Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

میر اور نئی غزل 1

محمد حسن عسکری

میر اور نئی غزل 1

محمد حسن عسکری

MORE BYمحمد حسن عسکری

    یہ بات اب واضح ہوتی جا رہی ہے کہ ہماری غزل پر غالب کے بجائے میر کے اثرات بڑھ رہے ہیں۔ اس کی وجہ محض تنوع پسندی نہیں ہے۔ اب ہمارے غزل گو نئی ذہنی اور روحانی ضرورتیں محسوس کر رہے ہیں جو غالب کی شاعری سے پوری نہیں ہوتیں۔ اب ان کے سامنے ایسے مسئلے ہیں جنہیں میر نے زیادہ شدت سے محسوس کیا تھا اور ایک ایسا مزاج پیدا کرنے کی کوشش کی تھی جو زندگی سے ہم آہنگی قائم رکھنے میں مدد دے سکے۔ یہ مسئلہ صرف ہمارے ہی شاعروں اور ادیبوں کے سامنے نہیں بلکہ پوری دنیا کا ادب آج کل اسی کشمکش میں مبتلا ہے۔ اس اعتبار سے میر غالب سے زیادہ جدید اور نئے تقاضوں سے زیادہ ہم آہنگ ہے۔

    اب دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے نقادوں نے غالب کو جدید کیوں کہنا شروع کیا تھا۔ غالب کی جدیدیت کا احساس شاید سب سے پہلے عبد الرحمن بجنوری کو ہوا تھا۔ وہ اس لئے کہ مروجہ اقدار سے بے اطمینانی کا جو عمل یورپ میں اٹھارہویں صدی کے آخری حصے میں شروع ہوا تھا، وہ ہمارے یہاں انیسویں صدی کے آخر میں شروع ہوا اور اسے شعوری شکل اختیار کرتے کرتے بیسویں صدی کے بھی دس بیس سال گزر گئے۔ پھر انگریزی تعلیم پانے والوں نے رومانی شاعروں کا تھوڑا بہت مطالعہ کیا تو اونگھتے کو ٹھیلتے کا بہانہ ہوا، اور سماج کی اقدار سے انحراف ذہین اور حساس آدمی کا امتیازی نشان قرار پایا۔ واقعی اس وقت یہی جدیدیت تھی اور ایک حد تک آج کل بھی ہے۔ مگر یہ جدیدیت ایک جگہ قائم نہیں رہ سکتی تھی۔ اسے کسی نہ کسی طرف چلنا ضرور تھا۔ چنانچہ اگر شاعری کے لئے جدیدیت کوئی لازمی صفت ہے تو ہم غالب اور میر کے درمیان اس وقت تک کوئی معقول فیصلہ نہیں کر سکتے جب تک ہم یورپ کی جدیدیت کے انداز رفتار سے واقف نہ ہوں۔

    اس جدیدیت کا آغاز مروجہ اقدار سے انحراف تھا۔ اگر اس ذہنیت کو منطقی طور پر نشوونما پانے دیا جائے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ مذہب، اخلاقیات، معاشیات، سیاسیات پھر اس کے بعد مروجہ علوم صحیحہ تک کی بڑی سے بڑی اور چھوٹی سے چھوٹی قدرکوغلط اور ناکارہ ثابت کیا جائے۔ مگر کسی چیز کو غلط یا ناکارہ کہنے کے لئے لازمی ہے کہ آپ کے پاس فیصلے کے لئے کوئی معیار بھی ہو۔ ایک معیار تو یہ ہو سکتا ہے کہ آپ مروجہ اقدار میں سے چند کو تسلیم کر لیں اور اس کسوٹی پر کس کس کے باقی تمام اقدار کو کھوٹا ثابت کر دیں۔ مگر اس طرح مکمل انحراف ممکن نہیں ہوگا۔ اس لئے جدیدیت کا سب سے بڑا معیار ذاتی پسند یا انفرادیت قرار پایا۔

    جب جدیدی شاعر ہر خارجی اصول کو رد کر چکا تو نفی کے لئے بس ایک چیز باقی رہ گئی۔۔۔اپنی شخصیت۔ اب شاعر اس طرف متوجہ ہوا اور اس نے اپنی شخصیت کو تکا بوٹی کرنا شروع کر دیا۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ اندرونی مرکزیت تو ختم ہو ہی گئی تھی۔ خیالات اور جذبات کو بھی مشکوک سمجھنے لگے۔ مختصر طور سے جدیدیت کا عمل یہ رہا ہے اور کئی معنوں میں اب بھی جاری ہے۔ مگر یہ سب شاخسانے ہیں۔ مکمل نفی خودی کے بعد اگر آپ کسی بسیط حقیقت سے دو چار ہو جائیں تو ایک نیا تخلیقی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، ورنہ پھر خاموشی کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں۔ فلسفہ زیست والوں کے یہاں کوئی ایسی بات نہیں جو بودیلیر، مالا رمے یا راں بو کے یہاں پہلے سے موجود نہ ہو۔ یہ لوگ تو صرف تفصیلات پیش کر رہے ہیں۔

    مگر جدیدیت نے ہر چیز کی نفی کر دینے کے بعد ایک اور پلٹا کھایا ہے۔ فنکار نے اپنے آپ تک کو گھلا دینے کے بعد یہ سمجھا کہ اب ہر چیز ختم ہو گئی، مگر دیکھا تو معلوم ہوا کہ ابھی دوسرے لوگ باقی ہیں جنہیں مٹانا آسان نہیں۔ چنانچہ فنکار اپنی روحانی جدوجہد کی انتہا پر پہنچ کے پھر اثبات کی طرف مائل ہو گیا ہے۔ یہ دو طرفہ عمل آپ مارسل پروست اور جوئس کے یہاں دیکھ سکتے ہیں۔ تخریبی عمل ٹومس مان کے یہاں شاید اتنی اچھی طرح پیش نہ کیا گیا ہو مگر تعمیری عمل کی تفصیلات ان کے یہاں زیادہ ہیں۔

    اس سارے عمل اور رد عمل کی تہہ میں بنیادی کشمکش یہ ہے کہ فنکار اور دوسرے انسانوں میں کیا رشتہ ہو۔ انصاف، صداقت اور حسن کے اعلیٰ ترین معیاروں کے مطابق اپنی روحانی زندگی کو ڈھال لینے کے بعد بھی آدمی دوسرے آدمیوں کے ساتھ مل کر سکون قلب کےساتھ رہ سکتا ہے یا نہیں؟ اب تک اس سوال کا جواب ادیب اور شاعر یہ دیتے رہے ہیں کہ نہیں۔ مگر جدید ترین فنکاروں نے دریافت کیا ہے کہ ایک چیز انصاف، صداقت اور حسن سے بھی بڑی ہے۔۔۔ حیات محض۔ اگر آدمی حیات محض قبول کر لیتا ہے تو دوسروں کے ساتھ اشتراک کی کم سے کم ایک وجہ تو نکل آتی ہے، بلکہ ایسا اشتراک حیاتیاتی طور پر لازمی ہو جاتا ہے۔ زندگی کی اس قوت کا احساس فنکاروں کے اس نئے اثبات کا موجب ہوا ہے۔

    میر کی بھی روحانی کشمکش کا ماحصل یہی ہے کہ اعلیٰ ترین زندگی کوعام ترین زندگی سے ہم آہنگ بنایا جائے۔ اس اعلیٰ ترین زندگی کا نام ان کے یہاں عشق ہے۔ وہ عشق کو دنیا کے معمولات سے الگ نہیں رکھنا چاہتے بلکہ ان میں سمو دینا چاہتے ہیں۔ ان کی کوشش بقول فراق صاحب یہ رہی ہے کہ مادیت میں تھوڑی سی روحانیت اور روحانیت میں تھوڑی سی مادیت پیدا کی جائے۔(عجب بات یہ ہے کہ فرانس کے سوریلسٹ اپنے بارے میں بالکل یہی بات کہا کرتے تھے) میر کا عاشق زندگی کے سیکڑوں انسانی رشتوں کے اثرات اپنی طبیعت پر لئے ہوئے محبوب کی طرف مائل ہوتا ہے۔

    مصائب اور تھے پر دل کا جانا

    عجب اک سانحہ سا ہوگیا ہے

    یہاں جو لہجہ کا بھولاپن ہے وہ خالی طرز بیان کی بدولت نہیں ہے، بلکہ عام انسانوں کی زندگی میں شرکت کرنے سے حاصل ہوا ہے۔ مگر اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ میر کو کبھی تنہائی کا احساس ہوا ہی نہیں، یا انہوں نے دوسرے انسانوں کے متعلق احمقانہ خوش فہمی میں عمر کاٹ دی۔ اگر ظاہری طور سے دیکھئے تو غالب کی زندگی میں بڑی چہل پہل تھی اور انہیں اپنے زمانے کے حساس ترین انسانوں کی دوستی میسر تھی۔ اس کے برخلاف میر کا زمانہ اور ان کا مزاج اس معاملے میں سازگار ثابت نہیں ہوا۔ انہیں خوب تجربہ تھا کہ جس آدمی کی زندگی میں اعلی ترین معنویت پیدا ہونے کے انداز موجود ہوتے ہیں اس کے ساتھ کیا گزرتی ہے۔

    بیگانہ وضع برسوں اس شہر میں رہا ہوں

    بھاگا ہوں دور سب سے میں کس کا آشنا ہوں

    تری چال ٹیڑھی، تری بات روکھی

    تجھے میر سمجھا ہے یاں کم کسونے

    مگر دیکھئے شکایت کرتے ہوئے بھی میر اعتراف کر گئے کہ آدمی خود ہی روکھا پھیکا ہو تو بیچارے دنیا والے بھی کیا کریں۔ بہر صورت انہوں نے اس احساس کو اپنے اوپر غالب نہیں آنے دیا کہ میں کوئی نادر الوجود ہستی ہوں اور مجھے سمجھنے کی کوئی اہلیت ہی نہیں رکھتا۔ یہ انداز فکر غالب کی رگ و پے میں بس گیا ہے۔ مومن یہاں تک آتے ہیں۔

    بے سیر دشت و باد یہ لگنے لگا ہے جی

    اور اس خراب گھر میں کہ ویراں نہیں رہا

    اس کے یہی معنی ہوتے ہیں کہ وہ عشق کی سرمستی تو باقی نہیں رہی، یا کم ہوگئی، چلو دنیا کی رنگا رنگی سے ہی دل بہلا لیں، مگر میر کے یہاں عاشق اور دنیا والوں کے درمیان ایسی زبردست خلیج حائل نہیں ہے۔ ان کے کلام کی دنیا میں دوسرے لوگ عاشق سے بے پایاں ہمدردی رکھتے ہیں۔ اس کی زندگی جس معنویت کی حامل ہے اس کا احترام کرتے ہیں، گوخود اس کی تقلید کرنے کی ہمت نہیں رکھتے مگر اس کا درجہ پہچانتے ہیں۔

    جی میں تو ہے کہ دیکھئے آوارہ میر کو

    لیکن خدا ہی جانے وہ گھر میں ہو یا نہ ہو

    یہ جو لوگ میر سے ملنے کے مشتاق ہیں تو اس لئے نہیں کہ چلو بھئی ذرا مذاق اڑائیں گے یا الو بنائیں گے۔ یہ لوگ تو اس انداز سے میر کا ذکر کرتے ہیں جیسے اس کی صحبت سے فیض حاصل کرنا چاہتے ہوں مگر ساتھ ہی ساتھ انہیں حیرت اس بات پہ ہے کہ میر جیسے لوگ کچھ عجیب سے کیوں ہو جاتے ہیں۔ اور اس بات پہ خود میر کو بھی حیرت ہے بلکہ بعض وقت تو افسوس ہوتا ہے کہ میں دوسروں سے مختلف کیوں ہوں، بہرحال میر کی شخصیت دوسروں پر اثر انداز ہوتی ہے اور دوسرے بھی اس شخصیت کے اسرار کو سمجھنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔

    میرصاحب رلا گئے سب کو

    کل وے تشریف یاں بھی لائے تھے

    اسی طرح میر کے یہاں چارہ گر بھی محتسب صفت نہیں ہوتے۔ وہ میر کی روحانی کیفیت کو سمجھتے ہیں، اسے عشق کی راہ سے باز بھی نہیں رکھنا چاہتے کیونکہ وہ اسے اعلیٰ ترین زندگی کا مظہر مانتے ہیں، مگر میر کی تکلیفیں نہیں دیکھی جاتیں، اس لئے اس طرح شفقت سے سمجھاتے ہیں جیسے کوئی ماں یا بڑی بہن سمجھاتی ہے۔ وہ اس انداز سے نصیحت کرتے ہیں جیسے خود بھی ان تجربات سے واقف ہوں، یا میر کے ساتھ خود ان کا بھی دل دکھ رہا ہو۔

    ضعف بہت ہے میر تمہیں کچھ اس کی گلی میں مت جاؤ

    صبر کرو کچھ اور بھی صاحب طاقت جی میں آنے دو

    برا حال اس کی گلی میں ہے میر

    جو اٹھ جائیں واں سے تو اچھا کریں

    بے قراری جوکوئی دیکھے ہے سو کہتا ہے

    کچھ تو ہے میر کہ اک دم تجھے آرام نہیں

    وجہ کیا ہے کہ میر منہ پہ ترے

    نظر آتا ہے کچھ ملال ہمیں

    قامت خمیدہ رنگ شکستہ بدن نزار

    تیرا تو میر غم میں عجب حال ہو گیا

    ہم کو تو درد دل ہے تم زرد کیوں ہو ایسے

    کیا میر جی تمہیں کچھ بیماری ہو گئی ہے

    دانستہ اپنے جی پر کیوں تو جفا کرے ہے

    اتنا بھی میرے پیارے کوئی کڑھا کرے ہے

    اگردوسرے لوگ کہیں تنقیدی روش اختیار کرتے ہیں تو وہ بھی اس لئے کہ میر نے انسانی تعلقات میں کمی کردی، یا انسان کی بساط سے بڑھ کر دکھ برداشت کرنے کی کوشش کی۔

    پھر بھی کرتے ہیں میر صاحب عشق

    ہیں جواں اختیار رکھتے ہیں

    رہا تو اکثر الم ناک میر

    ترا طور کچھ نہ آیا ہمیں

    اور جب نصیحتوں کا میر پر کوئی اثرنہیں ہوتا تو پھر بھی لوگوں کے لہجے میں تلخی نہیں آتی بلکہ انہیں یک گونہ اطمینان ہوتا ہے کہ میر کی زندگی جس طرح مکمل ہو سکتی تھی، اس کا قرینہ نکل آیا۔

    آتے کبھی جو واں سے تو یاں رہتے تھے اداس

    آخر کو میر اس کی گلی ہی میں جا رہے

    اگرمیر کی موت دوسروں کے لئے عبرت کی چیز بنتی ہے تو اس طرح نہیں کہ اچھا ہوا اسی قابل تھا، بلکہ اس وجہ سے کہ ایسی تکلیفیں اٹھانا عام آدمی کے بس کی بات نہیں۔

    نامرادانہ زیست کرتا تھا

    میر کا طور یاد ہے ہم کو

    لگا نہ دل کو کہیں کیا سنا نہیں تو نے

    جو کچھ کہ میر کا اس عاشقی نے حال کیا

    نظر میر نے کیسی حسرت سے کی

    بہت روئے ہم اس کی رخصت کے بعد

    غرض میر کے عشق کے لئے دنیا میں اور دنیا والوں کے درمیان جگہ موجود ہے۔ میر کے لئے عشق عام انسانی تعلقات سے الگ کوئی چیز نہیں ہے بلکہ انہیں کی لطیف اور رچی ہوئی شکل ہے۔ چنانچہ جب وہ محبوب سے توجہ کے طالب ہوتے ہیں تو اس لئے نہیں کہ ان کے جذبات میں اوروں سے زیادہ شدت اور گہرائی ہے، یا وہ توجہ کے زیادہ مستحق ہیں بلکہ انسانی تعلقات کے رشتے سے۔

    تم تو تصویر ہوئے دیکھ کے کچھ آئینہ

    اتنی چپ بھی نہیں ہے خوب کوئی بات کرو

    ہم فقیروں سے بے ادائی کیا

    آن بیٹھے جو تم نے پیار کیا

    وجہ بیگانگی نہیں معلوم

    تم جہاں کے ہو واں کے ہم بھی ہیں

    آج کل بے قرار ہیں ہم بھی

    بیٹھ جا چلنے ہار ہیں ہم بھی

    کوئی ناامیدانہ کرتے نگاہ

    سو تم ہم سے منہ بھی چھپا کر چلے

    جیسا کہ اس آخری شعر سے ظاہر ہے ان کی شکوہ شکایت بھی انہیں عام انسانی تعلقات کی شرائط کو مد نظر رکھتے ہوئے ہوتی ہے، عاشق کے تقاضے نہیں ہوتے۔

    خوش نہ آئی تمہاری چال ہمیں

    یوں نہ کرنا تھا پائمال ہمیں

    جفائیں دیکھ لیاں کج ادائیاں دیکھیں

    بھلا ہوا کہ تری سب برائیاں دیکھیں

    مت کر عجب جو میر ترے غم میں مر گیا

    جینے کا اس مریض کے کوئی بھی ڈھنگ نہ تھا

    غرض اعلیٰ ترین زندگی اور عامیانہ ترین زندگی میں جو خلیج ہے، میر نے اپنی شاعری میں اسے پاٹنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے یہاں نہ تو عام آدمی اتنا بے حس ہے کہ عاشق سے دشمنی یا مغائرت برتے، نہ عاشق اتنا جلے تن اور حال مست ہے کہ کسی کو خاطر ہی میں نہ لائے۔ ان کے یہاں عام آدمی اور عاشق الگ الگ مخلوق نہیں ہیں، زندگی عام آدمی کی سطح سے آہستہ آہستہ بلند ہو کر لطافت، معصومیت، شدت، گہرائی اور گیرائی کی اس سطح تک پہنچتی ہے جس سے عاشق مراد ہے، ایک دم سے چھلانگ نہیں مارتی۔ ان دونوں کیفیتوں کے درمیان خلا نہیں ہے، ایک زینہ ہے اعلیٰ ترین سطح پر پہنچنے کے لئے۔ غالب کے نزدیک انسانی تعلقات کو ترک کرنا ضروری ہے۔ میر کے نزدیک ان تعلقات کو چھوڑنا تو الگ رہا، اعلیٰ ترین سطح پر پہنچنے کے بعد بھی ان سے بے نیاز نہیں رہا جا سکتا۔ میر کے عشق میں بہت سا درد، نرمی، گھلاوٹ، ہمہ گیری انہیں انسانی تعلقات کے طفیل آتی ہے۔ غالب عاشق کی زندگی اورعام زندگی کو اس شکل میں دیکھتے تھے۔

    لطافت بے کثافت جلوہ پیدا کر نہیں سکتی

    یعنی ان کے لئے ان دونوں میں تضاد اور تقابل کا علاقہ تھا۔ میر کے نزدیک لطافت در اصل کثافت ہی کی نکھری ہوئی شکل ہے۔ یہ کثافت اگر لطافت کے جسم میں خون نہ پہنچاتی رہے تو لطافت مرجھا کے رہ جائے۔

    پروست اور جوئس کے سامنے بھی شروع میں لطیف اور کثیف کا یہی تضاد تھا مگر آخر میں وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ لطافت خود اپنی ذات تک محدود ہو کر زندہ نہیں رہ سکتی، کم سے کم تخلیقی قوت نہیں بن سکتی۔۔۔ استلذاذ بالنفس میں پھنس کر رہ جاتی ہے (یہ الزام لارنس نے ان دونوں پر لگایا تھا، مگر اس نے پروست اور جوئس کی پوری حقیقت کو نہیں سمجھا) چنانچہ یہ دونوں کثافت کو یعنی عام انسانی تعلقات کو قبول کر لیتے ہیں۔ یہ جدیدیت کی تازہ ترین منزل ہے۔ آپ مجھے یاد دلائیں گے کہ جوئس کے بعد سارتر آتا ہے جس کا قول ہے کہ جہنم کے معنی ہیں دوسرے لوگ، مگر ایک بات تو یہ کہ نفی کی وہ کون سی منزل ہے جہاں پروست اور جوئس نہ پہنچے ہوں اور سارتر پہنچ گئے ہوں۔ وہ دونوں نفی کے سارے مدارج طے کرنے کے بعد اثبات پر جا پہنچے تھے۔ان دونوں کو چھوڑیئے فرانسیسی سوریلسٹوں کی ساری کاوش بنیادی طور سے اثباتی تھی۔

    دوسری بات یہ ہے کہ سارتر نے صاف لفظوں میں اعتراف کیا ہے کہ میں تو انسانی دماغ کے صرف ان گوشوں کی سیاحت میں مصروف ہوں جو انحطاط پذیر ماحول میں نمایاں ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے اس روحانی تفتیش کے علاوہ ادب کا یہ فرض بھی بتایا ہے کہ وہ سماجی مسائل میں حق کی حمایت کرے۔ آزاد ترین اور ذمہ دار ترین ادب والے نظریے کے یہی معنی ہیں۔ چنانچہ انہوں نے یہ تو مان لیا ہے کہ ادیب کو معاشیاتی اور سیاسی مسائل سے دلچسپی ہونے چاہئے، ابھی یہ ضرورت محسوس نہیں کی کہ ادیب کی روحانی کاوش اور زندگی کے ٹھیٹ اور ابتدائی مطالبات میں بھی ہم آہنگی ہونی چاہئے۔ پروست اور جوئس نے اس ہم آہنگی کی ضرورت کا اعتراف کیا ہے۔ میر نے یہ ہم آہنگی پیدا کر کے دکھائی ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں میر کو ان دونوں سے بڑھائے دے رہا ہوں۔ جن روحانی معرکوں سے یہ دونوں گزرے ہیں، اگر میر کو ان سے دوچار ہونا پڑتا تو نہ معلوم کیا صورت حال پیدا ہوتی۔ یہ دونوں اگر اثبات کی منزل ہی تک پہنچ گئے تو بڑی بات ہے۔ میں تو صرف ایک امر واقع بیان کر رہا ہوں کہ میر کے یہاں یہ ہم آہنگی اور توازن مستقل طور سے موجود ہے۔

    چنانچہ میر کے یہاں جدید ترین جدیدیت کے عناصرغالب سے زیادہ ملتے ہیں۔ اور ۱۹۴۹ء کی دنیا کے لئے میر کی شاعری کہیں زیادہ معنی خیز ہے۔ اسی لئے نئے غزل گوؤں کی طبیعت کو میر سے ایک فطری علاقہ ہے، اور میر کے اثرات روز بروز بڑھتے جا رہے ہیں، حالانکہ میر کے متعلق بہت ہی کم لکھا گیا ہے۔ یہاں تک کہ فراق صاحب نے بھی ابھی تک کوئی تفصیلی مضمون میر کے بارے میں نہیں لکھا۔

    در اصل میر کے یہاں غزل کے معنی وہ ہیں ہی نہیں جو فارسی میں ہیں۔ اسی لئے جو لوگ فارسی شاعری کے زیادہ گرویدہ ہو جاتے ہیں وہ میر سے ہم آہنگ نہیں ہو سکتے۔ سوائے مرزا یگانہ کے۔ میرے خیال میں تواب ہمیں اردوغزل کومحض فارسی غزل کا ضمیمہ سمجھنے کی عادت ترک کر دینی چاہئے۔ جیسا کہ میں نے پہلے بھی لکھا تھا، مجھے تو ناصر کاظمی کی زبان سے یہ سوال سن کر بڑا اطمینان ہوا کہ صاحب، تغزل کیا چیز ہوتی ہے؟

    جیمز جوئس نے شاعری کی اصناف کے متعلق چند خیالات پیش کئے ہیں۔ جی چاہتا ہے کہ ان کو سامنے رکھ کر اردوغزل کی حقیقت سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ خیر صاحب، یار زندہ صحبت باقی!

    مأخذ:

    مجموعہ محمد حسن عسکری (Pg. 147)

    • مصنف: محمد حسن عسکری
      • ناشر: سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور
      • سن اشاعت: 2008

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے