Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

میر کی زبان، روزمرہ یا استعارہ (۱)

شمس الرحمن فاروقی

میر کی زبان، روزمرہ یا استعارہ (۱)

شمس الرحمن فاروقی

MORE BYشمس الرحمن فاروقی

    میر کے بارے میں یہ غلط فہمی، کہ وہ خالص زبان یا روز مرہ کے شاعر ہیں، کئی وجہوں سے عام ہوئی۔ اول تو یہ کہ میراور ان کے بعض معاصروں میں ایک طرح کی سطحی اور لازمی مماثلت تو ہے ہی، کیوں کہ بہر حال ان سب شعرا کی بنیادی زبان مشترک تھی۔ دوسری بات یہ کہ میر کے بارے میں اس طرح کے واقعات مشہور ہوئے کہ انہوں نے کہا، میں وہ زبان لکھتا ہوں جس کی سند جامع مسجد کی سیڑھیوں پرملتی ہے۔

    ظاہر ہے کہ محاورے اور تلفظ وغیرہ کی حد تک تو اس بیان پر اعتماد کرنا چاہیے، لیکن شعری زبان کے جوہر پر اس کا اطلاق غیرتنقیدی کارروائی ہے اور میر کی روح سے بے خبری کاپتہ دیتا ہے۔ پھر یہ کوئی ضروری نہیں کہ شاعر کو شعوری طور پر معلوم ہو کہ وہ کیا کررہا ہے، یا اگر معلوم بھی ہوتو وہ اس کا اظہار کرسکے یا کرناچاہے۔ علاوہ بریں، اپنی شاعری کے بارے میں شاعر کے بیانات کو اسی وقت معتبر جاننا چاہیے جب ان کی پشت پناہی اس کے کلام سے ہوسکتی ہو۔

    لہٰذا میر عام معنی میں روز مرہ کے شاعر نہیں ہیں۔ انہوں نے روز مرہ کی زبان پر مبنی شاعری لکھی ہے۔ یہ عظیم کارنامہ ان سے یوں انجام پایا کہ انہوں نے کئی طرح کے لسانی اور شاعرانہ وسائل استعمال کیے، اور اس ترکیب وتناسب سے، کہ ان کا مجموعہ اپنی بہترین صورت میں اپنی طرح کا بہترین شاعرانہ اظہار بن گیا۔ اس ترکیب وتناسب کا پتہ لگانا مشکل بھی ہے اور غیر ضروری بھی۔ غیرضروری اس لیے کہ وہ قواعدی (Normatuve) نہیں ہوسکتا۔ اگر ایسا ہوتا تو شاعری کا کھیل ہم سب میر ہی کی طرح کھیل لیتے۔ لیکن ان لسانی اور شاعرانہ وسائل کی تفصیل حسب ذیل ہے۔

    (۱) میر نے استعارہ اور کنایہ بکثرت استعمال کیا۔ آئی۔ اے۔ رچرڈس (I.A. Richards) نے بہت خوب لکھا ہے کہ جذبات کے نازک اور باریک پہلوؤں کا جب اظہار ہوگا تو استعارے کے بغیر نہ ہوگا۔ کلینتھ بروکس (Cleanth Brooks) اس پررائے زنی کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ شاعر کو مشابہتوں کاسہارا لازم ہے، لیکن سب استعارے ایک ہی سطح پر نہیں ہوتے، نہ ہی ہر استعارہ ایک دوسرے کے ساتھ صفائی سے چپک سکتا ہے۔ استعاروں کی سطحیں آگے پیچھے اوپر نیچے ہوتی رہتی ہیں اور تناقضات بلکہ تضادات کو راہ دیتی ہیں۔ استعاروں کے اس عمل کو کلینتھ بروکس (Cleanth Brooks) مستحسن قرار دیتاہے اور اسے قول محال اور طنز کا نام دیتا ہے۔ اپنی بعض تحریروں میں بروکس اس خیال کو بہت آگے لے گیاہے، یہاں تک کہ اس نے گرے (Gray) کی نظم (جس کا ترجمہ ہمارے یہاں ’’شام غریباں‘‘ کے نام سے نظم طباطبائی نے کیا) میں بھی طنز کی کارفرمائی دیکھ لی ہے۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ بنیادی طور پر کلینتھ بروکس کا خیال بالکل درست ہے۔ میر کے استعاروں میں طنز اور قول محال کی کارفرمائی نظر آتی ہے۔

    مغربی تنقید کنایہ کی اصطلاح سے بے خبر ہے، لیکن کنایہ بھی استعارے کی ایک شق ہے۔ کیوں کہ کنایہ کی تعریف یہ ہے کہ کسی معنی کو براہ راست ادا نہ کیاجائے، لیکن کوئی ایسا فقرہ یا لفظ کلام میں ہو جس سے اس معنی پر دلالت ہوسکے۔ والٹراونگ (Walter Ong) کا خیال ہے کہ سترہویں اور اٹھارہویں صدی میں انگریزی شاعری کوریمس (Ramus) کے اس نظریے سے بہت نقصان پہنچا کہ استعارہ محض تزئینی چیز ہے، شاعری کا جوہر نہیں ہے۔ یہ صحیح ہے کہ استعارے کے بارے میں بعض باریک بینیاں، جو جدید مغربی مفکروں کو ہاتھ آئی ہیں، ہمارے قدیم نقادوں کی دسترس میں نہیں ہیں۔ لیکن ہمارے یہاں یہ خیال شروع ہی سے عام رہا ہے کہ استعارہ شاعری کا جوہر ہے۔ اسی لیے استعارے کو صنعتوں کی فہرست میں نہیں رکھا گیا، بلکہ اس کا مطالعہ علم بیان کی ضمن میں کیا گیا، کہ استعارہ وہ طریقہ ہے جس کے ذریعہ ہم ایک ہی معنی کو کئی طریقے سے بیان کرسکتے ہیں۔

    میر کا زمانہ آتے آتے استعارے کی حیثیت مضمون کے تصور میں اس طرح ضم ہو گئی تھی کہ اس کا الگ سے ذکر بہت کم ہوتا تھا۔ لیکن ظاہر ہے کہ استعارہ ہر ایک کے بس کا روگ نہیں۔ ارسطو نے یونہی نہیں کہاتھا کہ، ’’استعارے پر قدرت ہونا سب صلاحیتوں سے بڑھ کر ہے۔ یہ نابغہ کی علامت ہے، کیوں کہ استعاروں کو خوبی سے استعمال کرنے کی لیاقت مشابہتوں کو محسوس کرلینے کی قوت پر دلالت کرتی ہے۔‘‘

    (۲) استعارہ فی نفسہٖ معنوی امکانات سے پر ہوتا ہے۔ لیکن وہ استعارے جو کثرت استعمال کی بناپر محاورہ یا عام زبان کا حصہ ہوجاتے ہیں، ان کے معنوی امکانات ہمارے لیے بے کار ہوجاتے ہیں، کیوں کہ اکثر کو صرف ایک ہی دومعنوی امکانات کے لیے استعمال کیا جاتاہے، اورباقی امکانات معطل یا غیر کارگر رہتے ہیں۔ زبان چونکہ ایسے استعاروں سے بھری پڑی ہے، اس لیے شاعر نئے استعارے تلاش کرتاہے اور نئے پرانے دونوں طرح کے استعاروں کو مزید زور بھی دیتا ہے۔ میر نے یہ عمل مناسبت کے ذریعہ انجام دیا۔ مناسبت الفاظ، یعنی الفاظ میں باہم مناسبت ہونا، یا الفاظ اور معنی اور مضمون میں مناسبت ہونا، رعایت لفظی سے پیدا ہوتی ہے، یا رعایت معنوی سے۔ رعایت معنوی اکثر براہ راست استعارہ ہوتی ہے۔ رعایت لفظی استعارے کا التباس پیدا کرتی ہے۔ (ملحوظ رہے کہ استعارے کا بنیادی عمل مشابہتوں کی دریافت ہے۔)

    (۳) رعایت چوں کہ تلازمہ ٔ خیال سے پیدا ہوتی ہے اس لیے جب وہ خالص استعارہ یا تشبیہ یا محاورے یا ضرب المثل کے ساتھ آتی ہے تو دوہرا استعارہ قائم ہوتا ہے۔ کیوں کہ تشبیہ بھی استعارے کی طرف اشارہ کرتی ہے، محاورہ تو اصلاً استعارہ ہوتاہی ہے، اور ضرب المثل میں نئے معنوی امکانات بھی از خود پیدا ہوتے ہیں۔

    (۴) میر نے رعایت کو اکثر اس طرح بھی برتا ہے کہ اس کی وجہ سے شعر میں قول محال یا طنز یعنی (Irony) کی جہت بھی پیدا ہوجاتی ہے۔

    (۵) مناسبت پیدا کرنے کی خاطر میر نے رعایت کو کبھی کبھی یک سطحی انداز میں بھی برتاہے، کہ شعر میں کوئی ندرت تو پیدا ہوجائے۔ میر کے یہاں مناسبت کا التزام اس کثرت سے ہے کہ وہ غالب اور میر انیس کے ساتھ اردو میں رعایتوں کے سب سے بڑے شاعر ہیں۔ میر کی رعایتیں مختلف صنائع لفظی ومعنوی کااحاطہ کرتی ہیں۔ مناسبت کی کثرت نے میر کی زبان کو بے اتنہا چونچال، پرلطف، کثیر الاظہار، تازہ کار اور تہ دار بنادیاہے۔ میر کے کسی معاصر کو یہ امتیاز نصیب نہیں۔

    اوپر کی گفتگو میں جن نظریاتی مباحث اور اصولوں کی طرف اشارہ ہے، ان کا عملی ادراک میر اور ان کے معاصرین کو ضرور رہا ہوگا۔ لیکن ہمارے زمانے میں مباحث اور اصول بڑی حد تک بھلا دیے گئے ہیں۔ اس فروگذاشت سے نقصان میر کا نہیں ہوا، بلکہ ہمارا ہوا۔ کیوں کہ ہم میر کی تحسین وتعین قدر کے بعض اہم ترین پہلوؤں سے بے بہرہ رہ گئے۔ میں نے شرح میں جابجا ان مناسبتوں اور رعایتوں کی تشریح کی ہے جن سے میر کا کلام جگمگارہا ہے۔ یہاں محض نمونے کے طور پر ایک دومثالیں پیش کرتا ہوں۔ اشعار کی تشریح نہ کروں گا، صرف استعارے اور مناسبت لفظی کے تعامل (Interaction) کے نتیجے میں ان اصولوں کی کارفرمائی دکھاؤں گا جو میں نے اوپر بیان کئے ہیں۔

    ملحوظ رہے کہ یہ غزل بڑی حد تک اس اسلوب کا نمونہ ہے جسے ہم لاعلمی کی بنا پر روز مرہ کا اسلوب کہتے ہیں۔ یہ زبان اس حد تک تو روز مرہ ہے کہ اس میں تصورات نہیں ہیں، لیکن اگر یہ محض روز مرہ ہوتی تو اس میں شاعری بہت کم ہوتی، اظہار خیال زیادہ ہوتا۔ یہ زبان شاعری کی زبان اس لیے بن گئی ہے کہ میر نے ان اصولوں پر عمل کیا ہے جو میں نے اوپر بیان کئے ہیں۔ دیوان سوم کی غزل ہے، میں چند اشعار پیش کرتاہوں،

    دست ودامن جیب وآغوش اپنے اس لائق نہ تھے

    پھول میں اس باغ خوبی سے جو لوں تولوں کہاں

    دوسرے مصرعے میں معمولی سا استعارہ ہے۔ دنیا کو ’’باغ خوبی‘‘ کہا ہے اور معشوقوں یا حسینوں کو ’’پھول‘‘، لیکن ’’خوب‘‘ کے معنی’’معشوق‘‘ بھی ہوتے ہیں، اس لیے ’’باغ خوبی‘‘دنیا کے بجائے کسی محفل یا جگہ کا استعارہ بھی بن جاتا ہے۔ چوں کہ معشوق کے جسم کو بھی ’’باغ‘‘ کہتے ہیں اور اس کے جسم کے مختلف حصوں کو’’گل حسن‘‘ یا’’پھول‘‘ کہا جاتاہے۔ اس لیے ’’باغ خوبی‘‘ محض معشوق کا استعارہ بھی بن جاتاہے۔ اب’’پھول‘‘ کے معنی ’’معشوق‘‘ نہیں بلکہ معشوق کے جسم کا کوئی حصہ، یا اس کے جسم کے کسی حصے کا بوسہ بھی ہوسکتے ہیں۔ اس طرح ’’باغ خوبی‘‘ اور ’’پھول‘‘ ایک معمولی استعارہ نہیں، بلکہ ایک پیچیدہ استعارہ بن جاتے ہیں جوایک شخص، ایک محفل اور ایک عالم کے مفہوم کو محیط ہیں۔

    پہلے مصرعے میں ’’پھول‘‘ کی مناسبت سے ’’دست ودامن جیب وآغوش‘‘ کہا ہے، کیوں کہ پھول رکھنے کی یہی جگہیں ہوتی ہیں۔ دست اور دامن میں مناسبت ظاہر ہے کہ دامن کو ہاتھوں سے پکڑتے ہیں۔ اسی طرح جیب وآغوش میں بھی مناسبت ظاہر ہے، کیونکہ گریبان سینے پر ہوتا ہے، اور آغوش میں لینے کے معنی ہیں، ’’سینے سے لگاکر بھینچنا‘‘ پھر دست اور آغوش میں بھی مناسبت ہے، کیوں کہ آغوش میں لیتے وقت ہاتھوں کو کام میں لاتے ہیں۔ لہٰذا یہ جگہیں جو پھول رکھنے کے لیے مناسب ہیں، یوں ہی نہیں جمع کردی گئی ہیں۔ ان میں آپس میں بھی مناسبت ہے۔ اب استعارہ دیکھیے۔

    ’’دست ودامن جیب وآغوش‘‘ متکلم کی صلاحیت کا استعارہ ہے۔ یہ صلاحیت روحانی بھی ہوسکتی ہے، اخلاقی بھی، اور جسمانی بھی۔ دست اور آغوش کاتعلق براہ راست جسم سے ہے، اس لیے شعر میں جنسی تلازمہ قائم ہوتا ہے اور دوسرے مصرعے کا’’باغ خوبی‘‘ اس دنیا کا استعارہ نظر آتاہے جس میں معشوق بھرے پڑے ہیں اور’’پھول‘‘ معشوق کا استعارہ نظر آتاہے۔ یا ’’باغ خوبی‘‘ معشوق کاجسم اور پھول اس کے جسم کا حصہ یا جسم کے حصے سے لمس یا بغل گیری کا استعارہ دکھائی دیتا ہے۔ لہٰذا دونوں مصرعوں میں جنسی مناسبت مستحکم ہوجاتی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ’’باغ خوبی‘‘ سے مراد روحانی تجربات یا معرفت ہو، اور پھول سے مراد معرفت کا پھول ہو۔ دامن اور جیب کے الفاظ ان معنی سے متغائر نہیں ہیں۔ کیونکہ بنیادی لفظ ’’پھول‘‘ ہے، جو بظاہر ’’باغ خوبی‘‘ سے بھی کم پر زور ہے۔

    لیکن یہ بنیادی لفظ اس لیے ہے کہ پہلا مصرع تمام وکمال اس کی مناسبت سے کہاگیا ہے۔ اس مناسبت کا ایک فائدہ اور ہواکہ پہلے مصرعے میں ٹھوس اور مرئی چیزوں کا ذکر ہے، یعنی ’’دست ودامن جیب وآغوش‘‘ اس وجہ سے جنسی تلازمہ مستحکم ہواہی ہے، شعر میں تجرید کی جگہ تجسیم آگئی ہے۔ اگر مناسبت کا خیال نہ ہوتا تو دل، جان، روح وغیرہ قسم کے الفاظ رکھ سکتے تھے، پھر شعر تجریدی ہوجاتا اور ہاتھ، دامن، آغوش میں بھر لینے کے انسانی اور فوری عمل کی گنجائش نہ رہتی۔ اس وقت انسانی اور فوری تاثر کی بنا پر شعر میں شوق کی تعجیل (Urgency) اور وفور اشتیاق (eagerness) بہت خوبی سے آگئی ہے۔ اگر آنکھ وغیرہ قسم کالفظ رکھتے تو لمس کے جنسی تلازمے سے ہاتھ دھونا پڑتا۔

    اب لفظ ’’کہاں‘‘ پر غور کیجئے۔ یہ دو معنی رکھتاہے۔ ’’کہاں‘‘ بمعنی’’کس جگہ‘‘ یعنی ہاتھ، جیب، دامن، آغوش جو جگہیں مناسب تھیں وہ تو اس لائق نہ نکلیں، اب میں ان پھولوں کو کس جگہ لوں۔ ’’کہاں‘‘ کے دوسرے معنی استفہام انکاری کے ہیں، کہ میں پھول کو نہیں لے سکتا۔ اب’’پھول‘‘ کے ابہام کا ایک اور پہلو دیکھئے۔ کئی جگہوں کا ذکر کرنے سے یہ امکان پیدا ہوتاہے کہ ’’پھول‘‘ صیغۂ واحد میں نہیں، بلکہ صیغۂ جمع میں ہے۔ یعنی متکلم بہت سے پھولوں کاخواہاں ہے اور ایک کو بھی حاصل کرنے کا اہل نہیں ہے،

    سیر کی رنگیں بیاض باغ کی ہم نے بہت

    سر کا مصرع کہاں وہ قامت موزوں کہاں

    سردوکو قامت یار سے تشبیہ دیتے ہیں۔ چونکہ قامت یار کو ’’موزوں‘‘ بھی کہتے ہیں اور مصرع بھی’’موزوں‘‘ کہلاتا ہے، اس لیے سرو کے لیے ’’مصرع‘‘ کا استعارہ رکھاہے، جو بہت نادر نہیں لیکن دلچسپ ہے۔ اب یہاں سے مناسبت کا کھیل شروع ہوتاہے۔ سرو چوں کہ مصرع ہے اور سردوباغ میں ہوتاہے، اس لیے باغ کو’’بیاض‘‘ کہا۔ دوسری بات یہ کہ باغ سے گلدستہ بناتے ہیں اور اشعار کے مجموعے کو بھی گلدستہ کہتے ہیں اور گلدستے کو بیاض سے وہی نسبت ہے جو پھول کو باغ سے۔ لہٰذا ’’بیاض‘‘ اور’’باغ‘‘ میں مناسبت اورمستحکم ہوگئی۔ اور چوں کہ مصرعے کی ایک صفت ’’رنگین‘‘ بھی ہوتی ہے، اور باغ بھی رنگوں سے بھراہوتا ہے، اس لیے باغ کو ’’رنگین بیاض‘‘ کہا، م کیوں کہ یہ مناسبت دونوں طرف جاتی ہے۔ لیکن ’’بیاض‘‘ کے معنی ’’سفیدی‘‘ بھی ہوتے ہیں۔ اس طرح’’رنگین بیاض‘‘ میں قول محال پیدا ہوگیا۔ (یعنی رنگین سفیدی)

    اور آگے دیکھیے۔ ’’باغ‘‘ کی مناسبت سے ’’سیر‘‘ ہے، جو سامنے کے مناسبت ہے۔ لیکن سردوکو پابہ زنجیر کہتے ہیں، اس لیے پابہ زنجیر کو دیکھنے کے لیے سیرکرنے جانا میں ایک لطیف طنزیہ تناؤ بھی ہے۔ ’’میر‘‘ اور’’سرو‘‘ ایک ہی خاندان کے لفظ معلوم ہوتے ہیں، حالانکہ ایسا ہے نہیں۔ لیکن اس شبہے کی بنا پر سرو کی سیر کرنے میں ایک نیا لطف محسوس ہوتاہے۔ مناسبت کا لحاظ نہ ہوتا تو سیر کی جگہ کوئی اور لفظ ’’گشت‘‘ رکھ دیتے تو کوئی ہرج نہ محسوس ہوتا۔ پھر، معشوق کو ’’سرورداں‘‘ بھی کہتے ہیں، اس طرح ’’سیر‘‘ اور معشوق کے ’’قامت موزوں‘‘ میں بھی ایک مناسبت پیداہوگئی۔ ’’سیر‘‘ اور’’کہاں‘‘ میں مناسبت ظاہر ہے،

    باؤ کے گھوڑے پہ تھے اس باغ کے ساکن سوار

    اب کہاں فرہاد وشیریں خسرو گلگوں کہاں

    ’’باؤ کے گھوڑے پر سوار ہونا‘‘ کے معنی ہیں ’’بہت مغرور ہونا۔‘‘ میر نے محاورے کو دوبارہ استعارہ بنادیاہے، کیوں کہ اس شعر میں اس محاورے کے معنی یہ بھی ہیں کہ اس باغ کے رہنے والے بہت جلد ی میں تھے۔ ’’ساکن‘‘ کے معنی ہیں ’’رہنے والا۔‘‘ لیکن’’ٹھہرے ہوئے‘‘ کو بھی ’’ساکن‘‘ کہتے ہیں۔ اس طرح ’’ساکن‘‘ اور’’سوار‘‘ کے الفاظ خاص کر وہ سوارجو ہوا کے گھوڑے پر سوار ہو، قول محال کالطف پیدا کررہے ہیں (ساکن سوار۔) ’’ساکن‘‘ بمعنی ’’رہنے والا‘‘ میں ایک طنزیہ تناؤ بھی ہے کیونکہ اگر وہ لوگ ’’رہنے والے‘‘ (بمعنی ’’ٹھہرنے والے‘‘، ’’قائم رہنے والے‘‘) تھے، تو پھر اتنی جلدی غائب کیسے ہوگئے؟ طنزیہ تناؤ کی ایک جہت یہ بھی ہے کہ وہ لوگ تھے تو رہنے والے، لیکن عجیب رہنے والے تھے کہ ہوا کے گھوڑے پر سوار تھے۔

    فرہاد، شیریں، خسرومیں مناسبت ظاہر ہے۔ لیکن گھوڑے، شیریں اور گلگوں میں بھی مناسبت ہے۔ کیوں کہ شیریں کے گھوڑے کا نام ’’گلگوں‘‘ تھا۔ باغ اور گلگوں کی مناسبت ظاہر ہے، خسرو او ر گلگوں میں بھی مناسبت ہے، کیوں کہ بادشاہ کے ہاتھ اکثر پھول دکھایا جاتاہے جو تری وشادابی اور لطافت کی علامت ہے۔ بادشاہ کے چہرے پر عزت اور وقار کی سرخی بھی ہوتی ہے۔ لہٰذا ’’گلگوں‘‘ یوں بھی مناسب ہے۔ لیکن فرہاد وشیریں کو ایک طرف اور خسرو کو ایک طرف رکھنے میں بھی ایک طنزیہ جہت ہے۔ ’’اب کہاں فرہاد وشیریں؟‘‘ یعنی فرہاد وشیریں جہاں بھی ہیں، ایک ساتھ ہیں۔ ’’خسرو گلگوں کہاں؟‘‘ یعنی خسرو ان سے الگ ہے۔ ’’فرہاد وشیریں‘‘ کو ایک نحوی اکائی اور ’’خسرو گلگوں‘‘ کو دوسری نحوی اکائی کے طورپرباندھنے کی وجہ سے معنی کی یہ نئی شکل پیدا ہوگئی۔

    ان مختصر مثالوں سے یہ بات واضح ہوگئی ہوگی کہ میر کی کثیر المعنویت اور تہ داری اور زبان کا نیا پن استعارے اور رعایت کے بغیر ممکن نہ ہوتا۔ اورخالی خولی روزمرہ میں ان صفات کا گزر نہیں۔ میر کے اسلوب کو سادی اور سریع الفہم کہنا اور ان کے ابہام، ان کی پیچیدگی، کثیر المعنویت اور غیر معمولی زور بیان کو نظر انداز کرنا، نہ صرف میر بلکہ تمام اردو شاعری کے ساتھ بڑی زیادتی ہے۔ جو شعر میں نے اوپر درج کیے ان میں کوئی چیزایسی نہیں جس کو مضمون کے لحاظ سے غیر معمولی کہا جائے۔ میر کی ساری آفاقیت اسی میں ہے کہ وہ عام باتوں کو بھی انکشاف کا درجہ بخش دیتے ہیں، اور یہ ان کے اسلوب کا کرشمہ ہے۔

    میر کی کائناتی الم ناکی اورزندگی کے دردوغم میں غوطہ لگانے اور انسانی عظمت اور شش جہت کے اسرار کا سراغ لگانے کی تعریف میں صفحے کے صفحے سیاہ کرنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ بات گہری ہو یا ہلکی، اسے شاعری بننے کی لیے کچھ شرطیں درکارہوتی ہیں۔ فلسفیانہ مضامین میں تھوڑابہت زور تو میاں فانی بھی پیدا کرلیتے ہیں۔ بڑا شاعر وہ ہے جو معمولی حقیقتوں کو بھی اس طرح پیش کرے کہ ایک حقیقت کے چار چار پہلوبیک وقت نظر آئیں اور شعر کے الفاظ آپس میں اس طرح گتھے ہوئے ہوں جہ جیسے ان میں برقی مقناطیسی (electromagnetic) قائم ہوگیاہو۔

    استعارہ اور مناسبت کے اصولوں کی اس مختصر وضاحت کے بعد میں میر کی زبان کی بعض دوسری خصوصیات کی طرف مراجعت کرتا ہوں۔

    (۶) میر نے فارسی کے نادر الفاظ اور فقرے اور نسبتاً کم مانوس الفاظ او رفقرے بکثرت استعمال کیے ہیں۔ انہوں نے عربی کے غریب الاستعمال الفاظ اور تراکیب، اور عربی کے ایسے الفاظ جو غزل میں شاذ ہی دکھائی دیتے ہیں، وہ بھی خوب استعمال کیے ہیں۔ عربی الفاظ وتراکیب کے استعمال کا یہ فن غالب بھی ٹھیک سے نہ برت سکے۔ میر کا عالم یہ ہے کہ ان کی کم غزلیں ایسی ہوں گی جن میں کم سے کم ایک نادر فقرہ یا لفظ یا اصطلاح اور چھ سات نسبتاً کم مانوس الفاظ یا فقرے نہ استعمال ہوئے ہوں۔ عربی کے فقرے اور تراکیب اقبال کے بعد میر کے یہاں سب شاعروں سے زیادہ نکلیں گے۔ ذوق اور مومن کو بھی عربی سے شغف تھا، خاص کر ذوق نے قرآن وحدیث سے خاصا استفادہ کیا ہے۔ ان دونوں کی عربیت (شاعری میں استعمال کی حدتک) غالب سے زیادہ، لیکن میر سے کم تھی۔ میر کے کلام میں روانی اس قدر ہے کہ کوئی لفظ یا فقرہ بے جگہ نہیں معلوم ہوتا۔ یہ خاصیت ذوق میں بھی ہے، لیکن میر کے یہاں عربی اس طرح کھپ گئی ہے کہ اکثر لوگوں کو اس کا احساس بھی نہیں ہوتا۔ میں چند مثالیں ادھر اُدھر سے نقل کرتاہوں،

    ایسا موتیٰ ہے زندۂ جاوید

    رفتۂ یار تھا تب آئی ہے

    (دیوان دوم)

    ’’موتیٰ‘‘ بمعنی ’’مرنے والا‘‘ یہ لفظ اس قدر نادر ہے کہ اچھے اچھوں نے اس کو ’’موتی‘‘ پڑھاہے۔

    کچھ کم ہے ہولنا کی صحراے عاشقی کی

    شیروں کو اس جگہ پر ہوتا ہے قشعر یرہ

    (دیوان دوم)

    ’’قشعریرہ‘‘ میر کو اتنا پسند تھا (اور یہ لفظ ہے بھی غضب کا) کہ اسے دیوان دوم میں ایک بار اور پھر ’’شکارنامۂ دوم‘‘ میں بھی استعمال کیا ہے۔

    وصل کی دولت گئی ہوں تنگ فقر ہجر میں

    یا الٰہی فضل کر یہ حور بعد الکور ہے

    (دیوان پنجم)

    ’’حو ر بعد الکور‘‘ بمعنی زیادتی کے بعد کمی۔ اس کاجواب بھی میر کے پاس ہے،

    کیوں کر تو میری آنکھ سے ہودل تلک گیا

    بہ بحر موج خیر تو عسر العبور تھا

    (دیوان اول)

    سر شک سرخ کو جاتاہوں جو پئے ہر دم

    لہو کاپیاسا علی الاتصال اپنا ہوں

    (دیوان اول)

    منعم کا گھر تمادی ایام میں بنا

    سو آپ ایک رات ہی واں میہماں رہا

    (دیوان ششم)

    شیخ ہو دشمن زن رقاص

    کیوں نہ القاص لایحب القاص

    (دیوان اول)

    شرم آتی ہے پونچتے اودھر

    خط ہوا شوق سے ترسل سا

    (دیوان دوم)

    ’’ترسل‘‘ کے معنی عام لغات میں نہیں ملتے۔ مندرجہ ذیل الفاظ عام طور پر غزل کے باہر سمجھے جاتے ہیں،

    (انتفاع)

    کچھ ضرر عائد ہوا میری ہی اور

    ورنہ اس سے سب کو پہنچا انتفاع

    (دیوان سوم)

    (مستحیل)

    ہیں مستحیل خاک سے اجزائے نو خطاں

    کیا سہل ہے زمیں سے نکلنا نبات کا

    (مستہلک)

    مستہلک اس کے عشق کے جانیں ہیں قدر مرگ

    عیسیٰ وخضرکو ہے مزا کب وفات کا

    (دیوان دوم)

    (لیت و لعل)

    جان تو یاں ہے گرم رفتن لیت ولعل واں ویسی ہے

    یا کیا مجھ کو جنوں آتا ہے اس لڑکے کے بہانوں پر

    (دیوان پنجم)

    علاوہ بریں، میر نے عربی کے بہت سے الفاظ اصل عربی معنی میں استعمال کئے ہیں۔ مثلاً ’’زخم غائر‘‘ (گہرا زخم) ، ’’تجرید‘‘ (اکیلا پن) ، ’’تعدی‘‘ (حد سے بڑھنا) ، ’’سماجت‘‘ (زشتی) ، ’’کفایت‘‘ (کافی) ، ’’صمد‘‘ (بے نیاز۔ یہ لفظ اردو میں صرف اللہ کے نام کے طور پر مستعمل ہے۔) ، ’’متصل‘‘ (مسلسل، بے وقفہ) ، ’’بنا‘‘ (گھر) وغیرہ۔

    عربی الفاظ اور فقروں کے گراں معلوم ہونے کی ایک وجہ شاید یہ ہے کہ میر نے ایسے الفاظ کو اکثر خودطبعی کے ماحول میں صرف کیا ہے۔ میں نے صرف چند شعر نقل کیے ہیں، اور وہ بھی ایسے جن میں عربی لفظ یا فقرہ بہت ہی نامانوس قسم کا ہے، ورنہ متوسط درجے کے نامانوس الفاظ، یا ایسے عربی الفاظ جو عام طور پر غزل میں استعمال نہیں ہوتے، میر کے یہاں کثیر تعداد میں ہیں۔ فارسی الفاظ اور فقروں کی تعداد عربی سے کئی گنا زیادہ ہے۔ ان میں سے بعض تو اس قدر نادر ہیں کہ پہلی نظر میں وہ مہمل معلوم ہوتے ہیں۔ فارسی کی مثالیں میں یہاں درج نہیں کررہا ہوں، کیوں کہ بہت سے اشعار شرح یا انتخاب میں آگئے ہیں۔

    (۷) فارسی سے شغف کے باوجود میر کے کلام کی عام فضا غالب سے بالکل مختلف ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ غالب کا تخیل بہت تجریدی ہے۔ ان کے اکثرفارسی الفاظ وتراکیب تجریدی اور غیر مرئی تصورات واشیا کا اظہار کرتے ہیں، اس لیے غالب کی فضا بہت اجنبی معلوم ہوتی ہے،

    با وجود یک جہاں ہنگامہ پیدائی نہیں

    اس طرح کا مصرع تو میر کے یہاں بھی مل جائے گا، کیوں کہ ’’یک جہاں ہنگامہ‘‘ اور ’’پیدائی‘‘ میں تجرید سے زیادہ تجسیم کارنگ ہے۔ مثلاً میر کا مصرع ہے،

    یاد رباز بیاباں یادر مے خانہ تھا

    اس میں غالب کے مصرعے کی کیفیت ہے۔ لیکن غالب کا دوسرا مصرع۔۔۔،

    ہیں چراغان شبستاں دل پروانہ ہم

    سراسر تجریدی ہے۔ کیوں کہ پہلے تو پروانے کادل فرض کیجئے، جو غیرمرئی ہے۔ پھر اس دل کا شبستاں تصور میں لائیے، جو خیالی ہے۔ پھر اس شبستاں میں چراغاں کو تصور میں لائیے جو اور بھی زیادہ خیالی ہے۔ استعارے کی ندرت اور پیکر کے بصری چمک نے شعر کو غیر معمولی طور پر حسین بنا دیا ہے، ورنہ اس کے اجزا کو الگ الگ کیجئے اور پھر ان کی تجرید پر غور کیجئے تو تعجب نہیں کہ شعر بالکل غیر حقیقی دکھائی دے۔ غالب کے یہاں اکثر فارسیت اس درجے کی، یا اس سے بھی آگے کی ہے۔ کیوں کہ اس شعر میں لسانی الجھاؤ نہیں ہے، جب کہ غالب اکثر لسانی الجھاؤ بھی پیدا کردیتے ہیں۔ لیکن ایسا نہیں کہ میر اس طرح کا تاثر پیدا کرنے سے بالکل عاری ہوں جو غالب کاخاصہ ہے۔ مثلاً دیوان اول کاجو مصرع میں نے اوپر نقل کیا، اس غزل کا ایک شعر ہے،

    شب فروغ بزم کا باعث ہوا تھا حسن دوست

    شمع کا جلوہ غبار دیدۂ پروانہ تھا

    اس شعر کو غالب کے دیوان میں ملادیجئے تو کسی کو شک نہ ہوگا کہ یہ غالب کا شعر نہیں ہے۔ پروانے کی آنکھ غیر مرئی ہے، پھر اس میں غبار فرض کیجئے جو خیالی ہے، پھر شمع کے جلوہ کو اس غبار سے تعبیر کیجئے، جو تصوراتی ہے۔ لہٰذا غالب کا تجریدی رنگ میر کے یہاں ناپید نہیں۔ اگر غالب پر بیدل کااثر نہ ہوتا تو ہم کہہ سکتے تھے کہ میر کے تجریدی اشعار سے بھی غالب نے استفادہ کیا ہوگا۔ لیکن چونکہ عام طور پر میر کا تخیل ٹھوس اور مرئی اشیا سے کھیلتاہے، اس لیے ان کی فارسیت غالب سے مختلف طرح کی ہے۔ یہ بات ملحوظ رہے کہ اردوکے بیش تر تصوراتی اور تجریدی الفاظ فارسی الاصل ہیں، اس لیے غالب کی فارسیت ان کی تجریدیت کے لیے سونے پر سہاگہ بن گئی۔

    مأخذ:

    شعر شور انگیز (Pg. 58)

    • مصنف: شمس الرحمن فاروقی
      • ناشر: ڈائرکٹر قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 2006

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے