Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مولاناآزادکی صحافتی زندگی کاارتقائی سفر

افضل مصباحی

مولاناآزادکی صحافتی زندگی کاارتقائی سفر

افضل مصباحی

MORE BYافضل مصباحی

    مولاناابوالکلام آزادکا سن ولادت ۱۸۸۸ء ہے۔ آپ کے والدمحترم مولاناخیرالدین اپنے وقت کے جیدعالم تھے ۔ گھرکاماحول مذہبی ہونے کے ساتھ ساتھ علمی بھی تھا۔ مولاناآزادکوبچپن سے ہی کتب بینی کاشوق تھا۔ جن تابناک صفات کے متوازن اشتراک سے مولاناآزادکی شخصیت پروان چڑھی تھی؛ان میں سیاست، خطابت، زبان وبیان کی لطافت،انشاء پردازی، مدبرانہ ذہانت وفطانت، قرآن فہمی کی دلچسپی، اعلیٰ ارفع درجہ کافکروتجسس، معاملہ فہمی، وطن دوستی، حق گوئی وبیباکی اورانسانیت نوازی خصوصیت کے ساتھ شامل ہیں۔

    مولاناآزادکے والدمحترم مولاناخیرالدین نے گھرپرہی آپ کی تعلیم کاانتظام وانصرام کررکھاتھااورتعلیمی ارتقاء پرآپ کی گہری نظرتھی۔ چنانچہ والدبزرگوارکی زیرتربیت آپ کی شخصیت میں روزبروز چارچاندلگتے گئے۔ اس کانتیجہ یہ برآمدہواکہ نوعمری میں ہی مولاناآزادنے متعدداسلامی علوم پرمہارت اور عربی، فارسی اوراردوزبان پردسترس حاصل کرلی۔ اس کی وجہ سے خطابت، مضمون نگاری اور شاعری کے میدان میں قدم رکھناآپ کے لئے آسان ہوگیااورصحافت کے لئے بھی راہیں آسان ہوتی چلی گئیں۔ ’’آپ کایہ تاثرتھاکہ سوسائٹی میں کسی بھی انسان کوبلندمقام تب مل سکتاہے؛جب اس کے مضامین اخبارورسائل میں شائع ہوں اور اس سے بھی زیادہ بلندمقام تب حاصل ہوسکتاہے جب وہ کسی اخباریارسالے کاایڈیٹرہو‘‘۔ ۱؎

    شایداسی سے تحریک پاکر’’آپ کی طبیعت ابتدامیں شاعری کی طرف راغب ہوئی اور محض گیارہ برس کی عمرمیں شعرکہنے لگے اور ان کی پہلی غزل ممبئی(بمبئی) سے شائع ہونے والے گلدستے’’ارمغان‘‘ میں شائع ہوئی۔ دادوتحسین پانے کے بعد ان کے دل میں ایک گلدستہ شائع کرنے کاشوق پیداہوااوراسی کے نتیجے میں انھوں نے ۱۸۹۹ء میں کلکتہ سے ایک گلدستہ’نیرنگ عالم‘جاری کیا۔ اس رسالے نے زیادہ عمرنہیں پائی اورجلدہی بندہوگیا، لیکن اس نے مولاناکے لئے صحافتی دنیامیں قدم رکھنے کی راہ ہموارکردی۔ اس کے بعدانھوں نے ایک ہفت روزہ رسالہ’المصباح‘ جاری کیا‘‘۔ (ایضاً ص ۱۰۹)۔ گویامولاناآزادنے محض گیارہ برس کی عمرمیں صحافت کے میدان میں’نیرنگ عالم‘ کے ذریعہ قدم رکھااور اگلازینہ ’المصباح‘کی شکل میں طے کیا۔ یہ ہفت روزہ تھا،جسے انھوں نے۱۹۰۱ء میں جاری کیا۔ ’’اس ہفتہ وارمیں ’ایڈیٹرکے قلم سے‘ کے تحت مولاناآزادایک کالم لکھاکرتے تھے‘‘۔۲؎

    گرچہ مولاناآزادکایہ اخبارزیادہ دنوں تک جاری نہیں رہ سکا، لیکن اس کی وجہ سے ان کی شہرت پورے علمی، ادبی اورصحافتی حلقوں میں ہوچکی تھی۔ اس طرح وہ ایک مضمون نگاراورمدیرکی حیثیت سے متعارف ہوچکے تھے۔ اس ہفت روزہ کے بندہونے کے بعدبھی مولانا نے مضمون نگاری کاسلسلہ جاری رکھااورملک کے مختلف اخبارات ورسائل میں ان کے مضامین شائع ہوتے رہے۔ ’فن اخبارنویسی‘ کے عنوان سے ’مخزن‘ لاہورمیں مولاناکاجومضمون مئی۱۹۰۲ء میں شائع ہوا؛وہ بہت مقبول ہوا۔ اس طرح مولاناآزادکی صحافتی زندگی کاارتقائی سفرمنزل کی طرف رواں دواں رہا۔

    مولاناکی صحافتی زندگی کے ارتقائی سفرمیں ’خدنگ نظر‘کااہم کرداررہاہے۔ یہ شاعری کاگلدستہ تھالیکن ۱۹۰۲ء میں اس میںنثری مواد کی اشاعت کاسلسلہ بھی شروع کیاگیا۔ چنانچہ مولاناکے متعددمضامین اس رسالے میں شائع ہوئے۔ پھرایک وقت ایساآیاجب ’خدنگ نظر‘ کے ایڈیٹرنوبت رائے نے مولاناکومجلس ادارت میں شامل کرلیا۔ اس طرح مولاناآزادماہنامہ ’خدنگ نظر‘میں ’سب ایڈیٹر‘ ہوگئے۔ عبدالقوی دسنوی تحریرکرتے ہیں:

    ’’ہم نے اپنی کوشش میں اپنے دلی دوست ابوالکلام محی الدین صاحب آزاددہلوی کوبھی شامل کرلیاہے جن کے اکثرمضامین ’خدنگ نظر‘ اوردوسرے معزز اردوجرائدمیں شائع ہوتے رہتے ہیں۔ آئندہ سے وہ ’خدنگ نظر‘ کے حصۂ مضامین کے لئے اسسٹنٹ ایڈیٹرکے فرائض اداکریں گے جوانھوںنے بخوشی قبول فرمائے ہیں‘‘۔۱؎

    مولاناآزادتقریباً سوابرس اس ماہنامہ سے وابستہ رہے اور متعددقیمتی مضامین تحریرکئے۔ ان میں ’کبوترکی ڈاک‘،’ پنکچوئیشن‘،’ مبادلہ سنین‘، ’آثارقدیمہ‘،’ مینارخسرو‘ اور’ایکس ریز‘ وغیرہ بہت مقبول ہوئے۔مولانانے ’خدنگ نظر‘ کے نثری حصے کی جس طرح ادارت کی اوراس کے معیارکوبلندی عطاکی؛اس سے ایک طرف اردوصحافت کامعیاربلندہواتودوسری طرف خودان کی شخصیت ایک معتبرقلم کار، مضمون نگاراور صحافی کی حیثیت سے مقبول خاص وعام ہوگئی۔ یہی وجہ ہے کہ سوابرس بعدجب انھوں نے اس رسالے کوخیربادکہاتوشاجہاں پورکے اخبار’ایڈورڈگزٹ‘ کے مدیرکی حیثیت سے آپ کی تقرری ہوگئی۔’خدنگ نظر‘ اور’ایڈورڈگزٹ‘ میں ادارتی فرائض انجام دینے کی وجہ سے انھیں جس طرح کے تجربات ہوئے؛اس کی وجہ سے مولاناایک بڑے ہدف کی طرف قدم بڑھاتے نظرآئے۔ چنانچہ مولانانے ۲۰؍نومبر۱۹۰۳ء کوخوداپنارسالہ ماہنامہ ’لسان الصدق‘ شائع کرناشروع کیا۔ ’نیرنگ عالم‘ اور’المصباح‘ کے بعد’لسان الصدق‘ تیسرارسالہ ہے جس کی داغ بیل مولانانے خودڈالی۔ ۱۸۹۹ء میں مولاناآزادنے گیارہ برس کی عمرمیں جوصحافتی سفرشروع کیا؛وہ رفتہ رفتہ ارتقائی سفرطے کرتارہا۔ کبھی انھوں نے اپنے بل بوتے رسالہ جاری کیاتوکبھی دیگرکہنہ مشق صحافیوں کی زیرسرپرستی شائع ہونے والے اخبارات ورسائل میں ادارتی فرائض انجام دے کرصحافتی سفرکوجاری رکھا۔ چنانچہ پندرہ برس کی عمرمیں یعنی ۱۹۰۳ء میں کلکتہ کی سرزمین سے جوماہنامہ’لسان الصدق‘ جاری کیا؛اس میں انھوں نے اس کے مقصدکوپوری طرح واضح کردیااورسرورق پرہی جلی حروف میں یہ پیغام لکھ دیا:’’الصدق ینجی والکذب یھلک‘‘ (یعنی سچ کامیاب اورجھوٹ ہلاک ہوجاتاہے)۔ اس رسالے کاخاص مقصدقوم کوجھوٹ سے بچانااور سچائی کے راستے پرلاناتھا۔ اس طرح پندرہ سولہ برس کی عمرتک پہنچتے پہنچتے مولاناآزادکی جن صحافتی خدمات کاذکرکیاگیا؛یہ اپنی مثال آپ ہیں۔ عمرکی ناپختگی ان کے ادارتی معیارپر کلیتاً اثراندازنہ ہوسکی۔ ’لسان الصدق‘ میں جوموادشامل اشاعت ہوتاتھا؛اس کے معیارپرکسی بھی حیثیت سے سوالیہ نشان نہیں لگایاجاسکتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ علامہ شبلی نعمانی سے لیکر اس وقت کے جتنے ادیب، صحافی، تخلیق کاراور تنقید نگار تھے؛ سب مولاناآزادکی صحافتی صلاحیتوں کالوہامان چکے تھے۔ ’لسان الصدق‘ کی مقبولیت اورشہرت کایہ عالم تھاکہ مالک رام جیسے نامورادیب یہ لکھنے پرمجبورہوگئے’’لسان الصدق نے صحافت کی دنیامیں دھوم مچادی ‘‘۔اس رسالہ کی مقبولیت کااندازہ ابوسلمان شاہ جہاں پوری کی مندرجہ ذیل تحریرسے لگایاجاسکتاہے:’’ملک کے مشہورجرائدواخبارات مثلاً ’وکیل‘، ’امرتسر‘، ’پیسہ اخبار‘، ’مخزن، لاہور‘، ’افسانہ، حیدرآباد، دکن‘، ’معین الاخبار‘مرادآباد، ’ریاض الاخبار‘نے اس کے معیار، علم وصحافت، مضامین کے تنوع، فکرکی نکتہ آفرینی، مباحث کی جدت طرازی، ترتیب وتہذیب کے حسن، اسلوب کی شگفتگی، انشاء پردازی کی دلربائی، طرزاداکی قدرت، قلم کی پختگی اور مقاصدکی اہمیت پردادتحسین کے پھول برسائے‘‘۔ ۴؎

    ’لسان الصدق‘ کواردوصحافت کی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے۔ اس کے ذریعہ مولانانے اردوصحافت میں نمایاں تبدیلیاں کیں، معاشرہ کی اصلاح کاگراں قدرفریضہ انجام دیا۔ ملک کے معتبرقلم کاروں کی خدمات حاصل کرکے اس ماہنامہ کوہراعتبارسے معیاری بنایا۔ اپریل اور مئی ۱۹۰۵ء کے مشترکہ شمارے کے ساتھ ہی گرچہ یہ ماہنامہ بندہوگیالیکن مولاناآزادکاصحافتی سفرجاری رہا۔اس کے معاً بعد علامہ شبلی نعمانی نے مولاناکو’الندوہ‘ کی مجلس ادارت میں بحیثیت معاون مدیرشامل ہونے کی دعوت دی؛جسے انھوں نے قبول کرلیااور اورتقریباً چھ ماہ تک اس سے وابستہ رہ کرصحافتی فریضہ انجام دیا۔ بعدہ مولاناآزادنے امرتسرکے سہ روزہ ’وکیل‘ کی ادارت کی ذمہ داری سنبھالی۔ مولاناکی ادارت میں ’وکیل‘ نے خوب ترقی کی۔ ’وکیل‘ کے ساتھ مولاناکی وابستگی دوادوارپرمشتمل ہے۔ پہلادوراپریل سے نومبر۱۹۰۶ء تک آٹھ مہینے کاہے، جب کہ دوسرادوراگست ۱۹۰۷ء سے جولائی ۱۹۰۸ء تک ہے۔ جنوری ۱۹۰۷ء سے مئی ۱۹۰۷ء تک ہفت روزہ ’دارالسلطنت‘ کلکتہ کے ایڈیٹرکی حیثیت سے ادارتی فریضہ اداکیا۔اس سے اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ مولاناکاصحافتی سفرایک منزل سے دوسری منزل تک رواں دواں رہا۔ ’وکیل‘ سے علیحدگی کے بعدمولاناعراق، شام، مصر، ترکی اورفرانس کے دورے پرروانہ ہوگئے اوروہاں کے سیاسی حالات کاباریک بینی سے جائزہ لیا۔ بیرونی ممالک کے سفرسے واپسی کے بعد ۱۹۰۹ء سے ۱۹۱۲ء تک انھوں نے ملک کے سیاسی وسماجی حالات کاگہرائی سے جائزہ لیااور مستقبل کی منصوبہ میں ہمہ تن مصروف ہوگئے۔

    مولاناآزادکی صحافت کے ارتقائی مراحل، ان کے طرزتحریراور اسلوب نگارش کومعروف محقق وناقدعبدالمغنی کی مندرجہ ذیل تحریرسے بخوبی سمجھاجاسکتاہے:

    ’’مولاناابوالکلام آزادکے طرزتحریرکے کئی ادوارہیں، ’لسان الصدق‘ کے دورمیں جوسادگی وبے تکلفی ہے وہ ’الہلال‘ کے دورمیں جزالت اور شوکت میں بدل جاتی ہے ، لیکن ترجمان القرآن اور غبارخاطر کادورسلاست ونفاست کانمونہ پیش کرتاہے اور یہی مولاناآزاد کاحقیقی اسلوب ہے، جس میں انھوں نے اردوکی بہترین نثراسی معیارپرلکھی جوشبلی نے قائم کیاتھا۔ اس نثرمیں متانت کے ساتھ ظرافت کی چاشنی بھی ہے، سنجیدگی کے ساتھ شگفتگی اور انضباط کے ساتھ انبساط بھی ہے‘‘۔۵؎

    مولاناآزادنے ’لسان الصدق‘ کے بعدصحافت کے میدان میں جواگلاقدم اٹھایا؛اس کانتیجہ ’الہلال‘ کی شکل میں سامنے آیا۔ ’الہلال‘ کی اپنی تاریخی حیثیت اوراس کاایک اہم مقام ہے ۔ ایک طرف ’الہلال‘کواردوصحافت کی تاریخ میں سنگ میل کادرجہ حاصل ہے تودوسری طرف مولاناآزادکی صحافت بھی اس کے توسط سے بلندمقام تک پہنچ گئی۔ گویا’الہلال‘ کی اہمیت کئی اعتبارسے تسلیم شدہ ہے۔ مولاناآزادنے یہ ہفت روزہ ۱۳؍جولائی ۱۹۱۲ء کوجاری کیا۔ ’الہلال‘ کی صحافت دراصل مولاناآزادکے خون جگرمیں ڈوبی ہوئی تحریروں پرمشتمل ہے۔ مولانانے اس کے ذریعہ ایک طرف برطانوی سامراج کے خلاف علم بغاوت بلندکیاتودوسری طرف ہندومسلم اتحادکے لئے قلم کاپرزوراستعمال کیا۔ مولاناکی نظرمیں ’الہلال‘ کی اہمیت کیاتھی؛ان کے ایک خطبۂ صدارت کے صرف ایک جملہ سے بخوبی سمجھاجاسکتاہے:’’میں نے ’الہلال‘ مرحوم کوکبھی اپنے چشم خونیں کے آنسوئوں سے رنگاہے اورکبھی اس کے سوادحروف کے اوپراپنے دل وجگرکے ٹکڑے بچھادیے ہیں‘‘۔ ۶؎

    مولاناآزادنے ’الہلال‘ جاری کرکے اردوصحافت کوبلندی عطاکی۔ میدان صحافت میں جوتجربہ انھوں نے حاصل کیاتھااور ملک وبیرون ملک کے سیاسی وسماجی حالات کاباریک بینی سے جائزہ لیکر جوکچھ سیکھاتھا؛اسے ’الہلال‘ میں پوری جرأت، بیباکی اور شان وشوکت کے ساتھ پیش کردیا۔اس کانتیجہ یہ برآمدہواکہ ’الہلال‘ نے اردوصحافت کانقشہ ہی بدل دیا۔ ظاہری اورباطنی دونوں جہت سے مولانانے ’الہلال‘کوخوبصورت اورمعیاری بناکرپیش کیا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ مولاناکاایک مقصدحیات تھا۔ ان کی زندگی کانصب العین انتہائی بلنداورپاکیزہ تھا۔ مولاناایک مشن لے کرآگے بڑھ رہے تھے۔ یکے بعددیگرجس طرح وہ صحافت کے ارتقائی مراحل طے کرتے جارہے تھے؛اس سے اہل علم کوپیشگی اندازہ ہوگیاتھاکہ ان کے سامنے بڑاہدف تھا؛جس کووہ حاصل کرناچاہتے تھے اوروہ ہدف برطانوی سامراج سے نجات دلانا، ہندومسلم اتحادقائم کرنا، اردوزبان کوفروغ دینا، ملت کی رہنمائی کے فرائض انجام دینا، ملت کے خوابیدہ افرادکوبیدارکرنااور ملکی وبین الاقوامی سطح پر تحریروتقریراورادب کامعیاربلندکرناتھا۔ وہ وقت کے حالات کوتحریروتقریرکی بے پناہ صلاحیتوں سے بدل دیناچاہتے تھے۔ عبدالمغنی کے الفاظ میں-’’وہ باغی تھے، انقلابی بھی، مصلح بھی، مجاہدبھی‘‘- ان کے شعوروکردارمیں ایک شان اجتہادتھی۔ وہ معاشرے سے ریاست تک کے احوال میں مکمل تبدیلی چاہتے تھے‘‘۔۷؎

    اوروہ ہدف مولاناآزادنے ’الہلال‘ کے ذریعہ حاصل کرنے کی پوری کوشش کی۔چنانچہ مولاناآزادکاصحافتی ارتقاء ۱۸۹۹ء سے ۱۹۱۲ء تک بہ تدریج ہوا۔ ہفت روزہ ’الہلال‘ کی تحریرصحافتی ارتقاء میں درمیان کی کڑی ہے۔ ’لسان الصدق‘ کے اسلوب کاجائزہ لیں اور اس سے پہلے شائع شدہ ان کی تحریروں پرنگاہ ڈالیں، بعدہ ’الہلال‘ کے مضامین پرتنقیدی نظرڈالیںتو ان کی صحافتی زندگی کے ارتقائی مراحل کے نقوش اپنے آپ واضح ہوجائیں گے۔اسی لئے میرامانناہے کہ مولاناکے صحافتی ارتقاء کومحض رسائل وجرائداور اخبارات تک محدودکرکے دیکھناصریح غلطی ہوگی۔ ’الہلال‘ کے دوراول اوردورثالث (دورثانی ’البلاغ‘ ہے) کے درمیان مولانانے جوکچھ لکھا؛اسے نظراندازنہیں کیاجاسکتاہے۔ چنانچہ ان کی صحافت کے ارتقائی مراحل کوسمجھنے کے لئے ان کی دیگرتحریروں جیسے ’ترجمان القرآن‘،’غبارخاطر‘، ’تذکرہ‘ وغیرہ کوبھی ملحوظ نظررکھناہوگا۔ مذکورہ تفصیلات کی روشنی میں اس نتیجے پرپہنچاجاسکتاہے کہ ان کی صحافتی زندگی کے ارتقائی مراحل کاپہلادوربیسویں صدی کی پہلی دہائی ہے، جس دوران مولانانے مختلف رسائل وجرائداوراخبارات کی ادارت کے فرائض انجام دئے اور ان کی تحریریں ملک کے کونے کونے سے شائع ہونے والے معززرسائل وجرائداوراخبارات کی زینت بنے۔ اس دہائی میں ’لسان الصدق‘ کوسنگ میل کی حیثیت حاصل ہے، جس کاتفصیلی جائزہ ماسبق میں پیش کیاجاچکاہے۔ اس مرحلے کادوسرادوربیسویں صدی کی دوسری دہائی ہے اور اس میں ’الہلال‘ کواہم ترین مقام حاصل ہے۔ اسے سمجھنے میں عبدالمغنی کی مندرجہ ذیل تحریربے حدمعاون ہے:

    ’’بیسویں صدی کی دوسری دہائی شروع ہوتے ہی یہ صورت حال بدل گئی۔ ۱۹۱۲ء میں کلکتہ سے ’الہلال‘ مولاناابوالکلام آزادکے زیرادارت اردوزبان وادب اور صحافت وسیاست نیزمذہب ومعاشرت کے لئے ایک صوراسرافیل بن کرنمودارہوااور اس کے بلند خیالات اتنے ہی بلندآہنگ کے ساتھ بروئے اظہارآئے۔ الہلال کی نثرکے جوش وخروش، منطق واستدلال اوردعوت وتبلیغ نے اردوداں معاشرے میں ایک زلزلہ ڈال دیا۔ اس کے طرزبیان کی خطابت نے قارئین کے رگ وپے میں بجلیاں دوڑادیں۔ ایسی جانداراورشاندارنثراس سے پہلے کم ہی لکھی گئی تھی‘‘۔۸؎

    ’الہلال‘ کے بارے میں پروفیسرمحمودالٰہی اپنی مرتب کردہ کتاب’الہلال کے تبصرے‘ کے مقدمہ میں جن آراء کااظہارکرتے ہیں؛اس سے الہلال کی نوعیت بھی سمجھ میں آتی ہے اور مولاناآزادکی صحافت کامعیاربھی واضح ہوجاتاہے۔ وہ تحریرکرتے ہیں:

    ’’الہلال ہفتہ واراخبارنہیں تھا، بلکہ ایک جرنل تھا، جسے آسانی کے لئے مجلہ یارسالہ کہہ لیجئے اور جرنل بھی وہ جس نے مغربی زبان کے معیارکومشعل راہ بنایاتھا۔ کسی جرنل میں عام طورپرایساموادپیش کیاجاتاتھاجو ایک طرف توعلم وادب کے تقاضوں کوپورا کرتا تھااوردوسری طرف حیات شناسی اورکائنات کی گرہ کشائی کامحرک ثابت ہوتاتھا۔ مولاناآزادنے الہلال کے لئے یہی راہ اپنائی۔ اس میں تنوع تھامگرتنوع کے نام پرسستااورمبتذل موادنہیں کھپایاجاتاتھا‘‘۔۹؎

    پروفیسرمحمودالٰہی مولاناکی صحافت کے جن پہلوؤں کی طرف نشاندہی کررہے ہیں؛ان سے مولاناکی صحافت کے ارتقاء کوبھی سمجھاجاسکتاہے۔

    یہاں یہ بتانابھی ضروری ہے کہ ۱۸؍نومبر۱۹۱۴ء کو’الہلال‘ کاآخری شمارہ شائع ہوا۔اس کے بعدیہ بندہوگیا۔ البتہ اس کے محض ایک سال بعد مولانانے ۱۲؍نومبر۱۹۱۵ء کو’البلاغ‘ نام سے اخبارجاری کیا۔ اس کے مقاصدبھی وہی تھے جوالہلال کے تھے۔ بس نام کافرق تھا۔ اسی لئے ’البلاغ‘ کو’الہلال‘کادورثانی بھی کہاجاتاہے۔ البلاغ کی عمرابھی صرف پانچ ماہ کی ہوئی تھی کہ مولاناآزادکوصوبہ بنگال سے نکل جانے کاحکم دے دیاگیا۔ اس کے بعدتقریباً چاربرس مولاناکورانچی میں نظربند کی زندگی بسرکرناپڑی۔ مولانا ۱۹۱۶ء میں نظربندکئے گئے اور جنوری ۱۹۲۰ء میں نظربندکاسلسلہ ختم ہوا۔اسی اثناء میں مولانا’تذکرہ‘ تصنیف کیا۔ ’تذکرہ‘ کی زبان ’الہلال‘ اور’البلاغ‘ سے ادق ہے۔ ’الہلال‘ اور’البلاغ‘ میں روانی ہے۔ جب کہ ’تذکرہ‘ خالص علمی تصنیف ہے۔ اسی لئے یہ کہناحق بجانب ہوگاکہ غالبؔ، سرسید، شبلیؔ اور حالیؔ نے اردوادب کی جوخدمت کی تھی؛مولاناآزادنے ’تذکرہ‘ کے توسط سے اسے مہمیزدی، اسے آگے بڑھا اور ایک رخ عطاکیا۔ اس طرح مولانانے نظربندی کے دوران بھی تحریری سفرجاری رکھااورصحافت کے تجربات کوبروئے کارلاکراعلیٰ علمی و ادبی کارنامہ انجام دیا۔نظربندسے رہاہوکرمولاناکوجوں ہی موقع ملا؛صحافت کے میدان میں سرگرم ہونے کافیصلہ کرلیا۔ چنانچہ ۲۳؍ستمبر۱۹۲۱ء کوکلکتہ سے ایک ہفت روزہ اخبار’پیغام‘ جاری کیا۔ اس کی نگرانی خودکرتے رہے اور ادارت کی ذمہ داری مولاناعبدالرزاق ملیح آبادی کے سپردکردی۔ نومبر۱۹۲۱ء میں ’پیغام‘ کے توسط سے شہزادہ ویلز کی مخالفت کی پاداش میں مولاناعبدالرزاق ملیح آبادی اور مولاناآزاددونوں کوایک سال قیدبامشقت کی سزادی گئی۔ رہائی کے بعد مولانا سیاست میں پوری طرح سرگرم ہوگئے لیکن صحافت سے دوری انھیں کسی بھی طورپسندنہیں تھی۔ چنانچہ ۱۰؍جون ۱۹۲۷ء کو’الہلال‘ دوبارہ جاری کیا۔ اس کی ادارت اوردیگرذمہ داریاں مولاناعبدالرزاق ملیح آبادی کے ذمے تھیں، لیکن نگراں اور مالک خودمولاناآزادتھے۔ ۹؍ستمبر۱۹۲۷ء کو’الہلال‘ کاتیسرادوراپنے آخری شمارے کے ساتھ بندہوگیااور مولانا آزاد سیاسی میدان میں پوری طرح سرگرم ہوگئے اور اس طرح ۱۸۹۹ء میں شروع ہواان کاصحافتی سفر۱۹۲۷ء کواپنے اختتام کوپہنچا۔

    حوالے:

    (۱؎ ’مولاناآزادکاصحافتی سفر‘؍محمدفریاد؍فکروتحقیق، نئی دہلی، شمارہ اکتوبر۔دسمبر۲۰۰۵، ص ۱۰۸)

    (۲؎ ’مولاناآزادہندوستان کی ایک عبقری شخصیت‘؍ایس ایم رحمت اللہ؍اردونیا،نئی دہلی، شمارہ نومبر۲۰۱۳ء ، ص ۵۵)

    (۳؎ ماخوذاز’فکروتحقیق‘، نئی دہلی، شمارہ اکتوبر۔دسمبر۲۰۰۵، ص۱۱۰)

    (۴؎ مجلہ آزاد، جدہ ۲۰۰۱ئ، ماخوذ ازفکروتحقیق، نئی دہلی، شمارہ اکتوبر۔دسمبر۱۰۰۵، ص۱۱۳)

    (۵؎ ابوالکلام آزاد اسلوب نگارش؍عبدالمغنی؍ص ۲۶۔۲۷، ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ، سن اشاعت ۱۹۹۱ئ)

    (۶؎خطبات آزاد؍ص ۱۰۴)

    (۷؎ابوالکلام آزاد اسلوب نگارش؍عبدالمغنی؍ص ۳۱، ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ، سن اشاعت ۱۹۹۱ئ)

    (۸؎ایضاً ص ۳۷)

    (۹؎ الہلال کے تبصرے؍پروفیسرمحمودالٰہی، ص ۷، اترپردیش اردواکیڈمی، لکھنؤ، سن اشاعت ۱۹۸۸ئ)

    ماخذ:

    ۱۔ فکروتحقیق، نئی دہلی، شمارہ اکتوبر۔ دسمبر ۲۰۰۵ء ۔

    ۲۔ اردونیا،نئی دہلی، شمارہ نومبر۲۰۱۳ء ۔

    ۳۔ ابوالکلام آزاد اسلوب نگارش؍عبدالمغنی، ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ، سن اشاعت ۱۹۹۱ئ۔

    ۴۔ خطبات آزاد؍مولانا ابوالکلام آزاد۔

    ۵۔ ’الہلال کے تبصرے‘؍پروفیسرمحمودالٰہی، اترپردیش اردواکیڈمی، لکھنؤ، سن اشاعت ۱۹۸۸ئ۔

    ۶۔ ’اردوصحافت آزادی کے بعد‘؍ڈاکٹرافضل مصباحی، دارالنعمان پبلی کیشن، لاہور، پاکستان، سن اشاعت۲۰۱۶ئ۔

    ۷۔ ’یادگارزمانہ ہیں یہ لوگ‘؍ڈاکٹرمحبوب راہیؔ، اسباق پبلی کیشنز، پونے، سن اشاعت ۲۰۱۵ئ۔

    ۸۔ ’اردوصحافت نمبرنیادور‘، جون؍جولائی ۲۰۱۱ئ۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے