بارے میں پرانا رویہ کیا تھا اور نیا رویہ کیا ہونا چاہئے۔ فطرت کے متعلق پرانے شاعروں کے انداز نظر کی تعریف گورکی نے یوں کی ہے، ’’پرانے شاعر فطرت کی حمدسرائی کیا کرتے تھے، کبھی وہ اپنے آپ کو فطرت کامالک بتاتےتھے اور کبھی فطرت کے بچے لیکن درحقیقت ان کی قصیدہ خوانی غلاموں کی حیثیت سے ہوتی تھی۔ ان کے رویے میں خوشامد اور فطرت کی متابعت ہوتی تھی۔ ان کی نظمیں ایک جابر شہنشاہ کی شان میں قصیدے کی طرح ہوتی تھیں اور ان کا لب و لہجہ بالکل دعاؤں کا سا تھا۔ وہ طوفان، سیلاب، خشک سالی اور فطرت کے دوسرے ظالمانہ افعال کو نظر انداز کر جاتے تھے۔ انہوں نے کبھی انسان کو فطرت سے لڑنے اور اس کو مغلوب کرنے پر نہیں اکسایا اور نہ اس اندھی جابرانہ قوت کے خلاف احتجاج کیا۔

    لیکن اب زمانہ بدل گیا ہے۔ اب تو روس میں مناظر کی شکل بدلی جا سکتی ہے اوردلدلیں سرسبز باغ بن سکتی ہیں۔ لیکن شاعر ریگستانوں اور دلدلوں کی طرف نظرہی نہیں اٹھاتے۔ روس کے شاعروں کو اس نئی مہم کے متعلق لکھنا چاہئے۔ اب تو انہیں ایک نیا موضوع مل گیا ہے، یعنی فطرت کی ابتدائی قوتوں اور تمام ابتدائی چیزوں کے خلاف اجتماعی طور سے منظم عقل کی جدوجہد اور غیرطبقاتی انسان کی تعلیم و تربیت، جو ایک دوسری فطرت کا خالق ہے اور اپنی قوت ارادی، عقل، تخیل اور جسمانی طاقت کی مدد سے بڑے بڑے کارنامے کرنے والا ہے۔

    اب اس پورے بیان کا تجزیہ کیجئے تونہ صرف طرح طرح کی کج فہمیاں اور خوش فہمیاں نظر آئیں گی، بلکہ غلط بیانیاں ملیں گی۔۔۔ جو شاید دانستہ نہ ہوں، بلکہ محض خوش اعتقادی کا نتیجہ ہوں۔ جسے یورپ کی شاعری سے ذرا بھی واقفیت ہے وہ یہ جملہ سنتے ہی ہنس دے گا کہ بورژوا شاعری فطرت کے تاریک پہلوؤں کو نظرانداز کر دیتی ہے۔ ممکن ہے کہ فطرت کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے بورژوا شاعر مایوسی کے بوجھ سے دب گئے ہوں۔ لیکن فطرت کی اندھی قوتوں کے خلاف احتجاج بورژوا شاعری میں موجود ہے۔

    ٹینی سن کی نظموں سے مثالیں ہر شخص کو یاد ہوں گی اور انیسویں صدی کی فرانسیسی شاعری سے تو جتنی مثالیں چاہے جمع کئے چلے جائیے، اور یہ کہنا بھی غلط ہے کہ بورژوا شاعروں نے انسان کو فطرت سے لڑنے کے لئے کبھی نہیں ابھارا۔ حالانکہ اس ضمن میں گورکی نے ساری پرانی شاعری کو مطعون قرار دیا ہے مگر میں جان بوجھ کر شیکسپئر کا ذکر نہیں کروں گا، بلکہ اپنے آپ کو انیسویں صدی ہی تک محدود رکھوں گا۔ کیا براؤننگ کے یہاں اکثر یہ عقیدہ نہیں ملتا کہ انسان فطرت پر فتح حاصل کر سکتا ہے اور اسے فتح یاب ہونا چاہئے؟ کیا فطرت کے متعلق شیلی کا رویہ محض غلاموں کا سا ہے؟

    اور فطرت سے لڑائی کا جذبہ تو رومانی ادب میں کافی فراوانی سے ملتا ہے، خواہ اس میں انسان کی لازمی شکست کا احساس بھی شامل ہو۔ بورژوا شاعروں نے ہر جگہ اور ہر وقت فطرت کی خوشامد نہیں کی بلکہ ان کا رویہ (خودایک ہی شاعر کے یہاں) مختلف اور متنوع رہا ہے، جیسا کہ انسانوں کا رویہ ہوتا ہے۔ اگر ریگستانوں کو باغوں میں تبدیل کیا جا سکتا ہے تویہ بڑی مبارک بات ہے اور انسان کی عظمت کا ثبوت ہے۔ مگر شاعری کے متعلق بحث کرتے ہوئے ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ جو شاعر اس کارنامے کے بارے میں لکھ رہے ہیں، ان کا انداز نظر کیا ہے؟ ایسے کارناموں کے متعلق قطعہ تاریخ بھی لکھا جا سکتا ہے اور ایسے نصیحت آمیز شعر بھی،

    نہر پر چل رہی ہے پن چکی

    دھن کی پوری ہے کام کی پکی

    اس کارنامے پر آدمی کو غیرضروری اور مبالغہ آمیز خوشی بھی ہو سکتی ہے اور تکبر بھی پیدا ہو سکتا ہے۔ سوال محض ان کارناموں پرنظم لکھ سکنے کا نہیں ہے بلکہ اس روحانی کلچر کا، جوان نظموں میں نمودار ہوگا۔ اگر انسان ریگستان کو مرغزار بنا کے یہ سمجھ لے کہ بس اب میں وحدہ لاشریک ہوگیا ہوں اور میں نے فطرت کو مغلوب کر لیا تو اس کا نتیجہ وہی ہوگا جو شداد یا نمرود کا ہوا۔ انسان کے اجتماعی ادراک نے انسانی فطرت کی اس کمزوری کو پہلے ہی سمجھ لیا تھا اور اس کی تشکیل ان قصوں کی شکل میں کر دی تھی۔ اگر گورکی کی نئی شاعری محض انسان کی کارکردگی اور تفاخر کے نشے میں مست رہی اور انسانی زندگی کے المناک پہلو کو بھول گئی تو لاف و گزاف بن کے رہ جائے گی۔

    انسان کتنی ہی ترقی کرتا چلا جائے اسے آخر میں اپنی بے بسی اور لاچاری سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ خارجی قوتیں تو الگ رہیں، خود انسان کے دماغ میں ایسے غول بیابانی کا مسکن ہے جن کے مقابلے میں اجتماعی طور سے منظم عقل کی طاقت بھی کارگر نہیں ہوتی۔ اگر انسان نے خارجی حیثیت سے ایک نئی فطرت پیدا بھی کرلی تو اس کا اثرانسان کی روحانی زندگی میں کون سی ایسی تبدیلیاں پیدا کرے گا کہ جن سے ایک بالکل نیا انسان وجود میں آجائے؟ اول تو نیا انسان ہی ایسا تصور ہے جس کے بارے میں بہت کچھ بحث کی گنجائش ہے۔ لیکن خارجی عمل سے تو کوئی ایسا انسان پیدا ہو ہی نہیں سکتا، جس میں کوئی اعلیٰ درجے کی اخلاقی معنویت ہو۔

    جہاں فطرت سے دب کے رہ جانا بڑی بزدلی ہے، وہاں غیر مشروط طور پر فطرت کو مغلوب کر لینے کا عقیدہ بھی ایک قسم کی تشائم پرستی ہے۔ فطرت تو خود انسان سے مغلوب ہونا چاہتی ہے۔ مگر اس طرح جیسے کوئی تندرست جسم کی عورت مرد سے۔ فطرت مغلوب ہوتی ہے، مگر خود اپنے تعاون سے، اور اس مجادلے کا نتیجہ کسی ایک کی غلامی نہیں ہوتا بلکہ قوت اور حسن۔ گورکی کا یہ یقین بالکل مہمل ہے کہ کمیونسٹ تہذیب سے پہلے فطرت کو مسخر کرنے کا خیال کبھی پیدا ہی نہیں ہوا۔ نودولت لوگوں نے ہمیشہ یہی سوچا ہے کہ کائنات میں بس ہم ہی ہم ہوں اور کوئی ہمارے برابر کا نہ ہو، اور ان تمام لوگوں کی روحانی شکست ہمارے سامنے ہے۔۔۔ شداد اور فرعون سے لے کر فاؤسٹ تک۔۔۔ یہ درست ہے کہ فطرت کو قابو میں لانے کی جتنی صلاحیت کمیونسٹ تہذیب میں ہے، اتنی کسی اور تہذیب میں نہیں رہی، لیکن فطرت کی مکمل تسخیر کو اپنا بنیادی عقیدہ بنانا اور انسان سے اوپر کسی اور قوت کو تسلیم نہ کرنا مستقبل کی مایوسیوں اور دل شکستگیوں کا سامان خود فراہم کرنا ہے۔

    محبت کے بارے میں گورکی کے بیانات اور بھی فرحت بخش ہیں، چت بھی اپنی اور پٹ بھی اپنی۔ ایک طرف تو بورژوا شاعری پر تشائم پرستی اور یاس پسندی کا الزام عائد ہوتا ہے۔ دوسری طرف یہ شکایت ہوتی ہے کہ تم ایسی چیزیں کیوں نہیں بیان کرتے جن سے یقین کمزور ہو اور یاس پیدا ہو۔ مقصد محض اتنا ہے کہ بورژوا شاعری کو کسی نہ کسی طرح برا کہا جائے۔ چنانچہ گورکی کا ارشاد ہے کہ پرانی شاعری محبت کو زندگی کی سب سے بڑی تخلیقی قوت سمجھ کر اس کی نغمہ سرائی کرتی تھی۔ لیکن یہ بات نہیں سمجھ سکتی تھی کہ یہ قوت بھی ایک اندھی اور ابتدائی جبلت ہے، یہ قوت ایسے بہت سے جانور پیدا کرتی ہے جو انسان کی صحت اور معاشی نظام کے لئے بہت ضرر رساں ہیں، مثلا چوہے، مکھیاں، مچھر (یعنی آپ کو فطرت سے شکایت ہے کہ ہر چیز ہماری سہولت کو مد نظر رکھ کے کیوں نہیں بنائی؟ یہ وہی خود پرستانہ نظریہ ہے جو ساری کائنات کا مرکز انسان کوسمجھتا ہے) سرمایہ دارانہ ریاست تو بیماری پھیلانے والے کیڑوں کی طرف سے بے اعتنائی برتتی ہے، کیونکہ اسے عوام کی تندرستی کی کیا پروا؟ لیکن مزدوروں کی ریاست ایسی بے پروا نہیں ہو سکتی وہ فطرت کے تخلیقی عمل کے خلاف جدوجہد کرتی ہے۔

    گورکی اپنی دلیلوں کی کمزوری سے جھینپ کر یہ تنبیہ کرتے ہیں کہ میں شاعروں سے چوہے مارنے کو نہیں کہتا، بلکہ میرا مطلب یہ ہے کہ فطرت کے متعلق شاعری کا رویہ بدلنا چاہئے۔ در اصل میرے لئے تو اس بیان کا مطلب سمجھنا بڑا دشوار ہے۔ گورکی کے بیان کا منطقی نتیجہ تو یہی ہو سکتا ہے کہ شاعر محکمہ صفائی کے لئے نظمیں لکھا کریں۔ اول تو انیسویں صدی کی بورژوا شاعری کواس سے قطعا ًانکار نہیں ہے کہ محبت بھی ایک جبلت ہے اور اس جبلت کے جتنے بھی ضرر رساں اور اندیشہ ناک پہلو۔۔۔ ذہنی یا جسمانی۔۔۔ ہوسکتے ہیں بورژوا ادب میں ملتے ہیں، لیکن گورکی یہ نہیں سمجھ سکتا کہ اس جبلت نے کچھ ذہنی مناسبات بھی پیدا کر لئے ہیں اور جنس جہاں نفسانی خواہش ہے وہاں نفسیاتی تحریک بھی ہے۔

    انسان کی ایک بہت بڑی خصوصیت یہی ہے کہ اس نے جنسی جبلت کو سنوارا اور نکھارا ہے اور نسل کشی کے علاوہ اس سے روحانی تربیت کا بھی کام لیا ہے، ویسے اگر ہر بات کا تاریک پہلو ہی دیکھنا ہو تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ کمیونسٹ تحریک نے بہت سے موقع پرست لوگ پیدا کئے ہیں جن سے ہیئت اجتماعی کو بہت خطرہ ہے۔ اس لئے یہ تحریک خراب ہے۔ جنسی جبلت چوہے تو ضرور پیدا کرتی ہے، مگر انسان کی ذہنی اور روحانی زندگی میں بھی تو کوئی رد عمل پیدا کرتی ہے اور شاعری کا تعلق انسان کی روحانی زندگی ہی سے ہے۔ پھر سوال یہ ہے کہ جب اشتراکی حکومت سارے چوہے مار چکے گی، اس وقت انسان کی محبت میں کوئی نئی پاکیزگی آجائے گی؟

    گورکی کا واقعی یہی خیال ہے کہ اشتراکی ریاست میں جنسی تعلقات بنیادی اعتبار سے بالکل نئی چیز ہوں گے۔ اس نے صاف صاف لفظوں میں کہا ہے کہ اشتراکی سماج میں انسانوں کے درمیان نسل کشی کی ابتدائی شکلیں باقی نہیں رہیں گی اور نہ ایسی شکلیں جو صرف دوسروں کی جسمانی قوت کے بل پر زندہ رہنے والی طفیلی مخلوق کے لئے فائدہ مند ہیں۔ اس بیان میں کوئی معنی یا مطلب مجھے تو دکھائی نہیں دیتا۔ مہمل گوئی کی آخری حدیں اس سے آگے اور کیا ہوں گی؟ سماجی رسم و رواج کی تبدیلیاں بنیادی اور ابتدائی جنسی تعلقات پر کس طرح اثر انداز ہوں گی، یہ بات ذرا مشکل ہی سے سمجھ میں آسکتی ہے۔

    یہ تو ہو سکتا ہے کہ بنیادی جبلت کے اظہار کی شکلیں بدل دی جائیں وہ کچھ سنور جائیں یا بگڑ جائیں، مگر ابتدائی تعلقات بالکل نئے کس طرح ہو سکتے ہیں جب تک کہ انسان کا پورا جسمانی اور اعصابی ڈھچر ہی نہ بدلا جائے۔ خیر اب گورکی کا ایک اور الزام سنئے۔ پرانی شاعری نے ہمیں یہ سمجھایا ہے کہ چڑیوں کے گانوں سے پتہ چلتا ہے کہ محبت ہی سے گانے پیدا ہوتے ہیں۔ واقعی محبت نے آرٹ کی بہت مدد کی ہے، لیکن عطریات اور عورتوں کے استعمال کی چیزیں بنانے والی صنعتوں کی بھی بہت مدد کی ہے۔ یعنی گورکی کا الزام یہ ہے کہ محبت کے جذبے نے سرمایہ داروں کو روپیہ کمانے میں آسانیاں بہم پہنچائی ہیں۔ میری تجویز ہے کہ ہمیں سورج کی بھی شکایت کرنی چاہئے کہ وہ سرمایہ داروں کے کارخانوں کے لئے روشنی کیوں بہم پہنچاتا ہے! اس کے معنی یہ ہوئے کہ ہمیں کسی چیزکی بھی تعریف نہیں کرنی چاہئے، اس ڈر سے کہ کہیں سرمایہ دار اس سے فائدہ نہ اٹھا رہے ہوں یا اس کا مطلب یہ ہے کہ جب مزدوروں کی لوٹ کھسوٹ بند ہو جائے گی تو پھر ہر جذبہ مقدس بن جائے گا۔۔۔ اس سے پہلے نہیں۔

    محبت کے بارے میں گورکی نے بس ایک بات ایسی کہی ہے جس کے کچھ معنی ہیں۔ وہ یہ کہ بورژوا سماج میں شاعروں نے عورتوں کو دیوی تو بنا دیا، مگر ویسے عورت سے جانوروں کا سا سلوک ہوتا رہا۔ روس میں عورت کا درجہ مرد کے برابر ہے۔ اسے ذہنی آزادی حاصل ہے اور وہ ہر کام کر سکتی ہے۔ ویسے تواس بیان پر اعتراضات ہو سکتے ہیں، مگر چلئے مان لیا کہ روس میں عورتوں کو واقعی ایک باعزت درجہ حاصل ہوگا۔ چنانچہ شاعری میں اس عمل کا رد عمل یہ ہو سکتا ہے کہ نہ تو عورت کو دیوی بنایا جائے اور نہ جانور، بلکہ اپنا ہم رتبہ سمجھا جائے، مگر اس سے ابتدائی جنسی تعلقات کس طرح اثر پذیر ہوں گے۔ اس کی تفسیر تصوف ہی کی مدد سے ہو سکتی ہے۔ در اصل کمیونسٹوں کی یہ خواہ مخواہ کی ہٹ ہے کہ ہماری ہر بات نئی ہوگی۔ اس ضد میں وہ انسانی فطرت تک کو بدلنا چاہتے ہیں، مگر اس کا تصور تک نہیں کر سکتے کہ آخر فطرت کو کس طرح بدلا جائے۔ چنانچہ اس کشمکش میں انہیں ایسی اینڈی بینڈی باتیں کرنی پڑتی ہیں جو لامحالہ مضحکہ خیز ہو جاتی ہیں۔

    گورکی کے نزدیک بورژوا شاعری کا تیسرا بڑا موضوع موت ہے۔ وہ کہتا ہے کہ موت کے ناگزیر ہونے کا عقیدہ بورژوا سماج کے لئے بہت مفید اور تسلی بخش ہے، کیونکہ اس سماج میں آدمی ایک دوسرے سے محبت نہیں کرتے اوربہت سے لوگ بالکل زائد اورغیرضروری ہوتے ہیں۔ بورژوا ریاست مزدوروں کی صحت اور درازی عمر کے بارے میں نہیں سوچتی۔ اشتراکی ریاست میں صحت کی بڑی حفاظت کی جائے گی۔ یہ سب باتیں مجھے بڑی خوشی سے تسلیم ہیں۔ مگر کیا اشتراکی ریاست میں موت ناگزیر نہیں رہے گی۔ ہمارے یہاں بڑے بوڑھے کسی مغرور آدمی کو دیکھتے ہیں تو بڑے تاسف اور خوف کے ساتھ کہا کرتے ہیں کہ اپنی موت بھی بھول گیا! یہی کچھ کمیونسٹ تہذیب کے ساتھ بھی ہو رہا ہے۔ جس کائنات میں صرف انسان ہی انسان رہ جائے وہ صرف بے رنگ ہی نہیں، انحطاط پذیر کائنات ہوگی۔

    شاعری میں تو واقعی یہ بات بڑی بھلی معلوم ہوتی ہے کہ ایک دن انسان موت پر بھی غالب آجائے گا۔ لیکن ایک علمی قسم کے مضمون میں یہ بات کہنا اور اس اصول کو نئی شاعری کی بنیاد بنانا بڑی خطرناک صورت حال ہے۔ انسان کے اثبات خودی کی بھی کوئی انتہا ہونی چاہئے، ورنہ اس کا نتیجہ اسی بدیقینی اور ناامیدی کی شکل میں برآمد ہوتا ہے جو بالکل بنجر اور بے ثمر ہے۔ انسان اگر موت پرغالب آسکتا ہے تو اپنی روح کے ذریعے، نہ کہ جسم کے ذریعے۔ اگر آپ نے مزدوروں کی عمر پچاس ہزارسال بھی کر دی تو کیا، آخر تو موت ہے! المیہ سے اتنا بچنا کہ تصور تک میں اس کا سایہ نہ پڑے خود بزدلی اور پست ہمتی کی نشانی ہے۔

    کمیونزم پریہ ایک زہرناک طنز ہے کہ یہ اجتماعی خیرکا فلسفہ بدترین قسم کی خود غرضی پر ختم ہوتا ہے۔ انفرادی زندگی کو قابل قدر سمجھنا تو لازمی ہے مگر انفرادی زندگی کی بقا کو فلسفہ زندگی کی بنیاد بنانا خود اپنی تہذیب کی شکست و ریخت کا سامان فراہم کرنا ہے۔ بات یہ ہے کہ کمیونزم نے جسم کی ضرورتوں کا تو مطالعہ کیا ہے اور ان کی تشفی کا لحاظ رکھا ہے لیکن روحانی کلچر سے پہلے تو انکارکیا، اور جب انکار ناممکن ہوگیا تو الم غلم بھرتی شروع کردی۔۔۔ مذہبی اور کلچرل روایتوں سے رشتہ توڑنا ایسا بے ضرر کام نہیں تھا جیسا کمیونزم نے سوچا تھا۔

    جس طرح سائنس والوں نے غلطی کی تھی کہ شروع میں فلسفے اور مذہب سے بے اعتنائی برتی، لیکن چونکہ مظاہر فطرت اور سائنس کی دریافتوں میں بنفسہ کوئی انسانی قدر و قیمت اور معنویت نہیں ہوتی، اس لئے چیزوں کے متعلق اپنا رویہ متعین کرنے کے لئے انہیں کسی نہ کسی فلسفے کی ضرورت پڑی، اور نتیجہ یہ ہوا کہ فلسفیانہ مسائل میں درک نہ ہونے کی وجہ سے انہوں نے بغیر کسی تنقیدی کاوش کے مروجہ فلسفوں میں سے کسی ایک کو قبول کر لیا۔ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ اچھے خاصے سائنس دان غیر سائنسی معاملات میں بڑے توہم پرست ہوتے ہیں۔یہی حال مارکسیوں کا ہوا۔ انہوں نے فوری ضرورتوں سے مجبور ہو کر ایسے انداز نظر قبول کر لئے جو بالکل بے جوڑ ہیں۔

    گورکی نے شاعروں کو آخری ہدایت یہ کی ہے کہ انہیں سائنس کے کارناموں اور بڑے بڑے سائنس دانوں کے بارے میں لکھنا چاہئے، کیونکہ سائنس کے ضمن میں انسان کی سرگرمیاں دوسری سرگرمیوں سے زیادہ اس بات کی مستحق ہیں کہ انسان ان پر اپنی توجہ، اپنی حیرت اور اپنی دردمندی صرف کرے۔ اس میں شک نہیں کہ انسان کی یہ سرگرمیاں بھی عزت کے لائق ہیں۔ اور سائنس دانوں کے کارنامے اس قابل ہیں کہ ان پر نظمیں لکھی جائیں۔ لیکن ان چیزوں کونئی دلاورانہ شاعری کا اہم ترین موضوع قرار دینے کے معنی یہ ہیں کہ ہراس چیز کو اہم سمجھا جا رہا ہے جس کا تعلق انسان کی خارجی زندگی سے ہے۔ یوں ہونے کو تو ہر چیز شاعری کا موضوع بن سکتی ہے۔ لیکن بڑی شاعری کا موضوع اس وقت تک نہیں بن سکتی جب تک کہ اس میں وہ عناصر نہ مل جائیں جن کا تعلق انسان کی ذہنی اور جذباتی اور روحانی زندگی سے بہت گہرا اور بامعنی ہو۔

    کوئی خارجی کارنامہ بذات خود بڑی شاعری کا موضوع نہیں ہوتا، بلکہ اس کی انسانی معنویت۔ مگر مارکسیت ابھی تک اس کج فہمی میں مبتلا ہے کہ خارجی افعال اور مظاہر بذات خود اہم ہوتے ہیں۔ اس غیر تنقیدی رویہ کا نتیجہ ہے کہ روس کی کمیونسٹ تہذیب میں ایسے عناصر پیدا ہو چلے ہیں جو قبائلی تہذیب کی خصوصیات میں سے ہیں۔ روس کی نئی تہذیب کے مادی کارنامے جتنے شاندار ہیں، ان کے مقابلے میں روحانی کارناموں کی حیثیت بہت معمولی ہے۔ اس کی وجہ صاف ظاہر ہے۔ زبردست کلچرل کارنامے خارجی فتوحات کی مدد سے وجود میں نہیں آتے بلکہ بامعنی اور حقیقت پرستانہ اور متوازن انسانی رویے کی بدولت۔ اگر گورکی کونئی شاعری کے لئے ایک راہ عمل متعین کرنی تھی تو جہاں شاعروں کو پرولتاری دور کے شاعر سمجھ کرغور کیا تھا وہاں تھوڑی بہت دیر کے لئے انہیں انسان سمجھ کر بھی سوچنا چاہئے تھا۔

    اسی طرح بورژوا شاعروں کے خلاف تعصب نہیں برتنا چاہئے تھا اور فرض کر لینا چاہئے تھا کہ شاید ڈھونڈنے سے ان مجہول شاعروں میں بھی کوئی مستقل اقدار نکل آئیں اور کچھ نہ سہی اتنی بات تو بورژوا اور پرولتاری دونوں قسم کے شاعروں میں مشترک ہے کہ دونوں ایک طرح پیدا ہوتے اور ایک طرح مرتے ہیں۔ اتنی بات ہی ان کی زندگی کی اقدار میں بہت سی یکساں چیزیں پیدا کر دیتی ہے۔ جو لوگ غیر طبقاتی سماج قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ان میں کم سے کم یہ صلاحیت تو ہونی چاہئے کہ بعض پہلوؤں سے ادب کی پوری تاریخ پر انسانی اور غیر طبقاتی کارنامے کی حیثیت سے غورکر سکیں۔ نئی شاعری اور پیدا ہو سکے توہم اسے سر آنکھوں پر رکھیں گے۔ لیکن اس نئی شاعری کو پرانے انسان کے متعلق ضرور کوئی قابل قدر بات متانت کےساتھ کہنی چاہئے ورنہ کسی نئی شاعری کی سرے سے ضرورت ہی نہیں ہے۔ کمیونسٹ تہذیب میں عوام کی کلچرل تربیت کے لئے محکمہ زراعت اور محکمہ صحت وغیرہ کی طرف سے قائم کی ہوئی ناٹک منڈلیاں کافی ہیں۔

    مأخذ:

    مجموعہ محمد حسن عسکری (Pg. 86)

    • مصنف: محمد حسن عسکری
      • ناشر: سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور
      • سن اشاعت: 2008

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے