Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مولوی عبد الحق

خان رشید

مولوی عبد الحق

خان رشید

MORE BYخان رشید

    سوچتا ہوں مولوی عبد الحق صاحب کی شخصیت پر تبصرہ کروں، یعنی سورج کو چراغ دکھاؤں۔ اور اس جرأت گستاخ کا سبب صرف یہ ہے کہ لوگ سورج سے نگاہیں نہ ملاسکے۔ بلکہ بعض کی نگاہیں تو ایسی خیرہ ہوئیں کہ انہیں دن کی روشنی میں بھی تاریکی ہی نظر آئی۔ ممکن ہے ایسی نگاہیں چراغ کی مدھم روشنی کی متحمل ہو سکیں اور اگر تجلیوں کا ادراک نہیں تو کم از کم اتنا تو دیکھ لیں کہ اس کی لو میں کتنا بانکپن، کتنی لپک ہے!

    میں افق علم کے اس درخشاں آفتاب کی ان ضوفشانیوں کا ذکر نہیں کرتا جن کے طفیل نہ جانے کتنے ستارے روشن ہو گئے۔ بلکہ اس چراغِ سحری کا ذکر منظور ہے۔ جس کی سرفراز لو لرز۱، رہی ہے۔ کانپ رہی ہے بجھنے کے خوف سے نہیں بلکہ اس خیال سے کہ کہیں میرے بعد اندھیرا تو نہ ہو جائے گا؟

    (۱) یہ مضمون بابائے اردو کے آخری ایام حیات میں لکھا گیا تھا (مرتب)

    یہ چراغ اس وقت تک نہیں بجھ سکتا جب تک کہ ذرہ ذرہ جہاں تاب نہ ہو جائے اور فروغ صبح کا نور گوشے گوشے کو منور کر کے اسے مطمئن نہ کردے۔ تنگ نظری اور عصبیت کے عفریت کمر ہمت توڑنے پر تلے ہوئے ہیں۔ بادِ مخالف کے تیز اور تند جھونکے اسے بجھانے کے لیے اپنی سب کچھ کر گزرے۔ لیکن اس نے مسکرا مسکرا کر یہی کہا کہ تم سے پہلے میں پوربی اور پچھمی ہواؤں کے تیز جھکڑوں کو بھی شرمسار کر چکا ہوں۔ تم مجھے بوڑھا اور کمزور سمجھتے ہو لیکن۔

    ’’بڑھاپا سفید بالوں اور کبڑی کمر سے نہیں آتا، جوانی عزم و ہمت سے ہوتی ہے۔ جوان وہ ہے جس کا عزم جوان ہے۔ میں اپنی جوانی پھر واپس لاؤں گا۔ جوانی قائم رکھنے کے لیے کوئی بلند مقصد ہونا چاہیے۔ مقصد سے زندگی بنتی ہے، بڑھتی ہے اورقائم بھی رہتی ہے۔۔۔ (خطبہ اردو کالج)

    بلندی نگاہ، خلوص، عزم اور عمل ان کی شخصیت کے عناصرِ ترکیبی ہیں۔ انہوں نے اپنی زندگی اور کردار سے عزم و عمل کی جو روح پھونک دی ہے وہ آج نہ جانے کتنے دلوں میں امنگیں پیدا کر رہی ہے۔ امید و بیم کی کش مکش میں رجائیت کا پلہ بھاری ہے۔ سرگوشیاں پیکر آواز میں ڈھل چکی ہیں اور ہر گوشے سے ایک مترنم گونج انہیں سنائی دے رہی ہے کہ۔۔۔

    چراغِ آخر شب اس قدر اداس نہ ہو

    کہ تیرے بعد اندھیرا نہیں اجالا ہے

    لیکن وہ اس وقت تک اطمینان کاسانس نہیں لے سکتے جب تک اپنے مقاصد کو پایہ تکمیل تک نہ پہنچا دیں۔ اور خوابوں کو حقیقت میں نہ بدل دیں۔

    جینا کوئی مولوی صاحب سے سیکھے تو مر کے بھی زندہ رہ سکتا ہے۔ اس لیے کہ یہ ان لوگوں میں سے ہیں جو دنیا کو جینے کا گر سکھاتے ہیں کہ ’’ماز تخلیق مقاصد زندہ ایم۔‘‘

    وہ جس مقصد کو لے کر اٹھے اسے کبھی ادھورا نہ چھوڑا، خواہ کتنی ہی مخالفتوں کامقابلہ کیوں نہ کرنا پڑا ہو۔ بلکہ عموماً ایسے ہی مقاصد کا حصول پیش نظر رہا جن میں زیادہ سے زیادہ وقتوں کا امکان ہوتا۔

    سہل پسندی نہ طبیعت میں ہے نہ سیرت میں اور یہی ان کی کام یابی کا اصل راز ہے، ان کی شخصیت ہمیشہ ایک چیلنج بھی رہی اور چیلنج کا ایک کامیاب جواب بھی۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ۔۔۔

    کارزارِ دنیا میں بے لڑے بھڑے کام نہیں چلتا۔ یہاں چوکے بھی سہنے پڑتے ہیں اور زخم بھی کھانے پڑتے ہیں۔ سر بھی دینا پڑتا ہے۔ جو اس کے لیے تیار نہیں، اس کے لیے پسپا ہو جانا ہی بہتر ہے۔ بلکہ سرے سے اسے میدان میں قدم ہی نہیں رکھنا چاہیے۔ (ص۱۷۸ چند ہم عصر)

    اس لیے ان کی زندگی ہر موڑ پر یہی پکارتی ہوئی سنائی دیتی ہے کہ۔۔۔

    مجھے سزا کے لیے بھی نہیں قبول وہ آگ

    کہ جس کا شعلہ نہ ہو تند و سرکش و بے باک

    لیکن یہ نہ سمجھیے کہ مولوی صاحب کبھی ناکام ہی نہیں ہوئے۔ ہوئے ہیں اور ضرور ہوئے ہوں گے۔ اور وہ لاکھ دوسروں کو ذمہ دار گردانیں پر ذمہ داری خود انہیں کی تھی۔ بات دراصل یہ ہے کہ ایسے مواقع پر عموماً مقصد ہی ایسا رہا ہے جو ان کے شایانِ شان نہ تھا۔ اورینٹل کالج اور انجمن ترقی اردو خواتین کالج کا قیام ویسے ہی مقاصد تھے۔ رفقاء کے اصرار پر مولوی صاحب ’’ہوں‘‘ ۔ ’’ہاں‘‘ کہتے ہوئے تحریک کے ساتھ ہولیے لیکن اول تو وہ خود غرضیاں اور خلوص کا فقدان بھانپ چکے تھے۔ دوسرے دل بار بار کہتا کہ یہ بھی کوئی ایسا مقصد ہے جس کے لیے عبدالحق کی ضرورت پیش آئے۔ نتیجہ وہی ہوا جو ہونا تھا۔ یعنی مقصد ہی اتنا چھوٹا تھا کہ مولوی صاحب کی رفعتِ نگاہ نے اسے قابل اعتنا نہ سمجھتے ہوئے نظرانداز کردیا۔ ہاں اگر مقصد بلند اور مشکل الحصول ہوتا تب ضرور بتاتے کہ مولوی عبد الحق کسے کہتے ہیں۔

    حق و باطل کے معرکوں میں انہوں نے زندگی بھر یہی ثابت کیا ہے کہ وہ نام کے عبد الحق نہیں عمل کے بھی ہیں۔ صلح جوئی او رمصالحت پسندی سرشت ہے۔ اس حد تک کہ گاندھی جی نے بھی انہیں سادہ لوح سمجھ لیا اور ’’ہندی اتھوا ہندوستانی‘‘ تحریک کا جال بچھایا۔ مولوی صاحب کو رام کرنے کے لیے اول تو یہ فرمایا کہ ’’میرا ہندوستان کی سب بھاشاؤں سے پریم ہے۔ مگر ہندوستانی کا جو نمونہ اپنے بھاشا میں پیش کیا وہ یہ تھا کہ ’’اس پردیش کے پربتک بھاگ کے ساہتیہ کار آپس میں کبھو کار آپس میں کبھو ملیں اور بھن بھن بھاشاؤں دوارا ہندوستان کی تیہا یوگیہ دورا سیوا کیوں نہ کریں۔۔۔‘‘ مولوی صاحب پہلے تو خاموش تھے۔ لیکن جب دیکھا کہ پانی سر سے اونچا ہوا جا رہا ہے۔ اور ہندوستانی تحریک کی آڑ میں مسلمانوں کی ثقافت، تہذیب اور تمدن کی جڑیں کھوکھلی کی جارہی ہیں تو ایسے گرج کر میدان میں آئے کہ مخالفین کی زبان بند ہو گئی۔ یعنی ہندی ہندوستانی کی تحریک جس دماغ میں پیدا ہوئی تھی وہیں دفن ہوکر رہ گئی۔

    مہم مشکل ہو تو مولوی صاحب فوراً اسے سر کرنے کا بیڑہ اٹھا لیں گے۔ اور اسے انجام تک پہنچائے بغیر ہرگز دم نہ لیں گے۔ کسی نے چھوٹا ناگپور کی متعصب فضاء کا ذکر کردیا۔ جہاں مشنریوں کی حکومت کسی کو پر مارنے کی بھی اجازت نہ دیتی تھی۔ اور مولوی صاحب نے نہ صرف اس وقت طے کر لیا بلکہ تھوڑے ہی عرصہ میں وہاں اردو کا چرچا عام کر دیا۔ مولوی صاحب کی مجاہدانہ زندگی اور خدمات کا تجزیہ کیجیے تو ہم کبھی ان کی یہ بات ماننے کے لیے تیار نہ ہوں گے کہ ’’خطاب اور نام اٹکل سے رکھ دیے جاتے ہیں۔‘‘ (چند ہم عصر، ص۱۱۶)

    مولوی صاحب جتنے خود عظیم ہیں ویسے ہی ان کے مقاصد بلند رہے۔ اور جتنا بلند مقصد رہا اس اعتبار سے اس سے مولوی صاحب کا عشق شدت پکڑتا گیا۔ اس لیے انہوں نے کبھی ایسا گلہ نہیں کیا کہ۔۔۔

    غمِ آرزو کا حسرت سبب اور کیا بتاؤں

    مری ہمتوں کی پستی، مرے شوق کی بلندی

    وہ عظمت و جلال کے کتنے قائل ہیں۔ اس کا اندازہ ذیل کے فقروں سے کیجیے۔

    ’’عظیم الشان چیزیں گو وہ عملی لحاظ سے کیسی ہی ساکت اور صامت ہوں۔ لیکن صرف ان کے وجود ہی سے دنیا پر اس قدر اثر پڑتا ہے جو بڑے بڑے کاموں سے حاصل نہیں ہوسکتا۔‘‘

    مقصد سے عشق ہونا بڑی نعمت ہے اور مولوی صاحب اپنے قول اور فعل سے اس کی تلقین کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور اس وقت تک کسی کام میں ہاتھ ڈالنا پسند نہیں کرتے جب تک اس میں لذت نہ آنے لگے اس لیے کہ۔۔۔

    ’’شوق اور محنت عجیب چیزیں ہیں۔ جنہیں ہم کمال کہتے ہیں۔ وہ انہیں دونوں کا خانہ زاد ہے۔‘‘ جفاکشی اورمحنت خود ان کا وطیرہ ہے۔ اس لیے یہ خوبیاں جہاں نظر آئیں دل سے پسند کرتے ہیں۔ عزیز مرزا کے ذکر میں لکھتے ہیں۔ ص۱۰۴

    ’’وہ جہاں کہیں رہے اپنے فرضِ منصبی کو ایسی مستعدی، جفاکشی اور دیانت کے ساتھ ادا کیا کہ لوگ قائل ہو گئے۔‘‘ ص۶۳

    مرزا حیرت کا یہ شعار بھی بہت پسند آیا کہ ’’انہیں اپنے فرضِ منصبی کابہت بڑا خیال تھا۔‘‘ اور اپنے فرض کے ادا کرنے میں اپنی صحت تک کی پروا نہ کرتے تھے۔‘‘

    ’’چند ہم عصر‘‘ میں جتنے افراد ہیں ان سب میں یہ خوبی ضرور موجود ہے۔ پھر بھلا مولوی صاحب انہیں کیوں نہ پسند کرتے جب کہ اس بات پر بھی ایمان رکھتے ہیں کہ۔۔۔

    ’’کام اور محنت کرنے ہی سے انسان بنتا ہے۔ اس لیے اس کے دماغی اور اخلاقی قویٰ کی جلا ہوتی ہے۔‘‘ ص۲۶۲

    مولوی صاحب بڑے وضعدار اور بعض معاملات میں بڑے نازک دماغ بھی واقع ہوئے ہیں۔ طبیعت میں غیرت اور انکسار ہے۔ جھوٹ نہیں بولتے۔ مناسب یہی ہوگا کہ ان کی شخصیت کا تجزیہ خود انہیں کی تحریروں کی روشنی میں کیا جائے۔ اور شخصیت کی عظمت کا تصور جو ان کے ذہن میں ہے وہ ان خاکوں سے واضح ہو جاتا ہے۔ جو انہوں نے ’’چند ہم عصر‘‘ میں پیش کیے ہیں۔ ’’مولوی صاحب نے صرف چند معاصرین کا ذکر کیا ہے لیکن انہیں چند کا جنہیں وہ صحیح معنوں میں انسان سمجھتے تھے۔ اور ایسے لوگ کم ہی ہوتے ہیں۔ مولوی صاحب اتنی عمر میں ہزارہا نفوس سے ملے ہوں گے لیکن کہا کرتے کہ۔۔۔

    ’’ایسے دوچار ہی ملے جن میں انسانیت بھی ہے۔ اور یہ وہ شے ہے جو بہت کم یاب ہے۔‘‘

    ان کا تذکرہ بھی محض ذکر کی خاطر نہیں کیا گیا بلکہ اس لیے کیا گیا ہے کہ ہم ان کی زندگیوں سے سبق لے سکیں۔ ایک انسان کی زندگی ہمیشہ سبق آموز ہوتی ہے۔

    ’’دولت مندوں، امیروں اور بڑے لوگوں ہی کے حالات لکھنے اور پڑھنے کے قابل نہیں ہوتے بلکہ غریبوں میں بھی بہت سے ایسے ہوتے ہیں کہ ان کی زندگی ہمارے لیے سبق آموز ہو سکتی ہے۔ انسان کا بہترین مطالعہ انسان ہے اور انسان ہونے میں امیر غریب کا کوئی فرق نہیں۔‘‘ ص۱۰۵

    اب آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ انہوں نے محسنؔ الملک اور سر سید کے دوش بدوش نور خاں اور نام دیومالی کو کیوں جگہ دی ہے۔ ’’چند ہم عصر‘‘ میں ان ہی عظیم انسانوں کے جاندار خاکے ہیں۔ جاندار اس لیے کہ ان خاکوں کی رگ رگ میں خود مولوی عبد الحق کاجان دار خون دوڑ رہا ہے۔ الفاظ میں تصویرکشی شخصیت نگاری کاکمال ہے۔ لیکن اس میں جان خود فن کار کی داخلی عظمت کی وجہ سے پڑتی ہے۔

    اسے یوں سمجھیے کہ ایک ماہر اور چابک دست مصور تصویر بنانے سے پہلے مختلف زاویہ ہائے نگاہ سے پیش نظر ماڈل یا منظر کا جائزہ لینا ہے پھر حسب توفیق اپنی ذہنی استعداد اور جمالیاتی شعور سے کام لے کر کسی خاص زاویے کا انتخاب کرتا ہے۔ اور پیش نظر ماڈل یا منظر کے صرف انہیں خد و خال پر اس کی نگاہیں مرکوز ہوتی ہیں جو اس کے اپنے داخلی احساس سے ہم آہنگ اور اس کے اپنے شعور کے مطابق حسن و قبح کے نمایاں نقوش ہوتے ہیں۔ اب وہ موقلم کو ہاتھ لگاتا ہے۔ اور الٹے سیدھے خطوط اور رنگوں سے کام لے کر تصویر بناتا ہے۔ بے شمار غیر ضروری اجزا مبہم خطوط کا رنگ اختیار کر لیتے ہیں۔ اور صرف وہی حصے نمایاں ہوتے ہیں جو مصور کے حسنِ انتخاب کے مطابق قابل ستائش ہوتے ہیں۔ حسن و قبح کایہ معیار فن کار کی خود اپنی داخلیت کا امانت دار ہوتا ہے۔ اس طرح تصویر ہو یا تصنیف فن کار بظاہر دوسروں کی سیرت اور صورت کاجائزہ لیتا ہے۔ لیکن غیر شعوری طور پر خود اپنی سیرت کا مظاہرہ بھی کر جاتا ہے۔ تفصیل جس قدر اجمال میں بدلتی ہے۔ یہ پہلو زیادہ نمایاں ہوتا جاتا ہے۔ اس اعتبار سے تفصیلی سوانح عمریوں کے مقابلے میں مختصر خاکے فن کار کی داخلیت کے نسبتاً زیادہ امین ہوتے ہیں۔ رنگوں سے بنی ہوئی تصویر کے مقابلے میں لفظی خاکوں کو اس اعتبار سے فوقیت حاصل ہے۔ مصوری الفاظ کے فن سے قدیم ہے۔ لیکن خارجیت اور صورت سے بے نیاز نہ ہو سکی۔ لیکن الفاظ کا فن سیکھا۔ اور اس بات پر قادر ہوا کہ صورت کے علاوہ سیرت کو ان کوزوں میں بند کرلے۔ سیرت الفاظ میں ڈھل کر نہ صرف شخصیت کے ایسے رخ بھی بے نقاب کر جاتی ہے جو کسی اور طرح ظاہر نہ ہوسکتے تھے بلکہ شخصیت نگاری کی اوٹ سے خود شخصیت نگار کی اپنی شخصیت بھی جھانکتی ہوئی نظر آتی ہے۔

    مولوی صاحب ’’چند ہم عصر‘‘ کی اوٹ سے جھانک رہے ہیں۔ اور اگر آپ دیکھنا چاہیں تو بعض ایسی باتیں بھی دیکھ سکتے ہیں جنہیں مولوی صاحب شاید ویسے کبھی نہ بتاتے۔ مثال کے طور پر مولوی صاحب انگریزی کھانے پسند نہیں کرتے اور کھانے کے معاملے میں بڑے نفاست پسند اور شوقین ہیں۔ اول تو وہ انکار نہ کریں گے کہ جھوٹ نہیں بولتے لیکن یہ پاسِ وضعداری اعتراف میں تامل ہو تو ان کا تحریری بیان پیش کر دیجیے۔

    ’’(راس مسعود) کھانے کے بڑے شوقین تھے۔ خوب کھاتے اور کھلاتے تھے۔ جب کوئی دعوت میں انگریزی کھانے کھلاتا تو بہت ناک بھوں چڑھاتے تھے۔۔۔‘‘ ص۱۶۷

    ’’(محسن الملک) لیکن کھانا ان کا وہی ہندوستانی رہا۔ اسے نہ بدل سکے۔ یہ چٹخارے انگریزی کھانوں میں کہاں؟ نواب صاحب کھانے کے بڑے شوقین اور بہت نفیس اور عمدہ کھانا کھاتے تھے۔‘‘ ص۱۲۳

    ’’(میرن صاحب) کھانا بہت مزے کا اور سلیقے کا ہوتا تھا۔‘‘ ص۱۷۷

    ’’(مرزا حیرت) ایرانی کھانے پکانا بھی خوب جانتے تھے۔‘‘ ص۱۵

    ’’(وحید الدین سلیم) کبھی صحت و صفائی کا خیال نہ رکھا اور نہ کبھی اپنے کھانے پینے کا کوئی معقول انتظام کیا وہ ان چیزوں کو جانتے ہی نہ تھے۔‘‘

    کوئی بھی ہو۔ مولوی صاحب خاکے کو مکمل ہی نہیں سمجھتے جب تک کھانے کا ذکر نہ کریں۔ اور بعض مقامات پر تو اس طرح ذکر کیا ہے کہ منہ میں پانی بھر آتا ہے۔ آپ کہیں گے میں نے ساری باتیں چھوڑ کر کھانے ہی کا ذکر کیوں کیا؟ میں یہ کیوں بتاؤں کہ اس وقت بھوکا ہوں۔ مگر معاف کیجیے گا۔ مولوی صاحب نے مختلف خاکے مختلف اوقات میں مرتب کیے ہیں۔ یعنی ہر موقع پر کھانے کے ذکر کا باعث بھوک نہیں ہو سکتی۔

    کھانا اور کپڑا کچھ لازم و ملزوم سے ہو کر رہ گئے ہیں۔ اس لیے اگر مولوی صاحب کی پوشاک کے بارے میں جاننا چاہیں تو میں کہوں گا۔ ان کی تحریر اور اسلوب میں سلیقہ، شرافت، سادگی، صفائی اور نفاست ہے۔ حیران نہ ہوں شاید آپ نہیں جانتے کہ مولوی صاحب کے ظاہر اور باطن میں کوئی فرق نہیں ہے۔

    آپ محسوس کر رہے ہوں گے کہ میرا قلم قدرے شوخ ہوتا جا رہا ہے۔ قلم قصوروار ہے نہ میں، بلکہ مولوی صاحب کی شخصیت کا ایک لطیف پہلو یہ بھی ہے کہ وہ اپنی ظرافت اور بذلہ سنجی سے ہنس ہنس کر جیتے ہیں اور ہنسا ہنسا کر حوصلہ بڑھاتے ہیں۔ جس محفل میں بیٹھ جائیں ان کی ظرافت کی مہم چشم زدن میں اضمحلال کی کثافتوں کو دور کر دیتی ہے۔ آپ کتنے ہی پریشان کیوں نہ ہوں۔ ان کی صحبت میں سارے غم بھول جائیں گے۔ کیسی ہی پریشانی کیوں نہ ہو زندہ دل اور ظرافت ان کا ساتھ نہیں چھوڑتی۔ بلکہ میں تو سمجھتا ہوں شاید جان بھی اس وقت تک نہ دیں گے جب تک ایک مرتبہ ملک الموت کو ہنسا نہ لیں یا پھر اس کے برعکس حضرت عزرائیل کھسیا نہ جائیں۔ اس لیے کہ حسبِ موقع طنز و ظرافت دونوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ دونوں میں بڑا اعتدال ہے۔ شوخی عود کر آئے تو ضلع جگت سے بھی نہیں چوکتے لیکن کہیں بھی ابتذال پیدا نہیں ہوتا۔ میں صرف دو مثالوں پر اکتفا کروں گا۔ ظرافت شوخی کی حد تک کب تجاوز کرتی ہے۔ اور طنز نشتر کب بنتا ہے۔ اس کا اندازہ آپ خود کر لیجیے۔

    حیدرآباد دکن میں بلبلِ ہند سروجنی نائیڈو کی آمد پر چائے کا نوابانہ اہتمام کیا گیا۔ اور یہ بھی انتظام تھا کہ جو چائے وہ پسند کریں وہی پیش کی جائے۔ استفسار پر بلبل ہند نے مولوی صاحب کی طرف اشارہ کیا (جو قریب بیٹھے تھے) کہ ان سے پوچھو۔ مولوی صاحب نے ہنستے ہوئے بلبل ہند سے برجستہ فرمایا ہمیں تو ’’لپٹن‘‘ پسند ہے۔ سروجنی نائیڈو سے جواب نہ بن پڑا پھر بھی مسکرا کر اتنا ضرور کہا کہ تلخی نہ ہو۔ مولوی صاحب نے سنا نہیں سب کے ساتھ خود بھی قہقہہ لگاتے رہے۔

    کراچی میں ایک مشہور مصنف مولوی صاحب کے پاس پہنچے۔ انہیں اپنے بارے میں کچھ مغالطہ ہو گیا تھا۔ اس لیے مولوی صاحب ان سے کچھ خفا تھے۔ انہوں نے مولوی صاحب سے فرمایا کہ اپنی زندگی کے کچھ حالات بتائیں۔ اور ارادہ ظاہر کیا کہ مولوی صاحب پر کتاب لکھنا چاہتے ہیں۔ وہ یہ بھول گئے کہ عنقارا بلند است آشیانہ۔ مولوی صاحب نے انہیں جواب دیا۔ ’’بھائی مجھ پر لکھ کر کیا کروگے۔ اب تک جتنی زندگی گزاری سوچتا ہوں بے کار ضائع ہوئی۔ اور جو باقی بچی ہے اسے اب تم برباد کرنا چاہتے ہو؟‘‘

    مولوی وحید الدین سلیم کے ذکر میں رقم طراز ہیں کہ۔۔۔

    ’’مولانا بڑے زندہ دل اور ظریف الطبع تھے، یہاں تک کہ بعض اوقات ظرافت میں حد سے تجاوز کر جاتے تھے۔‘‘

    سر سید کے بارے میں لکھا ہے کہ۔۔۔

    ’’زندہ دلی ان کی فطرت تھی۔ وہ اپنے بعض ہم عصر بے تکلف دوستوں سے بڑی دل لگی اور شوخی کی باتیں کرتے تھے۔ بلکہ بعض چھوٹوں سے بھی نہیں چوکتے تھے۔ یہ زندہ دلی ان کی کٹھن کام میں سہارے کا کام دیتی تھی۔‘‘ ص۱۹۳

    آخری فقرے سے اندازہ ہوگا کہ مولوی صاحب ظرافت سے کیا کام لیتے ہیں۔ ظرافت کے معاملے میں وہ سر سید کے صحیح جانشین ہیں۔ سر سید سے متعلق ایک بات اور بھی لکھی ہے کہ۔۔۔

    ’’بعض اوقات وہ لڑکوں کی سی شرارتیں کر بیٹھتے تھے جو باتوں سے بڑھ کر عمل تک پہنچ جاتی تھیں۔ میں اگر ان کا ذکر کروں تو شاید بعض سنجیدہ مزاج حضرات ناک بھوؤں چڑھائیں۔ اس قسم کی حرکتیں زیادہ تو مولوی سید زین العابدین سے ہوتی تھیں، جو سید صاحب سے بڑی عقیدت اور خلوص رکھتے تھے۔‘‘ ص۱۹۳

    یہ بات بھی مولوی صاحب کے بارے میں حرف بحرف صحیح نکلے گی۔ بشرطیکہ مولوی ہاشمی فرید آبادی صاحب چھپانا نہ چاہیں؟

    مولوی صاحب کی شخصیت کا سب سے درخشاں پہلو ان کی انسانیت ہے۔ اس معاملے میں حالی کے بہت مداح ہیں۔ ’’سر سید کی جماعت میں بہ حیثیت انسان کے مولانا حالی کا پایہ بہت بلند تھا۔ اس بات میں سر سید بھی انہیں نہیں پہنچتے۔‘‘ ص۱۳۳

    مولوی صاحب انسانیت کے اعتبار سے حالی ثانی ہیں۔ ’’چند ہم عصر‘‘ کی تمام شخصیتوں سے انہوں نے خود کیا کیا سیکھا اس کا احاطہ اس مختصر مضمون میں ممکن نہیں، اس لیے صرف چند اشاروں پر اکتفا کی جاتی ہے۔ حالی کے بعد ان کی شخصیت سب سے زیادہ سر سید سے متاثر ہوئی ہے۔ بلکہ بلامبالغہ کہا جا سکتا ہے کہ۔۔۔

    ’’اگر سر سید کے دماغ اور حالی کے دل کا ایک صالح امتزاج دیکھنا ہو تو مولوی عبد الحق کے علاوہ کوئی اور شحصیت نظر نہیں آتی۔ وہ سر سید جن کا میدانِ عمل قومی زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی تھا۔ ایسا جامع صفات اور جامع حیثیات بے لوث، بے نفس پر عزم و استقلال سراپا خلوص و صداقت اور ہمہ تن ایثار مصلح ہمیں اس سے پہلے اور نہ اس کے بعد نصیب ہوا۔۔۔‘‘ ص۲۸۳

    اور وہ حالی

    جن کی سیرت کی دو ممتاز خصوصیات تھیں۔ ایک سادگی اور دوسری درد دل۔۔۔‘‘ ص۱۳۳

    مولوی عبد الحق نے اردو اور قوم کی خدمت کے لیے اپنی ساری زندگی وقف کر کے ثابت کر دیا کہ قومی ہمدردی اور ایثار کے معاملے میں وہ سر سید کے حقیقی جانشین ہیں۔ اور انسان دوستی اور درد دل کے میدان میں حالی کی یاد تازہ کر دیتے ہیں۔

    بلکہ حالی سے اس قدر متاثر ہیں کہ بعض اوقات ان کادل دماغ پر غالب آتا ہے۔ اور بدتوفیق اور خودغرض افراد انہیں بہ آسانی جُل دے جاتے ہیں۔

    انہیں انسانیت سے والہانہ عشق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی کو غمزدہ نہیں دیکھ سکتے اور جب تک اس کے مسکرانے کا سامان نہ کردیں چین سے نہیں بیٹھتے، فیاضی کا یہ اندازہ انہیں دل سے پسند ہے۔

    ’’سر سید بڑے فیاض اور سیر چشم تھے۔ غریبوں، مستحقوں اور مفلوک الحال شرفا کی ہمیشہ مدد کی۔ اکثر اس طرح دیتے تھے جس پر یہ قول صادق آتا ہے کہ، ’’داہنے ہاتھ سے یوں دے کہ بائیں ہاتھ کو خبر نہ ہو۔‘‘ ص۲۷۱

    اور مولوی سید علی بلگرامی کے لیے کس محبت سے لکھا ہے کہ۔۔۔

    ’’سب سے زیادہ اس کے غریب دوست اس کا ماتم کریں گے۔‘‘ ص۱۰۰

    خود مولوی صاحب کی فیاضی کا یہی عالم ہے۔ جو لوگ ان کے قریب رہ چکے ہیں۔ وہ بخوبی واقف ہوں گے کہ مرزا حیرت کی یہ بات انہیں کس قدر اور کیوں پسند ہے کہ۔۔۔

    ’’ان کی نظروں میں روپے کی کچھ حقیقت نہ تھی سوا اس حالت کے جبکہ وہ کسی بے کس مظلوم کی امداد میں خرچ کرتے۔۔۔‘‘ ص۱۴

    طمع اور حرص کو کتنا برا سمجھتے ہیں اس کا اندازہ جابجا ایسے فقروں سے ہوتا ہے۔۔۔

    ’’(مولوی سید علی بلگرامی) حسبِ جاہ میں ایسی باتیں کر گزرتے تھے جو ان کے شایانِ شان نہ ہوتی تھیں۔۔۔‘‘ ص۹۱

    خود دیانتدار سچے اور نیک دل ہیں اس لیے دوسروں پر اعتماد کرنے میں انہیں ذرا تکلف نہیں ہوتا۔ ان کی زندگی ہمدردی، خلوص اور محبت سے عبارت ہے۔ اس لیے جہاں ان کا شائبہ بھی نظر آیا۔ مولوی صاحب بچھ جاتے ہیں۔ وضعداری گھٹی میں پڑی ہے۔ اس لیے دوستی نبھانا خوب جانتے ہیں۔ یہ خوبی اتنی پسندیدہ ہے کہ جابجا اسے سراہا ہے۔

    ’’اِن کے دوست بہت کم تھے۔ شاید دوچار ہی ہوں گے۔ مگر جن کے دوست تھے دل سے تھے۔ دوستی کے بڑے پکے اور وضعدار تھے۔‘‘ ص۱۰۳

    مگر یہ ساری ایسی خوبیاں ہیں جو فی زمانہ خامیاں متصور ہوتی ہیں۔ انسان دوستی اور دردِ دل ان کی ایسی کمزوریاں ہیں کہ وہ مگرمچھ کے آنسو پوچھنے میں بھی تامل نہیں کرتے۔ ایسے ہی مواقع پر ان کی سادہ لی، سادہ لوحی بن جاتی ہے۔ اور کہا جاتا ہے کہ مصلحت اندیش اور مردم شناس نہیں ہیں۔ مگر وہ کریں بھی تو کیا کریں کہ انکار کا دل ہی نہیں پایا۔ خیر کا معاملہ ہو تو جو چاہیں بخش دیں انہیں زیبا ہے۔

    صداقت، دیانت اور شرافت کے پرستار ہیں، بددیانتی اور بدطینتی ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ یہ بات مرزا حیرت کے لیے نہیں کہی بلکہ اپنے لیے کہی ہے کہ۔

    ’’وہ ہر ایک چیز سے درگذر کر سکتے تھے۔ مگر جھوٹ، ریا اور دغا کے متحمل نہیں ہو سکتے تھے۔‘‘ ص۱۲

    نور خاں کی شخصیت میں ایسی خوبیوں کو بہت سراہا ہے۔

    ’’سچائی بات کی اور معاملے کی ان کی سرشت تھی۔‘‘ ص۱۱۳

    ’’حساب کے کھرے، بات کے کھرے اور دل کے کھرے تھے۔‘‘ ص۱۴

    مولوی صاحب خود انہیں اصولوں پر کاربند ہیں۔ ان کی حق پرستی، حق گوئی اور بے باکی کو دیکھ کر سعدی کا قول غلط معلوم ہوتا ہے کہ دروغ مصلحت اندیش بہ از راستی فتنہ انگیز۔ اس لیے دروغ اور مصلحت اندیشی نیز راستی اور فتنہ انگیزی ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ اور مولوی عبد الحق حقیقی معنوں میں اسم بامسمیٰ ہیں۔

    ’’وہ نفاست، بے باکی، استقلال اور وضعداری کا ایک ایسا مجسمہ ہیں جس میں تاج محل کا جمال بھی ہے۔ اور ابو الہول کا جلال بھی۔ ان کی شخصیت میں قطب مینار کا بانکپن بھی ہے اور الورا کے تیور بھی، محبت اور شفقت ان کا خمیر ہے۔ لیکن خفا ہونا بھی ایسا جانتے ہیں کہ ان کے جلال کے سامنے آفتاب بھی منہ چھپالے۔ طبیعت میں بلا کی خودداری ہے۔ اور یہ جوہر دل سے عزیز ہے۔‘‘ (نور خاں) خوددار ایسے تھے کہ کسی کے ایک پیسے کے روادار نہ تھے۔‘‘ ص۱۱۳

    لیکن اس خودداری کی وجہ سے خود مولوی صاحب نے کتنی تکلیفیں اٹھائیں ہوں گی۔ ان کا اندازہ ذیل کے فقروں سے کیجیے،

    ’’سچ ہے انسان کی برائیاں ہی اس کی تباہی کا باعث نہیں ہوتیں بعض اوقات اس کی خوبیاں بھی اسے لے ڈوبتی ہیں۔‘‘

    ’’ایسی خودداری اور نازک مزاجی پر ترقی کی توقع رکھنا عبث ہے۔‘‘ ص۱۰۷

    پھر بھی انہیں خودداری سے گلہ نہیں اس لیے کہ جانتے ہیں کہ یہ جوہر شرافت ہے۔ انگریزوں نے حکومت کے زعم میں اس کی قدر نہ کی تو انہیں ان کی معذوری پر ترس آتا ہے کہ،

    ’’ایسے لوگ اپنی قوم والوں کی خودداری کو تو جوہر شرافت سمجھتے ہیں۔ لیکن اگر یہی جوہر کسی اور دیسی میں ہوتا ہے تو اسے غرور اور گستاخی پر محمول کرتے ہیں۔‘‘ ص۱۰۸

    حالی کی شخصیت سے انہوں نے ضبط، تحمل اور غیرت کا بھی سبق لیا ہے۔ پچھلے دنوں ایک جگہ میزبانوں نے کھانے کے وقت نہ پوچھا تو مولوی صاحب کی غیرت نے گوارا نہ کیا کہ خود طلب کر لیں۔ چونکہ ترتیب مقصود تھی۔ اس لیے طلبا کو خطاب کرتے وقت فرمایا۔ ضبط و تحمل بڑی نعمتیں ہیں۔ آپ لوگوں کو اس کی عادت ڈالنی چاہیے۔ مثلاً، ’’اگر کبھی آپ کا میزبان کھانے کے وقت نہ پوچھے تو قطعاً پروا نہ کرنی چاہیے۔ اور کام سے جی نہ چرانا چاہیے۔‘‘

    متلون مزاجی ناپسند ہے۔ اس کمزوری پر کسی کو نہیں بخشے۔ مولانا محمد علی کی یہ بات انہیں ناگوار تھی۔ مولوی سید علی بلگرامی کے لیے بھی لکھا ہے کہ ’’مرحوم میں ایک بڑا نقص یہ تھا کہ وہ متلون مزاج تھے۔‘‘ ص۹۱

    وہ شخصیت کی عظمت کو اس میں مضمر سمجھتے ہیں کہ اس میں پارس پتھر کی سی خاصیت ہو۔ جو دوسروں کو بھی کندن بنا دے۔

    ’’(محسن الملک) ان میں پارس پتھر کی خاصیت تھی۔ کوئی ہو، کہیں کا ہو۔ ان سے چھوا نہیں اور کندن ہوا نہیں۔‘‘ ص۶۶

    ’’(سید محمود) اس عالم کا یہ قانون ہے کہ قوی ترشے اپنے سے کم قوی کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ اس لیے مولوی چراغ علی بھی خود بخود امام وقت کی طرف جھکے اور وحدتِ ذوق سر سید سے ان کے تعارف کا باعث ہوئی۔‘‘ ص۳۱

    مولوی صاحب ایک عظیم انسان ہیں۔ اس لیے انہیں عظمت اور انسانیت دونوں سے محبت ہے۔ انہوں نے بزرگوں کی آنکھیں دیکھی ہیں۔ اور ان سے فیض اٹھایا ہے۔

    ان کے تصورِ انسانیت اور نظریۂ اخلاق میں سوائے صداقت کے کچھ اور نہیں۔ ایسی صداقت جو اٹل ہے اور زمان و مکان کے تغیرات اسے بدل نہیں سکتے۔ ان کی تحریروں سے ان کے مختلف رجحانات کی حقیقت مترشح ہوتی ہے۔ مثلاً کیا اس سے کبھی انکار کیا جا سکتا ہے، کہ۔۔۔

    اخلاق سے صرف یہی مراد نہیں ہے کہ آدمی دوسروں سے خندہ پیشانی سے پیش آئے، خاطر مدارات کرے، وقت پر کسی حاجت مند کی حاجت روا کردے، زبان و قلم سے ہمدردی کا اظہار کرے یا جیسا کہ اکثر تعریف کے طور پر کہا جاتا ہے۔ ’’مرنجاں مرنج ہو اخلاق کی حدود اس سے بہت آگے تک ہیں۔ عزم و استقلال، ضبط و تحمل، جرأت (خصوصاً اخلاق جرأت) کام کی لگن، فرض شناسی، دیانت، صداقت، رواداری، انصاف، ہمدردی، ایثار، انسان کے اصل جوہر ہیں۔ ان سب میں ایثار کا درجہ سب سے اعلیٰ ہے۔ یعنی ذاتی اغراض پر قومی مفاد کو ترجیح دے۔ اپنے بھائیوں کے دکھ درد کو اپنا دکھ درد سمجھے۔ انتہا یہ ہے کہ اپنے آپ کو بھول جائے۔ انسانیت اس سے عبارت ہے۔‘‘

    یہ محض قول نہیں بلکہ مولوی صاحب کی زندگی اس کی عملی تفسیر ہے جو ان کا ظاہر ہے وہی ان کا باطن ہے۔ جو بات دل میں ہے، وہی زبان پر ہے۔ جو سادگی اور شرافت قلب میں ہے وہی زندگی میں ہے۔ اور جو بات زندگی میں ہے، وہی تحریروں میں۔

    ’’سب سے زیادہ ان کی شخصیت کا اندازہ ’’چند ہمعصر‘‘ سے ہوتا ہے۔ شخصیت اور سیرت کا جو معیار اس کتاب سے مستنبط ہوتا ہے وہی خود مولوی صاحب ہیں۔ دونوں اس حدتک ہم آہنگ ہیں کہ جو لوگ مولوی صاحب کی سیرت اور کردار کے بارے میں جاننا چاہیں ان سے کہا جا سکتا ہے۔ کیا تم نے ’’چند ہمعصر‘‘ نہیں پڑھی؟‘‘

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے