Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

میراجی کی شخصیت کے بعض زاویے

قیوم نظر

میراجی کی شخصیت کے بعض زاویے

قیوم نظر

MORE BYقیوم نظر

    میراجیؔ کو بمبئی کے کسی گمنام سے قبرستان میں دفن ہوئے آج دس برس ہوتے ہیں۔ اس عرصے میں جب کہ ان کے دیکھنے، ملنے اور جاننے والے آج بھی پاکستان اور ہندوستان کے اکثر مقامات پر سینکڑوں کی تعداد میں موجود ہیں، ان کی شخصیت اور کردار کے گرد مختلف قسم کی بے سروپا حکایتوں اور روایتوں کے جال بنے جانا، کس قدر تکلیف دہ امر ہے۔ میراجیؔ کبھی کبھار بعض عجیب و غریب باتوں کو اپنے ہاں راہ دے کر، ظاہر بیں نگاہوں کو ضرور چونکا دیا کرتے تھے لیکن ان کی زندگی میں حقیقت پرستی کو اگر ذراانوکھے طریق سے بار حاصل تھا تو ان کے بعض قریبی دوستوں کے لیے اس کا تجزیہ کرلینا کوئی زیادہ مشکل نہ تھا، اس لیے اگر آج ان کی ذات سے نت نئے قصے متعلق ہوجاتے ہیں تو یہ ان کی عظمت کی دلیل کے ساتھ ساتھ ان کے ہم نشینوں کی سہل انگاری کی غمازی بھی کرتے ہیں۔

    میراجیؔ نے اپنی زندگی میں ہمیشہ حقیقت کو افسانے پر ترجیح دی ہے لیکن انہوں نے حقیقت کی تلخی کو کم کرنے کے لیے اپنی زندگی میں سے رنگینی و رعنائی نکال کر حقیقت سے متعلق کردی۔ یہ کام از بسکہ بہت دشوار تھا مگر میراجیؔ نے اس کو سرانجام دینے کی امکانی کوشش کی۔ نتیجے کے طور پر ان کی زندگی سے وابستہ حقیقت تو دلچسپ اور دلفریب بن گئی مگر خود ان کی اپنی زندگی ان چیزوں سے خالی ہوگئی۔ اب اس خلا کو پر کرنے کے لیے انہوں نے بعض ایسے ذرائع اختیار کرنا چاہے جو بعض تعقل پرستوں کے نزدیک غیرمستحسن شمار ہوئے۔ یہ مقام بہت نازک تھا، اور اگر اسے مبالغہ نہ خیال کیا جائے تو شاید ہی کوئی ایسا ہوش مند نظر آئے گاجس نے یہاں لغزش نہ کھائی ہو۔ اس لیے عمومی حالات میں یہیں سے ان کے جیتے جی بھی ان کی زندگی سے اس گندگی کو وابستہ کیا جانے لگا، جس سے انہیں ازلی اور فطری نفرت تھی اور جس سے دور رہنے کے لیے انہوں نے ’’درد کاحد سے گزرنا ہے دواہوجانا‘‘ سے ہمکنار ہوتے ہوئے اتنی قربت اختیار کرلی تھی کہ دنیا کوآج بھی ان دونوں کو الگ الگ دیکھنا مشکل نظر آتا ہے۔

    میراجیؔ کے ہاں جنس کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ ویسے تو اس کائنات کی ہر شے میں اس کاپایا جانا کوئی نئی بات نہیں لیکن میراجیؔ نے اپنے آپ کو اس سے ذرا زیادہ ہی وابستہ کرلیا تھا۔ اور پھر اس جذبے کی بالیدگی کے ساتھ ساتھ ان کی زندگی سے ہم آہنگ ہونے والے نشیب وفراز نے انہیں مختلف ذہنی کیفیتوں سے آشنا کیا تھا، جو بڑھتے بڑھتے اَن گنت ذہنی الجھنوں کا روپ دھار چکی تھیں۔ یہی وہ روپ ہیں جن کی بنیاد پر سطح پرست اور کوتاہ بیں زمانہ ان کی شخصیت اور کردار سے متعلق نت نئے گھروندے تیار کیے جاتاہے۔

    میراجیؔ نسلاًآریائی تھے، پھر کشمیری پنڈت اور پھر پیدائشی مسلمان ہونا ایک حادثہ ہی تھا۔ ورنہ وہ ذہنی طور پر آریائی معاشرت میں زیادہ دلچسپی لیتے اور زیادہ مطمئن نظر آتے تھے۔ بظاہر فطرت میں خوب شناسی اور خوب جوئی ان کانسلی امتیاز تھا اور شاید اسی لیے حسن کی سادگی اور اس کااچھوتا پن ان کے لیے ہمیشہ ہی کشش کاباعث بنا رہا۔ سادگی کے ہمراہ صفائی اور اجلاپن انہیں بہت بھاتا تھااور وہ ہر شے میں کسی نہ کسی طرح اس کا سلسلہ ڈھونڈ ہی لیا کرتے تھے۔ ان کے نزدیک عورت بھی اسی سلسلے کی ایک اہم کڑی تھی۔ اس لیے ان ایسے حسن پرست کے لیے حسن کا یہ بے نظیر مظہر زندگی بھر مرکزی کشش کاباعث بنا رہا۔

    میراجیؔ کی زندگی میں یکے بعد دیگرے کئی عورتیں داخل ہوئیں لیکن ان میں اہم ترین وہی پہلی عورت تھی جو سادگی اور صفائی کی جان تھی اور جس کے ظاہر و باطن کے اجلے پن کاطوفان میراجیؔ کی جذباتی زندگی کو اپنے ساتھ خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے گیا تھا۔ یہ میرا سین لاہور کے مشن کالج میں تعلیم حاصل کرنے والی ایک بنگالی لڑکی تھی جس کاحسن ملیح میراجیؔ کو عشق کی ایسی جاں گداز گھاٹیوں میں چھوڑ گیا تھا، جہاں بالآخر ان کی روح کو بھی ان کے جسم سے علیحدگی اختیار کرنا پڑی، اور وہ اس کے تصور کی جلائی ہوئی شمع کی روشنی میں جاں بحق ہوئے۔

    میراجیؔ کی زندگی ان کے اسی عشق کی محرومیوں کا ایک طویل نوحہ تھی۔ اس زہرہ گدازمنزل کو جاتے ہوئے کہیں کہیں ایسے مقامات بھی آجاتے رہے جہاں ان کی جاں سوزی بظاہر کسی قدر کم محسوس ہونے لگتی مگر اس کے باوجود ان کی حیثیت ایک لق و دق صحرا میں ایسے سرابوں کی سی رہی جو ایک آزمودہ کار قافلہ سالارکو بھی مسرت آمیز لیکن موہوم سے تسلی ضرور دے جاتے ہیں۔ یہ سراب وہ دوسری عورتیں ہیں جن میں میراجیؔ نے ایک حقیقت پرست انسان کی طرح اپنے درد کاعارضی سا درماں تلاش کرنا چاہا، اس لیے نہیں کہ وہ اس میں گم ہوجانا چاہتے تھے بلکہ اس لیے کہ اس کے بغیر اورکوئی چارہ کار ہی نہ تھا۔

    چنانچہ یہ دوسری عورتیں کہیں ان کے اعصابی تناؤ کو دور کرنے کی غرض سے داخل ہوئیں اور کہیں ان کی وقتی اور ذہنی آسودگی کے لیے۔ اب ان میں کہیں لاہور کے بازارِ حسن کی کوئی جلوہ فروش تھی، کوئی دلّی کے کسی معزز مگر کسی قدر آزاد گھرانے کی زینت اورکہیں بمبئی ایسے اشرف البلاد شہر کی کوئی خوش ذوق داشتہ۔ لیکن داشتہ میراجیؔ کی نہیں بلکہ کسی اور ذی حیثیت لذّت کوش کی۔

    مختلف عورتوں کاشوشہ چھیڑتے ہوئے میراجیؔ کی اس افتاد کی بناپر ان کی طبیعت میں ہرجائی پن کو تلاش کرنا بیکار اور ایک حدتک بے معنی ہے۔کیونکہ اپنے موضوع سے مکمل ہم آہنگی، اپنے مقصد سے حتمی دل بستگی اور اپنی دنیا سے اٹل لگاؤ ان کی فطرت کاشعار تھا، اور اس امر کے پیش نظر کہ ان کا موضوع حسن، ان کا مقصد اس کاارتفاع اور ان کی دنیا انہی کا دلربا امتزاج تھا۔ ان کے بارے میں بہت سی پیدا شدہ الجھنیں دور ہوسکتی ہیں۔

    دراصل میراجیؔ کی زندگی میں ایک اور صرف ایک عورت کو بار حاصل ہوا۔ یہ عورت ان کی پہلی اور آخری محبوبہ تھی، مگر یہی عورت ان کی دسترس سے باہر بھی تھی۔ یہ غم میراجیؔ کے دل پر عمر بھر ناسور بن کر مسلط رہااوروہ اسی کے اندمال کی خاطر بیشتر شراب اور کبھی کبھار میراسین کا بہروپ بھرے ہوئے کسی دوسری عورت سے ایک بہت ہی قلیل عرصے کے لیے منسوب ہوتے رہے۔ لیکن ناکامی کی تلخی کو کم کرنے والے ان مختصر وقفوں میں وہ کبھی اپنے درد کی نوعیت کو چھپانے کاخیال تک بھی اپنے ذہن میں نہ لاتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی بے نوا آشفتگی کو دھیان میں لاتے ہوئے کوئی عورت بھی ان سے دنیاوی طور پر وابستہ ہونے کے لیے رضامند نہ ہوئی، جس سے ان کی محرومی سے پیدا شدہ تلخی میں ہمیشہ اضافہ ہی ہوتارہا۔

    عشق میں ناکامی نے میراجیؔ پر محرومیوں کے اَن گنت دروازے کھول دیے تھے، اور پھر جب مال و زر کے بندوں اور ہوس پرستوں نے بھی ان کے ساتھ بیشتر ایسا ہی سلوک روا رکھا تو ان کے ذہن نے ویدانت اور فرائڈ کی دنیا کو یکجاکرناچاہا۔ کیونکہ اسی میں ان کو اپنے اب وجد سے وابستگی کے باوجود اپنی انفرادیت کوقائم رکھنے کی صورت نظر آتی تھی۔ اس سلسلے میں انہوں نے اپنی ذات پر کیا کیا ظلم نہ ڈھائے ہوں گے اور کس کس طرح اپنے نفس کو نہ مارا ہوگا۔ اس کااندازہ ان کی زندگی میں ہر لحظہ بڑھتے ہوئے تشائم پرستانہ رجحان سے کیاجاسکتا تھا جو ان کے ہاں آخر دم تک قائم رہا۔

    میراجیؔ کی زندگی میں مسرت و شادمانی اور تسکین و آسودگی کو بہت کم حصہ ملاتھا۔ لیکن اس ’’کم‘‘ کو بھی انہو ں نے اپنے ملنے والوں کے نذر کردیا تھا اور یہ کام اس صناعی، خوبصورتی اور رکھ رکھاؤ سے کیا تھا کہ لینے والے کو تو کُجا خود دینے والے کو بھی یہ محسوس ہوا تھا کہ کس طرح اس نے اپنی رگِ حیات سے خون کے وہ قطرے بھی نکال کر دے دیے تھے جو کبھی اس کی زندگی کاسرمایہ بن سکتے تھے۔ اب یہ ان کے ملنے والوں کا کمال تھا کہ انہوں نے جب بھی اتفاق ہوا، میراجیؔ سے پائے ہوئے خوشی کے چند لمحوں کے عوض ان کو اپنا غم بے پایا ں ہی لوٹانا پسند کیا جس کو میراجیؔ نے پھر خندہ پیشانی کے ساتھ اپنا ہی درد سمجھ کر اپنے سینے سے چمٹا لیا۔

    اپنی جوانی کے آغاز میں میراجیؔ نے میراسین سے ایک راز کی بات کہی تھی جو بظاہر سادہ و صاف تھی۔ میراسین اس کو سمجھ نہ سکی۔ وہ ایک لمحہ جس میں میراجیؔ نے حالِ دل کہنا چاہا اورمیراسین نے اس کی طرف متوجہ ہونا ضروری خیال نہ کیا، میراجیؔ کے لیے موت بن گیا۔ پھر جوں جوں وقت گزرتاگیا، وہی ایک لمحہ اپنی تمام ستم آرائیوں کے ساتھ میراجیؔ کی زندگی پر حاوی ہوتا چلاگیا اور پھر بڑھتے بڑھتے وہی ایک لمحہ میراجیؔ کی تمام زندگی بن گیا۔ میراجیؔ کی طبیعت کی کم آمیزی میں اس لمحے کو بھی عمل دخل تھا۔ ان کے جاننے والوں کی تعداد سینکڑوں سے ہزاروں تک پہنچتی تھی مگر آج بلکہ ان کی زندگی میں بھی بہت کم لوگ ایسے تھے جن سے وہ اپنے دل کی بات کہتے تھے۔ انہیں دل کی بات کہتے ہوئے بڑاتلخ تجربہ ہواتھا۔ یہ تلخی ان کی رگ و پے میں جاری و ساری تھی اور ہوتے ہوتے یہ شے ان کی طبیعت میں داخل ہوگئی تھی کہ وہ اپنے دل کی بات، جو دکھ درد تک ہی محدود ہوگئی تھی، کسی سے کہنا بھی نہ چاہتے تھے۔ دراصل میراجیؔ دوسروں کادرد تو بانٹ سکتے تھے لیکن اپنے درد میں دوسروں کی شرکت کوشاید جائز ہی تصور نہ کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آج دس برس گزرنے کے باوجود بہت ہی کم لوگ ان کی راکھ میں کسی ایسی چنگاری کو دیکھ سکتے ہیں جو فی الحقیقت کسی منجمدشعلے کا پتہ دیتی ہو۔

    مأخذ:

    Saqi Jild 63 No 1 (Pg. 165)

      • ناشر: شاہد احمد دہلوی
      • سن اشاعت: 1961

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے