Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

میر اور ہم

مجنوں گورکھپوری

میر اور ہم

مجنوں گورکھپوری

MORE BYمجنوں گورکھپوری

    جانے کا نہیں شور سخن کا مرے ہرگز
    تا حشر جہاں میں مرا دیوان رہےگا
    میر

    عبوری دور اور اس کا انتشار و اختلال انسانی تمدن کی تواریخ میں کوئی نیا سانحہ نہیں ہے۔ معاشرتی رستخیز، ہمار ی زندگی کے ارتقاء کا ادنی منظر رہا ہے۔ زمانہ قبل تاریخ سے لے کر اس وقت تک ہماری زندگی نہ جانے کتنے انقلابات دیکھ چکی ہے اور کوئی انقلاب ایسا نہیں ہوا جو اپنی تمام غارت گر یوں کے ساتھ نئی دین نہ لایا ہو۔ لیکن زندگی کی ہر سمت میں جس بحرانی منزل سے آج ہم گزر رہے ہیں، ماضی میں اس کی دوسری مثال انسانی تواریخ شاید نہیں پیش کر سکتی۔

    ہم آج ایسے زمانہ میں سانس لے رہے ہیں جس میں انسانیت کے مقدر کا فیصلہ ہو رہا ہے۔ ہم کو یقین ہے کہ یہ بحران ہمیشہ قائم رہنے والا نہیں اور جب یہ ختم ہوگا تو ہماری زندگی نئی سعادتوں سے معمور ہوگی۔ لیکن فی الحال ہم کچھ مخبوط سے ہو رہے ہیں اور جہاں تک زندگی کی قدروں کا تعلق ہے، ہماری قوت فکروعمل کچھ ماؤف سی ہو رہی ہے۔ ہم اعتماد کے ساتھ کوئی قطعی فیصلہ نہیں کر سکتے کہ کن قدروں کو قبول کریں اور کن کو رد کرکے طاق نسیاں کے حوالے کریں۔

    ماضی، حال اور مستقبل کے تصورات اور ان کی اہمیت کا صحیح ادراک اس وقت ہمار ے ذہن میں کچھ الجھ کر رہ گیا ہے اور ہماری فکری قوت اکثر ایک سمت میں حرکت کرنے لگتی ہے۔ کچھ لوگ ساری اچھائیاں اور تمام عظمتیں صرف ماضی میں پاتے ہیں۔ کچھ ہیں جو حال ہی کو سب کچھ دیکھتے ہیں اور کچھ ایسے ہیں جو حال سے ناآسودہ ہوکر مستقبل کے تصور اور اس کی تعمیر کے خیال میں اس قدر محوہیں کہ وہ حال اور ماضی دونوں کو نقش باطل سمجھتے ہیں۔

    اس آخری جماعت میں زیادہ تر تو ایسے لوگ ہیں جو نہ حال کا صحیح جائزہ لے سکتے اور نہ یہ قابلیت رکھتے کہ مردہ ماضی اور زندہ ماضی میں فرق کریں اور ماضی کی زندہ اور صالح میراث کوحال میں جذب کرکے نئے اور روشن مستقبل کی تعمیر کا ترکیبی جزو بنائیں۔ صرف گنتی کے لوگ ہیں جو ماضی کی اہمیت، حال کی قدر اور مستقبل کی خوش آئندگی اور کامرانی اور پھر تینوں کے ناگزیر تعلق اور تسلسل کا صحیح علم اور درک رکھتے ہیں۔ ہم کو یقین ہے کہ یہ گنتی کی تعداد روز بروز بڑھتی جائےگی۔ ہماری مستقبل کی امیدیں ایسے ہی لوگوں سے وابستہ ہیں۔

    ہم کو زندگی کی موجودہ ناکارہ اور نقصان پہنچانے والی روایتی قدروں اور بے جان مسلمات اور مفروضات سے یقیناً بغاوت کرنا ہے، لیکن اس کے لئے تمام بنی نوع انسان کی معاشرت اور تہذیب کی تواریخ کا مطالعہ ضروری ہے۔ مطالعہ کے معنی صرف کتابیں پڑھ لینا نہیں ہیں بلکہ پڑھ کر زندگی کی تواریخی رفتار کو سمجھنا اور اس میں درک حاصل کرنا ہے۔

    زمانہ ایک حرکت دوام کا نام ہے جس کی تقسیم نہیں کی جا سکتی۔ تواریخ ایک مسلسل رفتار ہے جس کو کسی نقطے پرروکا نہیں جا سکتا۔ زندگی ایک بے اور چھور بہاؤ ہے جس میں گرہیں نہیں باندھی جا سکتیں۔ انسان ایک ایسا مسافر ہے جو روز آفرینش سے لے کر (اگرتاریخ میں کوئی ایسا روز ہوا ہے) آج تک نہ جانے کتنے مناظر اور مقامات سے گزر چکا ہے اور ابھی اس کولا متناہی منزلوں سے گزرنا ہے۔ معاشرت اور تمدن کی ہر منزل پر انسان نے کچھ نہ کچھ پایا ہے جس میں سے بہت کچھ پیچھے چھوڑ کر لیکن کافی حصہ ساتھ لے کر وہ آگے بڑھا ہے۔

    ’’چینی انسان‘‘ (Sinan thorpus) ’’نینڈرتھل‘‘ (Neanderthal man) اور ’’وحشی انسان‘‘ کی کتنی خصوصیتیں اور ان کی زندگی کی کتنی علامتیں کلدان، آشورما، بابل، ایران، چین، مصر اور ہندوستان کی پرانی مہذب نسلوں کو ترکے میں ملیں اوران نسلوں کی زندگی کے آثار آج کی ترقی یافتہ قوموں میں آبائی میراث کے طور پر موجود ہیں؟ اس سوال کا جواب دینے کے لئے بڑے وسیع مطالعہ اور بڑی گہری اور بلیغ فکر و بصیرت کی ضرورت ہے۔ ہم کو ماضی کی میراث سے بہت کچھ جواہر پاروں کو اپناکر نیا سرمایہ بنانا ہے لیکن بہت سے حصے کو کوڑا کرکٹ سمجھ کر پیچھے چھوڑ دینا بھی ہے۔ ہم کو رد بھی نہیں کرنا ہے اور قبول بھی کرنا ہے۔ ہم کو تسلیم اور اجتہاد دونوں سے کام لینا ہے۔ یہ موضوع اپنی جگہ خودبہت وسیع ہے اور طویل بحث چاہتا ہے۔ لیکن چونکہ مجھے میر کی شاعری سے اس وقت واسطہ ہے، اسی لئے اس ردوقول اور تسلیم و اجتہاد کے مسئلہ پر صرف بطور تمہید کے کچھ کہنے کی گنجائش نکال سکا۔

    شاعری ہو یا اور کوئی فن، ایک فکریاتی عمل یا حرکت ہے جس کے ذریعہ متمدن انسان کے جذبات و خیالات جو اس خاص دور کے معاشرتی نظام کی نمائندگی اور آئندہ دور کی طرف اشارہ کرتے ہیں، اپنے کو جمالیاتی تصویروں کے ذریعہ ظاہر کرتے ہیں۔ اجتماعی شعور کے اظہار کے مختلف طریقوں میں سے ایک طریقہ کا نام شاعری ہے۔ یہ اظہار شعوری ہو یا غیرشعوری، لیکن اضطراری یا میکانکی کبھی نہیں ہوتا۔ تخلیقی فن ایک مرکب اور پیچیدہ جدلیاتی عمل کے ذریعہ حقیقت کو نیا جنم دیتا ہے۔

    اگر غور کیا جائے توہر دور میں شعوری یا غیر شعوری طور پر براہ راست یا بالواسطہ اعلی قسم کی شاعری کی روح رواں اور تصادم اور پیکار رہا ہے جوشاعر خارجی اسباب و حالات میں محسوس کرتا ہے اور خارجی اسباب کو بدلنے اور اس کو نیا اور بہتر روپ دینے کی چھپی یا کھلی ہوئی مگر شدید آرزو ہی کا نام شاعری ہے۔ اسی لئے شاعری میں ایک تخیلی میلان بھی اہم ترکیبی جزوتسلیم کیا جائےگا۔ ہمارے دور سے پہلے انقلاب کی یہ آرزو شاعری میں شعوری اور سطحی طور پر محسوس نہیں ہوتی تھی۔ آج ہماری یہ آرزو واضح، منظم اور بیباک ہوکرعلی الاعلان کام کر رہی ہے اور یہ ایک خوش آئند علامت ہے۔

    میں نے اب تک جو کچھ کہا ہے اس کی روشنی میں میر کی شاعری کو پڑھنے اور سمجھنے کے لئے بہت ضروری ہے کہ ان کے زمانہ کے معاشرتی ماحول اور ان اسباب وحالات پر جن کے اندر رہ کر میر کی شخصیت کی تعمیر ہوئی، مفصل نظر نہ سہی مگر وقیع نگاہ ضرور ڈالی جائے۔ ہر شخص کی چاہے وہ کتنا ہی ادنی اور ناقابل لحاظ کیوں نہ ہو، دوہری تاریخ ہوتی ہے۔ ایک تو شخصی اور دوسری معاشرتی یا اجتماعی۔

     میر کا زمانہ وہ تھا جبکہ سارے ملک میں ایک مستقل تہلکہ مچا ہوا تھا اور دلی جوکہ ملک میں وہی حیثیت رکھتی تھی جو کہ جسم کے اندر دل رکھتا ہے، طرح طرح کے جاں گسل صدمے برداشت کر رہی تھی۔ آٹھ سو برس پرانی تہذیب کی بنیادیں ہل گئی تھیں اور جو نظام معاشرت صدیوں سے مستحکم چلاآ رہا تھا اس کے تمام ستون جڑ چھوڑ چکے تھے اور ڈگمگا رہے تھے اور کسی ایسے نئے نظام کا جو صحت بخش اور امید افزا ہو، دور تک پتہ نہیں تھا۔ ملک میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک نراج پھیلا ہوا تھا جس سے صرف سمندر پار کی قومیں فائدہ اٹھا رہی تھیں اور اپنا اقتدار بڑھا رہی تھیں۔ اہل وطن پر ایک ادبار چھایا ہوا تھا جو ہماری آئندہ غلامی کا پیش خیمہ تھا۔

    یہ تھا میر کا زمانہ اور ماحول۔ ایسے پر انتشار دور میں ایک بڑا خطرہ یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کا عام میلان تصوف یا قنوطیت یا کسی دوسری قسم کی فراریت کی طرف ہو جاتا ہے۔ میر کے دور کے تمام شعراء اپنے دور کی پوری نمائندگی کرتے ہیں۔ چھوٹے سے چھوٹے شاعر سے لے کر خواجہ میر درد، میر اور سودا تک سب کی آوازوں میں کہیں دبی اور کہیں ابھری، کبھی زیر لب اور کبھی کھلے ہوئے شدید طنز کے ساتھ زمانے کی شکایت اور زندگی سے بیزاری کی علامتیں ملتی ہیں۔ یعنی یہ تمام شعرا اپنے زمانے کے حالات سے ناآسودگی کا اظہار کرتے ہیں۔ مگر سودا اور میر کو چھوڑ کر بیشتر شعرا کے اندر شکست خوردگی کا افسردہ کن احساس کام کرتا ہوا معلوم ہوتا ہے، جس سے ان کے لب ولہجہ میں دردمندی کے ساتھ ساتھ ایک چھائی ہوئی اداسی آ گئی ہے۔ سودا کے ہاں البتہ ہم کو غزلوں میں اکثر کچھ ترکانہ انداز اور قصیدوں میں ایک تمسخر آمیز پیرایہ میں ڈانٹ پھٹکار مل جاتی ہے۔ لیکن سودا دوسرے قماش کے آدمی تھے اور میر کے مزاج و طبیعت کا انداز دوسرا تھا۔

    میر کے زمانے میں جو عام ابتری پھیلی ہوئی تھی اس کی طرف اشارہ کیا جا چکا ہے۔ مزید تفصیل کے لئے تواریخ کے اوراق موجود ہیں۔ اس تمام فساد وتخریب سے میر جیسی حساس اور پر تامل شخصیت اثر قبول کئے بغیر نہ رہ سکتی تھی۔ اسی کے ساتھ ساتھ میر کو اپنی ذاتی اور خانگی زندگی میں بھی جن حادثات کا مقابلہ کرنا پڑا وہ کم نہ تھے۔ میں ان ذاتی حالات و اسباب کا، جنہوں نے میر کی زندگی کو ایک مستقل سولی بنا رکھا تھا، ذکر اپنے اس مضمون میں کر چکا ہوں جو اول اول ایوان بابتہ جنوری ۱۹۳۵ء میں شائع ہوا تھا اور جو بعد کو میرے مجموعے ’’تنقیدی حاشیے‘‘ میں شامل کیا گیا۔ ان تمام سماجی اور معاشرتی اور شخصی اور ذاتی حوادث اور واردات کو سامنے رکھئے اور میر کی شاعری کا خاص کر ان کی غزلوں کا مطالعہ کیجئے تو معلوم ہوگا کہ میر کی آواز انتہائی شائستگی اور وقار کے ساتھ اپنے زمانے کے سارے کرب و اضطراب کو ظاہر کر رہی ہے۔

    میر ان بزرگوں میں سے نہیں تھے جو وقتی چہلوں اور عارضی خوش فعلیوں میں غم غلط کر لیتے ہیں۔ ان کا خاندان عالموں اور درویشوں کا خاندان تھا اور آنکھ کھولتے ہی انہوں نے اپنے باپ دادا کو انسانی زندگی پر عبرت اور تامل کی نگاہ ڈالتے ہوئے دیکھا۔ بچپن سے اپنے گھر میں شعروسخن کے ساتھ ساتھ عشق و معرفت کے چرچے سنتے رہے۔ گردوپیش کی تمام فتنہ آلودفضا پر نظر رکھئے اور پھر میر کے اپنے ماحول و تربیت کو بھی نہ بھولئے تو میر دنیا کی ان بڑی شخصیتوں میں شمار کئے جانے کے قابل ہیں جو آئندہ نسلوں پر اثر ڈال کران کی زندگی کا رخ متعین کرتی ہیں۔

    اس سلسلہ میں سب سے بڑی بات جو قال لحاظ ہے، وہ یہ ہے کہ باوجود اس کے کہ میر صوفیوں اور درویشوں کے گھرانے میں پیدا ہوئے اور سن شعور کو پہنچے، لیکن ان کی شاعری میں تصوف اور معرفت کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتے۔ گنانے کے لئے ان کی کلیات میں کچھ ایسی غزلیں اور ایسے اشعار مل جائیں گے جن کو معرفت اور تصوف کی تحت میں لایا جا سکے۔ مگر یہ میر کی وہ کوششیں ہیں جن کا تعلق میر کے اپنے شعور شعری سے نہیں ہے، بلکہ شاعری کے مروجہ روایات اور مفروضات سے ہے۔ میر کی اپنی دھن کچھ اور ہے۔

    میر کے بارے میں عام رائے یہ ہے کہ وہ یاس پرست تھے اور ان کی شاعری پر قنوطیت چھائی ہوئی ہے۔ وہ زندگی اور عشق دونوں کے حوصلے ہم سے چھین لیتے ہیں۔ مجھے اس رائے سے ہمیشہ اختلاف رہا۔ میر اپنے دور کی بدحالی اور اپنے نجی سانحات زندگی سے بغاوت کی حد تک ناآسودہ تھے اوران کے بیشتر اشعار پر اگر گہری نگاہ ڈالی جائے تو ان کے لہجے میں بغاوت کا ایک مہذب اور پرتمکنت احساس ملےگا۔

    ہر دور میں بڑا شاعر وہی ہوتا ہے جو اپنے زمانہ کی کشاکشوں کا خودداری اور وقار کے ساتھ رچے ہوئے اشاروں میں اظہار کرے، لیکن شعر کو پروپگنڈانہ ہونے دے۔ اسی کے ساتھ ساتھ شاعری کی عظمت کی ایک پہچان یہ ہے کہ وہ آئندہ نسلوں کے اندر بغیر واعظانہ یا مبلغانہ انداز اختیار کئے ہوئے یہ احساس پیدا کر سکے کہ ان کو بھی اپنے زمانے کی نئی مشکلوں اور پیچیدگیوں کا خود اعتمادی کے ساتھ مقابلہ کرنا ہے اور یہ بتائے کہ ہم نے اپنے زمانے کے دکھ درد اور طرح طرح کی خرابیوں کا سامنا جس طرح ہم سے ہو سکا کیا۔ اب تم اپنے دور کی نئی مشکلوں اور اپنی زندگی کے نئے مسائل کا سامنا جس طرح تم سے ہو سکے کرو، اور ان پر فتح پاکر اپنی زندگی کو جس جس طریقے سے ہو سکے سدھارو۔ زندگی یا ادب میں پرانے زمانے کی بلند وبزرگ ہستیوں سے ہم بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں، لیکن ہم کو ان کی نقل کرنا نہیں ہے۔ اس لئے کہ ان کے زمانہ کے مسائل کچھ اور تھے، ہمارے زمانے کے مسائل کچھ اور ہیں۔ جو طریقے انہوں نے اختیار کئے ان سے ہمارا کام نہیں چلےگا۔

    میر غزل گو شاعر تھے، اور غزل میں آج تک کوئی مرتب اور منضبط پیغام نہیں دیا جا سکا۔ غزل گو عام طور سے عشق ومحبت کی زبان میں گفتگو کرتا ہے اور اگر کبھی زندگی کے دوسرے موضوع کا ذکر کرتا ہے تو بھی اس کے لہجے میں وہی سنجیدہ نرمی ہوتی ہے جوعشق کی زبان کی ایک نمایاں خصوصیت بتائی گئی ہے۔ اس لئے اگر کسی غزل گو شاعر کو اپنے زمانے سے کوئی شکایت یا بغاوت ہوتی تھی تو اس کا روپ ایسا بدلا ہوا ہوتا ہے کہ ہم صحیح طور پراس کو جان پہچان نہیں سکتے، لیکن اگر کوئی رمز شناس اور نکتہ رس مطالعہ کرنے والا ہو تو اس کو ہر بڑے غزل گو شاعر کے کلام میں ایک مستقل فکری جھکاؤ یا جذباتی میلان ملےگا جس کا تعلق اس کے زمانے اور ماحول سے ہوگا۔

    میر کے کلام کو اگر رک رک کر اور کافی غور سے پڑھا جائے تو اس کے اندر ہم کو ان کے زمانے کی ایک عناں گسیختہ فریاد کا احساس ہوتا ہے جو چیخ وپکار کی صورت نہیں اختیار کرنے پاتی۔ میر کے دور کے اور شعرا پر بہ استثناء سودا شاید یاس پرستی کا لفظ صادق آتا ہو۔ اس لئے کہ یہ شعراء بیشتر عشق اور روزگار کی اذیتوں سے عاجز ہوکر خودبے بسی کے عالم میں تڑپتے اور تلملاتے ہیں اور پڑھنے والے پر بھی کچھ ایسا ہی اثر پڑتا ہے۔ میر کے کلام میں تڑپنا تلملانا نہیں ہوتا۔ وہ خودداری اور سنجیدگی کے ساتھ بڑی سے بڑی مصیبت کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ پیدا کرتے ہیں۔

    آلام عشق کا ذکر ہو یا آفات روزگار کا، ان کے اشعار میں جلی یا خفی طور پر یہ اشارہ ضرور پایا جات اہے کہ نامساعد حالات واسباب کا جان پر کھیل کر مقابلہ کرو۔ چاہے مخالف قوتوں کے ہاتھ مٹ ہی کیوں نہ جانا پڑے۔ ان کا زمانہ وہ نہیں تھا جو ہمارا ہے۔ اس لئے وہ ’’قاتل‘‘ کے مقابلے میں تلوار سونت کرآنے اور بزن بولنے کی تحریک تو نہیں کر سکتے تھے۔ ان کا انداز تو وہی ہو سکتا تھا جس کو آج کل کی زبان میں مقاومت مجہولی کہتے ہیں اور جواب سے چند سال پہلے ہمارا زبردست حربہ تھا، لیکن میر کے کلام کو واقعی مجہولیت کی تعلیم کہنا درست نہ ہوگا۔ جو شخص خارجی اور شخصی آلام ومصائب کا مقابلہ ایک برتری کے تیور کے ساتھ کرے اور ایسا ہی کرنے کی ہم سب کو ترغیب دے، وہ مجہولیت محض کا قائل نہیں ہو سکتا۔

    بہرحال میر خود بڑے جری انسان تھے اور ان کاکلام ہم کو یہ تعلیم دیتا ہے کہ چاہے ہمارے سر سے خون کی موج ہی کیوں نہ گزر جائے، ہم کو’’جرأت رندانہ‘‘ نہیں بلکہ ’’جرأت مردانہ‘‘ کے ساتھ تمام صعوبتوں اور آزمائشوں کا مقابلہ ایک سورما کی طرح سے کرنا ہے، چاہے اس سلسلہ میں ہم کو شہید ہی کیوں نہ ہو جانا پڑے۔ میر نے اگر کبھی سر تسلیم خم بھی کیا ہے تو ایک فاتحانہ انداز کے ساتھ اور یہی فاتحانہ انداز اور پروقار تیور ہیں جو میر سے ہم کو ترکے میں ملے ہیں۔ جو لوگ میر کوشکست خوردہ اور یاس پرست سمجھتے ہیں وہ دھوکے میں ہیں۔ یاس پرستی یا یاس پرستی کی تعلیم میر کے مزاج سے کوئی واسطہ نہیں رکھتی۔ مٹتے مٹتے میر نے اپنے سر کو بلند رکھا۔ یہ اردو شاعری کی تاریخ کا معمولی واقعہ نہیں ہے۔ یہ ہمارے لئے سبق ہے۔ اس سے ہم یہ سیکھتے ہیں کہ پیچیدہ سے پیچیدہ اور خطرناک سے خطرناک حالات میں ہم اپنی اصلیت اور اپنے خیالات اور میلانات کے ناموس کو قائم رکھ سکتے ہیں۔ کچھ اشعار سنئے،

    دور بیٹھا غبار میر اس سے
    عشق بن یہ ادب نہیں آتا

    یہ شعر وہ شخص نہیں لکھ سکتا جس نے معشوق کی غیر مشروط غلامی قبول کر لی ہو۔ تیور کہتے ہیں کہ شاعرعاشق کو معشوق سے برتر سمجھتا ہے اور عشق کو حسن کا پرستار مانتے ہوئے بھی ایک فائق اور زیادہ تربیت یافتہ قوت مانتا ہے۔ دوسرا شعر یہ،

    پاس ناموس عشق تھا ورنہ
    کتنے آٓنسو پلک تک آئے تھے

    پلک تک آتے ہوئے آنسوؤں کو گرنے نہ دینا اور آنکھوں میں پلٹا لے جانا معمولی کام نہیں ہے اس کے علاوہ ذرا ’’ناموس عشق‘‘ پرغور کیجئےگا۔ شاعر کو حسن کی اتنی پرواہ نہیں ہے۔ وہ عشق کے ناموس کو بہرحال قائم اور سلامت رکھنا چاہتا ہے اور لہجہ اور تیور بتا رہے ہیں کہ اس کو اپنے عشق کے ناموس پر زیادہ اعتماد ہے۔ ایک اور شعر سنئے۔

    مرے سلیقہ سے میری نبھی محبت میں
    تمام عمر میں ناکامیوں سے کام لیا

    ناکامیوں سے کام لینا ہر شخص کے دل گردہ کی بات نہیں ہے۔ اس کے لئے بڑی جری شخصیت کی ضرورت ہے۔ یہ شعر پڑھ کر ناممکن ہے کہ بزدل سے بزدل اپنے اندر ایک نئی جرأت نہ محسوس کرنے لگے۔ مگر اسی شعر میں جرأت اور اعتماد کے علاوہ جو سب سے زیادہ اہم رکن ہے وہ ’’سلیقہ‘‘ ہے۔ ناکامیوں اور نامرادیوں سے کام لینے اور تمام مزاحم اور موانع کے باوجود اپنے مرکز پر قائم رہنے کے لئے بڑے سلیقہ کی ضرورت ہے۔ جو پھوہڑ، خودغرض اور بزدل انسان کی قسمت میں نہیں۔ یہ سلیقہ جواں مردوں اور صرف جواں مردوں کا حصہ ہے۔ شاید یہ شعر ہر صاحب ذوق کو یاد ہو۔

    نامرادانہ زیست کرتا تھا
    میر کا طور یاد ہے ہم کو 1

    یہ محض انفعالیت اور بیچارگی کی آواز نہیں ہے۔ پہلے مصرع میں ایک پندار محسوس ہوتا ہے جو تہذیب اور شائستگی کی تمام منزلوں سے گزر چکا ہو اور جو عام طور سے ایک مجاہد ہی کو زیب دیتا ہے۔ نامرادزندگی کا اس طرح ذکر کرنا کہ وہ بھی گویا اس کے سرکردہ مہمات اور فتوحات میں داخل ہے، بڑی مردانہ فطرت کی علامت ہے۔ ’’چاک گریباں‘‘ کے دو مضامین اردو غزل کے وسیع اور وافرخزانے میں شاید اپنی نظیر نہ رکھتے ہوں،

    ا ب کے جنوں میں فاصلہ شاید نہ کچھ رہے
    دامن کے چاک اور گریباں کے چاک میں

    پھاڑا تھا جیب پی کے مئے شوق ہم نے میر
    مستانہ چاک لوٹتے داماں تلک گئے

    دوسرے شعر میں ایک اور ولولہ اورایک نشاط کار کی جو سرمستی ہے وہ ہمارے اندر زندگی کی نئی تحریک پیدا کرتی ہے۔ ہمارا بھی جی چاہتا ہے کہ ہم بھی اپنی دیوانگی شوق میں وہی مستانہ انداز پیدا کریں جو میر کا انداز تھا اور ہمارے گریباں کے چاک بھی اسی طرح لوٹتے ہوئے دامن سے جا ملیں۔

    پہلے شعر پر اگر احساس و تامل کے ساتھ غور کیا جائے تو حال کی صورت پر، جو یقیناً حسب مراد نہیں ہے، ایک پرکیف اطمینان اور مستقبل کی ہیئت کے تصور پر جو شاید حال سے بھی زیادہ اپنے منصوبوں اور امیدوں کے برعکس ہو، اس امنگ اور ایسے رچے ہوئے ولولے کا اظہا زندگی کے کارزار میں تھکے سے تھکے اور ہارے سے ہارے مجاہد کے دل میں نیا ذوق عمل اور نشاط امید پیدا کر سکتا ہے۔ لیکن ان تمام باتوں کے لئے ضرور ی ہے کہ میر کی شاعری کی طرف ہم صحیح بصیرت اور دور رس قوت فکر اور نہایت لطیف اور نازک احساس کے ساتھ قدم اٹھائیں۔ یوں تو یہ شرائط کم وبیش ہر بڑے شاعر کے کلام کا مطالعہ کرنے کے لئے ضروری ہیں، لیکن میر کی نازک شخصیت اور اس سے زیادہ ان کی نازک شاعری کو سمجھنے اور ان سے صحیح اثرات قبول کرنے کے لئے ان شرطوں کے بغیرکام ہی نہیں چل سکتا، ورنہ اندیشہ ہے کہ ہم میر اور ان کی شاعری دونوں کو سمجھنے میں دھوکا کھائیں اور پھر عمر بھر دھوکے میں رہیں۔ یہ تو وہ مقام ہے جہاں۔ 

    شرط اول قدم آنست کہ مجنوں باشی

    نہیں تو میر ہی کا کہنا ہمارے بارے میں صحیح ہوگا کہ،

    افسوس تم کو میر سے صحبت نہیں رہی

    اب سے انیس سال یعنی پوری ایک نسل پہلے جب میں نے میر اوران کی شاعری پر مضمون لکھا تھا تو کچھ لوگ اس خیال سے بہت خوش ہوئے تھے کہ میں نے میر کی شاعری کی اصل روح پالی ہے اوران کے شعروں میں غم کو نشاط بنانے کی تحریک پاتاہوں اور کچھ لوگوں ک ایہ خیال تھا کہ میں نے خواہ مخواہ ایک خالص یاس پرست کو نشاطیہ شاعر کی حیثیت سے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ میں نے دراصل یہ سب کچھ نہیں کیا ہے۔ میرے پاس مضمون کا بھی مرکزی تصور وہی تھا جو اس مضمون کا ہے۔ ذرا تخیل سے کام لیجئے اور سمجھئے۔ ہم ایسے زمانے اور ماحول میں سانس لے رہے ہیں کہ زندگی کی کوئی آرزو پوری نہیں ہو سکتی اور صرف نامرادیوں کا مقابلہ ہے۔ ایسے اسباب وعوارض، ایسے حالات ومواقع چاروں طرف سے ہم کو گھیرے ہوئے ہیں کہ ہم اپنی زندگی کو خاطر خواہ سدھارنے اور فروغ دینے کی سست سے سست کوشش نہیں کر سکتے اور اگر کوئی کوشش کرتے بھی ہیں تو خارجی قوتیں ہم کو ایک دھکے میں مغلوب کر لیتی ہیں۔

    ایسی حالت میں کیا ہوگا۔ صرف تین صورتیں ممکن نظر آتی ہیں۔ کچھ لوگ تو ایسے نکلیں گے جو اک دم بھاگ کھڑے ہوں گے اور فرار اور پناہ گزینی کے گوشے ڈھونڈ کر وقتی اور جھوٹی خوش فعلیوں اور خوش باشیوں میں دن گزار دیں گے۔ زیادہ تر ایسے ہوں گے جو شکست کے صدموں سے کلیجہ پکڑکر بیٹھ جائیں گے اور ساری عمر ناطاقتی اور بےبسی کے عالم میں کراہتے اور روتے بلبلاتے رہیں گے، لیکن کچھ ہستیاں اسی تندی اور تاریکی کی فضا میں ایسی بھی مل جائیں گی جو شکست پر شکست کھانے کے بعد بھی اپنی گردنیں سیدھی اور اپنے سروں کو بلند رکھے ہوں اور اپنے جذبہ بغاوت کو اندر ہی اندر پرورش دے کراپنی تاب مقاومت کو بڑھا رہی ہوں۔ یہ اور بات ہے کہ اس جذبہ بغاوت اور اس تاب مقاومت کو تیور اور لہجے اور عام انداز کے سوا کسی دوسری شکل میں ظاہر نہ کیا جا سکے۔ میر کا شماراسی مؤخرالذکر کم تعداد جماعت میں ہوگا۔

    میر کو غم کا شاعر بتایا جاتا ہے۔ اگر اس سرسری اور مبہم رائے کو تسلیم کر لیا جائے تو داغ اور میر اور ان کے قبیل کے چند دوسرے شاعرو ں کو چھوڑکر اردو غزل کا کون شاعر ہے جوغم پرست نہیں اور جس کی آوازغم کی آواز نہیں۔ خاص کر میر کے دور میں جو اردو غزل کا سب سے بڑا دور مانا جاتا ہے، غم دوستی اور یاس پرستی ہر چھوٹے بڑے شاعر کے خمیر میں داخل تھی اور اس کے کلام کی اصل روح تھی۔ یہاں تک کہ سودا کی غزلوں کا بھی بیشتر حصہ غمناکی ہی کے رنگ میں ڈوبا ہوا ہے۔ سودا جیسا چنچل مزاج رکھنے والا جو قصیدہ اور ہجو کا بھی ایسا ہی ماہر ہو، جب اپنے زمانے کی دھندلی فضا کے دل بجھا دینے والے اثرات سے بچ نہ سکا تو ہم کسی اور کو کیا کہیں۔

    ایک بات اور بھی قابل لحاظ ہے۔ سودا کی ہجوؤں کو اچھی طرح غور سے پڑھئے تو پتہ چل جائےگا کہ وہ بھی اپنے زمانے سے شدید ناآسودگی ظاہر کر رہی ہیں۔ یہ دوسری بات ہے کہ یہاں غم نفرت اور حقارت کے جذبہ میں تبدیل ہو گیا ہے۔ جو بالآخر اشعار میں طنز ت، مسخر اور استہزا کی صورت میں نمودار ہو  رہے۔ اس سلسلہ میں یہ یاد رکھئے کہ طنز نگار اور مسخرا درپردہ سنجیدہ لوگوں سے زیادہ یاس پرست ہوتا ہے۔ اس کو زندگی میں کوئی حسین اور روشن پہلو نظر نہیں آتا، ورنہ وہ اپنے طنز اور ظرافت کے لئے مواد ہی نہ پائے۔ اس کے علاوہ سودا کے اکثر قصیدے جو نعت اور منقبت میں لکھے گئے ہیں ان کا لہجہ عام طور سے وہی ہے جو ان کی غزلو ں کاہے۔ خاص کر تشبیہیں تو ایسی ہوتی ہیں کہ غزل سے زیادہ عبرت و بصیرت کا احساس پیدا کرکے ہم کو زندگی کی تمام دنیوی قدروں سے دل برداشتہ کر دیتی ہیں۔ یہ سودا کا مزاج نہیں تھا، بلکہ ان کے زمانے کا مزاج تھا۔

    ہاں تو ہم کو یہ تسلیم کرنے میں تامل نہیں کہ میر غم کے شاعر ہیں۔ میر کا زمانہ غم کازمانہ تھا اور اگروہ غم کے شاعر نہ ہوتے تو وہ اپنے زمانے کے ساتھ دغا کرتے اور ہمارے لئے بھی اتنے بڑے شاعر نہ ہوتے۔ بعد کے ادوار کے لئے وہی بڑا شاعر ہوا ہے جو اپنے زمانہ کی سچی مخلوق ہو اور اس کی پوری نمائندگی کرے۔ لیکن میر اور ان کے دور کے دوسرے شاعروں کے درمیان آخر فرق کی اہے؟ اور وہ ہمارے لئے ایسے ناقابل تردید بڑے شاعر کیوں ہیں؟ بات یہ ہے کہ دوسرے یا توغم غلط کرنے کی کوشش میں لگ گئے یا غم کے شکار اور زندگی کے لئے بیکار ہوکر رہ گئے۔ میر نے غم کو نہ صرف ایک مقدر کی طرح تسلیم کر لیا، بلکہ غم کو زندگی کی ایک نئی قوت میں تبدیل کر دیا۔ ان کے مشہور چار مصرعے سنئے،

    ہر صبح غموں میں شام کی ہے میں نے
    خوننابہ کشی مدام کی ہے میں نے

    یہ مہلت کم کہ جس کو کہتے ہیں عمر 
    مرمر کے غرض تمام کی ہے میں نے

    یہ شکست خوردگی یا مغلوبیت یا وہ سپردگی نہیں جو انفعالیت کا نتیجہ ہوتی ہے۔ یہ وہ جذبہ بغاوت ہے جو نفس کی تربیت اور زندگی کی معرفت کی تمام منزلوں سے گزر کر ایک جوہری قوت یا عنصری تاثیر بن گیا ہے۔ میر ان لوگوں میں سے نہیں تھے جو ذاتی محرومیوں اور نامرادیوں میں اس طرح کھو جاتے کہ یہ ہوش باقی نہ رہتا کہ گردوپیش دوسروں پر کیا بیت رہی ہے۔ وہ اپنے اور دوسرے کے غم کو ’’غم عشق‘‘ کی زبان یعنی غزل کے روایتی اسلوب میں بیان کرتے تھے۔ لیکن ان کا پیغام تڑپنا تلملانا اور چھاتی پیٹنا نہیں ہے۔ وہ ان تمام آلام ومصائب میں بھی جو انتہائی شکست کا نتیجہ ہوتی ہے، سینہ تانے رہنے اور سر اونچا رکھنے کا حوصلہ ہمارے اندر پیدا کرتے ہیں۔ میر کا جو اندازاس شعر میں ہے وہی ان کی ساری شاعری کی تاثیر یا تعلیم ہے،

    سرکسو سے فرو نہیں ہوتا
    حیف بندے ہوئے خدا نہ ہوئے

    میر کے کلام کے مطالعہ سے ہمارے جذبات و خیالات اور ہمارے احساسات و نظریات میں وہ ضبط اور سنجیدگی پیدا ہوتی ہے جس کو صحیح معنوں میں تحمل کہہ سکتے ہیں۔ یہ وہ تحمل نہیں جو مجہولیت کا دوسرا نام ہے۔ یہ وہ تحمل ہے جو انسان کی فکری اور عملی قوت میں توازن اور تمکنت اور مزید توانائی پیدا کرتا ہے۔ اسی احساس کے ماتحت میں نے اپنے پہلے مضمون میں لکھا تھا کہ میر کے ’’بیان میں ایک ٹھہراؤ ہے جیسا کہ اس کے جذبات میں بھی ہے مگر یہ ٹھہراؤ بے بسی اور بیچارگی کا ٹھہراؤ نہیں ہے، بلکہ ضبط اور پندار کا ٹھہراؤ ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ اضطراب کی باگ تھامے ہوئے ہے جو اگر کہیں مچل جائے تو نہ جانے کتنوں کو مٹاکر رکھ دے۔‘‘

    میں اپنی کہی ہوئی بات کو پھر دوہراتا ہوں کہ میر نے غم عشق اورغم زندگی دونوں کو راحت اور مسرت بناکر زندہ رہنے اور مقابلہ کرنے کے تازہ دم حوصلے میں تبدیل کر دیا۔ ’’وہ درد کو ایک سرور اور الم کو ایک نشاط بنا دیتے ہیں۔ وہ ہمارے لئے زندگی کی ہیئتوں کو بدل دیتے ہیں۔‘‘ میں نے یہ پہلے بھی کہا تھا اور اب بھی کہتا ہوں۔ اسی لئے ان کے کلام کے مطالعہ سے وہ اثر پیدا ہوتا ہے جس کو میں مہذب اور رچی ہوئی مردانگی کہوں گا۔ غالب کا کلام سمجھنا بہت مشکل کام بتایا جاتا ہے۔ مجھے بھی اس رائے سے کوئی اختلاف نہیں ہے، لیکن میر کے بہترین اشعار کی روح تک پہنچنا اس سے بھی زیادہ مشکل کام ہے۔ میر کو محض غم دوست یا قنوطی سمجھنا اس بات کی دلیل ہے کہ ان کی شاعری کا صرف سطحی مطالعہ کیا گیا ہے۔ میر کا مطالعہ کرتے وقت ان کے اس قول کو کبھی نہ بھولئے۔

    کس کس طرح سے عمر کو کاٹا ہے میر نے
    تب آخری زمانہ میں یہ ریختہ کیا

    اب میں بغیر کسی خاص اہتمام یا ترتیب کے ادھر ادھر سے کچھ اشعار منتخب کرکے پیش کرتا ہوں اور پڑھنے والوں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ ان کو سطحی اور سرسری طور سے نہ پڑھیں بلکہ احساس کی پوری شدت اور تخیل کی انتہائی رسائی سے کام لے کر تامل کے ساتھ ان کا مطالعہ کریں،

    دل پر خوں کی اک گلابی سے
    عمر بھر ہم رہے شرابی سے

    کیا ہے گلشن میں جو قفس میں نہیں
    عاشقوں کا جلاوطن دیکھا

    ہم طور عشق سے تو واقف نہیں مگر ہاں
    سینہ میں جیسے کوئی دل کو ملا کرے ہے

    کیا کہئے داغ دل ہے، ٹکڑے جگر ہے سارا
    جانے وہی جو کوئی ظالم وفا کرے ہے

    شکوہ آبلہ ابھی سے میر
    ہے پیارے ہنوز دلی دور

    جیتے جی کوچہ دلدار سے جایا نہ گیا
    اس کی دیوار کا سرسے مرے سایا نہ گیا

    دل کہ دیدار کا قاتل کے بہت بھوکا تھا
    اس ستم کشتہ سے اک دو زخم بھی کھایا نہ گیا

    عشق کا گھر ہے میر سے آباد
    ایسے پھر خانماں خراب کہاں

    ایسے وحشی کہاں ہیں اے خوباں
    میر کو تم عبث اداس کیا

    جب نام ترا لیجے تب چشم بھرآوے
    اس زندگی کرنے کوکہاں سے جگرآوے

    ہمارے آگے ترا جب کسونے نام لیا
    دل ستم زدہ کو ہم نے تھام تھام لیا

    یہ جو مہلت جسے کہے ہیں عمر
    دیکھو تو انتظار سا ہے کچھ

    سحر گہہ عید میں دور سبو تھا
    پر اپنے جام میں تجھ بن لہو تھا

    ایک محروم چلے میر ہمیں عالم سے
    ورنہ عالم کو زمانے نے دیا کیا کیا کچھ

    ہوگا کسو دیوار کے سائے میں پڑا میر
    کیا کام محبت سے اس آرام طلب کو

    مجھی کو ملنے کا ڈھب کچھ نہ آیا
    نہیں تقصیر اس نا آشنا کی

    مجلس آفاق میں پروانہ ساں
    میر بھی شام اپنی سحر کر گیا

    اس کے ایفائے عہد تک نہ جئے
    عمر نے ہم سے بے وفائی کی

    چمن کی وضع نے ہم کو کیا داغ
    کہ ہرغنچہ دل پر آرزو تھا

    خواہ مارا انہیں نے میر کو یا آپ ہوا
    جانے دو یارو جو ہونا تھا ہوا مت پوچھو

    جو ہو میر بھی اس گلی میں صبا
    بہت پوچھیو تو مری اور سے

    نامرادی ہو جس پہ پروانہ
    وہ جلاتا پھرے چراغ مراد

    ہر طرف ہیں اسیر ہم آواز
    باغ ہے گھر ترا تو اے صیاد

    جن بلاؤں کو میر سنتے تھے
    ان کو اس روزگار میں دیکھا

    نامرادی کی رسم میر سے ہے
    طور یہ اس جوان سے نکلا

    طریق عشق میں ہے رہنما دل
    پیمبر دل ہے قبلہ دل خدا دل

    برسوں میں اقلیم جنوں سے دو دیوانے نکلے ہیں
    میر آوارہ شہر ہوا ہے قیس ہوا ہے بیاباں گرد

    یوں پھر تا ہوں دشت و در میں دور اس سے میں سرگشتہ
    غم کا مارا آوارہ جوں راہ گیا ہوں بھول کوئی

    بات ہماری یاد رہے جی بھولا بھولا جاتا ہے
    وحشت پر جب آتا ہے تو جیسے بگولا جاتا ہے

    سب پہ جس بار نے گرانی کی
    اس کو یہ ناتواں اٹھالایا

    بارے دنیا میں رہو غمزدہ یا شاد رہو
    ایسا کچھ کرکے چلو یاں کہ بہت یاد رہو

    قتل کئے پرغصہ کیاہے لاش مری اٹھوانے دو
    جان سے بھی ہم جاتے رہے ہیں آؤ تم بھی جانے دو

    دشت و کوہ میں میر پھر و تم لیکن ایک ادب کے ساتھ
    کوہکن و مجنوں بھی تھے اس ناحئے میں دیوانے دو

    تمنائے دل کے لئے جان دی
    سلیقہ ہمارا تو مشہور ہے

    کوئی ناامیدانہ کرتے نگاہ
    سو تم ہم سے منہ بھی چھپاکر چلے

    بہت آرزو تھی گلی کی تری
    سویاں سے لہو میں نہاکر چلے

    وہ دن گئے کہ آٹھ پہر اس کے ساتھ تھے
    اب آ گئے تو دور سے کچھ غم سناگئے

    اے شور قیامت ہم سوتے ہی نہ رہ جائیں
    اس راہ سے نکلے تو ہم کو بھی جگا جانا

    مصائب اور تھے پر دل کا جانا
    عجب اک سانحہ سا ہو گیا ہے

    نے خوں ہو آنکھوں سے بہا اور نہ ہوا داغ
    اپنا تو یہ دل میر کسو کام نہ آیا

    لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
    آفاق کی اس کارگہہ شیشہ گری کا

    صبح تک شمع سر کو دھنتی رہی
    کیا پتنگے نے التماس کیا

    میر مت عذر گریباں کے پھٹے رہنے کا کر
    زخم دل چاک جگر تھا کہ سلایا نہ گیا؟

    ہیں مشت خاک لیکن جو کچھ ہیں میر ہم ہیں
    مقدور سے زیادہ مقدور ہے ہمارا

    خوش رہا جب تلک رہا جیتا
    میر معلوم ہے قلندر تھا

    نہیں وسواس جی گنوانے کے
    ہائے رے ذوق دل لگانے کے

    میرے تغیر حال پر مت جا
    اتفاقات ہیں زمانے کے

    وصل اس کا خدا نصیب کرے
    میر جی چاہتا ہے کیا کیا کچھ

    خاک میں مل کے میر اب سمجھے
    بے ادائی تھی آسماں کی ادا

    موسم گل آیا ہے یارو کچھ میری تدبیر کرو
    یعنی سایہ سروو گل میں اب مجھ کو زنجیر کرو

    دل کہ اک قطرہ خوں نہیں ہے بیش
    ایک عالم کے سربلا لایا

    جاتا ہے یارتیغ بکف غیر کی طرف
    اے کشتہ ستم تری غیرت کو کیا ہوا

    تاب کس کو جو حال میرسنے
    حال ہی اور کچھ ہے مجلس کا

    میں گریہ خونیں کو روکے ہی رہا ورنہ
    یک دم میں زمانے کا یاں رنگ بدل جاتا

    پائمال صد جفا ناحق نہ ہو اے عندلیب
    سبزہ بیگانہ بھی تھا اس چمن کا آشنا

    دل نے ہم کو مثال آئینہ
    ایک عالم کا روشناس کیا

    مستی میں چھوڑ دیر کو کعبہ چلا تھا میں
     لغزش بڑی ہوئی تھی و لیکن سنبھل گیا

    ہر قدم پر تھی اس کی منزل ایک
    سر سے سودائے جستجو نہ گیا

    چشم خوں بستہ سے کل رات لہو پھر ٹپکا
    ہم نے سمجھا تھا کہ اے میر یہ ناسور گیا

    گریباں سے رہا کو تہ توپھر ہے
    ہمارے ہاتھ میں دامن ہمارا

    ہم نہ کہتے تھے کہ مت دیروحرم کی راہ چل
    اب یہ دعویٰ حشر تک شیخ و برہمن میں رہا

    رہ طلب میں گرے ہوتے سر کے بل ہم بھی
    شکستہ پائی نے اپنی ہمیں سنبھال لیا

    نہ وے زنجیر کے غل ہیں نہ وے جرگے غزالوں کے
    مرے دیوانہ پن تک ہی رہا معمور و یرانا

    خاک آدم ہی ہے تمام زمیں
    پاؤں کو ہم سنبھال رکھتے ہیں

    تلوار کے تلے ہی گیا عہد انبساط
    مرمر کے ہم نے کاٹی ہیں اپنی جوانیاں

    نہ بھائی ہماری تو قدرت نہیں
    کھنچیں میر تجھ سے ہی یہ خواریاں

    کچھ موج ہوا پیچاں اے میر نظرآئی
    شاید کہ بہار آئی زنجیر نظر آئی

    بلبل کی بے کلی نے شب بے داغ رکھا
    سونے دیا نہ ہم کو ظالم نہ آپ سوئی

    جو دے آرام ٹک آوارگی میر
    تو شام غربت اک صبح وطن ہے

    بن جی دیے نہیں ہے آساں یہاں سے جانا
    بسمل گہہ جہاں میں اب ہم تو میر آئے

    کہاں ہیں آدمی عالم میں پیدا
    خدائی صدقے کی انسان پرسے

    سیر کی ہم نے ہر کہیں پیارے
    پھر جو دیکھا تو کچھ نہیں پیارے

    مرگ مجنوں پر عقل گم ہے میر
    کیا دوانے نے موت پائی ہے

    مجھ کو دماغ وصف گل و یاسمن نہیں
    میں جوں نسیم بادہ فروش چمن نہیں

    بے خودی پر نہ میر کی جاؤ
    تم نے دیکھا ہے اور عالم میں

    میر کعبہ سے قصد دیرکیا
    جاؤ پیارے بھلا خدا ہمراہ

    کوشش اپنی تھی عبث پر کی بہت
    کیا کریں ہم چاہتا تھا جی بہت

    مرنا ہے خاک ہونا ہو خاک اڑتے پھرنا
    اس راہ میں ابھی تو درپیش مرحلے ہیں

    بگولے کی روش وحشت زدہ ہم
    رہے برچیدہ دامن اس سفر میں

    قیس و فرہاد پر نہیں موقوف
    عشق لاتا ہے مردکار ہنوز

    سر مارنا پتھر سے یا ٹکڑے جگر کرنا
    اس عشق کی وادی میں ہر نوع بسر کرنا

    نہیں عشق کا درد لذت سے خالی
    جسے ذوق ہے وہ مزا جانتا ہے

    مقصود کو دیکھیں پہنچے کب تک
    گرد ش میں تو آسماں بہت ہے

    گو خاک سے گور ہوئے یکساں
    گم گشتگی کا نشاں بہت ہے

    باہم جو یاریاں ہیں اور آشنائیاں ہیں
    سب ہیں نظر میں اپنی ہم عالم آشنا ہیں

    شاید بہار آئی ہے دیوانہ ہے جوان
    زنجیر کی سی آتی ہے جھنکار کان میں

    ابر اٹھا تھا کعبے سے اور جھوم پڑا میخانے پر
    بادہ کشوں کا جھرمٹ ہے گاشیشے اور پیمانے پر

    ان اشعار کو پڑھئے اور سمجھ کر اور محسوس کرکے پڑھئے تو یہ فیصلہ کرنے دیں دیرنہ لگے گی کہ تمام بڑے ادیبوں اور مفکروں کی طرح میر بھی اپنے زمانے کے بحران کے بطن سے پیدا ہوئے تھے اور ان کی شاعری ان تمام مختلف بے چینیوں کی ایک مہذب عکاسی ہے جوان کے دور کی اصلی روح تھی۔ متقدمین پر تنقید کرتے ہوئے سب سے زیادہ مشکل اور اہم کام یہی ہے کہ ان کو ان کے زمانے کے ساتھ صحیح طور پر منسوب کر سکیں۔

    لیکن یہ سوال رہ جاتا ہے کہ میر کے مطالعے سے اب ہم کیا سیکھ سکتے ہیں۔ میں نے جان بوجھ کر ان کے کلام کا ایک طویل اور متنوع انتخاب دیا ہے۔ اس مضمون میں جتنے اشعار درج کئے گئے ہیں ان میں سے بیشتر ایسے ہیں جو عام طور سے مشہور نہیں ہیں اور یہ ہر قسم کے ہیں اور ہر طرح کی ذہنی کیفیت اور ہر انداز کے لمحہ زندگی کی نمائندگی کر تے ہیں۔ غزل کا شاعر ایسا ہی ہوتا ہے اور میر بھی کٹر غزل گو شا عر تھے۔ مندرجہ بالا اشعار کو پڑ ھئے اور تھم تھم کر پڑھئے تو احساس ہوتا ہے کہ ہمارے کردار اور ہمار ے وجود میں نئی نفاست، نئی طہارت، نئی شائستگی کے ساتھ ساتھ نئی بالیدگی بھی آ رہی ہے۔

    میر کی شاعری ظاہر ہے کہ ہم کو کوئی پروگرام یا دستورالعمل نہیں دیتی اور محض پروگرام یا دستورالعمل دینے والا فنکارا پنی آوازکی زندگی کو زیادہ عرصہ تک قائم نہیں رکھ سکا ہے۔ ہم عملی پروگرام اور دور بہ دور بدلتے ہوئے نعروں کی اہمیت کے تہ دل سے قائل ہیں، لیکن اس کی اپنی ایک جگہ ہے۔ میر جیسے لوگوں سے ہم کو جو کچھ ملتا ہے وہ ہمارے جسم و روح کی تربیت میں ایک لازمی جزو بن کر داخل ہو جاتا ہے۔ نوجوان اور انقلابی تخیل کو ابھی اس حقیقت کو سمجھنا ہے۔ ملٹن کی مشہور سانٹ Avenge Olord! (اے خداانتقام لے) اپنے زمانے کے ایک خاص واقعے سے متاثر ہوکر لکھی گئی ہے، لیکن آج بڑے بڑے انقلابی کے لئے نئے الہام کا کام کر سکتی ہے۔

     میر کی شاعری کا پہلا اثر تو ہمارے اوپر یہ ہوتا ہے کہ اپنے دور کے مظالم اور تشدد ذات کے آگے سرنہ جھکاؤ۔ لیکن اس سے زیادہ زبردست اثر جو ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ جو مناسب اور زمانے کے اعتبار سے ممکن ہے کرو، مگر اپنے اندر چھچھوراپن، سطحیت اور فرومائیگی نہ آنے دو، بلکہ بہرحال سنجیدگی، توازن، شائستگی اور سلیقہ کو قائم رکھو۔ اب آپ خود چاہے میرے دیے ہوئے انتخاب کو، چاہے میر کے مکمل دیوان کو پڑھئے اور فیصلہ کیجئے کہ اس مطالعہ کے بعد آپ پہلے سے بہتر انسان ہوئے کہ نہیں۔ اخیر میں میرا کہنا یہ ہے کہ اکابر متقدمین میں سے ہر ایک کے مطالعے کا یہی اثر ہوتا ہے۔ میر آج ہمارے درمیان نہیں ہیں۔ اگر وہ زندہ ہوتے اور اگر وہ ہمارا نیا میلان اور نیا انداز اور نیا لب و لہجہ نہ اختیار کر سکتے تو بقول خود وہ اتنا تو کرتے ہی ہیں،

    تھا میر بھی دیوانہ پر ساتھ ظرافت کے
    ہم سلسلہ داروں کی زنجیر ہلا جاتا

    اور یہ یاد رہے کہ میر کی ظرافت اوچھے اور سستے قسم کی ظرافت نہیں ہوتی تھی ان کی ظرافت میں سنجیدگی اور بلاغت کی بڑی گہری تہیں ہوئی تھیں۔

    عرصہ سے میں اپنی اس شکایت کا اظہا ر گفتگو اور تحریر میں برابر کرتا رہا ہوں کہ نئی نسل کے اکثر ادیب اور شاعر کلاسیکی ادب سے نہ صرف بے بہرہ ہیں، بلکہ ان کے مطالعے سے گھبراتے ہیں اور بغیر جانے بوجھے اسلاف کے کارناموں کو خرافات سمجھ کر کنارے کر دیتے ہیں، حالانکہ محض خرافات نے بھی انسانی تواریخ کی تعمیر میں نمایاں حصہ لیا ہے۔

    حاشیہ
    ۱۔ اکثر تذکرہ نگاروں نے اس مصرع کو یوں درج کیا ہے۔
    میر کی وضع یاد ہے ہم کو

    مأخذ:

    ادب اور زندگی (Pg. 250)

    • مصنف: مجنوں گورکھپوری
      • ناشر: اردو گھر، علی گڑھ
      • سن اشاعت: 1984

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے