aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

میر: صبا در بدر

علی سردار جعفری

میر: صبا در بدر

علی سردار جعفری

MORE BYعلی سردار جعفری

    لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام

    آفاق کی اس کارگہ شیشہ گری کا

    تمہید
    شاعر کو تلمیذ رحمانی بھی کہا گیا ہے اور پیغمبر کا بھی درجہ دیا گیا ہے لیکن میرتقی میر تنہا شاعر ہیں جن کو خدائے سخن کہا جاتا ہے۔ ولی دکنی، سودا، نظیر اکبرآبادی، انیس، غالب اور اقبال کے ہوتے ہوئے میر اردو شاعری میں عظمت کے تنہا مسندنشین نہیں ہیں اور نہ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ وہ اردو کے سب سے بڑے شاعر ہیں۔ پھر بھی اس حقیقت سے انکار نہیں کہ اردو کے تمام شعرا میں سرفہرست میر ہی کا نام رہےگا۔ حالانکہ آج عام مقبولیت کے اعتبا رسے غالب اور اقبال میر سے کہیں آگے ہیں اور ان کی کتابیں کلیات میر کے مقابلہ میں بہت زیادہ فروخت ہوتی ہیں۔ ان کے اشعار زیادہ زبان زدہیں۔ ان کے اثرات جدید شاعری پر زیادہ نمایاں ہیں۔ پھر بھی غالب اور اقبال کی شاعرانہ عظمت کے منکر موجود ہیں۔ مگر میر کی استادی سے انکار کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ ہر عہد میں بڑے سے بڑے شاعر نے اپنا سر میر کی بارگاہ میں جھکا دیا ہے۔

    ان کا مقام شاعری ہی میں نہیں بلکہ زبان کے ارتقا کی تاریخ میں بھی بہت اہم ہے۔ کھڑی بولی جس پر جدید ہندی اور اردو زبان کی بنیاد ہے، اتنے نکھر ے ہوئے روپ میں میر کے ہاں نظر آتی ہے کہ اس کے بعد کا ہر روپ میر کی دین معلوم ہوتی ہے۔ اسلوب اور انداز کے اعتبار سے بھی میر کی حیثیت ایک ایسے شاعرانہ سرچشمے کی سی ہے جس سے تمام ندیاں پھوٹتی ہیں۔ وہاں غالب کے رنگ کے بھی ابتدائی نقوش ملتے ہیں (اور اس سے جدید شاعری کا رنگ پیدا ہوا ہے) اور مومن اور داغ کے رنگ کے ساتھ ساتھ خارجیت کا وہ انداز بھی ملتا ہے جسے لکھنؤ اسکول کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ لطف یہ ہے کہ جس کو آج اقبال کی غزل کا نیا اسلوب سمجھا جاتا ہے اور جس کی روانی میں فکر کی عظمت کی وجہ سے ایک بھاری پن آگیا ہے اور گمبھیر کیفیت پیدا ہو گئی ہے، اس کے نشانات بھی میر کے یہاں موجود ہیں اور بعض مقامات پر علامتوں ہی کی نہیں بلکہ خیالات کی حیرت انگیز یکسانیت ہے، حالانکہ فکری اور جذباتی اعتبار سے میر اور اقبال کے درمیان دوصدیوں کا فاصلہ حائل ہے۔

    اس سے بھی زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ پورے دو سو برس بعدجب ۱۹۴۷ء میں دہلی ایک بار پھر خون کی ہولی میں نہائی اور پنجاب اور دہلی کی سرزمین پر ہندو مسلم سکھ عیسائی فسادات نے نادرشاہی قتل عام اور احمدشاہی لوٹ کھسوٹ کی یاد تازہ کر دی تو اردو کے جدید تر نوجوان شاعروں نے غالب، اقبال اور جوش کا دامن چھوڑکر میر کے دامن میں پناہ لی۔

    ڈیڑھ سو برس سے اردو کے عظیم شعراء میر کو خراج عقیدت پیش کرتے آئے ہیں اور یہ بات ایک مسلمہ حقیقت بن چکی ہے کہ ’’آپ بے بہرہ ہے ہے جو معتقد میر نہیں۔‘‘ پھر بھی میرکا مطالعہ اسکولوں اور کالجوں کے نصاب کی کتابوں تک محدود رہا، اور میر شاعروں اور نقادوں کے شاعر بنے رہے لیکن ۱۹۴۷ء کے زخمی اور لہولہان ہندوستان اور پاکستان نے دوبارہ کلیات میر کو کلیجے سے لگایا اور اس کے اوراق میں اپنے زخموں کا مرہم ڈھونڈنا چاہا۔ صدیوں کی فرسودگی کے بعد بھی تازہ رہنے والا یہ کام یقینا ًعظیم قدروں کا حامل ہے۔ وقت کے ہاتھ اسے چھو نہیں سکتے اور تاریخ کی گرد اسے دھندلا نہیں سکتی۔

    اردو شاعری کی جدید تحریک کے بانی اور مشہور تذکرہ نگار محمد حسین آزاد (۱۸۳۳ء تا ۱۹۱۰ء ) نے اپنی دلچسپ کتاب ’’آب حیات‘‘ میں میر کی تعریف اس طرح کی ہے کہ، ’’قدردانی نے ان کے کلام کو جوہر اور موتیوں کی نگاہوں سے دیکھا اور نام کو پھولوں کی مہک بناکر اڑا دیا۔ ہندوستان میں یہ بات انہیں کو نصیب ہوئی ہے کہ مسافرغزلوں کو تحفے کے طور پر شہر سے شہر میں لے جاتے تھے۔‘‘

    پھولوں کی یہ مہک آج بھی آوارہ ہے۔ اب اسے میر کی بدنصیبی سمجھا جائے یا اردو والوں کی بدمذاقی کہ کلیات میر کا کوئی صحیح اور خوبصورت ایڈیشن آج تک شائع نہیں ہوا ہے اور بیشتر انتخابات ناقص ہیں۔ اب یہ اور بات ہے کہ میر کے چند اشعار زبان زد رہے ہیں اور زندگی کی مشکل گھڑیوں میں تسکین کا باعث بنے ہیں۔ یہ اشعار صاحبان ذوق کے درمیان سوغات کی طرح تقسیم ہوتے رہے ہیں۔ اکثر بچوں نے اسکولوں اور کالجوں میں پڑھنے سے پہلے یہ کلام جستہ جستہ بڑے بوڑھوں کی زبانی سنا ہے۔ اس کی وجہ سے یہ بھی ہوا ہے کہ بعض اشعار کے الفاظ بدل گئے ہیں اور بعض دوسرے اور کمتر شعراء کے اشعار میر کے نام سے منسوب ہو گئے ہیں اور حد یہ ہے کہ بڑے بڑے صاحب نظر نقاد اس فریب میں آگئے ہیں۔

    اس طرح میر کو سمجھنے کا ایک آٓسان طریقہ بھی رائج ہو گیا۔ وہ بہتر نشتروں کے شاعر مشہور ہو گئے جن کا کلام صرف آہ ہے۔ کیونکہ کسی نے کبھی یہ کہہ دیا تھا کہ سودا کی شاعری واہ ہے اور میر کی شاعری آہ۔۔۔ کیجے کیا میر صاحب، بندگی، بےچارگی۔ چنانچہ تنقید بھی اسی ڈگر پر چل کھڑی ہوئی اور لوگوں کی توجہ ایسے اشعار کی طرف سے ہٹ گئی جن میں آہوں کا گزر نہیں تھا اور سپردگی وفتادگی معصومیت اور سادگی کے بجائے میر کی بے دماغی بول رہی تھی۔

    میر کی شاعری جتنی سادہ اور دلنشیں ہے اتنی ہی ٹیڑھی، بانکی، ترچھی، تیکھی بھی ہے۔ اس میں جتنی نرمی اور گداز ہے اتنی ہی تلخی اور صلابت بھی ہے۔ مثال کے طور پر یہ شعربہت مشہور ہے، 

    ہم فقیروں سے بے ادائی کیا
    آن بیٹھے جو تم نے پیار کیا

    لیکن مزاج کی ایک دوسری ہی کیفیت اس شعر میں ملتی ہے، 

    اپنا شیوہ کجی نہیں یوں تو
    یارجی، ٹیڑھے بانکے ہم بھی ہیں

    اگر ایک طرف میر صاحب یہ کہتے ہیں، 
    دور بیٹھا غبار میر اس سے
    عشق بن یہ ادب نہیں آتا

    تودوسری طرف اس بے ادبی کی بھی ہمت رکھتے ہیں، 

    ہاتھ دامن میں ترے مارتے جھنجھلاکے نہ ہم
    اپنے جامے میں اگر آج گریباں ہوتا

    میر کے اعلیٰ درجے کے اشعار صرف یہی نہیں ہیں، 

    الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوانے کام کیا
    دیکھا اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیا

    ناحق ہم مجبوروں پریہ تہمت ہے مختاری کی
    چاہتے ہیں سو آپ کرے ہیں ہم کو عبث بدنام کیا

    ہم خاک میں ملے تو ملے لیکن اے سپہر
    اس شوخ کو بھی راہ پہ لانا ضرور تھا

    تلخ اور شیریں، نرم اور گرم کے اس امتزاج میں میر کی شخصیت کا سارا جادو ہے اور یہ شخصیت اپنے عہد کے ساتھ ہم آہنگ ہوکر ایک ہو گئی ہے اور اس کی وجہ سے اس شاعری میں دل اور دلّی ہم معنی الفاظ بن گئے ہیں۔

    کبھی کبھی یہ خیال پیدا ہوتا ہے (اور یہ خیال ہی ہے) کہ میر نے حافظ اور غالب کی طرح اپنے عہد کے شکنجوں کو توڑنے میں کامیابی حاصل نہیں کی اور وقت اور تاریخ کے بنائے ہوئے بھیانک قید خانے کی ساری آئینی سلاخیں میر کے جسم وجان میں پیوست ہو گئیں۔ میرکے ہندوستان کی طرح حافظ کا ایران بھی خانہ جنگیوں کا شکار تھا اور اس نیم مردہ جسم کو تیمور کی فوجوں نے اپنے گھوڑوں کی ٹاپوں سے روندڈالا اور غالب کی دلی ۱۸۵۷ء کے غدر کی نذر ہو گئی۔ یہ دونوں فتنے کسی طرح نادرشاہی اور احمدشاہی فتنوں سے کم نہیں تھے۔ پھر بھی ایک کے یہاں نشاط سرشاری ہے اور دوسرے کے یہاں سرکشی اور انانیت۔ اس کے برعکس میر کے یہاں وہ نشاط و سرشاری، وہ شگفتگی اور بالیدگی مفقود ہے۔

    ان کی شاعری غم کا ایک اتھاہ سمندر ہے جس میں آہوں کی کچھ موجیں ہیں اوراحتجاج کے کچھ طوفان۔ ہنس کر طنز کرناان کے لئے مشکل ہے۔ جھنجھلاکے گالی دینا آسان۔ (سودا کے بعد سب سے زیادہ گالیاں میر کے کلام میں ملیں گی۔ اسی لئے کسی نے کہا تھا کہ میر کا بلند کلام بے انتہا بلند اور پست کلام بے انتہا پست ہے۔) میر کے یہاں عشق ظہور عالم کا باعث ہونے کے باوجود جان لیوا ہے۔ شوق کی افراط ذرے کوصحرا اور قطرے کو دریا بنانے کے بجائے رونے اور مرنے پر آمادہ کرتی ہے۔ آوارگی آزادہ روی نہیں ہے بلکہ پریشاں حالی اور پریشاں روزگاری ہے۔ اس میں تڑپ نہیں ہے، افسردگی اور بےچارگی ہے۔ اسی لئے میر نے آوارگی کو نسیم وصبا سے نہیں بگولوں سے تشبیہ دی ہے۔

    میر معشوق سے کھیل نہیں سکتے۔ وہ یاتو شکوہ کرتے ہیں یا پرستش اور ان کی طبیعت واسوخت کی طرف مائل ہو جاتی ہے۔ وصال اور ہم آغوشی کی منزل ذرا کم ہی آتی ہے۔ انتظار کا درد بڑی حد تک لذت سے نا آشنا ہے۔ وہ کرب ہی کرب ہے۔ رقص اور نغمے کے الفاظ تو درکنار، اس تصور کی پرچھائیں بھی میر کی غزلوں پر نہیں پڑی۔۔۔ کبھی زمزمہ پردازی کا ذکر ضرور کرتے ہیں مگر اس اہتمام کے ساتھ کہ یہ اسیری کا مژدہ ہے۔

    لیکن یہ غم غم ذات نہیں، غم کائنات ہے۔ یہ اپنے دل کی اندرونی فضا میں محدود ایک فرد کی شکست نہیں ہے بلکہ ایک پوری دنیا، ایک پورے عہد کی شکست ہے جس کواس فرد نے اپنی ذات میں سمیٹ لیا ہے۔ میر ایک ہارے ہوئے عاشق ضرو رہیں لیکن یہ زمانے کی نہیں خدا کی ہار معلوم ہوتی ہے۔ اس لئے بے بسی اور بیچارگی کے ساتھ ساتھ اس میں ایک عجیب وغریب عظمت ہے اورانسان کے کھوئے ہوئے وقار کو حاصل کرنے کا بلند حوصلہ۔ یہ ایک کربلا ہے جس میں قتل حسین مرگ یزید کی بشارت دیتا ہے۔ ٹریجڈی کے ہیروکی جسمانی شکست، بدی کے مقابلے میں نیکی کی روحانی فتح ہوتی ہے۔ دنیا کا عظیم آرٹ شکست وفتح، غم اور نشاط کی متضاد کیفیتوں کو اسی طرح ملاکر دو رنگوں سے ہزار رنگ پیدا کرتا ہے۔ میر کے بعد ایسا پرشکوہ غم کسی دوسرے شاعر کو نصیب نہیں ہوا۔

    وہ ایک بامقصد اور باشعور شاعر ہیں۔ ان کی غزل سرائی صرف گرمی محفل کے لئے نہیں ہے۔ اس کا مرتبہ ان کی نظروں میں بہت بلند ہے۔ انہوں نے بعض امیروں اوربادشاہوں کی مصاحبت اور نوکری ضرور کی اور کبھی کبھی قصیدوں اور مثنویوں سے خوش بھی کیا لیکن اپنی غزل کو آلودہ نہیں ہونے دیا۔ ان کی غزل میں ایک شعر بھی کسی ’’تجمل حسین خاں’ (غالب کا ممدوح) یا کسی ’’حاجی قوام‘‘ (حافظ کا ممدوح) کی تالیف قلب کے لئے نہیں ہے۔

    قدر جیسی مرے شعروں کی امیروں میں ہوئی
    ویسی ان کی بھی ہوگی مرے دیوان کے بیچ

    ویسے ان کے ہم عصروں میں بعض ایسے شعرا موجود تھے جنہوں نے ندیم اور مصاحب بن کر اپنے فن کا گلاگھونٹ دیا (جیسے انشا) یوں تو میر کی بے دماغی کے بہت سے افسانے مشہور ہیں لیکن انہوں نے خود اپنی آپ بیتی ’’ذکر میر‘‘ میں ایک واقعے کا ذکر کیا ہے۔ یہ ان کی جوانی کا زمانہ تھا اور وہ رعایت خاں کے نوکر تھے لکھتے ہیں، 

    ’’ایک چاندنی رات میں خان کے سامنے ڈوم کا لڑکا چبوترے پر بیٹھا گا رہا تھا (خان نے) مجھے دیکھا تو کہنے لگا کہ میر صاحب، اسے اپنے دو تین شعر ریختے کے یاد کرا دیجئے تو یہ اپنے ساز پر درست کر لےگا۔ میں نے کہا، یہ مجھ سے نہیں ہو سکتا۔ کہنے لگا میری خاطر سے۔ چونکہ ملازمت کا پاس تھا۔ طوعا! وکرہا ًتعمیل کی اور پانچ شعر ریختے کے اسے یا دکرائے۔ مگر یہ بات میری طبع نازک پر بہت گراں گزری۔ آخر دوتین دن کے بعد گھر بیٹھ رہا۔ اس نے ہرچند بلایا نہیں گیا، اور اس کی نوکری چھوڑ دی۔‘‘ (میر کی آپ بیتی۔ نثار احمد فاروقی صفحہ ۱۰۳)

    انہوں نے باربار یہ بتایا ہے کہ ان کی شاعری ان کے عہد کی ترجمان ہے۔ ان کا دیوان صرف ان کے اپنے نہیں بلکہ سارے زمانے کے در دو غم کا مجموعہ ہے۔

    درہمی حال کی ہے ساری مرے دیواں میں
    سیر کر تو بھی یہ مجموعہ پریشانی کا
    (غزل نمبر۵۔ شعر نمبر۳)

    انہوں نے غزل کے شعروں ہی میں اس بات کا اعتراف نہیں کیا ہے کہ جہاں ہزاروں طرف کا عالم خاک میں مل چکا ہو، وہاں صرف اپنے آپ رونا بے سود ہے۔ (غزل نمبر۴۶۶) بلکہ اپنی نثر کی تحریروں میں بھی اس انداز کو برقرار رکھا ہے۔ چنانچہ ان کی آپ بیتی ان کی اپنی زندگی سے زیادہ ان کے عہد کی خانہ جنگیوں کی داستان ہے۔ اس میں میر کی سیاسی اورسماجی بصیرت جھلکتی ہے۔ وہ تفصیلات میں نہیں گئے ہیں۔ لیکن رواداری میں ان کے قلم سے بعض ایسے جملے نکل گئے ہیں جو ان کے شعور کو ظاہر کرتے ہیں۔ شاہ عالم کا ذکر انہوں نے ان الفا ظ میں کیا ہے کہ، ’’عالی گہر جس پر اب بادشاہ ہونے کی تہمت ہے، مگر فرنگیوں کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی بنا ہوا ہے۔ (آپ بیتی صفحہ ۱۱۰)

    پانی پت کی تیسری لڑائی (۱۷۶۱ء ) میں احمد شاہ ابدالی کے فوجوں کے ہاتھوں مرہٹوں کی شکست کا سبب یہ بیان کیا ہے کہ، ’’مرہٹے اگر اپنے قدیم دستور کے مطابق جنگ سے گریز کرتے تو عین ممکن تھا کہ غالب آ جاتے۔ وہ توپ خانہ کو گھیر کر بیٹھ گئے اور شاہی فوج اس فکر میں لگ گئی کہ رسد نہ آنے دے۔ (آپ بیتی صفحہ ۴۔ ۱۲۳)

    میر نے امیروں اور بادشاہوں کے دربار بھی دیکھے تھے اور ان کی فوج کے ساتھ ساتھ جنگ کے میدانوں میں بھی گئے تھے۔ وہ فتح اور شکست دونوں سے واقف تھے۔ انہوں نے صرف شاعری نہیں کی بلکہ ایلچی اور سفیر کا کام بھی کیا۔ انہیں درباریوں کی سازشوں سے سابقہ پڑا تھا۔ بادشاہوں کی تخت نشینی اور ان کا قتل آئے دن کی بات تھی۔ اس لئے یہ نتیجہ نکالنا مشکل نہیں تھا کہ، 

    جس سر کو غرور آج ہے یاں تاج وری کا
    کل اس پہ یہیں شور ہے پھر نوحہ گری کا

     
    آفاق کی منزل سے گیا کون سلامت
    سامان لٹا راہ میں ہاں ہرسفری کا

     
    لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
    آفاق کی اس کارگہ شیشہ گری کا

    چونکہ وہ اپنے عہد کے المناک ڈرامے میں ذاتی طور سے شریک تھے، اس لئے وہ سیاسی اور سماجی آویزشوں کو سمجھتے تھے۔ یہ اتفاقی بات نہیں ہے کہ انہوں نے دنیا کے مال ودولت سے زیادہ اخلاقی قدروں کو قیمتی سمجھا اور اپنی غزلوں کے علاوہ فقیروں اور درویشوں کی کہانیوں کی صورت میں انہیں قلم بند کیا (فیض میر۔) بعض لوگ غلطی سے ان اخلاقی افسانوں کو جھوٹ یا خیالی واقعات کا نام دیتے ہیں۔ اخلاقی قدروں کی طرح فنی اور شاعرانہ قدروں کو بھی میرنے دنیاوی جاہ و جلال سے زیادہ اہمیت دی ہے۔ جس غزل میں انہوں نے یہ شعر کہا، 

    منعم نے بنا ظلم کی رکھ گھر تو بنایا
    پر آپ کوئی رات ہی مہمان رہے گا

    اسی میں یہ شعر بھی ہے، 
    جانے کانہیں شور سخن کا مرے ہرگز
    تاحشر جہاں میں مرا دیوان رہےگا

    (غزل نمبر۱۰)

     

    اور یہی بات مرتے وقت وصیت کے طور پر اپنے بیٹے سے کہی۔

    حیدرآباد کے ادارہ ادبیات اردو میں میر کا ایک قلمی فارسی دیوان ہے۔ اس کی ایک مثنوی میں انہوں نے دلّی سے بچھڑنے کے بعد دلّی کو پیام بھیجا ہے اور باد صبا سے مخاطب ہوکر کہا ہے کہ اگر دلّی کی طرف تیرا گزر ہو تو میری طرف سے ہر قدم پر بوسہ دینا۔ ہر مقبرے پر آیہ رحمت پڑھنا۔ ہر مسجد کو میرا سلام کہنا۔ نئی نئی پیشانیاں پیدا کرکے ہر دروازے پر سجدہ کرنا۔ ہر گلی کے سامنے ٹھہر کر دروبام پر حسرت کی نگاہ ڈالنا۔ ہر مصیبت زدہ کو میری طرف سے یاد کرنا۔ ہر دیوار کے نیچے رک کر فریاد کرنا۔ میرے دوستوں کو تلاش کرنا اور حسن نظر آئے تو اس تک میرا عشق پہنچا دینا اور اس کے بعدان سب کو میری داستان سنانا۔

    اس مثنوی میں آگے چل کر میر نے اپنی شاعری کا ذکراس انداز سے کیا ہے کہ میرا دل وطن کے شوق میں زخمی ہے۔ ورنہ ایک عمر ہو گئی کہ زبان بند ہی رہتی ہے۔ اب گفتگو کا یارا کس کو ہے۔ سارے شہر میں میری بےنیازی مشہور ہے اور چاروں طرف میری بے دماغی کے چرچے ہیں۔ مگر کیا کروں کہ دل درد وغم کے جوش سے خون ہو جاتا ہے اور مصرع خود بخود موزوں ہو جاتا ہے۔ اس کی وجہ سے اگر کوئی مجھے شاعر کہتا ہے تو وہ بدمذاق (ناشاعر) ہے۔ میں تو عشق کا مارا ہوا ہوں اور اپنے غموں میں مبتلا ہوں۔

    رفتہ عشقم غم من وافر است
    ہر کہ داند شاعرم ناشاعر است
    (اقتباس از ’’میرتقی میر‘‘ خواجہ احمدفاروقی)

    یہی خیال اردو غزل کے دو شعروں میں بھی ملتا ہے، 

    مصرع کوئی کوئی کبھی موزوں کروں ہوں میں
    کس خوش سلیقگی سے جگر خوں کروں ہو ں میں
    (غزل نمبر ۳۰۰)

    مجھ کو شاعر نہ کہو میر کہ صاحب میں نے
    درد وغم کتنے کئے جمع سو دیوان کیا
    (غزل نمبر ۳۔ شعر نمبر۲)

    یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ جدید ہندی اور اردو زبان کی تشکیل کی تاریخ میں اٹھارہویں صدی، جو میر کی صدی ہے، سب سے زیادہ اہم ہے۔ اس وقت تک زبان کا نام صرف ہندی تھا، کبھی کبھی اسے ریختہ اور زبان دہلوی بھی کہا جاتا تھا۔ اس کا سب سے زیادہ قابل اعتبار اور قابل توجہ روپ اردو رسم خط میں اور اردوشاعری کی شکل میں نکھر رہا تھا (نثر کے لئے فارسی ہی استعمال ہوتی تھی۔) اس صدی میں یہ زبان جاگیرداری عہد کی مقامی بولیوں کی حد بندی سے آزاد ہوکر ایک مستند اور ہندوستان گیر زبان بن گئی اور اس کی ادبی حیثیت مسلم ہو گئی، جس پر میر کی استادی کی مہر لگی ہوئی ہے۔ انہوں نے اپنی شاعرانہ تعلی کے زورمیں اس حقیقت کو یوں بیان کیا ہے، 

    سارے عالم پر ہوں میں چھایا ہوا
    مستند ہے میرا فرمایا ہوا

    مغل عہد اور اس سے پہلے کے زمانے میں اعلیٰ طبقے اظہار و بیان کے لئے سنسکرت اور فارسی کا استعمال کرتے تھے، حالانکہ مغل حرم میں پنجابی اور برج بھاشا بولی جاتی تھی۔ لیکن دربار میں فارسی کا رواج تھا۔ اس کے برعکس ہندی کے سنت، کو یوں اور اردو کے صوفی شعراء نے عوامی بولیوں کو اپنایا اور کبیر، میرا، ملک محمد جائسی، سورداس، تلسی داس، ولی دکنی، سودا اور میر نے اعلیٰ درجے کے شاہکار پیش کئے جو دنیا کی زبانوں کی اعلیٰ درجے کی شاعری سے آنکھیں ملا سکتے ہیں۔ روایت نے امیر خسرو کے سر ابتدا کا سہرا باندھا ہے لیکن ان کی ہندی تخلیقات نایاب ہیں اور جو چیزیں دوہوں اور مکرنیوں کی شکل میں ان کے نام سے منسوب ہیں وہ مشکوک ہیں۔

    کبیر، ملک محمد جائسی اور تلسی داس نے مختلف سطحوں سے اودھی میں نغمہ سرائی کی۔ میرا نے اپنی راجستھانی میں برج بھاشا کا میل کیا اور سورداس نے خالص برج استعمال کی۔ ولی دکنی کے یہاں پہلی بارکھڑی بولی نکھرنے لگتی ہے لیکن مراٹھی اور تیلگو کے دکنی الفاظ کی آمیزش کے ساتھ سودا اور میر نے اس کی صفائی و آرائش کرکے اسے جدید عہد کی مستند زبان بنا دیا (سودا کے یہاں اس ٹکسالی زبان کے علاوہ برج بھاشا، اودھی اور پنجابی بھی استعمال ہوئی ہے) ان دو استادوں کے علاوہ زبان کی تشکیل میں کچھ اور شاعروں کے نام بھی لئے جاتے ہیں۔ مگر وہ کمتر درجے کے شاعر ہیں۔ خود میر کے استاد خان آرزو بھی جنہوں نے ایک پوری نسل کی تربیت کی تھی اور سودا کو فارسی چھوڑکر ریختہ کی طرف مائل کیا تھا اردو شاعری میں کوئی بلند مقام نہیں رکھتے۔ ان کی عالمانہ حیثیت شاعرانہ حیثیت سے بڑی ہے۔

    ان شعرا کی جادو بیانی کے زیراثر امرا کے طبقے میں بھی ہندی اور ریختے کا رواج ہونے لگا اور وہ بھی اپنے غزلیں لے کر مشاعروں میں آنے لگے۔ بادشاہوں نے بھی طبع آزمائی کی اور ریختہ گوشاعروں کو درباروں میں استادوں کی جگہ ملنے لگی۔ قصیدہ گوئی کی روایت فارسی سے چلی آ رہی تھی۔ اس لئے وہ غزل کے ساتھ قصیدہ بھی کہنے لگے۔ اس میں سودا نے بڑا نام پیدا کیا۔

    چونکہ یہ زبان عام بازاروں اور گلی کوچوں سے نکل کر دربار تک پہنچی، اس لئے اس کا معیارعوامی ہی رہا اور محاورہ اہل دہلی اور جامع مسجد کی سیڑھیوں کو کسوٹی سمجھا جاتا رہا (جامع مسجد سے لال قلعہ کی دیواروں تک گھنی آبادی اور با رونق بازار تھے) سندکے لئے چونکہ کتابوں اور لغتوں کا وجود نہیں تھا اس لئے بول چال ہی کو سند سمجھا جاتا تھا (اردو ہندی کی ابتدائی لغتیں اٹھارہویں صدی میں انگریز مستشرقین نے تیار کی ہیں جو ایسٹ انڈیا کمپنی کے عہدیداروں کی حیثیت سے ہندوستان آئے تھے اور حکمرانی کے لئے یہاں کی زبان سیکھ رہے تھے۔)

    تشکیل اور ارتقا کاعمل دہرا تھا۔ میر اور ان کے ہم عصر شعرا ایک طرف عام بول چال کی زبان کو شعروں میں ڈھال کر خوبصورت اور ادبی بنا رہے تھے اور الفاظ کے نئے نئے جوڑ بٹھاکر اظہار و بیان کے لئے وسعتیں پیدا کر رہے تھے اور دوسری طرف فارسی کی ادبی روایتوں سے استفادہ کر رہے تھے اور محاوروں کا ترجمہ کرکے ہندی اور ریختہ میں کھپاتے جاتے تھے۔

    آج زبان میں کتنے ہی ایسے محاورے استعمال ہو رہے ہیں اور کسی کو یہ شبہ بھی نہیں ہوتا کہ یہ کسی زمانے میں دوسری زبان سے ترجمہ کرکے بنائے گئے تھے۔ محمد حسین آزاد نے آب حیات میں بہت سے محاوروں، لفظوں اور ترکیبوں کی مثالیں پیش کی ہیں۔ مثلا درآمدن (گھس آنا) سے در آنا بنایا گیا۔ عرق عرق شدن۔ آب شدن (شرمندہ ہونا) سے پانی پانی ہونا (آگ دوزخ کی بھی ہو جائےگی پانی پانی) حرف آمد ن (اعتراض ہونا) سے حرف آنا۔ دل خون شدن سے دل کا خون ہونا یا دل کا لہو ہونا۔ چشمک زدن سے چشمک زنی کرنا۔ پیمانہ پُرکر دن (مار ڈالنا) سے پیمانہ بھرنا (پیمانہ میری عمر کا ظالم تو بھر چلا) دامن افشاندہ برخاستن (بے راز ہوکر اٹھنا) سے دامن جھاڑنا، دامن جھٹکنا۔ ازجامہ بیروں شدن (بے قابو ہونا) سے جامے سے باہر ہونا۔ دل ازدست رفتن (بے اختیار ہو جانا) سے دل کا ہاتھ سے جانا (ہاتھ سے جاتا رہا دل دیکھ محبوباں کی چال۔) دل دادن (عاشق ہونا) سے دل دینا۔ از جان گذشتن (جان پرکھیلنا) سے جان سے گزرنا وغیرہ وغیرہ۔

    اسی طرح تردامن (بھیگا ہوا دامن) یعنی گناہ سے بھرا ہوا اور چراغ سحری (صبح کا چراغ جو بجھنے کے قریب ہو) کی طرح کی ترکیبوں نے بھی زبان میں اپنی جگہ بنا لی۔ میخانہ، شراب، صراحی، ساغر، مینا، ساقی اور پیرمغاں، غرض سارے لوازمات کے ساتھ اردو شاعری میں داخل ہو گیا اور آتش گل، دست ِسبو، گردنِ مینا اور پائے خم کی ترکیبیں شاعری میں عام ہو گئیں۔ بسنت کے ساتھ بہار کا تصور آیا۔ بھیم اور ارجن کے ساتھ رستم وسہراب اور سوہنی مہیوال، ہیر رانجھا کے ساتھ شیریں فرہاد، لیلی مجنوں اردو کی دنیا میں آباد ہو گئے۔

    محمد حسین آزاد کے الفاظ میں، ’’ان باتوں پر فصاحت کے اصول عامہ کے بموجب بہت اعتراض ہوئے۔‘‘ مگر حقیقت یہ تھی کہ ’’بولنے والوں کی نسلیں اور اصلیں اور گھر اور گھرانے فارسی سے شیروشکر ہو رہے تھے۔ جتنا اس کا دخل زیادہ ہوتا تھا اتنا ہی مزہ زیادہ ہوتا تھا۔ اور آج دیکھتے ہیں تو اور ہی رنگ ہے۔ ہمارے قاادر الکلام انشا پرداز ترجمے کرکے انگریزی کے خیال کے چربے اتارتے ہیں اور ایسا ہی چاہئے، جہاں اچھا پھول دیکھا چن لیا اور دستار نہیں تو کوٹ میں زیب گریباں کر لیا۔‘‘ (آب حیات صفحہ ۳۶)

    وہ زمانہ دراصل فارسی کے انحطاط اور ہندی و ریختہ کے عروج کا تھا اور جس طرح سمندر کی واپس ہوتی ہوئی لہریں ساحل پر سیپیوں کے ڈھیر چھوڑ جاتی ہیں، فارسی اپنے پیچھے بہت سے جواہرپار ے چھوڑ گئی۔ ان میں محاوروں، ترکیبوں او رلفظوں کے علاوہ وہ بحریں تھیں جوآج اردو ہی نہیں بلکہ ہندی، گجراتی اور مراٹھی شاعری تک میں مقبول ہو چکی ہیں اور زیادہ ترغزل کے ذریعے سے رائج ہوئی ہیں۔ کئی بحریں تو سنسکرت کی بحروں سے قریب ہیں مگر جو بحریں خالص فارسی کی ہیں، ان میں بھی یہ خصوصیت ہے کہ وہ بڑی آسانی کے ساتھ ہندی اور اردو کے لفظوں کو اپنے دامن میں سمیٹ لیتی ہیں اور ہندوستانی سنگیت کے سانچے میں پوری طرح ڈھل جاتی ہیں اور گائی جا سکتی ہیں۔ یہ امتزاج صرف اس لئے ممکن ہوا کہ قدیم فارسی اور سنسکرت زبان کی اصل ایک ہے۔ میر اور سودا نے اس امتزاج سے جو زبان شعر کوعطا کی وہ خوبصورت ہے، 

    ساون کے بادلوں کی طرح سے بھرے ہوئے
    یہ وہ نین ہیں جن سے کہ جنگل ہرے ہوئے

    سودا

    جاتے ہیں دن بہار کے اب کے بھی باؤ سے
    دل داغ ہو رہا ہے چمن کے سبھاؤ سے

    میر

    اس زمانے میں یا اس سے ذراقبل ایک نیا ادارہ مشاعر ے کی شکل میں قائم ہوا جو شاعری اور زبان کا سب سے بڑا اسکول تھا۔ یہ مشاعرے آج کی طرح جلسوں کی شکل میں نہیں ہوتے تھے۔ ان کا نام شروع شروع میں مراختہ تھا، جو ریختے کے لفظ سے بنا تھا۔ ان میں دلّی کے تمام نامور شعرا جمع ہوتے تھے۔ نئے شاعر بھی شاعری کی سندلینے کے لئے وہیں سے ابتدا کرتے تھے۔ سامعین میں سب کے سب عالم اور فاضل لوگ ہوتے تھے جو اکثر وبیشتر ہندی اور ریختہ کے علاوہ فارسی اور سنسکرت کے عالم ہوتے تھے اور کوئی شاعر ان کو اپنے ترنم یا پڑھنے کے انداز سے دھوکہ نہیں دے سکتا تھا۔ سودا اور میر، خان آرزو کی اور غالب، مفتی صدرالدین آزردہ کی نگاہوں کو پہچانتے تھے۔ ان مشاعروں میں شعر پرکھا جاتا تھا۔ زبان اور محاورے پر بھری محفل میں اعتراض ہوتے تھے اور اس طرح شاعر کا مقام متعین کیا جاتا تھا۔ وہاں پہنچ کر عام بول چال کے الفاظ ادبی حیثیت اختیار کر لیتے تھے اور فارسی محاوروں کے ترجمے خوش مذاقی کی چھلنی میں چھانے جاتے تھے۔

    ادب کی تاریخیں بڑے بڑے مشاعروں کی معرکہ آرائیوں سے بھری ہوئی ہیں۔ آج مصرع طرح میں شعر کہنا تفریح ہے اور مشاعرہ لطف اندوزی کی محفل بن گیا ہے۔ اس عہد میں مصرع طرح میں شعر کہہ کرمشاعرے میں پڑھنا شاعر کا امتحان ہوتا تھا۔ جس میں کامیاب ہونے کے بعد اس کے سر پر دستار فضیلت باندھی جاتی تھی۔ دلّی سے شعر کی جو زمین نکلتی تھی وہ لکھنؤ اور دوسرے شہروں میں جاتی تھی اور وہاں کی زمینیں دلّی آتی تھیں۔ اس طرح ادب کی کسوٹیاں بن رہی تھیں اور زبان اور شعر سانچے میں ڈھل رہے تھے۔

    میر کی پیدائش سے بائیس سال پہلے ۱۷۰۰ء میں اورنگ آباد کا ایک شاعر ولی دکنی دہلی آیا تھا۔ پھر میر کی پیدائش سے تین سال پہلے ۱۷۱۹ء میں اس کا دیوان دہلی آیا اور وہ پہلا بڑا شاعر ہے جس نے ریختہ میں نغمہ سرائی کی۔ اورنگ آباد کو اورنگ زیب نے پچاس سال تک اپنا مرکز بنائے رکھا اور اس طرح وہا ں ایک چھوٹی سی دلّی آباد ہو گئی اور اس چھوٹی سی دلّی نے ولی کو اردو کا پیغمبر سخن بناکر بڑی دلّی بھیجا، جہاں کے شعرا ریختے میں شعر کہنے کی کوشش ضرور کر رہے تھے لیکن کوئی معقول اور مقبول انداز نہیں اختیار ک رسکے تھے۔ ولی کے دیوان نے گویا ان کے لئے شاعری کی عظیم شاہراہیں کھول دیں۔ اس دکنی شاعر نے تم کو ’تمن‘ اور ہم کو ’ہمن‘ اور سے کو ’سوں’ لکھا۔ مگر وہ آواز بڑی میٹھی، بڑی سریلی اور بڑی من موہک تھی اور اس نے دلّی میں سب کے دلوں کو موہ لیا۔ جیسے بادلوں میں بجلی چمکتی ہے، ولی کی خوبصورت دکنی زبان میں کبھی کبھی اس اردو کے کوندے لپک جاتے ہیں جسے میر اور ان کے ہمعصروں نے اپنایا اور جوآج جدید اور مستند زبان سمجھی جاتی ہے۔ ولی کا عام انداز یہ ہے، 

    عجب نئیں گرگلاں دوڑیں پکڑ کر صورت قمری
    اداسوں جب چمن بھیتر وہ سروسرفراز آئے

    مگریہی انداز زبان کے ایک صاف شفاف تھرتھراتے ہوئے شعلے میں تبدیل ہو جاتا ہے، 

    ولی اس گوہر کان حیا کی کیا کہوں خوبی
    مرے گھر اس طرح آتا ہے جیوں سینے میں راز آوے

    اس راستے پر دلّی کے شعر اچل پڑے اور ۱۷۱۹ اور ۱۷۵۰ کے درمیان اردو شاعری نے میر کی شاعری کی شکل میں اپنی معراج حاصل کرلی۔

     

    میر کے یہاں ولی کی شاعری کے اثرات موجود ہیں۔ زبان کے علاوہ غزلوں کی زمینیں اور بعض خیالات بھی مشترک ہیں۔ لیکن میر کا راستہ بالکل الگ ہے۔ ان کی شاعری ولی دکنی کی طرح معصومیت اور معشوق نوازی تک محدود نہیں ہے۔ انہوں نے غزل کو اس اعتبار سے آلودہ کر دیا کہ حسن وعشق کے موضوعات تنقید حیات کے موضوعات میں گھل مل گئے۔ اس کی طرح پڑ چکی تھی۔ لیکن میر نے اس کو جتنی وسعت دے دی اتنی کسی دوسرے شاعر کے یہاں مشکل سے ملے گی۔ اس طرح میر نے غزل کو اپنے عہدکا آئینہ بنا دیا۔ اس شاعری پر سیاسی اور سماجی حالات کی پوری دھوپ پڑ رہی ہے۔

    اردو غزل کو ورثے میں فارسی غزل

    کی عظیم الشان روایت ملی تھی جس کی عمر پانچ سو برس سے زیادہ تھی۔ اس روایت میں سب سے زیادہ اہم اثرات ہندوستان کے فارسی گو شاعروں کے تھے جنہوں نے سعدی اور حافظ کی غزلوں کوآرائش خیال اور دور ازکار تشبیہوں سے سجایا تھا۔ بیدل اس فن کے سب سے بڑے امام تھے۔ میر ان اثرات سے اپنا دامن صاف بچا گئے۔ کہیں کہیں اس کی جھلک ضرور ملتی ہے اور چہرے کے اڑے ہوئے رنگ کو میر اس طرح بیان کرتے ہیں، 

    دو آشیان طائر رنگ پریدہ تھا

    لیکن جو میر کا اصلی رنگ تغزل ہے، اس میں اڑے ہوئے رنگ کی چڑیا کسی چہرے پر اپنا گھونسلہ نہیں بناتی، ان کی غزل عام بول چال کی زبان میں بات چیت کا انداز اختیار کئے ہوئے ہے۔

    فارسی الفاظ کے استعمال میں بھی میر نے ہندوستانی لب و لہجے کو فارسی لب ولہجہ پر ترجیح دی ہے۔ مثلا وہ خیال اور پیالے کی ’’ی‘‘ کو ظاہر کرنا ضروری نہیں سمجھتے۔ محمد حسین آزاد کے بیان کے مطابق اس کو انہوں نے اہل دلّی کے محاورے کی بنیاد پر صحیح قرار دیا۔ اسی طرح انہوں نے عطف اور اضافت کے معاملے میں بھی ہندوستانی انداز برقرار رکھا ہے اور بے احتیاطی برتی ہے۔

    لفظوں کے ہندوستانی تلفظ کی طرح میر کی غزلوں کا ترنم بھی عوامی لب ولہجے سے بہت زیادہ قریب ہے۔ ان کی غزل میں فارسی غزل کی نفاست سے زیادہ ہندی شاعری کی ارضی کیفیات ہیں۔ تشبیہوں اور لفظی تصویروں کے معاملے میں بھی وہ مروجہ فارسی خزانے پر اکتفانہیں کرتے بلکہ اپنے گردوپیش سے تصویریں حاصل کر لیتے ہیں۔ انہوں نے مکڑی کے جالوں، چارپائیوں، مفلس کے چراغوں، قبروں سے اٹھتے ہوئے بگولوں، ٹوٹے ہوئے مکانات اور سوکھے ہوئے خون کوجس بے تکلفی سے استعمال کیا ہے، اتنی ہی بے باکی کے ساتھ سکھ اور مراٹھا جیسے الفاظ غزل میں داخل کر دیے۔

    آج کے عہد کے ایک جدید نقاد سید عبداللہ کا خیال یہ ہے کہ اپنی بعض غزلوں میں وہ بھگتی کے دوہوں سے متاثرہیں اور ان غزلوں کو انہوں نے ادھورے گیتوں کا نام دیا ہے۔ یہ غزلیں ایک مخصوص بحر میں لکھی گئی ہیں جو گیتوں کے آہنگ سے بھری ہوئی ہے۔ بعد کے شعرا اور خاص طور سے غالب اور اقبال نے اس بحر کو ہاتھ نہیں لگایا۔ ترقی پسند تحریک کے زیراثر اردو کے جدید شاعروں نے اس بحر کو دوبارہ شاعری میں جگہ دی ہے۔ یہ غزلیں اگر اکتارے پرگائی جائیں تو صوفیوں، فقیروں اور بھگتوں کے دل کی آواز سے مل جائیں گی۔

    پتا پتا بوٹا ٹا حال ہمارا جانے ہے
    جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے

    کیا کہئے کچھ بن نہیں آتی جنگل جنگل ہو آئے
    چھانہہ میں جاکر پھولوں کی ہم عقل وجنوں کو روآئے

    کیا ہی دامن گیر ہے یارب خاک مقتل گاہ وفا
    اس ظالم کی تیغ تلے سے ایک گیا تو دو آئے

    یہ عوامی لہجہ میر کی دوسری غزلوں میں بھی موجود ہے اور میر کے ہم عصروں نے اس پر اعتراض بھی کیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ کبیر کے بعد یہ لہجہ صرف میر کے یہاں ملتاہے لیکن میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ میر کے بعدیہ نظیر اکبرآبادی کی شاعری میں منتقل ہو گیا جو میر سے سترہ برس چھوٹے تھے اور آج دو سو برس کے بعد جب شاعری اور عوام کے باہمی رشتے زیادہ مضبوط ہو رہے ہیں تو یہ لہجہ پھر زندہ ہو رہا ہے۔ یہ میر کی بہت بڑی کامیابی ہے۔


    افسانہ
    میر تقی میر کاسب سے دلچسپ تذکرہ اردو شاعری کی جدید تحریک کے بانی محمد حسین آزاد (۱۸۳۳ء تا ۱۹۱۰ء ) نے اپنی مشہور کتاب ’’آب حیات‘‘ میں لکھا ہے۔ حالانکہ بیشتر واقعات کی سندتا ریخی شواہد سے نہیں ملتی اور بہت سے واقعات میر کی آپ بیتی ’’ذکرمیر‘‘ کے بیانات سے غلط ثابت ہو چکے ہیں۔ پھر بھی ان میں میر کے کردار اور شخصیت کی جیتی جاگتی تصویریں چلتی پھرتی نظر آتی ہیں۔ میر کا افسانوی روپ اس سے بہتر نہیں ہو سکتا۔ آزاد کی زبان میں جو لطافت اور بیان میں جو چاشنی ہے وہ بھی کہیں اور نہیں ملےگی۔ اس لئے اس تحریر کا حوالہ دینے سے کہیں بہتر ہے کہ اس کے بعض اہم اقتباسات پیش کر دیے جائیں، 

    ’’میر تخلص، محمدتقی نام، خلف میر عبداللہ، شرفائے اکبرآباد سے تھے۔ سراج الدین علی خان آرزو زبان فارسی کے معتبر مصنف اور مسلم الثبوت محقق ہندوستان میں تھے۔ گلزار ابراہیمی میں لکھا ہے کہ میر صاحب سے ان کا دور کا رشتہ تھا اور تربیت کی نظرپائی تھی۔ عوام میں ان کے بھانجے مشہور ہیں۔ درحقیقت بیٹے میر عبداللہ کے تھے مگران کی پہلی بیوی سے تھے۔ وہ مر گئیں توخان آرزو کی ہمشیرہ سے شادی کی تھی اس لئے سوتیلے بھانجے ہوئے۔ (میر نے اپنی آپ بیتی میں خان آرزو کے سگے بھانجے کو اپنا بڑا بھائی لکھا ہے۔)

    میر صاحب کو ابتدا سے شعر کا شوق تھا۔ باپ کے مرنے کے بعد دلّی میں آئے اور خان آرزو کے پاس انہوں نے اور ان کی شاعری نے پرورش پائی مگر خان صاحب حنفی مذہب تھے اور میر صاحب شیعہ، اس پر نازک مزاجی غضب کی۔ غرض کسی مسئلے پر بگڑ کر الگ ہو گئے۔ (یہ بات بھی تصدیق طلب ہے کہ ماموں بھانجے کا اختلاف مذہبی بنیاد پر تھا۔)

    بدنظر زمانے کا دستور ہے کہ جب کسی نیک نام کے دامن شہرت کو ہوا میں اڑتے ہوئے دیکھتا ہے تو ایک داغ لگا دیتا ہے۔ چنانچہ تذکرہ شورش میں لکھا ہے کہ خطاب سیادت انہیں درگاہ شعری سے عطا ہوا ہے۔ کہن سال بزرگوں سے یہ بھی سنا ہے کہ جب انہوں نے میر تخلص کیا تو ان کے والد نے منع کیا کہ ایسا نہ کرو، ایک دن خواہ مخواہ سید مشہور ہو جاؤگے۔‘‘ (والد کے انتقال کے وقت میر کی عمر دس گیارہ سال کی تھی۔ اس لئے یہ بیان بھی مشکوک ہے) اس وقت انہوں نے خیال نہ کیا۔ رفتہ رفتہ ہو ہی گئے۔

    پھر بھی کہنا واجب سمجھتا ہوں کہ ان کی مسکینی، غربت اور صبروقناعت، تقوی و طہارت محضر بناکر ادائے شہادت کرتے ہیں کہ سیادت میں شبہ نہ کرنا چاہئے اور زمانے کا کیا ہے۔ کس کو کیا نہیں کہتا۔ اگر وہ سید نہ ہوتے تو خود کیوں کہتے، 

    پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں
    اس عاشقی میں عزت سادات بھی گئی

    ’’یہ بھی ظاہر ہے کہ نحوست اور فلاکت قدیم سے اہل کمال کے سر پر سایہ کئے ہیں۔ ساتھ اس کے میر صاحب کی بلند نظری اس غضب کی تھی کہ دنیا کی کوئی بڑائی اور کسی کاکمال یا بزرگی انہیں بڑی دکھائی نہ دیتی تھی۔ اس قباحت نے نازک مزاج بناکر ہمیشہ دنیا کی راحت اور فارغ البالی سے محروم رکھا اور وضع داری اور قناعت کے دھوکے میں اسے فخر سمجھتے رہے۔‘‘ (اس بیان میں تھوڑا سا مبالغہ ہے)

    ’’اگر چہ دلی میں شاہ عالم کا دربار اور شرفا کی محفلوں میں ادب ہر وقت ان کے لئے جگہ خالی کرتا تھا اور نیکی اطوار و اعمال کے سبب سے سب عظمت کرتے تھے مگر خالی آدابوں سے خاندان تو نہیں پل سکتے اور وہاں تو خود خزانہ سلطنت خالی پڑا تھا۔ اس لیے 1190 میں دلی چھوڑنی پڑی۔ جب لکھنو چلے تو ساری گاڑی کا کرایہ بھی پاس نہ تھا۔ ناچار ایک شخص کے ساتھ شریک ہو گئے تو دلی کو خدا حافظ کہا۔ (یہ بے بنیاد بات ہے، کرایہ کی رقم نواب آصف الدولہ نے بھیج دی تھی) تھوڑی دور آگے چل کر اس شخص نے کچھ بات کی تو یہ اس کی طرف سے منہ پھیر کر ہو بیٹھے۔ کچھ دیر بعد اس نے پھر بات کی۔ میر صاحب چیں بہ جبیں ہو کر بولے کہ صاحب قبلہ آپ نے کرایہ دیا ہے، بے شک گاڑی میں بیٹھیے لیکن باتوں سے کیا تعلق۔ اس نے کہا، حضرت، کیا مضائقہ ہے، راہ کا شغل ہے، باتوں میں ذرا جی بہلتا ہے۔ میر صاحب بگڑ کر بولے، خیر آپ کا شغل ہے، میری زبان خراب ہوتی ہے۔

    لکھنؤ پہنچ کر جیسا مسافروں کا دستور ہے، ایک سرا میں اترے۔ معلوم ہوا کہ یہاں آج ایک جگہ مشاعرہ ہے۔ رہ نہ سکے۔ اسی وقت غزل لکھی اور مشاعرے میں جا کر شامل ہوئے۔ ان کی وضع قدیمانہ، کھڑکی دار پگڑی، پچاس گز کے گھیر کا جامہ، ایک پورا تھان پستولیے کا کمر سے بندھا، ایک رومال پٹری دار تہہ کیا ہوا، اس میں آویزاں، مشروع کا پاجامہ جس کی عرض کے پائنچے، ناگ پھنی کی انی دار جوتی جس کی ڈیڑھ بالشت اونچی نوک، کمر میں ایک طرف سیف یعنی سیدھی تلوار، دوسری طرف کٹار، ہاتھ میں جریب۔ غرض جب داخل محفل ہوئے تو وہ شہر لکھنؤ، نئے انداز، نئی تراشیں، بانکے ٹیڑھے جوان جمع۔ انہیں دیکھ کر سب ہنسنے لگے۔

    میر صاحب بے چارے غریب الوطن، زمانے کے ہاتھ سے پہلے ہی دل شکستہ تھے اور بھی دل تنگ ہوئے اور ایک طرف بیٹھ گئے۔ شمع ان کے سامنے آئی تو پھر سب کی نظر پڑیں اور بعض اشخاص نے پوچھا کہ حضور کا وطن کہاں ہے۔ میر صاحب نے یہ قطعہ فی البدیہہ کہہ کرغزل طرحی میں داخل کیا،

    کیا بو دو باش پوچھو ہو پورب کے ساکنو
    ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے

     
    دلّی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
    رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے

     
    اس کو فلک نے لوٹ کے ویران کر دیا
    ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے

    سب کوحال معلوم ہوا اور میر صاحب سے عفو تقصیر چاہی۔ کمال کے طالب تھے۔ صبح سویرے ہوتے ہوتے شہرمیں مشہور ہو گیا کہ میر صاحب تشریف لائے ہیں۔ رفتہ رفتہ نواب آصف الدولہ نے سنا اور دو سو روپیہ مہینہ کر دیا۔‘‘ (یہ محض افسانہ ہے۔ یہ اشعار بھی میر کے نہیں ہیں۔ وہ نواب آصف الدولہ کی دعوت پر لکھنؤ گئے تھے اور اس بے بسی اور مظلومی کے عالم میں وارد نہیں ہوئے تھے۔ ممکن ہے آزاد نے میر صاحب کا جو حلیہ لکھا ہے وہ صحیح ہو۔)

    ’’عظمت واعزاز جوہرِ کمال کے خادم ہیں۔ اگرچہ انہوں نے لکھنؤ میں بھی میر صاحب کا ساتھ نہیں چھوڑا مگر انہوں نے بددماغی اور نازک مزاجی کو، جو ان کے ذاتی مصاحب تھے، اپنے دم کے ساتھ ہی رکھا۔ چنانچہ کبھی کبھی نواب کی ملازمت میں جاتے تھے۔‘‘

    ’’ایک دن نواب مرحوم نے غزل کی فرمائش کی۔ دوسرے تیسرے دن جو پھر گئے تو پوچھا کہ میر صاحب ہماری غزل لائے۔ میر صاحب نے تیوری بدل کر کہا۔ جناب عالی مضمون غلام کی جیب میں تو بھرے نہیں کہ کل آپ نے فرمائش کی۔ آج غزل حاضر کر دے۔ اس فرشتہ خصال نے کہا، ’’خیر میر صاحب جب طبیعت حاضر ہوگی کہہ دیجئےگا۔‘‘

    ’’ایک دن نواب نے بلا بھیجا۔ جب پہنچے تو دیکھا کہ نواب حوض کے کنارے کھڑے ہیں۔ ہاتھ میں چھڑی ہے۔ پانی میں لال سبز مچھلیاں تیرتی پھرتی ہیں۔ آپ تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ میر صاحب کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور کہا کہ میر صاحب کچھ فرمائیے۔ میر صاحب نے غزل سنانی شروع کی۔ نواب صاحب سنتے جاتے تھے اور چھڑی کے ساتھ مچھلیوں سے بھی کھیلتے جاتے تھے۔ میر صاحب چیں بہ جبیں ہوتے اور ہر شعر پر ٹھہر جاتے تھے۔ نواب صاحب کہے جاتے تھے کہ ہاں پڑھئے۔ آخر چار شعر پڑھ کر میر صاحب ٹھہر گئے اور بولے کہ پڑھوں کیا۔ آپ مچھلیوں سے کھیلتے ہیں۔ متوجہ ہوں تو پڑھوں۔ نواب صاحب نے کہا جو شعر ہوگا آپ متوجہ کرلےگا۔ میر صاحب کویہ بات زیادہ تر ناگوار گزری۔ غزل جیب میں ڈال کر گھر چلے آئے اور پھر جانا چھوڑ دیا۔

    چند روز کے بعد ایک دن بازار میں چلے جاتے تھے۔ نواب صاحب کی سواری سامنے سے آ گئی۔ دیکھتے ہی نہایت محبت سے بولے۔ میر صاحب آپ نے بالکل ہی ہمیں چھوڑ دیا۔ کبھی تشریف بھی نہیں لاتے۔ میر صاحب نے کہا۔ بازار میں باتیں کرنا آداب شرفا نہیں، یہ کیا گفتگو کا موقع ہے۔ غرض بدستور اپنے گھر میں بیٹھے رہے اور فقروفاقہ میں گزارتے رہے۔‘‘ (اس واقعہ کی تصدیق بھی کسی دوسرے ذریعہ سے نہیں ہوتی۔ میر صاحب تنک مزاج ضرور تھے لیکن درباروں کے آداب سے پوری طرح واقف تھے۔ یہ کہانی میر صاحب کے کردار کے ایک نازک پہلو کا افسانوی روپ ہے)

    ’’میر صاحب میانہ قد، لاغراندام، گندمی رنگ تھے۔ ہر کام متانت اور آہستگی کے ساتھ، بات بہت کم وہ بھی آہستہ۔ آواز میں نرمی اور ملائمت۔ ضعیفی نے ان سب صفتوں کو اور بھی قوی کیا تھا۔ کیونکہ سو برس کی عمر آخر ایک اثر رکھتی ہے۔‘‘ (میر صاحب نے ۸۸ برس کی عمر پائی تھی۔ چاند کے مہینوں کے حساب سے ۹۰ سمجھی جا سکتی ہے)

    ’’عادات و اطوار نہایت سنجیدہ اور متین اور صلاحیت اور پرہیزگاری نے اسے عظمت دی تھی۔ ساتھ اس کے قناعت اور غیرت حدسے بڑھی ہوئی تھی۔ اس کانتیجہ ہے کہ اطاعت تو درکنار نوکری کے نام کی برداشت نہ رکھتے تھے لیکن زمانہ جس کی حکومت سے کوئی سر نہیں اٹھا سکتا اس کا قانون اس کے بالکل برخلاف ہے۔ نتیجہ یہ کہ فاقے کرتے تھے۔ دکھ بھرتے تھے اور اپنی بددماغی کے سائے میں دنیا اور اہل دنیا سے بیزار گھرمیں بیٹھے رہتے تھے۔ ان شکایتوں کے لوگوں میں جو چرچے تھے وہ خود بھی اس سے واقف تھے۔‘‘ (میر نازک مزاج ضرور تھے لیکن اس بیان سے یہ غلط فہمی ہوتی ہے کہ انہوں نے کبھی کہیں کوئی نوکری نہیں کی۔ نہ صرف یہ کہ وہ مصاحب اور نوکر رہے بلکہ انہوں نے سفارت کے فرائض بھی انجام دیے ہیں بعض لڑائیوں میں بھی امراء کے ساتھ رہتے تھے۔)

    ’’باوجود اس کے اپنے سرمایہ فصاحت کو دولت لازوال سمجھ کر امیر غریب کسی کی پروا نہ کرتے تھے، بلکہ فقر کو دین کی نعمت تصور کرتے تھے اوراس عالم میں معرفت الہی پردل لگاتے تھے۔ چنانچہ ان کی اس ثابت قدمی کا وصف کسی زبان سے ادا نہیں ہو سکتا کہ اپنی بے نیازی اور بے پرواہی کے ساتھ دنیا کی مصیبتیں جھیلیں اور جو اپنی آن بان تھی اسے لئے دنیا سے چلے گئے اور جس گردن کو خدا نے بلند کیا تھا سیدھا خدا کے ہاں لے گئے۔ چند روزہ عیش کے لالچ سے یا مفلسی کے دکھ سے سے دنیا کے نا اہلوں کے سامنے ہرگز نہ جھکایا۔ ان کا کلام کہے دیتا ہے کہ دل کی کلی اور تیوری کی گرہ کبھی کھلی نہیں۔ باوجود اس کے اپنے ملک خیال کے ایک بلند نظر بادشاہ تھے۔‘‘

    ’’ان کے خیالات عالی اور حوصلے بڑے تھے۔ اس لئے بے دماغیاں ان کے جوہر کمال پر زیور معلوم ہوتی ہیں۔ میر قمرالدین منت دلّی میں ایک شاعر گزرے ہیں کہ علوم رسمی کی قابلیت سے عمائد دربار شاہی میں تھے۔ وہ میر صاحب کے زمانے میں مبتدی تھے۔ شعر کا شوق بہت تھا۔ اصلاح کے لئے اردو کی غزل لے گئے۔ میر صاحب نے وطن پوچھا۔ انہوں نے سونی پت علاقہ پانی پت بتلایا۔ آپ نے فرمایا سید صاحب اردوئے معلی خاص دلّی کی زبان ہے۔ آپ اس میں تکلیف نہ کیجئے۔ اپنی فارسی وارسی کہہ لیا کیجئے۔‘‘

    ’’سعادت یارخاں رنگین نواب طہما سپ بیگ خاں قلعدار شاہی کے بیٹے تھے۔ چودہ پندرہ برس کی عمر تھی۔ بڑی شان وشوکت سے گئے اورغزل اصلاح کے لئے پیش کی۔ سن کر کہا، صاحبزادے آپ خود امیر ہیں اور امیرزادے ہیں۔ نیزہ بازی اور تیراندازی کی کثرت کیجئے۔ شہ سواری کی مشق فرمائیے۔ شاعری دلخراشی اور جگرسوزی کا کام ہے۔ آپ اس کے در پے نہ ہوں۔ جب انہوں نے اصرار کیا تو فرمایا کہ آپ کی طبیعت اس فن کے مناسب نہیں۔ یہ آپ کو نہیں آنے کا۔ خواہ مخواہ میری اوراپنی اوقات ضائع کرنا کیا ضرور ہے۔‘‘

    ’’دلی میں میر صاحب نے ایک مثنوی کہی۔ اپنے تئیں اژدہا قرار دیا اور شعرائے عصر میں کسی کو چوہا، کسی کو سانپ، کسی کو بچھو، کسی کو کھنکھجورا وغیرہ وغیرہ ٹھہرایا۔ ساتھ اس کے ایک حکایت لکھی کہ دامن کوہ میں ایک خونخوار اژدہا رہتا تھا۔ جنگل کے حشرات الارض جمع ہوکر لڑنے گئے۔ جب سامنا ہوا تو اژدہے نے ایسا دم بھرا کہ سب فنا ہو گئے۔‘‘

    ’’لکھنؤ میں کسی نے پوچھا۔ کیوں حضرت آج کل شاعر کون ہے۔ کہا ایک تو سودا اور دوسرا یہ خاکسار ہے اور تامل کرکے کہا۔ آدھے خواجہ میر درد۔ کوئی شخص بولا کہ حضرت میر سوزصاحب۔؟ چیں بہ جبیں ہوکر کہا کہ میرسوز صاحب بھی شاعر ہیں؟ انہوں نے کہا کہ آخر استاد نواب آصف الدولہ کے ہیں۔ کہا کہ خیر یہ ہے تو پونے تین سہی مگر شرفامیں ایسے تخلص ہم نے کبھی نہیں سنے۔ میر صاحب کے سامنے مجال کس کی تھی جو کہے کہ ان بے چارے نے میر تخلص کیا تھا، وہ آپ نے چھین لیا۔ ناچار اب انہوں نے ایسا تخلص اختیار کیا کہ نہ آپ کو پسند آئے، نہ آپ اسے چھینیں۔‘‘

    ’’لکھنؤ کے چند عمائد و اراکین جمع ہوکر ایک دن آئے کہ میر صاحب سے ملاقات کریں اور اشعار سنیں۔ دروازے پر آکر آواز دی۔ لونڈی یاماما نکلی۔ حال پوچھ کر اندر گئی۔ ایک بوریا لاکر ڈیوڑھی میں بچھایا۔ انہیں بٹھایا۔ اورایک پرانا سا حقہ تازہ کرکے سامنے رکھ گئی۔ میر صاحب اندرسے تشریف لائے۔ مزاج پرسی وغیرہ کے بعد انہوں نے فرمائش اشعار کی۔ میر صاحب نے اول کچھ ٹالا، پھر صاف جواب دیا کہ صاحب قبلہ میرے اشعار آپ کی سمجھ میں نہیں آنے کے۔ اگرچہ ناگوار ہوا مگر بنظر آداب واخلاق انہوں نے نارسائی طبع کا اقرار کیا اور پھر درخواست کی۔ انہوں نے پھر انکار کیا۔ آخران لوگوں نے گراں خاطر ہوکر کہا کہ حضرت انوری و خاقانی کا کلام سمجھتے ہیں۔ آپ کا ارشاد کیوں نہ سمجھیں گے۔ میر صاحب نے کہا کہ یہ درست ہے۔ مگر ان کی شرحیں، مصطلحات اور فرہنگیں موجود ہیں اور میرے کلام کے لئے فقط محاورہ اہل اردو ہے، یا جامع مسجد کی سیڑھیاں اوراس سے آپ محروم۔ یہ کہہ کر ایک شعر پڑھا، 

    عشق برے ہی خیال پڑا ہے، چین گیا آرام گیا
    دل کا جانا ٹھہر گیا ہے، صبح گیا شام گیا

    اور کہا آپ بموجب اپنی کتابوں کے کہیں گے کہ خیال کی ’ی‘ کو ظاہر کرو اور پھر یہ کہیں گے کہ ’ی‘ تقطیع میں گرتی ہے۔ مگریہاں اس کے سوا جواب نہیں کہ محاورہ یہی ہے۔‘‘

    ’’جب نوا ب آصف الدولہ مر گئے، سعادت علی خاں کا دور ہوا تو یہ دربار جانا چھوڑ چکے تھے۔ وہاں کسی نے طلب نہ کیا۔ ایک دن نواب کی سواری سامنے جاتی تھی۔ یہ تحسین کی مسجد پر سر راہ بیٹھے تھے۔ سواری سامنے آئی۔ سب اٹھ اکھڑے ہوئے۔ میرصاحب اسی طرح بیٹھے رہے۔ سید انشا خواصی میں تھے۔ نواب نے پوچھا کہ یہ کون شخص ہے جس کی تمکنت نے اسے اٹھنے بھی نہ دیا۔ عرض کی۔ جناب عالی! یہ وہی گدائے متکبر ہے جس کا ذکرحضور میں اکثر آیا ہے۔ گزارے کاوہ حال او رمزاج کا یہ عالم۔ آج بھی فاقے سے ہی ہوگا۔ سعادت علی خاں نے آکرخلعت بحالی اور ایک ہزار روپیہ دعوت کا بھجوایا۔ جب چوبدار لے کر گیا۔ میر صاحب نے واپس کر دیا کہ مسجد میں بھجوائیے۔ یہ گنہگار اتنا محتاج نہیں۔

    سعادت علی خاں جواب سن کر متعجب ہوئے۔ مصاحبوں نے پھر سمجھایا۔ غرض نواب کے حکم سے سید انشا خلعت لے کر گئے اور اپنے طور پر سمجھایا کہ نہ اپنے حال پر بلکہ عیال پر رحم کیجئے اور بادشاہ وقت کا ہدیہ ہے، اسے قبول فرمائیے۔ میر صاحب نے کہا کہ صاحب وہ اپنے ملک کے بادشاہ ہیں۔ میں اپنے ملک کابادشاہ ہوں۔ کوئی ناواقف اس طرح پیش آتا تو مجھے شکایت نہ تھی۔ وہ مجھ سے واقف میرے حال سے واقف۔ اس پر اتنے دنوں کے بعد ایک دس روپے کے خدمت گار کے ہاتھ خلعت بھیجا۔ مجھے اپنا فقر وفاقہ قبول ہے مگر یہ ذلت اٹھائی نہیں جاتی۔ سید انشا کی لسانی اور لفاظی کے سامنے کس کی پیش جا سکتی۔ میر صاحب نے قبول فرمایا اور دربار میں کبھی کبھی جانے لگے۔ نواب سعادت علی خاں مرحوم ان کی ایسی خاطر کیا کرتے تھے کہ اپنے سامنے بیٹھنے کی اجازت دیتے تھے اور اپنا بیچوان پینے کو عنایت کرتے تھے۔‘‘ (شاید یہ واقعہ بھی آزاد نے بزرگوں سے سنا ہوگا۔ اس کی بھی کوئی تصدیق نہیں ہو سکی۔ اس کے برعکس یہ شہادت ملتی ہے کہ میر کی تنحواہ آخر وقت تک جاری رہی)

    ’’میر صاحب کو بہت تکلیف میں دیکھ کر لکھنؤ کے ایک نواب انہیں مع عیال اپنے گھر لے گئے اورمحل سرا کے پاس ایک معقول مکان رہنے کو دیا کہ نشست کے مکان میں کھڑکیاں باغ کی طرف تھیں۔ مطلب اس سے یہی تھا کہ ہر طرح ان کی طبیعت خوش اور شگفتہ رہے۔ یہ جس دن وہاں آکر رہے، کھڑکیاں بند پڑی تھیں۔ کئی برس گزر گئے۔ اسی طرح بندپڑی رہیں۔ کبھی کھول کرباغ کی طرف نہ دیکھا۔ ایک دن کوئی دوست آئے۔ انہوں نے کہا ادھر باغ ہے۔ آپ کھڑکیاں کھول کر کیوں نہیں بیٹھتے۔ میر صاحب بولے۔ کیا ادھر باغ بھی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ اسی لئے نواب یہاں لائے ہیں کہ جی بہلتا رہے اور دل شگفتہ ہو۔ میر صاحب کے پھٹے پرانے مسودے غزلوں کے پڑے تھے۔ ان کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ میں تواس باغ کی فکرمیں ایسا لگاہوں کہ اس باغ کی خبر بھی نہیں۔ یہ کہہ کر چپکے ہو رہے‘‘ (میر کی زندگی میں گوشہ نشینی کے ایسے دو ر بھی آئے ہیں مگر وہ ایسے گوشہ نشین نہیں تھے)

    ’’کیا محویت ہے۔ کئی برس گزر جائیں۔ پہلو میں باغ ہو اور کھڑکی تک نہ کھولیں۔ خیرثمرہ اس کایہ ہوا کہ انہوں نے دنیا کے باغ کی طرف نہ دیکھا۔ خدا نے ان کے کلام کو وہ بہاردی کہ سالہاسال گزر گئے، آج تک لوگ ورق الٹتے ہیں اور گلزار سے زیادہ خوش ہوتے ہیں۔‘‘

    ’’استاد مرحوم (ذوق) ایک دیرینہ سال شخص کی زبانی بیان کرتے تھے کہ ایک دن میر صاحب کے پاس گئے۔ نکلتے جاڑے تھے۔ بہار کی آمد تھی۔ دیکھا کہ ٹہل رہے ہیں۔ چہرے پر افسردگی کا عالم ہے اور وہ رہ رہ کر یہ مصرعہ پڑھتے تھے، 

    اب کی بھی دن بہار کے یوں ہی گزر گئے

    یہ سلام کرکے بیٹھ گئے۔ پھر تھوڑی دیر کے بعد اٹھے اور سلام کرکے چلے آئے۔ میر صاحب کو خبر بھی نہ ہوئی۔ خدا جانے دوسرے مصرعے کی فکر میں تھے یا اس مصرعے کی کیفیت میں محو تھے۔‘‘ (ممکن ہے یہ واقعہ صحیح ہو لیکن یہ مصرعہ میر کا نہیں ہے۔ سودا کا شعر ہے، 

    اب کی بھی دن بہار کے یوں ہی گزر گئے
    پھر پھر گل آ چکے پہ سجن تم بھلے گئے

    ’’گورنرجنرل اور اکثر صاحبان عالی شان جب لکھنؤ میں جاتے تو اپنی قدردانی سے یا اس سبب سے کہ میر منشی علو حوصلہ سے ایک صاحب کمال کی تقریب واجب سمجھتے تھے، میر صاحب کو ملاقات کے لئے بلاتے۔ لیکن یہ پہلوتہی کرتے اورکہتے مجھ سے جو کوئی ملتا ہے تو یا مجھ فقیر کے خاندان کے خیال سے یا میرے کلام کے سبب سے ملتا ہے۔ صاحب کو خاندان سے غرض نہیں۔ میرا کلام سمجھتے نہیں۔ البتہ کچھ انعام دیں گے۔ ایسی ملاقات سے ذلت کے سوا کیا حاصل۔‘‘

    ’’مرزا رفیع سودا، خواجہ میر درد، مرزا جان جاناں، نصیر، قائم، یقین وغیرہ ان کے ہم عصر تھے اور مصحفی، جرأت، میرانشا اللہ خاں نے آخر عہد میں ظہور کیا۔‘‘
    (اقتباسات از ’’آب حیات‘‘ محمد حسین آزاد)

    حقیقت
    میر کی آپ بیتی ’’ذکر میر‘‘ کے مطابق ان کے دادا گرے میں فوجدار تھے اور باپ محمد علی مشہور صوفی فقیر۔ ان دونوں کی صحیح حیثیت کا پتہ لگانا تقریباً ناممکن ہے کیونکہ میر کے عہد کی تاریخوں اور تذکروں میں ان کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ اس لئے یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ ان کے باپ اتنے مشہور نہیں تھے جتنے میر نے اپنے جوش عقیدت میں لکھ دیا ہے۔ بہرحال یہ یقینی ہے کہ میر نے افلاس اور تنگدستی کی گود میں آنکھ کھولی (۱۷۲۲ء ) اور صبروقناعت کے گہوارے میں پرورش پائی۔ ذہنی ورثے میں ان کو تصوف کے بعض خیالات اور چچا کا پاگل پن ملا۔ جس نے آگے چل کر گل کھلایا اور جوانی کی ابتدائی بہاریں دیوانگی کی نذر ہو گئیں۔

    میر نے اپنی ماں کے بارے میں کچھ نہیں لکھا ہے لیکن اپنے سوتیلے بھائی محمدحسن کا ذکر جس انداز سے کیا ہے وہ اس پر شاہد ہے کہ یہ گھرانہ خوش وخرم نہیں ہو سکتا تھا۔ جب ان کے باپ کا انتقال ہوا تو وہ تین سو روپے کے مقروض تھے اور انہوں نے اپنے ترکے میں چند سو کتابوں کے سوا اور کچھ نہیں چھوڑا اور ان کتابوں پر میر کے سوتیلے بھائی نے قبضہ کر لیا اور میر نے باپ کے ایک مرید کی بھیجی ہوئی پانسو روپے کی ہنڈی سے قرض ادا کرکے باپ کی لاش دفن کی۔ اس وقت ان کی عمر گیارہ برس کی رہی ہوگی۔ یہ واقعات اس قدر تکلیف دہ ہیں کہ اگر ان کا اثر میر کے مزاج اور ذہنیت پر تمام عمر رہا تو کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔

    میر کا بچپن جو کھیل کود اور تعلیم و تربیت میں صرف ہونا چاہئے تھا، تلاش روزگار میں گزر گیا۔ یہی تلاش ان کو سولہ سترہ برس کی عمرمیں دلّی لے گئی۔ یہ محمد شاہ کی حکومت کا زمانہ تھا۔ اس کے ایک درباری امیرالامراصمصام الدولہ تک میر کی رسائی ہو گئی اور ایک روپیہ روزانہ وظیفہ مقرر ہو گیا۔ میریہ وظیفہ لے کر آگرے واپس آ گئے۔

    لیکن یہ ایک روپیہ روزانہ کی فراغت چند روزہ ثابت ہوئی۔ مشکل سے ایک سال گزرا تھا کہ نادرشاہ نے دلّی پر حملہ کر دیا (مارچ ۱۷۳۹ء ) اور میر کے سرپرست اور مربی امیرالامراصمصام الدولہ لڑائی میں کام آ گئے۔ ان کی موت نے میر کو پھر فاقہ کشی کی زندگی کی طرف دھکیل دیا اور وہ اپنے وطن آگرے کو ایک بار اور چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔

    اس بار صرف روزگار کی تلاش ہی کاسوال نہیں تھا۔ میر اپنے سینے میں ایک زخمی دل لئے جا رہے تھے۔ آگرے کی زمین جو کوئے جاناں تھی اب کوچہ قاتل میں تبدیل ہو چکی تھی اور میر کے لئے وہاں رہنا محال تھا۔ ان پرکسی پری چہرہ معشوق نے جادو کر دیا تھا۔ اس کا نام آج بھی پردے میں ہے لیکن اتنا کہا ج اسکتا ہے کہ عشق کی آگ دونوں دلوں میں لگی اور محبت کی پینگیں بڑھتے بڑھتے اس حد کو پہنچ گئیں کہ رسوائی اور بدنامی ہونے لگی۔ دیواریں درمیان میں حائل ہوئیں اور وصال کی شامیں ہجر کی راتوں میں ڈھل گئیں اور میر کو اپنا عزیز وطن ترک کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔

    جیسے حسرت لئے جاتا ہے جہاں سے کوئی
    آہ یوں کوچہ دلبر سے سفر ہم نے کیا

    معلوم نہیں میر کی معشوقہ کیسی تھی۔ لیکن ان کی شاعری میں جو حسین جسم ٹکڑے ٹکڑے ہوکر بکھر گیا ہے اس میں یقینا ًاس کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے، 

    کیا تن نازک ہے جاں کو بھی حسد جس تن پہ ہے
    کیا بدن کا رنگ ہے، تہ جس کی پیراہن پہ ہے

    شوق قامت میں ترے اے نونہال
    گل کی شاخیں لیتی ہیں انگڑائیاں

    صبح وہ آفت اٹھ بیٹھا تھا، تم نے نہ دیکھا صد افسوس
    کیا کیا فتنے سرجوڑے پلکوں کے سائے سائے گئے

    ناز کی اس کے لب کی کیاکہئے
    پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے

    میران نیم باز آنکھوں میں
    ساری مستی شراب کی سی ہے

    گل ہو، مہتاب ہو، آئینہ ہو، خورشید ہو میر
    اپنا محبوب وہی ہے جو ادا رکھتا ہو

    اب دل میں غم عشق اورغم روزگار دونوں کی آگ بھڑک رہی تھی اور یہ دونوں غم اس طرح گھل ملے گئے تھے کہ پھرعمر بھر پتہ نہ چلا کہ میر نے اپنے کس شعر میں کون سا غم پیش کیا ہے۔ یہ میر کی زندگی کا سب سے دردناک سفر تھا اور اس کا حال انہوں نے اپنی ایک مثنوی میں بیان کیا ہے۔ اس مثنوی ہی سے عشق کی طرف اشارہ ملتا ہے جس کی تصدیق میر کے بجائے ان کے ایک ہم عصر نے کی ہے، 

    خوشا حال اس کا جو معدوم ہے
    کہ احوال اپنا تو معلوم ہے

     
    رہیں جان غم ناک کو کاہشیں
    گئیں دل سے نومید سو خواہشیں

     
    زمانے نے رکھا مجھے متصل
    پراگندہ روزی، پراگندہ دل

     
    گئی کب پریشانی روزگار
    رہا میں توہم طالع زلف یار

     
    زمانے نے آوارہ چاہا مجھے
    مری بے کسی نے نبھاہا مجھے

     
    دل اک بار سو بے قرار بتاں 
    غبارِ سرِرہ گزارِبتاں

     
    گرفتار رنج و مصیبت رہا
    غریب دیار محبت رہا

     
    چلا اکبر آباد سے جس گھڑی
    در وبام پر چشم ِحسرت پڑی

     
    کہ ترک وطن پہلے کیوں کر کروں
    مگر ہر قدم دل کو پتھر کروں

     
    پس از قطع رہ لائے دلّی میں بخت
    بہت کھینچے یاں میں نے آزار سخت

     
    جگر جور گردوں سے خوں ہو گیا
    مجھے رکتے رکتے جنوں ہو گیا

    میراس بار دلّی پہنچے تو وہاں کے گلی کوچوں میں خاک اڑ رہی تھی۔ یہ ہندوستان کی راجدھانی نہیں تھی۔ بلکہ نادرشاہ کی لوٹی ہوئی نگری تھی۔ تین دن کے قتل عام (۱۱، ۱۳، ۱۲مارچ ۱۷۳۹ء ) میں تیس ہزار سے زیادہ آدمی مارے جا چکے تھے۔ اور آٹھ مغل تاجداروں کے جمع کئے ہوئے خزانے نادرشاہ دس ہزار اونٹوں، دس ہزار گھوڑوں اور تین ہزار جنگی ہاتھیوں پر لاد کر لے گیا۔ امیر تو امیر خود دلّی کا بادشاہ تک فقیر ہو گیا تھا،

    کیا کہئے اپنے عہد میں جتنے امیر تھے
    ٹکڑے پہ جان دیتے تھے سارے فقیر تھے

    اس عالم میں میر کی مدد کون کر سکتا تھا۔ مجبوراً اپنے سوتیلے بھائی کے ماموں سراج الدین خان آرزو کا احسان اٹھانا پڑا۔ وہ اپنے عہد کے بہت بڑے عالم اور شاعر تھے اورعربی، فارسی، ہندی اور سنسکرت کے ماہر تھے۔ میر نے خود اس کا اعتراف کبھی نہیں کیا لیکن ان کے بعض ہم عصروں نے ان کو خان آرزو کا شاگر قرار دیا ہے۔ بہرحال اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ انہوں نے خان آرزو کی صحبت سے فائدہ اٹھایا اور ان سے شعروفن کے بہت سے نکتے سیکھے۔ میر کے کلام میں اس کی داخلی شہادتیں موجود ہیں۔

    یہ صحبت معلوم نہیں کتنے عرصے رہی۔ میرنے لکھا ہے کہ کچھ دن ان کے ساتھ رہا، لیکن یہ کچھ دن کچھ مہینے بھی ہو سکتے ہیں اور کچھ سال بھی۔ بہرحال میر مستقل خان آرزو کے ساتھ نہ رہ سکے۔ ان دونوں کے درمیان ایک عجیب وغریب واقعہ پیش آیا جس کی تفصیلات کا صحیح علم نہیں ہے۔ بعض لوگوں نے اسے مذہبی اختلاف قرار دیا ہے اور میر نے اپنے سوتیلے بھائی کی سازش، جنہوں نے خان آرزو کو یہ لکھا کہ ’’میر فتنہ روزگار ہے۔ اس کی تربیت ہرگز نہ کرنی چاہئے بلکہ دوستی کے پردے میں کام تمام کردینا چاہئے۔‘‘ میرنے خان آرزو کی بدسلوکی کی شکایت کی ہے۔ یہاں تک کہ حالات اتنے قابل برداشت ہو گئے کہ میر اپنے ہوش حواس کھو بیٹھے۔

    اس دیوانگی کے عالم میں جب چاندنی راتیں آتیں تو ایک حسین پیکر اپنی تمام رعنائیوں کے ساتھ کرہ قمر سے نیچے اترتا اور میر کو بےخود کر دیتا تھا۔ چاروں طرف اس کی شکل نظر آتی تھی۔ صبح ہوتے وہ شکل نظروں سے اوجھل ہو جاتی اور میر پر دیوانگی اور مستی کی کیفیت اس طرح طاری ہو جاتی کہ وہ ہاتھوں میں پتھر لئے پھرتے اور لوگ ان کو دیکھ کر بھاگتے۔ یہاں تک کہ میر کو زنجیریں پہناکر کوٹھری میں بند کر دیا گیا۔ جھاڑ پھونک، گنڈے، تعویذ کے علاوہ ان کی فصدبھی کھولی گئی۔

    چند ماہ میں میر اس مرض سے اچھے تو ہو گئے لیکن یہ دیوانگی ایک خوبصورت پرچھائیں کی طرح ساری عمر ان کی شاعری پر منڈلاتی رہی۔ دیوانے اور شاعرمیں ایک فرق ہوتا ہے۔ دیوانہ اپنے خوابوں کو اپنے ذہن سے الگ نہیں کرسکتا اور نہ ان کی بے ترتیبی میں ترتیب پیدا کر سکتا ہے۔ لیکن شاعر اپنے خوابوں کے بکھرے ہوئے جلوؤں کو مرتب کرکے ایک پیکر بناتا ہے اورا س کو اپنے ذہن سے الگ کرکے کاغذ پر منتقل کر دیتا ہے۔

    میر کے بعض ہم عصروں کا بیان ہے کہ یہ عمل دیوانگی کے زمانے ہی میں شروع ہو گیا تھا۔ چنانچہ سعادت خاں ناصر نے میر کی زبانی لکھا ہے کہ ابتدائے جوانی میں پاگل پن طبیعت پرغالب ہوا اور میر اول فول بک کر اپنی زبا ن کو گندہ کرنے لگے۔ ہر شخص کو گالیاں دینا اور پتھر مارنا ان کا شیوہ ہوگیا۔ ایک دن خان آرزو نے کہا کہ موزوں گالی ناموزوں دعا سے بہتر ہوتی ہے اور اپنے کپڑے پھاڑنے سے بہتر یہ ہے کہ شعر کا وزن ٹکڑے ٹکڑے کرکے دیکھو۔ اب جو بھی گالی میر کی زبان سے نکلتی وہ مصرعہ بن جاتی۔ جب دل و دماغ ٹھیک ہوئے تو شعروں کا مزہ طبیعت میں باقی رہ گیا۔ میر کی بعض مشہورغزلیں اسی عہد کی تصنیف بتائی جاتی ہیں۔ جنہوں نے وقت کے اساتذہ پر اس نو عمر شاعر کا سکہ جما دیا۔ لیکن میر نے خود اپنی آپ بیتی میں اس کا کوئی ذکر نہیں کیا ہے۔ ان کا بیان تو یہ ہے کہ سعادت علی نام کے ایک سیدسے میری ملاقات ہوئی جو امروہے کے رہنے والے تھے اور انہوں نے مجھے ریختہ (اردو) میں شعر کہنے کی ترغیب دی۔

    چاہے میر نے دیوانگی کے عالم میں خان آرزو کے زیر اثر شاعری شروع کی ہو چاہے دیوانگی کے بعد امروہے کے سعات علی خاں کی ترغیب سے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ نوعمر ہی میں مشہور اور مستند شاعر ہو گئے تھے۔ پچیس چھبیس برس کی عمر میں ان کی شاعری اور دیوانگی دونوں کی دھوم تھی اور ۱۷۴۸ء میں میر مالوے کے صوبیدار کے بیٹے رعایت خاں کے مصاحب ہو گئے۔ اب میر کو فراغت اورذرا سی خوش حالی پہلی بار نصیب ہوئی اور ان کے اشعار سے جو تحفے کی طرح شہر سے شہر جاتے تھے، سارے ہندوستان میں ان کی شہرت ہو گئی۔ اب وہ اپنے گھر پر مشاعرے کرتے تھے اور اس میں دہلی کے اہل کمال جمع ہوتے تھے۔ سب ان کی استادی کے درجے کو تسلیم کرتے تھے۔

    لیکن میر جس دلی میں رہ رہے تھے، جس کے وہ عاشق تھے، اس کی بنیادوں میں بھونچال چھپے ہوئے تھے۔ یہ زمانہ مغل سلطنت کے انحطاط اور خانہ جنگیوں کا تھا۔ دلی کا مرکز کمزور ہو چکا تھا اور چاروں طرف صوبیداروں نے بغاوتیں شروع کر دی تھیں۔ نادرشاہ کے حملے کے بعد دلی اور بھی کمزور اور مفلس ہو گئی تھی۔ یہ افلاس عام شہریوں سے لے کر شاہی قلعے تک پھیلا ہوا تھا۔ شہزادے شہزادیاں اور ان کے ہاتھی گھوڑے تک بھوکے مر رہے تھے۔ جسم فروشی کی وبا عام تھی اور شاہی محلوں تک پہنچ چکی تھی۔ عیاش بادشاہ اپنی عیاشیوں سے تھک کر درویش پرست اور صوفی بن جاتے تھے۔ بقول میر کے وہ فرنگیوں کے ہاتھ میں کٹھ پتلی بنے ہوئے تھے یا درباریوں کی ریشہ دوانیوں کے شکارتھے۔ امیروں کے گروہ آپس میں ٹکراتے رہتے تھے۔

    اس عالم میں مغربی سرحدوں کی طرف سے احمدشاہ ابدالی کے حملے شروع ہوئے جن کا سلسلہ ۱۷۴۸ء سے شروع ہوکر تقریباً بیس سال تک جاری رہا۔ ان متواتر حملوں سے اور ہندوستان کی باہمی خانہ جنگیوں سے دلّی ایسی تباہ و برباد ہو گئی کہ پھر ڈیڑھ دو سو برس تک آباد نہ ہو سکی۔ کتنے ہی ہنگامے میر کی آنکھوں کے سامنے ہوئے اور کتنی ہی بار موج خون دہلی کے سرسے گزر گئی۔ وہ کئی لڑائیوں میں اپنے مربیوں اور سرپرستوں کے ساتھ تلوار باندھ کر گئے۔ کبھی ان کی آنکھوں نے فتح بھی دیکھی۔ مگر زیادہ تر لشکروں کی پسپائی، قتل، غارت گری اور تباہی سے سابقہ پڑا۔ احمدشاہ ابدالی کے پہلے حملے کے وقت (۱۷۴۸ء ) میر، رعایت خاں کے ساتھ لاہور میں موجود تھے اور پانی پت کی تیسری لڑائی ۱۷۶۱ء کے بھی تماشائی تھے۔ دلی میں اس بیرونی فاتح اور ملک کی اندرونی خانہ جنگیوں نے لوٹ اور مچائی۔ اس میں میر کا گھر بھی برباد ہوا۔ اس عہد کے مالی نقصان اور اخلاقی پستی کی اندوہناک تصویریں میر کی شاعری اور آپ بیتی ’’ذکر میر‘‘ میں محفوظ ہیں۔ ایک مخمس میں لکھتے ہیں، 

    مشکل اپنی ہوئی جو بود و باش
    آئے لشکر میں ہم برائے ے تلاش
    آن کے دیکھی یہاں کی طرز معاش
    ہے لب ناں پہ سو جگہ پُر خاش
    نے دمِ آب ہے نہ چمچہ آش

    زندگانی ہوئی ہے سب پہ وبال
    کنجڑے جھینکیں ہیں روتے ہیں بقال
    پوچھ مت کچھ سپاہیوں کا حال
    ایک تلوار بیچے ہے اک ڈھال
    بادشاہ و وزیر سب قلاش

    شور مطلق نہیں کسی سر میں
    زور باقی نہ اسپ و اشتر میں
    بھوک کا ذکر اقل و اکثر میں
    خانہ جنگی سے امن لشکر میں
    نہ کوئی رند نے کوئی اوباش

    لعل خیمہ جو ہے سپہر اساس
    پالیں ہیں رنڈیوں کی اس کے پاس
    ہے زنا و شراب بے وسواس
    رعب کر لیجئے یہیں سے قیاس
    قصہ کوتاہ رئیس ہے عیاش

    چار لچے میں مستعد کار
    دس تلنگے جو ہوں تو ہے دربار
    ہیں وضیع و شریف سارے خوار
    لوٹ سے کچھ ہے گرمی بازار
    سو بھی قندسیاہ ہے یا حاش

    بس قلم اب زبان کو اپنی سنبھال
    خوشنما کب ہے ایسی قال ومقال
    ہے کڈھب چرخ روسیہ کی چال
    مصلحت ہے کہ رہیے ہوکر لال
    فائدہ کیا جو راز کریئے فاش

    ’’ذکر میر‘‘ میں احمدشاہ ابدالی کی فوجوں کے ہاتھوں دلی کی تاراجی کی یہ تصویر ہے، ’’بندہ اپنی عزت تھامے شہرمیں بیٹھا رہا۔ شام کے بعد منادی ہوئی کہ بادشاہ نے امان دے دی ہے۔ رعایا کو چاہئے کہ پریشان نہ ہو۔ مگر جب گھڑی بھر رات گزری تو غارت گروں نے ظلم وستم ڈھانا شروع کئے۔ شہرکو آگ لگا دی۔۔۔ صبح کو، جو صبح قیامت تھی تمام شاہی فوج اور روہیلے ٹوٹ پڑے اور قتل وغارت میں لگ گئے۔ دروازوں کو توڑ ڈالا اور لوگوں کو قید کر لیا۔ بہتوں کو جلا دیا اور سر کاٹ لیے۔ ایک عالم پر یہ مظالم توڑے اور تین دن تک ظلم سے ہاتھ نہ کھینچا۔ ایک وقت کے کھانے اور ستر ڈھکنے کے وسائل بھی کسی کے گھر میں نہ رہے۔ مردوں کے سر ننگے تھے اور عورتوں کے پاس اوڑھنی بھی نہیں تھی۔

    چونکہ راستے بندتھے۔ بہت سے لوگ زخم کھا کھا کر مرگئے۔ کچھ سردی کی شدت سے اکڑ گئے (اس فوج نے) بڑی بے حیائی سے لوٹ مچائی اور (شہریوں کو) بے آبرو کیا۔ غلہ زبردستی چھینتے اور مفلسوں کے ہاتھ دھونس سے فروخت کرتے۔ ان غارت گروں کا شور و ہنگامہ ساتویں آسمان تک پہنچ رہا تھا۔ مگر بادشاہ جو خود کو فقیر سمجھتا تھا، اس استغراق کے باعث سنتاہی نہ تھا۔‘‘ (یہ اشارہ غالبا دلّی کے بادشاہ محمد شاہ کی طرف ہے جو جوانی کی عیاشیوں سے فارغ ہو کر فقیر ہو گیا تھا اور درویش پرست بن گیا تھا۔ ایک شعر میں بھی میر نے اس بات کو یوں دہرایا ہے۔ (بندے کے درد دل کو کوئی نہیں پہنچتا۔ ہر ایک بے حقیقت یاں ہے خدا رسیدہ۔) ہزاروں خانہ خراب اس ہنگامے سے نکل کر بصد حسرت ترک وطن کر گئے۔۔۔ مگر راستے ہی میں مر گئے۔۔۔ ایک عالم ان کے ستم سے ہلاک ہو گیا مگر کسی کو دم مارنے کی مجال نہ تھی۔ پرانے شہر کا علاقہ جسے جہان تازہ کہتے تھے، کسی گری ہوئی منقش دیوار کے مانند تھا۔ جہاں تک نظر جاتی مقتولوں کے سر، پاؤں اور سینے ہی نظر آتے تھے۔ جہاں تک آنکھ دیکھتی تھی خاک سیاہ کے سوا کچھ دکھائی نہ دیتا تھا۔ میں کہ فقیر تھا اور اب زیادہ مفلس ہو گیا۔۔۔ سڑک کے کنارے جو مکان رکھتا تھا وہ بھی ڈہ کر برابر ہو گیا۔‘‘ (ذکر میر)

    اس آپ بیتی میں میر نے دلّی کی ویرانگی کی ایک اور تصویر بھی کھینچی ہے، ’’ناگاہ اس محلے میں آنکلا جہاں میں۔۔۔ لمبی لمبی زلفوں والوں کے ساتھ رہتا تھا۔ اب کوئی ایسا مانوس چہرہ نظر نہ آیا جس سے دو باتیں کر لیتا۔۔۔ اس وحشت انگیز گلی سے نکل کر ویران راستے پر آ کھڑا ہوا اور حیرت سے دیکھتا رہا۔ بہت صدمہ اٹھایا اور یہ عہد کیا کہ اب ادھر نہ آؤں گا اورجب تک زندہ رہوں شہر کا قصد نہ کروں گا۔‘‘ (آپ بیتی)

    ان تباہیوں اور بربادیوں سے وہ امر ابھی محفوظ نہیں تھے جن سے میر وابستہ رہے۔ رعایت خاں کی ملازمت توانہوں نے اپنی نازک مزاجی کی وجہ سے چھوڑی (دیباچہ دیوان میر صفجہ ۲۱) لیکن باقی امرا اور خود مغل بادشاہ تک آلام روزگار میں ایسے مبتلا تھے کہ انہیں خود اپنی جان ومال کی فکر پڑی تھی۔ میر کی دستگیری کون کرتا۔ ان پر میر کے یہ اشعار صادق آتے ہیں جو غالبا ًان تلخ تجربات کے بعدہی لکھے گئے ہیں۔

    کس طرح آہ خاک مذلت سے میں اٹھوں
    افتادہ تر جو مجھ سے مرا دستگیر ہو
    (غزل ۳۳۱، شعر ۳)

    توہے بےچارہ گدا میر ترا کیا مذکور
    مل گئے خاک میں یاں صاحب افسر کتنے
    (غزل ۴۴۵۔ شعر۶)

    رعایت خاں کی ملازمت چھوڑنے کے بعد میر نواب بہادر جاوید خاں کے ملازم ہوئے جو پہلے کبھی خواجہ سرا تھا۔ مگر محل کی اندرونی سازشوں نے اسے اقتدار کے منصب تک پہنچا دیا تھا۔ ۱۷۵۲ء میں جب اودھ کے صوبہ دار اور مغل سلطنت کے وزیر صفدر جنگ نے اس کو مروا ڈالا تو میر دیوان مہانارائن کے ملازم ہوئے۔ ’’اور کچھ مہینے فراغت سے بسر ہو گئے۔‘‘ (آپ بیتی صفحہ ۱۰۶) اس دوران میں ایک واقعہ یہ بھی پیش آیا کہ میر اسحاق خاں نجم الدولہ کے ساتھ ایک سفر میں گئے۔ وہ امیر ایک جنگ میں مارا گیا۔ اور میں (میر) اس ہارے ہوئے لشکر کے ساتھ بڑی زحمت اٹھاکر شہر واپس آ گیا۔‘‘ (آپ بیتی صفحہ ۱۰۵)

    ’’یہ احمد شاہ کا دورحکومت تھا۔ ۱۷۵۴ء میں اس کو اندھا کرکے تخت سے اتار دیا گیا اور اس کی جگہ عالمگیر ثانی کو پچپن سال کی عمر میں تخت پر بٹھایا گیا اور بہت سے نالائق اور کمینے لوگ برسر اقتدار آ گئے۔‘‘ (آپ بیتی صفحہ ۱۰۹) یہ واقعات اور الفاظ یوں کے یوں ہی میر کے اشعار میں ڈھل گئے ہیں، 

    شہاں کہ کحل جواہر تھی خاک پا جن کی
    انہیں کی آنکھوں میں پھرتی سلائیاں دیکھیں
    (غزل نمبر ۲۵۳شعر ۴)

    رہی نہ پختگی عالم میں دور خامی ہے
    ہزارحیف کمینوں کا چرخ حامی ہے

    ان حالات کی ناخوشگواری کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ میر نے اپنی بہت سی غزلوں میں غزل کی نفاست، لطافت، رمزیت اور اشاریت کو بالائے طاق رکھ کر انتہائی تلخ اور بعض اوقات بھدے الفاظ میں اپنا دردبیان کیا ہے۔ لیکن جذبے کے خلوص اور احساس کی شدت نے ان میں بھی تاثیر پیدا کر دی ہے، 

    سنا ہے میں نے، اے گھیتے ترے خلوت نشینوں سے
    کہ تو دار و پئے ہے رات کو مل کر کمینوں سے
    (دیوان سوم)

    عمر گزری کہ نہیں دودہ آدم سے کوئی
    جس طرف دیکھئے عرصہ میں ہیں اب خر کتنے
    (غزل ۴۴۵۔ شعر ۵)

    ان کمینوں اور گدھوں میں میر کے لئے کہاں جگہ تھی۔ اس لئے وہ گوشہ نشینی پر مجبور ہو گئے (آپ بیتی صفحہ ۱۰۹) اور اس گوشہ نشینی کے معنی فاقہ کشی کی زندگی تھی جس نے اکثر میر کے دل میں مر جانے کی خواہش پیدا کی، 

    رہتے ہیں داغ اکثر نان ونمک کی خاطر
    جینے کا اس سمے میں اب کیا مزا رہا ہے
    (غزل ۴۴۶)

    فکر معاش یعنی غم زیست تابہ کے
    مر جائیے کہیں کہ ٹک آرام پائیے
    (غزل ۴۶۱۔ شعر ۲)

    دو تین مہینے بعد بنگالے کے وکیل راجہ جگل کشور جو ’’بڑی جاہ وحشمت سے رہتے تھے‘‘ میر کو گھر سے بلاکر لئے گئے اور اپنے اشعار پر اصلاح کی خدمت سپردکی۔ مگر میر صاحب نے اصلاح کی قابلیت نہ دیکھی اور سارے شعر کاٹ دیے۔ معلوم یہ ہوتا ہے کہ راجہ جگل کشور نے اصلاح شعر کی خدمت کے بہانے میر کی امداد کرنی چاہی تھی۔ کیونکہ انکار کے بعد بھی وہ ان کی دستگیری کرتے رہے۔ مگر کچھ دنوں میں ان کی حالت بگڑ گئی۔ ابدالی کے حملوں اور اندرونی خانہ جنگیوں نے سب کو فاقہ میں مبتلا کر دیا تھا۔ فاقہ کشی کی نوبت یہاں تک پہنچی کہ میر نے ذلت وخواری کو بھی برداشت کر لیا۔ یہ داستان خود میر کی زبان سے سننے کے قابل ہے جن کی نازک مزاجی اور ذاتی رکھ رکھاؤ کے افسانے مشہور ہیں۔

    ’’ایک دن میں نے راجہ جگل کشور کے سامنے روزگار کی شکایت کی۔ وہ عزیز شرم سے پیلا پڑ گیا۔ کہنے لگا میں خود مفلس ہوں۔ کچھ بھی ہوتا تو ہرگز تامل نہ کرتا۔ ایک دن سوار ہوکر راجہ ناگرمل کے ہاں گیا اور تعارف کراکے بلوا بھیجا۔ میں بھی گیا اور اس کے وسیلہ سے ملاقات کی۔ بہت لطف وعنایت سے پیش آیا۔ کہنے لگا۔ دعوت شیراز بھی حاضر ہے۔ یعنی تمہارا حصہ بھی تمہیں پہنچتا رہےگا۔ مجھے اطمینان ہو گیا تو اٹھ کر واپس آیا۔ دوسرے دن ملاقات میں جب شعر خوانی ہوئی تو کہنے لگا۔ میر کا ہرشعر موتیوں کی لڑی ہے۔ مجھے اس شخص کا اسلوب بہت پسند ہے۔ ایسے ہی میں کبھی کبھار جاتا رہا مگر کچھ ہاتھ نہ آیا۔

    چونکہ چاقو ہڈی تک پہنچ گیا تھا۔ اضطراب بہت بڑھ گیا۔ ایک دن صبح کی نماز کے بعد اس کے دروازے تک پہنچ گیا۔ چوبداروں کا میر وہ جے سنگھ میرے سامنے آیا اور کہنے لگا یہ دربار کا کون سا وقت ہے۔ میں نے کہا اضطرار کاعالم ہے۔ کہنے لگا۔ تم لوگوں کو درویش کہتے ہیں۔ تم شاید یہ نہیں جانتے کہ ایک ذرہ بھی خدا کے حکم کے بغیر حرکت نہیں کرتا۔ یہاں اپنی ریاست کے آگے تمہاری کسے فکرہے۔ صابر و شاکر رہنا چاہئے۔ ہر کام کا ایک وقت ہوتا ہے۔ یہاں تو تمہاری رسائی مشکل ہے۔ البتہ ان کے بڑے لڑکے مل سکتے ہیں۔ میں نہایت شرمندہ ہوا اور واپس آ گیا۔

    ایک رات اس (دربان) کے کہنے کے مطابق (راجہ ناگرمل کے) لڑکے سے ملنے گیا۔ دربان نے روک دیا۔ بولا۔ اس وقت ان سے ملاقات کرنا ممکن نہیں۔ مجبوراً واپس آ گیا۔ پھر عشا کی نمازکے بعد (یعنی دس گیارہ بجے رات کو) گیا۔ دیکھا تو ڈیوڑھی پر دربان نہیں ہے۔ میں نے پوچھا۔ دربان کہاں گیا۔ لوگوں نے کہا۔ آج اس کے سر میں ایسا شدید درد تھا کہ بیٹھ نہیں سکتا تھا۔ میں نے سوچا کہ تائیدالہی شامل حال ہے۔ دیوان خانے میں داخل ہوا اور ملاقات کی۔ شعر خوانی کا بھی اتفاق ہوا۔ خواجہ غالب نے جو ایک بااثر آدمی اور مجھ سے واقف تھا، میرا احوال مفصل سنایا اور کچھ مقرر کرا دیا جو میں ایک سال تک پاتا رہا۔۔۔ اس زمانے سے عشا کی نماز کے بعد ان کے ملازموں کے طریقے سے ان کے پائیں باغ میں جاتا اور دو گھڑی رات گئے تک رہتا تھا۔ اس خدمت کا پھل یہ تھا کہ چین سکھ سے گزر اوقات ہو رہی تھی۔‘‘ (آپ بیتی صفحہ ۱۱۶۔ ۱۱۵)

    ادھر دلّی اجڑ رہی تھی ادھر لکھنؤ آباد ہو رہا تھا۔ اودھ کے نواب جو دراصل مغل شہنشاہ کے وزیر تھے عجیب وغریب طریقے سے خود مختار ہوئے تھے۔ اودھ کے صوبہ دار اور مغل سلطنت کے وزیر صفدر جنگ نے دلّی کی کمزوری سے فائدہ اٹھاکر ۱۷۵۷ میں خودمختاری کا پرچم لہرایا۔ اس کے انتقال کے بعد جب شعاع الدولہ تخت نشین ہوا تو اس نے اودھ کی سلطنت کو اور زیادہ مضبوط کرنے کے خواب دیکھے اور ایک بڑی طاقتور فوج کے ساتھ ۱۷۶۴ میں انگریزی فوجوں سے مقابلہ کیا۔ یہ بکسر کی جنگ تھی۔ اس میں اس کو شکست ہوئی اور فوجی قوت کا خاتمہ ہو گیا اور شاہان اودھ ایسٹ انڈیا کمپنی کے ماتحت حکومت کرنے اور داد عیش دینے لگے۔

    دلّی کے بادشاہ شکست کھانے کے بعدفقیر اور صوفی بن جاتے تھے۔ لیکن لکھنؤ کے نواب عیاشیوں میں مبتلا ہو گئے۔ اس طرح برطانوی تلواروں اور سنگینوں کے سائے میں ایک ایسی تہذیب معاشرت اور شاعر ی کی تربیت ہونے لگی جو اوپر سے چمک دار اور خوبصورت لیکن اندر سے کھو کھلی تھی۔ اب اودھ میں ایک جھوٹی خوش حالی اور جھوٹا سکون تھا۔ اور دلّی کے پریشان حال صاحبان کمال اور اہل فن اور شاعر تلاش روزگار میں پورب کی طرف کوچ کر رہے تھے۔ میر سے پہلے ان کے ماموں خان آرزو، مرزا مظہر جان جاناں اور سود ا کی طرح کے باکمال شاعر دلّی چھوڑ کر جا چکے تھے۔

    ۳۔ ۱۷۸۲ء کے قریب میر نے دلّی کو خدا حافظ کہا تو اودھ کا دارالسلطنت فیض آباد سے منتقل ہوکر لکھنؤ آ چکا تھا اور شجاع الدولہ کا بیٹا آصف الدولہ مسندنشین تھا۔ جس کو بےانتہا فیاض اور سخی بھی کہا جاتا ہے اور حد سے زیادہ ناکارہ اور عیاش بھی سمجھا جاتا ہے۔ اس کے زمانے میں اودھ کی فوج ختم کر دی گئی اور ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوج رکھ لی گئی۔ جس کے تمام اخراجات اودھ کی حکومت کو برداشت کرنے پڑتے تھے۔ اس طرح رعایا پر دہرا بارتھا۔ ایک کمپنی کی فوجوں کا خرچ دوسرے نواب کی عیاشیوں کاسامان۔ ان عیاشیوں میں انگریز بھی شریک ہوتے تھے۔ خود میر کی آپ بیتی ’’ذکرمیر‘‘ میں وارن ہیسٹنگز کی آمد کا تذکرہ اس کی گواہی دیتا ہے۔

    ’’یہاں وزیراعظم امیر مکرم گورنر بہادر کے استقبال کے لئے جو کلکتے سے آ رہے تھے، روانہ ہوئے۔ کیوں کہ تمام ملک وزیر ہی کا تھا۔ اس کے ساتھ بے شمار لشکر تھا۔ یہ سفرالہ آباد تک ہوا۔ صاحب مذکور کی آمد آمد کی خبر سن کر اس ضلع کے سردار بھی ان کو دیکھنے کے لئے آئے۔ ایک میل آگے نواب گردوں جناب سے ملاقات کی۔ وہاں سے اپنے ساتھ لکھنؤ لے کرآئے اور ہر منزل پرنئی نئی ضیافتیں، نئے نئے خیمے اور خرگاہ، طرح طرح کے بیش بہا تحفے نظر آتے تھے۔ جب لکھنؤ پہنے تو دولت خانے میں داخل ہوئے۔ اس کی آرائش و تکلف، فرش فروش، ساز و سامان کی افراط ایسی تھی کہ عقل دنگ ہوتی تھی۔ دن کو ضیافتیں اور رات کو پری وش حور لقا عورتوں کاناچ اور گانا، آتش بازی اور چراغاں کا لطف رہتا تھا۔ غرض یہ شاہانہ اور پرتکلف دعوت چھ مہینے تک رہی اور یہ مدت باہم گفت وشنود، مشورے و صحبت میں کٹی۔‘‘

    میر کی پہلی ملاقات آصف الدولہ سے جس طرح ہوئی وہ بھی لکھنؤ کی تہذیب و معاشرت پر ایک تبصرہ ہے۔ اکبر اور جہانگیر کے عہد کے شعرا بھرے دربار میں پیش ہوتے تھے، اور ان کا تعارف ان کی شاعری کے ذریعے سے ہوتا تھا لیکن میر جو نواب کے طلب کرنے پر لکھنؤ آئے تھے، دربار کے بجائے مرغوں کی لڑائی میں آصف الدولہ سے ملے۔ ایک طرف مرغوں کی لڑائی جاری تھی اور دوسری طرف نواب اپنا کلام میر کو سنا رہے تھے۔ اس کے بعد فرط مہربانی سے مجھ (میر) سے فرمائش کی اور اس روز میں نے اپنی غزل کے چند شعر عرض کئے۔‘‘ (ذکرمیر)

    یہ وہی میر تھے جو رعایت خاں سے اس لئے برگشتہ خاطر ہو گئے تھے کہ اس نے میر کے اشعار ڈوم کے لڑکے کو گانے کے لئے دیے تھے اور اب دربدر کی ٹھوکریں کھانے کے بعد میر صاحب مرغوں کی پالی میں بیٹھے ہوئے خود اپنی غزل سنا رہے تھے۔

    ظاہر ہے اس ماحول میں نہ تو میر کی شاعری پروان چڑھ سکتی تھی اور نہ میر خوش رہ سکتے تھے۔ چنانچہ اپنی باقی عمر میں معاشی فراغت کے باوجود میر لکھنؤ سے ناخوش رہے۔ دلّی میں میر کو کبھی چین اور آرام نصیب نہیں ہوا۔ جان ومال، عزت و آبرو ہر وقت خطرے میں تھی۔ پھر بھی میر کے لئے دلّی کے کوچے ’’اوراق مصور‘‘ تھے۔ جوشکل نظرآئی تصویر نظر آئی۔‘‘ دل و دلّی دونوں خراب تھے۔ مگر اس اجڑے گھر میں میر کے لئے بڑا لطف تھا۔ اس کے برعکس، 

    پھر ا میں صورت احوال ہر اک کو دکھاتا یاں
    مروت قہر ہے، آنکھیں نہیں کوئی ملاتا یاں
    خرابہ دلی کا دو چند بہتر لکھنؤ سے تھا
    وہیں میں کاش مر جاتا، سراسیمہ نہ آتا یاں

    برسوں سے لکھنؤ میں اقامت ہے مجھ کو لیک
    یاں کے چلن سے رکھتا ہوں عزم سفر ہنوز

    آباد اجڑا لکھنؤ چغدوں سے اب ہوا
    مشکل ہے اس خرابے میں آدم کی بود وباش

    اور آخر میں میر نے لکھنؤ کے خلاف یوں فریاد کی ہے، 
    کس کس ادا سے ریختے میں نے کہے ولے
    سمجھا نہ کوئی میری زباں اس دیار میں

    دلّی کے دوسرے مہاجر شعرا نے بھی لکھنؤ سے اپنی بے اطمینانی کا بار بار اظہار کیاہے۔ چنانچہ مصحفی نے اپنی ایک رباعی میں اپنا درد اس طرح بیان کیا ہے، 

    یارب شہر اپنا یوں چھڑایا تونے
    ویرانے میں مجھ کو لا بٹھایا تونے
    میں اور کہاں یہ لکھنؤ کی خلقت
    اے وائے یہ کیا کیا خدایا تونے

    ان کی غزل کے شعروں میں بھی یہ رنگ ملتا ہے، 
    اے مصحفی مت پوچھ کہ دلّی سے نکل کر
    کیا کہیے کہ ہم کتنے پشیمان ہوئے ہیں

    ہرگل کے رنگ سرخ میں زردی کی تہ سی ہے
    بھولا چمن کو صدمہ باد خزاں نہیں

    یہ شعرا صرف لکھنؤ کی معاشرت ہی سے برگشتہ خاطر نہیں تھے، جس میں عیش و تفریح حاوی تھے بلکہ ان کی نظر سیاسی پہلو پر بھی تھی اور وہ جانتے تھے کہ شاہان اودھ اور ایسٹ انڈیا کمپنی کی ساز باز کس قسم کی غلامی کا پیش خیمہ ہے۔ مصحفی کے دو تین شعر اس شہادت کے لئے کافی ہیں، 

    ہندوستاں میں دولت و حشمت جو کچھ کہ تھی
    کافر فرنگیوں نے بتدبیر کھینچ لی

    ظالم کی سلطنت کو شتاب آوے ہے زوال
    کسریٰ کے گھر میں عدل کے باعث خزانہ تھا

    غمگین کیوں ہوں اپنی نگوں طالعی سے ہم
    بوئے نشاط دیوے ہے رنگ انقلا ب کا

    اورجرأت نے اپنی ایک رباعی میں یہاں تک کہہ دیا۔
    سمجھے نہ امیران کو کوئی نہ وزیر
    انگریزوں کے ہاتھ ایک قفس میں ہیں اسیر
    جو کچھ وہ پڑھائیں سویہ منہ سے بولیں
    بنگالے کی مینا ہیں یہ پورب کے امیر

    لکھنؤ کی یہ تہذیب اور معاشرت جس میں ایک جھوٹا سکون اور جھوٹی فراغت تھی، تہذیب نفس اور تنقیدحیات سے گریز کرکے ایک نئی شاعری کی فضا پیدا کر رہی تھی جس میں معشوق کا جسم عاشق کے دل سے زیادہ اہم تھا۔ اس شاعری نے لفظوں کی ظاہری تراش خراش پر زیادہ زور دیا۔ لیکن اندر سے بے جان رہی اور لکھنؤ اسکول کے نام سے مشہور ہوئی۔

    میر کا مزاج اس فضا سے ہم آہنگ نہیں ہو سکتا تھا۔ ان کی عمر کے آخری بیس تیس سال میر کے معیار کی غزل فراہم نہ کر سکے۔ زیادہ تر وہ آصف الدولہ کے لئے شکار نامے اور مثنویاں لکھتے رہے۔ وہ اپنی عظمت کے آخری بلندیاں دلّی میں چھو چکے تھے۔ لکھنؤ رفعت پرواز کے لئے کوئی اور بلند آسمان نہ دے سکا۔

    شاعری
    میر ان معنوں میں عشقیہ شاعرنہیں ہیں جن معنوں میں بعض نقاد اور نیم رومانی شاعر اردو کی ساری شاعری کوجنسیات تک محدود کر دینا چاہتے ہیں۔ غالب نے بھی ایسی عشقیہ شاعری سے پناہ مانگی ہے۔ اور لکھا ہے کہ عاشقانہ شاعری سے مجھ سے وہی بعد ہے جو کفر سے ایمان کو ہو سکتا ہے (خطوط غلام رسول مہر صفحہ ۵۶) میر کے یہاں عشق ایک دریائے بیکراں ہے جس کی بہت سی موجیں ہیں۔

    قرون وسطی میں انسان دوستی کی سب سے بڑی تحریک تصوف کی شکل میں ابھری۔ بھگتی اور مسٹی سزم (MYSTICISM) اس کی غیر اسلامی شکلیں ہیں۔ ان تحریکوں کا رشتہ دستکاروں اورکسانوں کی بغاوت سے بھی رہا ہے۔ لیکن میر کے عہد تک پہنچتے پہنچتے صرف ایک فکری نظام باقی رہ گیا تھا جو جاگیر داری نظام کی قدروں سے مختلف قدریں رکھتا تھا اور ان میں سب سے زیادہ اہم وحدت انسان کا تصور تھا۔ جو مذہب، ذات پات اور پیشوں کی بنیاد پر تقسیم ہو جانے والے انسانوں کو ایک ہی رشتے میں پرو لیتا تھا۔

    عشق اور دل دو لفظ ہیں، جواس تصور کاپوری احاطہ کر لیتے ہیں۔ عشق سب سے بڑا جذبہ ہے اور دل سب سے بڑی چیز۔ کعبہ ہو یا مندراور مسجد یہ اگر ٹوٹ جائیں تو پھر بن سکتے ہیں لیکن ’’دل وہ نگرنہیں کہ پھر آباد ہو سکے۔‘‘ اس لئے دل ڈھاکر کعبہ بنانے سے کچھ حاصل نہیں ہو سکتا۔ حج، نماز یا روزے سے کوئی آدمی نہیں بنتا۔ یہ ظاہری عبادتیں ہیں۔ آدمی دل سے بنتا ہے اور دل پیرومرشد ہے۔ عشق کا مرکز ہے اور عشق خدا ہے۔ عشق اس کائنات کا خالق ہے۔ اس کا رنگ روپ ہے۔ عشق ہی جلاتا ہے۔ عشق ہی مارتا ہے۔

    اس طرح خدا اور انسان کا براہ راست رشتہ قائم ہوتا ہے۔ اس لئے ظاہری عبادت خانوں، ملاؤں اور پنڈتوں کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی۔ ان کی وہی حیثیت ہے جو عام انسانوں اوربادشاہوں کے درمیان محتسب اور قاضی کی ہے۔ ایک ریاستی نوکر شاہی ہے اور دوسری مذہبی، اور دونوں فضول ہیں۔ اس لئے شیخ، زاہد، محتسب، ملا اور قاضی پ رپھبتیاں کسی گئی ہیں۔ دونوں عام انسانوں کا استحصال کرنے والے گروہ ہیں۔ ایک بادشاہ کے نام  پر لوٹتا ہے اور دوسرا خدا کے نام پر۔

    صرف انسان سے محبت کرکے خدا تک پہنچا جا سکتا ہے۔ اس لئے آنکھیں بند کرکے مراقب ہونا، بندے کے درد دل کو بھول کر خدا رسیدہ بننا بیکار ہے۔ (غزل ۳۵۹) انسانوں میں کھو جانا اور دنیا کو برتنا نجات کا صحیح راستہ ہے۔ برتنے میں گناہ بھی شامل ہے جو رحمت کو بر سرکار آنے کی دعوت دیتا ہے۔ اس طرح جنسی محبت، بنی نوع انسان کی محبت اور خدا کی محبت تینوں مل کر ایک ہوجاتی ہیں۔ جتنے محبوب کے جلوے ہیں اتنے ہی عشق کے روپ ہیں۔

    میر کی شاعری انہیں پردوں میں حقیقت کی ترجمانی کرتی رہی ہے۔ اس کو انہوں نے اپنے عہد کی ایک بہت بڑی اور اہم دستاویز بنا دیا ہے۔ ان کا اپنا بیان یہ ہے کہ میری شاعری خواص کی پسند کی ہے۔ ’’پر مجھے گفتگو عوام سے ہے۔‘‘ انہوں نے اپنے دیوان کو درد و غم کا مجموعہ بتایا ہے اور یہ درد وغم صرف ذاتی نہیں ہے کیونکہ جہاں سارا عالم خاک ہو چکا ہو وہاں صرف اپنے آپ پر رونا بے سود ہے۔ (غزل ۳۶۶) اس لئے میر کے یہاں دل اور دلّی کی خرابی کا ذکر ایک ساتھ آتا ہے۔ اور عاشق اور آدم ہم معنی الفاظ ہیں۔ کلیات میر میں تکرار مضامین کے دو بڑے دلچسپ شعر ہیں۔ ایک میں انہوں نے یہ کہا ہے، 

    مارنا عاشقوں کا گر ہے ثواب
    تو ہوا ہے تمہیں ثواب بہت

    اور دوسرے میں یہ ہے، 
    کشتن مرد ماں اگر ہے ثواب
    تو ہوا ہے اسے ثواب بہت

    میر کے عہد کے انسان کی طرح میر کی شاعری کا عاشق بھی ایک کچلی ہوئی شخصیت ہے جو اپنا کھویا ہوا وقار واپس مانگ رہی ہے۔ اس میں انانیت کا دور دور پتہ نہیں ہے۔ صرف بے دماغی ہے۔ انانیت، دولت، طاقت یا صلاحیت کے غرور سے پیدا ہوئی ہے اور بے دماغی سب کچھ کھونے کے بعد آئی ہے۔ (غالب اور میر میں یہی فرق ہے۔)

    حسن عسکری نے اپنے ایک مضمون میں بڑے پتے کی بات کی ہے کہ ’’میر کی شاعری کا عاشق محبوب سے محبت کا طالب نہیں۔ بس اتنا چاہتا ہے کہ اس کے ساتھ انسانوں جیسا برتاؤ کیا جائے۔ اس کے عالم و فاضل ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ انسان ہونے کی وجہ سے۔‘‘ (دیباچہ ’’گل نغمہ‘‘ فراق گورکھپوری) اس تصویر میں میر کابچپن، جوانی اور دلّی کی تباہی اور بربادی ایک ہی تصویر کے کئی رخ ہیں اور میر نے اس تصویر میں اتنے ہی مختلف انداز سے رنگ بھرا ہے۔ میر کی غزلوں میں ایسے اشعار کی تعدادبہت زیادہ ہے جن میں انہوں نے براہ راست سماجی، معاشی اور سیاسی مضامین کو ڈھال دیا ہے۔ انہوں نے کبھی یہ خیال نہیں کیا کہ یہ مضامین غزل کی طبع نازک پر گراں گزریں گے، 

    قوت کی پیرانہ سر دلّی میں حیرانی ہوئی
    اب کے جو آئے سفر سے خوب مہمانی ہوئی
    (دیوان دوم)

    رہتے ہیں داغ اکثر نان و نمک کی خاطر
    جینے کا اس سمے میں اب کیا مزا رہا ہے
    (غزل ۴۴۶)

    محتاج کو خدا نہ نکالے کہ جوں ہلال
    تشہیر کون شہر میں ہو پارہ نان پر
    (غزل ۱۹۸۔ شعر)

    جن کو خدا دیتا ہے سب کچھ وے ہی سب کچھ دیتے ہیں
    ٹوپی لنگوٹی پاس اپنے اس پر کیا انعام کریں
    (غزل ۲۱۰۔ شعر ۲)

    چور اچکے سکھ مرہٹے شاہ وگدا زرخواہاں ہیں
    چین میں ہیں جو کچھ نہیں رکھتے، فقرہی اک دولت ہے اب
    (غزل نمبر ۱۵۸)

    اے حب جاہ والو، جو آج تاجور ہے
    کل اس کو دیکھیو تم، نے تاج ہے نہ سر ہے
    (غزل ۴۳۹۔ شعر۱)

    سبزان تازہ رو کی جہاں جلوہ گاہ تھی
    اب دیکھئے تو واں نہیں سایہ درخت کا

    جوں برگہائے لالہ پریشان ہو گیا
    مذکور کیا ہے اب جگرلخت لخت کا

    دلّی میں آج بھیک بھی ملتی نہیں انہیں
    تھا کل تلک دماغ جنہیں تاج وتخت کا

    خاک سیہ سے میں جو برابر ہوا ہوں میر
    سایہ پڑا ہے مجھ پہ کسو تیرہ بخت کا
    (غزل ۶۴)

    جو ہے سو پائمال غم اے میر
    چال بے ڈول ہے زمانے کی
    (غزل ۳۹۵۔ شعر۴)

    نہ مل میر اب کے امیروں سے تو
    ہوئے ہیں فقیر ان کی دولت سے ہم
    (غزل ۲۲۸۔ شعر۴)

    کیا شہرمیں گنجائش مجھ بے سرو پا کو ہو
    اب بڑھ گئے ہیں میرے اسباب کم اسبابی
    (غزل نمبر ۳۷۹۔ شعر۱)

    غیر از خدا کی ذات میرے گھر میں کچھ نہیں
    یعنی کہ اب مکان مرا لامکاں ہوا
    (غزل ۱۵۱۔ شعر۱)

    اس براہ راست انداز بیان کے علاوہ میر نے اپنے عہد کے مظالم اور انسانی شخصیت کی شکست وریخت کومحبوب کے پردے میں بھی بیان کیا ہے اور اس پردے کو اٹھانے کی خود ہی ترغیب بھی دی ہے۔

    ہوگا ستم و جور سے تیرے ہی کنایہ
    دو شخص جہاں شکوہ ایام کریں گے
    (غزل ۴۷۴۔ شعر۱)

    دہر کا ہوگلہ کہ شکوہ چرخ
    اس ستم گرہی سے کنایت ہے
    (غزل ۴۹۲)

    اس طرح کی شاعری میں انہوں نے محبوب کو ظالم، سفاک، گھٹیا، کمینہ، اوباش، بدمعاش، خونخوار، خونریز، جھوٹا، مکار سبھی کچھ کہا ہے۔ محبوب کی کالی آنکھوں کی سبھی نے تعریف کی ہے۔ لیکن میر نے ان کو’’سیہ رو‘‘ اور ’’سیہ کاسہ‘‘ کہہ کر گالی بھی دی ہے۔ سیہ روکے معنی بدچلن اور بدنام ہیں اور ’’سیہ کاسہ‘‘ کنجوس کو کہتے ہیں۔ میرکے عہد کی ایک لغت (مرتبہ شیکپسئر) میں اس کے معنی چنڈال بھی لکھے ہیں اور میر یقیناً اس مفہوم سے واقف ہوں گے۔ اس شاعری میں صرف آسمان ہی نہیں جو تقدیر اور وقت کا کنایہ ہے (اور سماجی نظام کا مفہوم بھی اختیار کر لیتا ہے) بلکہ محبوب کی آنکھ بھی سیہ کاسہ اور سہ روہے۔

    جام خوں بن نہیں ملتا ہے ہمیں صبح کو آب
    جب سے اس چرخ سیہ کاسہ کے مہمان ہوئے
    (غزل ۴۲۶۔ شعر۱)

    گردش چشم سیہ کاسہ سے، جمع نہ رکھو خاطر تم
    بھوکا پیاسا مار رکھا ہے تم سے ان نے ہزاروں کو
    (غزل ۳۴۹)

    جب سے دیکھا اس کوہم نے جی ڈہا جاتا ہے میر
    اس خرابی کی یہ چشم روسیہ بانی ہوئی
    (دیوان دوم)

    یہی محبوب معشوق حقیقی یعنی خدا کی ذات میں بھی گم ہو جاتا ہے اور دنیا میں ہوتے ہوئے بھی لاپتہ رہتا ہے اورنہ دیر والوں کو ملتا ہے اور نہ حرم والوں کو۔ کسی نے اس کا رخ دیکھا ہے اور کسی نے زلف اور اس ادھوری سچائی پر شیخ وبرہمن لڑ رہے ہیں۔ اس محبوب کی راہ وروش کی شکایت کرتے وقت میر بے باک ہو جاتے ہیں او رکہہ دیتے ہیں کہ ’’پردے میں بدسلوکی ہم سے خدا کرے ہے۔‘‘ (غزل ۴۹۸۔ شعر۲) اور یہ وہ خدا ہے جس کی بارگاہ کی بے نیازی کے خوف سے میر اپنے کام اس کو سونپتے ہوئے گھبراتے ہیں۔ وہ دنیا کے کاروبار پر اک نظر ڈالتے ہیں اور پھر اس سے مخاطب ہوکر سوال کرتے ہیں، 

    کوئی ہو محرم شوخی ترا تو میں پوچھوں
    کہ بزم عیش جہاں کیا سمجھ کے برہم کی
    (غزل ۳۹۳۔ شعر۲)

    پھر یہی محبوب ظالم اور سفاک بادشاہوں، حکمرانوں اور فاتحوں کی ذات میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ اب اس کی آمد تباہی کا باعث ہوتی ہے۔ اس کی راہوں میں خون کے دریا موجیں مارتے ہیں۔ لاشیں پڑی رہتی ہیں اور دھرتی کے سینے پر فوجوں کے قدموں کی چاپ سنائی دیتی ہیں۔

    جہاں کوفتنے سے خالی کبھو نہیں دیکھا
    ہمارے وقت میں تو آفت زمانہ ہوا
    (غزل ۷۷۔ شعر۱)

    نیمچہ ہاتھ میں مستی سے لہو سی آنکھیں
    سج تری دیکھ کے اے شوخ حذر ہم نے کیا
    (غزل ۱۰۲۔ شعر۱)

    سنا ہے میں نے اے گھتیے ترے خلوت نشینوں سے
    کہ تو دارو پئے ہے رات کو مل کر کمینوں سے
    (دیوان سوم)

    سواری اس کی ہے سرگرم گشت دشت مگر
    کہ خیرہ تیرہ نمودار اک غبار ہے آج
    (غزل ۱۷۳۔ شعر ۴)

    مارا ہوا ایک دو کو تو ہو مدعی کوئی
    کشتوں کا اس کے روز جزا میں شمار کیا
    (غزل ۱۰۴۔ شعر۴)

    جفائیں دیکھ لیاں بے وفائیاں دیکھیں
    بھلا ہوا کہ تری سب برائیاں دیکھیں

    تری گلی سے سدا اے کشندہ عالم
    ہزاروں آتی ہوئی چارپائیاں دیکھیں
    (غزل ۲۵۳۔ شعر۲۰۱)

    صدخانماں خراب ہیں ہر ہر قدم پہ دفن
    کشتہ ہوں یار میں تو ترے گھر کی راہ کا

    ظالم زمیں سے لوٹتا دامن اٹھا کے چل
    ہوگا کمیں میں ہاتھ کسو داد خواہ کا
    (غزل ۳۴۔ شعر ۲۰۱)

    کس تازہ مقتل پہ کشندے ترے ہوا ہے گزارا آج
    زہ دامن کی بھری ہے لہو سے، کس کو تونے ماراآج
    (دیوان پنجم)

    حنا سے یار کا پنجہ نہیں ہے گل کے رنگ
    ہمارے ان نے کلیجوں میں ہاتھ ڈالا ہے
    (غزل ۴۹۱)

    نہ ہو کیوں غیرت گلزار وہ کوچہ خدا جانے
    لہو اس خاک پر کن کن عزیزوں کا بہا ہوگا
    (غزل ۶۵)

    فتنے فساد اٹھیں گے گھر گھرمیں خون ہوگا
    گر شہر میں خراماں وہ خانہ جنگ آیا
    (غزل ۱۲۵۔ شعر۱)

    کاٹ کے سر عاشق کا ان نے اور بھی پگڑی پھیر رکھی
    فخر کی کون سی جاگہ تھی یاں، ایسا کیا رستم مارا
    (دیوان پنجم)

    حاکم شہر حسن کے ظالم کیوں کہ ستم ایجاد نہیں
    خون کسو کا کوئی کرے واں، داد نہیں فریاد نہیں

    کیا کیا مردم خوش ظاہر ہیں عالم حسن میں نام خدا
    عالم عشق خرابہ ہے یاں کوئی گھر آباد نہیں
    (غزل ۳۱۴۔ شعر۲۰۱)

    جس راہ ہوکے آج میں پہنچا ہوں تجھ تلک
    کافر کا بھی گزارالہی ادھر نہ ہو

    یک جا نہ دیکھی آنکھوں سے ایسی تمام راہ
    جس میں بجائے نقش قدم چشم تر نہ ہو

    ہر اک قدم پہ لوگ ڈرانے لگے مجھے
    ہاں ہاں کسو شہید محبت کا سر نہ ہو

    چلیو سنبھل کے سب یہ شہیدان عشق میں
    تیرا گزار تاکہ کسو نعش پر نہ ہو

    دامن کشاں ہی جاکہ طپش پر طپش ہے دفن
    زنہار کوئی صدمے سے زیر وزبر نہ ہو

    لیکن عبث نگاہ جہاں کریئے اس طرف
    امکان کیا کہ خون مرے تا کمر نہ ہو

    حیراں ہوں میں کہ ایسی یہ مشہد ہے کون سی
    مجھ سے خراب حال کو جس کی خبر نہ ہو

    آتا ہے یہ قیاس میں اب تجھ کو دیکھ کر
    ظالم جفا شعار ترا رہ گزر نہ ہو
    (غزل ۳۲۵)

    یہ جفا شعاری شہروں ہی کی نہیں۔ دل کی خرابی کا بھی باعث ہے۔ جسے میر نے تشبیہ کی شکل میں پیش کیا ہے، 

    دل کی آبادی کی اس حد ہے خرابی کہ نہ پوچھ
    جانا جاتا ہے کہ اس راہ سے لشکر نکلا
    (غزل ۳۸۔ شعر ۴)

    شام سے کچھ بجھا سا رہتا ہے
    دل ہوا ہے چراغ مفلس کا
    (غزل ۱۳۔ شعر۴)

    محبوب کے اس تصور کے پیچھے حالات زمانہ کا ایک سماجی شعور ہے اور ان بظاہر سادہ شعروں کی تہہ میں دبا ہوا ایک احتجاج ہے۔ اپنے بعض دوسرے شعروں میں میرنے بادشاہوں کے جلوس کے مقابلے میں مظلوم کی مظلومیت کوشان وشکوہ عطا کیا ہے، 

    ہم بھی چلتے ہیں اک حشم لے کر
    دستہ داغ وفوج غم لے کر

    دست کش نالہ پیش رو گر یہ
    آہ چلتی ہے یاں علم لے کر

    اور یہ قافلے دوبارہ اٹھنے کے لئے موت کی منزل میں پڑاؤ ڈالتے ہیں، 

    مرگ اک ماندگی کا وقفہ ہے
    یعنی آگے چلیں گے دم لے کر
    (غزل ۱۹۵۔ شعر ۱۔ ۲۔ ۳)

    اس کے بعد ہی میر کی اس عجیب و غریب امیجری کا مفہوم سمجھ میں آتا ہے جو کسی اردو یا فارسی شاعر کے یہاں کم سے کم میری نظر سے نہیں گزری ہے۔

    اگتے تھے دست بلبل و دامان گل بہم
    صحن چمن نمونہ یوم الحساب تھا
    (غزل ۲۴۔ شعر۱)

    تڑپ کے خرمن گل پر کبھی گر اے بجلی
    جلانا کیا ہے مرے آشیاں کے خاروں کا
    (غزل ۳۳۔ شعر۷)

    کسی شاعر نے اپنے محبوب کو اس طرح نہیں کون سا ہے اور کسی عاشق نے معشوق کے لئے اتنے سخت الفاظ استعمال نہیں کئے ہیں۔ لیکن جب ہم اس غزل کے ابتدائی اشعار دیکھتے ہیں (جو میر کی اور بھی کئی غزلوں کی طرح مسلسل ہے) تو گل کے چہرے سے معشوقیت اور محبوبیت کی نقاب اٹھ جاتی ہے اور جسے میر نے گل کہا ہے وہ زندگی کے پہلو کا کانٹا معلوم ہونے لگتا ہے، 

    سنا ہے حال ترے کشتگاں بیچاروں کا
    ہوا نہ گور گڑھا ان ستم کے ماروں کا

    ہزار رنگ کھلے گل چمن کے ہیں شاہد
    کہ روزگار کے سرخون ہے ہزاروں کا

    ملا ہے خاک میں کس کس طرح کا عالم یاں
    نکل کے شہر سے ٹک سیر کر مزاروں کا

    تڑپ کے خرمن گل پر کبھی گر اے بجلی
    جلانا کیا ہے مرے آشیاں کے خاروں کا
    (غزل ۳۳۔ شعر ۱، ۲، ۳، ۷)

    ان شعروں میں غالب کی شاعری کے عاشق کی انانیت اور خود پرستی نہیں ہے بلکہ ایک مظلوم اور جھنجھلائے ہوئے بے دماغ آدمی کا جذبہ انتقام ہے۔ بعض دوسرے اشعار میں میر اور کھل گئے ہیں۔

    اس دشت میں اے سیل سنبھل ہی کے قدم رکھ
    ہر سمت کو یاں دفن مری تشنہ لبی ہے
    (غزل ۵۵)

    کوئی تجھ سا بھی کاش تجھ کو ملے
    مدعا ہم کو انتقام سے ہے
    (غزل ۴۹۹۔ شعر۲)

    ہاتھ دامن میں ترے مارتے جھنجھلاکے نہ ہم
    اپنے جامے میں اگر آج گریباں ہوتا
    (غزل ۱۲۲)

    گیا حسن خوبانِ بد راہ کا
    ہمیشہ رہے نام اللہ کا
    (غزل ۱۲۶۔ شعر۱)

    شیکسپئر کے مشہور ڈرامے میکبتھ میں جب اپنے مجرم ضمیر کی ستائی ہوئی لیڈی میکبتھ خواب میں چلتی ہے تو وہ اپنے ہاتھوں کو اس انداز سے ملتی رہتی ہے جیسے انہیں دھونے کی کوشش کر رہی ہو لیکن خون بے گناہ کے دھبے کسی طرح نہیں چھوٹتے اور وہ بڑبڑاتی ہے کہ عرب کا عطر بھی اس کے ہاتھوں سے خون کی بو کو دور نہیں کر سکتا۔ میر کا وہ محبوب بھی جو سفاک بادشاہوں اور خوں ریز فاتحوں کا کنایہ ہے، اپنے ہاتھ ملتا رہتا ہے۔ اس نے اپنی آرائش مظلوموں کے خون سے کی ہے۔ (غزل ۱۴۱) انسانوں کے کلیجوں میں ہاتھ ڈالا ہے تب ہتھیلیوں نے حنا کا رنگ اختیار کیا ہے (غزل ۴۹۱) اور یہ خون ہے کہ کسی طرح نہیں چھوٹتا، 

    کیا ہے خوں مرا پامال یہ سرخی نہ چھوٹے گی
    اگر قاتل تو اپنے ہاتھ سو پانی سے دھووے گا
    (غزل ۸۵۔ شعر۲)

    جم گیا خوں کف قاتل پہ ترا میر زبس
    ان نے رو رو دیا کل ہاتھ کو دھوتے دھوتے
    (غزل ۴۴۷)

    یہ جنون کی کیفیت ہے جسے عام اصطلاح میں خون چڑھنا کہتے ہیں۔ اور میر نے اس کو ایک جگہ یوں بیان کیا ہے، 

    خون کم کر اب کہ کشتوں کے تو پشتے لگ گئے
    قتل کرتے کرتے تیرے تئیں جنوں ہو جائےگا
    (غزل ۹۰)

    اور جب ہم میر کایہ شعر پڑھتے ہیں تو آج بھی دو سو برس پہلے کی خون میں لتھڑی ہوئی دلّی کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔

    شش جہت سے اس میں ظالم بوئے خوں کی راہ ہے
    تیرا کوچہ، ہم سے تو کہہ، کس کی بسمل گاہ ہے
    (غزل ۴۳۶)

    غالباً میر کے وہ اشعار جن میں عاشقانہ نیازمندی کی کمی ہے، محبوب کے اسی تصور سے تعلق رکھتے ہیں، 

    وجہ بے گانگی نہیں معلوم
    تم جہاں کے ہو واں کے ہم بھی ہیں

    اپنا شیوہ نہیں کجی، یوں تو
    یار جی ٹیڑھے بانکے ہم بھی ہیں
    (غزل ۲۸۲۔ شعر۵۔ ۶)

    رکھا ہے اپنے تئیں روک روک کر ورنہ
    سیاہ کردیں زمانے کوہم جوآہ کریں

    اگراٹھیں گے اسی حال سے توکہیو تو
    جو روزحشر تجھی کو نہ عذر خواہ کریں
    (غزل ۲۴۱۔ شعر ۲۔ ۳)

    بہت ممکن ہے اس تصور نے میر کو واسوخت لکھنے پر اکسایا ہو۔ یہ بات اہم ہے کہ اردو میں واسوخت کی ابتدا میر نے کی ہے اور واسوخت اس وقت تک نہیں کہا جا سکتا جب تک محبوب کے لئے جذبہ احترام میں کمی نہ ہو۔ اور یہ عاشق پیشہ شاعروں کا شیوہ نہیں ہے جیسا کہ حافظ نے کہا ہے ’’ہیچ عاشق سخن سخت بہ معشوق نہ گفت۔‘‘

    محبوب کے احترام میں کمی کے جذبے کی غمازی وہ اشعار بھی کرتے ہیں جن میں میر نے وصال کے مضمون کو مبتذل بنا دیا ہے۔ ان کے یہاں وصل کی تین کیفیتیں ملتی ہیں۔ ایک تو وہ ہلکی کیفیت ہے جس میں وہ محبوب کے گال کاٹتے ہیں اورنشے میں دھت معشوق کی راتوں کو اٹھ اٹھ کر خبر لیتے ہیں (ایسے اشعار انتخاب میں شامل نہیں ہیں۔) دوسری کیفیت وہ ہے جہاں وصل کی لذت در دو غم کے اتھاہ سمندر میں ڈوب جاتی ہے اور عاشق کی مفلسی اور مظلومی کی غمازی کرتی ہے، 

    آج ہمارے گھر آیا تو کیا ہے یاں جو نثار کریں
    الا کھینچ بغل میں تجھ کو دیر تلک ہم پیار کریں
    (غزل ۴۸۱۔ شعر۱)

    بھری آنکھیں کسو کی پونچھتے گر آستیں رکھتے
    ہوئی شرمندگی کیا کیا ہمیں اس دست خالی سے
    (غزل ۲۷۲۔ شعر۱)

    تیسری کیفیت خالص نشاط کی ہے اور یہ اشعار بہت کم ہیں۔

    سب مزے درکنار عالم کے
    یار جب ہم کنار ہوتا ہے
    (غزل ۵۱۸۔ شعر۱)

    برافروختہ رخ ہے اس کا کس خوبی سے مستی میں
    پی کے شراب شگفتہ ہوا ہے اس نوگل پہ بہار ہے آج

    اس کا بحر حسن سراسر اوجِ موج و تلاطم ہے
    شوق کی اپنے نگاہ جہاں تک جاوے بوس و کنار ہے آج
    (غزل۱۷۲۔ ۲۰۱)

    قربان پیالہ مے ناب
    جس سے کہ تراحجاب نکلا
    (ضمیمہ غزل۔ شعر۔ ۲)

    یہ بات بھی غور طلب ہے کہ میر کے یہاں وصال کا اضطراب، درد و کرب اور خالص نشاط سب کچھ ہونے کے بعدبھی ان کا کلام وصال کی اس سادہ لذت اور معشوق نوازی کی کیفیت سے خالی ہے جس کی مثال ان کے پیش رو ولی دکنی کی غزلوں میں ملتی ہے۔ جیسے، 

    سجن تم مکھ ستی الٹو نقاب آہستہ آہستہ
    کہ جیوں گل سے نکستا ہے گلاب آہستہ آہستہ

    عجب کچھ لطف رکھتاہے شب خلوت میں گلروسوں
    خطاب آہستہ آہستہ جواب آہستہ آہستہ

    اور ان کے یہاں غالب کا یہ انداز ملتا ہے کہ محبوب کے ساتھ مل کر زمین اورآسمان کو تہ و بالا کر دیں۔ (بیاکہ قاعدہ آسماں بگردانیم) اس کے برعکس میر اپنے جفاپیشہ محبوب کو تبدیل کرنے کے لئے زمانے سے انقلا ب کے خواہش مند ہیں اور اس دنیا کی نئی بنیادیں رکھنا چاہتے ہیں، 

    شاید کہ قلب یار بھی ٹک اس طرف پھر ے
    میں منتطر زمانے سے ہوں انقلاب کا
    (غزل ۱۱۶)

    سر دورِ فلک بھی دیکھوں اپنے روبرو ٹوٹا
    کہ سنگِ محتسب پائے خم، دست ِسبو ٹوٹا
    (غزل ۸۰۔ شعر ۱)

    یہ دو ر تو موافق ہوتا نہیں مگر اب
    رکھئے بنائے تازہ اس چرخ چنبری کی
    (غزل ۳۹۴۔ شعر۲)

    اوپر کے شعر میں انقلاب کا منظر آج کے زمانے کے مطابق سیاسی اور سماجی تبدیلی کے لئے استعمال نہیں ہواہے۔ اس کا مطلب صرف غلبہ اور انتشار کے دور کا خاتمہ ہے۔ یہ انداز اور رجحان دراصل عاشق اور معشوق کی دوئی کا پتہ دیتا ہے اور فرد اور سماج، انسان اور زمانے کے ٹکراؤ کو ظاہر کرتا ہے۔

    میر کی شاعری میں دو اور محبوب جھلکتے ہیں اور یہ دونوں ایک دوسرے سے قریب ہیں۔ ایک تو میر کا ذاتی محبوب معلوم ہوتا ہے اس کا نام انہوں نے کچھ نہیں لیا اور کبھی کبھی وہ ان اشعار میں جلوہ گر ہوتا ہے جن میں بظاہر محبوب کا کوئی ذکر بھی نہیں ہے۔ یا تو محبوب کی آمد ہے، یا رخصت ہے۔ عاشق کا اس کی گلی سے نکلنا ہے یا اس کی محفل میں پہنچنا ہے۔ ان شعروں میں وہ کیفیت ہے جو عظیم عشقیہ شاعری کی جان ہے۔ ایک مہذب درد، ایک لذت سے بھری ہوئی کسک اور دل کی ایک ایسی دھڑکن جو لفظوں میں منتقل ہو جاتی ہے۔

    رات مجلس میں تری ہم بھی کھڑے تھے چپکے
    جیسے تصویر لگا دے کوئی دیوار کے ساتھ
    (غزل ۳۵۸ شعر۱)

    وے تو کھڑے کھڑے مرے گھر آکے پھر گئے
    میں بے دیار وبے دل و بے خانماں ہوا
    (غزل ۱۵۱۔ شعر۲)

    ترے فراق میں جیسے خیال مفلس کا
    گئی ہے فکر پریشاں کہاں کہاں میری
    (غزل ۳۹۸شعر ۴)

    کچھ گل سے ہیں شگفتہ کچھ سرو سے ہیں قدکش
    اس کے خیال میں ہم دیکھیں ہیں خواب کیا کیا
    (غزل ۹۴)

    جیسے حسرت لئے جاتا ہے جہاں سے کوئی
    آہ یوں کوچہ دلبر سے سفر ہم نے کیا
    (غزل۰۳ ۱شعر۳)

    پھر کچھ نہ دیکھا بجز اک شعلہ پر پیچ و تاب
    شمع تک تو ہم نے دیکھا تھا کہ پروانہ گیا
    (غزل۵۸ شعر۱)


    گل ہو، مہتاب ہو، آئینہ ہو، خورشید ہو میر
    اپنا محبوب وہی ہے جو ادا رکھتا ہو
    (غزل ۳۲۶)

    پھول گل، شمس و قمر سارے ہی تھے
    پر ہمیں ان میں تمہیں بھائے بہت
    (غزل۱۶۸شعر ۱)

    چلا نہ اٹھ کے وہیں چپکے چپکے پھر تو میر
    ابھی تو اس کی گلی سے پکار لایا ہوں
    (غزل۲۵۲)

    نہیں ہے چاہ بھلی اتنی بھی دعا کر میر
    کہ اب جو دیکھوں اسے میں بہت نہ پیار آوے

    اس محبوب کے سامنے میر نہ بے دماغ ہیں نہ سرکش۔ صرف معصومیت، عاجزی، مسکینی اور ایک مہذب نیاز مندی ہے۔

    ہم فقیروں سے بے ادائی کیا
    آن بیٹھے جو تم نے پیار کیا

    (غزل ۴۷۔ شعر۴)

    دور بیٹھا غبار میر اس سے
    عشق بن یہ ادب نہیں آتا

    اس محبوب کا سراپا فطرت سے ہم آہنگ ہے۔ اس کے جسم کی ترکیب برگ گل سے ہے۔ اس کا منہ کھلنے سے چاندنی چھٹکتی ہے۔ کلیوں نے کم کم کھلنا اس کی نیم باز آنکھوں سے سیکھا ہے۔ گل کی شاخوں نے اس کے قامت سے انگڑائیاں لینے کا انداز اختیار کیا ہے اور اس سے ہم آغوشی زمین وآسمان کو بوس وکنار میں غرق کر دیتی ہے۔ یہ فطرت کا اتنا نکھرا ہوا روپ ہے کہ اس کے سامنے پھول کے منہ سے باس آنے لگتی ہے اور سرو بھونڈا اور بھدا دکھائی دینے لگتا ہے۔ اس کی پاکیزگی اور لطافت کا یہ عالم ہے کہ بدن ہاتھ لگتے میلا ہوتا ہے۔ یہ فطرت کا کنایہ ہے اور اس سے ہم آغوشی فطرت سے ہم آہنگ ہونے کی خواہش ہے جو صوفیانہ طرز فکر میں، جس کے وارث اردو کے تمام کلاسیکی شعرا ہیں، نہایت اہم درجہ رکھتی ہے۔

    فطرت سے ہم آہنگی کے جذبے نے کبھی کبھی موت کی خواہش کی شکل بھی اختیار کی ہے۔ یہ بڑی حسین صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔ زندگی کے اختصار کو میر نے بار بار بوئے گل اور نوائے بلبل سے تشبیہ دی ہے۔ اس کا ثبات کلی کے تبسم کے برابر ہے۔ دنیا کسی شوخ کی قدم گاہ ہے۔ جس میں گل کے چراغوں سے روشنی ہورہی ہے (غزل ۴۱۷۔ شعر۴) اس سے منہ پھیر کے چلے جانے کو کس کا جی چاہےگا۔ (غزل ۴۱۷۔ شعر۵) پھر بھی فطرت سے ہم آہنگی کی خواہش ہے جس کی تکمیل صرف موت کے ذریعے ہو سکتی ہے۔

    رنگِ گل وبوئے گل ہوتے ہیں ہوا دونوں
    کیا قافلہ جاتاہے، جو تو بھی چلا چاہے
    (غزل ۴۸۶۔ شعر۲)

    برنگ بوئے گل اس باغ سے ہم آشنا ہوتے
    کہ ہمراہ صبا ٹک سیر کرتے اور ہوا ہوتے
    (غزل ۴۱۶۔ شعر۱)

    آہ کی میں دل حیران و خفا کو سونپا
    میں نے یہ غنچہ تصویر صبا کو سونپا
    (غزل ۸۷۔ شعر۱)

    صوفیانہ طرزفکر میں موت کے دو اور پہلو بھی ہیں اور وہ بھی میر کے یہاں نمایاں ہیں۔ معشوق حقیقی سے وصال یا فطرت سے ہم آہنگی جو رنگ و بوئے گل اور بادصبا کے ہم سفر ہونے کے برابر ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ موت ایک فطری عمل بھی ہے اور اس کی اس فطری خصوصیت سے ظالموں اور امیروں کو عبرت دلائی گئی ہے۔

    منعم نے بنا ظلم کی رکھ گھر تو بنایا
    پر آپ کوئی رات ہی مہمان رہےگا
    (غزل ۱۰۔ شعر۱)

    بے زری کا نہ کر گلہ غافل
    رہ تسلی کہ یوں مقدر تھا

    اتنے منعم جہان میں گزرے
    وقت رحلت کے کس کنے زر تھا

    صاحب جاہ وشوکت و اقبال
    اک ازاں جملہ اب سکندر تھا

    تھی یہ سب کائنات زیر نگیں
    ساتھ مور و ملخ سا لشکر تھا

    لعل و یاقوت ہم زر و گوہر
    چاہیے جس قدر میسر تھا

    آخرِکار جب جہاں سے گیا
    ہاتھ خالی کفن سے باہر تھا
    (غزل ۷۳۔ شعر۴۔ ۹)

    کل پاؤں ایک کاسہ سر پر جو آ گیا
    یکسر وہ استخوان شکستوں سے چور تھا
    کہنے لگا کہ دیکھ کے چل راہ بے خبر
    میں بھی کبھو کسو کا سرِ پر غور تھا
    (غزل ۳۔ شعر۵۔ ۶)

    یہ وہ منزل ہے جہاں پہنچ کر امیر اور غریب برابر ہو جاتے ہیں۔ چونکہ اس عہد میں معاشی مسائل اور طریق پیداوار اتنے ترقی یافتہ نہ تھے کہ مساوات کا تصور زندگی میں ممکن ہوتا۔ اس لئے موت اس خواہش کی تکمیل کرتی تھی۔ یہ تصور بھگتی کی کویتا اور مسٹک (MYSTIC) شاعری میں بھی عام ہے۔ چیکوسلواکیہ میں ایک مقام تابور ہے۔ اس کے میوزیم میں قرون وسطی کی عیسائی صوفی تحریک مسٹی سزم (MYSTICISM) کے ایک رہنما جان ہس (JANHNUSS) کی یادگار یں محفوظ ہیں اور اس دور کے بعض شعرا کی نظمیں بھی رکھی ہوئی ہیں۔ ایک شاعر کی نظم میں یہ شعر پڑھ کر کہ ’’موت عصائے شاہی اورکسان کے ہل کو ایک ہی قبر میں سلا دیتی ہے‘‘ مجھے بے ساختہ میر کا شعر یاد آ گیا، 

    سب ہیں یکساں جب فنا اک بارگی طاری ہوئی
    ٹھیکرا اس مرتبے میں کیا سرفغفور کا
    (دیوان دوم)

    اس سے ملتا جلتا موت کا یہ پہلو بھی ہے کہ وہ دکھ درد کوختم کر دیتی ہے جس کا خاتمہ زندگی میں ممکن نہیں۔ اس لئے یہ سکون وآرام کی تلاش ہے، 

    کیا سیر اس خرابے کا بہت اب چل کے سو رہیے
    کسو دیوا ر کے سائے میں منہ پر لے کے داماں کو
    (غزل ۳۱۹۔ شعر ۳)

    فکر معاش یعنی غم زیست تابہ کے
    مر جائیے کہیں کہ ٹک آرام پائیے
    (غزل ۴۶۱۔ شعر۴)

    پھر نہ آئے جو ہوئے خاک میں جا آسودہ
    غالباً زیر زمیں میر ہے آرام بہت
    (غزل ۱۶۰)

    میرکے یہاں بہت سے اشعار میں یہ احساس بھی ملتا ہے کہ موت حرکت اور تبدیلی کا نام ہے۔

    چشم ہو تو آئینہ خانہ ہے دہر
    منہ نظر آتاہے دیواروں کے بیچ

    ہیں عناصر کی یہ صورت بازیاں
    شعبدے کیا کیا ہیں ان چاروں کے بیچ
    (غزل ۱۷۴)

    ہر جز رومد سے دست وبغل اٹھتے ہیں خروش
    کس کاہے راز بحر میں یارب کہ ہیں یہ جوش

    ابروئے کج ہے موج کوئی چشم ہے حباب
    موتی کسی کی بات ہے سیپی کسی کا گوش
    (دیوان اول)

    یاں بلبل اور گل پہ توعبرت سے آنکھ کھول
    گل گشت سرسری نہیں اس گلستان کا
    گل یادگارِ چہرہ خوباں ہے بے خبر
    مرغ ِچمن نشاں ہے کسو خوش زبان کا
    (غزل ۸۴)

    چراغانِ گل سے ہے یاں روشنی
    گلستاں کسو کی قدم گاہ ہے
    (غزل ۴۱۷۔ شعر۴)

    گل وسنبل ہیں نیرنگ قضا، مت سرسری گزرے
    کہ بگڑے زلف و رخ کیا کیا بناتے اس گلستاں کو
    (دیوان اول)

    خاک آدم ہی ہے تمام زمیں
    پاؤں کو ہم سنبھال رکھتے ہیں
    (غزل ۲۵۵)

    تھے ماہ وشاں کل جو، ان کوٹھوں پہ جلوے میں
    ہے خاک سے آج ان کی ہر صحن میں مہتابی
    (غزل ۳۷۹۔ شعر۱)

    اس میں یہ تصور شامل ہے کہ حقیقت ایک ہے، تصویریں بہت سی ہیں۔

    جلوہ ہے اسی کا سب گلشن میں زمانے کے
    گل پھول کو ہے ان نے، پردہ سا بنا رکھا
    (غزل ۸۹)

    گہہ گل ہے گاہ رنگ گہے باغ کی ہے بو
    آتا نہیں نظر وہ طرح دار، ایک طرح
    نیرنگ حسنِ دوست سے کر آنکھیں آشنا
    ممکن نہیں وگرنہ ہو دیدار ایک طرح
    (دیوان اول)

    جاکے پوچھا جو میں یہ کار گہ مینا میں
    دل کی صورت کا بھی اے شیشہ گراں ہے شیشہ
    کہنے لا گے کہ کہاں پھرتا ہے بہکا اے مست
    ہر طرح کا، جو تو دیکھے ہے کہ یاں ہے شیشہ

    دل ہی سارے تھے یہ اک وقت میں جو کرکے گداز
    شکل شیشے کی بنائی ہے کہاں ہے شیشہ
    (غزل ۳۵۵)

    اور اس تبدیلی کی وجہ سے فطرت کا حسن ہمیشہ تازہ اور جوان رہتا ہے، 

    کیا خوبی اس چمن کی موقوف ہے کسو پر
    گل گر گئے عدم کو مکھڑے نظیر آئے
    (غزل ۴۱۱۰۔ شعر ۲)

    پھول چہروں میں بدل جاتے ہیں، چہرے پھولوں میں، خاک سے آدمی بنتا ہے اور آدمی خاک ہو جاتا ہے۔ اس طرح موت اور زندگی ایک سلسلے کی کڑیاں بن جاتی ہیں اور ساری کائنات ایک وحدت میں تبدیل ہو جاتی ہے اور میر کی شاعری کے تمام بکھرے ہوئے جلوے ایک صد رنگ گلستاں کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ اس میں پھول بھی ہیں اور کانٹے بھی، بلبل بھی اور صیاد بھی، نشیمن بھی ہے اور بجلی بھی، زندہ رہنے کی امنگ بھی ہے اور مر جانے کا حوصلہ بھی اور یہی وجہ ہے کہ یہ شاعری آج بھی عظیم ہے اور زمانے کے بدل جانے کے بعدبھی دو سو برس پرانی زبان میں ہمارے جذبات اور احساسات کا ساتھ دے رہی ہے۔

    مأخذ:

    پیغمبران سخن (Pg. 46)

    • مصنف: علی سردار جعفری
      • ناشر: ایڈ شاٹ پبلی کیشنز، ممبئی
      • سن اشاعت: 1987

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے