Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مشرق و مغرب

محمد مجیب

مشرق و مغرب

محمد مجیب

MORE BYمحمد مجیب

    شروع کے تین چار ہزار برس میں آدمی نے جو تہذیبی دولت کمائی، اپنے آپ کو جس طرح سدھارا اوراپنی زندگی کو سنوارا، وہ میں بیان کر چکا ہوں۔ اس کے بعد کی جو تاریخ ہے، اس میں یہی سرمایہ دوبارہ کاروبار میں لگایا گیا، کچھ نیا مال لین دین میں آیا، کچھ نئی منڈیاں تلاش کی گئیں اور دنیا کا بازار پھر گرم ہوا۔

    ہماری کہانی کا سلسلہ اب آریوں کے آنے سے شروع ہوتا ہے یعنی کوئی چار ہزار برس پہلے سے جب آریوں نے جنوبی یورپ، ایشائے کوچک، ایران اور ہندوستان پر قبضہ کیا، صرف سامی نسلیں، یعنی وہ لوگ جو شام، فلسطین اور عرب میں آباد تھے، آریوں کے اثر سے کسی قدر بچے رہے، ورنہ ہمیں آریوں سے پہلے کی تہذیب کا جو حصہ ورثے میں ملا ہے، اس پر آریوں کی مہر لگی ہوئی ہے اور وہ انہیں کی دین معلوم ہوتی ہے۔ اب بڑی محنت اور سراغ رسانی کے بعد پتہ چلا ہے کہ یہ مکان جسے آریہ اپنا خاندانی گھر کہتے آئے ہیں، صل میں ایک سرائے ہے جہاں بہت سے مسافر ٹھہر چکے ہیں اور اس جائداد پر جو آریہ اپنے سپوتوں کے لیے چھوڑ گئے ہیں، بہیتروں کا حق پہنچتا ہے۔

    ہندوستان میں دیکھیے تو دراوڑ برابر کے حصے دار ہونے کا دعوی کرتے ہیں۔ ہندوستان کے باہر یونانیوں کی تہذیب، آریوں کی مالا کا سب سے آب دارموتی معلوم ہوا ہے کہ کہیں اور کی سیپ میں نکلا، اگرچہ آب اسے یونانیوں نے دی۔ یہ سب سہی، پھر بھی ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ آریوں کے زمانے میں دنیا کا وہی رنگ رہا جو پہلے تھا۔ جدھر بھی آنکھ اٹھاکر دیکھیے، ان کے ہاتھوں دنیاکے بننے اور بگڑنے کے آثار نظر آتے ہیں۔

    یہ ہمیشہ سے ہوتا چلا آیا ہے کہ ہر مخالفت مذہبی مخالفت بن جاتی ہے۔ اس لیے کہ مذہب ایسی چیز ہے جس کی آڑ ہر اچھی اور بری غرض، اچھا اور برا حوصلہ، ہر ضد اور ہر ضرورت، ہر تعصب اور ہر عقیدہ لے سکتا ہے۔ آریہ چونکہ سرد ملکوں کے رہنے والے تھے اس لیے آگ کی قدر کرتے کرتے آتش پرست ہو گئے تھے، مگر وہ آئے ایسے ملکوں میں جہاں گرمیوں میں آگ برستی تھی اور جہاں سورج کے سامنے صبح شام سر جھکا لینا آگ کا احسان ماننے کے لیے کافی تھا۔ اس طرح وہ دشمنی جو لڑائی میں ہارنے اور جیتنے والے کے درمیان ہو ہی جاتی ہے، مذہبی عداوت بن گئی۔

    آریوں نے اپنے سے پہلے کے لوگوں کوبے دین اور ناپاک ٹھہرایا اور اپنی بات پر انہیں اتنا یقین تھاکہ بعد کی نسلوں کو بھی انہوں نے اپنا ہم خیال بنا لیا، لیکن اب ہمیں معلوم ہو گیا ہے کہ مذہب اور تہذیب میں آریہ اپنی دشمنی کو برت نہیں سکے۔ کیا ہندوستان اور کیا یونان اور ایران جہاں دیکھیے الگ الگ دیوتاؤں کی جگہ ایک دیوتا کے بہت سے نام ہو گئے، الگ الگ مذہبوں کی جگہ ایک مذہب ہو گیا، جس میں سب عقیدے اور رسمیں شامل تھیں۔ ہم تک جو چیز پہنچی وہ مکمل تھی، اس میں کہیں جوڑ کا پتہ نہیں تھا اور آریوں نے اسے اس طرح اپنا لیا تھاکہ اس میں غیروں کے عقیدے اور جذبات کے موجود ہونے کاہمیں سان گمان بھی نہ ہو سکتا تھا۔

    لیکن تعجب ہے کہ دوسرے کے مذہبی خیالات سے اتنا اثر لینے پر بھی آریوں نے اپنی نسل کو سب سے الگ رکھنے کے لیے بڑے جتن کیے اور دنیا میں ایک ایسا فتنہ پیدا کر گئے جس کا نتیجہ ہم اب تک بھگت رہے ہیں اور اب بھی یہ پاپ کاٹے نہیں کٹتا۔ ہندوستان میں ذاتوں کی جو تقسیم ہے، اس کی باریکیوں سے آپ لوگ واقف ہیں اور اسے سمجھانے کے لیے جو دلیلیں پیش کی جاتی ہیں کہ ذات کی تقسیم نہیں ہے، کام کی ہے، اس کی بدولت سماج ایک مضبوط قلعہ بن گیا ہے جسے اب تک کوئی فتح نہیں کر سکا، یہ سب بھی آپ نے سنا ہوگا۔ اسی کی بدولت ہزاروں لاکھوں آدمی اچھوت بناکر جانوروں سے زیادہ حقیر اور ذلیل کر دیے گئے، اور اب سمجھ میں نہیں آتا کہ انہیں آدمیوں کا مرتبہ کیسے دیا جائے۔

    نسل کا یہی گھمنڈ ہمیں یونان میں بھی ملتا ہے۔ اگرچہ یونانیوں کاجن نسلوں سے سابقہ پڑا وہ رنگ میں اور ڈیل ڈول میں ان سے کم نہ تھیں۔ یونانی صاف صاف کہتے تھے کہ حکومت کرنا، شہریوں کی حیثیت اور شہریوں کے حقوق رکھنا خاص ہم لوگوں کا حصہ ہے اور قدرت کا منشا یہ ہے کہ ہم محنت مشقت کے کام اپنے غلاموں سے لے کر اپنا سارا وقت مہذب دلچسپیوں میں صرف کریں۔ ’’ہم ‘‘ سے مطلب آریہ نسل کی ایک شاخ کی شاخ تھی جو ہیلنز (HELLENES) کہلاتی تھی اور جو ایک خاص وقت میں موجودہ یونان اور ایشائے کوچک میں سمندر کے کناروں پر آکر آباد ہوئی۔

    یہ ہیلنز اپنے ان بھائی بندوں کو جو بلقان اور اس کے اتر میں آباد تھے، وحشی کہتے تھے۔ مشرق کے سب لوگ ان کے نزدیک ’’ایشیائی‘‘ تھے اور ’’ایشیائی‘‘ سے برا توہین کا لفظ یونانیوں کی لغت میں نہیں تھا۔ یونانی اپناحق سمجھتے تھے کہ ان لوگوں میں سے جو بھی لڑائی میں قید ہوں، بازار میں مول ملیں یاکسی طرح قبضے میں آ جائیں انہیں وہ غلام کہیں اور اپنے کھیتوں میں، اپنی دھاتوں کی کانوں میں، اپنے شہروں میں اور گھروں میں جس طرح چاہیں ان سے کام لیں۔ یونان میں کبھی کبھی یہ بھی ہوتا تھاکہ مصیبت اور افلاس کی وجہ سے خاص یونانی نسل کے لوگ بھی غلام بن جاتے تھے تو اس سے آزاد یونانیوں کو دردناک ڈراموں اور نظموں کے لیے ایک بہت اچھا موضوع مل جاتا تھا۔ ان کے عقیدے اور اصول میں فرق نہیں آیا، اور جب تک یونانی آزاد رہے وہ اپنی نسل کے خدا داد حق کو جتاتے رہے۔

    ہندوستان اور یونان کے سوا آریہ اور کہیں نسل کے امتیاز اور اپنی برتری کو مذہب اور قانون میں شامل نہیں کر سکے۔ ایران کے آریوں کی نسبت ہمیں معلوم بہت کم ہے۔ ہم یہ تو جانتے ہیں کہ ان کے یہاں مذہبی رسمیں ادا کرنے کے لیے پروہت ہوا کرتے تھے اور پروہت وہی ہوا کرتا تھا جس کا باپ پروہت ہو لیکن ایران کے پروہت شاید بادشاہوں اور سپاہیوں کو اس طرح اپنے پھیر میں نہ لاسکے کہ پیشے اور کام کی تقسیم کو ذات کی تقسیم بنا دیں اور ذات کی تقسیم کو دھرم کی بنیاد ٹھہرائیں۔ ادھر یورپ میں روم کے جو آریہ تھے وہ صرف وقت کی مصلحت دیکھتے تھے۔ نسل اور خاندان پر گھمنڈ انہیں بھی تھا۔ لیکن انہوں نے اپنا فائدہ اس میں دیکھا کہ اس گھمنڈ کو دوسروں کے لیے بہت زیادہ ناگوار نہ ہونے دیں۔

    رومی سلطنت کے تباہ ہونے پر وہ آریہ قبیلے جو اس وقت تک وحشی سمجھتے جاتے تھے، میدان میں آئے۔ ان لوگوں میں عیسائی مذہب نے جو کہ یہودیوں یعنی سامی نسل کے لوگوں کا مذہب تھا، نسل کے احساس کو بہت کچھ دبایا مگر اسے مٹانہ سکا۔ کچھ بہت دن نہیں ہوئے ہٹلر اور ان کے پیروؤں نے ڈنکے کی چوٹ اعلان کیا تھا کہ آریہ اور غیر آریہ کبھی بھائی بھائی نہیں ہو سکتے۔ ان کی قسمت الگ ہے اور غیر آریہ اپنی تقدیر کا لکھا پورا کرنے پر مجبور کیے جائیں گے۔

    لیکن اب نسلوں میں فرق کرنا یونیورسٹی کے پروفیسروں کا کام ہو گیا ہے اور دولت نے دوسروں کی محنت اور ضروریات سے فائدہ اٹھانے کے لیے ایسے ڈھنگ نکال لیے ہیں جو غلامی کے پرانے طریقے سے بہت زیادہ کارآمد ہیں۔ آج کل کے غلام اپنے آقاؤں کے لیے زیادہ سے زیادہ محنت کرتے ہیں اور بجائے اس کے کھانے کپڑے کا ذمہ آقاؤں پر ہو، وہ اپنے آقاؤں کی بنوائی ہوئی چیزیں خرید کران کی دولت دن دونی رات چوگنی کرتے رہتے ہیں۔ پھر بھی خدا کا شکر ہے کہ آج کل غلام رکھنا قانون کے خلاف ہے۔

    آریوں نے نسل کی جو تفریق پیدا کی، اسے دنیا کی اور نسلوں نے سرجھکا کر تسلیم نہیں کر لیا، بلکہ دنیا کی تاریخ کا جوہر وہ بغاوتیں ہیں جن میں مساوات یعنی آدمی آدمی کے برابر ہونے کی تعلیم دی گئی۔ ہندوستان میں گوتم بدھ نے، فلسطین میں عیسائی مذہب نے اور عرب سے نکل کر اسلام نے مساوات کا جھنڈا لہرایا اور اس کے نیچے مظلوموں کو پناہ دی۔ ان مظلوموں کا ذکر ہم بعد کو کریں گے۔ یہاں پر ہمیں انسانوں کی تفریق کے ایک اور پہلو کو جتانا ہے جس کا تاریخ پر بہت اثر پڑا اور جو ہمیں دنیا کی کہانی سمجھنے اور اسے یاد کرنے میں بڑی مدد دےگا۔ یہ ہے مشرق اور مغرب کا فرق۔ اسے جغرافیے نے یا دنیا کو، اتر، دکھن، پورب، پچھم چار حصوں میں تقسیم کرنے کی ضرورت نے پیدا نہیں کیا، یہ انسانی زندگی کے معنی اور مقصد بتانے، زندگی بسر کرنے کے قاعدے بنانے اور دلوں میں حوصلہ پیدا کرنے کے الگ الگ طریقوں کانام ہے۔

    مشرق اور مغرب دوسرے ہیں، جن کے بیچ میں ہماری زندگی چکر لگاتی رہی ہے، جوکبھی مل گئے ہیں کبھی ٹوٹ کر ہماری دنیا کو آدھی ادھر، آدھی ادھر گھسیٹ لے گئے ہیں۔ معلوم نہیں مشرق اورمغرب کی یہ تفریق ہماری قسمت میں تھی یا اتفاق سے پیدا ہو گئی، بہرحال اس کے موجود ہونے میں شک نہیں۔

    یہ تفریق ہمیں اس وقت سے نظر آتی ہے جب یونانیوں کو اپنے دیس میں آباد ہوئے کئی سو برس ہو چکے تھے اور وہ وحشی نہیں رہے تھے بلکہ آس پاس کی قوموں سے کچھ سیکھ کر اور اسے اپنی طبیعت کے مناسب رنگ دے کر انہوں نے ایک نئی تہذیب کی بنیاد رکھی تھی اور اسے ترقی دینے کی کوشش کر رہے تھے۔ اسی زمانے میں ایرانی آریوں کی قوت بڑھ رہی تھی اور جب ایرانی سامراج مغرب کی طرف پھیلتے پھیلتے بحر روم کے ساحل تک پہنچا، جہاں یونانی آباد تھے، تو دونوں کی ٹکر ہو گئی۔ دیکھنے میں تو دونوں کا کوئی مقابلہ نہ تھا۔ لیکن یونانیوں نے پہلے ۴۹۰ ’ق م‘ میں اور پھر اس کے دس برس بعد ایرانیوں کو شکست دی۔

    ان لڑائیوں کو کوئی ڈیڑھ سو برس ہوئے تھے جب سکندر اعظم نے ایران کی عظیم الشان سلطنت کو نیست ونابود کر دیا۔ ہار جیت اکثر اتفاق سے ہوتی ہے، لیکن ایرانیوں کی اس شکست میں ایک بھید تھا اور وہ یہ کہ یونانیوں نے اپنی زندگیوں کو ایسی شکل دی تھی اور اپنے حوصلوں کو ایسے سانچے میں ڈھالا تھا کہ تعداد اور مال و دولت میں بہت کم ہوتے ہوئے بھی وہ ایرانیوں کی سی طاقت پر غالب آ سکتے تھے۔ یونانی صحیح معنوں میں آزاد تھے، اپنی چھوٹی چھوٹی ریاستوں سے انہیں بڑی محبت تھی، اور ہر روشن خیال یونانی کا یہ حوصلہ تھا کہ وہ اپنی استعداد کے مطابق ریاست کی خدمت کرکے دکھائے۔

    ایرانیوں کو جو آزادی تھی وہ شخصی تھی، سیاسی آزادی کا انہیں کوئی احساس نہیں تھا۔ ان کی ریاست اتنی بڑی تھی کہ ان کو اس سے کوئی گہراذاتی لگاؤ ہو ہی نہیں سکتا تھا اور اپنی استعداد کا ثبوت دے کر بادشاہ کی نظروں میں عزت، اس کے دربار میں مرتبہ حاصل کرنے کے سوا ان کی ہمت بڑھانے کو اور کوئی جذبہ نہ تھا۔ ایران کی سلطنت یونان کی چھوٹی ریاستوں سے زیادہ عرصہ تک قائم رہی، لیکن وہ ایرانیوں کو وطن پرست نہ بناسکی کیونکہ وہاں حکومت بادشاہ کی مرضی سے ہوتی تھی۔ بادشاہ کے منصوبوں سے رعایا کو ذرا بھی مطلب نہ ہوتا تھا۔

    ایرانی فوج کے سپاہی پیشہ ور تھے۔ اپنے بادشاہ کے حکم سے اور خود نام پیدا کرنے کے لیے لڑتے تھے۔ ان کے دلوں میں قوم، وطن، تہذیب کا درد نہ تھا۔ یونانی اپنی ریاستوں کا سارا کاروبار خود کرتے تھے۔ ان کے دلوں میں ہر خطرے کے وقت اپنے ذاتی نقصان سے بڑھ کر قوم، وطن، تہذیب کی آبرو کا خیال رہتا تھا اور اسی وجہ سے وہ ایرانی سے زیادہ کامیاب سپاہی نکلے۔

    یورپ کے مؤرخ ان لڑائیوں کو یورپ اور ایشیا کا پہلا مقابلہ سمجھتے ہیں اور یونانیوں کی فتح کو یورپ والوں کی آئندہ ترقی اور عظمت کا نیک شگون ٹھہراتے ہیں۔ لیکن یہ صرف ان کی خود پسندی اور ان کا گھمنڈ ہے۔ ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ اگر یونانی ہار گئے ہوتے تب بھی موجودہ زمانے کے یورپی مؤرخ اس واقعے کی ایسی تعبیر کرتے کہ سہرا یونانیوں یعنی یورپ والوں کے سر رہتا۔ یورپ اور ایشیا، مغرب اور مشرق کاجو فرق ہے وہ وحشیانہ اور مہذب، اعلی اور ادنی اور غلط اور صحیح زندگی کا نہیں ہے، صرف حالات کا فرق ہے۔ یورپ میں جو لوگ آباد ہوئے انہیں چھوٹے چھوٹے اور اکثر قدرتی طور پر تقسیم کیے ہوئے ملک ملے۔ ان کی زندگی کا پیمانہ اتنا چھوٹا تھا کہ وہ الگ الگ قومیں بن سکتے تھے اور ہر قوم اپنے کاروبار کو اپنا جان کر سنبھال سکتی تھی۔ ملکوں کی تقسیم ایشیا میں بھی ہے، لیکن یہاں ہر ملک ایک بر اعظم ہے، اس کے تمام باشندوں میں اپنائیت کا احساس عموماً سیاسی اتحاد کی شکل اختیار نہیں کر سکا، اس وجہ سے وہ ملک کے کاروبار کو نہ اپنا سمجھے اور نہ اس سے جتنی دلچسپی کہ چاہیے، رکھ سکے۔

    دوسری بات یہ ہے کہ نئی نسلیں سب ایشیا میں پیدا ہوئیں اور سب نے جوان ہوتے اور زور پکڑتے ہی جنوب کے ملک پر، جو تہذیب کے مرکز تھے، دھاوا کیا۔ وہ لاکھوں کی تعداد میں لڑنے مرنے کے لیے آتی تھیں، اور انہیں روکنے کے لیے ضروری تھا کہ دوسری طرف سے بھی لاکھوں مقابلہ کے لیے آئیں یعنی اگر ایشیا کے ملک چھوٹے ہوتے، اور نئی نسلوں کا دھارا اسی زور کے ساتھ بہتا رہتا تو یہ چھوٹی ریاستیں خود بخود بڑھ جاتیں، قوم کا خیال مٹ جاتا اور ویسی ہی بڑی ریاستیں قائم ہوتیں جیسی کہ ہمیں اپنی تاریخ میں ملتی ہیں۔

    زندگی کا پیمانہ ایک طرف چھوٹا اور دوسری طرف بڑا ہونے سے لوگوں کی طبیعتوں پر بھی بہت گہرا اثر پڑا۔ یورپ کے وہ عالم جو مشرق والوں کے ہمدرد بنتے ہیں، اس فرق کو اس طرح سمجھاتے ہیں کہ مشرق میں لوگوں کا میلان روحانیت کی طرف ہے اور مغرب میں دنیا کی طرف، ایک کو فلسفے اور مذہب میں ڈوبے رہنے کا شوق ہے، ایک کو دنیاوی زندگی کی اصلاح اور ترقی کا حوصلہ ہے۔ لیکن یہ مشرق والوں کی دلجوئی کا ایک طریقہ یا خالی ایک ڈھکوسلا ہے، کیوں کہ ہم کو اگر بہت بڑے پیمانے پر زندگی کا انتظام کرنا پڑا اور ہم سیکڑوں برس انتظام کرتے رہے، مگر اس ڈھنگ سے نہیں جیسے کہ یورپ میں ہوا ہے، اس لیے کہ حالات کو دیکھتے ہوئے یہ ممکن ہی نہ تھا، تو اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ہم میں انتظام کرنے کی قابلیت نہیں۔

    نوع انسانی کو جتنے ہادیوں اور پیغمبروں نے مذہب کی صورت میں حق کا پیغام پہنچایا، وہ سب ایشیا کے رہنے والے تھے، لیکن اس بات کو کہ جس پر یورپ والوں کو رشک کرنا چاہیے وہ ایک کلنک کا ٹیکہ بناکر دکھاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ سیاسی رشتہ چھوٹی جماعتوں کو متحد رکھ سکتا ہے، جب بڑھ جائیں تو ان میں سوائے مذہب اور اخلاق کے ربط قائم رکھنے کی اور کوئی صورت ہو نہیں سکتی۔ ایشیامیں جمہوری حکومت نہیں تھی، اس لیے کہ ان حالات میں جمہوری حکومت کام کو سنبھال نہیں سکتی تھی۔ ایشیا میں وطن پرستی نہیں تھی کیونکہ ایشیا کے ملک بڑے ہیں اور وطن کا تصور تنگ ہے۔

    لیکن مشرق اور مغرب والوں کی طبیعتوں اور رجحانات کے اختلاف سے ہم انکار نہیں کر سکتے۔

    مشرق میں چھوٹی باتیں لوگوں کی نظروں میں نہیں جچتیں۔ یہاں تو ایسا نظام، ایسے اصول، ایسے عقیدوں کا سہارا چاہیے جن میں مشرق کی سی بے پایاں، بےکراں زندگی پوری پوری سما سکے اور لوگوں میں سہارے کی تمنا اتنی شدید ہو سکتی ہے کہ وہ اپنے اصول اور عقیدے دل میں لے کر بیٹھ رہیں اور اپنی دنیا اور اپنی زندگی سے غافل ہو جائیں۔ دوسری طرف یعنی مغرب میں اصول اور عقیدے کی کوئی خاص قدر نہیں رہی ہے، چھوٹی سی چیز کو ذرا سا ٹھکانا چاہیے، مغرب والوں کا یہ ٹھکانا ان کی حکمت عملی اور مصلحت تھی۔ یہ طریقہ ہے تو بہت کار آمد کہ خرابی دیکھو تو اسے دور کرو، ضرورت دیکھو تو اسے پورا کرو اور خیالی باتوں میں نہ پڑو، لیکن وہ مسافر بھی جو اپنی نظر سامنے ہی کی زمین پر جمائے رہے رستہ بھول سکتا ہے، کہ صحیح سمت کا پتہ لگانے کے لیے دور کی چیزوں کو آسمان اور اس کے چاند تاروں کو بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔

    اس طرح مشرق اور مغرب دونوں میں لوگوں نے انتہا پسندی سے نقصان اٹھایا ہے۔ لیکن دنیا کے دونوں حصوں میں میانہ روی اور اعتدال کو پسند کرنے والے بھی ہوئے ہیں۔ اس لیے میں اگر دنیا کی کہانی کو مشرق او ر مغرب کی تاریخ میں تقسیم کر دوں تو آپ بس یہ سمجھیےگا کہ ہماری زندگی ایک بڑا سا سمندر ہے جس میں کبھی ایک طرف لہریں زیادہ اٹھتی ہیں کبھی دوسری طرف، موجوں کو ابھارنے والی طاقت ایک ہے، ان کے تڑپنے اور اچھلنے کی امنگ ایک۔

    مأخذ:

    مجیب صاحب:احوال و افکار (Pg. 374)

      • ناشر: ڈائرکٹر قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 2011

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے